ناکامیوں اور رکاوٹوں کے ذریعے ترقی پانا

April 25, 2023

میں نے قادرِ مطلق خدا کا آخری ایام کا کام دسمبر 2020 میں قبول کیا کچھ مہینوں کے بعد، مجھے کلیسیا کی راہنما کے طور پر چن لیا گیا۔ کلیسیا میں کرنے کے کام اور حل طلب مسائل کی بہتات تھی۔ میں جوش و خروش سے اس میں جُت گئی۔ کچھ عرصے بعد، میں کلیسیا کے کام سے تھوڑی مزید مانوس ہوگئی، لیکن مجھے اب بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ بہت سے نووارد اجتماعات میں باقاعدگی سے حاضر نہیں ہورہے تھے۔ بعض آن لائن افواہوں سے متاثر ہورہے تھے، کچھ خوابوں کی سچائیوں کی حقیقت سمجھ نہیں پاتے تھے اور وہ غیر حل شدہ مذہبی تصورات رکھتے تھے، اور کچھ اپنے کام میں بہت مصروف ہونے کی وجہ سے باقاعدگی سے اجتماعات میں شریک نہیں ہو پاتے تھے۔ ان مسائل کا سامنا کرتے ہوئے، میں نے ان کے ساتھ خدا کی مرضی پر رفاقت کے لیے سخت محنت کی تاکہ ان کی مشکلات میں ان کی مدد کی جا سکے، لیکن ان کے مسائل پھر بھی حل نہ ہوئے۔ میں حقیقتاً مایوس تھی۔ میں بار بار اپنے آپ سے پوچھتی میری تمام محنت ابھی تک نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوئی؟ خدا ہماری کلیسیا پر برکت کیوں نہیں کر رہا؟ بھائیوں اور بہنوں کو بہت سے مسائل درپیش تھے اور ان کے ساتھ میری کئی رفاقتیں ناکام ہوچکی تھیں۔ شاید میں قیادت کے لیے اتنی موزوں نہیں تھی؟ میں نے خود کو ملامت کی: اس سب کی وجہ میں تھی۔ اگر میں ذمہ داری قبول کرتی اور استعفیٰ دے دیتی تو کوئی اور راہنما بن سکتا تھا، تب کام زیادہ کامیاب ہو جاتا۔ میں اپنے فرض کی ادائیگی میں خود کو پست حوصلہ اور غیر فعال محسوس کرنے لگی، بس برطرف ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ حتیٰ کہ میں نے سوچا کہ خدا یہ مشکلات مجھے بے نقاب کرنے اور مجھے ناکام کرنے کے لیے پیدا کر رہا تھا، اور وہ غالباً پہلے ہی مجھے چھوڑ چکا تھا۔ اس خیال نے مجھے ڈرا دیا۔ کیا خدا نے مجھے دھتکار دیا تھا؟ میں دعا اور جستجو کررہی تھی لیکن میں اب بھی خدا کی مرضی نہیں سمجھ پا رہی تھی۔ یہ خیال کہ خدا مجھے دھتکار چکا ہے، وقتاً وقتاً ابھرتا رہا۔ میں نے خود کو ہمیشہ اداس، تھکی ہوئی اور کمزور محسوس کیا۔ میں حقیقتاً خوف زدہ تھی، اور محسوس کرتی تھی کہ میں روح القدس کے کام سے محروم ہوچکی ہوں۔

کلیسیا اس دوران چند ٹیم لیڈرز کی کمی کا شکار تھا، لہٰذا سپروائزر نے چند نئے آنے والوں کی سفارش کی۔ میں نے معاملات پر زیادہ توجہ دیے بغیر بس براہ راست انھیں تعینات کردیا۔ پہلے تو سب نے کہا کہ وہ فریضہ سنبھالنا چاہتے ہیں، لیکن جب انھوں نے باضابطہ آغاز کیا، ایک نے کہا کہ اسے کام کرنا ہے اور وہ مصروف ہے، اس لیے وہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہے، اور ایک دوسرے نے کہا کہ وہ خاندانی معاملات کی وجہ سے اجتماعات میں دیر سے آئے گا اور وہ بھی کام نہیں کر سکے گا۔ میں نے بالآخر فیصلہ کیا کہ فی الحال وہ ٹیم لیڈر کے طور پر پروان چڑھانے کے لیے موزوں نہیں تھے۔ میں نے وہ مشکلات حل کرنے کے لیے سخت محنت کی جو مجھے کام میں درپیش تھیں، لیکن کچھ مدت تک مجھے کوئی نتیجہ نہیں ملا۔ اس وقت، میں واقعی وہ تمام ناکامیاں برداشت کرنے کے قابل نہیں تھی۔ میں واقعی منفی تھی اور میں آنے والے ہر نئے دن کا سامنا کرنے سے خوف زدہ تھی۔ میں اب کلیسیا میں کام نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ میں نے بہت کام کیا لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں اس لیے ان حالات کا سامنا کر رہی ہوں کیونکہ خدا مجھے ایک نااہل شخص کے طور پر بے نقاب کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے اس قسم کی صورت حال میں ڈوبنا گوارا نہیں تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ مجھے اس وجہ سے بے نقاب کیا جائے اور دھتکارا جائے کہ میں اپنے فریضے میں نتائج حاصل نہیں کرپارہی تھی۔

ایک بار اپنی عبادت میں، مجھے "ذمہ داری قبول کرنے اور مستعفی ہونے کے اصول" پڑھنے کا موقع ملا: "کوئی بھی جھوٹا رہنما یا کارکن جو سچائی کو قبول نہیں کرتا، جو عملی کام نہیں کر سکتا، اور جو کچھ عرصے سے روح القدس کے کام سے محروم رہا ہے، اسے ذمہ داری قبول کرنا چاہیے اور مستعفی ہونا چاہیے" (سچائی پر تعمیل کے 170 اصول)۔ اسے پڑھ کر مجھے اور بھی منفی احساس ہوا۔ میں کیا کروں؟ میں نے کلیسیا کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا، اس لیے میں ایک جھوٹی راہنما تھی۔ کیا میں ذمہ داری قبول کر کے مستعفی ہو جاؤں تاکہ کسی قابل شخص کو راہنما بننے کا موقع دیا جا سکے؟ میں پہلے ہی تین ماہ سے کلیسیا کا کام کر رہی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں وہ مسائل حل نہیں کرسکی جو کلیسیا میں موجود تھے۔ اس صورتِ حال میں، میں ابھی تک خدا کی مرضی نہیں سمجھ سکی اور میں نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔ حتیٰ کہ میں خدا کو بھی غلط سمجھ رہی تھی۔ مجھے فکر تھی کہ دوسرے لوگ سوچیں گے کہ میں بہت ہی منفی ہوں، مجھے ڈر تھا کہ وہ استعفیٰ دینے کا خیال ذہن میں رکھنے پر ڈانٹ پھٹکار کریں گے۔

میں نے ایک بار ایک اجتماع میں خدا کے کلام میں یہ پڑھا: "تو ایک عام آدمی ہے، تجھے کئی ناکامیوں سے گزرنا پڑے گا، کئی حیرانی کے ادوار، فیصلے کی کئی غلطیوں اور کئی تبدیلیوں سے گزرنا پڑے گا۔ یہ تیرے بدعنوان مزاج، تیری کمزوریوں اور خامیوں، تیری جہالت اور بے وقوفی کو پوری طرح سے بے نقاب کر سکتا ہے، تجھے پھر سے اپنا جائزہ لینے اور خود کو جاننے کے قابل بناتا ہے اور خدا کے قادر مطلق ہونے اور مکمل حکمت اور اس کے مزاج کا علم حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ تو اس سے مثبت چیزیں حاصل کرے گا اور سچائی کو سمجھے گا اور حقیقت میں داخل ہوگا۔ تیرے تجربے کے درمیان بہت کچھ ایسا ہوگا جو تیری مرضی کے مطابق نہیں ہوگا، جس کے خلاف تو خود کو بے اختیار محسوس کرے گا۔ ان کے ساتھ، تجھے تلاش کرنا اور انتظار کرنا چاہیے؛ تجھے ہر معاملے کا جواب خدا سے حاصل کرنا چاہیے اور تجھے اس کے کلام سے ہر معاملے کے بنیادی جوہر اور ہر قسم کے شخص کے جوہر کو سمجھنا چاہیے۔ ایک عام، معمولی انسان کا برتاؤ ایسا ہی ہوتا ہے" (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ خدا کے کلام کی قدر کرنا خدا پر ایمان کی بنیاد ہے)۔ خدا ناقابل یقین حد تک حکمت والا ہے میں نے ایک نیا فہم حاصل کیا کہ خدا کیسے کام کرتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہر کسی کو اپنے فرض کے دوران میں کچھ ناکامیوں اور رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے، یہ خدا کی مرضی تھی کہ میں اپنی بدعنوانی رفع کرنے کے لیے ان سب کے ذریعے سچائی تلاش کروں۔ میں نے اپنے فریضے میں کچھ مشکلات کا سامنا کیا اور کچھ ناکامیوں کا مشاہدہ کیا، لیکن میں نے سچائی یا خدا کی مرضی تلاش نہیں کی۔ میں نے ہمیشہ استعفیٰ دینے کے بارے میں سوچا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ میں نے اپنے فریضے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی اور نہ ہی ایسا کچھ کیا جو ایک راہنما کو کرنا چاہیے۔ میں نے اپنی اصل حالت کے بارے میں دوسروں کو بتانے کی بھی جرآت نہیں کی۔ میں واقعی جاہل تھی۔ میں نے خدا کی مرضی نہیں سمجھی یا یہ کہ خدامیرے ساتھ ایسا کیوں ہونے دے گا۔ میں نے خدا کے کلام سے دیکھا کہ میں محض ایک عام فرد تھی کہ اپنے فریضے میں کچھ مشکلات اور ناکامیوں کا سامنا کرنا میرے لیے فطری بات تھی۔ اس میں خدا کی مرضی تھی۔ تو، میں نے اپنی تازہ صورتِ حال کے بارے میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بات کی اور ان سے مدد طلب کی۔ میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ میں نے ذمہ داری قبول کرنے اور استعفیٰ دینے کے بارے میں غور کیا تھا۔ انھوں نے مجھے حقارت سے نہیں دیکھا، بلکہ انھوں نے میری مدد کی اور میری حوصلہ افزائی کی اور خدا کے کلام پر رفاقت کی۔ میں واقعی متاثر ہوئی تھی۔

انھوں نے مجھے قادر مطلق خدا کے کچھ کلمات پڑھ کر سنائے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، "خدا کے کام کا تجربہ کرنے کے دوران، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تو کتنی بار ناکام ہوا ہے، گرا ہے، چھانٹا گیا ہے، تجھ سے نمٹا گیا ہے یا تو بے نقاب ہوا ہے، یہ بری چیزیں نہیں ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ تجھے کس طرح چھانٹا گیا ہے یا تجھے سے کیسے نمٹا گیا یا یہ راہنماؤں، کارکنوں یا تیرے بھائیوں یا بہنوں کے ذریعہ کیا گیا ہے، یہ سب اچھی چیزیں ہیں۔ تجھے یہ یاد رکھنا چاہیے: اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو کس قدر تکلیف میں ہیں، دراصل تو فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ کوئی بھی تجربہ کار شخص اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔ خواہ کچھ بھی ہو، کاٹا جانا، نمٹا جانا یا بے نقاب ہونا ہمیشہ اچھی چیز ہے۔ یہ مذمت نہیں ہے۔ یہ خدا کی نجات اور تیرے لیے اپنے آپ کو جاننے کا بہترین موقع ہے۔ یہ تیری زندگی کے تجربے میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس کے بغیر، تیرے پاس اپنی بدعنوانی کی سچائی کو سمجھنے کا نہ تو موقع، حالت اور نہ ہی تناظر ہوگا۔ اگر تو واقعی سچائی کو سمجھتا ہے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی فاسد چیزوں کو سامنے لانے کے قابل ہے، اگر تو انھیں صاف پہچان سکتا ہے تو یہ اچھی بات ہے، اس نے زندگی میں داخلے کا ایک بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے اور مزاج میں تبدیلی کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ خود کو صحیح معنوں میں جان پانا تیرے لیے اپنے طریقوں کو درست کرنے اور ایک نیا شخص بننے کا بہترین موقع ہے۔ یہ تیرے لیے نئی زندگی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ جب تو خود کو صحیح معنوں میں جان جائے گا تو تو دیکھ سکے گا کہ جب سچائی کسی کی زندگی بن جاتی ہے تو یہ واقعی ایک قیمتی چیز ہے اور تجھے سچائی کی پیاس ہوگی، سچائی پر عمل کرے گا اور اس کی حقیقت میں داخل ہوگا۔ یہ اتنی بڑی چیز ہے! جب بھی تو ناکام ہوتا ہے یا گر جاتا ہے تو اگر تو اس موقع کو حاصل کر سکتا ہے اور دلجمعی کے ساتھ اپنے آپ پر غور و فکر کر سکتا ہے اور اپنے بارے میں سچا علم حاصل کر سکتا ہے، پھر منفیت اور کمزوری کے درمیان تو دوبارہ کھڑا ہونے کے قابل ہوگا۔ اس دہلیز کو پار کرنے پر تو ایک بڑا قدم اٹھانے اور سچائی میں داخل ہونے کے قابل ہوگا" (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ سچائی حاصل کرنے کے لیے قریبی لوگوں، معاملات اور چیزوں سے سیکھنا چاہیے)۔ "خدا کی جانب سے بنی نوع انسان کی نجات ان لوگوں کی نجات ہے جنھیں سچائی سے محبت ہے، ان کے ایک حصے کی نجات ہے جس میں ارادہ اور عزم ہے اور ان کے اس حصے کی نجات ہے جو ان کے دلوں میں سچائی اور راستبازی کی تڑپ والا حصہ ہے۔ ایک شخص کا عزم اس کے دل کا وہ حصہ ہے جو راستبازی، نیکی اور سچائی کی آرزو رکھتا ہے اور باضمیر ہے۔ خدا لوگوں کے اس حصے کو بچاتا ہے اور اس کے ذریعے سے، وہ ان کے بدعنوان مزاج کو تبدیل کر دیتا ہے تاکہ وہ سچائی کو سمجھیں اور اسے حاصل کریں، تاکہ ان کی بدعنوانی صاف ہو جائے اور ان کی زندگی کا مزاج بدل جائے۔ اگر تیرے اندر یہ چیزیں نہیں ہیں تو تجھے بچایا نہیں جا سکتا ہے۔ ۔۔۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ پطرس ایک پھل ہے؟ کیونکہ اس میں قابل قدر چیزیں ہیں، وہ چیزیں جو کامل کیے جانے کے قابل ہیں۔ اس نے تمام چیزوں میں سچائی تلاش کی، پرعزم تھا اور پختہ ارادہ رکھتا تھا؛ اس کے پاس منطق تھی، مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھا اور اپنے دل میں سچائی سے محبت کرتا تھا؛ اس نے ہر چیز کو یوں ہی جانے نہیں دیا اور وہ ہر چیز سے سبق سیکھنے کے قابل تھا۔ یہ سب مستحکم نکات ہیں۔ اگر تیرے پاس ان میں سے کوئی بھی مضبوط نکتہ نہیں ہے تو اس کا مطلب مصیبت ہے۔ تیرے لیے سچائی کا حصول، بچنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر تو یہ نہیں جانتا کہ کس طرح تجربہ کرنا ہے یا تیرے پاس تجربہ نہیں ہے، تو تو دوسروں کی مشکلات حل کرنے سے قاصر ہوگا۔ کیونکہ تو خدا کے کلام پر عمل کرنے اور اس کا تجربہ کرنے سے قاصر ہے اور تجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے کہ تیرے ساتھ کچھ ہونےپرتجھے کیا کرنا ہے اور تو پریشان ہو جاتا ہے – آنسو بہاتا ہے – جب تجھ پر پریشانی آتی ہے اور تو منفی ہو جاتا ہے اور جب تجھے تکلیف ہوتی ہے، معمولی دھچکا لگتا ہے تو تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور درست رد عمل دینے سے ہمیشہ کے لیے قاصر رہتا ہے – ان سب چیزوں کی وجہ سے، تیرے لیے زندگی میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے" (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ تیسرا حصہ)۔ یہ پڑھنے کے بعد، ایک بہن نے مجھے رفاقت بحث میں شریک کیا: اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم کس طرح کی رکاوٹوں اور ناکامیوں کا سامنا کرتے ہیں، ہمیں دعا کرنی چاہیے اور اللہ کی مرضی کی جستجو کرنا چاہیے، سچائی اور اپنے فریضے پر ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ اپنے فریضے پر ہمت ہارنا مسئلے کے حل کا راستہ نہیں ہے۔ "صرف مشکلات اور مسائل کے ذریعے، جو اپنے فرائض میں ہمیں درپیش ہوتے ہیں ہماری بدعنوانی اور ہماری خامیاں آشکار ہوتی ہیں اور ہم اپنے آپ کو صحیح معنوں میں جان سکتے ہیں۔ ان تجربات کے سوا، ہمارے لیے اپنی بدعنوانی اور کوئی کوتاہی جاننے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ تب ہم کیسے تبدیل ہوسکتے ہیں؟ لہٰذا، ناکامی کا سامنا کرنا اور ٹھوکر کھانا کوئی بری چیز نہیں ہے۔ وہی وقت ہے جب ہمیں سچائی کی جستجو کرنی چاہیے اور سبق سیکھنا چاہیے – ہم خدا کو غلط نہیں سمجھ سکتے۔ جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہو، اگر ہم فقط استعفیٰ دے دیں، اپنا فریضہ چھوڑ دیں، تو ہم خدا کے کام کے تجربے اور نجات کی سعی کیسے کریں گے؟ ہمارے پاس کیا گواہی ہوگی؟ خدا ہم سے کچھ زیادہ کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اگر مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہم پُر عزم ہوں، سچے دل سے دعا مانگیں اور سچائی کی جستجو کریں، تو خدا ہماری راہنمائی اور مدد کرے گا۔" سسٹر کی یہ رفاقت سننا میرے لیے واقعی آگہی بخش تھا۔ مجھے ادراک ہوا کہ ناکامیوں اور ٹھوکر کھانے کا تجربہ خدا کی محبت ہے، اور یہ میرے لیے سچائی کی جستجو اور ایک سبق سیکھنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ میں نے سوچا کہ پطرس نے اپنی پوری زندگی میں کس طرح بہت ساری آزمائشوں، تزکیوں، رکاوٹوں اور ناکامیوں کا تجربہ کیا تھا۔ بعض اوقات وہ جسمانی کمزوری کا شکار ہوجاتا، مگر وہ کبھی خدا پر ایمان سے محروم نہیں ہوا۔ اس نے سچائی کی پیروی اور خدا کی رضا کی جستجو جاری رکھی، اس میں جو کوتاہیاں تھیں ان کا ازالہ کیا۔ آخر میں اس نے سچائی سمجھ لی اور خدا کو جان لیا، اور خدا کے لیے اطاعت اور محبت حاصل کرلی۔ جب مجھے رکاوٹیں اور ناکامیاں درپیش ہوں تو، مجھے خدا کو غلط سمجھنے اور قصوروار ٹھہرانے کے بجائے پطرس کی طرح مضبوط اور پُرعزم بننا چاہیے، خدا کے روبرو دعا اور یہ غور کرتے ہوئے کہ مجھ میں کیا کمی ہے اس کی مرضی کی جستجو کرنا چاہیے۔

ایک بار اپنی عبادت میں، میں نے خدا کے کلام کا ایک اقتباس پڑھا جس نے خدا کی مرضی سمجھنے میں میری کچھ مدد کی۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، "لوگوں کو چاہیے کہ وہ خدا کی باتوں پر دھیان دینا اور اس کی مرضی کو سمجھنا سیکھیں۔ وہ خدا کو غلط نہ سمجھیں۔ درحقیقت، بہت سے معاملات میں، لوگوں کی تشویش ان کے مفادات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ عام طور پر، یہ خوف ہوتا ہے کہ انھیں کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، 'کیا ہو اگر خدا میرے راز فاش کر دے، مجھے نکال دے اور مجھے رد کر دے؟' یہ خدا کے حوالے سے تیری غلط تشریح ہے؛ یہ صرف تیری سوچ ہے۔ تجھے خدا کا ارادہ معلوم کرنا ہوگا۔ وہ لوگوں کو نکالنے کے لیے ان کے راز فاش نہیں کرتا۔ لوگوں کو ان کی کوتاہیوں، غلطیوں اور ان کی فطرت کے جوہر سے پردہ اٹھانے، انھیں اپنے آپ کو پہچاننے اور سچی توبہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے ان کے راز فاش کیے جاتے ہیں؛ جیسے، لوگوں کے راز فاش کرنا ان کی زندگیوں کو بہتر کرنے کے لیے ہے۔ خالص فہم کے بغیر، لوگ خدا کی غلط تشریح کرتے ہیں اور منفی اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ وہ مایوسی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ درحقیقت، خُدا کے ذریعہ راز فاش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو باہر نکال دیا جائے گا۔ یہ تجھے علم عطا کرنے اور تجھ سے توبہ کرانے کے لیے ہے۔ اکثر اوقات، چونکہ لوگ باغی ہوتے ہیں اور جب وہ بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں تو مسائل کے حل کی تلاش کرنے کے لیے سچائی کی تلاش نہیں کرتے، ایسے میں خدا کے ذریعہ مودب کیا جانا لازمی ہے اور اس طرح کئی بار، وہ لوگوں کے راز فاش کرتا ہے، ان کی بدصورتی اور قابل رحم حالت کو بے نقاب کرتا ہے، انھیں خود کو جاننے کی اجازت دیتا ہے، جس سے ان کی زندگی کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔ لوگوں کے راز فاش کرنے کے دو مختلف مضمرات ہیں: فاسق لوگوں کے لیے، راز فاش ہونے کا مطلب ہے کہ وہ نکالے گئے ہیں۔ وہ لوگ جو سچائی کو قبول کرنے کے قابل ہیں ان کے لیے یہ نصیحت اور تنبیہ ہے؛ انھیں خود پر غور کرنے، اپنی حقیقی حالت دیکھنے کا موقع دیا گیا ہے اور اب وہ بے راہ روی اور لاپروئی اختیار نہیں کریں گے، کیونکہ اس روش کو جاری رکھنا خطرناک ہوگا۔ لوگوں کے راز اس طرح فاش کرنے کا مطلب ان کی یاددہانی ہے، تاکہ جب وہ اپنا فرض ادا کریں، تو یہ سوچتے ہوئے کہ انھوں نے قابل قبول حد تک اپنا فرض ادا کر دیا ہے، وہ وسوسے کا شکار اور لاپروا نہ ہوں، بدتمیزی نہ کریں،ذرا سا موثر ہونے پر مطمئن نہ ہو جائیں – جب در اصل، خدا کے حکم کے مطابق ان کی جانچ کی جاتی ہے تو وہ بہت پیچھے ہوتے ہیں، پھر بھی وہ مطمئن ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں، خدا لوگوں کو ضابطے میں لائے گا، تنبیہ کرے گا اور ان کی یاددہانی کرے گا۔ بعض اوقات، خُدا ان کی بدصورتی کو ظاہر کرتا ہے – جس کا مقصد واضح طور پر ایک یاد دہانی ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں تجھے اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے: اس طرح اپنا فرض ادا کرنا کافی نہیں ہے، اس میں سرکشی شامل ہے، اس میں بہت زیادہ منفی عنصر شامل ہے، یہ مکمل طور پر غفلت ہے اور اگر تو نے توبہ نہیں کی تو تجھے سزا دی جائے گی۔ جب خدا تجھے ضابطے میں لاتا ہے اور تیرے راز فاش کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تجھے نکال دیا جائے گا۔ اس معاملے کو صحیح طریقے سے دیکھنا چاہیے۔ اگر تجھے نکال بھی دیا جائے تو تجھے اسے قبول کرنا چاہیے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہیے اور غور و فکر کرنے اور توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے" (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ صرف سچائی پر عمل کرنے اور خدا کی اطاعت سے ہی کسی کے مزاج میں تبدیلی آ سکتی ہے)۔ خدا کے کلام نے مجھے دکھایا کہ لوگوں کو بے نقاب کرنے میں اس کا مقصد انھیں نکال باہر کرنا نہیں ہے، بلکہ انھیں ان کی بدعنوانی اور کوتاہیوں کی پہچان کروانا ہے، تاکہ وہ اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سچائی کی جستجو کرسکیں اور زندگی میں زیادہ تیزی سے ترقی کرسکیں۔ میں نے خود پر غور شروع کیا۔ مختلف مشکلات اور مسائل کا سامنا کرتے ہوئے، میں واقعی خدا کی مرضی پر غور اور جستجو یا اپنے مسائل کے بارے میں سیکھنے کے لیے خود غور نہیں کرتی تھی۔ میں نے صرف سوچا کہ خدا ان حالات کا استعمال مجھے بے نقاب کرنے اور مجھے نکال باہر کرنے کے لیے کر رہا ہے، کہ میں بطور راہنما موزوں نہیں تھی اور مجھےاستعفیٰ دے دینا چاہیے۔ میں خدا کو غلط سمجھ رہی تھی۔ تب مجھے ادراک ہوا کہ کام میں بہت سے مسائل حل نہ ہونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ میں دل و جان سے اپنی ڈیوٹی نہیں کررہی تھی۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ مجھے اتنے سارے کام کرنے ہیں، لیکن جب میں کام کررہی ہوتی تھی تو میرے پاس کوئی سمت یا اہداف نہیں ہوتے تھے۔ میں نتائج کی جستجو کیے بغیر بس جو ذہن میں آتا کر ڈالتی تھی۔ بعض لوگ افواہوں سے گمراہ ہوئے اور میں نے جستجو نہیں کی کہ ان کے تصورات زائل کرنے کے لیے مجھے سچائی کے کس پہلو پر رفاقت کرنا چاہیے تاکہ وہ ان افواہوں کی اصلیت سمجھ سکیں اور سچائی کی راہ پر مضبوطی سے جمے رہیں۔ اور اس کے لیے لوگوں کو پروان چڑھانے میں، میں نے اصولوں کی جستجو یا ان کے اصل حالات کی واضح سمجھ حاصل کر نے کی کوشش نہیں کی، بلکہ میں نے آنکھیں بند کر کے ایسا کیا۔ نتیجے کے طور پر، میں نے اس معاملے میں بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ نئے آنے والوں کو سیراب کرنے میں، میں نے اس پر پیشگی غور نہیں کیا کہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے میں سچائی کے کن پہلوؤں پر ان سے رفاقت کرسکتی ہوں، لہذا میں نے اس معاملے میں بھی کوئی نتائج حاصل نہیں کیے تھے۔ اگرچہ سطحی طور پر دکھائی دیتا کہ میں محنت کر رہی تھی، تاہم میں توجہ نہیں دے پا رہی تھی اور میں ہمارے کام میں مسائل کا بروقت انداز میں خلاصہ نہیں کررہی تھی جس کا مطلب ہے کچھ بھی انجام نہیں دیا گیا۔ اور نہ صرف میں اپنے آپ پر غور کرنے اور سمجھنے سے قاصر رہی بلکہ میں ان سچائیوں کی جستجو میں بھی ناکام رہی جن میں مجھے داخل ہونا چاہیے تھا۔ ذمہ داری خدا کے سر پر ڈال دینا میرا پہلا ردِعمل تھا، قیاس لڑانا کہ وہ مجھے جان بوجھ کر بے نقاب کر رہا تھا تاکہ میں بری دکھائی دوں۔ میں ہمیشہ بڑبڑاتی رہتی تھی، اور ناکامیوں اور رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی، بلکہ صرف یہ چاہتی تھی سب کچھ آسانی سے مل جائے تاکہ ہر چیز ہموار انداز میں رواں دواں رہے۔ معمولی سی مشکل پر بھی میں غلط سمجھتی اور خدا کو قصور وار ٹھہراتی تھی۔ میں خدا کے کام کا تجربہ کیسے کر سکتی ہوں اور اپنا فریضہ بخوبی نبھا سکتی ہوں؟ میں اس قدر نامعقول تھی۔ ایک مخلوق کو اس طرح عمل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ادراک ہونے پر مجھے بہت زیادہ پچھتاوا ہوا اور میں نے خدا سے ایک دعا کی: "خدایا، تُو نے یہ صورتِ حال میری تربیت کے لیے وضع کی تاکہ مجھے زندگی میں بڑھنے کا موقع دیا جا سکے لیکن میں نے تیری مرضی نہیں سمجھی – میں نے تجھے غلط سمجھا۔ میں کتنی سرکش ہوں۔ براہ کرم میری راہنمائی کر اور اپنا بدعنوان مزاج سمجھنے میں میری مدد فرما۔" اس کے بعد میں نے قادرِ مطلق خدا کے کلام کا ایک اقتباس پڑھا جس نے خود کو سمجھنے میں میری مدد کی۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، "میں ان لوگوں سے مسرور ہوتا ہوں جو دوسروں کے بارے میں مشکوک نہیں ہیں اور میں ان لوگوں کو پسند کرتا ہوں جو آسانی سے سچائی قبول کرتے ہیں۔ میں ان دو قسم کے لوگوں کا بڑا احترام کرتا ہوں کیونکہ میری نظر میں وہ ایمان دار لوگ ہیں۔ اگر تم فریبی ہو تو تم سب لوگوں اور معاملات کے بارے میں محتاط اور شک کرنے والے ہو گے اور اس طرح مجھ پر تمہارا ایمان شک کی بنیاد پر قائم ہو گا۔ میں اس طرح کا ایمان کبھی تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ سچے ایمان کی کمی کی وجہ سے، تم سچی محبت سے اور بھی زیادہ محروم ہو۔ اور اگر تم خدا پر شک کرنے اور اس کے بارے میں اپنی مرضی سے قیاس کرنے کے ذمہ دار ہو تو تم بلا شبہ سب لوگوں میں سب سے زیادہ فریبی ہو گے۔ تم قیاس کرتے ہو کہ کیا خدا انسان کی طرح ہو سکتا ہے: ناقابل معافی گناہ گار، معمولی کردار کا، غیر جانبداری اور دلیل سے عاری، انصاف کے احساس سے مبرا، شیطانی ہتھکنڈوں کا عادی، مکار اور دھوکے باز، برائی اور تاریکی سے خوش ہونے والا، وغیرہ۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اس طرح کے خیالات رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خدا کے بارے میں ذرا سی بھی معلومات نہیں ہیں؟ اس طرح کا ایمان گناہ سے کسی طرح کم نہیں ہے! یہاں تک کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ مجھے خوش کرتے ہیں وہ بالکل خوشامد کرنے والے اور چاپلوسی کرنے والے ہیں اور جو لوگ اس طرح کی مہارتوں سے محروم ہیں وہ خدا کے گھر میں ناپسندیدہ ہوں گے اور وہاں وہ اپنا مقام کھو دیں گے۔ کیا یہ واحد علم ہے جو تم نے ان تمام سالوں کے بعد حاصل کیا ہے؟ کیا تم نے یہی حاصل کیا ہے؟ اور میرے متعلق تمہارا علم ان غلط فہمیوں پر نہیں رکتا، اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ تم خدا کی روح کی بے ادبی اور عرش کی توہین کرتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ تمہارے جیسا ایمان صرف تمہیں مجھ سے مزید بھٹکانے اور میرے خلاف زیادہ مخالف بنانے کا سبب بنے گا" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ زمین پر خدا کو کیسے جانا جائے)۔ خدا کا کلام جو کچھ منکشف کرتا ہے اس کے مقابل میں واقعی خود پر شرمندہ تھی۔ جب مجھے ناکامیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تو میں خدا کی بابت شک میں مبتلا ہوگئی اور اسے غلط سمجھا، اسے لوگوں کی طرح سرد مہر اور سنگ دل جانا۔ میں نے سوچا کہ جب خدا کسی کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو وہ انھیں اپنے فضل سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے گا، ورنہ بصورتِ دیگر، وہ انھیں نکال باہر کرے گا، انھیں ایک طرف دھکیل دے گا اور انھیں نظر انداز کر دے گا۔ میں نے خدا پر بدکار لوگوں کی نفسیات پر مبنی قیاس کیا اور شبہ کیا۔ میں کتنی مکار تھی! میں ایک عرصے سے ایمان سے محروم تھی، میری سمجھ میں آنے والے حقائق محدود تھے اور مجھ میں بہت سی خامیاں تھیں، لیکن بھائیوں اور بہنوں نے پھر بھی مجھے لیڈر کے طور پر چنا، مجھے مشق کرنے کا موقع دیا تاکہ میں زیادہ تیزی سے سچائی کا پتا لگا سکوں اور سچائی کی حقیقت میں داخل ہو سکوں۔ اگرچہ میرے اپنے فریضے پر مناسب دھیان نہ دینے کا نتیجہ کامیابیوں کے فقدان کی صورت میں نکلا، کلیسیا نے مجھے برطرف نہیں کیا اس کے باوجود سب نے میری مدد اور حوصلہ افزائی کی اور مجھے خدا کے کلام پر رفاقت بخشی، خدا کی مرضی سمجھنے اور اپنی بدعنوانی اور کوتاہیاں پہچاننے میں میری راہنمائی کی ہے۔ خدا میرے لیے جو کچھ بھی کررہا تھا، حقیقتاً مجھے پروان چڑھانے اور بچانے کے لیے تھا۔ وہ اتنا مہربان اور پیارا ہے! لیکن میں خدا کے خلاف چوکنا رہتی تھی، اس کے بارے میں شبے میں گرفتار تھی۔ کیا خدا پر سچا ایمان رکھنا یہی ہے؟ شیطان نے مجھ میں گہرائی تک زہر بھر دیا تھا، ہمیشہ شیطان کی دروغ گوئیوں کے پیچھے چلتی تھی، مثلاً "کسی کا بھروسا نہ کرو، کیوں کہ تاریکی میں سایہ بھی تمھارا ساتھ چھوڑ جاتا ہے" اور "تم بد اندیش نہیں ہوسکتے، مگر تمھیں لازماً چوکنا رہنا چاہیے۔" میں ہر ایک کے خلاف چوکنا رہتی تھی، حتیٰ کہ خدا کے ساتھ بھی۔ اس نے مجھے دکھایا کہ میرا مکارانہ مزاج واقعی بہت کٹر تھا، اور یہ کہ میرے شکوک اور خدا کے بارے میں غلط فہمیاں سب کی سب وہیں سے آئی تھیں۔ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے، میں نے خدا کے بارے میں قیاس لڑایا اور اسے غلط سمجھا، مگر خدا نے سچ سمجھنے اور میرے اپنے مسائل دیکھنے میں، اب بھی میری راہنمائی کی تھی۔ میں خدا کی محبت اور یہ محسوس کر سکتی تھی کہ میرے لیے اس کی نجات کتنی حقیقی ہے۔ میں خدا کے روبرو پیش ہوئی اور دعا کی، اس سے توبہ کرنے اور اپنے مکارانہ مزاج کے مطابق جینا، خدا پر شک کرنا اور غلط سمجھنا ترک کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔

بعدازاں میں نے خدا کے کلام کا یہ اقتباس پڑھا: "اگرچہ اب ممکن ہے کہ تو اپنا فرض اپنی مرضی سے پورا کرے اور اپنی مرضی سے تو قربانیاں دے اور خود کو خرچ کرے، اگر تجھ میں اب بھی خدا کے بارے میں غلط فہمیاں، قیاس آرائیاں، شکوک و شبہات یا شکایتیں یا اس کے خلاف بغاوت اور مزاحمت بھی ہے یا اگر تو اس کے خلاف مزاحمت کرنے اور خود پر اس کی حاکمیت کو مسترد کرنے کے لیے مختلف طریقوں اور تکنیکوں کا استعمال کرتا ہے – اگر تو ان چیزوں کو حل نہیں کرتا ہے تو تیری شخصیت پر سچائی کی حاکمیت تقریباً ناممکن ہوگی اور تیری زندگی تھکا دینے والی ہوگی۔ ان منفی حالات میں لوگ اکثر جدو حہد کرتے ہیں اور ذہنی اذیت سے گزرتے ہیں، جیسے وہ کسی دلدل میں دھنس گئے ہوں، ہمیشہ حق و باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان رہتے ہیں۔ وہ حقیقت کو کیسے دریافت کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں؟ سچائی کی تلاش کے لیے سب سے پہلے سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔ پھر، ایک مدت کے تجربے کے بعد، وہ کچھ علم حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے، اس وقت سچائی کو سمجھنا آسان ہوگا۔ اگر کوئی ہمیشہ اس بات کو جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور کیا غلط ہے اور سچ اور جھوٹ میں پھنس جاتا ہے تو اس کے پاس سچائی کو جاننے یا سمجھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور اگر کوئی سچائی کو کبھی نہ سمجھ سکے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ سچائی کی سمجھ نہ ہونا خدا کے بارے میں تصورات اور غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ غلط فہمیوں کے ساتھ، غمگین محسوس کرنا آسان ہے؛ جب شکایتیں پھٹ پڑیں تو وہ مخالفت بن جاتی ہیں؛ خُدا کی مخالفت اُس کے خلاف مزاحمت اور ایک سنگین سرکشی ہے اور بہت سی سرکشیاں کئی گنا برائیوں میں بدل جاتی ہیں اور تب کسی کو سزا ملنی چاہیے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ہمیشہ کے لیے سچائی کو سمجھنے سے قاصر ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے" (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ صرف سچائی کی جستجو کرنے سے ہی کوئی خدا کے بارے میں اپنے تصورات اور غلط فہمیوں کے بارے میں شک دور کر سکتا ہے)۔ یہ پڑھ کر، میں جوکچھ ہو چکی تھی، اس کے بارے میں خوف زدہ ہوگئی۔ اگر میں منفیت کی حالت میں جیتی رہتی، سچائی کی جستجو نہ کرتی، بھائیو اور بہنوں کے سامنے دل نہ کھولتی، تو میں اپنے مکارانہ مزاج کے مطابق، خدا کو غلط سمجھتے ہوئے زندگی گزارتی رہتی۔ تب میں آسانی سے خدا پر الزام لگا سکتی تھی اور اس کے خلاف مزاحمت کر سکتی تھی، جو کہ حد سے تجاوز کی ایک شکل ہوتی۔ ممکن ہے میں شیطانی کام کرتی اور خدا کی مخالفت بھی کرگزرتی۔ یہ خطرناک ہے! میں اس دوران میں خدا کو غلط سمجھ رہی تھی اور اس کے بارے میں قیاس لڑارہی تھی، میں عملاً اپنی منفی کیفیت کے تسلط میں تھی۔ میں ہمیشہ بے نقاب ہونے اور نکال باہر کیے جانے کے بارے میں فکر مند رہتی تھی۔ میں آزادی کے احساس سے قطعاً محروم تھی – یہ سب بہت تھکادینے والا تھا۔ میں اپنے فریضے میں بس کوشش کررہی تھی اور ذمہ داریاں پوری کررہی تھی۔ جیسے ہی مسائل سامنے آتے، میں خدا کو غلط سمجھنے پر مجبور ہوجاتی اور میرا دل چاہتا کہ سبکدوش ہوجاؤں۔ یہ خدا کا کلام تھا جس نے مجھے اپنا دل دوسروں پر کھولنے اور سچائی کی جستجو اوراپنے بدعنوان مزاج کے بارے میں سیکھنے پر آمادہ کیا۔ ورنہ میں خدا کو غلط تصور کرتی رہتی اور اپنے فریضے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیتی۔ اس کے نتائج ہول ناک ہوتے۔

بعد میں میں نے خدا کے کلام کا ایک اور اقتباس پڑھا جس نے مجھے کلیسیا کے کام میں مشکلات کا سامنا ہونے پر عمل کا ایک راستہ سکھایا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، "کلیسیا میں پیدا ہونے والے مسائل کے تعلق سے اپنے اندر اتنی بڑی بدگمانیاں پیدا نہ ہونے دو۔ کلیسیا کی تعمیر کے دوران غلطیاں ناگزیر ہیں، لیکن جب تمہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو گھبراؤ نہیں؛ بلکہ پُرسکون رہو اور اپنے ہوش و حواس بجا رکھو۔ کیا میں نے تمہیں پہلے ہی نہیں بتا دیا تھا؟ میرے پاس بار بار آ اور دعا کر تو میں ضرور تجھے صاف طور پر اپنی مرضی دکھاؤں گا" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ شروع میں یسوع کے کلمات، باب 41)۔ میں نے خدا کے کلام سے سیکھا کہ کلیسیا کے کام میں مختلف مشکلات درپیش ہونا ناگزیر ہیں۔ یہ بالکل فطری ہے اور خدا اس کی اجازت دیتا ہے۔ جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہو، جب تک ہم سچے دل سے خدا سے دعا کرتے رہیں اور اس کا سہارا لیتے رہیں، وہ آگے بڑھنے کے لیے ہماری راہنمائی کرتا رہے گا۔ کچھ نئے ایمان لانے والے، جنھوں نے ابھی خدا کا آخری دنوں کا کام قبول کیا ہے وہ بصیرتوں کے حقائق پوری طرح نہیں سمجھتے اور اب بھی افواہوں سے گمراہ ہو سکتے ہیں۔ مجھے خدا پر مزید بھروسےاور شیطان کی چالیں بے نقاب کرنے کے لیے اس کا کلام استعمال کرنے اور نئے ایمان والوں کو سچائی کی راہ میں جڑیں مضبوط کرنے میں مدد دینے کی ضرورت ہے۔ خدا کی مرضی سمجھنے، اور پھر کلیسیا کے کام پر واپس جانے کے بعد، میں نے اپنے سابقہ کام میں موجود نقائص اور مسائل کا خلاصہ تیار کیا اور نئے ایمان لانے والوں کو درپیش مسائل سے متعلق سچائیوں سے خود کو لیس کرلیا، اس کے بعد رفاقت کے ذریعے ان کا حل کرنے میں مدد فراہم کی۔ جہاں تک لوگوں کو پروان چڑھانے کا تعلق ہے، پہلے میں نے وہ اصول ڈھونڈے اور دل سے دعا کی، پھر اجتماع میں، میں نے مشاہدے پر توجہ مرکوز کی کہ کون پروان چڑھانے کے اصولوں پر پورا اترتا ہے۔ اس طریقے سے لوگوں کا انتخاب قدرے زیادہ درست تھا۔ فرائض کے دوران میں اب بھی مجھے کبھی کبھار کچھ ناکامیاں اور مشکلات درپیش ہوتی ہیں، مگر اب میں ایک مختلف نقطہ نظر سے ان مسائل پر نظر ڈالتی ہوں۔ میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں: وہ کون سے سبق ہیں جو خدا چاہتا ہے کہ میں اس صورتحال سے سیکھوں؟ دعا کرنا یقینی بنائیں، خدا کا کلام پڑھیں اور عمل کرنے کے راستہ تلاش کریں اور میں نے دوسرے بھائیوں اور بہنوں سے مدد مانگنے کا طریقہ سیکھا۔ دیگر لوگ میرے کام میں مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں، اور میں خود اپنے نقائص اور کوتاہیاں دیکھنے کے قابل ہوں۔ میں اب یہ نہیں سمجھتی کہ خدا مجھے برا دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے بجائے، میں محسوس کرتی ہوں کہ یہ خود پر غور کرنے، خود کو جاننے اور زندگی میں ترقی کی جستجو کا ایک موقع ہے۔ ایک مرتبہ ایک بہن نے مجھے کہا، "میں نے دیکھا ہے کہ آپ نئے ایمان لانے والوں کو سیراب کرتے وقت زیادہ تحمل دکھا رہی ہیں، اور جب آپ کو مسائل درپیش ہوتے ہیں تو آپ پہلے کی نسبت خُدا کی مرضی کی بہتر پیروی کرتی ہیں۔" میں یہ سن کر بہت متاثر ہوئی۔ اگرچہ یہ میری طرف سے صرف ایک معمولی سی تبدیلی تھی، مجھےایک حقیقی، ذاتی تجربہ ہوا کہ انسانوں کے لیے خدا کی محبت اور نجات خالص اور حقیقی ہے۔ خدا ہمیشہ میری راہنمائی کررہا ہے، میری قیادت کررہا ہے – وہ میرے ساتھ ہے۔ اب میں اپنے فرائض انجام دینے اور خدا کو مطمئن کرنے کے لیے زیادہ پُر عزم ہوں۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

لاپروائی کے پیچھے کی سچ

گذشتہ اکتوبر ہم نے ایک ویڈیو کی پروڈکشن مکمل کی۔ ہم نے اس میں بہت سا کام کیا اور کافی وقت اور توانائی وقف کی، لیکن حیران کن طور پر، جب ہم...

جھوٹ بولنے کی تکلیف

اکتوبر 2019 میں، میں نے آخری ایّام میں قادرِ مطلق خُدا کا کام قبول کیا۔ میں نے دیکھا کہ بھائی اور بہنیں اجتماعات میں اپنے تجربات اور سمجھ...

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp