کیا تم نے خدا کی آواز سنی ہے؟
آداب، بھائیو اور بہنوں، ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم اکٹھے ہوئے ہیں – خداوند کا شکر ہے! ہم سب وہ لوگ ہیں جو خدا کے کلام کو سننا پسند کرتے ہیں اور خداوند کا استقبال کرنے کو بے چین ہیں۔ آج، ہم خداوند یسوع کی پیشنگوئیوں پر تھوڑی سی رفاقت کرنے جا رہے ہیں اور خداوند کی واپسی کے بارے میں مختلف تفہیمات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ زیادہ تر لوگوں نے خداوند کی واپسی کو بادلوں پر اس کے اترنے کی صورت کو مختصر پیرائے میں بیان کیا ہے، لیکن انجیل میں خداوند یسوع کی اپنی پیشنگوئیوں کے مطابق، وہ واپس آئے گا اور ابن آدم کے طور پر کلام کرے گا۔ خداوند نے متعدد مواقع پر ابن آدم کے آنے یا ظاہر ہونے کی پیشن گوئی کی تھی، اور ابن آدم کی آمد سے مراد خدا کے ظاہر ہونے اور جسم میں کام کرنے سے ہے۔ صرف یہ سب سے خالص مفہوم ہے، اور تمہارا کسی مذہبی کلیسا میں اس کے سننے کا امکان بہت کم ہے۔ ابن آدم کا آنا یا ظاہر ہونا ایک بہت بڑا اسرار ہے، جسے کوئی بھی اس کے ظہور اور کام کا خیر مقدم کیے بغیر نہیں جان سکتا۔
انجیل میں خداوند کی واپسی کے بارے میں بہت سی پیشگوئیاں ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر انسانوں کی طرف سے آئی ہیں، جیسے رسولوں یا نبیوں، یا فرشتوں سے۔ لوگ جن پیشنگوئیوں کا حوالہ دیتے ہیں وہ انسانوں کی پیشین گوئیاں ہیں، اور اس لیے وہ خداوند کو کھلے عام بادلوں پر اترتے ہوئے دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن حقیقت میں، خداوند کی واپسی سب سے بہتر محفوظ کردہ راز ہے۔ خداوند یسوع نے کہا، ”لیکن اُس دِن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرِشتے نہ بیٹا مگر صِرف باپ“ (متّی 24: 36)۔ چونکہ کوئی بھی اس دن یا گھڑی کو نہیں جانتا ہے، یہاں تک کہ آسمانی فرشتے یا بیٹا بھی نہیں، کیا انجیل کی خدا کی واپسی کے بارے میں انسانوں یا فرشتوں کی طرف سے دی گئی کوئی بھی پیشنگوئیاں واقعی درست ہو سکتی تھیں؟ وہ ممکنہ طور پر نہیں ہو سکتی تھی۔ اور اس لیے، اگر ہم خداوند کا خیر مقدم کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں خداوند یسوع کی اپنی پیشگوئیوں کے مطابق چلنا ہو گا۔ خداوند کا خیر مقدم کرنے کی یہی ہماری واحد امید ہے۔ اس طرح، جو لوگ بادلوں پر کھلے عام خداوند کے اترنے کا انتظار کر رہے ہیں وہ، روتے اور دانت پیستے ہوئے، ضرور آفات کا شکار ہو جائیں گے۔ خداوند یسوع نے کہا، ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا“ (متّی 24: 27)۔ ”کیونکہ جَیسے بِجلی آسمان کی ایک طرف سے کَوند کر دُوسری طرف چمکتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ اپنے دِن میں ظاہِر ہو گا۔ لیکن پہلے ضرُور ہے کہ وہ بُہت دُکھ اُٹھائے اور اِس زمانہ کے لوگ اُسے رَدّ کریں“ (لُوقا 17: 24-25)۔ ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا ۔۔۔ اور تُمہیں آیندہ کی خبریں دے گا“ (یُوحنّا 16: 12-13)۔ ”دیکھ مَیں دروازہ پر کھڑا ہُؤا کھٹکھٹاتا ہُوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ“ (مُکاشفہ 3: 20)۔ ”جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے“ (مُکاشفہ 2: 7)۔ ”میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہُوں اور وہ میرے پِیچھے پِیچھے چلتی ہیں“ (یُوحنّا 10: 27)۔ ہم خداوند یسوع کی ان پیشنگوئیوں میں کیا دیکھ سکتے ہیں؟ خداوند کے الفاظ ہمیں واضح طور پر بتاتے ہیں کہ وہ آخری ایام میں ابن آدم کے طور پر واپس آتا ہے۔ ابن آدم دراصل مجسم ہونا ہے، اور وہ بنیادی طور پر کلام کرے گا، بہت سی سچائیوں کا اظہار کرے گا، اور خدا کے چنیدہ لوگوں کی تمام سچائیوں میں داخل ہونے کے لیے رہنمائی کرے گا۔ خداوند آنے اور سچائیوں کا اظہار کرنے سے کیا کام انجام دے گا؟ بلا شبہ یہ خدا کے گھر سے شروع ہونے والے عدالت کے کام کو انجام دینا ہے، جو مزید ثابت کرتا ہے کہ خدا سچائی کا اظہار کر کے آخری ایام میں عدالت کا کام کرتا ہے۔ تو پھر ہم خداوند کا استقبال کیسے کر سکتے ہیں؟ چونکہ وہ ابن آدم کے طور پر آ رہا ہے، اور ابن آدم ایک بالکل عام ظاہری شبیہ رکھتا ہے جس میں کچھ بھی واضح طور پر مافوق الفطرت نہیں ہے، لہذا کوئی بھی یہ نہیں دیکھ سکے گا کہ یہ صرف اس کی بیرونی ظاہری شبیہ میں خدا کا ظہور ہے۔ کلید یہ ہے کہ ابن آدم کی باتیں سنی جائیں اور دیکھا جائے کہ آیا یہ خدا کی آواز ہے۔ خداوند کا استقبال خدا کی آواز کو پہچاننے اور اس کے لئے دروازہ کھولنے سے انجام پاتا ہے۔ اگر وہ سچ بولتا ہے اور لوگ سنتے ہیں لیکن اس کی آواز کو نہیں پہچانتے ہیں تو ان کے پاس اس کا استقبال کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔ کتاب وحی میں بار بار پیشن گوئی کی گئی ہے: ”جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے“ (مکاشفہ باب 2، 3)۔ اس کا ذکر مجموعی طور پر سات بار کیا گیا ہے۔ اس طرح، خداوند کا خیر مقدم کرنے کے لئے، خدا کی آواز سننا نہایت اہم ہے؛ اس کا استقبال کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اب کیا تم جانتے ہو کہ خداوند کا استقبال کرنے کی کلید کیا ہے؟ یہ صحیح ہے – خداوند کا استقبال کرنے کے لئے، ہمیں بالکل خدا کی آواز سننے کی کوشش کرنی ہو گی، اور یہ ”آواز“ واپس آنے والے خداوند کے ذریعے ظاہر کردہ بہت ساری سچائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے، وہ تمام سچائیاں جو لوگوں نے پہلے کبھی نہیں سنی ہیں اور وہ چیزیں جو انجیل میں کبھی درج نہیں کی گئیں۔ عقلمند کنواریاں سنتی ہیں کہ ابن آدام کے بیان کردہ الفاظ سب سچے ہیں، سب خدا کی آواز ہیں، اور وہ خوشی سے معمور ہو کر، خداوند کا خیرمقدم کرتی ہیں۔ صرف خداوند ہی سچائی کا اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؛ صرف خداوند ہی طریقہ، سچائی اور زندگی ہے۔ جو کوئی ابن آدم کے بیان کردہ الفاظ سنتا ہے لیکن لاتعلق رہتا ہے یا ان کو مسترد کرتا ہے، یا سچائی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، وہ ایک احمق کنواری ہے جسے خداوند کی جانب سے چھوڑ دیا جائے گا۔ وہ یقینا بڑی آفات میں گھر جائیں گے، روتے اور دانت پیستے رہیں گے۔ ابھی تک تو، مذہبی دنیا نے خداوند کا خیرمقدم نہیں کیا ہے؛ اس کی بجائے، وہ مسلسل مایوسی کی حالت میں، خدا کو مورد الزام ٹھہراتے اور انکار کرتے ہوئے آفات کا شکار ہو گئے ہیں۔ جو لوگ خدا کی بھیڑیں ہیں وہ خدا کی آواز سننے کے بعد بے تابی سے سچا طریقہ تلاش کرتے اور اس کی تحقیق کرتے ہیں، تاکہ وہ خداوند کا استقبال کر سکیں۔ لہذا ہمیں واضح ہونا چاہیے: جب خداوند آخری ایام میں واپس آتا ہے، تو وہ ابن آدم کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور تمام سچائیوں کا اظہار کرتا ہے، اور خداوند کے ظہور کی تلاش میں ہمارے لئے کلید یہ ہے کہ ہم تلاش کریں کہ خداوند کے ذریعے بیان کردہ یہ تمام سچائیاں کہاں ہیں، اس کلیسا کی تلاش کریں جس کے اندر خدا بول رہا ہے۔ ایک بار جب تم ابن آدم کے ذریعے بیان کردہ سچائیوں کو دریافت کر لیتے ہو تو، تم اس آواز کی اس کے منبع تک پیروی کرکے خدا کی ظاہری شکل اور کام کو تلاش کرسکتے ہو۔ جیسے ہی تمھیں پتہ چلے گا کہ خداوند کے ذریعے بیان کردہ تمام سچائیاں وہ ہیں جو انسانیت کو پاک کریں اور نجات دیں گی، تم خداوند کی واپسی کو قبول کر لو گے، اور پھر تم نے اس کا خیرمقدم کر لیا ہو گا۔ خداوند کا استقبال کرنے کا یہ بہترین اور سب سے آسان طریقہ ہے۔ کھڑے ہو کر آسمان کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی بادلوں پر نیچے اترتے ہوئے خداوند کے استقبال کے لئے کسی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہونے کی کوئی ضرورت ہے، چہ جائیکہ تم چوبیس گھنٹے دعا کرو، یا روزہ رکھو اور دعا کرو۔ تمھیں صرف نظر رکھنے اور انتظار کرنے کی ضرورت ہے، بس خدا کی آواز سننے کے لئے اپنی جستجو میں کبھی کمی نہ آنے دو۔
اس موقع پر، تم میں سے کچھ لوگ حیران ہو رہے ہوں گے: پھر ہم جو کچھ سنتے ہیں اسے خدا کی آواز کے طور پر کیسے پہچان سکتے ہیں؟ درحقیقت، خدا کی آواز سننا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ خداوند یسوع نے کہا، ”آدھی رات کو دُھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آ گیا! اُس کے اِستقبال کو نِکلو“ (متّی 25: 6)۔ جب بھی تم کسی کو خدا کی ظاہری شکل اور کام کی گواہی دیتے ہوئے سنتے ہو، یا یہ کہ اس نے بہت سی سچائیوں کا اظہار کیا ہے، تو تمھیں فوری طور پر اس پر غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا یہ الفاظ خدا کی طرف سے کہے گئے سچ ہیں یا نہیں۔ اگر وہ سچ ہیں، تو تمھیں انہیں قبول کرنا چاہیے، کیونکہ خدا کی بھیڑیں اس کی آواز سن سکتی ہیں۔ یہ خدا کی طرف سے پہلے سے طے شدہ چیز ہے، اور اس کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ کوئی شخص کتنا تعلیم یافتہ ہے، وہ انجیل کو کتنی اچھی طرح جانتا ہے، یا اس کے تجربے کی گہرائی کتنی ہے۔ مسیحی ہونے کے ناطے، جب ہم خداوند یسوع کے بہت سے بولے گئے الفاظ سنتے ہیں تو ہم کیسا محسوس کرتے ہیں؟ یہاں تک کہ خداوند کے الفاظ کے کسی تجربے یا تفہیم کے بغیر بھی، جیسے ہی ہم انہیں سنتے ہیں، ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ سچ ہیں، کہ وہ اختیار اور طاقت رکھتے ہیں؛ ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ گہرے اور پراسرار ہیں، انسانی فہم سے بالاتر ہیں – یہ الہام اور وجدان کا کردار ہے۔ چاہے ہم اس بات کو واضح طور پر بیان کر سکیں یا نہ کر سکیں، یہ احساس درست ہے، اور یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس دل اور روح ہے، تو وہ خدا کی طرف سے الفاظ کی طاقت اور اختیار کو محسوس کرسکتا ہے۔ خدا کی آواز سننا ایسا ہی ہے۔ اس پر تھوڑا سا مزید غور کرنے کے لئے، خدا کے کلام میں اور کیا خصوصیات ہیں؟ خدا کا کلام ہمیں زندگی کے لئے رزق فراہم کرتا ہے۔ وہ اسراروں سے پردہ اٹھاتا ہے، ایک نئے دور کو کھولتا ہے اور ایک پرانے دور کو بند کرتا ہے۔ جس طرح خداوند یسوع کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ گلےپانی، سیرابی اور لوگوں کو فراہمی کرنے کے لئے سچائی کا اظہار کرنے کے قابل تھا؛ خداوند نے آسمان کی بادشاہی کے اسراروں پر سے بھی پردہ اٹھایا، انسانیت کے لیے آسمان کی بادشاہی میں جانے والا توبہ کا راستہ لایا، فضل کے دور کو کھولا، شریعت کے دور کو ختم کیا، اور بنی نوع انسان کی نجات کا کام مکمل کیا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو کوئی انسان حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو پھر، آج کل، ایک ابن آدم ہے جو کئی سالوں سے الفاظ بول رہا ہے، بہت ساری سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کلام کو پڑھنے کے بعد محسوس کیا ہے کہ یہ روح القدس کے الفاظ ہیں، خدا کی آواز ہیں، اور انہیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ ابن آدم جو سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے وہ ہی واپس آنے والا خداوند یسوع ہے، کہ وہ جسم میں قادر مطلق خدا ہے۔ قادر مطلق خدا نے بنی نوع انسان کو پاک کرنے اور بچانے کے لیے درکار تمام سچائیوں کا اظہار کیا ہے، خدا کے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے اسراروں سے پردہ اٹھایا ہے، اور خدا کے گھر سے شروع ہونے والی عدالت کا کام کر رہا ہے۔ اس نے بادشاہی کے دور کا آغاز کیا ہے اور فضل کے دور کو ختم کیا ہے۔ کیا ہر کوئی قادر مطلق خدا کے کچھ کلام سننا چاہتا ہے، خدا کی آواز سننے کے لیے؟ آئیے قادر مطلق خدا کے ارشادات کے چند اقتباسات پڑھتے ہیں۔
قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”مجھے کبھی یہوواہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مجھے مسیحا بھی کہا جاتا تھا، اور لوگوں نے ایک وقت میں مجھے پیار اور عزت کے ساتھ یسوع نجات دہندہ بھی کہا۔ تاہم، آج میں وہ یہوواہ یا یسوع نہیں ہوں جسے لوگ ماضی میں جانتے تھے، میں وہ خدا ہوں جو آخری ایام میں واپس آیا ہے، وہ خدا جو دور ختم کرے گا۔ میں خود وہ خدا ہوں جو زمین کے آخری سرے سے اٹھتا ہے، اپنے پورے مزاج سے معمور نیز اختیار، عزت اور شان سے سرشار ہوں۔ لوگ کبھی میرے ساتھ شامل نہیں ہوئے، انھوں نے مجھے کبھی نہیں جانا اور ہمیشہ میرے مزاج سے ناواقف رہے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک کسی ایک شخص نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ یہ وہ خدا ہے جو آخری ایام میں انسان پر ظاہر ہوتا ہے لیکن انسانوں کے درمیان پوشیدہ ہے۔ وہ انسان کے درمیان رہتا ہے، سچا اور حقیقی، جلتے سورج اور بھڑکتے شعلے کی طرح، طاقت سے پُر اور اختیار سے لبریز۔ کوئی بھی شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جس کی عدالت میرے کلام سے نہیں کی جائے گی، اور کوئی ایک شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جو آگ کے جلنے سے پاک نہ ہو۔ آخرکار، تمام قومیں میرے کلام کی وجہ سےنعمتیں پائیں گی اور میرے الفاظ کی وجہ سے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی۔ یوں آخری ایام میں تمام لوگ دیکھیں گے کہ میں نجات دہندہ ہوں، واپس آیا ہوں، اور یہ کہ میں ہی وہ قادرِ مطلق خدا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کو فتح کرتا ہے۔ اور سب دیکھیں گے کہ میں کبھی انسان کے لیے گناہوں کا کفارہ تھا، لیکن یہ کہ آخری ایام میں، میں سورج کے شعلے بن جاؤں گا جو تمام چیزوں کو جلا کر خاک کردیتے ہیں اور ساتھ ہی راستبازی کا سورج ہوں جو تمام چیزوں کو منکشف کرتا ہے۔ یہ آخری ایام میں میرا کام ہے۔ میں نے یہ نام لیا ہے اور میں اس مزاج کا حامل ہوں تاکہ سب لوگ دیکھیں کہ میں ایک راست باز خدا ہوں، جلتا ہوا سورج ہوں، بھڑکتا ہوا شعلہ ہوں اور سب میری عبادت کریں جو ایک حقیقی خدا ہے۔ تاکہ وہ میرا حقیقی چہرہ دیکھ سکیں: میں نہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہوں اور میں نہ صرف خلاصی دہندہ ہوں، میں آسمانوں اور زمین اور سمندروں کی تمام مخلوقات کا خدا ہوں“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ نجات دہندہ پہلے ہی ”سفید بادل“ پر واپس آ چکا ہے)۔ ”میں پوری کائنات میں اپنا کام کر رہا ہوں، اور مشرق میں تمام قوموں اور فرقوں کو لرزہ براندام کر دینے والی گرج چمک کے ساتھ یہ لامتناہی طور پر جاری ہے۔ یہ میری آواز ہے جو تمام لوگوں کو حال میں لے آئی ہے۔ میں اپنی آواز سے تمام لوگوں کو فتح کرنے، اس دھارے میں شامل ہونے، اور میرے حضور سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرتا ہوں، کیونکہ میں نے طویل عرصہ پہلے تمام روئے زمین پر اپنا جلال دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اسے مشرق میں نئے سرے سے جاری کیا ہے۔ کون ہے جو میرا جلال دیکھنے کی تمنا نہیں کرتا؟ کون ہے جسے بے چینی سے میری واپسی کا انتظار نہیں؟ کون ہے جو میرےدوبارہ ظہور کا پیاسا نہیں ہے؟ کون ہے جو میری دلکشی کو یاد نہیں کرتا؟ کون ہے جو روشنی میں نہیں آئے گا؟ کنعان کی دولت کون نہیں دیکھے گا؟ کون ہے جو نجات دہندہ کی واپسی کی خواہش نہیں کرتا؟ کون اس کی پرستش نہیں کرتا جو قدرت میں عظیم ہے؟ میری آواز تمام روئے زمین پر پھیل جائے گی۔ میں اپنے منتخب لوگوں کا سامنا کروں گا اور ان سے مزید الفاظ کہوں گا۔ پہاڑوں اور دریاؤں کو ہلادینے والی زبردست گھن گرج کی طرح، میں اپنی باتیں پوری کائنات اور بنی نوع انسان سے کہتا ہوں۔ لہٰذا میرے الفاظ انسان کا خزانہ بن گئے ہیں اور تمام انسان میرے الفاظ عزیز رکھتے ہیں۔ بجلی مشرق سے مغرب تک پوری طرح چمک رہی ہے۔ میرے الفاظ ایسے ہیں کہ انسان انہیں ترک کرنے سے متنفر ہے اور ساتھ ہی ان کو ناقابل فہم پاتا ہے لیکن ان تمام چیزوں سے اور زیادہ مسرور ہوتا ہے۔ تمام لوگ خوش اور مسرور ہیں، میری آمد کا جشن منا رہے ہیں، گویا ابھی ابھی کوئی بچہ پیدا ہوا ہو۔ میں اپنی آواز کے وسیلے سے سب انسانوں کو اپنے سامنے لاؤں گا۔ اس کے بعد سے میں باضابطہ طور پر نسل انسانی میں شامل ہو جاؤں گا تاکہ وہ میری عبادت کرنے آئیں۔ میں اپنے درخشاں جلال اور اپنےمنہ کے الفاظ کے ساتھ، اسے ایسا بناؤں گا کہ تمام لوگ میرے سامنے آئیں اور دیکھیں کہ بجلی مشرق سے چمکتی ہے اور یہ کہ میں مشرق کے ’جبل زیتون‘ پر بھی اتر آیا ہوں۔ وہ دیکھیں گے کہ میں پہلے ہی زمین پر طویل عرصے سے ہوں، اب یہودیوں کے بیٹے کی حیثیت سے نہیں بلکہ مشرق کی بجلی کی حیثیت سے۔ کیونکہ مجھے دوبارہ زندہ ہوئے بہت وقت ہو چکا ہے اورمیں بنی نوع انسان کے درمیان سے چلا گیا تھا، اور جلال کے ساتھ لوگوں کے درمیان دوبارہ ظاہر ہوا ہوں۔ وہ میں ہی ہوں جس کی اب سے پہلے بے شمار ادوارسے پرستش کی جاتی تھی، میں وہ شیرخوار بچہ بھی ہوں جسے بنی اسرائیل نےاب سے بے شمار ادوار پہلے چھوڑ دیا تھا۔ مزید برآں، میں موجودہ دور کا عظیم الشان قادر مطلق خدا ہوں! سب میرے تخت کے سامنے آئیں اور میرا جلالی چہرہ دیکھیں، میری آواز سنیں اور میرے کام دیکھیں۔ یہ میری منشا کی کُلیّت ہے۔ یہ میرے منصوبے اور ساتھ ہی ساتھ میرے انتظام کے مقصد کا اختتام اور عروج ہے: ہر قوم میری عبادت کرے، ہر زبان مجھے تسلیم کرے، ہر انسان مجھ پر ایمان لائے، اور ہر قوم میرے تابع ہو!“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ سات گرج دار آوازیں – نبوت کر رہی ہیں کہ بادشاہی کی خُوشخبری پوری کائنات میں پھیل جائے گی)۔ ”جب میں بولنے کے لیے اپنا چہرہ کائنات کی طرف موڑتا ہوں تو تمام بنی نوع انسان میری آواز سنتے ہیں، اور اس کے بعد وہ تمام کام دیکھتے ہیں جو میں نے پوری کائنات میں کیے ہیں۔ جو لوگ میری مرضی کے خلاف ہو جائیں گے یعنی جو انسانی اعمال سے میری مخالفت کریں گے وہ میرے عذاب کے مستحق ہوں گے۔ میں آسمانوں میں کثیر تعداد میں ستاروں کو لے کر ان کو نئے سرے سے بناؤں گا اور میری وجہ سے سورج اور چاند کی تجدید ہو جائے گی۔ آسمان اب ایسے نہیں رہیں گے جیسے پہلے تھے اور زمین پر بے شمار چیزوں کی تجدید ہو گی۔ میرے کلام سے سب مکمل ہو جائیں گے۔ کائنات کے اندر بہت سی قومیں نئے سرے سے تقسیم ہو جائیں گی اور میری بادشاہت سے تبدیل ہو جائیں گی، اس طرح کہ زمین پر موجود قومیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی اور سب ایک ایسی مملکت بن جائیں گی جو میری عبادت کریں گی؛ زمین کی تمام قومیں تباہ ہو جائیں گی اور عدم الوجود ہو جائیں گی۔ کائنات کے اندر موجود انسانوں میں سے، شیطان سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو نیست و نابود کر دیا جائے گا، اور جو بھی شیطان کی پرستش کرتے ہیں انھیں میری جلتی ہوئی آگ ڈھانپ لے گی۔ یعنی سوائے ان کے جو اب دھارے کے اندر ہیں، سب راکھ ہو جائیں گے۔ جب میں بہت سے لوگوں کو سزا دوں گا، تو مذہبی دنیا کے لوگ، مختلف حدوں تک، میرے کاموں سے مغلوب ہو کر میری بادشاہت میں واپس آ جائیں گے، کیونکہ انھوں نے ایک سفید بادل پر سوار مقدس ہستی کی آمد کو دیکھا ہوگا۔ تمام لوگوں کو ان کی اپنی نوعیت کے مطابق الگ کیا جائے گا، اور ان کے اعمال کے مطابق سزا ملے گی۔ وہ سب جو میرے خلاف کھڑے ہوئے ہیں ہلاک ہو جائیں گے؛ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جن کے زمین پر اعمال نے مجھے ملوث نہیں کیا ہے، وہ اپنے فرض کو اچھی طرح ادا کرنے کی وجہ سے، میرے بیٹوں اور میرے لوگوں کی حکومت میں زمین پر موجود رہیں گے۔ میں اپنے تمھیں بے شمار لوگوں اور بے شمار قوموں پر ظاہر کروں گا، اور میں خود اپنی آواز میں زمین پر اپنے عظیم کام کی تکمیل کا اعلان کروں گا تاکہ تمام انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ پوری کائنات کے لیے خدا کا کلام، باب 26)۔
قادر مطلق خدا کے کلام کے کچھ اقتباسات سننے کے بعد اب ہر کوئی کیسا محسوس کر رہا ہے؟ کیا یہ خدا کی آواز ہے؟ قادر مطلق خدا کے کلام کا ہر آخری جملہ طاقت اور اختیار رکھتا ہے اور لوگوں کو ان کے دل تک ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ خدا کے سوا کون ساری انسانیت کو مخاطب کر سکتا ہے؟ نوع انسانی کو بچانے کے لئے خدا کی مرضی کا اظہار کون کر سکتا ہے؟ کون آخری ایام میں خدا کے منصوبے اور اس کے کام کے انتظامات کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کے انجام اور منزل کو پہلے سے ظاہر کر سکتا ہے؟ کون خدا کے انتظامی احکامات سے پوری کائنات کو آگاہ کر سکتا ہے؟ خدا کے سوا کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔ قادر مطلق خدا کے نوع انسانی کے لیے تمام ارشادات ہمیں خدا کے کلام کی حاکمیت اور طاقت کو محسوس کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ قادر مطلق خدا کاکلام براہ راست خدا کی طرف سے بیان کیے گئے ارشادات ہیں، خود خدا کی آواز ہیں! قادر مطلق خدا کے ان الفاظ کے ساتھ، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے خدا اونچے آسمان میں کھڑا ہو اور ساری دنیا کا سامنا کر رہا اور بول رہا ہو۔ قادر مطلق خدا، تخلیق کے خداوند کی حیثیت سے انسانیت سے بات کر رہا ہے اور انسانیت کے سامنے خدا کی راستبازی اور شاہانہ مزاج کا اظہار کر رہا ہے، جو کسی جرم کو برداشت نہیں کرے گا۔ اگرچہ وہ خدا کے کلام میں موجود سچائیوں کو نہ سمجھ سکیں یا جب وہ پہلی بار انہیں سنتے ہیں تو انہیں کوئی حقیقی تجربہ یا تفہیم نہ ہوتی ہو، پھر بھی وہ سب جو خدا کی بھیڑیں ہیں وہ یہ محسوس کریں گے کہ قادر مطلق خدا کا ہر لفظ طاقت اور اختیار سے بھرا ہوا ہے اور اس بات کا یقین رکھیں گے کہ یہ خدا کی آواز ہے اور یہ براہ راست خدا کی روح سے آتی ہے۔ یہ خداوند یسوع کے الفاظ کو پورا کرتا ہے، ”میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہُوں اور وہ میرے پِیچھے پِیچھے چلتی ہیں“ (یُوحنّا 10: 27)۔
اب ہم نے خدا کی آواز سنی ہے اور خدا کی طرف سے ظاہر کردہ سچائیوں کو دیکھ لیا ہے، تو خدا سچائیوں کے اظہار کے ساتھ کون سا کام کرنے کے لیے آیا ہے؟ وہ آخری ایام میں عدالت کا کام کرنے آیا ہے، جسے خداوند یسوع کے اپنے منہ کی پیشین گوئیوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ”کیونکہ باپ کِسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کِیا ہے“ (یُوحنّا 5: 22)۔ ”بلکہ اُسے عدالت کرنے کا بھی اِختیار بخشا۔ اِس لِئے کہ وہ آدمؔ زاد ہے“ (یُوحنّا 5: 27)۔ ”اگر کوئی میری باتیں سُن کر اُن پر عمل نہ کرے تو مَیں اُس کو مُجرِم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دُنیا کو مُجرِم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہُوں۔ جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخِری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا“ (یُوحنّا 12: 47-48)۔ ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا ۔۔۔ اور تُمہیں آیندہ کی خبریں دے گا“ (یُوحنّا 16: 12-13)۔ اور ہم پطرس کی پہلی کتاب کے باب 4، آیت 17 کو نہیں بھول سکتے: ”کیونکہ وہ وقت آ پُہنچا ہے کہ خُدا کے گھر سے عدالت شرُوع ہو“۔ یہ تمام پیشگوئیاں بالکل واضح ہیں۔ آخری ایام میں عدالت خدا کے گھر سے شروع ہو گی، اور یہ ان تمام لوگوں کے بیچ کی جائے گی جنہوں نے آخری ایام میں خدا کے عدالت کے کام کو قبول کیا ہے۔ یعنی مجسم ابن آدم نوع انسانی کی عدالت کرنے اور انہیں پاک کرنے کے لیے زمین پر بہت سی سچائیوں کا اظہار کرے گا اور خدا کے منتخب کردہ لوگوں کو تمام سچائیوں میں داخل ہونے کی ہدایت کرے گا۔ یہ آخری ایام میں نجات دہندہ کے ذریعے انجام دیا جانے والا عدالت کا کام ہے، وہ کام جس کی منصوبہ بندی خدا نے بہت پہلے کی تھی۔ اب قادر مطلق خدا، جو جسم میں ابن آدم ہے، کافی عرصہ پہلے آیا، جس نے بنی نوع انسان کی صفائی اور نجات کے لئے تمام سچائیوں کا اظہار کیا، پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تمام مذاہب اور شعبوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ زیادہ سے زیادہ لوگ خدا کی آواز پر دھیان دے رہے ہیں، سچے طریقے کی تلاش اور تحقیق کر رہے ہیں۔ قادر مطلق خدا نے نہ صرف خدا کے 6000 سالہ انتظامی منصوبے کے تمام بڑے اسراروں کو افشا کیا ہے اور ہمیں سچائی کے اسرار سے آگاہ کیا ہے، جیسے کہ بنی نوع انسان کے انتظام میں خدا کے مقاصد، وہ نوع انسانی کو بچانے کے لئے اپنے کام کے تین مراحل کو کس طرح انجام دیتا ہے، تجسیموں کے اسرار، اور انجیل کے پیچھے کی سچی کہانی؛ قادر مطلق خدا نے اس حقیقت کو بھی ظاہر کیا ہے کہ کس طرح انسان شیطان کی وجہ سے بدعنوان ہو گیا ہے اور خدا کی مخالفت کرنے والی ہماری شیطانی فطرت کو بھی، جبکہ ہمارے لئے عملی راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم اپنے بدعنوان مزاجوں کو چھوڑ دیں اور مکمل طور پر نجات پائیں۔ قادر مطلق خدا نے ہر قسم کے انسان کے انجام، لوگوں کی اصل حتمی منزلوں، کس طرح خدا اس دور کا خاتمہ کرے گا، اور مسیح کی بادشاہی کیسے ظاہر ہو گی، کا بھی انکشاف کیا ہے۔ سچائی کے ان رازوں میں سے ہر ایک ہمارے سامنے آشکار ہو چکا ہے۔ قادر مطلق خدا نے لاکھوں کلمات کہے ہیں اور یہ کلمات وہ تمام سچائیاں ہیں جو انسانوں کی عدالت کرنے اور انہیں پاک کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ عدالت کا وہ کام ہے جو خدا نے آخری ایام میں انجام دیا ہے۔ یہ انسانیت کو مکمل طور پر صاف کرنے اور بچانے کے لئے اکیلے کلام کے ذریعے کام کا ایک قدم ہے۔
تو پھر قادر مطلق خدا کس طرح عدالت کے کام کو مکمل کرنے کے لیے سچائی کو استعمال کرتا ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس کا کلام کیا کہتا ہے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”عدالت کرنا خدا کا اپنا کام ہے، اس لیے اسے فطری طور پر خود خدا کو ہی انجام دینا چاہیے؛ انسان اس کی جگہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ عدالت انسانیت فتح کرنے کے لیے سچائی کا استعمال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا اب بھی انسان کے درمیان یہ کام انجام دینے کے لیے مجسم صورت میں ظہور پذیر ہو گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانے کا مسیح سچائی کا استعمال پوری دنیا کے لوگوں کو سکھانے اور تمام سچائیاں انھیں بتانے کے لیے کرے گا۔ یہ خدا کا عدالت کرنے کا کام ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح عدالت کا کام سچائی کے ساتھ کرتا ہے)۔ ”موجودہ تجسیم میں خدا کا کام بنیادی طور پر سزا اور عدالت کے ذریعے اپنے مزاج کا اظہار کرنا ہے۔ بنا بریں، وہ انسان کے سامنے مزید سچائی لاتا ہے اور عمل کے مزید طریقوں کی جانب اس کی توجہ مبذول کرواتا ہے، اس طرح انسان کو تسخیر کرنے اور اسے اس کے بدعنوان مزاج سے بچانے کے اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ بادشاہی کے دور میں خدا کے کام کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔ ”آخری ایام کا مسیح انسان کو سکھانے، انسان کا مادّہ منکشف کرنے، اور انسان کے قول و فعل پرکھنے کے لیے مختلف قسم کی سچائیوں کا استعمال کرے گا۔ یہ الفاظ مختلف سچائیوں پر مشتمل ہیں، جیسا کہ انسان کا فرض کیا ہے، انسان کو خدا کی اطاعت کیسے کرنی چاہیے، انسان کو خدا کا وفادار کیسے ہونا چاہیے، انسان کو معمول کی انسانیت والی زندگی کیسے گزارنی چاہیے نیز خدا کی حکمت اور مزاج وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ انسان کے مادے اور اس کے بدعنوان مزاج پر مبنی ہیں۔ خاص طور پر وہ الفاظ جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان خدا کو کیسے ٹھکراتا ہے، اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ انسان شیطان کا مجسم کیسے ہے اور خدا کے خلاف ایک دشمن قوت ہے۔ اپنا عدالت کا کام انجام دینے میں، خدا صرف چند الفاظ سے انسان کی فطرت واضح نہیں کرتا؛ وہ اسے بے نقاب کرتا ہے، اس سے نمٹتا ہے، اور طویل مدت کے لیے اس کی تراش خراش کرتا ہے۔ منکشف کرنے، نمٹنے اور تراش خراش کے ان تمام مختلف طریقوں کو عام الفاظ سے نہیں بدلا جا سکتا، بلکہ صرف سچائی ہی اس کا متبادل ہے جس سے انسان بالکل عاری ہے۔ صرف یہ طریقے ہی عدالت کہے جا سکتے ہیں؛ صرف اس قسم کے فیصلوں کے ذریعے ہی انسان کو محکوم اور خدا کے بارے میں مکمل طور پر قائل کیا جا سکتا ہے اور خدا کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا کام جو چیز لاتا ہے وہ انسان کا خدا کی حقیقی معرفت اور اپنی سرکشی کی سچائی حاصل ہونا ہے۔ عدالت کا کام انسان کو خدا کی مرضی، خدا کے کام کے مقصد، اور ان رازوں کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جو اس کے لیے ناقابلِ ادراک ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو اپنے بدعنوان جوہر اور اس بدعنوانی کی جڑوں، نیز انسان کی بدصورتی پہچاننے کے قابل بناتا ہے۔ یہ تمام اثرات عدالت کے کام سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ اس کام کا جوہر دراصل سچائی، راہ اور خدا کی زندگی کو ان تمام لوگوں کے لیے کھولنے کا کام ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کام خدا کی عدالت کا کام ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح عدالت کا کام سچائی کے ساتھ کرتا ہے)۔
خدا کے، کلام کو پڑھنے کے بعد یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ آخری ایام میں خدا کا عدالت کرنے کا کام بنیادی طور پر سچائی کا اظہار کر کے کیا جاتا ہے، سچائی کو نوع انسانی کی عدالت کرنے، صاف کرنے اور بچانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی، آخری ایام میں، خدا اپنے عدالت کے کام کے ذریعے انسانیت کی بدعنوانی کو صاف کرتا ہے، لوگوں کے ایک گروہ کو بچاتا اور کامل کرتا ہے، ان لوگوں کا ایک گروہ بناتا ہے جو خدا کے ساتھ ایک دل اور دماغ رکھنے والے ہیں: خدا کے 6000 سالہ انتظامی منصوبے کا پھل۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آخری ایام کے عدالت کے کام کی توجہ مرکوز ہے! یہی وجہ ہے کہ نجات دہندہ، قادر مطلق خدا، اپنے آنے کے بعد سے سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے، لوگوں کے ہر قسم کے بدعنوان مزاج کو بے نقاب کر رہا اور جانچ رہا ہے۔ وہ ہماری کانٹ چھانٹ کر کے، ہمارے ساتھ نمٹ کر، ہمیں آزما کر اور مصفا بنا کر، ہمارے بدعنوان مزاجوں کو بھی صاف کر رہا اور ان میں تغیر لا رہا ہے؛ یہ انسان کی گناہگار فطرت کی بنیادی وجہ کا مسئلہ حل کر دیتا ہے، ہمیں گناہ کو مکمل طور پر چھوڑ دینے، شیطان کے اثر سے آزاد ہونے، اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی عبادت کرنے کے قابل ہو جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگ یہ سوچ کر تھوڑا الجھن میں پڑ سکتے ہیں کہ خداوند یسوع پہلے ہی انسانوں کو نجات دلا چکا ہے، تو خدا کو اب پھر نوع انسانی کی عدالت کرنے کے لئے آخری ایام میں سچائیوں کا اظہار کرنے کی ضرورت کیوں ہو گی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند یسوع نے صرف نجات کا کام کیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند یسوع پر ایمان گناہوں کی معافی لاتا ہے، یا صرف ایمان کے ذریعے جواز فرہم کرتا ہے، جو لوگوں کو عبادت میں خدا کے سامنے آنے، خدا کے ساتھ بات چیت کرنے، اور اس کے فضل اور برکتوں سے لطف اندوز ہونے کا اہل بناتا ہے۔ تاہم، گناہ کی قربانی کے طور پر خداوند یسوع کے کردار نے صرف انسانیت کے گناہوں کی معافی کی اجازت دیتا ہے؛ اس نے انسان کی گناہگار فطرت کے بنیادی مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کیا۔ یہ سب حقائق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فضل کے دور میں رہنے والے تمام لوگوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ انسانوں کے گناہوں کے معاف ہو جانے کے بعد بھی ہم ہمہ وقت گناہ کرتے رہے۔ ہم اپنے آپ کو روک نہیں پائے، اور اگرچہ ہم گناہ کو ختم کرنے کی تڑپ رکھتے تھے، مگر ہم ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ ہم دن میں گناہ کرتے اور رات کو اقرار کرتے ہوئے زندگی گزار رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند یسوع نے پیشنگوئی کی تھی: ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا ۔۔۔ اور تُمہیں آیندہ کی خبریں دے گا“ (یُوحنّا 16: 12-13)۔ یہ آخری ایام کے عدالت کے اس کام کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو خداوند یسوع دوبارہ آنے پر کرے گا، انسان کو ان کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر پاک کرے گا اور ان کی گناہ گ کی جڑ کے مسئلےکو حل کرے گا۔ اس طرح لوگوں کو قطعی، مکمل طور پر بچایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخری ایام کے عدالت کے کام کا تجربہ کیے بغیر صرف خداوند یسوع کی نجات کا تجربہ کرتے ہیں وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے کہ پہچان لیں کہ ان کے کون سے اعمال گناہ ہیں؛ وہ انسان کی گناہوں کی اصل وجہ نہیں دیکھ سکتے۔ یعنی وہ انسان کی شیطانی فطرت اور شیطانی مزاجوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، چہ جائیکہ وہ ان کو حل کر لیں۔ بدعنوان مزاج کے مسئلے کو حل کرنے کا واحد طریقہ، جو کہ انسان کی گناہگار فطرت کی بنیادی وجہ ہے، خدا کے عدالت کے کام کا تجربہ کرنا ہے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”انسان کی خلاصی کروائے جانے سے پہلے، بہت سے شیطانی زہر اس کے اندر اتارے جا چکے تھے اور، شیطان کی طرف سے ہزاروں سال سے بدعنوان کیے جانے کے بعد اس کے اندر ایسی فطرت مستحکم ہو چکی ہے جو خدا کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ لہٰذا، جب انسان کی خلاصی کرو لی گئی ہے، تو یہ خلاصی کے ایسے معاملے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے جس میں ایک انسان مہنگی قیمت پر خریدا گیا ہے لیکن اس کی اندرونی زہریلی فطرت ختم نہیں کی گئی۔ جو انسان اتنا پلید ہو، اسے خدا کی خدمت کے لائق بننے سے پہلے تبدیلی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ فیصلے اور سزا کے اس کام سے انسان اپنی ذات کی اندرونی غلاظت اور بدعنوان اصلیت کو پوری طرح جان لے گا اور وہ پوری طرح تبدیل ہونے اور پاک صاف ہو نے کے قابل ہو جائے گا۔ صرف اسی طرح انسان خدا کے تخت کے سامنے واپس آنے کے لائق بن سکتا ہے۔ اس دن کے تمام کام اس لیے کیے جاتے ہیں کہ انسان کو صاف ستھرا بنایا جائے اور بدلا جائے؛ کلام کے ذریعے فیصلے اور سزا کے ساتھ ساتھ تزکیے کے ذریعے انسان اپنی بدعنوانی دور کر سکتا ہے اور اسے پاکیزہ بنایا جاسکتا ہے۔ کام کے اس مرحلے کو نجات کا مرحلہ سمجھنے کی بجائے، یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ تزکیے کا کام ہے۔ درحقیقت یہ فتح کا مرحلہ بھی ہے اور نجات کے کام کا دوسرا مرحلہ بھی۔ کلام کی طرف سے فیصلے اور سزا کے ذریعے انسان خدا کی قربت حاصل کرلیتا ہے، اور کلام کے استعمال سے ہی تزکیہ کیا جاتا ہے، جانچا جاتا ہے، اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ انسان کے دل میں موجود تمام نجاستیں، تصورات، مقاصد اور انفرادی خواہشات پوری طرح آشکار ہوتی ہیں۔ کیونکہ انسان کو چاہے اس کے گناہوں سے بچا لیا گیا ہو اور معافی دے دی گئی ہو مگر اس سے صرف یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ خدا انسان کی خطائیں یاد نہیں رکھتا اور انسان کے ساتھ اس کی خطاؤں کے مطابق سلوک نہیں کرتا۔ تاہم، جب تک انسان، جو گوشت پوست کا جسم رکھتا ہے، گناہ سے آزاد نہیں ہوتا ہے، تو وہ لامتناہی طور پر اپنے بدعنوان شیطانی مزاج کو ظاہر کرتے ہوئے صرف گناہ ہی جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو انسان گزارتا ہے، گناہ کرنے اور معاف کیے جانے کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر۔ بنی نوع انسان کی اکثریت دن میں گناہ کرتی ہے، صرف اس لیے کہ شام کو اعتراف کر سکے۔ اس طرح، اگرچہ گناہ کا کفارہ انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے موثر ہے، لیکن وہ انسان کو گناہ سے نہیں بچا سکے گا۔ نجات کا صرف آدھا کام مکمل ہوا ہے، کیونکہ انسان کا مزاج اب بھی بدعنوان ہے۔ ۔۔۔ انسان کے لیے اپنے گناہوں سے آگاہ ہونا آسان نہیں ہے؛ اس کے لیے اپنی مستحکم فطرت پہچاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور یہ نتیجہ حاصل کرنے کے لیے اسے لازماً کلام کی طرف سے فیصلے پر انحصار کرنا چاہیے۔ صرف اسی طرح انسان اس مقام سے آگے بتدریج تبدیل ہو سکتا ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔ ”اگرچہ یسوع نے انسانوں کے درمیان بہت زیادہ کام کیا، مگراس نے صرف تمام بنی نوع انسان کی خلاصی مکمل کی اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اس نے انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں دلایا۔ انسان کو شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچانے کے لیے نہ صرف یسوع کو گناہ کا کفارہ بننے اور انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خدا انسان کو اس کے شیطانی بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے اس سے بھی بڑا کام کرے۔ اور اس طرح، اب جب کہ انسان کو اس کے گناہوں سے معافی مل گئی ہے تو خدا انسان کو نئے دورمیں لے جانے کے لیے جسم میں واپس آیا ہے اور اس نے سزا اور عدالت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کام نے انسان کو ایک بلند تر عالم میں پہنچا دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کے تسلط کے تابع ہوں گے وہ اعلیٰ سچائی سے لطف اندوز ہوں گے اور عظیم نعمتیں حاصل کریں گے۔ ان کو واقعی روشنی میں رہنا چاہیے، اور سچائی، راستہ اور زندگی حاصل کرنی چاہیے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔ خدا نے خود آنے اور عدالت کے کام کو انجام دینے کے لئے ایک جسمانی شکل اختیار کی ہے، جس میں بہت ساری سچائیوں کا اظہار کیا گیا ہے، اور وہ طویل مدت سے لوگوں کو بے نقاب اور ان کی عدالت کر رہا ہے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے لوگ اپنی بدعنوانی کی سچائی کو واضح طور پر دیکھ سکتے اور اپنی فطرت اور جوہر کو پہچان سکتے ہیں۔ اس عدالت کے ذریعے، لوگ خدا کی راستبازی اور تقدس کو بھی دیکھیں گے، اس طرح خدا کے لئے احترام پیدا کریں گے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم آہستہ آہستہ اپنے بدعنوان مزاج کو ختم کر سکتے ہیں اور ایک حقیقی انسانی مشابہت والی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کو پورا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خدا مجسم ہوکر عدالت کے کام کو انجام دینے کے لئے سچائیوں کا اظہار کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قادر مطلق خدا کا یہ کلام سچائی کو عدالت کا کام کرنے کے لیے استعمال کرنا، اتنا کلیدی، اتنا اہم اور اتنا ہی معنی خیز ہے!
کیا کسی اہل ایمان کو مکمل طور پر نجات اور ایک اچھی منزل مل سکتی ہے اس کی کلید اس میں ہے کہ آیا وہ خدا کی ظاہری شکل اور کام کا خیرمقدم کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ اس طرح، اصل بات یہ ہے کہ کوئی شخص خدا کی آواز سننے کے قابل ہے یا نہیں۔ بہت سے لوگ اپنی پوری زندگی خداوند پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی خدا کی آواز سنے بغیر یا خداوند کا خیر مقدم کیے بغیر اپنے آخری سالوں تک پہنچ جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کی آواز سننے کے قابل ہونا اس بات کا تعین کرنے کی کلید ہے کہ آیا کوئی مکمل نجات اور ایک اچھی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ بہت سے لوگ قادر مطلق خدا کے کلام کو پڑھتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سچ ہیں، لیکن پھر بھی یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ قادر مطلق خدا ہی واپس آنے والا خداوند ہے۔ یہ واقعی شرم کی بات ہے، اور انسانی بے وقوفی اور اندھے پن کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ خداوند کو نہیں جانتے وہ روتے اور دانت پیستے ہوئے آفات میں گرنے والے ہیں۔
قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”بادشاہی کے زمانے میں، خدا نئے دور میں پیشوائی کے لیے، اپنے اعمال کے ذرائع میں تبدیلی، اور پورے زمانے کا کام کرنے کے لیے کلام استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کے ذریعے خدا کلام کے زمانے میں کام کرتا ہے۔ وہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے بات کرنے کے لیے گوشت پوست کا جسم بن گیا ہے، تاکہ انسان حقیقی معنوں میں خدا کا دیدار کر سکے، وہ بدن کی شکل میں کلام ہے، تاکہ انسان اس کی دانش اور شان کا مشاہدہ کر سکے۔ ایسا کام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ انسان کو تسخیر کرنے، انسان کو کامل کرنے اور انسان کو باہر نکال دینے کے مقاصد بہتر طریقے سے حاصل کیے جا سکیں، جو کہ کلام کے دور کے کام میں کلام کے استعمال کا درست مفہوم ہے۔ اس کلام کے ذریعے، لوگ خدا کا کام، خدا کا مزاج، انسان کا مادّہ، اور انسان کو کس چیز میں داخل ہونا چاہیے، جان لیتے ہیں۔ کلام کے ذریعے، کلام کے زمانے میں خدا جو کام کرنا چاہتا ہے وہ مکمل طور پر بارآور کردیا جاتا ہے۔ اس کلام کے ذریعے لوگوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے، باہر نکال دیا جاتا ہے اور آزمایا جاتا ہے۔ لوگوں نے خدا کا کلام دیکھا ہے ہیں، یہ کلام سنا ہے، اور اس کلام کا وجود پہچانا ہے۔ نتیجے کے طور پر، وہ خدا کے وجود پر، خدا کی قدرت اور حکمت کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے خدا کی محبت اور انسان کو بچانے کی خواہش پر یقین کرنے لگے ہیں۔ لفظ ’کلام‘ سادہ اور عام ہو سکتا ہے، لیکن مجسم خدا کے منہ سے نکلا کلام کائنات جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، وہ لوگوں کے دل بدل دیتا ہے، ان کے تصورات اور پرانے مزاج بدل دیتا ہے، اور پوری دنیا جس طرح نظر آتی تھی، اسے بدل دیتا ہے۔ زمانوں میں، صرف آج کے خدا نے اس طرح کام کیا ہے، اور صرف وہی اس طرح بولتا ہے اور انسان کو اسی طرح بچانے آتا ہے۔ اب کے بعد، انسان خدا کے کلام کی راہنمائی میں زندگی گزارتا ہے، اس کی نگہبانی کی جاتی ہے اور اسے خدا کا کلام فراہم کیا جاتا ہے۔ لوگ خدا کے کلام کی دنیا میں رہتے ہیں، خدا کے کلا م کی لعنتوں اور برکتوں کے مابین، اور حتیٰ کہ مزید لوگ ایسے ہیں جو اس کے کلام کی عدالت اور سزا کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ یہ کلام اور اس کا کام سب انسان کی نجات کے لیے، خدا کی منشا پوری کرنے کے لیے، اور پرانی تخلیق کی دنیا کی اصل شکل بدلنے کے لیے ہیں۔ خدا نے دنیا کو کلام کے ذریعے تخلیق کیا، وہ کلام کے استعمال سے پوری کائنات میں لوگوں کی راہن مائی کرتا ہے، اور وہ کلام کے استعمال سے انھیں تسخیر کرتا اور بچاتا ہے۔ آخرکار، وہ پرانی دنیا ختم کرنے کے لیے کلام کا استعمال کرے گا، اس طرح اس کے انتظامی منصوبے کی مکمل تکمیل ہو گی“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ بادشاہی کا دور کلام کا دور ہے)۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟