کیا مذہبی پیشواؤں کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے؟

April 25, 2023

2،000 سال قبل، خداوند یسوع نجات دہندہ نجات کے طورپرتشریف لآئے اور یہودی مذہب کے بڑے کاہنوں، فقیہوں اور فریسیوں کی جانب سے شدید مذمت کا نشانہ بنے۔ کیونکہ زیادہ تر یہودی اپنے مذہبی پیشواؤں سے اندھی عقیدت رکھتے تھے، وہ خداوند یسوع کی مذمت کرنے اور ان کا انکار کرنے میں مخالف مسیح لوگوں کے پیروکار ہو گئے اور آخرکار انہیں مصلوب کرنے میں شریک ہو گئے۔ یہ بہت بڑا گناہ تھا، اس وجہ سے خدا کی لعنت اور سزا ان پر آئی، 2،000 سال تک، بنی اسرائیل برباد رہے۔ آخری ایام میں خداوند یسوع سچ کا اظہار کرتے بنی نوع انسان کو بچانے اور عدالت کا کام کرنےمجسم قادرمطلق خدا بن کر واپس آئے، انہیں مذہبی پیشواؤں کی جنونی مذمت اور مزاحمت بھی درپیش ہے۔ وہ گرجہ گھروں کو بند کرکے ایمان والوں کی راہ میں کھڑے ہیں جو سچ کی راہ کو پرکھ رہے ہیں جس سے بہت سے لو گ سچ کو واضح طورپردیکھنے کے با وجود قبول نہ کر سکے کہ قادر مطلق خدا کا کلام سچا طاقتور مستند اور خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے نتیجے میں، بہت سے لوگ خداوند کوخوش آمدید کہنے کا موقع گنوا رہے ہیں اور تباہی میں پڑے ہیں۔ تو خداوند کو خوش آمدید کہنے میں، آخران سے کہاں غلطی ہوئی؟ ایسا اس لیے ہے کہ وہ اپنے مذہبی پیشواؤں کی چاپلوسی کرتے تھے! ان کا عقیدہ تھا کہ مذہبی پیشوا خدا کے نمائندے اور مقرر کردہ ہیں اوران کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اس لیے وہ مکمل طور پر ان کی پیروی کرتے ہیں ان کے الفاظ کو ایسےتسلیم کرتے ہیں جسے وہ خدا کے ہوں۔ بہت سے لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ یقیناً جب خداوند یسوع آئیں گے، تو پہلے پادریوں کو بتائیں گے، چونکہ انھوں نے اب تک ایسا نہیں کہا تو خداوند یسوع ابھی واپس نہیں آئے۔ حتیٰ کہ وہ قادر مطلق خدا کے کام کی تحقیق بھی نہیں کرتےہیں، بلکہ اس کی مذمت کرنے میں مذہبی پیشواؤں کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اس لیے وہ تباہیوں میں پڑ رہے ہیں، بے خود ہونےکا موقع کھو رہے ہیں۔ تویہ کس کی غلطی ہے؟ اس کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ وہ فریسی جنھوں نے بہت پہلے خدا وند یسوع کی مذمت کی ان پر خدا نے لعنت کی، اور موجودہ مذہبی دنیا کے بہت سے لوگوں نے ان سے وہ درد ناک سبق نہیں سیکھا۔ کیونکہ وہ اپنے پادریوں کی اندھا دھند پرستش کرتے ہیں، وہ خداوند یسوع کی واپسی پر مذمت اور ایک بار پھر انکی مصلوبیت کے لیے ان کے شانہ بہ شانہ ہیں۔ یہ واقعی شرم کی بات ہے! تو پھر کیا مذہبی پیشواؤں کو درحقیقت خدا نے ہی مقرر کیا ہے؟ اورمذہبی پیشواؤں کی اطاعت کرنا کیا خدا کی اطاعت ہے؟ اس اہم معاملے پر واضح موقف رکھنا ضروری ہے۔

بہت سے ایمان والوں کا خیال ہے کہ مذہبی پیشوا جیسے، بشپ، پوپ، پادری، اور بزرگوں کو خداوند یسوع ہی مقررکر تے ہےاور خداوند یسوع ہی انہیں استعمال کرتے ہے، اور انھیں ایمان والوں کی راہنمائی کا اختیار حاصل ہے، تو ان کی اطاعت کرنا خدا کی اطاعت ہے۔ اب آپ ذرا سوچیں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا خداوند یسوع نے کبھی یہ کہا کہ تمام دینی پیشوا درحقیقت خدا کی طرف سے ہی مقررہوتے ہیں؟ انہوں نے کبھی نہیں کہا۔ کیا ان کے پاس روح القدس کی گواہی یا روح القدس کے کام کا ثبوت ہے؟ بلکل نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ خیال مکمل طور پر انسانی تصور ہے۔ تو آئیں اس بارے میں سوچیں۔ اس انسانی خیال کے مطابق سبھی مذہبی پیشوا خدا کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں، اب آپ ہی بتائیں کیا یہ بات بڑے یہودی کاہنوں، مصنفین اور فریسیوں کے بارے میں بھی درست ہے جنہوں نے خداوند یسوع کی مخالفت اور مذمت کی؟ اورکیا خداوند یسوع کو مصلوب کرنے میں ان کی اطاعت کرنا وہ بھی خدا کی اطاعت کرنا تھا؟ یہ دینی پیشواؤں سے برتاؤ کا بیہودہ انداز ہے! ہم کلام مقدس سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہر دور میں خدا کے کام میں، وہ اپنے کام میں مدد کے لیے لوگوں کا تقرر کرتا ہے۔ لیکن ان سب لوگوں کو خدا بذات خود طلب کرتا ہے اوران کی گواہی بھی خود دیتا ہے اور خدا کا کلام یہ دکھاتا ہے۔ کہ ان کی تقرری کبھی کسی اور بشر کی جانب سے نہیں ہوتی اور ان کی تربیت انسان نہیں کرتے۔ قانون کے دور کے متعلق سوچیں جب خدا نے بنی اسرائیل کو بچانے کے لیے موسی کو استعمال کیا۔ یہوواہ خدا کے اپنے الفاظ اس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا، "دیکھ بنی اِسرائیل کی فریاد مُجھ تک پُہنچی ہے اور مَیں نے وہ ظُلم بھی جو مِصری اُن پر کرتے ہیں دیکھا ہے۔ سو اب آ مَیں تُجھے فرِعونؔ کے پاس بھیجتا ہُوں کہ تُو میری قَوم بنی اِسرائیل کو مِصرؔ سے نِکال لائے" (خرُوج 3: 9-10)۔ دورِ فضل میں، خداوند یسوع نے کلیسیا کے راہنما کے طور پطرس کو استعمال کیا اور اس کی گواہی دی۔ خداوند یسوع نے پطرس سے کہا "اَے شمعُوؔن، یُوحنّا کے بیٹے کیا تُو مُجھے عزِیز رکھتا ہے؟ ۔۔۔ تو میری بھیڑیں چرا" (یُوحنّا 21: 17)۔ "اور مَیں بھی تُجھ سے کہتا ہُوں کہ تُو پطرسؔ ہے اور مَیں اِس پتّھر پر اپنے کلِیسا بناؤں گا اور عالمِ ارواح کے دروازے اُس پر غالِب نہ آئیں گے۔ مَیں آسمان کی بادشاہی کی کُنجِیاں تُجھے دوں گا اور جو کُچھ تُو زمِین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کُچھ تُو زمِین پر کھولے گا وہ آسمان پر کُھلے گا" (متّی 16: 18-19)۔ خدا لوگوں کو بذات خود مقرر کرتا ہے اور ہر دور میں اپنے استعمال کیے جانے والے لوگوں کی گواہی دیتا ہے، اور روح القدس کا کام اس کی تصدیق کرتا ہے۔ دورِ قانون اور دورِ فضل میں، بعض اوقات خدا کے استعمال کردہ لوگوں کی بذات خود خدا نے تقرری کی اور ان کی گواہی دی۔ بعض اوقات اس نے دیگر طریقے استعمال کیے۔ اس کی جانب سے براہ راست تقرری کے بغیر، وہ اپنے انبیاء کے ذریعے اسے قائم کرے گا یا وہاں روح القدس کے کام کا ثبوت ہو گا۔ یہ ناقابل تردید ہے۔ آج کل کی دینی دنیا میں، پوپ، بشپ، پاسٹر پادری، اورکلیسیا کے د یگربزرگوں کو وہ عہدے کس نے دیے جو ان کے پاس ہیں؟ کیا خدا کے کلام کا ثبوت ہے؟ یا روح القدس کے کام کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا روح القدس نے ان کی گواہی دی ہے؟ ایسا بلکل نہیں درحقیقت، کلیسیاؤں کے یہ تمام تر دینی پیشوا زیادہ ترمذ ہبی مدارس سے ہی فارغ التحصیل ہوئے ہیں اوراکثردینیات کی ڈگریاں رکھتے ہیں۔ یہ ہی ان کی مہارت ہے ڈپلومے کے بعدانہیں کلیساؤں میں ایمان والوں کی رہنمائی کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ کچھ باصلاحیت اور خوش بیان ہیں اور اپنا کام بہتر طور پر سیکھتے ہیں اس لیے اعلیٰ قیادت ان کی سفارش کرتی ہے اور وہ بڑے عہدے پا لیتے ہیں۔ تقریباً پوری دنیا میں اہل کلیسیا اسی طرح اپنے عہدے پا تے ہیں، پر ان کی اکثریت روح القدس کے کام سے محروم ہے شاید ان کی معمولی شرح روح القدس کے کام رکھتے ہوں، لیکن ان کے پاس اس کی گواہی نہیں۔ تو ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسے لوگ نہیں جن کی گواہی خدا دے یا انہیں استعمال کرے۔ وہ واضح طور پر دیگر لوگوں کے پرورش یافتہ اور منتخب شدہ ہو تے ہیں، تو پھراۤخروہ یہ اصرار کیوں کرتے ہیں کہ انہیں خدا نے مقرر کیا ہے؟ کیا یہ حقائق کے خلاف جانا نہیں ہے؟ کیا یہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا اور اپنی گواہی خود دینا نہیں ہے؟ تو اس کے نتائج کیا ہیں؟ کیا یہ اہل ایمان کو دھوکا دینا اور انھیں نقصان پہنچانا نہیں ہے؟ حتیٰ کہ بعض مذہبی پیشوا خداوند یسوع کے پطرس کو منتخب کرنے کے متعلق یہ دعوٰی کر تے ہیں کہ خداوند یسوع نے جو اختیارپطرس کو دیا وہ اختیار پوپ کو منتقل ہوگیا، اس لیے پوپ خدا کی طرف سے خداوند یسوع کا نمائندہ ہے، اور چونکہ پادری پوپ کی پیروی کرتے ہیں، تو وہ بھی خدا کی طرف سے مختار ہیں لہٰذاوہ گناہوں کو معاف کر سکتے ہیں۔ کیا یہ بات مضحکہ خیز نہیں ہے اۤپ بتایئں؟ کیا خداوند یسوع نے پطرس سے کہا کہ وہ خود کو ملنے والا اختیار اہل کلیسیا کی اگلی نسلوں کو منتقل کریں؟ خداوند یسوع نے ایسا کبھی بھی نہیں کہا! کیا پطرس نےکبھی ایسی کوئی بات کی؟ بالکل نہیں! کلام مقدس میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت کوئی پوپ یا کوئی پادری نہیں تھا۔ تو وہ مذہبی پیشوا جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے مجاز ہیں اور خداوند یسوع کے نمائندہ ہیں، تو کیاوہ خدا ہونے کا ڈھونگ اور لوگوں کو گمراہ نہیں کر رہے؟ کیا ان کی اطاعت اور ان کے سا منے سر تسلیم خم کرنے والے بتوں کی پوجا نہیں کر رہے؟ کیا یہ خدا کے خلاف کام کرنا نہیں ہے؟ بہت سے لوگ یہ بات نہیں سمجھتے، اور یہ سوچتے ہوئے اپنے پیشواؤں کی اندھی پرستش کرتے رہتے ہیں کہ انہیں بذات خود خدانے مقرر کیا ہے۔ غور کیجئے یہ کتنا احمقانہ اور جاہلانہ ہے؟ یہ بےایمانوں لوگوں کی بتوں کی پوجا سے کیسے مختلف ہے؟ اگر آپ اس نیت سےدوسرے انسانوں کی پرستش کر تے ہیں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے لیے ان کے سامنے جھکتے ہیں، جیسے کے وہ خدا ہیں، تو کیا آپ خدا کی بے مذمت اور توہین نہیں کر رہے؟ کیا وہ جو احمقانہ طور پر ایسا کرتے ہیں خدا انہیں بچا سکتا ہے؟ غالباً نہیں۔ وہ جو حماقت میں ایسا کرتے ہیں خد کی تائید نہیں حاصل کر سکتے۔

یہ ہم پر واضح ہونا چاہیے کہ خدا کی طرف سے کسی کی تقرری اتفاقیہ یا خود ساختہ نہیں ہے اس کا کوئی ثبوت ہونا چاہیے۔ خدا کی جانب سے موسیٰ کو مقرر کرنے کا ثبوت تھا اور کم از کم بنی اسرائیل کو اس کا علم تھا۔ خداوند یسوع کی جا نب سے پطرس کا تقرر بھی حقیقی تھا جس کے متعلق رسول جانتے تھے۔ تو اس دعوی کے لیے کہ کسی کو خدا نے مقرر کیا ہے حقیقی بنیاد درکار ہے کوئی بشر اپنے اۤپ اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ خدا جس کا بھی تقرر کرے گا روح القدس کی رہنمائی اور تصدیق اسے ضرور حاصل ہو گی۔ ان کا کام خدا کی مرضی کو انجام دیناہوسکتا ہے اور اس کے نتائج بھی بہت واضح ہوں گے۔ وہ خدا کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ آئیں دیکھیں خدا کا کلا م اس بارے کیا کہتا ہیں "اس کے کام کے جوہر اور اس کے استعمال کے پس منظر کے لحاظ سے، خدا جس انسان کو اپنے کام کے لیے استعمال کرتا ہے اس کی پرورش وہ خود کرتا ہے، خدا اسے اپنے کام کے لیے تیار کرتا ہے اور وہ خود خدا کے کام میں تعاون کرتا ہے۔ کوئی بھی شخص کبھی بھی اس کی جگہ اپنا کام نہیں کر سکتا – یہ انسانی تعاون ہے جو مقدس کام کے ساتھ ساتھ ناگزیر ہے۔ دریں اثنا، دوسرے کارکنوں یا پیغام پہنچانے والوں کے ذریعہ انجام دیا گیا کام، ہر دور کے اندر کلیسیا کے لیے انتظامات کے بہت سے پہلوؤں کے ابلاغ اور نفاذ کے سوا کچھ نہیں یا پھر کلیسیائی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زندگی کی کچھ آسان فراہمی کا کام ہے۔ یہ کارکن اور رسول خدا کی طرف سے مقرر نہیں کیے گئے ہیں، زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ روح القدس نے انھیں استعمال کیا ہے۔ ان کا انتخاب کلیسیا میں سے کیا جاتا ہے اور ایک مدت تک تربیت اور پرورش کرنے کے بعد، جو موزوں ہوتے ہیں ان کو رکھا جاتا ہے، جب کہ جو نااہل ہوتے ہیں انھیں واپس اس جگہ بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ آئے تھے۔ چونکہ یہ لوگ کلیسیا میں سے منتخب ہوتے ہیں، کچھ راہنما بننے کے بعد اپنا اصلی رنگ دکھاتے ہیں اور کچھ بہت سے برے کام بھی کرتے ہیں اور نکال دیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ انسان جسے خدا استعمال کرتا ہے ایسا شخص ہے جسے خدا نے تیار کیا ہے اور جس کے پاس ایک خاص صلاحیت ہے نیز اس کے پاس انسانیت ہے۔ وہ روح القدس کے ذریعہ پہلے سے تیار کیا گیا اور کامل بنایا گیا ہے اور مکمل طور پر روح القدس کے زیر قیادت ہے، خاص طور پر جب بات اس کے کام کی آتی ہے تو وہ روح القدس کی طرف سے ہدایت اور حکم پاتا ہے – اس کے نتیجے میں خدا کے برگزیدہ لوگوں کی راہنمائی کے راستے میں کوئی انحراف نہیں ہوتا کیونکہ خدا یقیناً اپنے کام کی ذمہ داری خود لیتا ہے اور خدا ہر وقت اپنا کام کرتا ہے" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے انسان کو استعمال کرنے سے متعلق)۔

قادر مطلق خدا کا کلام ہمیں دکھاتا ہے کہ خدا ان لوگوں کو بہت پہلے تیار کرتا ہے جنھیں وہ مقرر اور اپنے کام کے لیے استعمال کرتا ہے، اورخدا منتخب کردہ لوگوں کی رہنمائی کے لیے انہی کی پرورش کرتا ہے۔ ان کا کام اور خطبات مکمل طور پر روح القدس کی فراہمی اور رہنمائی کے ذریعے ہوتے ہیں، اور جو بھی شخص ذاتی طور پر خدا کی طرف سے مقرر نہیں کیا گیا وہ کبھی بھی ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔ توقانون کے زمانے میں موسیٰ اور فضل کے زمانے میں پطرس خدا کے کلام اور اس کے منتخب لوگوں کے رہنمائی کے مطالبے پر کاربند رہے، اور خدا ہمیشہ ان کے ساتھ رہا اور ان کی ہر موڑ پر رہنمائی کی۔ خدا کسی غلط فرد کوکبھی استعمال نہیں کرتا جو اس کے خلاف کام کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے کام کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ خدا کےاستعمال کردہ لوگ، اپنے کام اور کلام میں ہمیشہ روح القدس سے منور رہتے ہیں اور خدا کے کلام کے اصلی فہم کا اشتراک کر سکتے ہیں خدا کے منتخب کردہ لوگوں کی مدد کے لیے تاکہ وہ اس کے اقوال، مرضی اور تقاضوں کو سمجھ سکیں۔ وہ خدا کے کلام کی حقیقت سمجھنے اور اپنے عقیدے میں درست راستہ اپنانے کے لیےعملی جدوجہد میں ان لوگوں کی مدد کے لیے ہمیشہ سچائی کا استعمال کرتے ہیں۔ جب خدا کے منتخب لوگ خدا کے استعمال کیے جانے والے لوگوں کی گلہ بانی قبول کرتے ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے بہتر رزق حاصل کر تے ہیں، سچائی کی بہتر سمجھ پاتے ہیں، اس لیے خدا کے کام مزاج، اورخدا کی فطرت کو بہتر جان لیتے ہیں، اور خدا پر اپنے ایمان اور محبت کو بڑھا لیتے ہیں۔ اوراس لیے انہیں خدا کے منتخب لوگوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے جو اپنے دلوں میں جانتے ہیں کہ وہ لوگ خدا کے مقرر کردہ ہیں اور خدا کی قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم انہیں قبول اور ان کی قیادت کو ٓتسلیم کر لیتے ہیں، تو یہی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے اور خدا کی رضا کے مطابق ہے۔ خدا چنے ہوئے لوگوں کو منتخب لوگوں کی قیادت کے لیے مقرر کرتا ہے تا کہ خدا کے کام کو سمجھیں اور اطاعت کریں، اور ان کے کام اور خطبات مکمل طور پر روح القدس کی قیادت اور نور سے مزین ہوتے ہیں۔ ان کی قیادت کو قبول اور تسلیم کرنا دراصل خدا کی اطاعت کرنا ہے۔ ان کے خلاف مزاحمت خدا کے خلاف مزاحمت ہے، اس لیے خدا انہیں بے نقاب اور ختم کرے گا، یا لعنت کرے گا اور سزا بھی دے گا۔ جیسے موسیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر سےنکالا، قورح اور داتان کا ٹولا جو ان کے خلاف لڑا تھا خدا نے انہیں اس کی سزا دی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے۔

آئیے اۤج کے کیتھولک مذہبی رہنماؤں، پر نظر ڈالتے ہیں جیسےپوپ، بشپ، پادری، بزرگ مسیحیت کے پاسٹرز، بڑے اور دیگر مذہبی افراد۔ کیا خدا نے انہیں مقرر کیا تھا؟ کیا خدا نے ان کی حمایت کی تھی؟ کیا وہ روح القدس کے کام کا ثبوت رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپنے کام کے ثمرات کا ثبوت رکھتے ہیں؟ ان کے پاس ایسا کچھ نہیں۔ تو یہ ثابت کرتا ہے کہ انہیں انسانوں نے مقررکیا نہ کے خدا نے۔ چونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ان کی تربیت دینی مدارس میں ہوئی تھی اور دینی اداروں نے ان کا تقرر کیا تھا، تو ہم جا نتے ہیں ہمیں محتاط رہنا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سچائی پر یقین یا خدا پر حقیقی ایمان نہیں رکھتےہیں۔ وہ دینیات، اپنےعہدوں القابات اور ان سے حاصل کردہ کمائی پر یقین رکھتے ہیں۔ چا ہے ان کا با ئبل کا علم کتنا بلند ہوں یا ان کے خطبات کتنے اچھے ہو ں وہ روح القدس کے کام اور رہنمائی، یا اس کے نور سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ ہم پر ثابت کرتا ہے کہ وہ جھوٹے پیشوا ہیں اور ایمان سے عاری ہیں اور خدا ان کو تسلیم نہیں کرتا۔ تو کیا ان کی پرستش اور پیروی نہایت احمقانہ نہیں ہے؟ سب سے بڑھ کر، وہ خدا کے کلام اور روح القدس کے ثبوت سے محروم ہیں، ایک ایسا ثبوت جو ان کی حقیقت عیاں کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ قادر مطلق خدا نے بہت سی سچائیاں بیان کی ہیں، جو لوگوں کی حقیقت ہم پر عیاں کرنے میں بہت ہی مدد گار ہیں کہ وہ سچائی سے محبت رکھتے ہیں یا نہیں، کہ وہ سچائی کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، کہ وہ سچ کو قبول کرتے ہیں یا نہیں، اور کیا وہ سچائی سے نفرت کرتے اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ یہ سب عیاں کیا جاچکا ہے۔ جو قادر مطلق خدا کے کلام کو سچ مانتے ہیں، یہ کہ وہ انسانی جسم میں خدا ہے، یہی لوگ سچائی سے محبت کرتے ہیں اوریہ ہی خدا کی منظوری پاتے ہیں۔ یہی وہ پاک لوگ ہیں جو خدا کی بات سنتے ہیں اور اس کے تخت کے سامنے بے خود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی دیکھتا ہےکہ قادر مطلق خدا نے بہت سی سچائیاں بیان کی ہیں لیکن خدا کے کام کی مذمت اور اس سے انکار کرتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حق کی تحقیرکر رہا ہے، اور وہ مسیح مخالف ہیں اور خدا کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ پہلے ہی تباہیوں میں پڑ چکے ہیں اور لازم ہے کہ خدا ان کو سزا دے۔ ان میں صرف کیتھولک اور مسیحی پیشواہی نہیں، بلکہ تمام فرقوں کے پیشوا اور شخصیات ہیں جو بغیر استثنیٰ کے قادر مطلق خدا کے خلاف ہیں۔ مذہبی دنیا اس مسیح مخالف ٹولے کے چنگل میں پھنسی ہے۔ یہ جانی مانی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ تو اگر ہم جانتے ہیں کہ یہ بشپ، مبلغ، پاسٹر، اور بزرگ قادر مطلق خدا کے کام کی مزاحمت اور مذمت کرنے والے مسیح مخالف ٹولے کا حصہ ہیں، تو ہمیں کیا کر نا چا ہیئے؟ ہمیں انہیں مسترد کر کے ان پے لعنت کرنی چاہیے، اور اپنے آپ کو ان کی گرفت سے آزاد کرنا چاہیے۔ یہ عقل مندی کا تقاضا ہے۔ اگر ہم سچے راستے کی تلاش میں ان کی طرف دیکھتے رہے، اور انہی سے صحیح غلط بتا نے کی توقع جا ری رکھی تو یہ نہ صرف زبردست حماقت ہے بلکہ اندھا پن اور جہالت ہے! اندھوں کا اندھوں کی رہنمائی کرنا تباہی لائے گا۔ یہ بائبل کی اس آیت کو پورا کرتا ہے: "احمق بے عقلی سے مَرتے ہیں" (امثال 10: 21)۔ "میرے لوگ عدمِ معرفت سے ہلاک ہُوئے" (ہوسِیعَ 4: 6)۔

تو یہ ہم پرواضح ہو چکا کہ کیتھولک اور مسیحی پیشوا دیگر تمام فرقوں کے پیشواؤں کے ہمراہ کھلے عام قادر مطلق خدا کی مذمت کر تے ہیں۔ اپنا مرتبہ اور مشاہرہ برقرار رکھنے کے لیے وہ ایمان والوں کو مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہیں، ان سے رقوم لے رہے ہیں، طفیلیوں (پیراسائٹس) کی طرح ایمان والوں کو کھا رہے ہیں، جیسے شیطان ان کی لاشوں پر دعوت اڑا رہے ہوں۔ یہ مسیح مخالف اپنے عہدوں اور روزگار کے لیے طرح طرح کی غلط بیانیاں کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خداوند کے آنے کی ہر خبر جھوٹی ہے، کہ خداوند یسوع کو بادل پر ہی واپس آنا ہے، کہ خدا کی دوسری تجسیم کو قبول کرنا جعلی مسیح کو قبول کرنا ہے۔ وہ جھوٹ سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، وہ ایمان والوں کو سچائی کی تحقیق کرنے سے روکتے ہیں۔ وہ بادشاہی کی بشارت کا اشتراک کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے کے لیے CCP کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ تو یہ دینی پیشوا ان فریسیوں سے کیسے مختلف ہیں جنہوں نے خداوند یسوع کی ان کے دور میں مخالفت کی؟ کیا یہ سب خدا کو مصلوب کرنے والے لوگ نہیں ہیں؟ کیا یہ سب جھوٹے گلہ بان اور مسیح مخالف نہیں ہیں جو لوگوں کو بھٹکارہے ہیں؟ سوچئے خداوند یسوع نے فریسیوں کےمخالفت میں کیا الفاظ کہے: "اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیِو تُم پر افسوس! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو تم داخِل ہوتے ہو اور نہ داخِل ہونے والوں کو داخِل ہونے دیتے ہو" (متّی 23: 13)۔ "اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تُم پر افسوس! کہ ایک مُرِید کرنے کے لیے تَری اور خُشکی کا دَورہ کرتے ہو اور جب وہ مُرِید ہو چُکتا ہے تو اُسے اپنے سے دُونا جہنّم کا فرزند بنا دیتے ہو" (متّی 23: 15)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے دور کےاکثر دینی پیشوا فریسیوں سے کچھ مختلف نہیں جنہوں نے خداوند یسوع کی دیوانہ وار مزاحمت کی اورایما نداروں کی راہ میں حائل ہوئے۔ وہ سب خدا سے نفرت اور اس کے خلاف کام کرتے ہیں، اور وہ آخری ایام کے مسیح مخالف شیطان ہیں۔

قادر مطلق خدا کا کچھ اور کلام دیکھیں۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، "ہر فرقے کے راہنماؤں کو دیکھو – وہ سب متکبر اور پارسا بنے ہوئے ہیں اور بائبل کی جو تشریحات وہ کرتے ہیں ان میں سیاق و سباق کی کمی ہے اور وہ ان کے خیالات و توہمات کی مرہون منت ہیں۔ وہ اپنے کام کرنے کے لیے تحفوں اور علمیت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر وہ بالکل بھی منادی نہ کر سکتے تو کیا لوگ ان کی پیروی کرتے؟ ان کے پاس بہرحال کچھ علم ہوتا ہے اور کسی نظریہ پر وہ منادی کر سکتے ہیں یا وہ یہ جانتے ہیں کہ کہ دوسروں کو کس طرح فتح کرنا ہے اور کچھ مکاری کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ وہ ان کا استعمال لوگوں کو دھوکہ دینے اور انھیں اپنے سامنے لانے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا پرنام نہاد یقین رکھتے ہیں لیکن در حقیقت، وہ اپنے راہنما کی پیروی کرتے ہیں۔ جب ان کا سامنا درست راہ کی منادی کرنے والے کسی شخص سے ہوتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں، 'ہمیں اپنے عقیدے کے حوالے سے اپنے راہنما سے بات کرنی ہوگی۔' دیکھیں کہ جب لوگ خدا کو مانتے ہیں اور سچے راستے کو قبول کرتے ہیں تب بھی دوسروں کی رضامندی اور منظوری کی ضرورت کیسے ہوتی ہے – کیا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ پھر وہ راہنما کیا ہو گئے؟ کیا وہ فریسی، جھوٹے چرواہے، مسیح دشمن اور سچائی کی راہ کو قبول کرنے کے حوالے سے لوگوں کی آمادگی کی رکاوٹ نہیں بن گئے؟" (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ تیسرا حصہ)۔

"ایسے بھی ہیں جو پُر شکوہ کلیساؤں میں کتابِ مقدس پڑھتے ہیں اور سارا دن اسے دہراتے ہیں، اس کے باوجود ان میں سے کوئی ایک بھی خدا کے کام کا مقصد نہیں سمجھتا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی خدا کو جاننے کے قابل نہیں ہے، ان میں سے بھی کوئی کم ہی خدا کی منشا کے مطابق ہوسکتا ہے۔ وہ سب کے سب بے وقعت حقیر لوگ ہیں، ہر ایک خدا کو سبق دینے کے لیے بلندی پر ایستادہ ہے۔ وہ دانستہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں، حالاں کہ وہ اس کا پرچم اٹھا ئے ہوتے ہیں۔ خدا پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے باوجود وہ انسان کا گوشت کھاتے اور خون پیتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ ایسی بری روحیں ہیں جوانسان کی روح ہڑپ کرتی ہیں، سرغنہ بدروحیں راہ راست پر آنے کی کوشش کرنے والوں کی راہ میں دانستہ رکاوٹ بنتی ہیں اور خدا کی جستجو کرنے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں۔ وہ 'سالم ساخت' کے حامل نظر آسکتے ہیں، مگر ان کے پیروکاروں کو کیسے معلوم ہو کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ مسیح مخالف ہیں جو لوگوں کو ہانک کرخدا کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں؟ ان کے پیروکاروں کو کیسے معلوم ہو کہ وہ زندہ شیطان ہیں جنہوں نے انسانی روحوں کو ہڑپ کرنے کا عہد کررکھا ہے؟" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ وہ سب لوگ، جو خدا کو نہیں جانتے، وہ لوگ ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں)۔

"سب سے سرکش وہ ہیں جو دانستہ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ خدا کے دشمن، انتشار پسند ہیں۔ خدا کے نئے کام کے لیے ان کا رویہ ہمیشہ جارحانہ ہوتاہے؛ وہ اطاعت کی طرف ہلکا سا میلان بھی نہیں رکھتے، نہ ہی انھوں نے کبھی خوشی سے اپنا سرتسلیم خم کیا یا عاجزی اختیار کی۔ وہ خود کو دوسروں کے سامنے بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں اور کبھی کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے۔ خدا کے حضور، وہ اپنے تئیں کلام کی تبلیغ میں سب سے بہتر اور دوسروں پر عمل میں خود کو سب سے زیادہ ماہر گردانتے ہیں۔ وہ اپنے قبضے میں موجود 'خزانے' کبھی ترک نہیں کرتے، بلکہ انھیں دعا، دوسروں کے بارے میں پرچار کے لیے خاندانی وراثت سمجھتے ہیں، اور وہ انھیں ان احمقوں کو خطبہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دیوتا مانتے ہیں۔ بے شک کلیسیا میں اس طرح کے لوگوں کی ایک خاص تعداد ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ 'ناقابل تسخیر ہیرو' ہیں، نسل در نسل خدا کے گھر میں مقیم ہیں۔ وہ کلام (عقیدہ) کی تبلیغ اپنا اعلیٰ ترین فریضہ سمجھتے ہیں۔ سال بہ سال، نسل در نسل، وہ اپنے 'مقدس اور ناقابلِ توہین' فرض کو زوروں سے نافذ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی انھیں چھُونے کی جرات نہیں کرتا۔ کسی ایک میں بھی کھل کر ملامت کرنے کی جسارت نہیں ہوتی۔ وہ خدا کے گھر میں 'بادشاہ' بن جاتے ہیں، جو دوسرے لوگوں پر نسل درنسل ظلم کے پہاڑ توڑتے آئےہیں۔ شیطانوں کا یہ ٹولہ گٹھ جوڑ کرکے میرا کام برباد کرنا چاہتا ہے۔ میں ان جیتے جاگتے شیطانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیسے رہنےدوں؟" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ جو خدا کی سچے دل سے اطاعت کرتے ہیں، خدا یقیناً انھیں اپنا بنالے گا)۔

مجھے یقین ہے کہ ہم سب اس حوالے سے اب واضح ہیں کہ زیادہ تر مذہبی پیشوا مسیح مخالف ہیں، جو سچائی سے نفرت کرتے ہیں، برائی کے فرمانبردار اور جعلی گلہ بان ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کی بات سننا اور ان کےسامنے سر جھکانا خدا کے سامنےسر جھکانا نہیں، اور یہ خدا کی اطاعت نہیں۔ یہ شیطان کی پیروی اور خدا کی مخالفت ہے، یہ شیطان کا شریک جرم بننا ہے، ایسے فرد سے خدا نفرت کرتا اور لعنت کرتا ہے۔ تو ہمیں ایمانداروں کے طور پر، اس سے آگاہ رہنا چاہیے کہ ہمیں خدا کی عظمت بیان کرنی ہے، اس سے ڈرنا، اور صرف اس کے اور سچ کے سامنےجھکنا ہے۔ ہمیں بشر کی عبادت اور پیروی نہیں کر نی۔ جیسا کہ خداوند یسوع نے کہا "تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر" (متّی 4: 10)۔ اگر کوئی ایسا مذہبی پیشوا ہے جو سچائی سے محبت کرتا ہے، اگر ان کے الفاظ خداوند کے مطابق ہوں اور وہ ہمیں خدا سے ڈرنے اور برائی سے بچنے کی ترغیب دیں، ان کی باتوں اطاعت اور پیروی جوسچ سے مطابقت رکھتی ہیں خدا کی اطاعت ہے۔ اور اگر ان کے الفاظ سچائی کے مطابق نہیں، اور وہ خدا کے کلام کے خلاف ہیں تو ہمیں انہیں مسترد کرنا ہو گا۔ اگر ہم ان کی پیروی جاری رکھتے ہیں، تو یہ ایک فرد کی، شیطان کی پیروی ہوگی۔ اگر کوئی مذہبی پیشوا سچائی کو مسترد کرتا اور دوسروں کو درست تحقیق کرنے سے روکتا ہے، تو وہ مسیح مخالف ہے اور ہمیں خدا کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ان کو بے نقاب اور رد کرنا چاہیے، اور "نہیں" کہنے کی ہمت کرنی ہیں، خودکو ان کے قبضے سے چھڑانا چاہیے، سچائی کو تلاش اور قبول کرکے خدا کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ یہی سچا ایمان، خدا کی اطاعت اور اس کی مرضی کے مطابق ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پطرس نے کہا جب اسے سردار پادریوں اور فریسیوں نے پکڑ لیا: "ہمیں آدمِیوں کے بجائے خُدا کا حُکم ماننا چاہیے" (َعمال 5: 29)۔

آئیے قادر مطلق خدا کی ایک اور عبارت پڑھیں۔ "خدا کے اتباع کی ایک بنیادی اہمیت یہ ہے کہ ہر چیز آج خُدا کے کلام کے مطابق ہونی چاہیے۔ خواہ تُو زندگی میں وارد ہونے کی جستجو میں ہو یا خدا کی رضا کی تکمیل کر رہا ہو آج سب کا محور خُدا کا کلام ہونا چاہیے۔ اگر تُو جو راز و نیاز اور جستجو کرتا ہے، آج ان کا محور خُدا کا کلام نہیں ہے، تو تُو خُدا کے کلام سے بیگانہ ہے، اور روح القدس کے عمل سے مکمل طور پر محروم۔ خدا بس ایسے انسانوں کا خواست گار ہے جو اس کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوں۔ تُو پہلے خواہ کتنی ہی عمدگی اور خلوص سے فہم رکھتا ہو، یہ خُدا کی منشا نہیں ہے، اور اگر ایسی چیزوں سے دست بردار نہیں ہو سکتا، تو وہ تیرے مستقبل میں قدم رکھنے میں زبردست رکاوٹ بنیں گی۔ وہ سب لوگ جو روح القدس کے نورِ حاضر کی پیروی کے اہل ہیں، وہ خوش بخت ہیں۔ سابقہ ادوار کے لوگوں نے بھی خُدا کے نقش قدم کی پیروی کی تھی، اس کے باوجود وہ اس کی آج تک پیروی نہیں کرسکے، یہ آخری دور کے لوگوں کی خوش بختی ہے۔ جو لوگ روح القدس کے موجودہ کام کی پیروی کرسکتے ہیں، اور جو خُدا کے نقش قدم کی اس طرح پیروی کے قابل ہیں، کہ خُدا جس طرف ان کی رہنمائی کرے، وہ اس کی پیروی کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خُدا کا فضل ہوتا ہے۔ جو لوگ روح القدس کے موجودہ کام کی پیروی نہیں کرتے، وہ خُدا کے کلام کی کار گزاری میں داخل نہیں ہوئے ہیں، اور وہ چاہے کتنا بھی کام کریں، یا وہ کتنے بھی سخت مصائب سہیں، یا وہ چاہے جتنی بھی بھاگ دوڑ کریں، اس میں سے کچھ بھی خُدا کے لیے معنی نہیں رکھتا، اور وہ ان کی توصیف نہیں کرے گا۔ ۔۔۔ 'روح القدس کے عمل کی پیروی' کا مطلب آج خدا کی مشیّت کو سمجھنا، خدا کی موجودہ ضروریات کے تناظر میں اقدام کرنا، آج کے خدا کی اتباع اور پیروی کرنے کے قابل ہونا اور خُدا کے تازہ ترین فرمودات کے مطابق وارد ہونا ہے۔ صرف یہی وہ شخص ہے جو روح القدس کے عمل کی پیروی کرتا ہے اور روح القدس کے دھارے میں ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف خدا کی توصیف حاصل کرنے اور خدا کے دیدار کے قابل ہیں، بلکہ خدا کے تازہ ترین اعمال کی بدولت خدا کا مزاج بھی جان سکتے ہیں اوراس کے تازہ ترین کام سے انسانی تصورات اور نافرمانی، اور انسان کی فطرت اور جوہر کو جان سکتے ہیں؛ مزید برآں، وہ اپنی خدمت کے دوران اپنے مزاج میں بتدریج تبدیلی کے حصول کے قابل ہو سکتے ہیں۔ صرف یہی لوگ ایسے ہیں جو خدا کو پانے میں کامیاب ہیں، اور جو واقعی سچا طریقہ پا چکے ہیں" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے تازہ ترین کام کو جانیں اور اس کے نقشِ قدم کی پیروی کریں)۔

اب مجھے یقین ہے کہ ہم اس حوالے سے زیادہ واضح ہیں کہ خدا پر ایمان رکھنا اوراس کی پیروی کرنا سچائی کو قبول کرنے، اور خدا کے موجودہ کام اور کلام کو قبول کرنے کے متعلق ہے۔ چاہے خدا کا کام لو گوں کےتصورات سے کتنا دور ہے یا کتنے لوگ اس کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں، جب تک یہی سچ ہے اور خدا کا کام ہے، ہمیں اسے قبول اور تسلیم کرنا ہے۔ صرف یہی خدا پر ایمان رکھنا اور اس کی اطاعت ہے۔ جیسا کہ مکاشفہ میں بتایا گیا: "یہ وہ ہیں جو برّے کے پِیچھے پِیچھے چلتے ہیں۔ جہاں کہِیں وہ جاتا ہے" (مُکاشفہ 14: 4)۔ آخری ایام میں، قادر مطلق خدا یہاں موجود ہے اور بہت سی سچائیاں ظاہرکررہا ہے۔ وہ خدا کے گھر سے شروع کرکے بنی نوع انسان کو پاک کرنے اور بچانے کے لیے عدالت کا کام کرتا ہے اور ہمیں شیطانی قوتوں سے بچاتا ہے۔ یہ ناقابل فراموش موقع اور بچنے اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کا واحد طریقہ ہے۔ اب پوری دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگ جو خدا کے ظہور کے خواہشمند ہیں وہ قادر مطلق خدا کے کام کو آن لائن دیکھ رہے ہیں۔ وہ دیکھ چکے ہیں کہ اس کے تمام الفاظ سچ ہیں، یہ کہ وہ خدا کی آواز ہیں۔ وہ خود کو دینی پیشواؤں کے چنگل سے آزاد کر رہے ہیں، کلیسیا کے قابو سےنکل کر برّہ کی شادی کی دعوت میں شرکت کے لیے خدا کے حضور پیش ہیں۔ لیکن دینی دنیا میں اب بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اندھی تقلید اوراپنے دینی پیشواؤں کی پرستش کرتے ہیں، جنہیں مسیح مخالف قوت نے مجبور اور اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ وہ اس بنجر زمین میں سختی سے دھنسے ہوئے ہیں، خداوند کے بادل پر آنے کے بلا جواز مَنتظِر ہیں بہت پہلے خدا کی طرف سے مسترد ہوکر، وہ چلاتے اور تباہی میں اپنے دانت پیستے ہیں۔ یہ خداوند یسوع کی پیش گوئی پوری ہونا ہے کہ "اور اگر اندھے کو اندھا راہ بتائے گا تو دونوں گڑھے میں گِریں گے" (متّی 15: 14)۔ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر درحقیقت خدا کے خلاف جاکر لوگوں کی پیروی کرتے ہیں۔ خدا انہیں ایمان سے عاری سمجھتا ہے۔ خدا مقدس خدا ہے جسے برائی سے نفرت ہے اور اس کی راست بازی ناقابل مخالفت ہے۔ وہ انہیں کبھی نہیں بچائے گا جو انسانوں کی چاپلوسی میں، خدا کی توہین اور مسیح مخالفین کی پیروی کرتے ہیں۔ خدا کبھی ایسوں کو نہیں بچائے گا جو سچائی سے پیاراور اسے قبول نہیں کرتے، بلکہ بائبل کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ خدا کی مرضی یہ ہے کہ لوگوں کو اس فریبی مذہبی چنگل سے آزاد کیا جائے، اس لیے ہم مسیح مخالف مذہبی قوتوں کی قیود کے مزید پابند نہیں اور ہم سچائی اور خدا کے کام کی تلاش کے لیے مذہب سے باہر نکل سکتے ہیں تا کہ خدا کے ظہور اور اس کے کام کے خیرمقدم کی ہماری امید برقرار رہے۔

آئیں قادر مطلق خدا کا مزید کلام دیکھیں۔ "جس چیز کو تو سراہتا ہے ہو وہ مسیح کی عاجزی نہیں بلکہ نمایاں حیثیت کے جعلی چرواہے ہیں۔ تو مسیح کے حسن یا حکمت کو قبول نہیں کرتا بلکہ ان اوباشوں کو قبول کرتا ہے جو دنیا کی گندگی میں ڈوب جاتے ہیں۔ تو مسیح کے درد پر ہنستا ہے جس کے پاس اپنا سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں ہے لیکن تو ان لاشوں کی تعریف کرتا ہے جو چڑھاوے اینٹھتی ہیں اور عیاشی کی زندگی گزارتی ہیں۔ تو مسیح کے شانہ بشانہ دکھ اٹھانے کو تیار نہیں لیکن تو خوشی سے اپنے آپ کو ان لاپروا مسیح مخالفین کی بانہوں میں پھینک دیتا ہے، حالانکہ وہ صرف تجھے گوشت، الفاظ اور اختیار مہیا کرتے ہیں۔ اب بھی تیرا دل ان کی طرف، ان کی شہرت کی طرف، ان کی حیثیت کی طرف، ان کے اثر و رسوخ کی طرف مڑتا ہے اور پھر بھی تو ایک ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس سے تجھے مسیح کے کام پر یقین مشکل لگتا ہے اور تو اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ تجھ میں مسیح کو تسلیم کرنے کے ایمان کی کمی ہے۔ آج تک تو نے اس کی پیروی کی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تیرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ بلند بانگ تصاویر کا ایک سلسلہ ہمیشہ کے لیے تیرے دل پر چھایا ہوا ہے؛ تو ان کے کسی قول و فعل کو فراموش نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کے الفاظ اور ہاتھ کو۔ وہ تیرے دل میں ہمیشہ کے لیے سب سے زیادہ اور ہمیشہ کے لیے سورما ہیں لیکن آج کے مسیحِ کے لیےایسا نہیں ہے۔ وہ تیرے دل میں ہمیشہ کے لیے غیر اہم ہے اور ہمیشہ کے لیے قابلِ احترام نہیں ہے۔ کیونکہ وہ بہت عام ہے، اس کا اثر بہت کم ہے اور وہ بلند بانگ دعووں سے بہت دور ہے۔

"بہرحال میں کہتا ہوں کہ جو لوگ حق کی قدر نہیں کرتے وہ سب کافر ہیں اور حق کے غدار ہیں۔ ایسے لوگوں کو مسیح کی خوشنودی کبھی نہیں ملے گی۔ کیا اب تو نے یہ شناخت کر لی ہے کہ تیرے اندر کتنا کفر ہے اور مسیح کے ساتھ کتنی خیانت ہے؟ میں تجھ کو اس طرح نصیحت کرتا ہوں کہ چونکہ تو نے سچ کا راستہ اختیار کیا ہے تو پھر تو اپنے آپ کو دل سے وقف کر دے تذبذب یا نیم دلی نہ دکھا۔ تجھ کو سمجھنا چاہیے کہ خدا دنیا سے نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک شخص کا ہے بلکہ ان سب کا ہے جو اس پر صحیح معنوں میں ایمان لائے ہیں، وہ سب جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور وہ سب جو اس کے عقیدت مند اور وفادار ہیں" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ کیا توخدا پر سچا ایمان رکھتا ہے؟)۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

کیا نظریہ تثلیث قابل دفاع ہے؟

جب سے مجسم خداوند یسوع نے زمانہ فضل کا کام کیا، 2،000 سال تک، تمام مسیحیت نے ایک حقیقی خدا کو "تثلیث" کے طور پر بیان کیا۔ انجیل میں چونکہ...

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp