حسد سے آزادی
2021 کے آغاز میں، میں ایک مبلغ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا تھا اور برادر میتھیو کے شریک کار کے طور پر چرچ کے کاموں کی نگرانی بھی کر رہا تھا۔ میں نے حال ہی میں ان فرائض کی انجام دہی کا آغاز کیا تھا اور ابھی بہت سی ایسی باتیں تھیں جو میں سمجھ نہیں پایا تھا، اس لیے میں اکثر سوالات لے کر اس کے پاس آتا تھا۔ اس عرصے کے دوران، میتھیو اکثر مجھے ان بدعنوانیوں کے بارے میں بتاتا تھا جن کا مظاہرہ اس نے اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، مجھے وہ بہت حقیر لگٓنے لگا۔ میں نے سوچا کہ میں اس جیسا بدعنوان نہیں تھا اور اس کے ساتھ شراکت دار ہونا میرے لیے فائدہ مند نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ میں نے یہاں تک سوچا: ”آخر یہ مبلغ بنا کیسے؟ میں اس کا رہنما ہوا کرتا تھا۔ مجھے وہ شخص ہونا چاہیے تھا جو اسے بتاتا کہ مبلغ کیسے بننا ہے، نہ کہ اس کے برعکس۔ چونکہ وہ پہلے مبلغ بنا، اس لیے ہر کوئی اس کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا ہے۔“ میں یہ قبول نہیں کر سکتا تھا، اور میں جانتا تھا کہ میں اس سے بہتر کر سکتا ہوں۔ اس پر سبقت پانے کے لیے، میں اکثر اپنے کام کا موازنہ کرتا۔ مثال کے طور پر، جب میتھیو نے مجھے بتایا کہ اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام کام جاری رکھ سکے، مجھے بہت خوشی ہوئی، یہ جان کر کہ میں نے پہلے ہی وہ تمام کام مکمل کر لیے تھے، جن کے لیے میں ذمے دار تھا اور، اس طرح، اعلیٰ قیادت میرے بارے میں زیادہ اچھے خیالات رکھے گی۔ تاہم، مجھے حیرت ہوئی کہ، میتھیو نے وہ کام بہت اچھے طریقےسے کیا جس کا وہ ذمہ دار تھا۔ ایک دن، رہنما نے ہمیں کچھ ایسے لوگ شناخت کرنے کا کام سونپا جنھیں پانی دینے والوں کے طور پر تربیت دی جا سکے۔ صرف دوہی دنوں میں، میتھیو 3 امیدوار پہلے ہی تلاش کرچکا تھا۔ میں بد حواس ہوگیا، سوچنے لگا: ”مجھے بھی آگے بڑھنا ہے۔ مجھےکم ازکم میتھیو کے برابر امیدوار تلاش کرنے چاہئیں۔ ورنہ، اس کی مجھ سے زیادہ تعریفیں ہوں گی۔“ لہٰذا، صرف تین دنوں میں، میں نے سات افراد تلاش کر لیے۔ مجھے بہت اطمینان محسوس ہوا کیونکہ میں نے میتھیو سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن جب رہنما مجھ سے امیدواروں کی صورت حال پوچھنے آئے، تو انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان میں سے کوئی بھی پانی دینے والے کے طور پر کام کرنے کے لیے موزوں نہیں تھا۔ جب میں بطور امیدوار انھیں شناخت کر رہا تھا تو میں ان کے اصل حالات نہیں سمجھ پایا تھا۔ لیکن میتھیو کے تمام امیدوار موزوں سمجھے گئے – ان میں صلاحیت تھی، اچھی انسانیت تھی، وہ سچائی سے محبت کرتے تھے اور خدا کے لیے خود کوخرچ کرنے کو تیار تھے۔ ان گزشتہ تین دنوں کا کام سب بیکار گیا تھا اور میں بہت افسردہ تھا۔ مجھے میتھیو سے حسد بھی ہونے لگا۔ وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ اتنے اچھے نتائج کیوں حاصل کرتا تھا؟ اور میں کیوں نہیں کیے؟ وہ جوش و خروش سے ہمارے گروپس میں خدا کا کلام پھیلاتا، اور اس کام کی بھی پیروی کرتا جس کے لیے میں ذمے دار تھا – میرے پاس خود کو اس سے بہتر ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ میں اس سے بہت تنگ آ چکا تھا اور یہاں تک کہ اس سے نفرت کرنے لگا۔ مجھے اس کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ اتنا نمایاں ہو اور میری خواہش تھی کہ وہ اپنے کام کے اچھے نتائج حاصل نہ کرے۔ میں شہر ت کے حصول کے لیے کوشاں رہا اور اپنی روش نہ بدلی۔
اُس دوران میں، میں سسٹر اناایس کے کام کی نگرانی کر رہا تھا، جو چرچ کی ایک رہنما تھی۔ اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی کیونکہ وہ اپنے فرائض ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر پا رہی تھی، اور اسی لیے میرے رہنما نے مجھے اس کی مدد کرنے کے لیے کہا تھا۔ لیکن جب میں نے اس سے رابطہ کیا، تو اس نے مجھے بتایا کہ اس نے پہلے ہی میتھیو کو رفاقت کے لیے تلاش کر لیا تھا، اور میتھیو نے اس کے ساتھ خدا کےکلام کی شراکت کی تھی اور اس کا مسئلہ حل کرنے میں اس کی مدد کی تھی۔ اس سے مجھے لگا جیسے میں عضو معطل ہوں۔ میں بہت ناخوش تھا کہ میتھیو نے میرے کام میں مداخلت کی تھی۔ اس چرچ کا رہنما میری زیر نگرانی تھا۔ اور میں نہیں چاہتا تھا کہ لوگ یہ سوچیں کہ میں اپنا فرض پوری طرح ادا نہیں کر رہا اور مسائل حل نہیں کر پا رہا۔ جتنا میں نے اس کے بارے میں سوچا، مجھے اتنا ہی زیادہ غصہ آیا اور میں سچ مچ میتھیو کے ساتھ مزید شراکت داری نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں اپنے طور پر کام کرنا چاہتا تھا تاکہ اس طرح میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکوں۔ اس کے بعد میں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اس سے کترانے کی کوشش کی۔ ایک بار، میتھیو نے مجھ سے ایک ایسے مسئلے پر بات کرنے کو کہا جس پر ہم ایک اجتماع میں رفاقت کر رہے تھے۔ اس نے مجھے فون کیا اور ایس ایم ایس کیا، لیکن میں نے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کر دیا۔ میں اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ مجھ سے کام کے بارے میں سوال پوچھتا، تو میں فوری طور پر جواب نہ دیتا، اور جب اس نے مجھے اجتماع میں رفاقت کے لیے کہا، میں نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی اور اسے اپنے طور پر رفاقت کرنے کو کہا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا: ”بہرحال، جب تک آپ یہاں ہیں، بھائی اور بہنیں مجھ پر توجہ نہیں دیں گے۔ تو رفاقت کا کیا فائدہ؟“ ایک اجتماع کے دوران، میتھیو نے رفاقت کے بعد مجھ سے میری رائے پوچھی۔ میں نے سوچا کہ اس نے بہت لمبی رفاقت کی ہے اور وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو میں کہنا چاہتا تھا، اس لیے میں کافی ناخوش تھا۔ تو، میں نے اس سے کہا: ”آپ ایک متکبرانہ مزاج کے ساتھ رفاقت کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنی بدعنوان فطرت بے نقاب نہیں کی، اور صرف مبہم انداز میں اپنی فہم کی کچھ گفتگو کی۔ آپ نے صرف ایک خاکہ دیا، لیکن تفصیلات پر بات کرنے سے قاصر رہے۔“ میں جانتا تھا کہ میں نے جو کہا تھا وہ درست نہیں تھا – میں نے یہ جان بوجھ کر کہا تھا۔ میں صرف اس کی گرم جوشی کم کرنا چاہتا تھا، تاکہ وہ آئندہ اجتماعات میں زیادہ نہ بولے۔ جب وہ میرا حال چال پوچھنے یا دیگر چیزوں کے بارے میں پیغام بھیجے گا، تو میں جواب نہیں دوں گا۔ میں نے سوچا کہ تب اسے پتا چلے گا کہ میں اس کے ساتھ شراکت کرنا نہیں چاہتا۔ یہاں تک کہ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے پیغامات بھیجنا بند کردے۔ میں صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ چلا جائے اور مجھے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا کچھ موقع دے دے۔ میں بھی اس کی طرح اپنا فرض کل وقتی ادا کرنا چاہتا تھا، تاکہ جب بھی بھائی بہنوں کو میری ضرورت پڑے، میں ان کے لیے فوری طور پر حاضر ہوں گا۔ اس طرح وہ سب میرے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھیں گے۔ میں اپنی دنیاوی نوکری چھوڑ کر اپنے آپ کو پوری طرح اپنے فرض کے لیے وقف کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے روزی کمانے اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے اب بھی کام کی ضرورت تھی۔ میں کافی افسردہ تھا کہ میں میتھیو کی طرح اپنے فرض کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح وقف نہیں کر سکا میں نے یہاں تک سوچا: ”میں مبلغ کی حیثیت بھی چھوڑ سکتا ہوں۔ اس طرح مجھے میتھیو کے ساتھ شراکت نہیں کرنی پڑے گی۔ اگر میں تبادلہ کرواکرکسی مختلف فرض پر چلا جاؤں تو میں اس سے متاثر نہیں ہوں گا اور میں خود کو ممتاز کرنے کے قابل بھی ہو جاؤں گا۔“ لیکن جب میں نے حقیقت میں سبک دوش ہونے پر غور کیا، تو مجھے تھوڑا سا احساسِ جرم ہوا اور میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں۔ میں نے خُدا سے دعا کی، کہ مجھے میری موجودہ کیفیت سمجھنے میں مدد دے۔
میں نے خدا کے کلام کے ایک اقتباس پر غور کیا جو کہتا ہے: ”فرائض خدا کی جانب سے ملتے ہیں؛ وہ ذمہ داری اور حکم ہیں جو وہ انسان کو سونپتا ہے۔ تو پھر انسان ان کو کیسے سمجھے؟ ’چونکہ یہ میرا فرض ہے اور مجھے خدا کے ذریعہ دیا گیا حکم ہے، یہ میرا فرض اور ذمہ داری ہے۔ یہی درست ہے کہ مجھے اخلاقی طور پر اسے قبول کرنا چاہیے۔ میں اس کا انکار یا اسے رد نہیں کر سکتا؛ میں ان میں سے انتخاب کرکے چن نہیں سکتا۔ جو کچھ میرے حصے میں آتا ہے اسے یقیناً مجھے کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں انتخاب کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا – بات یہ ہے کہ مجھے انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وہ احساس ہے جو مخلوق کے اندر ہونا چاہیے‘“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ تیسرا حصہ)۔ خدا کے کلام کے ذریعے، مجھے احساس ہوا کہ ہمارے فرائض خدا کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں۔ مجھے اپنے فرائض ادا کرنے چاہییں اور اپنی ذمے داریاں نبھانی چاہییں۔ مجھے اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کرنے اور انتخابی بننے سے گریزچاہیے۔ مجھ میں یہ سمجھ ہونی چاہیے تھی۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، کیونکہ میتھیو سے آگے نکلنے کی میری شدید خواہش پوری نہیں ہوئی تھی، میں اپنا فرض ترک کرنا چاہتا تھا۔ یہ خدا کے لیے بہت تکلیف دہ تھا! میں نے اپنا فرض ذمے داری سمجھ کر ادا نہیں کیا، بلکہ اسے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کا ایک طریقہ، اور عزت اور تعریف سمیٹنے کا ایک ذریعہ سمجھا۔ میں اپنی نوکری چھوڑ کر پورا وقت اپنے فرض کو دینا چاہتا تھا۔ اس فرض کی ادائیگی سے خدا کو راضی کرنے کے لیے نہیں، بلکہ مرتبےکے لیے اپنے شریک کار سے مقابلہ کرنے اور اسے پیچھے چھوڑنے کے لیے۔ جب میں عملی پریشانیوں کی وجہ سے اپنا کل وقتی فرض انجام دینے کے قابل نہ ہوا، تو میں خود کو ممتاز کرنے کا موقع حاصل کرنے کے لیے ایک مختلف ڈیوٹی پر جانا چاہا۔ حقیقت نے مجھے دکھایا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ اصل میں اپنا فرض ادا کرنے کے لیے نہیں تھا، بلکہ میں مرتبہ پانے کے ایک موقع کے طور پر اپنا فرض استعمال کرتا تھا۔ خدا ایسا رویہ ناپسند کرتا ہے۔
بعد میں، مجھے خدا کا کچھ کلام مل گیا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”ظالم بنی نوع انسان! ساز باز اور دھوکا دہی، ایک دوسرے کے ساتھ چھینا جھپٹی، شہرت اور دولت کی کھینچا تانی، باہمی قتل وغارت – یہ سب کچھ کب ختم ہو گا؟ خدا کے کہے لاکھوں کلمات کے باوجود کسی بھی شخص نے عقل سے کام نہیں لیا۔ لوگ محض اپنے خاندان، بیٹوں اور بیٹیوں، اپنے روزگار، مستقبل کےامکانات، عہدہ، ڈینگ بازی اور پیسہ، روٹی، لباس اورنفس کی خاطر کام کرتے ہیں لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو صرف خدا کی خاطر کام کرے؟ حتیٰ کہ وہ لوگ جو خدا کے لیے کام کرتے ہیں ان میں سے بھی صرف چند ایک ہی خدا کو پہچانتے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر کام نہیں کرتے؟ کتنے ایسے ہیں جو اپنا عہدہ بچانے کے لیے دوسروں پر جبر نہیں کرتے یا کسی کی حق تلفی نہیں کرتے؟ اور اس طرح خدا لاتعداد بار مصلوب کیا جا چکا ہے اور بے شمار شقی القلب منصفوں نے خدا کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر صلیب پر میخوں سے جڑدیا ہے۔ ایسے کتنے لوگوں کو اس وجہ سے راست باز کہا جا سکتا ہے کہ وہ حقیقتاً خدا کی خاطرعمل کرتے ہیں؟“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ بدکاروں کو ضرور سزا ملے گی)۔ ”کچھ لوگ ہمیشہ خائف ہوتے ہیں کہ دوسرے ان سے بہتر اور اعلی ہیں، یہ کہ انھیں نظر انداز کر کے دوسروں کی عزت افزائی کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انھیں خارج کرتے ہیں۔ کیا یہ ان سے زیادہ باصلاحیت لوگوں سےحسد کا معاملہ نہیں ہے؟ کیا یہ رویہ خودغرضانہ اور حقارت آمیز نہیں ہے؟ یہ کس قسم کا مزاج ہے؟ یہ کینہ پروری ہے! صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچنا، صرف اپنی خواہشات پوری کرنا، دوسروں کا یا خدا کے گھر کے مفادات کا خیال نہ رکھنا – ایسے لوگوں کا مزاج برا ہوتا ہے اور خدا ان سے پیار نہیں کرتا۔ اگر واقعی تجھ میں خدا کی مرضی کا خیال رکھنے کی صلاحیت ہے تو تو دوسرے لوگوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کرنے کے قابل ہوگا۔ اگر تو کسی اچھے شخص کی صلاح دیتا ہے اور اسے تربیت حاصل کرنے اور فرض ادا کرنے دیتا ہے، اس طرح خدا کے گھر میں ایک قابل شخص کو شامل کر کے کیا تیرا کام آسان نہیں ہوگا؟ کیا تو اس فرض میں وفاداری کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترے گا؟ یہ خدا کے قریب ایک نیک عمل ہے؛ یہ ضمیر اورمجھداری کی وہ کمترین سطح ہے جو کسی قائد کے اندر ہونی چاہیے“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ آزادی اور حریت صرف اپنے بدعنوان مزاج کو ختم کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے)۔ خدا کے کلام کے ذریعے، میں نے اپنی موجودہ حالت سمجھی۔ خدا کہتا ہے، ”کچھ لوگ ہمیشہ خائف ہوتے ہیں کہ دوسرے ان سے بہتر اور اعلی ہیں، یہ کہ انھیں نظر انداز کر کے دوسروں کی عزت افزائی کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انھیں خارج کرتے ہیں۔ کیا یہ ان سے زیادہ باصلاحیت لوگوں سےحسد کا معاملہ نہیں ہے؟ کیا یہ رویہ خودغرضانہ اور حقارت آمیز نہیں ہے؟ یہ کس قسم کا مزاج ہے؟ یہ کینہ پروری ہے!“ یہ کلام سچ تھا اور اس نے میری اصل حالت بے نقاب کر دی۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے شریک کار نے اپنے فرض کے دوران میں مجھ سے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں، اور بھائیوں اور بہنوں کے مسائل حل کرنے میں بہتر تھا، میں نے بس یہ محسوس کیا کہ وہ مجھ سے بہتر ہے اور میں وہاں کبھی بھی خود کو اس سے ممتاز نہیں کر سکوں گا۔ اس لیے میں نے اس سے حسد کیا اور اس سے کنارہ کش ہوگیا اور اس کے ساتھ شراکت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر اس کے پیغامات نظر انداز کیے اور اس کی فون کالز کا جواب نہیں دیا۔ جب اس نے اپنے تجربے اور سمجھ بوجھ پر رفاقت کی، میں نے چرچ کی زندگی برقرار رکھنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا، اس کے بجائے اس کی خامیاں تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہاں تک کہ میں نے جان بوجھ کر اسے مغرور کہا اور اس پر حملہ کیا تاکہ اس کا جوش و خروش کم ہو جائے اور وہ خود کو ممتاز کرنا اور مجھ سے آگے بڑھنا چھوڑ دے۔ میں بہت بدنیت تھا۔ جب بھی مجھے اس کے ساتھ اپنا فرض انجام دینا پڑتا، میں بہت اذیت محسوس کرتا۔ میں ہمیشہ اس کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتا تھا اور اپنا سکون حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ خدا نے فرمایا: ”ظالم بنی نوع انسان! ساز باز اور دھوکا دہی، ایک دوسرے کے ساتھ چھینا جھپٹی، شہرت اور دولت کی کھینچا تانی، باہمی قتل وغارت – یہ سب کچھ کب ختم ہو گا؟“ کیونکہ شہرت اور رتبے کی میری خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی، اس لیے میں اپنے شریک کار سے نفرت کرنے لگا۔ میں صرف اس سے دور ہوجانا اور چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ میں اپنے طور پر کام کر سکوں۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے فرض سے سبک دوش ہونے کا سوچا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا بد نیت اور غیر انسانی تھا۔ میں ان درندوں سے مختلف نہیں تھا جو اپنے شکار کو مار گراتے ہیں، اپنے مفادات کی خاطر لڑنے اور پنجہ آزمائی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ میں نے صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچا، چرچ کے کام کے بارے میں نہیں۔ یہاں تک کہ چرچ کے کام میں تاخیر ہونے کی صورت میں بھی، مجھے پریشانی یا گھبراہٹ نہ ہوتی۔ میں کتنا خودغرض اور گھٹیا تھا! میں نے یہ بھی سوچا کہ میں میتھیو کے ساتھ سیدھی سادی اور متوازن شراکت کیوں نہیں کر سکتا۔ مجھے ادراک ہوا کہ میں نے اپنے شیطانی مزاج کی وجہ سے اپنے ایمان میں غلط راستے پر قدم رکھ دیا ہے۔ اگر میں نے سچائی کی جستجو نہیں کی اور اپنا بدعنوان مزاج ٹھیک نہ کیا، تو میں روح القدس کے کام سے محروم ہو جاؤں گا اور اندھیروں میں اتر جاؤں گا۔ میں نے کئی بار خدا سے دعا مانگی، کہ وہ مجھے اپنے آپ کو سمجھنے اور اپنا بدعنوان مزاج ٹھیک کرنے میں مدد کرے۔
پھر، میں نے خدا کے کلام کا ایک اقتباس دیکھا: ”مسیح مخالف کا نعرہ کیا ہے، خواہ وہ کسی بھی گروہ میں ہوں؟ ’مجھے مقابلہ کرنا چاہیے! مقابلہ! مقابلہ! مجھے بلند ترین اور طاقتور ترین ہونے کے لیے مقابلہ کرنا چاہیے!‘ یہ مزاج مسیح مخالف کا ہے؛ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے اہداف کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ شیطان کے پیادے ہیں اور وہکلیسیاکے کام میں میں خلل ڈالتے ہیں۔ مسیح مخالف کا مزاج ایسا ہے: وہ کلیسیا میں تلاش کرنا شروع کرتے ہیں کہ کون خدا پر برسوں سے ایمان لائے ہوئےہے اور اس کے پاس سرمایہ ہے، کون باصلاحیت ہے یا خصوصی مہار توں کا حامل ہے، کون زندگی میں داخلے کے لیے بھائیوں اور بہنوں کے لیے سودمند رہا ہے، کس کا احترام کیا جاتا ہے، کون مرتبے میں بڑا ہے، کس کے بارے میں بھائیوں اور بہنوں میں اچھی بات کی جاتی ہے، کس کے پاس زیادہ مثبت چیزیں ہیں۔ ایسے لوگ ان کے حریف ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جب بھی مسیح مخالف لوگوں کے ایک گروہ میں شامل ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ یہی کرتے ہیں: وہ حیثیت کے لیے مقابلہ کرتے ہیں، اچھی شہرت کے لیے مقابلہ کرتے ہیں، معاملات پر حتمی رائے اور گروہ میں فیصلے کرنے کی حتمی طاقت کے لیے مقابلہ کرتےہیں، جسے حاصل کرلینے کے بعد، انھیں خوشی ملتی ہے۔ ۔۔۔ یوں مسیح مخالف کا مزاج مغرور، گھناونااور غیر معقول ہوتا ہے۔ ان کے پاس نہ تو ضمیر ہوتا ہے نہ منطق اور نہ ہی حق کا ٹکڑا۔ مسیح مخالف کے اعمال و افعال میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس میں کسی عام آدمی کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے اور اگر کوئی ان سے سچائی کی رفاقت کرتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ توجو کہتا ہے وہ کتنا بھی درست کیوں نہ ہو، وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک چیز کے پیچھے بھاگنا پسند کرتے ہیں وہ شہرت اور رتبہ ہے، جسے وہ محترم سمجھتے ہیں۔ جب تک وہ حیثیت کے فوائد سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، وہ مطمئن رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں، ان کے وجود کی قدر یہی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ لوگوں کے کس گروہ میں شامل ہیں، انھیں لوگوں کو اپنی فراہم کردہ ’روشنی‘ اور ’گرمی‘، ان کی خاص صلاحیتیں، ان کی انفرادیت دکھانی ہوتی ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ انھیں یقین ہے کہ وہ خاص ہیں، وہ فطری طور پر سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ دوسروں سے بہتر سلوک کیا جانا چاہیے، انھیں لوگوں کی حمایت اور پذیرائی ملنی چاہیے، یہ کہ لوگ ان کی طرف دیکھیں، ان کی پوجا کریں – وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ان کا حق ہے۔ کیا ایسے لوگ ڈھیٹ اور بے شرم نہیں ہیں؟ کیا ایسے لوگوں کی کلیسیامیں موجودگی مصیبت نہیں ہے؟“ (کلام، جلد 4۔ مسیح کے مخالفوں کو بے نقاب کرنا۔ شق نہم: وہ صرف اپنے آپ کو ممتاز کرنے اور اپنے مفادات اور عزائم کو پورا کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کرتے ہیں؛ وہ کبھی بھی خدا کے گھر کے مفادات پر غور نہیں کرتے، اور یہاں تک کہ ان مفادات کو ذاتی شان کے بدلے بیچ دیتے ہیں (حصہ سوم))۔ خدا کے کلام کے ذریعے، میں اپنے اعمال کی سنگینی سے واقف ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ اپنے فرض میں شہرت، رتبے اور دوسروں کی تعریف کی تلاش میں، میں ایک مسیح مخالف رویے کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ میتھیو کی سچائی کی رفاقت بصیرت انگیز ہے، اس نے اپنے فرض کی انجام دہی میں نتائج حاصل کیے اور سب بہن بھائیوں نے اس کی تعریف کی اور سوالات لے کراس کے پاس گئےتو، میں نے اس سے حسد کیا۔ اس سے آگے نکلنے اور دوسروں کے دلوں میں رتبہ حاصل کرنے کے لیے، یہاں تک کہ میں نے اپنا فرض کل وقتی طور پر سرانجام دینے کے لیے ملازمت چھوڑنے کا سوچا۔ تاکہ جب کسی کو کسی بھی لمحے میری ضرورت ہو، ان کے مسائل حل کرنے کے لیے میں اس وقت وہاں دستیاب ہو سکوں۔ اس طرح دوسرے میرے بارے میں بہت اچھا سوچیں گے اور ان کے دلوں میں میرے ساتھی کے لیے اب کوئی خاص جگہ نہیں رہے گی۔ جب بھی میں نے میتھیو کے ساتھ فرض سرانجام دیا، مجھے ہمیشہ ایسا لگا جیسے میں اس کے سائے میں رہ رہا ہوں اور میرے پاس خود کو ممتاز کرنے کا کوئی موقع نہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ بھائیوں اور بہنوں کی تعریف کیسے سمیٹ لیتا ہے اور مجھے تو یہ بھی امید تھی کہ جب وہ گروپ چیٹ میں پیغامات بھیجے گا تو کوئی بھی اس کا جواب نہیں دے گا۔ اُس کی وجہ سے بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی میری طرف توجہ نہیں دیتا تھا، تو میں نے اپنا سارا وقت اس کے ساتھ لڑنے میں گزارا، اس امید پر کہ میں اس سے آگے نکل جاؤں گا اور بھائی اور بہنیں میری تعریف اور میری تکریم کریں گے۔ یہ وہ طرز عمل تھا جس کا میں اکثر شہرت اور رتبہ حاصل کرنے کی اپنی کوشش میں مظاہرہ کرتا تھا۔ جب میرا مقصد اور خواہش پوری نہ ہوئی، تو میں نے سوچا کہ میرے پاس اپنے آپ کو ممتاز کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، اور مجھے مبلغ کی حیثت ترک کر دینی چاہیے، یہ سوچ کر کہ مجھے ایک مختلف فرض میں اپنا نام کمانے کا موقع ملے گا۔ میں نے محسوس کیا کہ شہرت اور رتبے کے بارے میں میرا جنون قابو سے باہر ہے۔ میں اپنی شہرت اور رتبے کی محبت میں بالکل کسی مسیح مخالف کی طرح تھا – اس خواہش کی جڑیں میرے اندر بہت گہری تھیں، یہ میری فطرت میں داخل تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ جس راستے پر میں چل رہا تھا وہ انتہائی خطرناک تھا۔ خُدا کا مزاج اہانت سے پاک ہے – وہ راستباز ہے۔ اگر میں نے تبدیلی کی کوشش نہیں کی، اور چرچ کے کام کے بارے میں ذرا بھی سوچے بغیر صرف شہرت اور رتبے کے حصول پر توجہ مرکوز کی، تومجھے خدا کی طرف سے مسترد اور نکال باہر کیا جائے گا۔ میں نے اپنے اعمال سے شدید نفرت محسوس کی اور اب میں اپنے شریک کار کے ساتھ رتبے میں مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے خدا سے دعا مانگی، کہ وہ مجھے اپنے شیطانی مزاج کی بیڑیوں اور بندھنوں سے آزاد ہونے میں مدد کرے۔
تب میں نے خدا کے کلام کا یہ اقتباس دیکھا: ”قطع نظر اس کے کہ تیری تگ و دوکی سمت یا ہدف کیا ہے، اگر تو حیثیت اور وقار کے حصول پر غور نہیں کرتا ہے اور اگر تجھے ان چیزوں کوایک طرف رکھنا بہت مشکل لگتا ہے، پھر یہ زندگی میں تیرے داخلے کو متاثر کریں گے۔ جب تک تیرے دل میں حیثیت کی جگہ ہے، یہ تیری زندگی کی سمت اور ان اہداف کو مکمل طور پر قابو اور متاثر کرے گی جن کے لیے تو کوشش کرتا ہے، ایسی صورت میں تیرے لیے سچائی کی حقیقت میں داخل ہونا بہت مشکل ہو جائے گا، اپنے مزاج میں تبدیلی لانے کے بارے میں تو کہنا ہی کیا؛ خواہ تو بالآخر خدا کی تائیدحاصل کرنے کے قابل ہو، یقیناً، اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے مزید یہ کہ اگر تو کبھی بھی اپنی حیثیت کے لیے تگ و دو ایک طرف نہیں کر سکتا ہے تو یہ فرائض کی مناسب طریقے سے انجام دہی کی تیری صلاحیت کو متاثر کرے گا، جس کی وجہ سے تیرے لیے خدا کی قابل قبول مخلوق بننا بہت مشکل ہو جائے گا۔ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟ خدا لوگوں کے حیثیت کے پیچھے بھاگنے سے زیادہ کسی چیز سے نفرت نہیں کرتا، کیونکہ حیثیت کےلیے تگ و دوشیطانی رویہ ہے، یہ ایک غلط راستہ ہے، یہ شیطان کی بدعنوانی سے پیدا ہوا ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی مذمت خدا کرتا ہے اور یہ وہی چیز ہے جس کا فیصلہ خدا کرتا ہے اور اسے پاک کرتا ہے۔ خدا اس سے زیادہ حقیر کسی چیز کو نہیں سمجھتا جب لوگ حیثیت کے پیچھے بھاگتے ہیں اور پھر بھی تو حیثیت کے لیے ہٹ دھرمی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے، تو اسے بے انتہا پسند کرتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے، ہمیشہ اسے اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور فطرتاً، کیا یہ سب خدا کے مخالف نہیں ہیں؟ مقام کا تعین خدا کے ذریعہ لوگوں کے لیے نہیں کیا گیا ہے؛ خدا لوگوں کو سچائی، راستہ اور زندگی بخشتا ہے اور بالآخر انھیں خدا کی قابل قبول مخلوق، خدا کی ایک چھوٹی اور حقیر مخلوق بنا دیتا ہے – نہ کہ کوئی ایسا شخص جو باحیثیت اور باوقار ہو اور ہزاروں لوگو اس کی تعظیم کرتے ہوں اور اس طرح، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اسے کس نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، حیثیت کا تعاقب ایک بند گلی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ حیثیت کے تعاقب کے لیے تیرا عذر کتنا معقول ہے، اس کے باوجود یہ راستہ غلط ہے اور خدا اسے پسند نہیں کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تونے کتنے شدت سے کوشش کی ہے یا تونے کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے، اگر تو حیثیت کی خواہش رکھتا ہے تو خدا تجھے یہ نہیں دے گا؛ اگر یہ خدا کی طرف سے نہیں دیا گیا ہے تو تو اسے حاصل کرنے کی لڑائی میں ناکام ہوگا اور اگر تونے لڑائی جاری رکھی تو صرف ایک نتیجہ ہوگا: تو بے نقاب ہو جائے گا اور نکال دیا جائے گا، جو کہ ایک بند گلی ہے“ (کلام، جلد 4۔ مسیح کے مخالفوں کو بے نقاب کرنا۔ شق نہم: وہ صرف اپنے آپ کو ممتاز کرنے اور اپنے مفادات اور عزائم کو پورا کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کرتے ہیں؛ وہ کبھی بھی خدا کے گھر کے مفادات پر غور نہیں کرتے، اور یہاں تک کہ ان مفادات کو ذاتی شان کے بدلے بیچ دیتے ہیں (حصہ سوم))۔ خدا کے کلام کے ذریعے، میں نے دیکھا کہ رتبے کے حصول کی مسلسل کوشش نے نہ صرف میری فرض انجام دینے کی صلاحیت متاثر کی، اس نے مجھے مخلوق کے طور پر اہل ہونے سے بھی باز رکھا۔ کیونکہ مجھے ہمیشہ رتبے کی جستجو رہتی تھی، ہمیشہ میتھیو کو پیچھے چھوڑنے اور سب کی تعریف حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا، اور ہمیشہ مسابقت اور مقابلہ کرتا رہا، میں زیادہ سے زیادہ بدنیت اور عام انسانیت کے فقدان کا شکار ہوتا گیا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے شہرت اور رتبہ حاصل کرنا صحیح راستہ نہیں، اور یہ کس طرح تباہی کی طرف جانے والی ایک خدا مخالف سڑک ہے۔ چونکہ میں اپنے آپ کو ایک ایمان رکھنے والا اور مخلوق سمجھتا ہوں، مجھے سچائی کی تلاش پر توجہ دینی چاہیے اور شہرت اور رتبے کے حصول جیسی فضول چیز کے لیے جدوجہد چھوڑ دینی چاہیے۔ صرف اسی صورت میں، میں برائی کرنے اور خدا کی مخالفت کرنے سے بچ سکتا ہوں۔ تو میں نے خدا سے دعا مانگی، کہا: ”پیارے خدا! میں اپنی شیطانی فطرت پہچان گیا ہوں۔ شہرت اور رتبے کے ساتھ میرے جنون کی وجہ سے، میں اکثر میتھیو سے حسد محسوس کرتا ہوں اور اس کے ساتھ شراکت نہیں کرنا چاہتا۔ پیارے خدا! اب سے، میں تجھ سے توبہ کروں گا اور شہرت اور رتبے کی طلب نہیں کروں گا۔ میں صرف سچ کی تلاش کروں گا اور اپنا فرض بخوبی نبھاؤں گا۔ براہ کرم میری رہنمائی اور مدد کر، خدا۔“
اپنی عبادت کے دوران، میں خدا کے کلام کے اس اقتباس پر پہنچا: ”اپنے طرز عمل کے حوالے سے تمھارے اصول کیا ہیں؟ تمہیں اپنا طرز عمل اپنے مقام کے مطابق تشکیل دینا چاہیے، اپنے لیے درست مقام تلاش کرو اور وہ فرائض ادا کرو جو تمھیں انجام دینے چاہییں؛ صرف ایسا ہی وہ ہے جو سمجھدار ہے۔ مثال کے طور پر، ایسے لوگ ہیں جو کچھ مخصوص ہنر مندیوں کے ماہر ہیں اور اصولوں کی سمجھ رکھتے ہیں اور انھیں وہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اس میدان میں حتمی جانچ کرنی چاہیے؛ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تصورات دے سکتے ہیں اور بصیرت فراہم کر سکتے ہیں، دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی اپنے فرائض بہتر طور پر ادا کرنے میں مدد کرتے ہیں – پس ان کو تصورات فراہم کرنے چاہییں۔ اگر تو اپنے لیے درست مقام تلاش کر سکتا ہے اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کر سکتا ہے تو تو اپنا فرض پورا کررہا ہوگا اور تو خود کو اپنے مقام کے مطابق چلارہا ہوگا“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ وہ اصول جنہیں کسی کے طرز عمل کی راہنمائی کرنی چاہیے)۔ خدا کے کلام نے مجھے عمل کرنے کا راستہ دیا۔ میں نے سوچا: ”میں ایک عام آدمی ہوں – مجھے ایک سچی مخلوق بننے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ میں ثابت قدم رہوں، دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کروں اور اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنا فرض ادا کروں۔ بس یہی صحیح راستہ ہے۔“ میں نے سوچا کہ کیسے جب خدا نے آدم کو جانوروں کے نام رکھنے کا کہا، اس نے ان ناموں پر رضامندی ظاہر کی جو آدم نے بتائے تھے – اس نے یہ دکھانے کے لیے آدم کو رد نہیں کیا اور نہ یہ دکھانےکے لیے اپنی طرف سے نام سامنے رکھےکہ وہ کتنا عظیم ہے، بلکہ آدم کے انتخاب کو قبول کیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ خدا کی عاجزی اور پوشیدگی واقعی پیاری ہے۔ خدا کی ذات اعلیٰ ترین ہے، تمام مخلوقات کا خداوند، اور پھر بھی وہ عاجزی سے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو صرف ایک عام مخلوق تھا، لیکن میں ہمیشہ دکھاوا کرنا اور دوسروں کا احترام چاہتا تھا، اور ان لوگوں کو بھی دبانے کی کوشش کی جنہوں نے اپنے فرائض میں اچھے نتائج حاصل کیے وہ بھی اپنے رتبے اور ساکھ کی خاطر۔ میں تو بس بہت مغرور اور نا معقول تھا! مجھے اپنے کیے پر بہت پچھتاوا محسوس ہوا، چنانچہ میں توبہ کے لیے خدا کے حضور حاضر ہوا اور اس سے دعا کی، کہ وہ مجھے اپنے شریک کار کے سامنے خود کو بے نقاب کرنے کی جرات عطا کرے۔
بعد میں، میں نے اپنی ہمت یکجا کی اور میتھیو سے معافی مانگی، اپنا مسیح مخالف مزاج بے نقاب کیا جس کا شہرت اور رتبے کے لیے اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کی میری خفیہ خواہش سے اظہار ہوتا ہے۔ یہ عمل کرنے کے بعد، میں نے خود کو بہت زیادہ پرسکون محسوس کیا۔ بعد میں، میتھیو کو خدا کا کچھ کلام ملا جو میری حالت سے متعلق تھا۔ اور وہ میرے لیے واقعی مددگار تھا۔ میں خدا کا بہت شکر گزار تھا! مَیں نے خدا سے قسم کھائی کہ میں اُس کے ہی حکم پر عمل کروں گا۔ اس کے بعد، میں نے اپنے ساتھی کے پیغامات نظر انداز کرنے چھوڑ دیے۔ اور اسے ان تمام منصوبوں کی تازہ ترین معلومات فعال طور پر مہیا کرنا شروع کر دیں جن کے لیے میں ذمے دار تھا، تاکہ وہ میرے کام سے باخبر رہے اور میری نگرانی اور مدد کر سکے۔ ہم نے اپنے کام پر تبادلہ خیال کیا اور اجتماعات اور رفاقت میں شراکت کی۔ ہم نے ایک دوسرے کی تکمیل کی اور ایک ٹیم کے طور پر چرچ کا کام جاری رکھا۔ خدا کا شکر ہے!
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟