بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے خدا کو کام کے تین مراحل کی ضرورت کیوں ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ 2000 سال پہلے، خداوند یسوع ظاہر ہوا اور بنی نوع انسان کو نجات دلانے کے لیے یہودا میں کام کیا، اور تبلیغ کی ”تَوبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدِیک آ گئی ہے“ (متّی 4: 17)۔ اس نے بہت سی سچائیوں کا اظہار کیا اور بہت سی نشانیوں اور عجائبات کا انکشاف کیا، یہودا کی قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہودیت کے اعلی قائدین نے دیکھا کہ خداوند یسوع کا کام اور الفاظ کتنے مستند اور طاقتور تھے، اور یہ کہ وہ مسلسل پیروکار حاصل کر رہا تھا۔ ان قائدین کو ایسا لگا جیسے یسوع کے کام سے ان کے مقام و مرتبہ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، اس لیے انھوں نے اس کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بہانے تلاش کرنے کی کوششیں شروع کر دیں، افواہیں اور جھوٹ گھڑنا، یسوع کی مذمت کرنا اور لوگوں کو اس کی پیروی سے روکنا شروع کردیا۔ یسوع چونکہ روح کی شکل میں نہ تھا بلکہ ابن آدم تھا اس بات نے ان کو مزید گستاخ اور بے باک کر دیا۔ اُس کا کام اور الفاظ جو قانون سے ماوراء تھے ان کا بہانہ بن گئے کہ وہ دیوانوں کی طرح اس کی مذمت کریں اور اس کا پیچھا کریں اور اُسے میخوں سے مصلوب کردیں۔ یہ کام خدا کی پھٹکار اور سزا کا موجب بنا، قوم اسرائیل 2000 برس تک کے لیے تباہی سے دوچار ہوگئی۔ اب یسوع آخری ایام میں خداوند کے اوتار کے طور پر واپس آیا ہے، سچائیوں کا اظہار کرتے ہوئے، بنی نوع انسان کو مکمل طور پر پاک کرنے اور بچانے کے لیے، وہ خداوند کے گھر سے شروع ہونے والے فیصلوں کے کام انجام دے رہا ہے۔ ہر طبقے کے وہ لوگ جو خداوند کے ظہور کی خواہش رکھتے ہیں نے خداوند قادر مطلق کے کلام کو پڑھا ہے، خدا کی آواز کو پہچانا ہے اور قادر مطلق خدا کی جانب رجوع کیا ہے لیکن بہت سے مذہبی راہنما اسے قبول نہیں کر سکتے۔ ان کی اچھی بھیڑیں ریوڑ چھوڑ چکی ہیں اور ان کا مقام اور متاع حیات خطرے میں ہے، جس پر وہ تحمل نہیں کرسکتے۔ وہ قادر مطلق خدا کے ظہور اور کام کو جھٹلانے اور اس کی مذمت کرنے کے لیے ہر طرح کے جھوٹ گھڑ رہے ہیں، ایمان والوں کو گمراہ کرنے اور انہیں سچے راستے کی تحقیق کرنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خداوند یسوع پہلے ہی بنی نوع انسان کو نجات دے چکے ہیں اور خدا کا نجات کا کام مکمل ہو چکا ہے، اور جب وہ آئے گا تو وہ اہل ایمان کو بے خود کر دے گا۔ نجات کا مزید کوئی کام باقی نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ شور و غوغا کرتے ہیں: ”اگر خداوند واپس آتا ہے اور ہمیں سلطنت میں نہیں لے جاتا تو وہ درحقیقت خداوند ہی نہیں ہے! جسمانی طور پر عدالت کا کام کرنے والا خداوند درحقیقت خداوند نہیں ہو سکتا! یہ صرف تب خداوند ہے، وہ خداوند جس پر ہم ایمان لائے، جب ہم کو بے خود کر دیا جائے!“ خاص طور پر جب وہ دیکھتے ہیں کہ قادر مطلق خدا روح کی شکل میں نہیں ہے بلکہ ایک عام ابن آدم ہے، تو وہ اور بھی زیادہ گستاخ ہو جاتے ہیں اور اس کی شدید مذمت اور توہین کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بشارت بانٹنے والے ایمان والوں کو گرفتار کرنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔ اپنے اعمال کے ذریعے، انھوں نے خداوند کو نئے سرے سے مصلوب کیا ہے۔ اس کے بارے میں سوچیں، ایسا کیوں ہے کہ خداوند کے کام کے ہر قدم کا مذہبی دنیا کی جانب سے انکار کیا جاتا ہے، مذمت کی جاتی ہے اور رکاوٹ ڈالی جاتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانیت شیطان کے ہاتھوں بری طرح فاسد ہو چکی ہے۔ ہر کسی کی فطرت شیطانی ہے۔ ہر کوئی سچائی سے نفرت کرتا ہے اور اس سے تنگ آ چکا ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ لوگ خدا کے کام کو نہیں سمجھتے، اس لیے وہ بنی نوع انسان کو بچانے کے خداوند کے کام کو اس کی حقیقت کی نسبت سادہ سمجھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا ماننا تھا کہ ایک بار جب خداوند کا قانون کے زمانے کا کام ہو گیا تو انھیں صرف قانون کی پابندی کرنی تھی جس سے وہ بچ جائیں گے اور جب مسیحا آئے گا، تو انہیں سیدھا بادشاہی میں لے جایا جائے گا۔ اورہوا کیا؟ خداوند یسوع آیا اور یہودیوں نے اسے مصلوب کر دیا۔ وہ جو فضل کے زمانے سے تعلق رکھتے تھے نے سوچا کہ خداوند یسوع کی نجات کے بعد ان کے گناہ بخش دیے گئے اور وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے لہذا اب خداوند کے لوٹنے پر انھیں سیدھا جنت میں لے جایا جانا چاہیے۔ اور ہوا کیا؟ قادر مطلق خدا آیا اور اسے شیطان کے گروہ کی اتحادی مذہبی دنیا کے ذریعے دوبارہ مصلوب کیا جا رہا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب خداوند یسوع نے اپنا کام مکمل کر لیا تو خداوند کا نجات کا کام مکمل ہو گیا ہے لیکن کیا یہ واقعی سچ ہے؟
درحقیقت، کام کا ہر نیا مرحلہ جو خدا انجام دیتا ہے کی پیشین گوئی بہت پہلے کر دی گئی ہے۔ جب یسوع نجات کے کام کے لیے آیا توپیغام پہنچانے والوں نے پہلے ہی اس کے آنے کی پیشین گوئی کر دی تھی ”ایک کُنواری حامِلہ ہو گی اور بیٹا پَیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عِمّانُوایل رکھّے گی“ (یسعیاہ 7: 14)۔ ”اِس لِئے ہمارے لِئے ایک لڑکا تولُّد ہُؤا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجِیب مُشِیر خُدایِ قادِر ابدِیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا“ (یسعیاہ 9: 6)۔ اور آخری ایام میں خدا کے فیصلے کے کام کے لیے انجیل کی بہت سی پیشین گوئیاں ہیں، کم از کم 200۔ خداوند یسوع نے جو کہا اسے دیکھیںـ ”جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخِری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا“ (یُوحنّا 12: 48)۔ ”کیونکہ باپ کِسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کِیا ہے“ (یُوحنّا 5: 22)۔ اور پطرس کی کتاب: ”کیونکہ وہ وقت آ پُہنچا ہے کہ خُدا کے گھر سے عدالت شرُوع ہو“ (۱-پطرؔس 4: 17)۔ خدا کے کام میں دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص بہت آسانی سے اس کی بنیاد تلاش کر سکتا ہے۔ پھر وہ اتنے جارحانہ طور پر، ثابت قدمی سے خداوند کو صلیب پر میخوں سے جڑنے پر اصرار نہیں کریں گے۔ یہ فقط اس بات کا اظہار ہے کہ شیطان نے بنی نوع انسان کو کس قدر فاسد کر دیا ہے۔ تمام انسان شیطانی فطرت رکھتے ہیں، اور یہ کہنا جائز ہے کہ انسان خدا کے دشمن ہیں۔ ہم سب نے اس حقیقت کو دیکھا ہے: قانون کے زمانے سے لے کر فضل کے زمانے میں یسوع کی نجات تک، اور اب ان آخری ایام میں، قادر مطلق خدا کے ساتھ جو جسم پر آزمائش کا کام کر رہا ہے تاکہ ان زمانوں کے کام کو مکمل کیا جاسکے، یہ واضح ہے کہ خدا وند کا انسانیت کو بچانے کا کام درست طور پر تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پس اس کے نجات کے کام کے لیے کیوں ضروری ہے کہ وہ تین مراحل میں انجام پائے؟ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے انسان درک نہیں کر سکتے، جس کے سبب کئی خداوند کے کام کے مخالف ہوئے یا اس کی مذمت کرنے لگے، اس کے نتائج بھیانک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس مسئلہ کی کھوج میں ہیں کہ خداوند کام کے تین مراحل کیوں انجام دے رہا ہے؟
آخری ایام میں، قادرِ مطلق خداوند کے کام نے اُس کے انتظامی منصوبے کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ آئیے خدا وند مطلق کے کلام کا ایک پیرا پڑھیں تاکہ ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”خدا کے مدیریت کے 6000 سالہ کام کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے: قانون کا دور، فضل کا دور اور بادشاہی کا دور۔ کام کے یہ تین مراحل بنی نوع انسان کی نجات کے لیے ہیں، یعنی یہ بنی نوع انسان کی نجات کے لیے ہیں، جسے شیطان نے بری طرح فاسد کر دیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ اس لیے بھی ہیں کہ خدا شیطان سے جنگ کرسکے۔ اس طرح جیسے نجات کا کام تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے اسی طرح شیطان سے جنگ بھی تین مراحل میں تقسیم کی گئی ہے اور خدا کے کام کے یہ دونوں پہلو بیک وقت انجام دیے جاتے ہیں۔ شیطان سے جنگ دراصل بنی نوع انسان کی نجات کے لیے ہے اور چونکہ بنی نوع انسان کی نجات کا کام کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ایک ہی مرحلے میں کامیابی سے مکمل کیا جا سکے، اس لیے شیطان کے ساتھ جنگ بھی مراحل اور ادوار میں تقسیم ہے اور انسان کی ضروریات اور شیطان کی طرف سے اسے فاسد کیے جانے کی حد کے مطابق جنگ چھیڑی جاتی ہے۔ ۔۔۔ انسان کی نجات کے کام کے تین مراحل ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے ساتھ جنگ کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ شیطان کو بار بار شکست دی جا سکے۔ پھر بھی شیطان کے ساتھ جنگ کے پورے کام کی اندرونی سچائی یہ ہے کہ اس کے اثرات کام کے کئی مراحل کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں: انسان کو فضل دینا، انسان کے گناہ کا چڑھاوا پیش کرنا، انسان کے گناہ معاف کرنا، انسان کی تسخیر اور انسان کو کامل بنانا“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ انسان کی معمول کی زندگی بحال کرنا اور اسے ایک شاندار منزل تک لے جانا)۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا وند کا نجات کا کام تین مراحل میں انجام پاتا ہے۔ یہوواہ خداوند کا قانون کے زمانے کا کام، خداوند یسوع کا فضل کے زمانے کی نجات اور قادر مطلق خداوند کا آخری ایام کا فیصلوں کا کام جو سلطنت کے زمانے میں ہے۔ کام کے یہ تین مراحل خداوند کے نجات کے کام کا تتمہ ہیں اور یوں خدا بنی نوع انسان کو شیطانی قوتوں سے محفوظ رکھتا ہے، قدم بہ قدم، تاکہ وہ مکمل طور پر خدا وند کے ہو جائیں۔ ہر قدم کے پیچھے گہری معنویت ہے۔بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے خدا کے انتظامی منصوبے میں یہ سب ناگزیر کام ہیں اور فاسد انسانیت کو گناہ اور شیطانی قوتوں سے بچانے کے عمل کا اہم جزو ہیں۔
اب میں خداوند کے کلام کی روشنی میں اس کے کام کے تین مراحل کو اختصار سے بیان کرنا چاہوں گا۔ آئیے پہلے خدا وند کے انسان کی نجات کے کام کے پہلے مرحلے پر بات کرتے ہیں: قانون کے زمانے میں کام۔ ہم سب جانتے ہیں کہ قانون کے زمانے میں خدا کی جانب سے کام انجام دینے سے قبل انسان سادہ لوح تھے۔وہ نہیں جانتے تھے کہ خداوند کی عبادت کیسےکرنی ہے یا زمین پراپنی زندگی کیسےگزارنی ہے۔ وہ مسلسل گناہ کر رہے تھے اور خدا کو ناراض کر رہے تھے اور یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ گناہ کیا ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ کو گناہ سے دور کرنے اور صحیح طریقے سے زندگی گزارنے میں مدد کرنے کے لیے، خدا نے قانون کے زمانے کا اپنا کام شروع کیا۔ آئیے اس بارے میں خدا کے کلام کا ایک پیرا پڑھیں۔ ”شریعت کے دور میں، یہوواہ نے موسیٰ کے لیے بہت سے احکامات جاری کیے تاکہ وہ بنی اسرائیل تک پہنچا سکے جو اس کی پیروی میں مصر سے نکلے تھے۔ یہ احکام یہوواہ نے بنی اسرائیل کو دیے تھے اور ان کا مصریوں سے کوئی تعلق نہیں تھا؛ ان احکام کا مقصد بنی اسرائیل کو پابند کرنا تھا، اور اس نے احکام کا استعمال ان سے مطالبات کے لیے کیا۔ آیا انھوں نے سبت کا دن منایا، آیا انھوں نے اپنے والدین کا احترام کیا، آیا انھوں نے بتوں کی پوجا کی اور ایسے ہی دیگر کام – یہ وہ اصول تھے جن کے ذریعے ان کے گنہگار یا راست باز ہونے کی عدالت کی گئی۔ ان میں، بعض ایسے تھے جنھیں یہوواہ نے آگ سے مارا، بعض کو سنگسار کیا گیا، اور بعض نے یہوواہ کی برکتیں سمیٹیں، اور یہ اس بات کے مطابق طے کیا گیا کہ آیا وہ ان احکام کی تعمیل کرتے ہیں یا نہیں۔ سبت نہ منانے والوں کو سنگسار کر کے مار دیا گیا۔ جن کاہنوں نے سبت کا دن نہیں منایا انھیں یہوواہ کی آگ نے جلا دیا۔ والدین کی عزت نہ کرنے والوں کو بھی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان سب کا حکم یہوواہ نے دیا تھا۔ یہوواہ نے اپنے احکام اور قوانین قائم کیے تاکہ، جیسا کہ اس نے ان کی زندگیوں میں راہنمائی کی تھی، لوگ اس کا کلام سنیں اور اس پر عمل کریں اور اس کے خلاف بغاوت نہ کریں۔ اس نے ان قوانین کو نوزائیدہ نسل انسانی کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا، یہ اس کے مستقبل کے کام کی بنیاد رکھنے کے لیے بہتر تھا۔ اور یوں، یہوواہ کے کام کی بنیاد پر، پہلے دور کو شریعت کا دور کہا گیا“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ شریعت کے دور میں کام)۔ قانون کے دور میں، یہوواہ خدا نے بہت سے قوانین اور احکام جاری کیے، جو بنی نوع انسان کو سکھاتےتھےکہ کس طرح خدا کی عبادت کرنی ہے اور اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں۔ قانون کی پیروی کرنے والوں نے خدا کا تحفظ اور برکتیں حاصل کیں، جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اپنے گناہوں کی معافی کے لیے قربانیاں پیش کرنی پڑیں۔ بصورت دیگر انھیں خدا کی جانب سے سزا اور ابدی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قانون کے زمانے کے لوگ ذاتی طور پر خدا کی راستبازی،غضب اور اُس کے متحمل مزاج کو جانتے تھے، اور وہ جانتے تھے، اس کی رحمت اور برکتوں کو۔ اس لیے ہر کوئی یہوواہ خدا سے ڈرتا تھا اور اس کے قانون اور احکام کی پابندی کرتا تھا۔ انھیں خدا کا تحفظ حاصل تھا اور وہ زمین پر مناسب زندگیاں بسر کر رہے تھے۔ اب آئیے اس پر کچھ سوچتے ہیں: اگر خدا نے قانون کے زمانے کا اپنا کام نہ کیا ہوتا تو بنی نوع انسان کا کیا ہوتا؟ قانون کی پابندیوں یا خدا کی راہنمائی کے بغیر، تمام نسل انسانی شدید افراتفری کا شکار ہو جاتی اور شیطان کی گرفت میں آچکی ہوتی۔ خدا کا بنی نوع انسان کو قانون دینا ناقابل یقین حد تک اہم کام تھا!اس کے قانون کے زمانے کے کام نے انسان کو سکھایا کہ گناہ کیا ہےاور راستبازی کیا ہے، اور اس نے انسان کو دکھایا کہ گناہ کے کفارہ کے لیے قربانی درکار ہے۔ خدا کے کام کا پہلا مرحلہ نہ صرف بنی نوع انسان کو ان کی زندگیوں میں صحیح راستے پر لایا بلکہ اس نے فضل کے زمانے میں نجات کے کام کے لیے زمین سازی کی، راہ کو استوار کیا۔
قانون کے زمانے کے آخر میں، ساری انسانیت شیطان کے ذریعے اتنی زیادہ آلودہ ہو چکی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ گناہ کر رہی تھی اور قانون ان کو مزیدنہیں روک سکتا تھا۔ ان کے پاس اپنے گناہ کے لیے کافی قربانیاں نہیں تھیں،پس وہ قانون کے تحت مذمت اور سزا کے اجراء کا سامنا کر رہے تھے، سبھی اپنی تکلیف میں خدا کو پکار رہے تھے اور یوں، خدا ذاتی طور پر خداوند یسوع کے طور پر جسم بن گیا اور نجات کا کام انجام دیا،جس سے فضل کے دور کا آغاز اور قانون کے دور کا خاتمہ ہوا۔ آئیے خداوند کا مزید کلام پڑھیں۔ ”فضل کے دور کے دوران، تنزلی کے شکار تمام بنی نوع انسان (صرف بنی اسرائیل ہی نہیں) کی نجات کے لیے یسوع آیا۔ اس نے انسانوں سے رحم اور محبت وشفقت کا مظاہرہ کیا۔ انسان نے فضل کے دور میں جس یسوع کو دیکھا وہ محبت و شفقت سے معمور تھا اور انسانوں کے ساتھ ہمیشہ محبت کرنے والا تھا، کیونکہ وہ انسان کو گناہ سے بچانے آیا تھا۔ وہ انسانوں کے گناہوں کو معاف کرنے کے قابل تھا حتیٰ کہ اس کے مصلوب ہونے نے انسانوں کو گناہ سے مکمل طور پر نجات دلا دی۔ اس زمانے کے دوران، خدا رحم اور محبت و شفقت کے ساتھ انسان کے سامنے ظاہر ہوا؛ یعنی، وہ انسان کے لیے گناہ کا کفارہ بن گیا اور انسان کے گناہوں کے لیے مصلوب ہوا، تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے معاف کیے جا سکیں“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کا دو مرتبہ مجسم ہونا، تجسیم کی اہمیت کی تکمیل کرتا ہے)۔ ”یسوع کی طرف سے خلاصی کے بغیر، نوع انسانی ہمیشہ کے لیے گناہ میں رہتی۔ گناہ کی پیداوار، شیاطین کی اولاد بن جاتی۔ یہ سلسلہ جاری رہنے سے پوری دنیا وہ زمین بن جاتی جہاں شیطان کا بسیرا ہے تاہم خلاصی کے کام کے لیے، بنی نوع انسان کی خاطر رحم اور شفقت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے؛ صرف اس طرح ہی نوع انسانی کو معافی مل سکتی ہے اور وہ بالآخر خدا کی طرف سے مکمل اور حاصل کیے جانے کا حق حاصل کر سکتی ہے۔ کام کے اس مرحلے کے بغیر، چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ اگر یسوع کو مصلوب نہ کیا گیا ہوتا، اگر اس نے صرف بیماروں کو شفا دی ہوتی اور بدروحوں سے نجات دلائی ہوتی تو لوگوں کو ان کے گناہوں سے مکمل طور پر معافی نہیں مل سکتی تھی۔ ساڑھے تین سال یسوع نے زمین پر اپنا کام کرنے میں صرف کیے، اس نے اپنے خلاصی کے کام کا صرف نصف حصہ مکمل کیا؛ پھر، جب صلیب پر اسے میخوں سے جڑ دیا گیا اور جب اس نے گنہگار جسم کی مشابہت اختیار کر لی، اور جب اسے بدی کے حوالے کر دیا گیا، تو اس نے مصلوب ہونے کا کام مکمل کیا اور بنی نوع انسان کی تقدیر کا مالک بنا۔ جب وہ شیطان کے ہتھے چڑھا تبھی اس نے بنی نوع انسان کو خلاصی دلائی۔ ساڑھے تینتیس سال تک اس نے زمین پر تکلیفیں برداشت کیں، اس کا مذاق اڑایا گیا، بہتان لگایا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا، یہاں تک کہ اس کے پاس سر رکھنے کی جگہ نہیں تھی، آرام کرنے کی جگہ نہیں تھی، اور بعد میں اسے اس کے پورے وجود کے ساتھ مصلوب کر دیا گیا۔ ایک مقدس اور معصوم جسم – صلیب پر میخوں سے جڑ دیا گیا۔ اس نے ہر قسم کی مصیبت برداشت کی۔ جو لوگ اقتدار میں تھے انہوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کوڑے مارے اور سپاہیوں نے اس کے منہ پر تھوکا؛ پھر بھی وہ خاموش رہا اور آخر تک برداشت کرتا رہا، غیر مشروط طور پر موت کے منہ میں چلا گیا، جس کے بعد اس نے پوری انسانیت کو خلاصی دی۔ تب اسے آرام کرنے کی اجازت ملی۔ یسوع نے جو کام کیا وہ صرف فضل کے دور کی نمائندگی کرتا ہے؛ یہ شریعت کے دور کی نمائندگی نہیں کرتا، اور نہ ہی یہ آخری دور کے کام کا متبادل ہے۔ یہ فضل کے زمانے میں یسوع کے کام کا نچوڑ ہے، دوسرا دور جس سے نوع انسانی گزری ہے – خلاصی کا دور ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خلاصی کے دور کے کام کے پیچھے اصل کہانی)۔ جب یسوع ہمارے مابین جیا اور اس نے پیغام پہنچایا ”تَوبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدِیک آ گئی ہے“ (متّی 4: 17)۔ اس نے انسان کو اقرار کرنا اور توبہ کرنا، دوسروں سے اپنی طرح محبت کرنا، دوسروں کے ستر گنا معاف کرنا، اپنے مکمل دل، روح اور دماغ سے خدا سے محبت کرنا، خدا کی حقیقی اور سچی عبادت کرنا، اور بہت کچھ سکھایا۔ یسوع کے الفاظ نے لوگوں کو دکھایا کہ خدا کی مرضی کیا ہے اورانھیں اُن کے ایمان میں ایک امتیازی ہدف اور سمت دی۔ یہ قانون اور قواعد کی پابندیوں سے بالاتر اقدام تھا۔ اس نے بیماروں کو شفا دینے، بدروحوں کو نکالنے اور گناہوں کو معاف کرنے کے ذریعے بہت سے نشانات اور عجائبات دکھائے۔ وہ تحمل اور برداشت سے پر تھا۔ ہر کوئی خدا کی محبت اور رحم کو محسوس کر سکتا تھا، اس کے حسن کو دیکھ سکتا تھا اور خدا کے قریب جا سکتا تھا۔ آخر میں، خداوند یسوع کو صلیب پر میخوں سے ٹھونکا گیا، ایک ابدی گناہ کی قربانی کے طور پر، جس نے ہمارے گناہوں کو ہمیشہ کے لیے بخش دیا۔ اس کے بعد، لوگوں کو فقط اپنے گناہوں کی معافی کے لیے اقرار کرنے اور پالنے والے کے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت تھی، نہ ان کی مذمت ہوگی اور نہ قانون کے تحت سزا۔ وہ دعا میں خدا کے سامنے حاضر ہونے اور خداوند کی جانب سے عطا کردہ سکون، خوشی اور بھرپور نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل تھے۔ واضح طور پر یسوع کا نجات کا کام بنی نوع انسان کے لیے ایک عظیم نعمت تھا، جس نے آج تک ہمیں باقی رہنے اور پھلنے پھولنے کے لائق بنایا ہے۔
تو پھر جب سے خداوند یسوع نے اپنا کام مکمل کیا اور ہمیں شیطان کے چنگل سے چھڑایا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا نجات کا کام مکمل ہو گیا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خدا کے نجات کے کام کی مزید ضرورت نہیں ہے؟ جواب ہے: نہیں! خدا کا کام مکمل نہیں ہوا ہے۔ بنی نوع انسان کو اب بھی خدا کے نجات کے کام کے ایک اور اقدام کی ضرورت ہے۔ انسان کو خداوند یسوع نے نجات دلوائی اور ہمارے گناہ معاف کر دیے گئے لیکن ہماری گناہ سے پرفطرت کا کوئی حل نہیں ہوا۔ ہم اپنی گناہ آلود فطرت کے تابع ہیں، ہمیشہ آلودگی میں رہتے ہیں۔ ہم کسی بھی لمحہ جھوٹ اور گناہ سے نہیں بچ سکتے۔ ہم خداوند کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کرتے ہیں اور ہم اُس کے کلام پر عمل نہیں کر سکتے۔ ہم سب گناہ کے خلاف دردناک جدوجہد، گناہ، اعتراف گناہ اور دوبارہ گناہ کے دائرے میں رہتے ہیں۔ کوئی بھی گناہ کے بندھنوں اور بندشوں سے سے فرار نہیں کر سکتا۔ تو کیا وہ لوگ جو گناہ سے بچ نہیں پاتے وہ واقعی بغیر آزمائش اور تزکیہ کے سلطنت میں داخل ہو سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔ خدا ایک مقدس خدا ہے۔ ”پاکیزگی کے بغیر کوئی انسان خداوند کو نہیں دیکھے گا“ (عِبرانیوں 12: 14)۔ خدا اُن لوگوں کو کبھی بھی اپنی سلطنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا جو اب بھی گناہ اور اُس کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ اسی لیے خداوند نے پیشین گوئی کی کہ وہ اپنے نجات کا کام مکمل کرنے کے بعد دوبارہ آئے گا۔ خداوند یسوع کی واپسی انسان کی گناہگار فطرت کے مکمل حل کے لیے ہے، ہمیں گناہ سے بچانے کے لیے تاکہ ہم پاک ہوکر خدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکیں۔ جیسا کہ خداوند یسوع نے کہا: ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا“ (یُوحنّا 16: 12-13)۔ ”اُنہیں سچّائی کے وسِیلہ سے مُقدّس کر۔ تیرا کلام سچّائی ہے“ (یُوحنّا 17: 17)۔ خداوند کے پیغام نے بھی پیشن گوئی کی ہے: ”اُس نے بڑی آواز سے کہا کہ خُدا سے ڈرو اور اُس کی تمجِید کرو کیونکہ اُس کی عدالت کا وقت آ پُہنچا ہے“ (مُکاشفہ 14: 7)۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خداوند یسوع سچائیوں کا اظہار کرتا ہے اور اپنی واپسی پر فیصلے انجام دیتا ہے اور انسان کی مکمل سچائی میں داخل ہونے کے لیے قیادت کرتا ہے۔ یہ بنی نوع انسان کو مکمل طور پر گناہ اور شیطان کی قوتوں سے محفوظ کرنا ہے، ہمیں خدا کی شاہی میں لے جانا ہے۔ یہ کام کا ایک مرحلہ ہے جس کی منصوبہ بندی خدا نے بہت پہلے کی تھی اور آخری مرحلہ خدا کا انتظامی منصوبہ ہے۔ آئیے سچائی کے اس پہلو کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے قادر مطلق خدا کا کچھ کلام پڑھیں۔
قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”اگرچہ یسوع نے انسانوں کے درمیان بہت زیادہ کام کیا، مگراس نے صرف تمام بنی نوع انسان کی خلاصی مکمل کی اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اس نے انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں دلایا۔ انسان کو شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچانے کے لیے نہ صرف یسوع کو گناہ کا کفارہ بننے اور انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خدا انسان کو اس کے شیطانی بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے اس سے بھی بڑا کام کرے۔ اور اس طرح، اب جب کہ انسان کو اس کے گناہوں سے معافی مل گئی ہے تو خدا انسان کو نئے دورمیں لے جانے کے لیے جسم میں واپس آیا ہے اور اس نے سزا اور عدالت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کام نے انسان کو ایک بلند تر عالم میں پہنچا دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کے تسلط کے تابع ہوں گے وہ اعلیٰ سچائی سے لطف اندوز ہوں گے اور عظیم نعمتیں حاصل کریں گے۔ ان کو واقعی روشنی میں رہنا چاہیے، اور سچائی، راستہ اور زندگی حاصل کرنی چاہیے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔
”گناہ کے کفارے کے ذریعے، انسان کو اس کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں، کیونکہ تصلیب کا عمل پہلے ہی اختتام کو پہنچ چکا ہے اور خدا شیطان پر غالب آ گیا ہے۔ لیکن اب بھی انسان کے اندر اس کے بدعنوان مزا ج کے موجود ہوتے ہوئے، انسان اب بھی گناہ کر سکتا ہے اور خدا کے خلاف مزاحمت کر سکتا ہے، اور خدا نے بنی نوع انسان کو اپنایا نہیں ہے۔ اس لیے کام کے اس مرحلے میں خدا اپنے کلام کا استعمال انسان کے بدعنوان مزاج کو بے نقاب کرنے کے لیے کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ درست طریقے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ یہ مرحلہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بامعنی ہے اور ساتھ ہی زیادہ بارآور بھی، کیونکہ اب یہ کلام ہے جو براہ راست انسان کو زندگی فراہم کرتا ہے اور انسان کے مزاج کو مکمل طور پر نئے سرے سے تشکیل دینے کا اہل بناتا ہے؛ یہ کام کا ایک بہت زیادہ جامع مرحلہ ہے۔ لہذا، آخری ایام میں تجسیم نے خدا کی تجسیم کی اہمیت کو مکمل کر دیا ہے اور انسان کی نجات کے لیے خدا کے انتظامی منصوبے کو تکمیل تک پہنچا دیا ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔
”آخری ایام کا مسیح انسان کو سکھانے، انسان کا مادّہ منکشف کرنے، اور انسان کے قول و فعل پرکھنے کے لیے مختلف قسم کی سچائیوں کا استعمال کرے گا۔ یہ الفاظ مختلف سچائیوں پر مشتمل ہیں، جیسا کہ انسان کا فرض کیا ہے، انسان کو خدا کی اطاعت کیسے کرنی چاہیے، انسان کو خدا کا وفادار کیسے ہونا چاہیے، انسان کو معمول کی انسانیت والی زندگی کیسے گزارنی چاہیے نیز خدا کی حکمت اور مزاج وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ انسان کے مادے اور اس کے بدعنوان مزاج پر مبنی ہیں۔ خاص طور پر وہ الفاظ جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان خدا کو کیسے ٹھکراتا ہے، اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ انسان شیطان کا مجسم کیسے ہے اور خدا کے خلاف ایک دشمن قوت ہے۔ اپنا عدالت کا کام انجام دینے میں، خدا صرف چند الفاظ سے انسان کی فطرت واضح نہیں کرتا؛ وہ اسے بے نقاب کرتا ہے، اس سے نمٹتا ہے، اور طویل مدت کے لیے اس کی تراش خراش کرتا ہے۔ منکشف کرنے، نمٹنے اور تراش خراش کے ان تمام مختلف طریقوں کو عام الفاظ سے نہیں بدلا جا سکتا، بلکہ صرف سچائی ہی اس کا متبادل ہے جس سے انسان بالکل عاری ہے۔ صرف یہ طریقے ہی عدالت کہے جا سکتے ہیں؛ صرف اس قسم کے فیصلوں کے ذریعے ہی انسان کو محکوم اور خدا کے بارے میں مکمل طور پر قائل کیا جا سکتا ہے اور خدا کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا کام جو چیز لاتا ہے وہ انسان کا خدا کی حقیقی معرفت اور اپنی سرکشی کی سچائی حاصل ہونا ہے۔ عدالت کا کام انسان کو خدا کی مرضی، خدا کے کام کے مقصد، اور ان رازوں کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جو اس کے لیے ناقابلِ ادراک ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو اپنے بدعنوان جوہر اور اس بدعنوانی کی جڑوں، نیز انسان کی بدصورتی پہچاننے کے قابل بناتا ہے۔ یہ تمام اثرات عدالت کے کام سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ اس کام کا جوہر دراصل سچائی، راہ اور خدا کی زندگی کو ان تمام لوگوں کے لیے کھولنے کا کام ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کام خدا کی عدالت کا کام ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح عدالت کا کام سچائی کے ساتھ کرتا ہے)۔
اس کو پڑھنے سے ہمیں یہ دیکھنے میں مدد ملتی ہے کہ خدا آخری ایام میں قضاوت کا کام کیوں کر رہا ہے۔ خداوند یسوع کے نجات دینے کے کام نے فقط ہمارے گناہوں کو معاف کر دیا، لیکن ہماری گناہگار فطرت اب بھی گہرائی سے مورچہ بند ہے۔ ہمیں خدا سے مزید سچائیوں کے اظہار نیز بنی نوع انسان کو مکمل طور پر پاک کرنے اور بچانے کے لیے قضاوت کے اقدام کی ضرورت ہے۔ جس سے مراد ہے کہ، خداوند یسوع کے نجات کے کام نے آخری ایام کے خداوند کے فیصلے کے کام کی راہ ہموار کی، جو کہ خدا کے نجات کے کام کا سب سے کلیدی اور مرکزی حصہ ہے۔ یہ ہماری مکمل نجات اور سلطنت میں داخلے کا واحد راستہ ہے۔ جب کام کا یہ مرحلہ تمام ہو جائے گا تو انسان کی آلودہ فطرت پاک ہو جائے گی اور ہم گناہ نیز خدا کی نافرمانی چھوڑ دیں گے۔ ہم حقیقی معنوں میں خدا کے سامنے تسلیم ہونے اوراسے چاہنے کے قابل ہو جائیں گے اور بنی نوع انسان کو محفوظ کرنے کا خدائی کام مکمل ہو جائے گا۔ یہ خدا کے 6000 سالہ انتظامی منصوبے کی تکمیل ہوگی۔ قادرِ مطلق خدا ظاہر ہوا اور آخری ایام میں کام کرنا شروع کر دیا، فضل کے دور کا خاتمہ کرتے ہوئے سلطنت کے دور کا آغاز کیا۔ اس نے بنی نوع انسان کو پاک کرنے اور مکمل طور پر بچانے کے لیے درکار تمام سچائیوں کا اظہار کیا، نہ صرف خدا کے انتظامی منصوبے کے تمام اسرار کو آشکار کیا بلکہ انسان کی تمام شیطانی فطرتوں اور رویوں جو خدا کے مخالف ہیں کو بے نقاب کرکے ان کا فیصلہ بھی کیا، اور خدا کے بارے میں ہمارے تمام تصورات نیز ایمان کے بارے ہمارے غلطی پر مبنی نظریات کو بھی سامنے لایا۔ اس نے ہمیں گناہ سے دور رہنے اور مکمل طور پر محفوظ ہونے کے راستہ کے علاوہ اور بھی بہت کچھ دیا۔ قادرِ مطلق خدا کا کلام انمول ہے! یہ سچائی کی وہ تمام حقیقتیں ہیں جو لوگوں میں خالص ہونے اور مکمل طور پر محفوظ ہونے کے لیے موجود ہونی چاہئیں اور یہ وہ الفاظ ہیں جو خدا نے قانون کے زمانے یا فضل کے دور میں کبھی ادا نہیں کیے۔ یہ خدا ہے جو آخری ایام میں ہمیں ابدی حیات کی جانب لا رہا ہے۔ خدا کے منتخب کردہ لوگوں میں سے بہت سے جو اس کی آزمائش سے گذرے ہیں، نے اپنی آلودگی اور شیطانی فطرت کی سچائی کو دیکھا ہے جو خدا سے روکتی ہے، انھوں نے خدا کی راستباز، متحمل فطرت کی سچائی کو درک کر لیا ہے اور وہ خدا کے تقدس کے قائل ہو گئے ہیں۔ نتیجتا وہ گناہ کی زنجیروں سے آزاد ہو چکے ہیں اور حقیقی انسان کی طرح جیتے ہیں۔ان سب نے گناہوں سے ایک ناقابل یقین آزادی اور شیطان پر فتح کا مشاہدہ کیا ہے۔خدا کے منتخب کردہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ خدا کا آخری روز کا فیصلوں کا کام حقیقی معنوں میں انسانیت کی نجات ہے! فیصلوں کے اس کام کے بغیر ہم کبھی بھی اپنی آلودگی کی سچائی کو نہیں دیکھ پائیں گے، ہم اپنے گناہ کی جڑ کو نہیں جان پائیں گے اور ہم کبھی بھی اپنی آلودہ فطرت کو بدل نہیں سکیں گے اور خود کو پاک نہیں کر پائیں گے۔ قادرِ مطلق خدا نے آفات سے پہلے ہی قابو پانے والوں کے ایک گروہ کو مکمل کر لیا ہے اور اس کی بادشاہی کی بشارتیں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ حقائق بتاتے ہیں کہ قادرِ مطلق خدا نے شیطان کو پوری طرح شکست دے دی ہے اور تمام شان و شوکت حاصل کر لی ہے اور اُس کا 6000 سالہ انتظامی منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔ عظیم آفات کا آغاز ہو چکا ہے، اور تمام بدکار جو خدا کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں کو ان آفات میں سزا دی جائے گی اور تباہ کر دیا جائے گا، جب کہ وہ لوگ جو آزمائش سے گزرتے ہیں اور پاک ہوتے ہیں وہ آفات کے دوران خدا کی طرف سے محفوظ رہیں گے۔ پھر ایک نیا آسمان اورنئی زمین ہوگی – مسیح کی بادشاہت دنیا پر ظاہر ہو گی، اور جو باقی رہ جائیں گے وہ خدا کے لوگ ہوں گے جو خدا کی بادشاہی میں ہمیشہ رہیں گے اور اس کی برکات سے لطف اندوز ہوں گے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ یہ حقیقی طور پرمکاشفہ کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے: ”دُنیا کی بادشاہی ہمارے خُداوند اور اُس کے مسِیح کی ہو گئی اور وہ ابدُالآباد بادشاہی کرے گا“ (مُکاشفہ 11: 15)۔ ”پِھر مَیں نے تخت میں سے کِسی کو بُلند آواز سے یہ کہتے سُنا کہ دیکھ خُدا کا خَیمہ آدمِیوں کے درمِیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکُونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خُدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خُدا ہو گا۔ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسُو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ مَوت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چِیزیں جاتی رہیِں“ (مُکاشفہ 21: 3-4)۔
اس مقام پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کے کام کے تین مراحل کتنے قیمتی اور عملی ہیں! ہر ایک انسان کے گناہ کا مسئلہ حل کرنے اورایک ہی مقصد کی تکمیل کے لیے ہے اور یہ انسانوں کو شیطان کی طاقت اور گناہ سے قدم بہ قدم بچانا ہے تاکہ ہم خدا کی سلطنت میں داخل ہو سکیں اور اس کے وعدے اور برکتیں حاصل کر سکیں۔ کام کا ہر مرحلہ اگلے سے جڑا ہوا ہے، اور ہر قدم اپنے سے پہلے والے مرحلے کی بنیاد پرقائم ہے، ہر ایک اپنے سے قبل والے سے زیادہ مستحکم اورنمایاں ہے۔ وہ باہم مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں، جن میں جدائی ناممکن ہے، اور کوئی بھی دوسروں کے بغیر کام نہیں کرے گا۔ دیکھو، قانون کے زمانے کے کام کے بغیر، کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ گناہ کیا ہے، اور ہم سب گناہ میں رہتے ہوئے شیطان کے ہاتھوں مسلے گئے ہوتے۔ ہم شیطان کے قابو میں آکر منسوخ ہو چکے ہوتے۔ فضل کے زمانے کے نجات کے کام کے بغیر، بنی نوع انسان کو بہت سے گناہوں کے ارتکاب کی سزا بھگتنی پڑتی اور ہم آج تک نہ پہنچ پاتے۔ اگر خدا آخری ایام کا منصفی کا کام انجام نہ دے تو کیا ہو؟ اس کے بغیر ہم گناہ کے بندھن سے کبھی نہ نکل پاتے یا آسمانوں کی بادشاہت میں داخل ہونے کے قابل نہ ہو پاتے۔ ہم گناہوں میں پختہ ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہوتے۔ واضح طور پر ان تینوں مراحل میں سے فقط ایک مرحلے کے بغیر بنی نوع انسان شیطان کی ہو چکی ہوتی اور مکمل طور پرکبھی نہ بچائی جاسکتی۔ یہ کام کے تین مراحل خدا کے انسانیت کی نجات کی مکمل انتظام پر مشتمل ہیں۔ ہر مرحلہ اپنے سے پہلے والے مرحلہ سے زیادہ اہم ہے اور یہ سب بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے خدا کے انتہائی محتاط انتظامات ہیں۔ یہ ہمیں مکمل طور پرانسانیت کے لیے خدا کی محبت اور نجات دہندگی کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کی حکمت و قدرت کا بھی مظہر ہیں۔ جیسا کہ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”میرا پورا انتظامی منصوبہ، چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ تین مراحل یا تین ادوار پر مشتمل ہے: ابتدائی شریعت کا دور؛ فضل کا دور (جو کہ خلاصی کا دور بھی ہے) اور آخری زمانے کا بادشاہی کا دور۔ ان تینوں ادوار میں میرا کام ہر زمانے کی نوعیت کے مطابق مواد کے اعتبار سے مختلف ہے، لیکن ہر مرحلے پر یہ کام انسان کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے – یا زیادہ واضح طور پر کہا جائے تو ان چالوں کے مطابق کیا جاتا ہے جو شیطان اس جنگ میں استعمال کرتا ہے، جو میں اس کے خلاف شروع کرتا ہوں۔ میرے کام کا مقصد شیطان کو شکست دینا، اپنی حکمت اور مطلق قدرت ظاہر کرنا، شیطان کی تمام چالیں بے نقاب کرنا اور اس طرح پوری نسل انسانی کو بچانا ہے جو شیطان کے زیر تسلط رہتی ہے۔ یہ اپنی حکمت اور مطلق قدرت ظاہر کرنا اور شیطان کی ناقابل برداشت وحشت انگیزی ظاہر کرنا ہے؛ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ یہ مخلوقات کو اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کا موقع دینا، یہ جاننے کا موقع دینا ہے کہ میں ہر چیز کا حاکم ہوں، واضح طور پر یہ دیکھنا ہے کہ شیطان انسانیت کا دشمن ہے، ذلیل و شریر ہے اور انھیں کامل یقین کے ساتھ یہ بتانا ہے کہ خیر و شر، سچ اور جھوٹ، تقدس اور غلاظت کے درمیان فرق کیا ہے، نیز یہ کہ عظیم کیا ہے اور حقیر کیا ہے۔ اس طرح جاہل انسان مجھ پر یہ گواہی دینے کے قابل ہو جائے گا کہ میں انسانیت کو بدعنوان کرنے والا نہیں ہوں، اور صرف میں – خالق – ہی انسانیت کو بچا سکتا ہوں اور لوگوں کو وہ چیزیں عطا کر سکتا ہوں جس سے وہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور وہ جان لیں گے کہ میں ہر چیز کا حاکم ہوں اور شیطان صرف ان مخلوقات میں سے ایک ہے جنھیں میں نے پیدا کیا اور جو بعد میں میرے خلاف ہو گیا۔ میں نے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ تین مراحل میں تقسیم کیا ہے اور میں اس طرح کام کرتا ہوں تاکہ مخلوقات میری گواہی دینے کے قابل بن سکیں اور میری مرضی سمجھ سکیں نیز یہ جان لیں کہ میں ہی سچ ہوں“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خلاصی کے دور کے کام کے پیچھے اصل کہانی)۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟