آخری ایام میں خدا کا انصاف کا کام کس طرح بنی نوع انسان کو خالص کرتا اور بچاتا ہے؟

April 25, 2023

لوگوں کو احساس ہو گیا ہے کہ عظیم آفات ہم پر آن پڑی ہیں اور وہ لوگ جو خداوند کے بادل پر آنے کی امید کر رہے ہیں وہ سانس روک کر انتظار کر رہے ہیں۔ برسوں کے انتظار کے بعد، انھوں نے ابھی تک اسے آتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ اس کے بجائے، وہ مشرقی بجلی کو آخری ایام میں قادر مطلق خدا کے انصاف کے کام کی گواہی دیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک بڑی مایوسی ہے۔ انہیں امید ہے کہ خدا وند سے ملاقات کے لیے وہ براہ راست اوپر آسمان میں اٹھا لیے جائیں گے کبھی توقع نہ کرتے ہوئے کہ وہ اپنی واپسی پر انصاف کا کام انجام دے گا۔ وہ اسے قبول نہیں کرنا چاہتے۔ بہت سے لوگ مذہبی دنیا کی مسیح مخالف قوتوں کی پیروی کر رہے ہیں، خدا کے ظہور اور کام پر تنقید اور مذمت کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں، ”ہمارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا ہے اور ہمیں خدا کی طرف سے راستباز سمجھا گیا ہے، ہمیں خدا کے انصاف کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ خداوند ہمیں اپنی بادشاہی میں لے جائے جہاں ہم اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔“ وہ اپنے تصورات سے چمٹے رہتے ہیں، حقیقی راستے کو تلاش کرنے اور اس کی تحقیق کرنے کے لیےے تیار نہیں ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ابھی تک خداوند کا استقبال نہیں کیا ہے، لیکن آفات میں گر گئے ہیں۔ یہ مکمل طور پر خداوند یسوع کے کلام کو پورا کرتا ہے: ”کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور اُس کے پاس زِیادہ ہو جائے گا مگر جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے لے لِیا جائے گا۔ اور اِس نِکمّے نَوکر کو باہر اندھیرے میں ڈال دو۔ وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہو گا(متّی 25: 29-30)۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سچائی سے محبت کرتے ہیں اور جب وہ قادر مطلق خدا کا کلام پڑھتے ہیں، انھوں نے ان کی طاقت اور اختیار کو دیکھا، دیکھا کہ وہ سب سچ ہیں۔ انھوں نے خدا کی آواز کو پہچان لیا اور وہ اپنے تصورات کے سبب اب پیچھے نہ رہے، لیکن صحیح طریقے کی تحقیق کرتے رہے۔ ان کے پہلے سوالات یہ تھے کیوں خدا کو اب بھی انصاف کا کام کرنے کی ضرورت ہو گی جبکہ ان کے گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے اور وہ خدا کی طرف سے راستباز سمجھے جاتے ہیں، کہ کس طرح خدا آخری ایام میں اس کام کے ذریعے لوگوں کو خالص کرتا اور بچاتا ہے۔ یہ دو سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ الجھن والے سوالات ہیں جو صحیح طریقے کی تحقیق کرنے والے ہر کسی کو سمجھنے چاہییں۔

چلو اس کے ساتھ شروع کرتے ہیں کیوں خدا کو آخری ایام میں انصاف کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت سے مذہبی لوگوں کے لیے الجھن کا باعث ہے۔ وہ سوچتے ہیں، ”خداوند نے پہلے ہی ہمارے گناہوں کو معاف کر دیا ہے اور خدا ہمیں گناہ کے طور پر نہیں دیکھتا ہے، تو ہمیں سیدھا اس کی بادشاہی میں لے جایا جا سکتا ہے، اور ہمیں خدا کے انصاف کی ضرورت نہیں ہے۔“ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ سچ ہے کہ خداوند نے انسان کے گناہوں کو معاف کر دیا ہے، لیکن کیا اس معافی کا مطلب یہ ہے کہ ہم پاک ہو گئے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے خدا کے سامنے سچی فرمانبرداری حاصل کر لی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ ہم سب نے اس حقیقت کو دیکھا ہے: ہمارے گناہوں کی معافی کے باوجود، ایماندار، بغیر کسی استثناء کے، گناہ کرنے اور اقرار کرنے کے چکر میں جی رہے ہیں، دن میں گناہ کرنا، اور پھر رات کو اقرار کرنا، خداوند یسوع کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش اور ناکامی، محبت کرنے اور خداوند کے تابع ہونے کی کوشش اور ناکامی، نیکی کرنے کا عزم لیکن پھر بھی جھوٹ بولنا اور گناہ کرنا، اس کے باوجود کہ ان کے خود سے، ناکام ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو روکنے کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ جسم بہت خراب ہے، اور گناہ میں جینا واقعی تکلیف دہ ہے۔ تو کیوں لوگ اپنے آپ کو گناہ کے بندھنوں سے باہر نکالنے سے قاصر ہیں؟ ہم گناہ کرنے اور پھر گناہ کرنے سے رک کیوں نہیں سکتے؟ یہ انسان کی گنہگار فطرت اور شیطانی مزاج کی وجہ سے ہے۔ یہ گناہ کی جڑ ہیں۔ گناہ کی جڑ کا مسئلہ حل کیے بغیر ہم کبھی بھی اس سے آزاد نہیں ہو سکتے، لیکن ہم خدا کی مخالفت کرتے رہیں گے، اس کی مذمت کرتے رہیں گے اور اس سے دشمنی کرتے رہیں گے۔ فریسیوں کے بارے میں سوچو، جو نسل در نسل ایمان رکھتے تھے اور مسلسل گناہ کی قربانیاں پیش کرتے رہتے تھے۔ ایسا کیوں ہے کہ جب یہوواہ خدا، خداوند یسوع کے طور پر جسم بن گیا اور بہت سی سچائیوں کا اظہار کیا، انھوں نے خداوند یسوع کو یہوواہ خدا کے ظہور کے طور پر نہیں پہچانا، مگر اس کی مذمت کی اور تنقید کی اور یہاں تک کہ اسے مصلوب کیا؟ مسئلہ کیا تھا؟ اب آخری ایام میں قادر مطلوق خدا آتا ہے اور سچائیوں کا اظہار کرتا ہے، تو کیوں بہت سے مذہبی لوگ اس پر غور کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں، لیکن پاگل پن سے اس کی مذمت کرتے اور اس کی توہین کرتے ہیں، خدا کو ایک بار پھر صلیب پر کیل سے ٹھونکنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اس سب کا کیا مطلب ہے؟ یہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے جبکہ لوگوں کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا ہے، وہ اب بھی اپنی شیطانی فطرت کی حکمرانی میں ہیں اور کسی بھی وقت خدا کی مذمت اور مخالفت کر سکتے ہیں۔ نوع انسانی کی گناہگاری محض گناہ کے اعمال کا معاملہ نہیں ہے، لیکن یہ اتنا سنگین ہے کہ وہ مسیح کو مصلوب کرنا چاہتے ہیں جو سچائی کا اظہار کرتا ہے، خدا کے خلاف، سچائی کے خلاف، خدا کے خلاف عمل اور کام کرتے ہیں اور اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایسے گندے اور بدعنوان لوگ جو خدا کے خلاف ہیں وہ اس کی بادشاہی کے لائق کیسے ہو سکتے ہیں؟ خدا راستباز اور مقدس ہے اور اس کا مزاج ناقابل تسخیر ہے۔ اگر وہ لوگ جن کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں وہ انصاف کے کام کے وسیلے سے پاک نہیں ہوتے، لیکن گناہ کرتے رہتے اور خدا کی مخالفت کرتے رہتے ہیں، وہ کبھی بھی خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں ہوں گے – اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ خداوند یسوع کے الفاظ کو پورا کرتا ہے: ”جو مُجھ سے اَے خُداوند اَے خُداوند! کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخِل نہ ہو گا مگر وُہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے(متّی 7: 21)۔ ”دِیا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی گُناہ کرتا ہے گُناہ کا غُلام ہے۔ اور غُلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا بیٹا ابد تک رہتا ہے(یُوحنّا 8: 34-35)۔ عبرانی کا 12: 14 بھی ہے: ”پاکیزگی کے بغیر کوئی انسان خداوند کو نہیں دیکھے گا“۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند یسوع نے اپنے خلاصی کے کام کے دوران کئی بار کہا تھا کہ وہ دوبارہ آئے گا۔ تو وہ یہاں کیا کرنے آیا ہے؟ یہ سچائیوں کا اظہار کرنے اور اس کے انصاف کے کام کو انجام دینے کے لیے ہے تاکہ انسان کو گناہ سے اور شیطان کی قوتوں سے مکمل طور پر نجات دے، تاکہ ہم مکمل طور پر خدا کی طرف رجوع کر سکیں اور ایسے لوگ بن سکیں جو خدا کے تابع اور عبادت کرتے ہیں۔ پھر وہ ہمیں ایک خوبصورت منزل پر لے جائے گا۔ جیسا کہ خداوند یسوع نے پیشین گوئی کی تھی: ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا(یُوحنّا 16: 12-13)۔ ”اگر کوئی میری باتیں سُن کر اُن پر عمل نہ کرے تو مَیں اُس کو مُجرِم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دُنیا کو مُجرِم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہُوں۔ جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخِری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا(یُوحنّا 12: 47-48)۔ اور، ”کیونکہ وہ وقت آ پُہنچا ہے کہ خُدا کے گھر سے عدالت شرُوع ہو(۱-پطرؔس 4: 17)۔ ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ خدا نے بہت پہلے آخری ایام میں انصاف کے کام کو انجام دینے کا منصوبہ بنایا تھا، اور یہ وہی ہے جس کی بدعنوان بنی نوع انسان کو مکمل طور پر نجات پانے کے لیے ضرورت ہے۔ آخری ایام میں، قادر مطلق خدا سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے اور خدا کے گھر سے شروع ہونے والا انصاف کا کام کر رہا ہے۔ وہ سچائی کی روح ہے جو انسان کے درمیان آتی ہے، خدا کے برگزیدہ لوگوں کو سب سچائیوں میں داخل ہونے کی راہنمائی کرتی ہے۔ یہ مکمل طور پر خداوند یسوع کی پیشین گوئیوں کو پورا کرتا ہے۔ آئیے قادر مطلق خدا کے کچھ کلمات پڑھتے ہیں۔ اس بارے میں مزید وضاحت کے لیے کہ آخری ایام میں خدا کو انصاف کا کام کرنے کی ضرورت کیوں ہے۔

قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”اگرچہ یسوع نے انسانوں کے درمیان بہت زیادہ کام کیا، مگراس نے صرف تمام بنی نوع انسان کی خلاصی مکمل کی اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اس نے انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں دلایا۔ انسان کو شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچانے کے لیے نہ صرف یسوع کو گناہ کا کفارہ بننے اور انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خدا انسان کو اس کے شیطانی بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے اس سے بھی بڑا کام کرے۔ اور اس طرح، اب جب کہ انسان کو اس کے گناہوں سے معافی مل گئی ہے تو خدا انسان کو نئے دورمیں لے جانے کے لیے جسم میں واپس آیا ہے اور اس نے سزا اور عدالت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کام نے انسان کو ایک بلند تر عالم میں پہنچا دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کے تسلط کے تابع ہوں گے وہ اعلیٰ سچائی سے لطف اندوز ہوں گے اور عظیم نعمتیں حاصل کریں گے۔ ان کو واقعی روشنی میں رہنا چاہیے، اور سچائی، راستہ اور زندگی حاصل کرنی چاہیے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔

انسان کی خلاصی کروائے جانے سے پہلے، بہت سے شیطانی زہر اس کے اندر اتارے جا چکے تھے اور، شیطان کی طرف سے ہزاروں سال سے بدعنوان کیے جانے کے بعد اس کے اندر ایسی فطرت مستحکم ہو چکی ہے جو خدا کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ لہٰذا، جب انسان کی خلاصی کرو لی گئی ہے، تو یہ خلاصی کے ایسے معاملے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے جس میں ایک انسان مہنگی قیمت پر خریدا گیا ہے لیکن اس کی اندرونی زہریلی فطرت ختم نہیں کی گئی۔ جو انسان اتنا پلید ہو، اسے خدا کی خدمت کے لائق بننے سے پہلے تبدیلی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ فیصلے اور سزا کے اس کام سے انسان اپنی ذات کی اندرونی غلاظت اور بدعنوان اصلیت کو پوری طرح جان لے گا اور وہ پوری طرح تبدیل ہونے اور پاک صاف ہو نے کے قابل ہو جائے گا۔ صرف اسی طرح انسان خدا کے تخت کے سامنے واپس آنے کے لائق بن سکتا ہے۔ ۔۔۔ کیونکہ انسان کو چاہے اس کے گناہوں سے بچا لیا گیا ہو اور معافی دے دی گئی ہو مگر اس سے صرف یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ خدا انسان کی خطائیں یاد نہیں رکھتا اور انسان کے ساتھ اس کی خطاؤں کے مطابق سلوک نہیں کرتا۔ تاہم، جب تک انسان، جو گوشت پوست کا جسم رکھتا ہے، گناہ سے آزاد نہیں ہوتا ہے، تو وہ لامتناہی طور پر اپنے بدعنوان شیطانی مزاج کو ظاہر کرتے ہوئے صرف گناہ ہی جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو انسان گزارتا ہے، گناہ کرنے اور معاف کیے جانے کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر۔ بنی نوع انسان کی اکثریت دن میں گناہ کرتی ہے، صرف اس لیے کہ شام کو اعتراف کر سکے۔ اس طرح، اگرچہ گناہ کا کفارہ انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے موثر ہے، لیکن وہ انسان کو گناہ سے نہیں بچا سکے گا۔ نجات کا صرف آدھا کام مکمل ہوا ہے، کیونکہ انسان کا مزاج اب بھی بدعنوان ہے۔ ۔۔۔ انسان کے لیے اپنے گناہوں سے آگاہ ہونا آسان نہیں ہے؛ اس کے لیے اپنی مستحکم فطرت پہچاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور یہ نتیجہ حاصل کرنے کے لیے اسے لازماً کلام کی طرف سے فیصلے پر انحصار کرنا چاہیے۔ صرف اسی طرح انسان اس مقام سے آگے بتدریج تبدیل ہو سکتا ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔

فضل کے دور میں، خداوند یسوع خود مصلوب ہوا، بنی نوع انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا اور نوع انسانی کو گناہ سے خلاصی دلائی۔ تب سے، انسان کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا ہے اور خدا ہمیں گناہ کرنے والے کے طور پر نہیں دیکھتا ہے، تو ہم خدا سے براہ راست دعا کرنے اور اس کے سامنے آنے کے قابل ہیں۔ لیکن خدا کا اب گناہ کے آدمی کے طور پر نہ دیکھنے کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس نے ہمارے گناہوں کو معاف کر دیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم گناہ سے آزاد ہیں، کہ ہم مکمل طور پر مقدس ہیں۔ ہم اب بھی ایک گنہگار فطرت اور ایک شیطانی مزاج رکھتے ہیں۔ ہمیں آخری ایام میں خدا کے انصاف کے کام سے گزرنا ہے تاکہ ہماری بدعنوانی کو صاف کیا جا سکے اور ہم مکمل طور پر نجات پا سکیں۔ فضل کے دور میں خدا کے خلاصی کے کام نے آخری ایام میں اس کے انصاف کے کام کی راہ ہموار کی۔ یعنی اس کا انصاف کا کام خداوند یسوع کے خلاصی کے کام کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ خدا کے خلاصی کے کام نے اس کے نجات کے مکمل کام کا آدھا حصہ ہی پورا کیا۔ یہ آخری ایام میں قادر مطلق خدا کا انصاف کا کام ہے جو نوع انسانی کو مکمل طور پر پاک کر سکتا اور بچا سکتا ہے، اور یہ خدا کے نجات کے کام کا سب سے اہم مرحلہ ہے۔ ہمیں آخری ایام میں خدا کے انصاف اور صفائی کے کام کا تجربہ کرنا ہے، تاکہ گناہ سے مکمل طور پر آزاد اور پاک صاف ہو جائیں، اور سچ مچ خدا کے تابع ہو جائیں اور اس کی بادشاہی کے لائق ہونے کے لیے خدا کی مرضی پر عمل کریں۔

اس موقع پر مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس بات کی بہتر تفہیم ہے کہ آخری ایام میں خدا انصاف کا اپنا کام کیوں کر رہا ہے۔ کچھ لوگ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ کام کس طرح بنی نوع انسان کو پاک کرتا اور بچاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قادر مطلق خدا نے اس بارے میں کیا کہا ہے۔ ”آخری ایام کا مسیح انسان کو سکھانے، انسان کا مادّہ منکشف کرنے، اور انسان کے قول و فعل پرکھنے کے لیے مختلف قسم کی سچائیوں کا استعمال کرے گا۔ یہ الفاظ مختلف سچائیوں پر مشتمل ہیں، جیسا کہ انسان کا فرض کیا ہے، انسان کو خدا کی اطاعت کیسے کرنی چاہیے، انسان کو خدا کا وفادار کیسے ہونا چاہیے، انسان کو معمول کی انسانیت والی زندگی کیسے گزارنی چاہیے نیز خدا کی حکمت اور مزاج وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ انسان کے مادے اور اس کے بدعنوان مزاج پر مبنی ہیں۔ خاص طور پر وہ الفاظ جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان خدا کو کیسے ٹھکراتا ہے، اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ انسان شیطان کا مجسم کیسے ہے اور خدا کے خلاف ایک دشمن قوت ہے۔ اپنا عدالت کا کام انجام دینے میں، خدا صرف چند الفاظ سے انسان کی فطرت واضح نہیں کرتا؛ وہ اسے بے نقاب کرتا ہے، اس سے نمٹتا ہے، اور طویل مدت کے لیے اس کی تراش خراش کرتا ہے۔ منکشف کرنے، نمٹنے اور تراش خراش کے ان تمام مختلف طریقوں کو عام الفاظ سے نہیں بدلا جا سکتا، بلکہ صرف سچائی ہی اس کا متبادل ہے جس سے انسان بالکل عاری ہے۔ صرف یہ طریقے ہی عدالت کہے جا سکتے ہیں؛ صرف اس قسم کے فیصلوں کے ذریعے ہی انسان کو محکوم اور خدا کے بارے میں مکمل طور پر قائل کیا جا سکتا ہے اور خدا کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا کام جو چیز لاتا ہے وہ انسان کا خدا کی حقیقی معرفت اور اپنی سرکشی کی سچائی حاصل ہونا ہے۔ عدالت کا کام انسان کو خدا کی مرضی، خدا کے کام کے مقصد، اور ان رازوں کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جو اس کے لیے ناقابلِ ادراک ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو اپنے بدعنوان جوہر اور اس بدعنوانی کی جڑوں، نیز انسان کی بدصورتی پہچاننے کے قابل بناتا ہے۔ یہ تمام اثرات عدالت کے کام سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ اس کام کا جوہر دراصل سچائی، راہ اور خدا کی زندگی کو ان تمام لوگوں کے لیے کھولنے کا کام ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کام خدا کی عدالت کا کام ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح عدالت کا کام سچائی کے ساتھ کرتا ہے)۔

لوگ اپنے مزاج نہیں بدل سکتے۔ انھیں خدا کے کلام کے ذریعے عدالتاور سزا، اورمصیبت اور اصلاح کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا اس کے کلام کے ذریعے ان سے نمٹا جاتا ہے، ان کی تربیت کی جاتی ہے اور ان کی کاٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔ تب کہیں وہ خدا کے لیے تابع داری اورخودسپردگی پا سکتے ہیں اور اس کی جانب بے اعتنائی نہیں برتتے۔ خدا کے کلام کی اصلاح سے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آتی ہے۔ صرف اس کی طرف سے آشکار کیے جانے، عدالت کیے جانے، تربیت میں لائے جانےاور نمٹے جانے کی بدولت و ہ جلدبازی سے عمل کرنے کی مزید ہمت نہیں کریں گے اور اس کے بجائے یکسو اور پرسکون ہوجائیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ خدا کے موجودہ کلام اور اس کے کام کے تابع ہو سکتے ہیں، چاہے وہ انسانی تصورات کے مطابق نہ ہو، وہ یہ تصورات ایک طرف رکھ سکتے اور اپنی مرضی سے سرتسلیم خم کر سکتے ہیں(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ جن لوگوں کے مزاج تبدیل ہوئے ہیں، وہ وہی ہیں جو خدا کے کلام کی حقیقت میں داخل ہوگئے ہیں)۔

خدا انسان کو کامل بنانے کے بہت سے ذرائع رکھتا ہے۔ وہ انسان کے بد عنوان مزاج سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کے ماحول سے استفادہ کرتا ہے اور انسان کو عیاں کرنے کے لیے مختلف اشیا استعمال میں لاتا ہے؛ ایک حوالے سے، وہ انسان سے نمٹتا ہے، دوسرے سے وہ انسان کو عیاں کرڈالتا ہے اور ایک اور طرح وہ انسان کا پردہ فاش کردیتا ہے، انسان کے دل کی گہرائیوں سے بھید کھود نکالتا اور بے نقاب کردیتا ہے اور اس کی بہت سی حالتوں کی نقاب کشائی کرکے انسان کو اس کی فطرت دکھا دیتا ہے۔ خدا انسان کو بہت سے طریقوں سے کامل بناتا ہے – مکاشفے کے ذریعے، انسان سے نمٹنے کے ذریعے، انسان کی اصلاح اور سزا کے ذریعے – تاکہ انسان جان سکے کہ خدا عملی ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف عمل پر توجہ رکھنے والے کامل بنائے جاسکتے ہیں)۔

اس سے کچھ روشنی ڈالنے میں مدد ملتی ہے کہ خدا اپنے انصاف کے کام کو کس طرح کرتا ہے، ٹھیک ہے؟ خدا آخری ایام کے اپنے انصاف کے کام میں، بنیادی طور پر سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے انسان کے بدعنوان جوہر کا انصاف کرنے اور بے نقاب کرنے کے لیے، اور ہمارے شیطانی مزاجوں کو تاکہ ہم اپنی بدعنوانی کی سچائی کو دیکھ سکیں، دل سے پچھتاوا کر سکیں، اپنے آپ سے نفرت اور حقارت کا معاملہ کریں، جسم کو ترک کرو اور خدا کے کلام کو عملی جامہ پہناؤ اور سچی توبہ اور تبدیلی حاصل کرو۔ قادر مطلق خدا کا کلام انسان کے بدعنوان مزاجوں جیسے تکبر، فریب اور برائی، کے مظاہر کو مکمل طور پر بے نقاب کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ایمان میں محرکات اور ملاوٹ، اور یہاں تک کہ ہمارے سب سے زیادہ گہرے، پوشیدہ خیالات اور احساسات کو بھی۔ یہ سب کچھ واضح طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ قادر مطلق خدا کے کلام کو پڑھتے ہوئے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا ہمارے چہروں کے سامنے ہمارا انصاف کرنے کے لیے وہیں موجود ہے۔ ہم اپنے گندے، بدعنوان، بدصورت نفس کو خدا کی طرف سے پوری طرح سے ظاہر ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، ہم ایسے ہو جاتے ہیں کہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں، چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ملتی اور خدا کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتے اپنے کلام سے انسان کا انصاف کرتے ہوئے، خدا ہمیں بے نقاب کرنے کے لیے حقیقی حالات بھی مرتب کرتا ہے، اس کے بعد ہماری کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے، ہم سے نمٹا جاتا ہے اور حقائق کے تحت آزمائش کی جاتی ہے، تاکہ ہم غور و فکر کر سکیں اور اپنے آپ کو جان سکیں۔ حقیقت کی طرف سے بے نقاب، اور پھر مزید بے نقاب ہونے اور خدا کے کلام کے ذریعے انصاف کیے جانے پر، ہم اپنی شیطانی فطرت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بدصورتی کو زیادہ واضح طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم افسوس سے بھرے ہوئے ہیں، اور اپنے آپ سے نفرت کرتے ہیں، اور آہستہ آہستہ سچی توبہ کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا بدعنوان مزاج صاف اور تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد، آئیے خدا کا کچھ کلام سنیں جو انسان کے بدعنوان مزاج کو بے نقاب کرتا ہے واضح ادراک حاصل کرنے کے لیے کہ خدا اپنے انصاف کا کام کیسے کرتا ہے۔

قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”میرے کام ساحلوں پر ریت کے ذروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں اور میری حکمت تمام بنی سلیمان پر سبقت رکھتی ہے، پھر بھی لوگ مجھے محض ایک معمولی درجے کا طبیب اور انسان کا گم نام استاد سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھ پر صرف اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ شاید میں انھیں شفا دے سکوں۔ بہت سے لوگ مجھ پر صرف اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ شاید میں اپنی طاقتیں استعمال کرتے ہوئے ان کے جسموں سے ناپاک روحیں نکال سکوں، اور بہت سے لوگ محض اس لیے مجھ پر ایمان رکھتے ہیں کہ شاید وہ مجھ سے سکون اور خوشی حاصل کرسکیں۔ بہت سے لوگ مجھ پر صرف اس لیے ایمان رکھتے ہیں تاکہ وہ مجھ سے عظیم تر مادی دولت کا مطالبہ کرسکیں۔ بہت سے لوگ مجھ پر اس لیے ایمان رکھتے ہیں تاکہ وہ یہ زندگی سکون سے گزار سکیں اور آنے والی دنیا میں محفوظ اور صحت مند رہ سکیں۔ بہت سے لوگ جہنم کی تکلیف سے بچنے اور جنت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لیے مجھ پر ایمان رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ صرف عارضی سکون کے لیے مجھ پر ایمان رکھتے ہیں، پھر بھی آنے والی دنیا میں کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جب میں نے انسان پر اپنا غضب نازل کیا اور وہ تمام خوشی اور سکون چھین لیا جو کبھی اس کے پاس تھا تو انسان شک میں پڑ گیا۔ جب میں نے انسان کو جہنم کی تکلیف دی اور جنت کی نعمتیں واپس لے لیں تو انسان کی شرمندگی غصے میں بدل گئی۔ جب انسان نے مجھ سے شفا دینے کے لیے کہا تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس سے نفرت محسوس کی؛ انسان مجھ سے دور ہو گیا، بجائے اس کے کہ وہ میرے قریب آنے کی کوشش کرتا اس نے شیطانی طریقہ علاج اور جادو ٹونےکا راستہ اختیار کیا۔ جب میں نے وہ سب کچھ چھین لیا جو آدمی نے مجھ سے مانگا تھا، تو سب کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوگئے۔ اس طرح، میں کہتا ہوں کہ آدمی مجھ پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ میں بہت زیادہ فضل کرنے والا ہوں، اور حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ تُوایمان کے بارے میں کیا جانتا ہے؟)۔

خدا کی پیروی کرنے والے بہت سے لوگوں کی دلچسپی صرف اس چیز سے ہوتی ہے کہ برکتیں کیسے حاصل کی جائیں یا تباہی کو کیسے ٹالا جائے۔ جیسے ہی خدا کے کام اور انتظام کا ذکر ہوتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں اور تمام دلچسپی کھو دیتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس طرح کے بیزار کن مسائل کی سمجھ بوجھ ان کو زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد نہیں دے گی اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچائے گی۔ اس کے نتیجے کے طور پر، اگرچہ انہوں نے خدا کے انتظام کے بارے میں سن رکھا ہے، لیکن وہ اس پر کم توجہ دیتے ہیں۔ وہ اسے قبول کرنے کے قابل کوئی قیمتی چیز نہیں سمجھتے، اور ان کا اسے اپنی زندگی کے حصے کے طور پر وصول کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ ایسے لوگوں کا خدا کی پیروی کا صرف ایک ہی آسان مقصد ہوتا ہے اور وہ مقصد برکتیں حاصل کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کو کسی اور ایسی چیز پر توجہ دینے کی زحمت نہیں دی جا سکتی جس میں یہ مقصد براہ راست شامل نہ ہو۔ اُن کے نزدیک، خُدا پر ایمان رکھنے کا سب سے زیادہ جائز مقصد یہ ہے کہ برکات حاصل کی جائیں – اُن کے ایمان کی یہی قیمت ہے۔ اگر کوئی چیز اس مقصد میں حصہ نہیں ڈالتی ہے تو وہ اس سے بالکل متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ آج خدا پر ایمان رکھنے والوں میں سے اکثر کا یہی معاملہ ہے۔ ان کا مقصد اور ارادہ جائز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے وہ خدا کے لیے خرچ بھی کرتے ہیں، خود کو خدا کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنی جوانی چھوڑ دیتے ہیں، خاندان اور پیشے کو چھوڑ دیتے ہیں، اور یہاں تک کہ گھر سے دور اپنے آپ کو سالوں مصروف رکھتے ہیں۔ اپنے حتمی مقصد کی خاطر، وہ اپنے مفادات، زندگی کے بارے میں اپنے نقطہ نظر، اور یہاں تک کہ وہ سمت بھی بدل لیتے ہیں جس کی وہ تلاش کرتے ہیں؛ اس کے باوجود وہ خدا پر اپنے ایمان کے مقصد کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے بہترین تصورات کے مطابق مثالی انتظام کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں؛ چاہے سڑک کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، اور چاہے راستے میں کتنی ہی مشکلات اور رکاوٹیں کیوں نہ ہوں، وہ ثابت قدم رہتے ہیں اور موت سے نہیں ڈرتے۔ کون سی طاقت انھیں اس طرح خود کو وقف رہنے پر مجبور کرتی ہے؟ کیا یہ ان کا ضمیر ہے؟ کیا یہ ان کا عظیم اور عالی نسب کردار ہے؟ کیا یہ ان کا بدی کی قوتوں سے آخری دم تک لڑنے کا عزم ہے؟ کیا یہ ان کا ایمان ہے کہ انعام کی طلب کے بغیر خدا کی گواہی دیتے ہیں؟ کیا یہ ان کی وفاداری ہے کہ وہ خدا کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ خوشی سے ترک کر دیتے ہیں؟ یا یہ ان کی عقیدت کا جذبہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بہت زیادہ ذاتی تقاضوں کو ترک کر دیتے ہیں؟ کسی ایسے شخص کے لیے جس نے خدا کے انتظام کے کام کو کبھی بھی نہیں سمجھا ہے، پھر بھی اتنا کچھ دینا، بالکل آسان الفاظ میں، ایک معجزہ ہے! فی الحال ہم اس بات پر بحث نہیں کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کتنا کچھ دیا ہے۔ تاہم، ان کا طرزِسلوک ہمارے تجزیے کا بہت زیادہ مستحق ہے۔ ان فوائد کے علاوہ جن کا ان سے بہت قریبی تعلق ہے، کیا کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ جو خدا کو کبھی نہیں سمجھتے ہیں وہ بھی اس کے لیے اتنا کچھ کیوں دے دیتے ہیں؟ اس بارے میں، ہم ایک مسئلہ دریافت کرتے ہیں جس کی پہلے شناخت نہیں ہوئی تھی: انسان کا خدا کے ساتھ تعلق محض ایک کُھلی خود غرضی ہے۔ یہ برکات وصول کرنے والے اور عطا کرنے والے کے درمیان ایک تعلق ہے۔ صاف لفظوں میں، یہ ملازم اور مالک کے درمیان تعلق کے مترادف ہے۔ ملازم صرف مالک کی طرف سے عطا کردہ انعامات حاصل کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ ایسے رشتے میں پیار نہیں ہوتا، صرف لین دین ہوتا ہے۔ کوئی حبیب یا محبوب نہیں ہے، صرف خیرات اور رحم ہے۔ کوئی ہم آہنگی نہیں ہے، صرف روکا ہوا غصہ اور دھوکا ہے۔ کوئی گہرا تعلق نہیں ہے، صرف ایک ناقابل عبور کھائی ہے۔ اب جب کہ معاملات اس مقام تک پہنچ چکے ہوں تو کون ایسے راستے کو پلٹ سکتا ہے؟ اور کتنے لوگ ہیں جو صحیح معنوں میں یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ یہ رشتہ کتنا المناک ہو چکا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ جب لوگ برکت یافتہ ہونے کی خوشی میں خود کو سرشار کر لیتے ہیں تو کوئی بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ خدا کے ساتھ ایسا رشتہ کتنا شرمناک اور بدصورت ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ ضمیمہ 3: انسان صرف خدا کے انتظام ہی سے بچ سکتا ہے)۔

تمہارے لیے بہتر ہو گا کہ خود کو جاننے کی سچائی کے لیے مزید کوششیں وقف کرو۔ تم پر خدا کا فضل کیوں نہیں ہوا؟ تمہارا مزاج اس کے نزدیک کیوں مکروہ ہے؟ تمہاری تقریر کیوں اس کی نفرت کو جنم دیتی ہے؟ جیسے ہی تم تھوڑی سی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہو، تم خود اپنی تعریفیں کرنے لگتے ہو، اور تم تھوڑی سی کوشش کے لیے انعام کا مطالبہ کرتے ہو؛ جب تم نے معمولی اطاعت کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے تو تم دوسروں کو حقیر سمجھتے ہو، اور کسی معمولی کام کو پورا کرنے پر خدا کی توہین کرتے ہو۔ خدا کا استقبال کرنے کے لیے، تم پیسے، تحائف اور تعریفیں مانگتے ہو۔ ایک یا دو سکے عطیہ کرنے سے تمہارا دل دُکھتا ہے۔ جب تم دس دیتے ہو تو تم برکت اور امتیازی سلوک کی خواہش کرتے ہو۔ تمہارے جیسی انسانیت کے بارے میں بات کرنا یا سننا واقعی ناگوار ہے۔ کیا تمہارے قول و فعل میں کوئی قابل تعریف بات ہے؟ وہ جو اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور وہ جو نہیں کرتے؛ وہ جو قیادت کرتے ہیں اور وہ جو پیروی کرتے ہیں؛ وہ جو خدا کا استقبال کرتے ہیں اور وہ جو نہیں کرتے۔ وہ جو عطیہ کرتے ہیں اور وہ جو نہیں کرتے؛ وہ لوگ جو تبلیغ کرتے ہیں اور وہ جو کلام کو قبول کرتے ہیں، وغیرہ: ایسے تمام لوگ اپنی تعریف کرتے ہیں۔ کیا تمہیں یہ مضحکہ خیز نہیں لگتا؟ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ تم خدا پر یقین رکھتے ہو، اس کے باوجود تم خدا کے ساتھ مطابقت نہیں رکھ سکتے۔ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ تم مکمل طور پر قابلیت کے بغیر ہو، تم اسی طرح فخر کرنے میں لگے رہتے ہو۔ کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ تمہاری حس اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ اب تمہیں خود پر قابو نہیں ہے؟ اس طرح کے حواس کے ساتھ، تم خدا کے ساتھ تعلق رکھنے کے لئے کس طرح موزوں ہو؟ کیا تم اس مقام پر اپنے لیے خوفزدہ نہیں ہو؟ تمہارا مزاج پہلے ہی اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ تم خدا کے ساتھ مطابقت کے قابل نہیں ہو۔ ایسا ہونے سے کیا تمہارا عقیدہ مضحکہ خیز نہیں ہے؟ کیا تمہارا عقیدہ لغو نہیں ہے؟ تم اپنے مستقبل سے کیسے رجوع کرو گے؟ تم کس طرح انتخاب کرو گے کہ کہ تمہیں کون سا راستہ اختیار کرنا ہے؟(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے والے لوگ یقیناً خدا کے مخالف ہیں)۔

کئی ہزار سال کی بدعنوانی کے بعد انسان بے حس اور کند ذہن ہے؛ وہ خدا کی مخالفت کرنے والا ایک بدروح بن چکا ہے، اور اس حد تک کہ خدا کے خلاف انسان کی سرکشی کو تاریخ کی کتابوں میں درج کیا گیا ہے، اور حتیٰ کہ انسان خود بھی اپنے سرکش رویے کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے – چونکہ انسان کو شیطان نے بہت زیادہ بدعنوان بنا دیا ہے۔ اور شیطان نے اسے اس طرح گمراہ کر دیا ہے کہ اسے علم ہی نہیں ہے کہ کدھر جائے۔ حتیٰ کہ آج بھی، انسان خدا سے بے وفائی کرتا ہے: جب انسان خدا کو دیکھتا ہے تو اس سے بے وفائی کرتا ہے، اور جب وہ خدا کو نہیں دیکھ سکتا ہے تو بھی وہ اس سے بے وفائی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کی لعنتوں اور خدا کے غضب کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اس سے بے وفائی کرتے ہیں۔ اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ انسان کے حواس اپنا اصل کام کھو چکے ہیں اور انسان کا ضمیر بھی اپنا اصل کام کھو چکا ہے۔ جس انسان کو میں دیکھتا ہوں وہ انسانی لباس میں ایک حیوان ہے، وہ ایک زہریلا سانپ ہے، اور اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ میری نظروں کے سامنے کتنا ہی قابلِ رحم بننے کی کوشش کرے، میں اس پر کبھی بھی رحم نہیں کروں گا، کیونکہ انسان کو سیاہ اور سفید کے فرق کی اور سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ انسان کی عقل اتنی مفلوج ہے اور اس کے باوجود وہ اب بھی برکتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی انسانیت اتنی شرمناک ہے اور اس کے باوجود وہ اب بھی ایک بادشاہ کی سی خود مختاری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی عقل کے ساتھ وہ کن لوگوں کا بادشاہ ہو سکتا ہے؟ اس طرح کی انسانیت کے ساتھ وہ کیسے تخت پر بیٹھ سکتا ہے؟ واقعی انسان کو شرم نہیں آتی ہے! وہ ایک مغرور کمینہ ہے! تم میں سے جو لوگ برکتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، میرا مشورہ ہے کہ تم پہلے ایک آئینہ تلاش کرو اور اس میں اپنے بدصورت عکس کو دیکھو- کیا تیرے پاس وہ ہے جو بادشاہ بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے؟ کیا تیرا چہرہ کسی ایسے شخص کا ہے جو برکتیں حاصل کر سکے؟ تیرے مزاج میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی ہے اور تو نے کسی بھی سچائی پر عمل نہیں کیا ہے، لیکن تو اب بھی ایک شاندار کل کی خواہش کرتا ہے۔ تو خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہے!(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ تبدیلی سے عاری مزاج کا حامل ہونا خدا سے دشمنی میں ہونا ہے)۔

قادر مطلق خدا کے الفاظ بہت عملی ہیں اور ہر لفظ بہت حقیقی ہے، جو ہمارے ایمان میں ملاوٹ اور مذموم مقاصد کو ظاہر کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہماری خدا مخالف فطرت کو بھی۔ ہم ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ ہم قربانیاں دینے، دکھ اٹھانے اور خدا کے لیے قیمت ادا کرنے کے قابل ہیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم متقی اور فرمانبردار تھے اور خدا کی رضا حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن خدا کے کلام کے انصاف کے ذریعے، ہم غور کرتے ہیں اور اپنے آپ کو جانتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ ہماری ساری قربانیاں داغدار اور صرف برکت حاصل کرنے کے لیے تھیں۔ جب خدا ہمیں پر امن زندگیوں سے نوازتا ہے، ہم اس کے تابع ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن جب درد اور آفت آتی ہے، ہم خدا کو غلط سمجھتے ہیں اور اس پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے ہماری حفاظت نہیں کی، اور یہاں تک کہ اس کے لے کام کرنا بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ایمان اور قربانیاں مکمل طور پر لین دین پر مبنی رہی ہیں، تاکہ خدا سے فضل و کرم اور برکتیں حاصل کی جا سکیں۔ یہ دھوکہ دہی اور خدا کا استعمال کرنا ہے۔ یہ بہت خود غرضی اور چالاکی ہے! ہم مکمل طور پر ضمیر اور عقل کی کمی محسوس کر رہے ہیں، یہاں تک کہ انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ اتنے گندے اور بدعنوان، ہم پھر بھی سوچتے ہیں کہ ہمیں برکت پانے اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کا حق حاصل ہے۔ یہ بے شرمی اور عقل سے عاری ہونا ہے۔ خدا کا انصاف کا کلام اور وحی ہمیں اس کی راستباز، مقدس فطرت دکھاتی ہیں جسے ناراض نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ جو کچھ خدا ہم سے مانگتا ہے وہ ہمارا اخلاص اور عقیدت ہے۔ ایمان رکھنا اور اس طرح کے مقاصد اور نجاست کے ساتھ ایک فرض ادا کرنا دھوکہ دینا اور خدا کی مخالفت کرنا ہے اور یہ اس کے لیے مکروہ اور قابل نفرت ہے۔ خدا اس قسم کے ایمان کو تسلیم نہیں کرتا۔ خدا کے کلام کے انصاف کے ذریعے اور کئی بار نمٹے اور آزمائے جانے پر ہم آخر کار اپنی بدعنوانی کی سچائی دیکھ سکتے ہیں، سچ مچ اپنے آپ سے نفرت کرتے ہیں اور پشیمان ہوتے ہیں اور توبہ میں خدا کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ ہم خدا کی راستبازی کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور یہ کہ وہ ہمارے دلوں اور دماغوں کو دیکھتا ہے اور ہمیں پیچھے اور آگے سے جانتا ہے۔ ہم مکمل طور پر قائل ہیں اور خدا کے لیے تعظیم کو دلوں میں فروغ دیتے ہیں۔ ایمان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر بدل جاتا ہے، ہم اپنے فرائض کو زیادہ خالص طور پر دیکھتے ہیں، بہت سی فضول خواہشات کے بغیر، اور ہم خدا کے انتظامات کے تابع ہونے اور ایک مخلوق کے فرائض انجام دینے کے لیے خوش ہیں قطع نظر اس کے کہ خدا ہمیں برکت دیتا ہے یا نہیں، چاہے ہم بادشاہی کی برکتیں حاصل کریں یا نہ کریں۔ ایک بار جب ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہم واقعی کس چیز سے بنے ہیں تو، ہم پہلے کی طرح مغرور نہیں رہے ہیں۔ ہم قول و فعل میں معقول ہو جاتے ہیں، ہم حق کی تلاش میں رہتے اور اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ یہ خدا کا انصاف اور سزا ہے جو آہستہ آہستہ ہماری بدعنوانی کو پاک صاف اور تبدیل کرتا ہے۔ ہم میں سے جو لوگ خدا کے کام کا تجربہ کرتے رہے ہیں وہ واقعی جانتے ہیں اس کے آخری ایام کا انصاف کا کام کتنا عملی ہے، یہ کس طرح صحیح معنوں میں انسان کو صاف کرتا اور مکمل طور پر بچاتا ہے۔ اس انصاف اور کانٹ چھانٹ کے بغیر، ہم اپنی بدعنوانی کو کبھی بھی حقیقی طور پر نہیں دیکھ پائیں گے، لیکن اپنی زندگیوں میں لامتناہی گناہ کرنے اور اقرار کرنے میں پھنسے رہیں گے، یہ سوچ کر کہ ہم خدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمارے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں، کہ ہمیں خدا کی توثیق حاصل ہے۔ یہ واقعی احمقانہ اور قابل افسوس ہے! خدا کے انصاف کے ذریعے، ہم اپنے آپ کو حقیقی طور پر جاننے کے قابل ہیں، ہم بہت سی سچائیاں جان پاتے ہیں اور ہمارے بدعنوان مزاج صاف اور تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین حد تک آزاد کرنا ہے۔ خدا کا انصاف اور سزا ہمیں بہت کچھ دیتا ہے۔ وہ ہمارے لیے خدا کی حقیقی محبت، اس کی سب سے بڑی نجات ہیں۔ پورے 30 سال ہو چکے ہیں جب سے قادر مطلق خدا نے سچائی کا اظہار کرنا اور اپنے انصاف کا کام کرنا شروع کیا ہے، اور اس نے آفتوں سے پہلے ہی غالب آنے والوں کے ایک گروہ کو مکمل کر لیا ہے – پہلے پھل۔ یہ مکمل طور پر انجیل کی پیشین گوئی کو پورا کرتا ہے: ”یہ وہ ہیں جو برّہ کے پِیچھے پِیچھے چلتے ہیں۔ جہاں کہِیں وہ جاتا ہے۔ یہ خُدا اور برّہ کے لِئے پہلے پَھل ہونے کے واسطے آدمِیوں میں سے خرِید لِئے گئے ہیں(مُکاشفہ 14: 4)۔ خدا کے برگزیدہ لوگوں نے اس کے انصاف، سزا، آزمائشوں اور تزکیہ کا تجربہ کیا ہے۔ ان کے بدعنوان مزاجوں کو صاف کر دیا گیا ہے، اور وہ آخر کار شیطانی قوتوں سے آزاد ہیں۔ وہ خدا کی عظیم نجات حاصل کرتے ہوئے، خدا کے تابع ہونے اور اس کی عبادت کرنے آئے ہیں۔ ان کے تجربات اور گواہیوں کو فلموں اور ویڈیوز میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو تمام آن لائن ہیں، خدا کے آخری ایام کے انصاف کے کام کے لیے تمام انسانوں کے لیے گواہی دینا، ناظرین کے دلوں میں کوئی شک نہیں چھوڑتا۔ قادر مطلق خدا کی بادشاہی کی خوشخبری دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے، اور خدا کے برگزیدہ لوگ ہر جگہ قادر مطلق خدا کے کلام کو پھیلا رہے ہیں۔ بادشاہی کی بشارت کا شاندار، بے مثال پھیلاؤ ہم دیکھ رہے ہیں۔ واضح طور پر، خدا کے گھر کے ساتھ شروع ہونے والے انصاف کا کام پہلے سے ہی ایک بڑی کامیابی ہے۔ خدا نے شیطان کو شکست دی ہے اور تمام جلال حاصل کیا ہے۔ جیسا کہ قادر مطلق خدا فرماتا ہے، ”خدا عدالت اور سزا کا کام کرتا ہے، تاکہ انسان اس کے بارے میں علم حاصل کرے اور یہ سب اس کی گواہی کی خاطر کیا جاتا ہے۔ انسان کے بدعنوان مزاج کے بارے میں اس کی عدالت کے بغیر، انسان ممکنہ طور پر اس کا راست باز مزاج نہیں جان سکتا تھا، جو کوئی جرم برداشت نہیں کرتا، اور نہ ہی انسان خدا کے بارے میں اپنے پرانے علم کو ایک نئے علم میں تبدیل کر سکے گا۔ اپنی گواہی کی خاطر اور اپنے انتظام کی خاطر وہ اپنا مکمل پن عوام میں ظاہر کرتا ہے اور اس طرح اپنے عام ظہور کے ذریعے انسان کو خدا کے علم تک پہنچنے، اس کے مزاج میں تبدیلی لانے اور خدا کی زبردست گواہی دینے کے قابل بناتا ہے۔ انسان کے مزاج کی تبدیلی خدا کے کام کی کئی مختلف اقسام کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے؛ اس کے مزاج میں ایسی تبدیلیوں کے بغیر انسان خدا کی گواہی دینے اور خدا کے دل کی پیروی کرنے سے قاصر ہو گا۔ انسان کے مزاج کی تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ انسان نے اپنے آپ کو شیطان کی غلامی اور تاریکی کے اثر سے آزاد کر لیا ہے اور وہ واقعی خدا کے کام کی مثال اور نمونہ، اور خدا کا ایک ایسا گواہ بن گیا ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق ہے۔ آج مجسم خدا زمین پر اپنا کام کرنے آ چکا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ انسان اس کے بارے میں علم حاصل کرے، اس کی اطاعت کرے، اس کی گواہی دے، اس کے عملی اور معمول کے کام کو جانے، اس کے تمام کلام اور کام کی تعمیل کرے جو انسان کے تصورات سے مطابقت نہیں رکھتے، اور وہ انسان کو بچانے کے لیے جو کام کرتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام اعمال جو وہ انسان کو فتح کرنے کے لیے کرتا ہے، ان کی گواہی دے۔ جو لوگ خدا کی گواہی دیتے ہیں انہیں لازماً خدا کا علم ہونا چاہیے؛ صرف اس قسم کی گواہی ہی درست اور حقیقی ہے اور صرف اس طرح کی گواہی ہی شیطان کو شرمندہ کر سکتی ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کو جاننے والے ہی خدا کی گواہی دے سکتے ہیں)۔ ”یہ وہ لوگ ہیں جو آخری ایام میں خدا کی عدالت اور سزا کے کام میں ثابت قدم رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں – یعنی پاکیزگی کے آخری کام کے دوران – یہ وہی لوگ ہوں گے جو خدا کے ساتھ حتمی سکون میں داخل ہوں گے؛ اس طرح، وہ تمام لوگ جو سکون میں داخل ہوتے ہیں وہ شیطان کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو جائیں گے اور جنھیں خدا کی طرف سے پاکیزہ بنائے جانے کے آخری کام سے گزرنے کے بعد حاصل کیا جائے گا۔ یہ انسان، جنھیں آخر کار خدا کی طرف سے حاصل کیا جائے گا، آخری سکون میں داخل ہو جائیں گے۔ سزا اور عدالت کے خدا کے کام کا مقصد بنیادی طور پر نوع انسانی کو پاکیزہ بنانا ہے، حتمی سکون کی خاطر؛ اس طرح کی صفائی کے بغیر، نوع انسانی میں سے کسی کی بھی اپنی قسم کے مطابق مختلف زمروں میں درجہ بندی نہیں کی جا سکتی تھی یا سکون میں داخل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ کام سکون میں داخل ہونے کے لیے نوع انسانی کا واحد راستہ ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا اور انسان ایک ساتھ حالت سکون میں داخل ہوں گے)۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp