لاپروائی کے پیچھے کی سچ
گذشتہ اکتوبر ہم نے ایک ویڈیو کی پروڈکشن مکمل کی۔ ہم نے اس میں بہت سا کام کیا اور کافی وقت اور توانائی وقف کی، لیکن حیران کن طور پر، جب ہم نے اسے اپنے لیڈر کو دکھایا تو اس نے اس میں بہت سے مسائل ڈھونڈ نکالے۔ اس نے کہا کہ اس کی فریمنگ اچھی طرح سے نہیں کی گئی نیز یہ کہ گذشتہ ویڈیوز کی نسبت یہ ویڈیو بہتر نہیں ہے اور اسے دوبارہ بنانا پڑے گا۔ مجھے اس سے حیرت کا خاصا زور دار جھٹکا لگا۔ میں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ اس میں اتنے بڑے مسائل ہوں گے۔ اسے دوبارہ بنانے سے کیا یہ مراد نہیں تھا کہ ہماری ساری کوشش اور وسائل ضائع ہو گئے تھے؟ یہ ایک بڑا نقصان لگ رہا تھا۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی صورت حال میں کیا کروں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے اور یا مجھے کیا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ ویڈیو ایڈیٹنگ کے کئی مراحل سے گذری ہے اور لیڈر نے اسے دیکھا تھا، لیکن ان مسائل کا کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ مجھ میں استعداد کی کمی ہے، لہٰذا اگر میں وہ مسائل نظر انداز کردیتاتو یہ معمول کی بات ہوتی۔ تاہم میں اس بارے میں مسلسل سوچتا رہا اور یہ ٹھیک نہیں لگا۔ کیا اتنے بڑے مسائل اس وجہ سے تھے کہ مجھ میں استعداد کی کمی تھی؟ میری ڈیوٹی میں ان مسائل کی جڑ کیا تھی؟ پھر مجھے کچھ یاد آیا جو کہ لیڈر نے پہلے کہا تھا، کہ اس نے یہ ویڈیو اس کے بنیادی خیالات اور تسلسل کے تناظر سے دیکھی تھی، لیکن اس سے مراد یہ نہیں تھا کہ اس میں مسائل نہیں تھے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ پروڈکشن کے دوران میں تفصیلات پر توجہ رکھیں اور ہمیں جو بھی مسئلہ ملے اسے ٹھیک کریں۔ لیکن میں نے یہ نہیں کیا تھا۔ میں نے قیاس کیا کہ چونکہ لیڈر نے ویڈیو دیکھی ہے تو یہ ٹھیک ہی ہوگی، لہٰذا پروڈکشن کے دوران میں، میں نے توجہ سے اس پر نظرثانی نہیں کی یا اس پر صحیح معنوں میں غور نہیں کیا۔ میں نے اس کے بارے میں واقعی سہل پسندی سے کام لیا۔ پھر جب مسائل ابھر کر سامنے آئے، میں نے کہا کہ لیڈر پہلے اس کا جائزہ لے چکا ہے۔ میں ذمہ داری سے بھاگ رہا تھا۔ میرا یہ عمل کتنا نامناسب تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ اس میں یقینا میرے لیے ایک سبق ہے، پس میں نے دعا کی اور خدا سے رجوع کیا، کہ وہ مجھے اپنے آپ کو جاننے میں میری رہنمائی کرے۔
کچھ روز بعد، ایک بہن نے، جس کے ساتھ میں نے کام کیا تھا، مجھے کہا کہ اس کے ہمراہ مکمل شدہ ویڈیو کا جائزہ لوں۔ میں نے اپنے جائزے میں ان چند مسائل کے بارے میں بات کی جو جائزے کے دوران میری نظر میں آئے تھے، لیکن اس نے کہا لیڈر نے جب اسے دیکھاتھا تو اس نے کہا کہ مجھے اس کا مرکزی خیال پسند آیا ہے اور ہمیں اسے فورا مکمل کرنا چاہیے۔ میرے پاس اس میں تبدیلی کے لیے کچھ تجاویز تھیں، تاہم یہ سننے کے بعد کہ لیڈر نے کہا ہے کہ یہ بہت اچھی ہے، میں ان کے تذکرے سے ہچکچا رہی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر ہم نے وہ تبدیلیاں کر دیں اور وہ بعد میں غلط ثابت ہوئیں، تو میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہوں گی۔ لیکن میں نے دیکھا کہ اس میں حقیقت میں کچھ مسائل تھے، لہٰذا میں نے ایک اور بھائی سے کہا کہ وہ اسے دیکھیں، اور انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے اسے شاید دوبارہ سامنے لانا چاہیے۔ لیکن پھر میں نے سوچا اگر میں نے ایسا کیا اور میری تجویز کردہ ایڈٹس مسئلہ کا باعث بنیں، تو لیڈر اس کے بارے باز پرس کرسکتا ہے، پھر یہ میری ذمہ داری ہوگی اور مجھ سے باز پرس کی جائے گی، میں نے اس کے بارے میں ایک لمحے کے لیے سوچا، اور محسوس کیا کہ ہمیں بھی لیڈر سے پوچھنا چاہیے۔ اگر اس نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے تو مزید ایڈیٹنگ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ ہمیں مصیبت سے بچالے گا اور ہم اس میں پھنسیں گے نہیں۔ لہٰذا میں نے اپنے شریک کار کو تجویز دی کہ ہم لیڈر سے پوچھتے ہیں تاکہ ہمیں ذہنی سکون حاصل ہو۔ جیسے ہی یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے مجھے محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہوا ہے۔ میں اس سے کافی شناسا تھا: میرے پاس ایک مختلف رائے سننے کے بعد اس کے لیے ایک جواب تھا – لیڈر سے پوچھو اور اسے فیصلہ کرنے دو۔ اگر لیڈر نے اپنی منظوری دے دی، تو ہمیں اس کے بارے میں پریشان ہونےکی ضرورت نہیں ہے اور ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن دوسری صورت میں، اگر اس نے کہا کہ اس میں مسائل ہیں تو ہم مزید ایڈیٹس کریں گے۔ ہم نے ہر بار یہی کیا تھا۔ در حقیقت، ایسا نہیں تھا کہ ہم ویڈیو بنانے کے اصولوں اور اس کی ضروریات سے آگاہ نہیں تھے۔ ہم اس قسم کے مسائل کی صورت میں سچائی کے اصولوں پر عمل کر سکتے تھے، اور لیڈر اس بارے میں واضح تھا کہ اس کا جائزہ اس پر فقط ایک وسیع تر نظر ڈالنا ہے، تاہم ہمارے لیے ضروری تھا کہ ہم کوئی چھوٹے موٹے مسائل چیک کریں اور انہیں ٹھیک کریں۔ یہ میرا فرض اور ذمہ داری تھی جو مجھے ادا کرنی چاہیے تھی۔ میں اس میں دل چسپی کیوں نہیں لے رہا تھا؟ مسائل اور رائے کے اختلافات کی صورت میں، میں اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے بھائیوں اور بہنوں کے ہمراہ سچائی کی جستجو اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا، لیکن میں اس کو لیڈر کے سپرد کر رہا تھا، اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دے رہا تھا۔ پھر مجھے خدا کا کچھ کلام یاد آیا۔ ”کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ بہت غیر فعال ہوتے ہیں، ہمیشہ بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں اور دوسروں کے بھروسے پر رہتے ہیں۔ یہ کس قسم کا رویہ ہے؟ یہ غیر ذمہ داری ہے۔ ۔۔۔ تو نظریات کے صرف حروف و الفاظ کی منادی کرتا ہے اور صرف وہ باتیں کرتا ہے جو سسنے میں بھلی ہوں لیکن تو کوئی عملی کام نہیں کرتا۔ اگر تو اپنا فرض ادا کرنا نہیں چاہتا تو تجھے استعفی دے دینا چاہیے۔ اپناعہدہ اپنے پاس مت رکھ اور وہاں کچھ نہ کر۔ کیا ایسا کرنا خدا کے چنے ہوئے لوگوں کو نقصان پہنچانا اورکلیسیا کے کام سے سمجھوتا کرنا نہیں ہے؟ جس طرح تو بات کرتا ہے، لگتا ہے کہ تو نے نظریہ کے ہر زاویے کو سمجھتا ہے لیکن جب فرض ادا کرنے کو کہا جاتا ہے تو تو لاپروا اور غافل ہوتا ہے، تجھ میں ذرہ برابر بھی ضمیر نہیں ہوتا۔ کیا خلوص کے ساتھ خدا کے لیے خود کو وقف کرنا یہی ہے؟ تجھ میں خدا کے لیے کوئی خلوص نہیں ہے، پھر بھی تو اس کا دعوی کرتا ہے۔ کیا تو اس قابل ہے کہ اسے دھوکہ دے سکے؟ تو عام طور پر جس طرح بات کرتا ہے، تجھ میں بہت زیادہ اعتماد نظر آتا ہے؛ تو کلیسیا کے ستون اور پتھر بننا چاہتا ہے۔ لیکن جب تو فرض ادا کرتا ہے، تو تو ماچس کی تیلی جتنا مفید بھی نہیں ہوتا ہے۔ کیا یہ تیری جانب سے خدا کو کھلا دھوکہ نہیں ہے؟ کیا تو جانتا ہے خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ وہ تجھ سے نفرت کرتا ہے اور تجھے باہر نکال دیتا ہے! اپنے فرائض کی انجام دہی میں تمام لوگ آشکار ہو جاتے ہیں – ایک شخص کے حوالے صرف ایک فرض کریں اور یہ ظاہر ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ آیا وہ ایماندار ہے یا دھوکے باز اور وہ سچائی کا عاشق ہے یا نہیں۔ وہ لوگ جنھیں سچائی سے پیار ہے وہ اپنا فرض خلوص کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور خدا کے گھر کے کام کو سنبھال سکتے ہیں؛ وہ لوگ جنھیں سچائی سے پیار نہیں ہے وہ خدا کے گھر کے کام کو ذرہ برابر بھی نہیں سنبھالتے اور وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں غیر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہ ہر اس شخص کو دکھائی دیتا ہے جس کے پاس دیدہ بینا ہے۔ اپنے فرض کو ناقص طریقے سے ادا کرنے والا کوئی بھی شخص سچائی کا عاشق یا ایماندار نہیں ہوتا؛ ایسے تمام لوگ مکاشفہ کے ہدف ہیں اور نکالے جا رہے ہیں“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ صرف ایماندار بن کر ہی کوئی سچا انسان بن کر رہ سکتا ہے)۔ خدا کہتا ہے کہ ہمیں اپنی ڈیوٹی میں احساس ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کام کو اچھی طرح انجام دینے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ اگر ہم اپنا فریضہ دل لگا کر انجام نہیں دیں گے، بلکہ اس سے جیسے تیسے جان چھڑائیں گے، مسائل کے بارے سنجیدہ ہوئے یا ذمہ داری لیے بغیر، فقط سطحی کام کریں گے، تو ہم اپنے فریضے کو بہتر طور پر انجام نہیں دے سکتے اور خدا اس سے مطمئن نہیں ہوگا۔ خدا کی نگاہ میں، ایسے لوگ نکمے ہیں اور کسی فریضےکے لائق نہیں ہیں۔ میں نے دیکھا کہ میں بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ خدا نے بیان کیا ہے۔ جب میں مسائل سے دوچار ہوتا، اگر میں اس کے بارے سوچتا، دعا کرتے ہوئے اور دوسروں کے ساتھ اصولوں کی جستجو کرتے ہوئے، تو ہم کسی اتفاق پر پہنچ جاتے اور حل تلاش کر لیتے۔ لیکن میں سوچتا تھا کہ یہ ایک مصیبت ہے اور کوشش نہیں کرنا چاہتا تھا یا سب کے ہمراہ چیزوں کے بارے جستجو نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لہذا میں سیدھا لیڈر کے پاس گیا، یہ سوچتے ہوئے کہ اگر وہ فیصلہ کر دے گا تو پریشانی کم ہو جائے گی۔ اور یہ کہ مصیبت سے بچت ہو جائے گی۔ وگرنہ ہم زمانوں تک بحث کرتے رہیں گے اور ممکن ہے پھر بھی کوئی جواب حاصل نہ کر پائیں۔ لہٰذا ہم نے اپنے بہت سے مسائل اپنے لیڈر کے حوالے کر دیے۔ ٹیم کے لیڈر کی حیثیت سے، میں اپنی ذمہ داریاں انجام نہیں دے رہا تھا، یا وہ قیمت نہیں چُکارہا تھا جو مجھے چُکانی چاہیے تھی۔ اور اپنے کام کے دوران تبادلہ خیال میں بعض اوقات میں نے مسائل کا نوٹس لیا یا مجھے روح القدس کی جانب سے ہدایات ملیں، لیکن ایک مرتبہ میں نے اس کو بیان کیا، اگر کسی بھائی یا بہن نے اختلافی رائے کا اظہار کیا تو میں فقط خاموش ہو گیا۔ میں خوفزدہ تھا کہ دوسرے کہیں گے کہ میں جاہل ہوں، اور اس بارے میں مزید خوفزدہ تھا کہ مجھے کسی بھی مسئلہ کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ مجھے لگا کہ جیسے میں نے اپنی رائے بیان کروں گا تاکہ وہ اسے اپنے طور پر دیکھ سکیں، اور اگر ہم کسی اتفاق رائے پر نہ پہنچ سکیں تو ہم لیڈرسے پوچھ سکتے تھے۔ اس طرح اگر کوئی مسئلہ ظاہر ہوگا، تو اس کی ذمہ داری کم از کم مجھ پر نہیں آئے گی۔ میں جستجو نہیں کر رہا تھا کہ سچائی کے اصولوں کے مطابق کیسے عمل کرنا ہے، اور چرچ کو کیا فائدہ ہوگا، اس پر تو مزید کم سوچ رہا تھا۔ میں کم ترین قیمت بھی چُکانا نہیں چاہتا تھا۔ میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں مسائل کو دیکھ اور اٹھا تو رہا ہوں، لیکن میں ان کو حل نہیں کر رہا تھا۔ میں ہمیشہ اس بات کا منتظر تھا کہ دوسرے آخری رائے دیں اور میں فیصلے نہ کروں۔ میں چالیں چل رہا تھا اور خود غرضی دکھا رہا تھا، چرچ کے مفادات کا تحفظ نہیں کر رہا تھا۔ میں ہر چیز کے بارے میں بھی لیڈر سے پوچھتا ہوں، یہ سوچتے ہوئے کہ اپنے آپ پر اندھا یقین رکھنے کے بجائے وہ پوچھنا مناسب ہے جو مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپ سے رفاقت اور خدا کے کلام کے انکشاف کے ساتھ میں دیکھ سکتا ہوں کہ میں غیر ذمہ دار تھا، اپنی ڈیوٹی کے معاملے میں لاپروا اور لگن سے عاری۔ جب مجھے اس کا ادراک ہوا، تو میں نے دیکھا کہ میں حقیقت میں ٹھس اور بے حس تھا۔ مجھے اتنے بہت سے حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں نے کبھی سچائی کی طلب کی نہ ہی سبق سیکھا۔ میں اپنی ڈیوٹی سے نظریں چراتا رہا اور اسے ذمہ داری سے نہ لیا۔ یہ اپی ڈیوٹی انجام دینے کا ایک خطرناک طریقہ تھا۔ اب میں نے ایک مسئلہ شناخت کیا ہے اور میری شریک کار اس کے بارے میں مختلف خیالات رکھتی تھی۔ اگر میں نے اس کے ہمراہ اتفاق تک پہنچے کے لیے سچائی کے اصولوں پر عمل نہ کیا ہوتا یا حل تلاش نہ کیا ہوتا، اور فقط لیڈرسے پوچھنے کے لیے دوڑا جاتا تو یہ واضح طور پر جیسے تیسے کام چلانا تھا۔ پھر میں نے سوچا مجھے اپنی حالت کو بدلنا ہوگا، میں درمیانی راہ اختیار کرکے لاپرواہی کا مظاہرہ ہمیشہ نہیں کر سکتا۔ پس میں نے اپنی شریک کار کو تجویز دی کہ ہم ایک اور نمونہ بناتے ہیں اور پھر دونوں کا موازنہ کرتے ہیں، پھر جسے ہم بہتر سمجھتے ہیں، اس پر لیڈر سے نظر ثانی کروا لیں گے۔ بھائیوں اور بہنوں نے محسوس کیا کہ یہ درست لگتا ہے۔ اس پر عمل کرنے کے بعد، مجھے حقیقت میں سکون ملا۔
بعد میں، میں نے خدا کے کلام سے یہ حصہ پڑھا۔ ”کیا کوئی ایسا شخص جو اپنے فرض کی ادائیگی میں ذمہ داری قبول کرنے سے ڈرتا ہے بزدل ہے، یا ان کے مزاج میں کوئی مسئلہ ہے؟ تجھے اس قابل ہونا چاہیے کہ تو فرق بتا سکے: درحقیقت یہ مسئلہ بزدلی کا نہیں ہے: اگر وہ شخص دولت کے پیچھے ہو یا اپنے مفاد میں کچھ کر رہا ہو تو وہ اتنا بہادر کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ کوئی بھی خطرہ مول لے گا لیکن جب وہ چرچ کے لیے، خُدا کے گھر کے لیے کام کرتے ہیں تو وہ کوئی خطرہ مول نہیں لیتے۔ ایسے لوگ خود غرض اور بدمعاش ہیں، مکار ترین ہیں۔ ہر وہ شخص جو کسی فرض کی ادائیگی میں ذمہ داری قبول نہیں کرتا ہے وہ خدا کے حوالے سے ذرہ برابر بھی مخلص نہیں ہوتا ہے، کہ وہ اپنی وفاداری کے حوالے سے کچھ بھی کہے۔ کس قسم کا شخص ذمہ داری قبول کرنے کی ہمت کرتا ہے؟ کس قسم کا شخص ایک بھاری بوجھ برداشت کرنے کی جراؑت رکھتا ہے؟ وہ شخص جو قیادت کرتا ہے اور خدا کے گھر کے کام کے فیصلہ کن لمحات میں بہادری سے آگے بڑھتا ہے، جو بڑی ذمہ داریاں قبول کرنے، بڑی مشکل کو برداشت کرنے سے خائف نہیں ہوتا، جب وہ اس کام کو دیکھتا ہے جو اہم ترین اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ایسا شخص خدا کا وفادار، مسیح کا اچھا سپاہی ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے فرض کی راہ میں ذمہ داری قبول کرنے سے ڈرتا ہے وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ اسے سچائی کی سمجھ نہیں ہے؟ نہیں؛ یہ بنی نوع انسان کا مسئلہ ہے۔ انھیں انصاف اور ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ خودغرض اور مکار لوگ ہوتے ہین، جو صدق دل سے خداکو نہیں مانتے۔ وہ سچائی کو ذرہ برابر بھی قبول نہیں کرتے اور اس لیے، انھیں نجات نہیں مل سکتی۔ خدا پر ایمان لانے اور سچائی کے حصول کے لیے کئی قیمتیں ادا کرنی چاہئیں اور سچائی پر عمل پیرا ہونے کے لیے کچھ مشقتیں بھی اٹھانی چاہئیں، اور کچھ چیزیں چھوڑنا اور ترک کرنا چاہئیں۔ تو کیا وہ شخص جو ذمہ داری قبول کرنے سے ڈرتا ہے، سچائی پر عمل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، وہ سچائی حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کہتے، وہ سچائی پر عمل پیرا ہونے، اپنے مفادات کو نقصان پہنچانے سے ڈرتے ہیں؛ وہ رسوا ہونے، بے عزتی اور فیصلے سے ڈرتے ہیں۔ وہ سچائی پر عمل کرنے کی ہمت نہیں کرتے، اس لیے وہ اسے حاصل نہیں کر سکتے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کتنے سال تک خدا پر یقین رکھتے ہیں، وہ خدا کی نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جو خدا کے گھر میں اپنا فرض انجام دے سکتے ہیں وہ لوگ ہیں جن کا بوجھ چرچ کا کام ہے، جو ذمہ داری قبول کرتے ہیں، جو سچائی کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہیں، جو تکلیف برداشت کرتے ہیں اور قیمت ادا کرتے ہیں۔ ان شعبوں میں کمی ہونا فرض کی انجام دہی کے لیے نااہل ہونا اور فرائض کی انجام دہی کی شرائط پر کھرا نہ اترنا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو فرض کی ادائیگی میں ذمہ داری قبول کرنے سے خائف ہیں۔ ان کا خوف تین بنیادی طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ وہ ایسے فرائض قبول کرتے ہیں جن میں ذمہ دری قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر چرچ کا کوئی راہنما انھیں کسی فرض کی ادائیگی تفویض کرتا ہے تو وہ پہلے پوچھتے ہیں کہ کیا انھیں اس کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی: اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کرتے؛ اگر وہ ان سے کسی ذمہ داری کا تقاضا نہیں کرتا ہے تو وہ اسے ہچکچاہٹ کے ساتھ قبول کرتے ہیں لیکن پھر بھی لازمی طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ تھکا دینے والا اور پریشان کن تو نہیں ہے اور فرض کی ہچکچاہٹ بھری قبولیت کے باوجود، وہ اسے اچھی طرح سے انجام دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے، لاپروا اور غافل رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ محنت کے بدلے تفریح اور کوئی جسمانی مشقت نہیں – ان کا اصول یہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب انھیں کوئی مشکل پیش آتی ہے یا انھیں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ان کا پہلا سہارا یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک راہنما کو اس کی اطلاع دیتے ہیں تاکہ وہ اسے سنبھالے اور حل کرے، اس امید پر کہ وہ ان کے آرام کو برقرار رکھیں گے۔ انھیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ راہنما اس معاملے کو کس طرح سنبھالتا ہے اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے – تو جب تک ذمہ داری خود ان کی نہیں ہوتی ہے، ان کے لیے سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے۔ کیا فرض کی ایسی ادائیگی خدا کی وفاداری ہے؟ اسے کہتے ہیں ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا، فرض سے غفلت، چال بازی کرنا۔ وہ صرف باتیں بناتے ہیں، حقیقت میں کچھ بھی نہیں کرتے۔ وہ خود سے کہتے ہیں، ’اگر اسے مجھے سنبھالنا ہے تو اگر کوئی غلطی ہوئی تو کیا ہوگا؟ معاملے کو دیکھتے ہی وہ کہتے ہیں، کیا بالآخر اس کی ذمہ داری مجھ پر آئے گی؟ کیا اس کی ذمہ داری سب سے پہلے مجھ پر نہیں آئے گی؟‘ انھیں اسی کی فکر ہوتی ہے لیکن کیا آپ کو یقین ہے کہ خدا ہر چیز کو دیکھتا ہے؟ غلطیاں سبھی کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی نیت درست ہے اس کے پاس تجربہ نہیں ہے اور اس نے پہلے کسی قسم کا کوئی معاملہ نہیں سنبھالا ہے لیکن اس نے اپنی جانب سے پوری کوشش کی ہے تو خدا اسے دیکھ سکتا ہے۔ تجھے یقین ہونا چاہیے کہ خدا ہر چیزکی اور انسان کے دل کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اگر کوئی اسے مانتا ہی نہیں ہے تو کیا وہ خدا کا منکر ہے؟ ایسے شخص میں فرض کی ادائیگی کی کیا اہمیت ہوگی؟ ایک اور طریقہ ہے جس سے ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے کسی شخص کا خوف ظاہر ہوتا ہے۔ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے، کچھ لوگ بس تھوڑا سطحی، آسان کام کرتے ہیں، ایسا کام جس میں کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ وہ کام جس میں مشکلات ہوتی ہیں اور ذمہ داری قبول کرنی ہوتی ہے، وہ دوسروں پر ڈال دیتے ہیں اور اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو وہ اس کا الزام ان لوگوں پر لگاتے ہیں اور خود کو اس سے پاک رکھتے ہیں۔ ۔۔۔ جو بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں ذمہ داری قبول کرنے سے خائف ہوتا ہے وہ کبھی بھی وفادار خدمت گذار کی سطح تک بھی نہیں پہنچتا۔ وہ فرض کی ادائیگی کی اہلیت ہی نہیں رکھتا“ (کلام، جلد 4۔ مسیح کے مخالفوں کو بے نقاب کرنا۔ شق ہشتم: وہ دوسروں سے صرف اپنی اطاعت کرواتے ہیں، سچائی یا خدا کی نہیں (حصہ اول))۔ اس پر غور کرتے ہوئے، مجھے محسوس ہوا کہ خدا مجھ سے براہ راست بات کر رہا ہے۔ وہ میری درست حالت بیان کر رہا ہے۔ اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے بارے میں، میں سچائی کے اصولوں کے مطابق کام یا اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق کام کرنے کے لیے خدا پر بھروسا نہیں کر رہا تھا، بلکہ میں مسائل اور ذمہ داری سے بھاگ رہا تھا، چیزوں کو لیڈر کے کندھوں پر ڈال رہا تھا تاکہ وہ ان سے نمٹے میں وہی کرتا جو بھی لیڈر کہتا، یہ سوچتے ہوئے کہ اگر یہ اچھا نہ ہوا تو یہ میرا مسئلہ نہیں تھا، لہٰذا مجھ سے بازپرس نہیں کی جائے گی۔ میرا خیال تھا کہ چیزوں کی انجام دہی کا یہ ایک ذہانت آمیز طریقہ ہے۔ لیکن خدا کے کلام میں، میں نے دیکھا کہ میں خود کو ذمہ داری سے بچا رہا ہوں، اپنی ڈیوٹی سے آنکھ بچا رہا ہوں، عیاری کر رہا ہوں میں اپنی ڈیوٹی کے معاملے میں خدا سے مکاری اور فریب کاری کر رہا تھا۔ میں نے ہمیشہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے خود کو الگ رکھا۔ میں اخلاص کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا یا حقیقی قیمت نہیں چکا رہا تھا، نہ ہی وہ سب کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو ممکنہ طور پر میں کر سکتا تھا۔ میں بس نظریں چرا رہا تھا اور بددیانتی کا مظاہرہ کر رہا تھا، مخلصانہ خدمات نہیں دے رہا تھا۔ میں کسی ڈیوٹی کے لائق نہ تھا۔ جب بھی ہم نے کوئی ویڈیو بنائی، جب تک لیڈر کہتا کہ یہ ٹھیک ہے، میں نے اس پر کبھی سنجیدگی سے نظر ثانی نہ کی اور نہ کبھی حقیقت میں اس کے بارے سوچا۔ اس کی تیاری کے دوران، چاہے دوسروں کے پاس تجاویز ہوتیں، میں اس پر زیادہ توجہ نہ دیتا۔ میں اسے سرسری طور پر دیکھتا اور کہتا یہ ٹھیک ہے، یہ حقیقت میں غیر ذمہ داری تھی۔ جس کے نتیجے کے طور پر، بہت سی مکمل ویڈیوز میں مسائل تھے اور ان کو نظر ثانی کے لیے بھیجا جانا ضروری تھا۔ بعض اوقات ٹیم کے اراکین کا ایک ویڈیو پر اتفاق رائے نہ ہوتا تھا میں مسئلہ کو دیکھ لیتا لیکن کوئی بھی فیصلہ کن بات نہ کہتا، بلکہ اسے لیڈر کے پاس لے جاتا کہ وہ فیصلہ کرے۔ بعض اوقات ہم حقیقت میں مسئلے کو سمجھ نہیں پاتے تھے ہمیں لیڈر کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی تھی کہ وہ اسے مکمل کرنے میں ہماری مدد کرے۔ لیکن ان میں سے کچھ مکمل طور پر میری گرفت میں ہوتی تھیں، اور حال ہی میں مجھے ایک سقم ملا میں وہ نہیں کر رہا تھا جس کی میں استعداد رکھتا تھا۔ میں نے وہ قیمت نہیں چُکائی جو مجھے چُکانی چاہیے تھی یا اس پر اتنا غور و فکر نہیں کیا جتنا مجھے کرنا چاہیے تھا، بلکہ آسان خارجی راستے کا انتخاب کیا۔ میں سچائی کے اصولوں پر عمل نہیں کر رہا تھا اور ان مسائل پر توجہ نہیں دے رہا تھا جو میں نے دیکھے۔ میں ناکامیوں سے سیکھے سبقوں کا نہ خلاصہ کر رہا تھا اور نہ ہی کچھ سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں کاموں کو اسی انداز سے کرنے کا عادی ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ میں یہ سوچتا تھا کہ ہر کسی نے اپنی ڈیوٹی میں غلطیاں کی ہیں۔ میں نے اپنی استعداد میں کمی کی وجہ سے بعض مسائل سے صرف نظر کیا۔ اس بات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ میں مسائل کو دیکھ سکتا تھا یا نہیں، میں نے کبھی حقیقی ذمہ داری کا احساس تک نہیں کیا۔ میں لاپروا اور غیر ذمہ دار تھا تاکہ میں اپنے آپ کو بچا سکوں، جب مسائل ابھرتے تھے تو ان کی ذمہ داری لیڈر پر ڈال دیتا تھا۔ میں ہر چیز کو کسی اور کا مسئلہ بنا رہا تھا۔ اب میں دیکھتا ہوں، یہ استعداد کا معاملہ نہیں تھا بلکہ میری انسانیت کے ساتھ مسئلہ تھا۔
پھر میں نے خدا کے کلام کا ایک حصہ پڑھا۔ ”جو بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں ذمہ داری قبول کرنے سے خائف ہوتا ہے وہ کبھی بھی وفادار خدمت گذار کی سطح تک بھی نہیں پہنچتا۔ وہ فرض کی ادائیگی کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ ۔۔۔ جب کوئی افتاد تجھ پر آن پڑتی ہے اگر تو اپنی حفاظت کرتا ہے اور اپنے لیے ایک فرار کا راستہ، ایک چور دروازہ چھوڑتا ہے تو کیا تو سچائی پر عمل کر رہا ہے؟ یہ سچائی پر عمل نہیں ہے، یہ پتلی گلی سے نکلنا ہے۔ تو اب خدا کے گھر میں اپنے فرض کی ادائیگی کر رہا ہے۔ فرض کی ادائیگی کا پہلا اصول کیا ہے؟ یہ کہ سب سے پہلے تجھے خلوص دل سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے، کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے، تاکہ تو خدا کے گھر کے مفادات کی حفاظت کر سکے۔ یہ سچائی کا ایک اصول ہے، وہ اصول جس پر تجھے عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ایک فرار کی راہ، چور دروازہ چھوڑ کر اپنی حفاظت کرنا، ان لوگوں کا طرز عمل ہے جو خدا پر یقین نہیں رکھتے، یہ ان کا اعلی ترین فلسفہ ہے۔ خود پر سب سے پہلے توجہ دینا اور اپنے مفادات کو دوسروں کے مفادات پر ترجیح دینا، دوسروں کے بارے میں نہ سوچنا، خدا کے گھر کے مفادات اور دوسروں کے مفادات سے کوئی واسطہ نہ رکھنا، خود اپنے مفادات کے بارے میں سوچنا اور اپنی راہ فرار کے بارے میں سوچنا – کیا یہ وہ نہیں ہے جو خدا پر یقین نہیں رکھتا؟ یہ بالکل وہی ہے جو خدا کو نہیں مانتا۔ ایسا شخص فرض کی ادائیگی کے قابل نہیں ہے“ (کلام، جلد 4۔ مسیح کے مخالفوں کو بے نقاب کرنا۔ شق ہشتم: وہ دوسروں سے صرف اپنی اطاعت کرواتے ہیں، سچائی یا خدا کی نہیں (حصہ اول))۔ خدا کا کلام میرے لیے حقیقت میں دل چھُولینے تھا۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ زاویہ فکر جس کے ساتھ میں نے اپنی ڈیوٹی انجام دیتا تھا ایک ایمان سے محروم شخص کا ہے۔ میں نے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں ہمیشہ اپنے مفاد کو فوقیت دی اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ کوئی بھی مسائل واپس مجھ پر آئیں گے۔ پس میں بظاہر اپنی ڈیوٹی دیتا، لیکن میں نے اس میں نے اس کبھی پوری استعداد صرف نہیں کی۔ نہ ہی سچائی کے اصولوں کی جستجو کی۔ میں نے درحقیقت چرچ کے مفادات کا نہیں سوچا۔ میں اپنی ڈیوٹی میں بس تھوڑی محنت کرکے خوش تھا، ہر روز لگے بندھے معلومات سے گزر رہا تھا۔ کیا یہ ایک ایمان سے محروم شخص کے اپنے مالک کے لیے کام کرنے جیسا نہیں ہے؟ جب میری شریک کار اور میرے مابین آراء کا اختلاف ہوتا تھا، تو میں سب کچھ لیڈر پر کیوں چھوڑ دیتا تھا کہ وہ فیصلہ کرے؟ میں ذمہ داری نہیں لینا چاہتا تھا، حالاں کہ میں نے حقیقی مسائل دیکھے، میں نے انھیں اس کے سپرد کیا کہ وہ فیصلہ کرے، حتیٰ کہ مجھےیہ بھی محسوس ہوتا تھا کہ یہ ٹھیک ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ذمہ داری سے فرار میرے لیے فطری بات بن چکی ہے۔ میں سچ میں عیار اور خودغرض تھا اور مکمل طور پر ناقابل اعتماد۔ میں کسی بھی قسم کی صداقت کے بغیر کھیل کھیل رہاتھا، مکر کررہا تھا۔ میں حقیقتاً ڈیوٹی کے لائق نہ تھا۔ میں نے بعد میں خدا کے کلام کا ایک اور حصہ پڑھا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”کچھ لوگ اپنے فرض کی انجام دہی کے وقت کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتے، وہ ہمیشہ غفلت اور لاپروائی برتتے ہیں۔ ہر چند کہ وہ مسئلہ کو دیکھ سکتے ہیں، وہ حل تلاش کرنا نہیں چاہتے اور لوگوں کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں، اور اس لیے وہ بس جلدبازی کے ساتھ امور نمٹاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انھیں وہ کام دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ تو یہ فرض انجام دے رہا ہے، تو تجھے یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ تو اسے سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتے؟ تو غافل اور لاپروا کیوں ہو؟ اور کیا تو اس طرح اپنا فرض ادا کرتے وقت اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتتے ہو؟ بنیادی ذمہ داری خواہ کوئی بھی لے، باقی سب لوگ چیزوں پر نظر رکھنے کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں، ہر ایک کو چاہیے کہ وہ یہ بوجھ اٹھائے اور اپنے اندر ذمہ داری کا یہ احساس پیدا کرے – لیکن تم میں سے کوئی بھی کوئی توجہ نہیں دیتا، تم واقعی غافل ہو، تم میں وفاداری نہیں ہے، تم اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہو! ایسا نہیں ہے کہ تم مسئلہ کو دیکھ نہیں سکتے، بلکہ تم ذمہ داری لینی نہیں چاہتے – نہ ہی، مسئلہ نظر آنے پر، اس معاملے پر کوئی توجہ دینا چاہتے ہو، تمہارا ’بس ٹھیک ہی ہے‘ پر اکتفا کرلینا لاپروائی اور غفلت اوراس طریقے سے خدا کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں ہے؟ اگر اس وقت، جب میں نے تمہارے لیے سچائی کا کام کیا اور رفاقت کی، میرا تنہا جانا ہی کافی تھا، پھر جیسا کہ تم میں سے ہر ایک اپنی صلاحیت اور جستجو کے مطابق، اس سے کیا حاصل کر سکتے تھے؟ اگر میرا رویہ بھی تم جیسا ہی ہوتا، تو تمہیں کچھ حاصل نہ ہوتا۔ ۔۔۔ اس لیے، میں وہ نہیں کر سکتا، لیکن ہر قسم کے لوگوں کی حالتوں کے حوالے سے، تفصیل بیان کر سکتا ہوں، اور مثالیں دے سکتا ہوں، سچائی کے تئیں لوگوں کا رویہ، اورہرقسم کا فاسد مزاج؛ تبھی تم وہ سمجھ پاؤگے جو میں کہہ رہا ہوں، اور وہ سمجھوگے جو تم سنتے ہو۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سچائی کے کون سے رخ کی رفاقت ہے، میں مختلف طریقوں سے بات کرتا ہوں، نظریہ اور عمل کے استعمال سے، اور تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، بالغوں اور بچوں کے لیے رفاقت کے اسلوب کے ساتھ، اور دلیلوں اور کہانیوں کی شکل میں، اس طرح کہ لوگ سچائی کو سمجھ سکیں اور اس کی حقیقت میں داخل ہوں۔ اس طرح، وہ لوگ جن کے پاس صلاحیت ہے اور وہ اسے کرنا چاہتے ہیں، انھیں سچائی سمجھنے اور اسے قبول کرنے اور نجات پانے کا موقع ملے گا۔ لیکن تمہارا رویہ اپنے فرض کے تئیں ہمیشہ غفلت اور لاپروائی، اور بے دلی کا رہا ہے، اور تمہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ تمہاری وجہ سے کتنی تاخیر ہوئی ہے۔ تم مسائل کے حل کے لیے سچائی کی جستجو کے طریقے پر غور نہیں کرتے، تم اس پر غور نہیں کرتے کہ خدا کی تصدیق کے قابل بننے کے لیے اپنا فرض درست طریقے سے کیسے انجام دیا جائے۔ یہ اپنے فرض سے تمہاری غفلت ہے۔ اس لیے تمہاری زندگی آہستہ روی سے بڑھتی ہے، اور تم اس بات سے پریشان نہیں ہو کہ تم نے کتنا وقت ضائع کر دیا ہے۔ در اصل، اگر تم نے اپنا فرض باضمیر انداز میں اور ذمہ داری سے ادا کیا، تو تمہیں اپنے تجربات کے بارے میں بات کرنے اور خدا کی گواہی دینے کے قابل ہونے میں پانچ یا چھ سال بھی نہیں لگیں گے، اور چرچ کے مختلف کام انتہائی موثر طریقے سے انجام دینے لگ جاؤ گے – لیکن تم خدا کی رضا کا خیال ہی نہیں رکھنا چاہتے، نہ ہی تم سچائی کی جانب کوشش کرتے ہو۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں تمہیں معلوم نہیں ہے کہ انھیں کیسے کرنا ہے، اس لیے میں تمہیں درست ہدایات دیتا ہوں۔ تمہیں سوچنا نہیں ہے، تمہیں بس سننا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے۔ تمہیں بس یہی ذمہ داری لینی ہے – لیکن وہ بھی تمہارے بس سے باہر ہے۔ تمہاری وفاداری کہاں ہے؟ یہ کہیں دکھائی نہیں دیتی! تم بس میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہو۔ اپنے دلوں میں، تم جانتے ہو تمہیں کیا کرنا چاہیے، لیکن تم بس سچائی پر عمل نہیں کرتے۔ یہ خدا کے خلاف بغاوت ہے، اور اس کی بنیاد میں، سچائی کے لیے محبت کی کمی ہے۔ تم اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے ہو کہ سچائی کے مطابق کس طرح عمل کرنا ہے – تم بس اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے؛ تم سچائی کو عملی جامہ پہنائے بغیر بس دیکھ رہے ہو۔ تم خدا کی اطاعت کرنے والے نہیں ہو۔ خدا کے گھر میں اپنا فرض ادا کرنے کے لیے، تمہیں جو کم از کم کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ تم سچائی تلاش کرو اور اس پر عمل کرو اور اصولوں کے مطابق کام کرو۔ اگر تم اپنے فرض کی انجام دہی میں سچائی پر عمل پیرا نہیں ہوتے ہو، تو تم اس پر عمل کہاں کروگے؟ اور اگر تم کسی سچائی پر عمل نہیں کرتے، تو تم ایمان سے محروم ہو۔ سچائی پر عمل تو درکنار، اگر تو سچائی کو تسلیم نہیں کرتا ہے – اور مارے باندھے خدا کے گھر میں آ جاتا ہے، تو تیرا مقصد کیا ہے؟ کیا تو خدا کے گھر کو اپنا سبکدوشی کے بعد کا ٹھکانا، یا گدا خانہ بنانا چاہتا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو تو غلطی پر ہے – خدا کا گھر مفت خوروں اور ناکارہ لوگوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا۔ ناقص انسانیت کا حامل کوئی بھی شخص، جو بخوشی اپنا فرض ادا نہیں کرتا، جو کوئی فرض ادا کرنے کے موزوں نہیں ہے، ان سب کو لازماً برطرف کردینا چاہیے؛ خدا پر ایمان سے محروم تمام لوگ جو سچائی کو بالکل ہی تسلیم نہیں کرتے، انھیں نکال باہر کرنا چاہیے“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ اپنا فرض بہتر طور پر ادا کرنے کے لیے کسی کو کم از کم باضمیر اور باشعور ضرور ہونا چاہیے)۔ خدا کا کلام پڑھنے کے بعد مجھے بہت شرم محسوس ہوئی۔ خدا اپنے کام اور لوگوں سے برتاؤ میں مکمل طور پر کھرا ہے۔ وہ ہمیں بچانے کے لیے لوگوں کے ساتھ رفاقت کا ہر طریقہ استعمال کرتا ہے، ہمیں سچ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے حقیقی تفصیلی رفاقت فراہم کر تا ہے۔ جب ہم نہیں سمجھ رہے ہوتے تو وہ ہمیں رہنمائی کے لیے بہت سی مثالیں دیتا ہے، اور ہمیں پانی اور رزق فراہم کرنے کے ہمیشہ سچائیوں پر رفاقت کر رہا ہے۔ چرچ مجھے اتنی اہم ڈیوٹی تفویض کر رہا تھا، لیکن میں ذمہ داری نہیں لے رہا تھا۔ میں اس معاملے میں لاپروائی کا مظاہرہ کر رہا تھا، کاہلی برت رہا تھا، حتیٰ کہ چالیں چل رہا تھااور مکر کررہا تھا۔ میری انسانیت کہاں تھی؟ خدا میرے ساتھ کھرا ہے لیکن میں اسے دھوکا دے رہا تھا۔ خدا کے کلام میں پہلے میں نے ایسے لوگوں کے بارے پڑھا تھا جو انسانیت میں برے تھے، لیکن میں اس کا موازنہ خود سے نہیں کرتا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ مجھ میں بھی انسانیت کی کمی ہے اور میں ضمیر نہیں رکھتا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں روزانہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہوں اور تھوڑی بہت قیمت چُکا رہا ہوں، میں تمام حرکات دہراتاتھا۔ لیکن میرا دل خدا کی جانب متوجہ نہ تھا۔ میں وہ سب کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا جو میں اپنی پوری استعداد کے ساتھ، دانا اور باضمیر انسان کی حیثیت سے اپنی ڈیوٹی میں انجام دے سکتا تھا۔ میں ڈیوٹی انجام نہیں دے رہا تھا – حتیٰ کہ میں تو خدمت کی انجام دہی کے معیار کے مطابق بھی نہ تھا۔ وڈیو میں موجود مسائل اتفاقیہ نہیں تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ سب میری غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہیں، اور میں اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہیں کر سکتا تھا۔ میں فقط خدا سے دعا کر سکتا تھا، کہ وہ مجھے ایک موقع فراہم کرے تاکہ میں توبہ کروں، میں نے اس کے بعد سے ڈیوٹی کے سلسلے میں اپنا رویہ بدلنے کا تہیہ کرلیا۔ میں اتنی لاپروائی مزید جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔
پھر میں نے خدا کے کلام سے ایک حصہ پڑھا۔ ”جب لوگوں کے مزاج میں بدعنوانی ہوتی ہے تو وہ اپنا فرض ادا کرتے وقت اکثر غافل اور لاپروا ہوتے ہیں۔ یہ تمام مسائل میں سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ اگر لوگوں کو اپنا فرض بہتر طور پر ادا کرنا ہے تو انھیں سب سے پہلے اس غفلت اور لاپروائی کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ جب تک وہ ایسی غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے، وہ اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا نہیں کر سکیں گے، جس کا مطلب ہے کہ غفلت اور لاپروائی کا مسئلہ حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تو انھیں کس طرح عمل کرنا چاہیے؟ ہیں؟ سب سے پہلے، انھیں اپنی ذہنیت کا مسئلہ حل کرنا چاہیے؛ انھیں چاہیے کہ وہ اپنا فرض درست طریقے سے انجام دیں اور کام کو سنجیدگی اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کریں، بغیر کسی مکاری اور غفلت کے۔ کوئی شخص خدا کے لیے فرض ادا کرتا ہے، کسی شخص کے لیے نہیں؛ اگر لوگ خدا کے انتخاب کو قبول کرنے کے قابل ہوں تو ان کی ذہنیت درست ہوگی۔ مزید یہ کہ، کوئی کام کرنے کے بعد، لوگوں کو چاہیے کہ اس کا تجزیہ کریں اور اس پر فکر کریں اور اگر ان کے دل میں کوئی شبہ ہے اور تفصیلی تفتیش کے بعد، انھیں یہ پتہ چلتا ہے کہ واقعی کوئی مسئلہ ہے تو انھیں تبدیلیاں کرنی چاہئیں؛ یہ تبدیلیاں کرتے ہی، ان کے دل میں کسی قسم کے شبہات نہیں ہوں گے۔ لوگوں کے دلوں میں شبہات ہوں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ ہے تو انھیں احتیاط کے ساتھ تجزیہ کرنا چاہیے کہ انھوں نے کیا کیا ہے، خصوصاً کلیدی مراحل پر۔ فرض کی ادائیگی کے تئیں یہ ایک ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ کام درست طریقہ سے ہوگا جب کوئی سنجیدہ ہو، ذمہ داری لے، اور دل و جان سے سب کچھ لگادے۔ بعض اوقات تیری ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہوتی ہے اور کسی ایسی غلطی کو تلاش یا دریافت نہیں کر سکتا جو بالکل واضح ہو۔ اگر تیری ذہنی حالت درست ہوتی تو روح القدس کی بصیرت اور اس کی راہنمائی سے، تو معاملے کی شناخت کے قابل گا۔ اگر روح القدس یہ جاننے کے لیے کہ خرابی کہاں ہے تیرے ذہن کو واضح احساس کی اجازت دیتے ہوئے تیری راہنمائی کرے اور تجھے آگہی بخشے تو پھر تو انحراف کو درست کرنے اور سچائی کی تلاش کے قابل ہوگا۔ اگر تو غلط ذہنی حالت میں ہوتا اور تو غائب دماغ اور لاپروا ہوتا تو کیا تو غلطی کو دیکھ پاتا؟ تو ایسا نہ کرے۔ اس سے کیا نظر آتا ہے؟ یہ دکھاتا ہے کہ فرائض کی بہتر طور پر ادائیگی کے لیے، یہ بہت اہم ہے کہ لوگ تعاون کریں؛ ان کے دماغ کی ساخت بہت اہم ہے اور ان کے خیالات اور ارادوں کی سمت کیا ہے یہ بہت اہم ہے۔ خدا منتخب کرتا ہے اور یہ دیکھ سکتا ہے کہ لوگ اپنے فرض کی ادائیگی کے وقت کس ذہنی حالت میں ہیں اور وہ کتنی توانائی لگاتے ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس میں اپنا سارا دھیان اور طاقت لگا دیں۔ تعاون ایک اہم جز ہے۔ صرف اس صورت میں جب لوگ یہ کوشش کریں کہ انھیں ان کے مکمل کردہ فرائض اور اپنے کیے گئے کاموں پر کوئی پچھتاوا نہ ہو اور خدا کے قرض دار نہ ہوں، تو پھر وہ پوری طرح جی جان لگا کر عمل کریں گے۔ اگر تم اپنے فرض کی ادائیگی میں مسلسل پوری طرح دل اور جان لگانے میں ناکام رہتے ہو، اگر تم مستقل طور پر لاپروا اور غافل رہتے ہو اور کام کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہو اور خدا کے مطلوبہ اثر سے بہت کم اثر ہوتا ہے تو تمھارے ساتھ صرف ایک کام ہو سکتا ہے: تمھیں نکال دیا جائے گا اور کیا تب بھی پچھتاوے کا وقت ہوگا؟ نہیں ہوگا۔ یہ چیزیں ابدی پچھتاوا، ایک داغ بن جائیں گی! مسلسل لاپروائی اور غفلت ایک داغ ہے، یہ ایک سنگین جرم ہے – ہاں یا نہیں؟ (ہاں۔) تمھیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور وہ تمام کام جو تجھے کرنے چاہئیں، پوری طرح جی جان سے کر، تجھے لاپروا اور غافل نہیں ہونا چاہیے یا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تو یہ کر سکتا ہے تو جو فرض تو ادا کرےگا اسے خدا یاد رکھے گا۔ خدا جس چیز کو یاد رکھتا ہے وہ نیک اعمال ہیں۔ تو پھر وہ کون سی چیزیں ہیں جنھیں خدا یاد نہیں رکھتا؟ (وہ گناہ اور برے اعمال ہیں۔) اگر اس وقت ان کو اس طرح بیان کیا جائے تو شاید لوگ اسے قبول نہ کریں کہ یہ برے اعمال ہیں لیکن وہ دن آئے جب ان چیزوں کے سنگین نتائج نکلیں اور ان کا منفی اثر ہو تو تجھے اندازہ ہوگا کہ یہ چیزیں محض رویہ جاتی گناہ نہیں ہیں بلکہ برے اعمال ہیں۔ جب تجھے احساس ہوگا تو تو پچھتائےگا اور اپنے دل میں سوچے گا: ’مجھے اس سے اجتناب کی تھوڑی کوشش کرنی چاہیے تھی! ابتدا میں تھوڑی زیادہ فکراور کوشش سے اس نتیجے سے اجتناب کیا جا سکتا تھا۔‘ کوئی چیزتیرے دل سے اس دائمی داغ کو نہیں مٹائے گی اور اگر یہ تجھے ایک مستقل قرض تلے دباتا ہے تو اس کی وجہ سے مشکل ہوگی۔ لہٰذا خدا کی جانب سے سونپے گئے کام میں آج ہی دل اور جان لگانے کی کوشش کرنی چاہیے، ہر فرض کو صاف نیت کے ساتھ، بغیر کسی پشیمانی کے اور اس انداز میں ادا کرنا چاہیے جسے خدا یاد رکھے۔ تو خواہ کچھ بھی کر مگر لاپروا اور غافل نہ بن؛ اگر ایک بار تو پچھتاوے میں پڑا تو تو اس سے نکل نہیں پائے گا۔ اگر تو جذبات میں غلطی کر بیٹھتا ہے اور یہ سنگین گناہ ہے تو یہ ایک دائمی داغ، ایک مستقل پچھتاوا ہوگا۔ ان دونوں راستوں کو صاف نظر آنا چاہیے۔ خدا کی تعریف سے ملنے کے لیے، تجھے کس کا انتخاب کرنا چاہیے؟ کسی پچھتاوے کے بغیر، پوری طرح اپنے دل و جان سے فرض کی ادائیگی، اور اچھے اعمال کی تیاری اور انھیں جمع کرنا۔ تو جو کچھ بھی کر، کچھ ایسا غلط کام نہ کرنا جس سے دوسروں کے فرائض کی انجام دہی میں خلل پڑے، کوئی ایسا کام نہ کرنا جو سچائی کے خلاف ہو اور خدا کے خلاف مزاحمت ہو اور ساری عمر کی پشیمانی مول نہ لینا۔ کیا ہوتا ہے جب ایک شخص نے بہت سے گناہ کیے ہوں؟ وہ اُس کی موجودگی میں اس پر خدا کا غضب لا رہے ہیں! اگر تو کبھی مزید گناہ کرتے ہے اور خدا کا غضب تیری جانب اور زیادہ بڑھتا ہے تو، بالآخر، تجھے سزا ملے گی“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ تیسرا حصہ)۔ اس سے قبل، کہ میں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میں اپنی ڈیوٹی میں لاابالی تھا، لیکن میں نے کبھی اس بات کا ادراک نہ کیا کہ مجھے اس کے کیا نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں، اور ایسے شخص کو خدا کس نظر سے دیکھے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی ہول ناک برائی نہیں کر رہے ہیں، لیکن اس انداز سے ڈیوٹی انجام دینا ایسی چیز ہے جس سے خدا نفرت کرتا ہے۔ اگر میں نے توبہ نہ کی ہوتی، تو مجھے معلوم تھا کہ میں نے اپنی نجات کا موقع برباد کر دیا ہے۔ حقیقت مجھ پر کھل گئی کہ اپنی ڈیوٹی جیسے تیسے انجام دینا اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا کتنا سنجیدہ مسئلہ تھا۔ یہ میری غیر ذمہ داری کی وجہ سے تھا کہ ویڈیو کو مزید ایڈٹنگ سے گزرنا پڑا اور ہمارا پورا کام رک گیا۔ یہ ایک گناہ تھا۔ اگر میں نے فوراً اپنی حالت کو ٹھیک نہ کیا ہوتا، بلکہ لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کو اپنائے رکھا ہوتا، تو میں خدا کو ناراض کر سکتا تھا اور کسی بھی موقع پر نابود کر دیا جاتا، اس کے بعد پچھتانےکا وقت گزر چکا ہوتا۔ ہمیں خدا کے کلام سے عمل کی ایک راہ مل گئی۔ اول، ہماری سوچ درست ہونی چاہیے، ہمیں خدا کی جانچ پرکھ کو قبول کرنا چاہیے اور ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اس کے بعد ہمیں چیزوں پر احتیاط سے نظر ثانی کرنی چاہیے اور ان مسائل پر، جو ہمیں دکھائی دیں، ملمع کاری نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بعد، ہم نے خدا کے کلام پر عمل کیا۔ ہم نے اپنی ناکامی کے اسباب کا خلاصہ تیار کیا اور ہر تفصیل پر نظر ثانی کرتے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر ویڈیوز پر تندہی سے کام کیا، ہم نے ایک ساتھ مل کراصولوں کی جستجو کی اور یہ طے کیا کہ چیزوں کی ایڈٹ کس طرح کرنی ہے۔ بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ اس رفاقت اور تبادلہ خیال نے اصول بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کی، اور ہم نے جانا کہ اگرچہ ہم نے کچھ ویڈیوز پر متعدد مرتبہ نظر ثانی کی تھی، اس مرتبہ کچھ زیادہ توجہ کے ساتھ، ہم نے نئے مسائل دریافت کیے۔ جس سے ظاہر ہوا کہ ماضی میں ہمارا اپنی ڈیوٹی سے نظریں چرا کر گزرنے کا مسئلہ کس قدر سنجیدہ تھا۔ پھر ہم نے تجزیہ کیا کہ اصولوں کی بنیاد پر ویڈیوز کس طرح ایڈٹ کی جانی چاہئیں ہم نے دل و جان سے تمام ایڈٹس کیں، اس کے بعد جب ہمیں کوئی مسئلہ دکھائی نہ دیا تو ہم نے انھیں لیڈر کے سپرد کیا کہ وہ ان کا جائزہ لے۔ اس پر عمل کرنے کے بعد ہر کوئی بہتر محسوس کر رہا تھا۔ ان ویڈیوز میں ایڈٹنگ کے بعد ہم نے انھیں جائزے کے لیے لیڈر کے سپرد کیا۔ انھوں نے کہا ”یہ بہت اچھی ہیں، اور مجھے کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتاـ اس مرتبہ آپ نے اچھا کام کیا ہے۔“ جب لیڈر نے یہ کہا، تو میں دل سے خدا کا شکر ادا کیے بغیر نہ رہ سکا۔ میں جانتا تھا کہ ایسا صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہم نے اچھا کام کیا ہے بلکہ یہ خدا کی رہنمائی کے سبب ہوا ہے۔ جب ہم پلٹ جانے اور توبہ کا ہلکا سا بھی ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور لاپروائی ترک کرتے ہیں تو خدا ہماری راہنمائی کرتا ہے اور ہم پر برکتیں بھیجتا ہے۔ اس تجربے نے حقیقت میں مجھ پر منکشف کیا کہ پرسکون ہونے کے لیے آپ کو اپنا فریضہ دل لگاکر انجام دینا ہوگا۔ خدا کا شکر!
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟