جھوٹ بولنے کی تکلیف

April 25, 2023

اکتوبر 2019 میں، میں نے آخری ایّام میں قادرِ مطلق خُدا کا کام قبول کیا۔ میں نے دیکھا کہ بھائی اور بہنیں اجتماعات میں اپنے تجربات اور سمجھ بوجھ پر رفاقت کرنے کے قابل تھے۔ وہ بلا جھجک اپنی تمام بدعنوانیوں اور کوتاہیوں کے متعلق کھل کر بولنے کے قابل تھے، اور مُجھے ان سے شدید حسد محسوس ہوتا۔ میں بھی ایک ایماندار شخص بننا چاہتا تھا اور بس ان کی طرح کھل کر بولنا چاہتا تھا، لیکن جب حقیقت میں وہ موقع آیا تو میں بالکل بھی ایمانداری سے بات نہیں کر سکا۔ ایک مرتبہ، میرے بھائیوں اور بہنوں نے مجھ سے پوچھا، ”تم جوان ہو، کیا تم اب بھی طالب علم ہو؟“ سچ تو یہ تھا کہ میں کافی عرصے سے طالب علم نہیں تھا اور میں نے صرف ایک ریسٹورانٹ میں کھانا پکایا اور صفائی کی تھی، لیکن مُجھے ڈر تھا کہ یہ جاننے کے بعد دوسرے مُجھے حقارت سے دیکھیں گے، تو میں نے انھیں بتایا کہ میں اب بھی طالب علم ہوں۔ ایسا کہنے کے بعد میں نے اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا اور میں بس آگے بڑھ گیا۔ ایک دن، میں نے ایک گواہی والی ویڈیو میں خدا کے کلام کا ایک اقباس دیکھا جس نے مُجھے خود پر غور کرنے پر مجبور کیا۔ ”بات یہ ہے کہ تمہیں جاننا چاہیے کہ خدا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ایماندار ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ، خدا وفادار ہے اور اس لیے اس کے الفاظ پر ہمیشہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے؛ اس کے علاوہ، اس کے اعمال سوالوں سے بالاتر ہیں، اسی لیے خدا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے ساتھ مکمل طور پر ایماندار ہیں۔ ایمانداری سے مراد اپنا دل خدا کے سپرد کرنا، ہر چیز میں خدا کے ساتھ بے ریا ہونا، ہر چیز کے حوالے سے اس کے ساتھ کھل کر بات کرنا، حقائق کو کبھی نہ چھپانا، اپنے سے اوپر اور نیچے والوں کو دھوکا دینے کی کوشش نہ کرنا اور صرف خدا کی خوشامد کے لیے کام نہ کرنا ہے۔ مختصراً، ایماندار ہونے سے مراد یہ ہے کہ تو اپنے اعمال اور الفاظ میں پاکیزہ رہ اور نہ خدا کو دھوکا دے اور نہ ہی انسان کو(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ تین نصیحتیں)۔ خُدا کے کلام کو پڑھنے کے بعد، میں سمجھ گیا کہ خُدا ایمان دار لوگوں کو پسند کرتا ہے، کہ ایمان دار لوگ ہی خُدا کے سامنے کُھل کر بیان کر سکتے ہیں، کہ وہ اپنے فعل اور قول میں غیر مُبہم ہیں، اور یہ کہ وہ خدا یا دوسرے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ لیکن جہاں تک میرا سوال تھا، جب دوسروں نے مجھ سے پوچھا ”کیا تم اب بھی طالب علم ہو؟“ میں حقارت بھری نظروں کے ڈر سے، سچ تک نہیں بول سکا تھا، کجا یہ کہ خُدا کے سامنے ایک ایمان دار انسان بنتا۔ میں ہرگز ایمان دار نہیں تھا۔ تو میں دوسروں کے سامنے اپنی حقیقت کھول کر لانا چاہتا تھا، لیکن مُجھے ڈر تھا وہ میرا مذاق اڑائیں گے، پھر بھی، اس کے ساتھ ساتھ حقیقت کا اظہار نہ کرنے کے سبب مجھے گہری بے چینی محسوس ہُوئی۔ تو میں نے خُدا سے دُعا کی، اسے کہا کہ وہ سچ بولنے اور ایک ایمان دار انسان بننے کی مشق کرنے میں میری مدد کرے۔ بعد کے ایک اجتماع میں، میں نے اپنی بدعُنوانی کے مُتعلق کھل کر بات کی اور اپنے جھوٹ اور دھوکا بے نقاب کیا۔ نہ صرف یہ کہ دوسروں نے مجھے حقارت سے نہیں دیکھا، بلکہ انھوں نے مجھے یہ پیغام دیا کہ میرا تجربہ اچھا تھا۔ اس سے مجھے ایک ایمان دار شخص بننے کےلیے مزید اعتماد ملا۔ اس موقع پر ایک ایمان دار شخص بننے اور سچ بولنے کی مشق کرنے کے باوجود، مجھے ابھی اپنے شیطانی مزاج سے آگاہی نہ تھی، اور جب بات میرے وقار اور مفادات سے متعلق ہوتی، میں اب بھی خود کو چھپانے کے لیے اپنا فریبی مزاج ظاہر کرنے سے بازنہیں رہ پاتا تھا۔

بعد میں مجھے ایک مبلغ کے طور پر چنا گیا اور میں تین کلیسیاؤں کے کام کا ذمہ دار تھا۔ ساتھی کارکنوں کے اجتماع کے دوران، ایک راہنما اس کی تفصیلات جاننا چاہتا تھا کہ کس طرح نئے آنے والوں کو ہر کلیسیا میں سیراب کیا جا رہا ہے، اور کچھ نئے آنے والوں کی صحیح طریقے سے معاونت کیوں نہیں کی جاتی میں تھوڑا سا گھبرانے لگا، جیسا کہ میں فقط یہ جانتا تھا کہ ایک کلیسیا میں معاملات کیسے چل رہے ہیں اور دوسرے دو میں نہیں۔ تو مجھے کیا کہنا چاہیے تھا؟ اگر میں سچ کہتا تو سب میرے بارے میں کیا سوچتے؟ کیا وہ سوچیں گے کہ اگرمیں یہ سیدھی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتا تو کیا ایک مبلغ ہوسکتا ہوں؟ یا وہ یہ کہیں گے کہ میں نے حقیقی کام نہیں کیا اور یہ کہ میں اس فرض کے قابل نہیں تھا؟ اگر میرا تبادلہ یا مجھے برخاست کر دیا گیا تو یہ بہت شرمناک ہوگا۔ میں صرف بھاگ جانا چاہتا تھا، لیکن اگر میں نے قبل از وقت علیحدگی اختیار کر لی تو سب سمجھ جائیں گے کہ مجھے ڈر ہے کہ ان سب کو معلوم ہوجائے گا کہ میں نے کوئی حقیقی کام نہیں کیا۔ لہٰذا میرے پاس ٹھہرنے اور سننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا جیسا کہ دوسرے مبلغین نے اس کام کے بارے میں بات کی جس کے وہ ذمہ دار تھے۔ میں سخت اعصابی تناؤ میں تھا اور سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ جب راہنما نے میرا نام پکارا، میں بہت گھبرایا ہوا تھا اور بہانہ کیا کہ میں نے اسے سنا ہی نہیں، ”آپ نے کیا کہا؟“ راہنما نے کہا، ”ہم بس نئے آنے والوں کو سیراب کرنے کی بات کر رہے تھے، کیا آپ ہمیں اپنے نئے آنے والوں کے بارے میں بتانا پسند کریں گے؟“ ایسا لگا جیسے میرا دل میرے سینے سے پھٹ کر نکلنے کو ہے۔ میرے پاس کلیسیا کے بارے میں بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا جس کے بارے میں میں پہلے جانتا تھا، لیکن میں باقی دو کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تاہم، مجھے ڈر تھا کہ سب کو معلوم ہو جائے گا کہ میں نے پیروی کا کام نہیں کیا، تو میں نے اپنے دانت پیسے اور جھوٹ بولا، ”دوسرے کلیسیا میں بہت سے نئے آنے والوں کی صحیح طریقے سے معاونت نہیں کی جا رہی ہے، اور عالمی وباء کی وجہ سے، ہم ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ میں تیسرے کلیسیا کی صورت حال کے بارے میں زیادہ پُریقین نہیں ہوں کیونکہ میں اس پورے وقت میں دوسرے دو کلیسیاؤں کے کام کی پیروی کرتا رہا ہوں۔“ مجھے ایسا کہتے ہوئے بہت بے چینی محسوس ہوئی، اور میں ہرایک سے دہشت زدہ تھا کہ وہ میرا جھوٹ تاڑ نہ لیں جو اس سے بھی زیادہ ذلت آمیز ہوتا۔ میں نے پورے اجتماع میں خود کو کگر پر معلق محسوس کیا اور اس کے ختم ہونے کے بعد ہی سکون کی سانس لینے کے قابل ہو سکا۔ مجھے حیرانی ہوئی، راہنما نے پھر مجھے کال کیور پوچھا، ”ان نئے آنے والوں کے متعلق، جِن کی عالمی وباء کی وجہ سے صحیح طریقے سے معاونت نہیں ہو رہی ہے، کیا آپ نے سیراب کرنے والے عملے سے کہا ہے کہ وہ انھیں فون کریں اور ان سے رابطہ کریں کریں؟“ راہنما کے سوال پر میں ہکا بکا رہ گیا۔ مجھے صورت حال کی تفصیلات معلوم نہیں تھیں۔ اگر میں نے سچ کہا ہوتا، تو کیا راہنما کو احساس نہ ہوجاتا کہ میں نے جھوٹ بولا تھا؟ میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مجھے نہیں معلوم۔ تو میں جھوٹ ہی بولتا رہا، ”میں نے ان سے اس بارے میں بات کی ہے، لیکن کچھ نئے آنے والے ان کے فون کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔“ راہنما نے پھر پوچھا، ”کون سے نئے آنے والے؟“ میں نے خود سے سوچا، ”کیا راہنما مجھ سے اس لیے سوال کیے جارہا ہے کہ اسے پتہ چل گیا کہ میں نے جھوٹ بولا؟“ میں نے جلدی سے جواب دیا، ”میرے خیال میں یہ ان میں سے کچھ ہیں جنھوں نے ابھی خُدا کا کام قبول کیا ہے۔“ یہ دیکھتےہوئے کہ میں واضح طور پر بیان نہیں کرپا رہا تھا، راہنما نے کہا، ”ٹھیک ہے، جب آپ کو پتہ چل جائے تو مجھے بتانا۔“ جب میں نے کال ختم کی، تو مُجھے گہرا احساس جرم ہوا۔ میں نے ایک بار پھر جھوٹ بولا اور دھوکا دیا تھا۔ اجتماع کے بارے میں سوچتے ہوئے، ایک مبلغ نے کہا تھا کہ وہ جن تین کلسییاؤں کا ذمہ دار تھا، اس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ سچ بولنے کے قابل تھا تو میں ایک بھی سچا لفظ کیوں نہیں کہہ سکتا تھا؟ جھوٹ بولنا، دھوکا دینا اور اس طرح کی جھوٹی شکل پیش کرنا سچائی چھپا نہیں سکتا تھا۔ خُدا سب کی چھان بین کرتا ہے اور جلد یا بدیر میں بے نقاب اور ظاہر ہو جاؤں گا، پس میں نے خُدا سے دُعا کی، ”خُدایا، آج کے اجتماع میں، جب راہنما کام کے بارے میں پوچھ رہا تھا، میں نے سچ نہیں کہا بلکہ جھوٹ بولا۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر وہ جان گئے کہ میں نے حقیقی کام نہیں کیا تو ہر کوئی مجھے حقارت کی نظر سے دیکھے گا۔ خُدایا، براہِ کرم میری راہنمائی فرما تاکہ میں خود کو جان سکوں اور اپنا بدعنوانی کا مزاج ترک کر سکوں۔“

مَیں نے بعد میں خدا کے کلام کا ایک حوالہ پڑھا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”لوگ اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں، بہت کچھ ایسا کہتے ہیں جو بے معنی، جھوٹ، جاہلانہ، احمقانہ اور تائیدی ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر، وہ یہ باتیں اپنے فخر کی خاطر، اپنی باطل کی تسکین کے لیے کہتے ہیں۔ وہ جب یہ جھوٹی باتیں بولتے ہیں تو اپنے بدعنوان مزاج کا بھرپور اظہار۔ اس بدعنوانی کو دور کرنے سے تیرا دل صاف ہو جائے گا، اور اس طرح یہ تجھے پہلے سے زیادہ پاکیزہ اور کہیں زیادہ ایماندار بنا دے گا۔ درحقیقت، لوگ سب کچھ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ کیوں بولتے ہیں: یہ ان کے مفادات، چہرے، جھوٹی شان اور حیثیت کی خاطر ہے۔ اور اپنا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں، وہ اس سے کہیں زیادہ دکھاتے ہیں جو وہ ہیں۔ نتیجے کے طور پر، ان کا جھوٹ ظاہر ہو جاتا ہے اور دوسرے لوگ اسے جان لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں چہرہ اتر جاتا ہے، کردار کھو جاتا ہے اور وقار ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بہت زیادہ جھوٹ کا نتیجہ ہے۔ جب تو زیادہ جھوٹ بولتا ہے تو تیرا ہر لفظ آلودہ ہوتا ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے، اور اس میں سے کچھ بھی سچ یا حقیقت ہو سکتا۔ ہر چند کہ جھوٹ بولنے پر تیرا چہرہ نہیں اترتا ہے، لیکن تو پہلے سے ہی اپنے اندر بے عزتی محسوس کر ہے۔ تجھے تیرا ضمیر ملامت کرتا ہوا محسوس ہوگا، اور تو خود کو حقیر اور کمتر محسوس کرے گا۔ ’میں اتنی قابل رحم حالت میں کیوں جیتا ہوں؟ کیا واقعی ایک ایماندارانہ بات کہنا اتنا مشکل ہے؟ کیا مجھے صرف چہرے کے لیے یہ جھوٹ بولنے کی ضرورت ہے؟ اس طرح جینا اتنا تھکا دینے والا کیوں ہے؟‘ تو زندگی ایسے گزار سکتا ہے جو تھکا دینے والا نہ ہو۔ اگر تو ایماندار ہونے کی مشق کرتا ہے، تو تو آسان اور آزادانہ زندگی گزار سکتا ہے، لیکن جب تو اپنے چہرے اور جھوٹی شان کو بچانے کے لیے جھوٹ کو چنتا ہے، تو تیری زندگی بہت تھکا دینے والی اور تکلیف دہ ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تونے خود کو یہ درد دیا ہے۔ جھوٹ بولنے سے تجھے کون سا چہرہ ملتا ہے؟ یہ کچھ ایسا ہے جو کھوکھلا ہے، کچھ بالکل بیکار۔ جب تو جھوٹ بولتا ہے تو تو اپنے کردار اور وقار کو دھوکہ دیتا ہے۔ اس جھوٹ کی قیمت وہ اپنے وقار سے ادا کرتے ہیں، وہ ان کی قیمت اپنے کردار سے چکاتے ہیں، اور خدا انہیں ناپسندیدہ اور قابل نفرت پاتا ہے۔ کیا وہ اس کے قابل ہیں؟ بالکل نہیں۔ کیا یہ صحیح راستہ ہے؟ نہیں، جو لوگ اکثر جھوٹ بولتے ہیں وہ اپنے شیطانی مزاج کے شکنجے میں اور شیطان کے تسلط میں رہتے ہیں، نہ کہ روشنی میں یا خدا کے سامنے۔ تجھے اکثر سوچنا پڑتا ہے کہ جھوٹ کیسے بولا جائے، اور جھوٹ بولنے کے بعد، تجھے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اسے چھپانا کیسے ہے، اور اگر تو اسے اچھی طرح سے نہیں چھپاتا تو جھوٹ سامنے آ جائے گا، اس لیے تو اسے چھپانے کے لیے تو سوچتا رہتا ہے۔ کیا یہ جینے کا تھکا دینے والا طریقہ نہیں ہے؟ یہ بہت تھکا دینے والا ہے۔ کیا یہ اس قابل ہے؟ بالکل نہیں۔ جھوٹ بولنے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے دماغوں کو صرف جھوٹی شان اور حیثیت کی خاطر چھپانے کا کیا فائدہ؟ بالآخر، تو اس بارے میں سوچے گا اور خود سے کہے گا، ’میں نے خود کو اس میں کیوں ڈالا؟ جھوٹ بولنا اور اسے چھپانا بہت تھکا دینے والا ہے۔ چیزوں کو اس طرح کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ ایک ایماندار انسان بننا آسان ہے۔‘ تو ایک ایماندار انسان بننا چاہتا ہے، لیکن تو اپنا چہرہ، جھوٹی شان اور مفادات کو ترک نہیں کر سکتا۔ تو صرف جھوٹ بول سکتا ہے اور ان چیزوں کے دفاع کے لیے جھوٹ کا استعمال کر سکتا ہے۔ ۔۔۔ ممکن ہے تو سوچے کہ جھوٹ کا استعمال تیری مطلوبہ ساکھ، حیثیت اور جھوٹی شان کی حفاظت کر سکتا ہے، لیکن یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جھوٹ نہ صرف تیری جھوٹی شان اور ذاتی وقار کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتا ہے، بلکہ، اس سے زیادہ تشویشناک یہ ہے کہ، تجھے سچ پر عمل کرنے اور ایک ایماندار انسان بننے کے مواقع سے محروم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اگر تو اس وقت اپنی ساکھ اور جھوٹی شان کا دفاع بھی کرتا ہے، تو جو تو کھو دیتا ہے وہ سچائی ہے، اور تو خدا کو دھوکہ دیتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ تو خدا کی نجات حاصل کرنے اور کامل ہونے کا موقع مکمل طور پر کھو دیتا ہے۔ یہ سب سے بڑا نقصان اور ابدی افسوس ہے۔ دھوکے باز لوگ اسے کبھی واضح طور پر نہیں دیکھ سکتے(کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ صرف ایماندار بن کر ہی کوئی سچا انسان بن کر رہ سکتا ہے)۔ خدا کے کلام نے میری حالت کو ظاہر کیا۔ راہنما ہر کلیسیا میں سیراب کرنے کی صورتحال کے متعلق جاننا چاہتا تھا، جو کہ واضح طور پر ایک سادہ سا معاملہ تھا اور صرف سچ بتانا ہی اچھا ہوتا، لیکن میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہو سکتا تھا۔ میں بدگمانیوں سے بھرا پڑا تھا اور ڈرتا تھا کہ راہنما اور دوسرے منادیوں کو سچائی معلوم ہونے کے بعد، وہ مجھے حقارت کی نظر سے دیکھیں گے، کہیں گے کہ میں نے حقیقی کام نہیں کیا اور میں اس چھوٹے سے معاملے پر بھی گرفت نہیں کر سکا۔ اور اگر مجھے برخاست کر دیا جاتا ہے، یہ ذلت آمیز ہوگا۔ اپنے وقار، حیثیت اور میرے بارے میں دوسروں کے اچھے تاثر کی حفاظت کے لیے، میں نے دو کلیسیاؤں پر نظر رکھنے کے متعلق جھوٹ بولا، جبکہ مجھے صرف ایک کی واضح سمجھ تھی۔ یہاں تک کہ میں دوسری کلیسیا کی تفصیل میں گیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہاں نئے آنے والوں کی عالمی وباء کی وجہ سے حمایت نہیں کی جا رہی تھی۔ کیا یہ صِرف ایک فاش جھوٹ نہیں تھا؟ جب راہنما نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں سیراب کرنے والے عملے سے نئے آنے والوں کو بلانے کو کہا تھا، مجھے ڈر تھا کہ راہنما اس جھوٹ کے بارے میں جان لے گا جو میں نے ابھی کہا تھا، تو میں نے پہلے جھوٹ کو چھپانے کے لیے ایک دوسرا جھوٹ بولا اور میں نے اسے دھوکہ دینے کے لیے ایک بہانہ بنایا۔ اپنے نام اور حیثیت کی حفاظت کے لیے، میں نے ایک جھوٹ کا استعمال دوسرے کو پیوند لگانے کے لیے کیا۔ مَیں سچ میں دھوکے باز تھا! میں نے انجیل میں درج خُدا اور شیطان کے درمیان ایک مکالمے کے بارے میں سوچا۔ خُدا نے شیطان سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا، جس پر شیطان نے جواب دیا، ”زمِین پر اِدھر اُدھر گُھومتا پِھرتا اور اُس میں سَیر کرتا ہُؤا آیا ہُوں“ (ایُّوب 1: 7)۔ شیطان بہت مکَّار ہے۔ اس نے خُدا کے سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا اور چکمہ دینے کے انداز میں بات کی۔ یہ بتانا ناممکن ہے کہ شیطان کہاں سے آیا۔ اس کا منہ صرف جھوٹ سے بھرا ہوا ہے، یہ کبھی ایمانداری سے نہیں بولتا، اور یہ ہمیشہ صرف غیر واضع اور مبہم بات کرتا ہے۔ اپنے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے، کیا میں بدروح شیطان جیسا نہیں تھا؟ اگرچہ میں نے اس کام کا جواب دیا جس کے بارے میں راہنما جاننا چاہتا تھا، یہ سب جھوٹ اور دھوکہ تھا۔ میرا جواب سن کر، راہنما اب بھی سیراب کرنے کے کام جس کے لیے میں ذمہ دار تھا کی صحیح حالت کے بارے میں غیر واضح تھا، اور وہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ میں صحیح طریقے سے پیروی کر رہا تھا۔ درحقیقت، میرے اس طرح کے جھوٹ اور دھوکے نے صِرف میرے وقار اور حیثیت کو عارضی طور پر محفوظ رکھا، لیکن درحقیقت جو میں نے کھویا وہ میرا کردار، عظمت اور دوسروں کا اعتماد تھا۔ اگر میں اسی طرح چلتا رہتا، جلد یا دیر سے، ہر کوئی دیکھ لیتا کہ میں ایماندار آدمی نہیں تھا اور ناقابل اعتماد تھا۔ کوئی بھی مجھ پر یقین نہ رکھتا اور اس کے علاوہ، خُدا مجھ پر بھروسہ نہ رکھتا۔ تو کیا تب میں کردار اور عظمت سے بالکل محروم نہ ہو جاتا؟ کیا یہ میری بے وقوفی نہ ہوتی؟

بعد میں: مَیں نے خدا کے کلام کا ایک پیرا پڑھا۔ ”یہ کہ خدا کا لوگوں سے ایماندار بننے کا مطالبہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ واقعی دھوکے باز لوگوں سے نفرت کرتا ہے اور انھیں ناپسند کرتا ہے۔ دھوکے باز لوگوں کے لیے خدا کی ناپسندیدگی ان کے کام کرنے کے طریقے، ان کے مزاجوں، ان کے ارادوں اور ان کے فریب کاری کے طریقوں کےلیے ناپسندیدگی ہے؛ خدا یہ تمام چیزیں ناپسند کرتا ہے۔ اگر دھوکے باز لوگ سچائی قبول کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، اپنے فریبی مزاج پہچان لیتے ہیں، اور خدا کی نجات قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، تو ان کی بھی نجات کی امید ہے، کیونکہ خدا تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے، جیسا کہ سچائی کرتی ہے۔ اور اس طرح، اگر ہم خدا کی خوشنودی چاہنے والے بننا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں اپنے برتاؤ کے اصول تبدیل کرنےہوں گے: ہم اب شیطانی فلسفوں کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے، اب ہم جھوٹ اور فریب کاری سے کام نہیں چلا سکتے، ہمیں اپنے تمام جھوٹ ترک کر کے ایماندار انسان بننا چاہیے، تب ہمارے بارے میں خدا کا نقطہ نظر تبدیل ہوگا۔ اس سے قبل، دوسرے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے لوگ ہمیشہ جھوٹ، دکھاوے اور فریب کاری پر بھروسا کرتے تھے، اور شیطانی فلسفوں کو اپنے وجود، اپنی زندگیوں، اور انسانی برتاؤ کی بنیاد کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہی وہ چیز تھی جس سے خدا نفرت کرتا تھا۔ بے دین لوگوں کے درمیان، اگر تُو صاف گوئی سے بات کرتا ہے، سچ بولتا ہے، اور ایک ایماندار شخص ہے، تو تجھے بدنام کیا جائے گا، تیرے بارے میں رائے قائم کی جائے گی اور چھوڑ دیا جائے گا۔ اس لیے تُو دنیاوی رجحانات کی پیروی کرتا ہے، شیطانی فلسفوں کے مطابق زندگی گزارتا ہے، جھوٹ بولنے میں زیادہ سے زیادہ ماہر ہوتا جاتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دھوکے باز ہوتا جاتا ہے۔ تُو اپنے اہداف حاصل کرنے اور اپنی حفاظت کے لیے پُرفریب طریقے استعمال کرنا بھی سیکھتا ہے۔ تُو شیطانی دنیا میں اور زیادہ خوشحال ہوتا جاتا ہے، اور گناہ کی گہرائی میں اور زیادہ ڈوبتا جاتا ہےِ حتیٰ کہ تُو اپنے آپ کو رہائی دلانے کے قابل نہیں رہتا۔ خدا کے گھر میں چیزیں اس کے بالکل برعکس ہیں۔ تُو جس قدر زیادہ جھوٹ بولے گا اور فریب کاری کا کھیل کھیلے گا، خدا کے برگزیدہ بندے اتنا ہی زیادہ تجھ سے بیزار ہوں گے اور تجھے ترک کر دیں گے۔ اگر تُو توبہ کرنے سے انکار کرتا ہے اور اب بھی شیطانی فلسفوں اور منطق سے چمٹا رہے گا، اگر تُو بہروپ بھرنے اور خود کو چھپانے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور پیچیدہ منصوبے بناتا ہے، تو تیرا بھید کھل جانے اور تجھے نکالے جانے کا قوی امکان ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ خدا دھوکے باز لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔ صرف ایماندار لوگ ہی خدا کے گھر میں فلاح پاسکتے ہیں، اور دھوکے باز لوگ آخرکار ترک کر دیے جائیں گے اور نکال دیے جائیں گے۔ یہ سب پہلے ہی خدا کی طرف سے مقدر شدہ ہے۔ آسمان کی بادشاہی میں صرف ایماندار لوگوں کا ہی حصہ ہو سکتا ہے۔ اگر تُو ایماندار بننے کی کوشش نہیں کرتا، اور اگر تُو سچائی کی پیروی کرنے کا تجربہ اور مشق نہیں کرتا، اگر تُو اپنی بدصورتی بے نقاب نہیں کرتا، اور اپنا اصلی چہرہ نہیں دکھاتا، تو تُو کبھی بھی روح القدس کا کام اور خدا کی منظوری حاصل نہیں کر پائے گا(کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ ایک ایماندار شخص ہونے کا سب سے بنیادی عمل)۔ خُدا کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے، مُجھے احساس ہُوا خُدا دھوکے باز لوگوں کو پسند نہیں کرتا اور وہ ان کو نہیں بچاتا۔ ایسا اس لیے کہ ان کا تعلق شیطان سے ہے۔ دھوکے باز لوگ اپنے تمام کاموں میں خیانت اور چالوں کا استعمال کرتے ہیں اور وہ ایمانداری کے بغیر بات کرتے ہیں سب اپنے وقار، حیثیت اور مفادات کی حفاظت کے لیے۔ یہ لوگ جو ارادے رکھتے ہیں اور جو طریقے وہ استعمال کرتے ہیں خُدا کے نزدیک ناگوار اور قابلِ نفرت ہیں۔ حالانکہ میں خُدا پر یقین رکھتا تھا، میں نے کوئی سچائی حاصل نہیں کی تھی اور اب بھی شیطانی فلسفوں سے جیتا تھا جیسے کہ، ”ہر آدمی اپنے لیے،“ اور ”جیسے ایک درخت اپنی چھال کے لیے جیتا ہے، ایک انسان اپنے چہرے کے لیے جیتا ہے۔“ اِن شیطانی فلسفوں نے پہلے ہی میرے دل میں جڑ پکڑ لی تھی، مجھے گمراہ اور بدعُنوان بنانے میں، اور مجھے وقار اور حیثیت کے حصول کے راستے پر چلنے کے لیے مجبور کرتے رہے۔ میں نے سوچا تھا کہ لوگوں کو اپنے لیے جینا چاہیے، دوسروں کے درمیان کھڑا ہونا چاہیے اور شہرت اور منافع حاصل کرنا چاہیے، اور یہ کہ صِرف تب ہی کسی شخص کو حقارت سے نہیں دیکھا جائے گا۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر کسی شخص نے ہمیشہ صرف سچ بولا اور کبھی جھوٹ نہیں بولا، وہ شخص بے وقوف اور نِکما تھا۔ اس وجہ سے، میں نے ہمیشہ دھوکہ دیا، اور اپنے داتی مفادات کی خاطر جھوٹ کا جال بُنا، زیادہ سے زیادہ دھوکے باز، جعلی اور عمومی انسانیت کے کا فقدان کا مرقع بنتا گیا۔ میں وقار اور حیثیت کو سچ سے زیادہ اہم سمجھتا تھا، اور اپنے وقار اور حیثیت کی حفاظت کے لیے جھوٹ بولنے اور سچ کے خلاف جانے کو تیار تھا۔ شیطان ایک جھوٹا ہے، اور جب میں اس طرح جھوٹ بولتا ہوں اور دھوکہ دیتا ہوں تو کیا میں ویسا ہی نہیں ہوں؟ اس بُری دنیا میں، ایک ایماندار، بے تکلف شخص اس میں کوئی فرق نہیں ڈالتا۔ لیکن خُدا کے گھر میں اس کے بالکل برعکس ہے۔ خُدا کے گھر میں، راستبازی اور سچائی کا راج ہے، اور ایک شخص جتنا زیادہ دھوکہ دیتا ہے، اتنا ہی اس کے زوال کا امکان ہے، اور آخر کار، تمام دھوکے باز خُدا کی طرف سے بے نقاب ہوتے ہیں اور نکالے جاتے ہیں۔ خدا کہتا ہے، ”اگر لوگ چاہتے ہیں کہ انھیں بچایا جائے، تو انھیں چاہیے کہ وہ ایماندار بننا شروع کر دیں(کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ زندگی کی ترقی کے چھ اشارے)۔ ”آسمان کی بادشاہی میں صرف ایماندار لوگوں کا ہی حصہ ہو سکتا ہے(کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ ایک ایماندار شخص ہونے کا سب سے بنیادی عمل)۔ خدا مُقدس ہے اور گندے لوگوں کو آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب مجھے یہ احساس ہوا، میں نے محسوس کیا کہ خدا کا مُقدس اور راستباز مزاج جرم کو برداشت نہیں کرتا، اور مجھے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے جھوٹ بولنے پر سچ میں افسوس ہوا۔ مَیں سچ میں اپنے آپ سے نفرت کرتا تھا اور میں دوبارہ کبھی جھوٹ یا دھوکہ نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں سچائی پر عمل کرنا چاہتا تھا، ایک ایماندار شخص بننا چاہتا تھا اور سب کے ساتھ ایمانداری سے بات کرنا چاہتا تھا۔ میں اپنے منہ سے جھوٹ اور دل سے دھوکہ نکالنا چاہتا تھا تاکہ خُدا کی توثیق اور آسمان کی بادشاہی میں داخلے کے قابِل ہو جاؤں۔

اپنی ایک عبادت کے دوران، میں نے خُدا کے کلام کا ایک پیرا پڑھا: ”ایمانداری پر عمل بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ایماندار ہونے کا معیار محض ایک لحاظ سے حاصل نہیں ہوتا ہے؛ ایماندار ہونے سے پہلے تجھے کئی لحاظ سے معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ انہیں ایماندار ہونے کے لیے صرف جھوٹ نہیں بولنا ہوتا ہے۔ کیا یہ نظریہ درست ہے؟ کیا ایماندار ہونے میں صرف جھوٹ نہ بولنا شامل ہے؟ نہیں – اس کا تعلق کئی دوسرے پہلوؤں سے بھی ہے۔ سب سے پہلے، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تجھے کو کس چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواہ کچھ ایسا ہے جو تونے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا کسی اور نے تجھے بتایا ہو، خواہ یہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا یا کسی مسئلے کو حل کرنا ہو، خواہ یہ تیرا فرض ہو جو تجھے انجام دینا ہے یا کوئی ایسا کام جو خدا نے تیرے سپرد کیا ہے، تجھے ہمیشہ سچے دل کے ساتھ اس سے رجوع کرنا چاہیے۔ کسی شخص کو سچے دل سے چیزوں کو دیکھنے کی مشق کیسے کرنی چاہیے؟ جو تو سوچتا ہے وہ بول اور ایمانداری سے بول؛ کھوکھلی باتیں نہ کر، سرکاری طرز کلام، یا میٹھے بول، چاپلوسی یا منافقانہ جھوٹی باتیں نہ کر، بلکہ وہ بات کر جو تیرے دل میں ہے۔ یہ کسی شخص کا ایماندار ہونا ہے۔ تیرے دل میں جو سچے خیالات اور نظریات ہیں ان کا اظہار کرنا – یہ وہی ہے جو ایماندار لوگوں کو کرنا چاہیے۔ اگر تو جو سوچتا ہے وہ کبھی نہیں کہتا، اور الفاظ تیرے دل میں پکتے رہتے ہیں، اور تو جو کہتا ہے وہ ہمیشہ تیری سوچ سے متصادم ہوتا ہے، تو ایسا کوئی ایماندار شخص نہیں کرتا ہے(کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ صرف ایماندار بن کر ہی کوئی سچا انسان بن کر رہ سکتا ہے)۔ خُدا کے کلام نے مجھے عمل کرنے کا ایک راستہ دیا۔ چاہے یہ دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنا ہو یا میرا فرض نبھانا ہو، مجھے اپنے نقطہ نظر میں ایک ایماندار دل رکھنا چاہیے۔ چونکہ میں نے پیروی کرنے کا کام نہیں کیا تھا، مجھے اس کے بارے میں ایماندار ہونا چاہیے تھا۔ مجھے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آیا میرے وقار کو نقصان پہنچے گا۔ ایک ایماندار شخص ہونے کے لیے عمل کرنا کلید ہے۔

اگلے ساتھی کارکنوں کے اجتماع میں، میں پہل کرنا چاہتا تھا اور اپنی بدعنوانی کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے اس بات کی پریشانی تھی کہ سب میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ مُجھے احساس ہُوا کہ میں دوبارہ اپنے وقار اور حیثیت کی حفاظت کرنا چاہتا تھا، اور اس لیے میں نے خُدا سے خاموشی سے دُعا کی، التجا کی کہ وہ میری راہنمائی کرے، مجھے طاقت دے، اور مجھے اپنی بدعُنوانی کو بے نقاب کرنے کی ہمت عطا فرما۔ مجھے خُدا کے کلام کا ایک پیرا یاد آیا جو میں نے پہلے پڑھا تھا: ”اگر تُو خدا کے کلام کے مطابق عمل نہیں کرتا، اور اپنے راز اور اپنی مشکلات کبھی نہیں پرکھتا، اور رفاقت میں کبھی اپنے دل کی بات دوسروں کے سامنے ظاہر نہیں کرتا، نہ رفاقت کرتا ہے اور نہ ہی تجزیہ کرتا ہے اور نہ ہی اپنی بدعنوانی اور مہلک خامیاں ان کے سامنے روشنی میں لاتا ہے، تو تجھے بچایا نہیں جا سکتا(کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ ایک ایماندار شخص ہونے کا سب سے بنیادی عمل)۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر میں ایک ایماندار شخص نہ ہوتا، اپنی بدعُنوانی اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالتا رہتا، کھُل کر بیان نہ کرتا، ظاہر یا خود کو الگ نہ کرتا، پھِر میں کبھی اپنی بدعنوانی کے مزاج کو نہ چھوڑتا اور میں کبھی نہ بچ پاتا۔ میں نے خُدا سے ایک اور دُعا کی، ”خُدایا! براہ کرم مجھے طاقت دے تاکہ میں کھُل کر بیان کر سکوں اور ایک ایماندار انسان بنوں۔“ اپنی دُعا کے بعد، میں نے دوسروں کے سامنے اعتراف کرنے میں پہل کی: ”میں نے پِچھلے اجتماع میں جھوٹ بولا تھا جب راہنما نئے آنے والوں کو سیراب کرنے کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ سچ یہ ہے کہ میں صرف ایک کلیسیا کے بارے میں جانتا تھا اور باقی دو کے بارے میں نہیں۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں سچ کہتا تو آپ مجھے حقارت کی نظر سے دیکھتے۔ اور اس لیے میں نے جھوٹ بولا اور کہا کہ میں دو کلیسیاؤں کے بارے میں جانتا ہوں۔ میں نے آپ سب کو دھوکہ دیا۔“ ایسا کہنے پر، دوسروں نے نہ میری مذمت کی اور نہ ہی مجھے حقارت سے دیکھا۔ اس کے برعکس، انھوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ میں صرف کھل کر بیان کرنے اور ایک ایماندار شخص بننے کے قابل تھا۔ اس طرح کا عمل کرنے کے بعد، میں نے بہت زیادہ آرام دہ اور پرسکون محسوس کیا۔ اگر میں اپنے آپ کو چھپاتا رہتا تو میں یہ احساسات اور فوائد حاصل نہ کرتا۔

تھوڑی دیر بعد ایک اعلیٰ راہنما نے مجھ سے پوچھا، ”کیا آپ کو اس وقت کلیسیا کے راہنماؤں کے حالات کی سمجھ ہے؟“ اس سوال پر مجھے تھوڑی بے اعتمادی محسوس ہوئی، جیسا کہ میں صرف ایک کلیسیا کے راہنما کی حالت سے واقف تھا، لیکن باقی دو کے حالات سے نہیں۔ میں نے خود سے سوچا، ”اگر میں سچ کہوں، کیا راہنما کہے گا کہ میں نے حقیقی کام نہیں کیا؟“ اور اس لیے میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے سمجھ ہے۔ پِھر مجھے احساس ہوا کہ میں دوبارہ جھوٹ بولنا چاہتا تھا، تو میں نے خُدا سے ایک دُعا کی اور سچ کہا، ”میں صرف ایک کلیسیا کے راہنما کی حالت کے بارے میں جانتا ہوں، اور باقی دو کے حالات کے بارے میں نہیں۔“ اس پر، راہنما نے مجھ پر تنقید نہیں کی اور اِس کے بجائے مجھے کچھ تجاویز دیں، یہ کہتے ہوئے کہ مجھے کلیسیا کے راہنماؤں کے حالات کے بارے میں زیادہ باقاعدگی سے فون کرنا چاہیے، اور ان کی مشکلات کو فوری حل کرنے میں مدد کریں، اور اس نے مجھے پیروی کرنے کے لیے کچھ راستے بھی بتائے۔ میں نے سیکھا کہ جتنا زیادہ میں سچ بولتا تھا، ایک ایماندار شخص تھا اور اپنی بدعنوانی اور کوتاہیوں کو ظاہر کرنے کی ہمت کرتا تھا، اُتنا ہی زیادہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد اور فائدہ حاصل کرنے کے قابل تھا۔ اس سے پہلے، میں نے اپنے وقار اور حیثیت کی حفاظت کے لیے جھوٹ بولا اور دھوکہ دیا، لیکن میرے سب جھوٹ بولنے کے بعد، میرے دل نے بوجھل محسوس کیا اور میرے ضمیر نے ملزم محسوس کیا۔ اور سب سے اہم، میں نے اپنے کردار اور اپنی عظمت کو کھو دیا۔ اس تجربے کے ذریعے سے، مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ ایماندار لوگ خُدا اور انسان دونوں کو پسند ہیں، اور یہ کہ آپ جتنے ایماندار ہوں گے، دوسروں کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے ہی ہم آہنگ ہوں گے، اور آپ اتنے ہی پرسکون اور پر امن ہوں گے۔ نہ صرف دوسرے لوگ آپ کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اِس کے بجائے آپ کے بھائی اور بہن آپ کی مدد کریں گے۔ ایک ایماندار انسان ہونا سچ میں عظیم ہے۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

لاپروائی کے پیچھے کی سچ

گذشتہ اکتوبر ہم نے ایک ویڈیو کی پروڈکشن مکمل کی۔ ہم نے اس میں بہت سا کام کیا اور کافی وقت اور توانائی وقف کی، لیکن حیران کن طور پر، جب ہم...

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp