کون بنی نوع انسان کو بچاسکتا ہے اور ہماری تقدیر میں انقلاب لاسکتا ہے
جب ہم تقدیر کا ذکر کرتے ہیں تو زیادہ تر لوگ اسے دولت، مرتبے، اور اچھی تقدیر کے ساتھ کامیاب ہونے کے مساوی سمجھتے ہیں، اور غریب، گمنام، مصیبتوں، مشکلات کا شکار ہونے والوں کو، جنھیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، بری تقدیر والاگردانتے ہیں۔ لہٰذااپنی تقدیر بدلنے کے لیے وہ دیوانہ وار علم کی جستجو کرتے ہیں، اس امید پر کہ اس سے انھیں دولت اور مقام حاصل کرنے میں مدد ملے گی، اور اس طرح ان کی تقدیر بدل جائے گی۔ کیا دولت، مرتبہ، اور زندگی میں کامیابی کا مطلب واقعی اچھی تقدیر ہے؟ کیا مصائب و آلام میں مبتلا ہونے کا مطلب واقعی بری تقدیر ہے؟ زیادہ تر اس بات اچھی طرح نہیں سمجھے۔ اور اب بھی اپنی تقدیر بدلنے کے لیے علم کی شدت سے جستجو کر رہے ہیں۔ لیکن کیا علم انسان کی تقدیر بدل سکتا ہے؟ کون واقعی بنی نوع انسان کو بچا سکتا ہے اور ہماری تقدیر میں انقلاب لا سکتا ہے؟ آئیے آج اس سوال پر غور کرتے ہیں۔
روزمرہ کی زندگی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ علم حاصل کرنے والے بہت سے لوگ دولت اورمرتبہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ زندگی میں خوشحال ہیں اور یہاں تک کہ شہرت یا ستائش یافتہ بھی بن سکتے ہیں۔ کامیاب اور معروف، ایسا لگتا ہے کہ ان کی تقدیر بہت شاندار ہے۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ کیا وہ خوش ہیں؟ ہوسکتا ہے ان کے پاس طاقت اور اثر و رسوخ ہو اور وہ معززلگتے ہوں، لیکن اب بھی خالی پن اوربدبختی کااحساس ہےاور زندگی کی امنگ کھوبیٹھتے ہیں۔ بعض منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں یا خودکشی کرلیتے ہیں۔ اور کچھ اپنی من مانی کرنے، بدی کے کام کرنے اور جرائم کے ارتکاب طاقت اور اثرو رسوخ کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ا ن کا اختتام سراسر ذلت کے عالم میں جیل میں ہوتا ہے۔ کیا ان میں سے زیادہ تر دانشور نہیں ہیں؟ جو لوگ اتنے سمجھدار لگتے ہیں، جو قانون کو سمجھتے ہیں، وہ ایسے ہولناک کام کیوں کریں گے؟ وہ ایسی مضحکہ خیز چیزیں کیوں کریں گے؟ معاملات اس طرح کیوں رونما ہوں گے؟ آج کل ہر کوئی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، ہر کسی کوعلم کی تلاش ہے، اور تمام ممالک کے حکمران طبقات، سب کے سب دانشور ہیں۔ وہی ہیں جو اقتدار پر قابض ہیں، پوری دنیا میں وہی میریٹو کریسی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرتا دھرتا دانشوروں کے ساتھ، دنیا کو زیادہ سے زیادہ مہذب اور محبت کرنے والا بننا چاہیے۔ لیکن دنیا کو درحقیقت ہو کیا رہا ہے؟ یہ لوگوں کی ایک دوسرے سے فریب کاری، لڑائی لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی، لڑائی، یا حتیٰ کہ ایک دوسرے کو مارنا۔ وہ سب خدا کا انکار اور مزاحمت کر رہے ہیں، انھیں سچائی سےنفرت ہے اور توبہ کی کسی خواہش کے بغیر بدی کا بول بالا کرتے ہیں، خدا کےقہر اور انسان کے غضب کو بھڑکارہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک آفات آتی ہیں اور دنیا مسلسل بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔ یہ واضح ہے کہ دانشوروں کا اقتدار میں ہونا، میریٹو کریسی کا ہونا پرامن اور خوش و خرم معاشروں کو جنم نہیں دے رہا ہے لیکن اس کے بجائے یہ ہمارے لیے مزید تباہی اور مصائب لا رہا ہے۔ عالمی وبائیں عروج پر ہیں، نہ رکنے والی جنگیں شروع ہو رہی ہیں، اور اس کے بعد زلزلے آتےاور قحط پڑتے ہیں۔ لوگ خوف سے بھرے ہوئے ہیں، جیسے دنیا کے خاتمے کا وقت آ چکا ہے۔ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ جب علم، طاقت اور رتبہ حاصل کرلیتے ہیں، تو وہ بے تحاشا بھیانک حرکتیں کرتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہدانشوروں اور میریٹوکریسی کاہونا کسیملک اور عوام کے لیے بے تحاشہ تباہی کا سبب بنتا ہے؟ یہ بہت غورکے قابل بات ہے کیا علم حاصل کرنا کسی کو بہتر اور گناہ سے پاک بنا سکتا ہے؟ کیا علم حاصل کرنا لوگوں کو مہربان بنا سکتا ہے اور انھیں برے کاموں سے روک سکتا ہے؟ کیا علم لوگوں کو گناہوں سے بچا سکتا ہے اور لوگوں کو شیطان کی قوتوں سے بچا سکتا ہے؟ میں علم کی کسی شخص کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ابہام رکھتا ہوں۔ ایسا کیوں ہے کہ علم و مرتبہ حاصل کرنے کے بعد زیادہ تر لوگ مغرور سے مغرور تر اورمنافق ہو جاتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ وہ جتنا زیادہ جانتے ہیں، اتنا ہی خود کو اہمیت دینے لگتے ہیں؟ اقتدار میں آنے کے بعد وہ گمراہ اورمن مانی کرنے والے بن جاتے ہیں، تباہی پھیلاتے اور آفت لاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بہتر تعلیم اور زیادہ ترقی یافتہ سائنس کے ساتھ ساتھ، کسی ملک کو بہتر طریقے سے چلایا جانا چاہیے اور عوام کو زیادہ مہذب، خوش اور صحت مند ہونا چاہیے۔ لیکن کیا اس قسم کا ملک واقعی موجود ہے؟ ایسا کبھی نہیں تھا۔ اس سوال پر واقعی لوگ اپنا سر کھجاتے رہ جاتے ہیں! میں خدا کا یہ کلام پڑھتا ہوں: ”جب سے نوع انسانی نے سماجی علوم ایجاد کیے ہیں، انسان کے ذہن پر سائنس اور علم قابض ہو گئے ہیں۔ تب سے سائنس اور علم نوع انسانی کی حکمرانی کے آلات بن چکے ہیں، اور اب انسان کے لیے خدا کی عبادت کرنے کی مزید گنجائش نہیں رہ گئی اور نہ ہی خدا کی عبادت کے لیے حالات ہی زیادہ سازگار رہے ہیں۔ انسان کے دل میں خدا کا مقام ہمیشہ کے لیے اور نیچے آ گیا ہے۔ خدا کے بغیر انسان کے دل کی اندرونی دنیا تاریک، ناامید اور خالی ہے۔ بعد ازاں بہت سے سماجی سائنس دان، مورخین، اور سیاست دان سماجی علوم کے نظریات، انسانی ارتقا کے نظریے، اور دیگر نظریات کے اظہار کے لیے جو اس حقیقت سے متصادم ہیں کہ خدا نے انسان کو تخلیق کیا ہے، نوع انسانی کے دلوں اور دماغوں کو بھرنے کے لیے منظر عام پر آئے ہیں۔ اور اس طرح، ان لوگوں کی تعداد پہلے سے بھی کم ہوتی گئی جو یہ مانتے ہیں کہ سب کچھ خدا نے تخلیق کیا ہےاور نظریہ ارتقا پر یقین رکھنے والوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوتی گئی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ عہد نامہ قدیم کے زمانے میں خدا کے کام اور اس کے کلام کے اندراج کو روایات اور افسانوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے دل خدا کی عظمت اور وقار نیز اس نظریے سے کہ خدا موجود ہے اور ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے، بے حس ہو جاتے ہیں۔ نوع انسانی کی بقا اور ملکوں اور قوموں کی تقدیر اب ان کے لیے اہم نہیں ہے اور انسان ایک کھوکھلی دنیا میں رہتا ہے جسے صرف کھانے پینے اور لذت کے حصول کی فکر ہے۔ ۔۔۔ بہت کم لوگ اس بات کی جستجو کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج خدا اپنا کام کہاں کر رہا ہے، یا یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کس طرح انسان کی منزل کی راہنمائی اور انتظام کرتا ہے۔ اور اس طرح انسان کی لاعلمی میں، انسانی تہذیب انسان کی خواہشات پوری کرنے کی قدرت سے محروم ہوتی جاتی ہے، اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ ان لوگوں سے کم خوش ہیں جو پہلے مر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ممالک کے لوگ بھی اس قسم کی شکایات کرتے ہیں جو انتہائی مہذب ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ خدا کی راہنمائی کے بغیر، حکمران اور ماہرینِ سماجیات انسانی تہذیب بچانے کے لیے کتنا یھی سر کھپا لیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انسان کے دل کا خلا کوئی پر نہیں کر سکتا، کیونکہ کوئی بھی انسان کی زندگی نہیں ہو سکتا، اور کوئی سماجی نظریہ انسان کو اس کھوکھلے پن سے آزاد نہیں کر سکتا جس سے وہ دوچار ہے۔ سائنس، علم، آزادی، جمہوریت، تفریح، آرام: یہ انسان کی عارضی دل جوئی کے سامان ہیں۔ ان چیزوں کے باوجود بھی انسان لامحالہ گناہ کرتا ہے اور معاشرے کی ناانصافیوں پر ماتم کرتا ہے۔ یہ چیزیں انسان کی دریافت کرنے کی طلب اور خواہش کو نہیں روک سکتیں۔ ۔۔۔ انسان، آخر، انسان ہے، اور کوئی انسان خدا کے مقام اور زندگی کی جگہ نہیں لے سکتا۔ نوع انسانی کو صرف ایک ایسے منصفانہ معاشرے کی ضرورت نہیں ہے جس میں ہر ایک کو اچھی غذا ملے، مساوی حقوق ملیں اور وہ آزاد ہو۔ انسانوں کو جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے خدا کی نجات اور اس کے لیے زندگی کا رزق۔ جب انسان کو خدا کی طرف سے زندگی کا رزق اور اس کی نجات حاصل ہو جاتی ہے تب ہی ضروریات، دریافت کرنے کی تڑپ اور انسان کا روحانی خلا دور کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی ملک یا قوم کے لوگ خدا کی نجات اور نگہداشت حاصل کرنے سے قاصر ہیں تو ایسا ملک یا قوم زوال کے راستے پر، تاریکی کی طرف گامزن ہو جائے گی، اور خدا کی طرف سے فنا کر دی جائے گی“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا تمام نوع انسانی کی تقدیر پر اختیار رکھتا ہے)۔
خدا کا کلام برحق ہے اور وہ واقعی اس معاملے کی حقیقت ظاہر کرتا ہے۔ علم اصل میں کیسے پیدا ہوتا ہے؟ بغیر شک و شبے کے، یہ ان مشہور اور عظیم لوگوں سے آیا ہے جو پوری تاریخ میں ستائش کا موضوع رہے ہیں۔ کنفیوشس ازم ہے، ڈارون کا نظریہ ارتقاء، مارکس کا کمیونسٹ منشور اور کمیونزم کا نظریہ۔ الحاد، مادیت پرستی، اور نظریہ ارتقا یہ سب خیالات اور نظریات سے نکلے ہیں جو ان مشہور لوگوں نے کتابوں میں لکھے ہیں، اور ہمارے جدید معاشرے میں سائنس اور تھیوری کی بنیاد ہیں۔ ان تمام عقائد اور نظریات کو حکمران طبقات نےتمام ادوار میں فروغ دیا ہے۔ انھوں نے انھیں نصابی کتب اور تدریسی کمروں میں جگہ دی ہے، اور انسانیت کے لیے اقوالِ دانش بن گئے۔ انھوں نے ایک نسل کے بعد دوسری نسل تعلیم یافتہ، زنگ آلود اور شل کی ہے، بنی نوع انسان کو گمراہ اور بدعنوان کرنے کے لیے حکمران طبقوں کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ ساری بنی نوع انسان تعلیم اور علم و سائنس کے زیر اثر مزید سے مزید تربدعنوان ہوچکی ہے، اور اس طرح معاشرہ تاریک تراور مزید افراتفری کا شکار ہو چکا ہے، اس حد تک کہ خدا اور انسان دونوں طیش میں ہیں۔ اب آفات زیادہ سے زیادہ اور تسلسل سے ہوتی جا رہی ہیں اور ناگہانی مصیبت وار کرنے سے کبھی نہیں چوکتی۔ کسی بھی وقت بڑی جنگیں چھڑ سکتی ہیں۔ لوگ خوف میں جی رہے ہیں، جیسے انھیں دنیا کے خاتمے کا سامنا ہے۔ یہ واقعی ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے کیاسائنس اور علم واقعی سچ بھی ہیں یا نہیں؟ لوگ ان کی جستجو کرتے ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ قبول کرتے ہیں، لیکن وہ نہ گناہ سے فرار ہوسکتے ہیں اور نہ خوشی پا سکتے ہیں، اس کے بجائے مزید بدعنوان اور برے ہو تے جارہے ہیں، گناہ اور کرب میں ڈوب رہے ہیں جن سے وہ فرار نہیں ہو سکتے۔ آئیے ان مشہور، عظیم لوگوں کے حقیقی جوہر پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جن کی ہر کوئی پرستش کرتا ہے۔ وہ سب ملحد اور ارتقاء پسند رہے ہیں جو خدا کا انکار اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ وہ خدا کے وجود پر یقین یا یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ ہر چیز پر اسی کی حکمرانی ہے۔ وہ خاص طور پر وہ سچائیاں قبول نہیں کریں گے جن کا خدا اظہار کرتا ہے۔ ان کی تمام باتوں میں، ایک لفظ بھی معاشرے کی تاریکی کا پول نہیں کھولتا؛ ایک لفظ بھی شیطان کی طرف سے بدعنوان کیے گئے انسانوں کا جوہر اور اصلیت بے نقاب نہیں کرتا؛ ایک لفظ بھی حکمران طبقوں کی فطرت اور برے جوہر کا پردہ فاش نہیں کرتا، یا اس میں خدا کے وجود اور خدا کے کام کی گواہی ہے، یا اس میں خدا کے اعمال اور خدا کی محبت کی گواہی ہے یا وہ خدا کے کلام میں سچائی سے ہم آہنگ ہے۔ ان کے تمام الفاظ بدعت اور مغالطے ہیں جو خدا کا انکار اور مخالفت کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر، ان کی گفتگو مکمل طور پر حکمران طبقات کے مفادات برقرار رکھنے، گمراہ کرنے، بدعنوانی کرنے اور بنی نوع انسان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے، اور نتیجتاً انھوں نے انسانیت کو تاریک اور برے راستے پر ڈال دیا ہے، اور بنی نوع انسان شیطان کا گروہ بن چکی ہے جو خدا کے خلاف مزاحمت کرتی ہے اور اس سے بے وفائی کرتی ہے۔ حکمران طبقے میں کس قسم کے لوگ ہیں؟ کیا وہ نیک اور صاحب حکمت ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ابھی تک کوئی ایک بھی نیک اور صاحب حکمت نہیں ہوا۔ ان کی نام نہاد نیکی اور حکمت کی اصلیت دکھائی جاچکی ہے، اوران کے پس پردہ کیے گئے تمام جرائم منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ شیطان کےبنی نوع انسان کو بد عنوان کرنے کی پوری تاریخ میں کوئی نیک اورصاحب حکمت حکمران نہیں آیا، اور جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ سب شیطان کامجسم اور شیاطین بنے ہوئے ہیں۔ ان کے کن افکار اور نظریات نے بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ گہرائی سے بد عنوان کیا ہے؟ الحاد، مادیت پرستی، ارتقاپسندی اور کمیونزم۔ انھوں نے ان گنت بدعتیں اور مغالطے پھیلائے ہیں، بشمول ”کوئی خدا ہے ہی نہیں،“ ”کبھی کوئی نجات دہندہ نہیں رہا،“ ”ہرکسی کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں ہے،“ اور ”علم تمھاری تقدیر بدل سکتا ہے۔“ یہ چیزیں کم عمری سے ہی لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑلیتی ہیں اور آہستہ آہستہ پروان چڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے نتائج کیا ہیں؟ لوگ خدا اور اس کی طرف سے آنے والی ہر چیز کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس سے بھی خدا نے آسمانوں، زمین اور تمام چیزوں کو پیدا کیا، اور وہ سب پر حکومت کرتا ہے۔ انسان خدا نے تخلیق کیا تھامگر وہ یہ حقیقت جھٹلاتے ہیں، اور وہ سچائی کو موڑتوڑ کر، کہتے ہیں کہ انسان بندروں سے ارتقا پذیر ہوا، گویا انسان جانوروں ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ مغالطہ آمیز، مضحکہ خیزفکری نظریات لوگوں کے ذہنوں پر چھاجاتے ہیں، ان کے دلوں پر قابض ہوجاتے ہیں اور ان کی فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں، لہٰذا وہ سب خدا کا انکار کرتے ہیں اور خود کو اس سے دور کرلیتے ہیں اور ان کے لیے سچائی قبول کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ ہمہ وقت مزید متکبر، خبیث اور بدعنوان بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ ضمیر اور عقل سے مکمل محروم ہوجاتے ہیں، اپنی انسانیت پر گرفت پوری طرح کھوبیٹھتے ہیں اور بالآخر نجات سے باہر ہوجاتے ہیں۔ شیطان نے اس طرح انسانوں کو بدعنوان کرکے شیطان بننے کے مقام تک پہنچا دیا ہے۔ یہ ان لوگوں کا خوفناک انجام ہے جو علم کی جستجومیں ہیں اور اسے اپنی تقدیریں بدلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سائنس اور علم حقیقت نہیں ہیں اور ہماری زندگی نہیں بن سکتے، بلکہ وہ سچائی کے برعکس ہیں اور وہ سچائی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ بنی نوع انسان کوصرف بدعنوان کر سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں اور برباد کر سکتے ہیں۔
تو یہ کیوں کہتے ہیں کہ یہ باتیں سچ نہیں ہیں؟ کیونکہ علم خدا کی طرف سے نہیں آتا، بلکہ یہ شیطان کی جانب سے انسان کو بدعنوابنانے سے آتا ہے۔ یہ ان عظیم اور مشہور لوگوں سے آتا ہے جنھیں بدعنوان بنی نوع انسانپوجتی ہے۔ اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ علم سچائی نہیں ہے۔ اول، علم لوگوں کو ان کا بدعنوان جوہر جاننے یا انھیں خود شناسی فراہم کرنے میں مدد نہیں کر سکتا۔ دوم، علم لوگوں کے بدعنوان مزاجوں کو پاک نہیں کر سکتا بلکہ لوگوں کو مزیدمغرور بناتا ہے۔ سوم، علم انسانوںکو گناہ سے نہیں بچا سکتا اور انھیں خالص نہیں بنا سکتا۔ چہارم، علم لوگوں کو سچائی سیکھنے اور جاننے اور خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں مدد نہیں دےسکتا۔ پنجم، علم لوگوں کو حقیقی خوشی حاصل کرنے میں مدد نہیں دے سکتا یا انھیں روشنی میں نہیں لا سکتا اور خصوصاً انھیں ایک خوبصورت منزل نہیں دے سکتا۔ اور پس، علم سچائی نہیں ہے اور یہ انسان کو گناہ یا شیطان کی قوتوں سے نہیں بچا سکتا۔ تاکہ ہم پُراعتماد ہوسکیں کہ علم کسی فرد کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا ہے صرف وہی سچ ہے، صرف خدا کا کلام سچ ہے۔ صرف سچ ہی لوگوں کی زندگی بن سکتا ہے اور ان کی بدعنوانی کو پاک کر سکتا ہے، انھیں گناہ سے بچنے اور مقدس بننے کا موقع دیتا ہے۔ صرف سچ ہی لوگوں کو اپنے ضمیر اور عقل بحال کرنے اور ایک حقیقی انسانی تشبیہ کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیتا ہے۔ صرف سچ ہی لوگوں کو زندگی میں صحیح سمت اور مقاصد دے سکتا ہے، اور صرف سچائی ہی لوگوں کو خدا کو جاننے، اس کی نعمتیں حاصل کرنے اور ایک خوبصورت منزل حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اس لیے صرف وہی سچائی جس کا اظہار انسانی جسم میں خدا نے کیا بنی نوع انسان کو شیطان کی قوتوں سے بچا سکتی ہے، انھیں مکمل طور پر خدا کی طرف رجوع کرنے کا موقع دیتی ہے۔ صرف نجات دہندہ ہی بنی نوع انسان کو بچا سکتا ہے اور بنی نوع انسان کی تقدیر میں انقلاب لا سکتا ہے، ہمیں ایک شاندار منزل فراہم کرسکتا ہے۔ تو علم انسان کو کیوں نہیں بچا سکتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان شیطان کی طرف سے بہت گہرائی تک بدعنوان کیا جا چکا ہے، شیطانی فطرتوں کے ساتھ اور شیطانی مزاج میں رہتا ہے، مسلسل گناہ اور برے کام کرتا ہے۔ وہ صحیح حالات میں کسی بھی برائی کے قابل ہیں، اور جب وہ اقتدار حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے اصلی رنگ دکھاتے ہیں اور دیوانہ وار بھاگتے ہیں۔ اور علم بدعنوان انسانیت سے آتا ہے، شیطان سے، پس علم حقیقت نہیں ہے۔ بدعنوان نوع انسانی کتنا ہی سیکھ لے، وہ اپنی ہی بدعنوانی کا جوہر اور حقیقت نہیں جان سکتے، اور وہ واقعی سچی توبہ اور خدا کی طرف رجوع نہیں کر سکتے۔ علم کی کوئی مقدار کسی نسان کی گناہ گار فطرت کو ٹھیک نہیں کر سکتی، کجا یہ کہ ان کے بدعنوان مزاج کو تبدیل کرے۔ بدعنوان انسانیت کتناہی جانتی ہو وہ گناہ یا شیطان کی قوتوں سے بچ نہیں سکتے اور تقدس حاصل نہیں کر سکتے۔ سچائی قبول کیے بغیر وہ خدا کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے۔ اور ان کی گناہ گار فطرت کا مسئلہ کبھی حل نہیں کر سکتے۔ بدعنوان انسانیت کا عِلم جتنی رفعت پائے گا، سچ قبول کرنا اتنا ہی مشکل ہے اور ان کے خدا سے انکار اور مزاحمت کرنےکا زیادہ امکان ہے۔ زیادہ علم حاصل کر لینے پر لوگ زیادہ متکبر، خود راستباز، اور جاہ طلب ہو جاتے ہیں۔ وہ گناہ کے راستے پر قدم رکھنے سے بچ نہیں پاتے۔ اس لیے علم صرف لوگوں کو بدعنوان کرسکتا ہے، نقصان پہنچا سکتا ہے اور تباہ کر سکتا ہے۔ بہت سے لوگ علم کاحقیقی جوہر یا یہ نہیں دیکھ سکتے کہ یہ اصل میں کس مقصدکے لیے اچھا ہے۔ وہ علم کی منشا، علم کاسرچشمہ نہیں دیکھ سکتے، بلکہ سچائی کی جستجو کرنے کے بجائے صرف آنکھ بند کر کے اسی کی پرستش اور جستجوکرتے ہیں۔ وہ تمام مشہور لوگ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اتنی برائیاں کیوں کرتے ہیں، عوام کو تکلیف اور ملک کوکیوں نقصان پہنچاتے ہیں، ہر قسم کی آفات کا باعث بن رہےہیں۔ خلاصی سے ماورا خوفناک غلطیاں کر رہے ہیں؟ یہ علم کی پرستش اور جستجوکے نتائج ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علم انسان کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔ اور چاہے کسی کا علم کتنا ہی ارفع کیوں نہ ہو، اگر وہ ایمان نہیں رکھتے اور سچائی قبول نہیں کرتے تو وہ خدا کی طرف سے بچائے نہیں جا سکتے۔ ان کو خدا کی طرف سے برکت نہیں ملے گی یا ان کی تقدیر اچھی نہیں ہوگی چاہے ان کا علم کتنا ہی بلند ہو، بلکہ مرنے پر جہنم میں جائیں گے۔ خدا راستباز ہے اور وہ انسانوں کی تقدیر وں پر حکومت کرتا ہے، پس جو کوئی اس کی رضا یا برکت حاصل نہیں کرتا اس کی تقدیر اچھی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ تباہی، بربادی، اور جہنم اس کا مقدرہے۔
اب صاحبان حکمت نے علم کی تعریف کرنا چھوڑ دی ہے۔ بلکہ مقدس ہستی کے آنے کے لیے ترس رہے ہیں، نجات دہندہ کے آنے اور بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے۔ کسی کو امید نہیں ہے کہ کوئی معروف، عظیم لوگ بنی نوع انسان کو بچائیں گے۔ وہ تواپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے، تو وہ ساری انسانیت کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ حقائق ہمیں دکھاتے ہیں کہ علم اچھی تقدیر کو یقینی نہیں بنا سکتا اور سائنس اور تعلیم کے ذریعے ترقی کا خیال محض حماقت ہے۔ صرف نجات دہندہ ہی بنی نوع انسان کو گناہ اور شیطان کی قوتوں سے بچا سکتا ہے۔ صرف سچائی کا اظہار کرنے والا نجات دہندہ ہی ہمیں روشنی کی راہ پر لے جا سکتا ہے۔ صرف نجات دہندہ کی طرف سے اظہار کردہ تمام سچائیاں قبول کرنا ہمیں شیطان کی بدعنوانی سے آزاد کر سکتا ہے تاکہ ہم خدا کی طرف سے مکمل طور پر بچائے جا سکیں اور اس کی رضا اور برکت حاصل کریں۔ ہماری تقدیر مکمل طور پر بدلنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ انسان کی تقدیر بدلنا نجات دہندہ کی ظاہری شکل اور کام قبول کرنے سے ہوتا ہے، آخری ایام میں نجات دہندہ کی طرف سے بیان کردہ تمام سچائیاں قبول کرنے، اور خُدا کا آخری ایام کا انصاف قبول کرنے سے پاکی پانے کے ذریعے۔ سادہ الفاظ میں، کسی کی تقدیر میں انقلاب لانے کا واحد طریقہ سچائی قبول کرنا ہے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”خدا نے یہ دنیا بنائی، اس نے یہ نوع انسانی بنائی اور اس کے علاوہ وہ قدیم یونانی ثقافت اور انسانی تہذیب کا معمار تھا۔ صرف خدا ہی اس نوع انسانی کی دل جوئی کرتا ہے، اور صرف خدا ہی اس نوع انسانی کی شب و روز نگہداشت کرتا ہے۔ انسانی پیش رفت اور ترقی خدا کی حاکمیت کا لازمی جزو ہیں، اور نوع انسانی کی تاریخ اور مستقبل کو بھی خدا کے ارادوں سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر تُو سچا مسیحی ہے، تو تُو بلاشبہ یہ یقین کرے گا کہ کسی بھی ملک یا قوم کا عروج و زوال خدا کے ارادوں کے مطابق ہوتا ہے۔ صرف خدا ہی کسی ملک یا قوم کی تقدیر کو جانتا ہے، اور اس نوع انسانی کی روش کی باگ ڈور صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر نوع انسانی اچھی تقدیر کی خواہش رکھتی ہے، اگر کسی ملک کی خواہش ہے کہ اس کا نصیب اچھا ہو تو انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہو، توبہ کرے اور خدا کے حضور اقرار کرے، بصورت دیگر انسان کی تقدیر اور منزل کی تباہی ناگزیر ہوگی“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا تمام نوع انسانی کی تقدیر پر اختیار رکھتا ہے)۔
اب ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ کہ دانشور اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے تو وہ انسانیت کو کیسے بچائیں گے؟ صرف نجات دہندہ ہی بنی نوع انسان کو گناہ سے بچا سکتا ہے، اور بنی نوع انسان کے لیےروشنی، خوشی اور ایک خوبصورت منزل لاسکتا ہے۔ پھر نجات دہندہ کون ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں۔ کہ وہ انسانی شکل میں مجسم خدا ہے، جونجات کے کام کے لیے بنی نوع انسان کے درمیان آیا ہے۔ وہ ہمارا نجات دہندہ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نجات دہندہ خدا کا مجسم ہے، کہ وہ انسانی جسم میں ملبوس خدا ہے۔ یہی تجسیم ہے۔ تو، مجسم خدا نجات دہندہ ہے جوہمارے درمیان اُتر آیا ہے۔ بنی نوع انسان کی تخلیق سے اب تک خدا نے انسانیت کو بچانے کے لیے دو مرتبہ تجسیم اختیار کی ہے۔ 2000 سال پہلے، وہ خداوند یسوع کے طور پرجسم بن گیا اور ایک وعظ میں کہا ”تَوبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدِیک آ گئی ہے“ (متّی 4: 17)۔ اس نے بہت سی حقیقتوں کا اظہار کیا۔ اور بالآخر انسانیت کے لیے گناہ کے کفارے کے طور پر کام کرتے ہوئے، بنی نوع انسان کی خلاصی کے لیے مصلوب کیا گیا۔ یہ انسان کے لیے خدا کی محبت کا واضح مظاہرہ تھا۔ دنیا بھر کے لوگوں نے کیا، اعتراف اور خدا سے توبہ کرتےہوئے خداوند یسوع کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کیا اور ان کے گناہ معاف کر دیے گئے۔ انھوں نے خُدا کی طرف سے عطا کردہ امن اور خوشی کا اُس کے فضل کے ساتھ بہت زیادہ لطف اٹھایا۔ جب خُداوند یسوع نے اپنا خلاصی کا کام مکمل کیا، اس نے کئی بار پیشین گوئی کی، ”مَیں جلد آنے والا ہُوں“ اور ”ابنِ آدمؔ کا آنا۔“ ”کیونکہ جِس گھڑی تُم کو گُمان بھی نہ ہو گا اِبنِ آدمؔ آ جائے گا“ (متّی 24: 44)۔ اس لیے ہر وہ شخص جس نے خداوند یسوع کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کیا ہے۔ آخری دنوں میں اس کے آنے کا انتظار کر رہا ہے، نجات دہندہ ان کو بچانے اور آسمان کی بادشاہی میں لے جانے کے لیے نیچے آئے گا۔ خُداوند یسوع نے پیشنگوئی کی، ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا“ (یُوحنّا 16: 12-13)۔ ”اُنہیں سچّائی کے وسِیلہ سے مُقدّس کر۔ تیرا کلام سچّائی ہے“ (یُوحنّا 17: 17)۔ اس کی پیشن گوئیوں کی بنیاد پر، خُدا آخری ایام میں ابنِ آدم کے طور پر جسم بن جائے گا۔ اور انسانیت کو مکمل طور پر پاک کرنے اور بچانے، انسانیت کو ایک خوبصورت منزل تک پہنچانے کے لیے سچائی کا اظہار کرے گا۔ لہٰذا، آخری ایام میں بنی نوع انسان پر ظاہر ہونے والا مجسم خدا نجات دہندہ ہے۔ تو ہمیں نجات دہندہ کا خیر مقدم کیسے کرنا چاہیے؟ خداوند یسوع نے کہا، ”میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں“ (یُوحنّا 10: 27)۔ ”جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے“ (مُکاشفہ 2: 7)۔ خداوند یسوع نے ہمیں بار بار یاد دلایا آخری ایام میں واپس آنے پر خُدا کی آواز سننا، اور خدا کی طرف سے اظہار کردہ سچائیاں قبول کرنا خداوند کا خیرمقدم کرنے کی کلید ہے۔ آفتیں اب ہماری آنکھوں کے عین سامنے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں صرف قادر مطلق خدا نے تمام سچائیوں کا اظہار کیا ہے جو بنی نوع انسان کو بچاتی ہیں۔ اور قادرِ مطلق خُدا کے علاوہ کسی نے بھی سچائی بیان نہیں کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ قادرِ مطلق خدا ہی واپس لوٹنے والاخداوند یسوع ہے، کہ وہ نجات دہندہ ہے آخری دنوں میں بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے آیا ہے۔ یہ خوش خبری کا ایک زبردست حصہ ہے۔ ہمارے لیے اپنی تقدیر بدلنے کا واحد طریقہ نجات دہندہ کی نجات، اور خدا کی طرف سے اظہارکردہ سچائیاں قبول کرنا ہے۔
قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”آخری ایام کا مسیح انسان کو سکھانے، انسان کا مادّہ منکشف کرنے، اور انسان کے قول و فعل پرکھنے کے لیے مختلف قسم کی سچائیوں کا استعمال کرے گا۔ یہ الفاظ مختلف سچائیوں پر مشتمل ہیں، جیسا کہ انسان کا فرض کیا ہے، انسان کو خدا کی اطاعت کیسے کرنی چاہیے، انسان کو خدا کا وفادار کیسے ہونا چاہیے، انسان کو معمول کی انسانیت والی زندگی کیسے گزارنی چاہیے نیز خدا کی حکمت اور مزاج وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ انسان کے مادے اور اس کے بدعنوان مزاج پر مبنی ہیں۔ خاص طور پر وہ الفاظ جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان خدا کو کیسے ٹھکراتا ہے، اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ انسان شیطان کا مجسم کیسے ہے اور خدا کے خلاف ایک دشمن قوت ہے۔ اپنا عدالت کا کام انجام دینے میں، خدا صرف چند الفاظ سے انسان کی فطرت واضح نہیں کرتا؛ وہ اسے بے نقاب کرتا ہے، اس سے نمٹتا ہے، اور طویل مدت کے لیے اس کی تراش خراش کرتا ہے۔ منکشف کرنے، نمٹنے اور تراش خراش کے ان تمام مختلف طریقوں کو عام الفاظ سے نہیں بدلا جا سکتا، بلکہ صرف سچائی ہی اس کا متبادل ہے جس سے انسان بالکل عاری ہے۔ صرف یہ طریقے ہی عدالت کہے جا سکتے ہیں؛ صرف اس قسم کے فیصلوں کے ذریعے ہی انسان کو محکوم اور خدا کے بارے میں مکمل طور پر قائل کیا جا سکتا ہے اور خدا کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا کام جو چیز لاتا ہے وہ انسان کا خدا کی حقیقی معرفت اور اپنی سرکشی کی سچائی حاصل ہونا ہے۔ عدالت کا کام انسان کو خدا کی مرضی، خدا کے کام کے مقصد، اور ان رازوں کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جو اس کے لیے ناقابلِ ادراک ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو اپنے بدعنوان جوہر اور اس بدعنوانی کی جڑوں، نیز انسان کی بدصورتی پہچاننے کے قابل بناتا ہے۔ یہ تمام اثرات عدالت کے کام سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ اس کام کا جوہر دراصل سچائی، راہ اور خدا کی زندگی کو ان تمام لوگوں کے لیے کھولنے کا کام ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کام خدا کی عدالت کا کام ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح عدالت کا کام سچائی کے ساتھ کرتا ہے)۔
قادرِ مطلق خدا نے بہت سی سچائیوں کااظہار کیا ہے، جو خدا کےکلام کی کتابوں میں جمع کی گئی ہیں جیسے کہ کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے، جولاکھوں الفاظ کامجموعہ ہے۔ یہ سب سچائیاں ہیں جن کا اظہار خدا نے آخری ایام میں اپنے فیصلے کے کام کے لیے کیا، اور ان سچائیوں سے کہیں زیادہ ہیں جن کا خدا نے قانون کے دور اور فضل کے دور میں اظہار کیا تھا۔ قادرِ مطلق خدا نے بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے اپنے انتظامی منصوبے کے تمام رازافشا کیے ہیں، اُس نے انجیل کے تمام راز افشا کیے ہیں جو لوگ کبھی نہیں سمجھ پائے تھے، اور اس نے شیطان کی طرف سے بنی نوع انسان کی بدعنوانی اور ہماری شیطانی، خدا مخالف فطرت کی حقیقت ظاہر کردی ہے۔ اس سے ہمیں اپنے گناہ کی جڑ اور اپنی بدعنوانی کی سچائی پہچاننے کا موقع ملتاہے۔ لوگ حقائق کا سامنا ہونے پر مکمل طور پر قائل ہو جاتے ہیں اور خود سے نفرت کرنے لگتے ہیں، ان میں پچھتاوا جنم لیتا ہے اور وہ سچی توبہ کرلیتے ہیں۔ خدا ان تمام سچائیوں کا بھی اظہار کرتا ہے جن پر لوگوں کو عمل کرنے اور ان میں داخل ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اس کے کلام کے مطابق زندگی گزار سکیں اور ایک حقیقی انسانی تشبیہ اور سچائی کی مثال بن کر زندگی گزاریں۔ خدا کے وعدوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ قادرِ مطلق خدا نے بہت سی سچائیوں کا اظہار کیا ہے، جو کہ سب انسانوں کو بدعنوانی سے پاک کرنے اور شیطان کی قوتوں سے بچانے کے لیے ہیں۔ تاکہ ہم خدا کی طرف رجوع کر سکیں اور خدا کو پہچان سکیں۔ یہی سچائیاں زندگی اور نجات حاصل کرنے کے لیے تعلیمات کا واحد حقیقی ماخذ ہیں، اور انسان کی تقدیر یکسر بدلنے کے لیے کافی ہیں، جیسا کہ انھیں ایک خوبصورت منزل، خدا کی بادشاہی تک رسائی حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بڑی آفتوں کا پہلے ہی آغاز ہوچکا ہے۔ نجات دہندہ کے ظاہر ہونے اور کام کو قبول کرنا ان کی اچھی امید حقیقت بنانے کا واحد طریقہ ہے۔ قادر مطلق خدا کی جانب سے ظاہر کردہ تمام سچائیوں کو قبول کرنا ہی خدا کی توثیق کا واحد راستہ ہے عظیم آفات کے ذریعے خدا کی حفاظت اور برکت حاصل کرنے کے لیے، ان سے بچنے کے لیے اور خدا کی طرف سے اس کی بادشاہی میں لائے جانے کے لیے اگر لوگ نجات دہندہ کی طرف سے اظہارکردہ تمام سچائیاں قبول نہیں کرتے، بلکہ صرف اپنے خیالی جھوٹے خدا، یا کسی بری روح کا کا انتظار کرتے ہیں کہ آکر انھیں تباہی سے بچائے، تویہ صرف ایک واہمہ ہے۔ وہ اپنی کوششوں سے کچھ حاصل کیے بغیر بالآخرخالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ جھوٹے دیوتا اور بری روحیں لوگوں کو نہیں بچا سکتیں۔ صرف جسم میں خدا، نجات دہندہ بنی نوع انسان کو بچا سکتا ہے، اور لوگوں کے لیے اچھی تقدیر اور منزل حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”آخری دور کا مسیح زندگی لائے گا اور سچائی کا دیرپا اور جاوداں راستہ لائے گا۔ یہ وہ سچا راستہ ہے جس سے انسان زندگی حاصل کرتا ہے اور یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انسان خدا کو جانے گا اور اس سے توثیق پائے گا۔ اگر تُو آخری ایام کے مسیح کے فراہم کردہ زندگی کے راستے کی جستجو نہیں کرتا تو تجھے کبھی یسوع کی تائید حاصل نہیں ہو سکے گی اور تُو آسمانوں کی بادشاہی کے دروازے سے داخل ہونے کا کبھی اہل نہیں ہو پائے گا“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔ ”جو لوگ مسیح کی طرف سے کہی گئی سچائی پر بھروسا کیے بغیر زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ دنیا میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز لوگ ہیں اور جو لوگ مسیح کا لایا ہوا زندگی کا راستہ قبول نہیں کرتے وہ تصورات میں کھو جاتے ہیں اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جو آخری دور کے مسیح کو قبول نہیں کرتے خدا ان سے ہمیشہ نفرت کرے گا۔ آخری دور میں مسیح بادشاہی کا دروازہ ہے اور اسے کوئی بھی نظر انداز کر کے آگے نہیں جا سکتا۔ خدا صرف مسیح کے ذریعے ہی کمال بخشے گا۔ تُو خدا پر یقین رکھتا ہے اور اس لیے تجھے اس کا کلام قبول کرنا چاہیے اور اس کے طریقے کی اطاعت کرنی چاہیے۔ تُو فقط برکت کے حصول کا تصور نہیں کر سکتا جب تک تُو سچائی اور زندگی کی فراہمی قبول کرنے کے قابل نہ ہو۔ مسیح آخری ایام میں آئے گا تاکہ وہ سب جو دل سے اس پر یقین رکھتے ہیں انھیں زندگی دی جا سکے۔ اس کا کام پرانے دور کو ختم کرنا اور نئے دور میں داخل ہونا ہے اور اس کا کام وہ راستہ ہے جو ان تمام لوگوں کو اختیار کرنا چاہیے جو نئے دور میں داخل ہوں گے۔ اگر تُو اسے تسلیم کرنے کے قابل نہیں ہے اور اس کی بجائے اس کی مذمت کرتا ہے، توہین کرتا ہے، یا حتیٰ کہ اسے ستاتا ہے تو تُو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلے گا اور خدا کی بادشاہی میں کبھی داخل نہیں ہو پائے گا کیونکہ یہ مسیح خود روح القدس اور خدا کا اظہار ہے، جسے خدا نے زمین پر اپنا کام کرنے کے لیے مقرر کیا ہے اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر تُو آخری ایام کے مسیح کی طرف سے کیے گئے تمام کام قبول نہیں کر سکتا تو تُو روح القدس کی توہین کرتا ہے۔ روح القدس کی توہین کرنے والوں سے جو بدلہ لیا جائے گا وہ سب پر واضح ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟