کیا خداوند واقعی بادل پر سوار ہو کر واپس آئیں گے؟
ہم ایک کے بعد ایک، آفت دیکھ رہے ہیں اور عالمگیروبائیں کرہ ارض کو لپیٹ رہی ہیں۔ ایمان والے بے چینی سے خداوند کا انتظار کرتے رہے ہیں کہ وہ بادل پر سوار ہوکر کر آئے اور انہیں تباہیوں سے بچانے کے لیے اٹھا کر آسمانی بادشاہی میں لے جانے کے لیے۔ یہ سب اپنے خداوند کو بادل کے اوپر سوار دیکھنے کے منتظر اۤسمان کی جانب کی تکتے ہوئے دُعا کرتے اور کسی اور طرف نہیں دیکھتے کہ مباداخداوندآئیں اور وہ ان کو دیکھ نہ پائیں اور کسی آفت میں پھنس جائیں۔ مگر یہ ان کے لیے بہت ہی تباہ کن ہے کہ آفات تو آ گئی ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے خداوند یسوع کو آسمان سے نیچے خوش آمدیدنہیں کہا۔ بہت سے تو اب پریشان ہیں کہ کیا خداوند یسوع واقعی آ بھی رہے ہیں یا نہیں۔ کچھ لوگ تو اس بات سے بے چین ہیں کہ شایدخداوند نے انہیں فراموش کرکے آفات کے سپرد کر دیا ہے۔ بے یارومددگاری میں کچھ پادری تو اپنی کہانی تبدیل کر تے ہیں کہ خداوند یا تو آفت کے بیچ یا پھر آفت کے بعد آئیں گے۔ کچھ تو یہاں تک دعویٰ کرنے کی جرات کر رہے ہیں کہ خداوند سنہ 2028 یا پھر سنہ 2030 میں آ رہے ہیں۔ کتاب مقدس کی اس قسم کی تشریحات ایمان والوں کو آفات میں بھیج سکتی ہیں لیکن اس یقین کے ساتھ کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ پر چا ہے ان کا یقین کب سے ہے اور کتنی محنت کی ہے انھوں نے خداوند کو ابھی تک خو ش اۤمدید نہیں کہا ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ یہ ان کے لیے کس قد ر مشکل ہوسکتا ہے۔ اہل ایمان جانتے ہیں کہ انجیل مقدس کیاکہتی ہے، یہ کہ کسی آفت کا سامنا روتے اور دانت پیستے ہوئے کرنا باعث شرمندگی ہے۔ نیر آپ کے عقیدےکی کامیابی یاناکامی کا دارومدار آفت سے پہلے خداوند کو خوش آمدید کہنے میں ہے۔ تو پھر ایساکیوں ہے کہ مذہبی دنیا کے لوگوں نے خداوند کو خوش آمدید نہیں کہا لیکن وہ آفات میں داخل ہو گئے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خداوند ناقابل اعتماد ہو گئے ہیں، اور اسی لیے وہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مذہبی دنیا کے خداوند کو خوش آمدید نہ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آئے نہیں ہیں۔ بلکہ درحقیقت، وہ بہت عرصہ پہلے جسم میں ظاہر ہو چکے ہیں اور ابن آدم کے طور اپنا کام کر رہے ہیں۔ تمام فرقوں کے بہت سے لوگوں نے خدا کی آواز سنی ہے اور خداوند کو خوش آمدید کہا ہے۔ پر ایسےمذہبی لوگ جو اس بات پر مصر ہیں کہ وہ بادل پر سوار ہو کر اۤئیں گے ان کا ابھی خداوند کو خوش آمدید کہنا باقی ہے۔ 1991 میں مشرقی آسمانی بجلی نے قادر مطلق خدا کے ظہور اور کام کی شہادت دینا شروع کی۔ ان کی یہ شہادت پچھلے تین عشروں پر محیط ہے۔ قادر مطلق خدا نے لاکھوں الفاظ میں اظہار کیا ہے اور تمام فرقوں کےسچ سے محبت کرنے والے لوگوں نے اس کا کلام پڑھا ہے اور انہوں نے اسے بطور خالص سچائی تسلیم کیا، انہیں ادراک ہوا کہ وہ خدا کی آواز سن رہے ہیں اور وہ خدا کے روبرو آئے کہ خداوند کو خوش آمدید کہہ سکیں۔ قدر مطلق خدا کی بیان کردہ سچائیاں بہت عرصےسے آن لائن موجود ہیں، اور عظیم روشنی کی طرح مشرق سے مغرب تک جگمگارہی ہیں اور پوری دنیامیں روشنی پھیلارہی ہیں، جو خداوند یسوع کے کلام کی پوری تکمیل کرتا ہے: ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا“ (متّی 24: 27)۔ قادر مطلق خدا کے ظہور اور کام نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جبکہ مذہبی دنیاکی مسیح مخالف قوتیں خدا کے ظہور اور کام کو دیکھےبغیرہی مشرقی آسمانی بجلی کے بارے فیصلہ کر کے اُس کی مذمت کررہی ہیں۔ ان کی مخالفت بس اس بنا پر ہے کہ جو خداوند یسوع بادل پر بیٹھ کر نہیں آتے وہ جھوٹے ہیں، اورمجسم پیکر میں آنے والا خداوند جھوٹا مسیح ہوگا۔ ہم سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ مذہبی دنیا نے خداوند کو خوش آمدید نہیں کہا ہے، بلکہ تباہی میں پڑ گئے ہیں، بلکہ انہوں نے وہ پیشنگوئیاں نظر انداز کر دی جس میں خداوند کو خوش آمدید کرنے کا کہا گیا اور اپنے ذاتی تصورات کے پیچھے چل پڑے ہیں، من مانے ڈھنگ سے یہ فیصلہ کر لیاہے کہ خداوند کو بادلوں کے اوپر سوار ہو کر آنا چاہیے۔ یہ چاہتے ہیں کہ خداوند آئیں اور انہیں سیدھے آسمان پر لے جائیں اور انہیں خداوند کے کلام پر عمل بھی نہ کرنا پڑے۔ خداوند کو خوش آمدید کہنے جیسے اہم معاملے میں اتنی بڑی غلطی کرنے کا مطلب ان لوگوں کا حالت طرب حاصل کرنے سے محروم رہنا ہے، اور نیتجتاً کراہوں اور دانت پیستے ہوئے آفات میں گِھر جانا۔ اس طرح خدا کے الفاظ سچے ثابت ہوں گے کہ: ”میرے لوگ عدمِ معرفت سے ہلاک ہُوئے“ (ہوسِیعَ 4: 6)۔
یہ جاننے کے لیے کہ خداوند بادل پر سوار ہوکرآئیں گے یا مجسم ابن آدم کی صورت میں کام کرنے کے لیے ظاہر ہوں گے، سب سے پہلے ہمیں ایک لمبی سانس لے کر سنجیدگی سے خداوند یسوع کی اپنے نزول ثانی کے بارے میں پیشنگوئیوں پر غور کرناہے، اور ہو سکتا ہے ہم کچھ سنجیدہ آگہی سے ہم کنار ہوجائیں۔ آئیے کچھ آیات پر نظر ڈالتے ہیں۔ ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا“ (متّی 24: 27)۔ ”کیونکہ جَیسے بِجلی آسمان کی ایک طرف سے کَوند کر دُوسری طرف چمکتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ اپنے دِن میں ظاہِر ہو گا۔ لیکن پہلے ضرُور ہے کہ وہ بُہت دُکھ اُٹھائے اور اِس زمانہ کے لوگ اُسے رَدّ کریں“ (لُوقا 17: 24-25)۔ ”اِس لِئے تُم بھی تیّار رہو کیونکہ جِس گھڑی تُم کو گُمان بھی نہ ہو گا اِبنِ آدمؔ آ جائے گا“ (متّی 24: 44)۔ ”جَیسا نُوح کے دِنوں میں ہُؤا وَیسا ہی اِبنِ آدمؔ کے آنے کے وقت ہو گا“ (متّی 24: 37)۔ ”آدھی رات کو دُھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آ گیا! اُس کے اِستقبال کو نِکلو“ (متّی 25: 6)۔ ”اگر تُو جاگتا نہ رہے گا تو مَیں چور کی طرح آ جاؤں گا اور تُجھے ہرگِز معلُوم نہ ہو گا کہ کِس وقت تُجھ پر آ پڑُوں گا“ (مُکاشفہ 3: 3)۔ ”دیکھو مَیں چور کی طرح آتا ہُوں“ (مُکاشفہ 16: 15)۔ ”دیکھ مَیں دروازہ پر کھڑا ہُؤا کھٹکھٹاتا ہُوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ“ (مُکاشفہ 3: 20)۔ اگرہم ان پرسنجیدگی سےغورکریں توہم یہ دیکھ سکتےہیں کہ خداوندکی پیشنگوئیاں ہمیشہ تذکرہ کرتی ہیں ”اِبنِ آدمؔ“ کا ”ابنِ آدمؔ کا آنا،“ ”اِبنِ آدمؔ آ جائے گا،“ ”اِبنِ آدمؔ اپنے دِن میں۔“ ”جَیسا نُوح کے دِنوں میں ہُؤا وَیسا ہی اِبنِ آدمؔ کے آنے کے وقت ہو گا۔“ خداوند یسوع نے یہ ”ابنِ آدمؔ کا آنا“ بہت بار کہا اس لیےآخری دنوں میں اُنہیں خوش آمدید کہنا بہت اہم ہے۔ تو ”اِبنِ آدمؔ“ کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ بلا شک اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی روح بطور ابن آدم جسم میں ہی ظاہرہو گی۔ یہ صرف خدا کے مجسم صورت میں ظہور کے بارے میں ہے۔ خداوند نےبارہا یہ بھی کہا وہ ”چور کی طرح“ آئیں گے۔ تو اس ”چور کی طرح“ کا کیا مطلب ہوا اۤخر؟ اس کا مطلب ہے کہ خداوندخاموشی اور رازداری سے آئیں گے – جب لوگوں کو علم نہیں ہوگا، خدا ابن آدم کی صورت میں مجسم بن کر خفیہ طریقے سے کلام اور کا م کر نے کے لیے نازل ہو تا ہے۔ تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں آخری ایام میں خدا کا ظہور ابن آدم کے طور پر ہوگا اور یہ آفات سے پہلے تب ہوگا جب دنیا پر تاریکی کے بادل چھائے ہو ں۔ ”آدھی رات کو دُھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آ گیا! اُس کے اِستقبال کو نِکلو“ (متّی 25: 6)۔ مشرقی آسمانی بجلی 1991سے 2021 تک یعنی اب تک قادر مطلق خدا کی شاہد رہی ہے۔ اور ان 30 سالوں میں انہوں نےچائینیز کمیونسٹ پارٹی کے جبر، گرفتاریوں اور بہت سارے نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ حتی ٰکہ سی سی پی نے ملک گیر پراپیگنڈہ مُہم بھی چلائی، جس سے ”قادر مطلق خدا“ کا نام پوری دنیامیں پھیل گیا، جس کی شاہد مشرقی آسمانی بجلی ہے جس نے اسےایسا گھریلو نام بنادیا جس سے سب مانوس ہیں۔ یہ خداوند یسوع کی پیشنگوئی پوری کرتا ہے کہ: ”کیونکہ جَیسے بِجلی آسمان کی ایک طرف سے کَوند کر دُوسری طرف چمکتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ اپنے دِن میں ظاہِر ہو گا۔ لیکن پہلے ضرُور ہے کہ وہ بُہت دُکھ اُٹھائے اور اِس زمانہ کے لوگ اُسے رَدّ کریں“ (لُوقا 17: 24-25)۔ مشرقی آسمانی بجلی کےکئی سال تک خدا کی شاہد رہنے کےبعد ہر قبیل کے لوگ، جو سچ سے پیار کرتےہیں انہوں نے خدا کا کلام پڑھا اور اسے سچ مانا کہ یہی مقدس روح کی جانب سے کلیسئیاکے لیےپیغام ہے۔ انہوں نے خدا کی پکار سنی اور خوشی خوشی قادر مطلق خدا کو قبول کر لیا۔ وہ داناکنواریاں ہیں جنہیں اُٹھاکر خداکے حضو ر پیش کیا گیا اور وہ میمنےکی ضیافت سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے لوگ قادر مطلق خدا پر فیصلہ دیتے اور اسکی مذمت کر تے تھے۔ پھر انہوں نے اُس کا کلام پڑھا تو انہیں آخرکار خدا کی آواز سنائی دی اور وہ اُس کے روبروحاضر ہوئے۔ اس کے بعد انہیں خدا قادر مطلق سے سرکشی اور اُس کی مذمت کے پچھتاوے نے اۤ لیا۔ یہ دانا کنواریاں جو شادی میں میمنے کی ضیافت میں شریک ہو رہی ہیں، اس بات کی گواہ ہیں کہ آخری ایام میں قادر مطلق خدا کا ظہور بطور ابن آدم ہوا ہے۔ لیکن وہ نادان کنواریاں جو صحا ئف سے چمٹی ہیں، اور خداوند کے بادلوں پر سوار ہوکر واپس آنے کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں کرتیں، وہ بے وقوف ہیں اور آفات میں پڑی ہیں۔ یہ تو صرف خداوند کو عظیم آفات کے بعد بادلوں پر سوار ہوکر ظاہر ہونے کا انتظار کرسکتی ہیں۔ ان کے خداوند کو خوش آمدید نہ کہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ انجیل کی صر ف انسانی پیشنگوئیوں پر یقین رکھتی ہیں، نہ کے خداوند یسوع کی اپنی زبا نی کی گئی پیشنگوئیوں پہ۔ یہ صرف بادل پر سوار ہوکر آنے والے خداوند کوقبول کریں گے لیکن خدا کے مادی جسم میں ابن آدم کے طور پر آکر کام کرنے کی حقیقت رد کرتے ہیں۔ یہ لوگ شدید بھٹکے ہوئے اور بے وقوف ہیں! خداوند نے اپنی واپسی کے ذکر میں ”اِبنِ آدمؔ“ کا تذکرہ بارہا کیا لیکن بہت سے ”ذہین“ اور ” دانا“ پادریوں اور انجیل کے عالموں نے ابن آدم کے تصور کا ستیا ناس کرکے رکھ دیا ہے، اور اس طرح بھیانک غلطی کے مرتکب ہوئے۔ یہ خود اپنی ذہانت کے شکار ہو گئے ہیں! قادر مطلق خدا نے وافر سچائیاں ظاہر کی ہیں وہ پھربھی اسے بطور ابن آدم دیکھنے سے انکاری ہیں۔ کیایہ محض اندھا پن نہیں ہے؟ اگر وہ مجسم خدا نہ ہوتا تو وہ اتنے سارے سچ کیسے بیان کر سکتا تھا؟ وہ ابھی بھی اس نظریے سے چمٹے ہوئے ہیں کہ وہ بادل پر سوار ہوکر آنے والے ہی خداوند یسوع کو قبول کریں گے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ بے خود ہونے کا موقع کھو رہے ہیں، لیکن تباہی میں گر رہے ہیں۔ اور یہ ایک دائمی پچھتاوا ہوگا۔
ہم سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ خداوند مجسم ابن آدم کے پیکرمیں کام کر نے کے لیے واپس آ چکے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر پھر بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ، ”د یکھو وہ بادِلوں کے ساتھ آنے والا ہے“ جو وحی 1: 7 اۤیت میں ہے کیا اس کا مطلب نہیں کہ خداوند صرف بادلوں پر سوار ہوکر ہی آئیں گے۔ اورکیا ”وہ بادلوں کے ساتھ آئیں گے“ اور یہ کہ، ”وہ ابن آدم کے طور پر آئیں گے“ تضاد بیانی نہیں ہے۔ یہ بظاہرایسا لگتا ہے، مگردرحقیقت یہ کوئی تضاد نہیں ہے۔ صرف انسانوں کے لیے یہ سمجھنا ایک چیلنج ہے۔ انجیل میں شامل ہر پیشینگوئی بلا شبہ پوری ہو گی، لیکن اس کے لیے خاص عوامل اور مراحل ہیں۔ ابن آدم کے ظہور اور خداوند کے بادل پر آنے کے لیے بھی خاص ترتیب ہے۔ خداوند پہلے اوتار اپناتے ہیں اورکام کے لیے خفیہ طور پر آتے ہیں اور پھر سب کے سامنے بادل پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا دو مراحل میں کیوں ہوگا؟ اوریہ کہ اس سب کے دوران میں کیا ہو گا؟ اس میں بھی کچھ رازپوشیدہ ہیں۔ پہلے اس بارے خداوند یسوع کی پیشنگوئی دیکھتے ہیں۔ خداوند یسوع نے کہا، ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا“ (یُوحنّا 16: 12-13)۔ ”اُنہیں سچّائی کے وسِیلہ سے مُقدّس کر۔ تیرا کلام سچّائی ہے“ (یُوحنّا 17: 17)۔ ”اگر کوئی میری باتیں سُن کر اُن پر عمل نہ کرے تو مَیں اُس کو مُجرِم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دُنیا کو مُجرِم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہُوں۔ جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخِری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا“ (یُوحنّا 12: 47-48)۔ ”کیونکہ باپ کِسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کِیا ہے۔ ۔۔۔ بلکہ اُسے عدالت کرنے کا بھی اِختیار بخشا۔ اِس لِئے کہ وہ آدمؔ زاد ہے“ (یُوحنّا 5: 22 ،27)۔ اور ”کیونکہ وہ وقت آ پُہنچا ہے کہ خُدا کے گھر سے عدالت شرُوع ہو“ (۱-پطرؔس 4: 17)۔ خداوند یسوع کی پیشنگوئیاں مکمل طور پر پوری ہو گئی ہیں۔ ابن آدم خفیہ طور پر اس وقت آئے جب بنی نوع انسان کو سب سے کم توقع تھی اور بہت سی سچائیاں بیان کر کے آخری ایام میں انصاف کا کام کررہے ہیں۔ وہ سچائی کی روح ہیں جو خدا کے منتخب بندوں کی ہرسچائی کی جانب رہنمائی کر رہے ہیں اور آفات سے پہلے غالب آنے والے لوگوں کی تکمیل کر چکے ہیں۔ قادر مطلق خدا کی بادشاہی کی بشارت بھی دنیا کے ہر ملک میں پھیل چکی ہے۔ یعنی قادر مطلق خدا نے شیطان کو شکست دے دی ہے اور تمام عظمت حاصل کر لی ہے۔ اب جبکہ عظیم آفات کی ابتدا ہو چکی ہے تو خدا نے غالب آنے والوں کا ایک گروہ مکمل کر لیا ہے اور اس کا عظیم کام مکمل ہو رہا ہے۔ آفات کے بعد خدا سب لوگوں اور قوموں کے سامنے بادلوں پر ظاہر ہوگا اور۔ اس وقت ابن آدم کے ظہور اور خداوند کے بادلوں پر آنے کی پیشنگوئیاں مکمل طور پر پوری ہوںگی۔ چونکہ قادر مطلق خدا کا ظہور ہو چکا، اور اس نے انصاف کا عمل شروع کر دیا ہے، جنہوں نے قادر مطلق خدا کو قبول کیا وہ خدا کا کلام ہر روز کھا اور پی رہے ہیں، خدا کا انصاف اور تزکیہ قبول کرکے بتدریج گناہ اور شیطانی قوتوں سے خلاصی حاصل کر رہے ہیں۔ خدا نے انہیں آفات سے پہلے غالب کر دیا ہے اور وہ اس کے اولین ثمرات ہیں۔ اس سے وحی کی پیشنگوئیاں پوری ہوتی ہیں: ”دیکھ مَیں دروازہ پر کھڑا ہُؤا کھٹکھٹاتا ہُوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ“ (مُکاشفہ 3: 20)۔ ”یہ خُدا اور برّہ کے لِئے پہلے پَھل ہونے کے واسطے آدمِیوں میں سے خرِید لِئے گئے ہیں“ (مُکاشفہ 14: 4)۔ قادر مطلق خدا کو آخری ایام میں آ کرانصاف کا کام کرتے ہوئے پورے تین عشرے ہو چکے ہیں۔ اس نے بہت سی سچائیاں ظاہر کی ہیں، اس نے ہم پرانجیل کے بہت سے اسرار اور خدا کے 6000 سال کے انتظامی منصوبے کے بہت سے راز افشا کیے ہیں۔ اس نے انصاف اور آدمی کا خراب جوہر افشا کرنے کے لیے بہت کچھ کہا ہے، اور یہ الفاظ سچا راستہ ہیں جو ہمیں گناہوں اور شیطانی قوتوں سے چھٹکارا دلا کرمحفوظ ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ خدا کے منتخب بندوں کوانصاف، تنبیہ، سرزنش، کانٹ چھانٹ، امتحان سے گزارا، اور تزکیہ کیا جاتا ہے، وہ واضح طور پر اپنی خرابیاں دیکھ پاتے ہیں، کہیں چھپنے کی جگہ نہ پا کر شرمندگی محسوس کرتے ہیں، اور پچھتاتے ہے، شرمندگی میں خدا کے سامنے جھکتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ خدا کا راست بازمزاج کوئی توہین برداشت نہیں کرے گا تو خدا کے لیے احترام پیدا کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ خدا سے ڈرنے لگتے ہیں اور باطل کو ترک کرتے ہوئے حقیقی توبہ کرتے اور بدلتے ہیں۔ قادر مطلق خدا نے آفات سے پہلے غالب آنے والوں کا ایک گروہ تیار کر لیا ہے اور اولین ثمرات حاصل ہو گئے ہیں۔ ان غالب آنے والوں کی شہادتوں کو ویڈیوز اور موویز کی شکل دے دی گئی ہے جو آن لائن موجود ہیں اور جو بھی انہیں دیکھ لے، اسے ہر طرح سے قائل کرنے والی ہیں۔ اس سے واضح نہیں ہوسکتا کہ یہی آخری ایام میں خدا کا ظہور اور کام ہے! قادر مطلق خدا نے اتنی سچائیوں کا اظہار کیا ہے اور اتنا عظیم کام کیا ہے جس سے نہ صرف یہ دنیا بلکہ پوری کائنات ہل گئی ہے۔ قادر مطلق نے پرانے دور کا خاتمہ اور نئے دور کا آغاز کرکے دنیا بدل کے رکھ دی ہے۔ بادشاہی کے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قادر مطلق خدا ابن آدم کا ظہور ہے، خداوند یسوع واپس آ گئے ہیں۔ ہمارے نجات دہندہ واپس آ گئے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ خدا کے گھر سے شروع ہونے والا انصاف کا عمل زیادہ تر پورا ہو چکا ہے اور اسی کے ساتھ آفات آپڑی ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آفات پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں اور اب ان میں مزید تیزی آئے گی۔ تمام بری طاقتیں جو خدا سے سرکشی کرتی ہیں انہیں سزا دی جائے گی اور آفات انہیں تباہ کردیں گی، اورجو خدا کے انصآف اور آخری ایام کی سرزنش سے گزر چکے ہیں انہیں خدا پوری طرح سے ان آفات سے محفوظ رکھے گا۔ اورجب یہ آفات ختم ہوں گی تو شیطان کی یہ برائیوں سے بھری دنیا ختم ہو جائے گی اور پھر خدا بادلوں پر بیٹھ کر سب کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے۔ اور اس طرح وحی 1: 7 میں بیان کی گئی پیشنگوئی کی تکمیل ہو گی: ”یکھو وہ بادِلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اُسے دیکھے گی اور جنہوں نے اُسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے اور زمِین پر کے سب قبِیلے اُس کے سبب سے چھاتی پِیٹیں گے۔“ تمام اقوام کیوں ماتم کر رہی ہوں گی؟ کیونکہ قادر مطلق خدا نے اتنی ساری سچائیوں کا اظہار کیا اور اتنا عظیم کام انجام دیا لیکن نہ صرف انہوں نے اسکی جستجو سے انکارکیا، بلکہ مسیح مخالفین کے ساتھ مل کراس پر دریدہ دہنی کی، فیصلہ صادر کیا اور اس کی توہین کی۔ انہوں نے خدا کے مزاج کی توہین کی اوروہ آفات میں گِھر گئے ہیں۔ ان کا انجام یہ ہوگا کہ اپنی چھاتیاں پیٹیں گے، آہ و بکا کریں گے اور دانت پیسیں گے جو وحی کی اس غمناک پیشنگوئی کو پورا کر ے گا کہ: ”زمِین پر سب قبِیلے اُس کے سبب سے آہ و بکا کریں گے۔“ اور جو قادر مطلق خدا کے انصاف کو قبول کر کے پاک اور کامل ہو گئے ہیں وہ خدا کو سرعام نمودار ہوتے دیکھیں گے اوریہی لو گ بے انتہا خوشی کے ساتھ ناچیں گے، خدا کی لامحدود طاقت، دانائی اور راستبازی کی تعریف کریں گے۔ بلکل جیسے کہ خدا فرماتا ہے: ”میری رحمت ان لوگوں پر ظاہر کی جاتی ہے جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور خود اپنے آپ کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ خبیثوں کو جو سزا دی گئی ہے وہ میرے راست باز مزاج اور اس سے بھی بڑھ کر میرے غضب کی گواہی ہے۔ جب آفت آئے گی تو میری مخالفت کرنے والے سب روئیں گے جب، وہ قحط اور طاعون کا شکار ہوں گے۔ جنھوں نے ہر طرح کی شرارت کی ہے لیکن جو میرے پیچھے کئی سال سے چل رہے ہیں وہ اپنے گناہوں کی قیمت ادا کرنے سے نہیں بچیں گے۔ وہ بھی تباہی میں ڈوب جائیں گے، جس کی مثال لاکھوں سالوں میں شاذ و نادر ہی ہو گی، اور وہ مسلسل خوف اور غم کی حالت میں رہیں گے۔ اور میرے پیروکاروں میں سے جنہوں نے مجھ سے وفاداری کا اظہار کیا ہے وہ خوشیاں منائیں گے اور میری طاقت کی تعریف کریں گے۔ وہ ناقابل تسخیر اطمینان کا تجربہ کریں گے اور ایسی خوشی کے درمیان رہیں گے جس سے میں نے پہلے کبھی بنی نوع انسان کو نہیں نوازا۔ کیونکہ میں انسان کے نیک کاموں کی قدر کرتا ہوں اور ان کے برے اعمال سے نفرت کرتا ہوں۔ جب سے میں نے پہلی بار بنی نوع انسان کی قیادت شروع کی ہے، میں بے صبری سے لوگوں کا ایک گروہ اپنانے کی امید کر رہا ہوں جو میرا ہم خیال ہو۔ جو لوگ میرے ہم خیال نہیں ہیں، میں انھیں کبھی نہیں بھولتا؛ میں ہمیشہ ان سے دل میں نفرت کرتا ہوں اور ان پر قصاص لانے کے موقع کا انتظار کرتا ہوں جسے دیکھ کر مجھے مزہ آئے گا۔ اب میرا دن آخر کار آ گیا ہے، اور مجھے اب مزید انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے!“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ اپنی منزل کے لیے کافی بہتر اعمال تیار کرو)۔
قادر مطلق خدا نے بنی نوع انسان کو پوری طرح پاک کر کے بچانے کے لیے اۤخری ایام میں انصاف کے لیے سچائیاں بیان کی ہیں اور انسانیت کے بچائے جانے اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کا یہ واحد راستہ ہے اوریہ موقع زندگی میں بس ایک بار ملے گا۔ عظیم آفات کا آغاز ہو چکا ہے۔ وہ جو جاگتے ہیں اور بلا تاخیر قادر مطلق خدا کے عظیم کام کے متلاشی ہیں، وہی بروقت ہوں گے، کیونکہ خدا نے خود کہہ دیا تھا، ”جب میں بہت سے لوگوں کو سزا دوں گا، تو مذہبی دنیا کے لوگ، مختلف حدوں تک، میرے کاموں سے مغلوب ہو کر میری بادشاہت میں واپس آ جائیں گے، کیونکہ انھوں نے ایک سفید بادل پر سوار مقدس ہستی کی آمد کو دیکھا ہوگا“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ پوری کائنات کے لیے خدا کا کلام، باب 26)۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو خدا کی آواز سنائی دے گی، اس کا کام دیکھ سکیں گے اور خدا کے سامنے پیش ہوں گے اور آفات کے بیچ خدا کی نجات پا لیں گے۔ اور یہ ان آفات کے دوران حالت طرب میں لایا جا رہا ہے اور یہ ان کے اور بنی نوع انسان کے لیے خدا کی عظیم رحمت پانے کا آخری موقع ہے، ذہین لوگ جان لیں گے کہ کیا منتخب کرنا ہے۔ اور جو ذوق وشوق سے خداوند کی بادلوں پرآمد کے منتظر ہیں ان کا انجام ایسا ہوگا جو کہ اۤج واضح ہو گیا۔ آئیے آج کلام خدا کا ایک آخری اقتباس دیکھتے ہیں۔ ”شاید بہت سے لوگ میری بات پر توجہ نہ دیں، لیکن پھر بھی میں ہر اس نام نہاد مقدس کو بتانا چاہتا ہوں، جو یسوع کی پیروی کرتا ہے کہ جب تم یسوع کو اپنی آنکھوں سے ایک سفید بادل پر آسمان سے اترتا دیکھو گے، تو یہ راست بازی کے سورج کا ظہورِ عام ہو گا۔ شاید وہ تیرے لیے بہت پرجوش وقت ہو، اس کے باوجود تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ جب تُو یسوع کو آسمان سے نازل ہوتا دیکھے گا، یہی وہ وقت ہو گا جب تُو سزا کے لیے جہنم میں بھیجا جائے گا۔ یہ خدا کے انتظامی منصوبے کے خاتمے کا وقت ہو گا اور یہ تب ہو گا جب خدا اچھوں کو اجر اور بدکاروں کو سزا دے گا۔ کیونکہ خدا کا انصاف انسان کے نشانیاں دیکھنے سے پہلے ختم ہو جائے گا، جب صرف سچائی کا اظہار ہوگا۔ جو لوگ سچ کو نشانیوں کے بغیر تلاش کرتے ہیں، اور پاکیزہ ہو چکے ہیں وہ خدا کے تخت کے روبرو واپس آئیں گے اور خالق کی رحمت میں داخل ہو جائیں گے۔ صرف وہی لوگ جو اس عقیدے پر قائم رہتے ہیں کہ ”جو یسوع سفید بادل پر سوار نہیں آئے گا وہ جھوٹا مسیح ہے“ ہمیشہ کے لیے سزا ان کا مقدر ہو گی، کیونکہ وہ صرف اس یسوع پر یقین رکھتے ہیں جو نشانیاں دکھاتا ہے، لیکن اس یسوع کو تسلیم نہیں کرتے جو کڑی عدالت کرتا ہے اور سچی راہ اور زندگی جاری کرتا ہے۔ یسوع ان کے ساتھ اس طرح کا معاملہ فقط اس وقت کر سکتا ہے جب وہ سرعام سفید بادل پر واپس آئے۔ وہ اپنی ذات میں بہت ضدی، بہت پراعتماد اور بہت مغرور ہیں۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگوں کو بھلا یسوع کیسے اجر دے سکتا ہے؟ یسوع کی واپسی ان لوگوں کے لیے بہت بڑی نجات ہے جو سچ قبول کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن جو لوگ سچ قبول کرنے سے قاصر ہیں ان کے لیے یہ مذمت کی علامت ہے۔ تمھیں اپنا راستہ خود منتخب کرنا چاہیے اور روح القدس کی توہین نہیں کرنی چاہیے اور سچائی کو رد نہیں کرنا چاہیے۔ تمھیں جاہل اور مغرور انسان نہیں بننا چاہیے، بلکہ ایسا انسان بننا چاہیے جو روح القدس کی راہنمائی پر عمل کرتا ہے اور سچ کی تمنا اور اسے تلاش کرتا ہے؛ صرف اسی طرح تم فائدے میں رہو گے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ جب تک تُو یسوع کا روحانی جسم دیکھے گا، خدا دوبارہ زمین و آسمان بنا چکا ہو گا)۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟