تجسیم کیا ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ دو ہزار سال پہلے، خدا بنی نوع انسان کی نجات کے لیے خدا وند یسوع کی صورت میں انسانی دنیا میں آیا، اور منادی کی، ”تَوبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدِیک آ گئی ہے“ (متّی 4: 17)۔ اس نے کثرت سے سچائی کا اظہار بھی کیا، اور نجات کے کام کی تکمیل کے لیے، اسے بنی نوع انسان کے گناہوں کے کفارے کے طور پر مصلوب کیا گیا، اس طرح قانون کے دور کا اختتام اور فضل کا دور شروع ہوا۔ یہ کام پہلی بار مجسم خدا نے بنی نوع انسان کی نجات کے لیے کیا۔ اگرچہ یہودیت نے خداوند یسوع کی مذمت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اسے صلیب پر میخوں سے جڑنے کے لیے رومی حکومت کے ساتھ مل گئے، دو ہزار سال بعد، خداوند یسوع کی بشارت زمین کے ہر کونے میں پھیل چکی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند یسوع خدا کی تجسیم تھا یکتا سچا خدا اور خالق جو انسانی جسم میں کام کےلیے ظاہر ہوا۔ پھر بھی بیشتر لوگ تسلیم نہیں کرتے کہ خدا وند یسوع ہی مجسم خدا ہے۔ بلکہ وہ خدا وند یسوع سے ایک عام انسان کے طور پر برتاؤ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے مذہبی پادری بھی تسلیم نہیں کر تے کہ خداوند یسوع خدا ہے۔ صرف سوچتے ہیں کہ وہ خدا کا فرزند ہے۔ آج، اگرچہ خداوند میں ایمان رکھنے والے ان گنت ہیں، درحقیقت بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں کہ خدا وند یسوع خدا ہے، اور کوئی بھی خداوند یسوع کی طرف سے اظہارکردہ تمام سچائیوں کے معنی اور قدر نہیں جانتا۔ لہٰذا خدا کا خیرمقدم کرنے کے معاملے میں، بہت سے لوگ تباہی میں پڑ ے ہیں کیونکہ وہ خدا کی آواز نہیں سن سکتے۔ ان کے لیے جو خدا کی آواز نہیں سن سکتے، حالانکہ وہ ظاہری طور پر جوشِيلے اہلِ ایمان ہیں، اگر انھوں نے خدا وند یسوع میں ابنِ آدم کی صورت دیکھی تھی، کیا وہ واقعی اس پر ایمان رکھ کے اُس کی پیروی کر سکیں گے۔ کیا وہ خداوند یسوع کی بطور ایک عام شخص مذمت اور اس کے خدا ہو نے کے انکا ر کے قابل ہوں گے؟ اگر انھوں نے خدا وند یسوع کو آج اس کثرت سے سچائی کا اظہار کرتے سنا، کیا وہ اب بھی گستاخی کے نام پرخداوند یسوع کی مذمت کر تے اسے ایک بار پھر میخوں سے صلیب پر جڑ دیں گے؟ فریسیوں کی جانب سے خدا وند یسوع کی مذمت کی بنیاد پر ہم یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر آج خداوند پر ایمان رکھنے والے تمام لوگ واقعی اُسے اُس کی اصلی صورت میں ابنِ آدم کے طور پر دیکھتے ہیں، تو امکان یہ ہے کہ بہت سے لوگ بھاگ کھڑے ہوں گے، اور بہت سے لوگ فریسیوں کی طرح خداوند یسوع پر حکم لگائیں گے اور اس کی مذمت کریں گے اور اسے ایک بار پھر صلیب پر میخوں سے جڑ دیں گے۔ جب میں اس طرح بات کر تا ہوں، تو ممکن ہے بعض لوگ اعتراض کریں، لیکن میں جو کہتا ہوں وہ حقیقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوع انسان بدعنوان ہو چکی ہے اور صرف اپنی آنکھوں پر انحصار کرتی ہے، کہ کوئی نہیں شناخت کر سکتا کہ مجسم ابنِ آدم خدا کا اظہار ہے۔ یہ ہ ہمارے لیے ظاہر کرتا ہے کہ تجسیم ایک عظیم راز ہے۔ ہزاروں سال سے کوئی سچائی کا یہ پہلو نہیں سمجھ سکا۔ اگرچہ ایمان والے جانتے ہیں کہ خداوند یسوع خدا کی تجسیم ہے، کوئی بھی صریح طور پر وضاحت کرنے کے قابل نہیں رہا کہ در حقیقت خدا کی تجسیم کیا ہے اور اور ہمیں اسے کیسے سمجھنا چاہیے۔
پس، خدا نے ظاہر ہونے اور کام کرنے کے لیے تجسیم کا فیصلہ کیوں کیا؟ صراحت سے بات کی جائے تو نوع انسانی کی بدعنوانی سے نجات کے لیے مجسم خد ا کی ضرورت تھی۔ دوسرے لفظوں میں، صرف مجسم بن کرآنا ہی نوع انسانی کی نجات کو پایائے تکمیل تک پہنچا سکتا تھا۔ بنی نوع انسان کی نجات اور بچاؤ کے لیے خدا نے دو بار تجسیم اختیار کی۔ خداوند یسوع مجسم خدا تھا، اور وہ خلاصی کا کام کرنے کے لیے آیا۔ کچھ لوگ پوچھ سکتے ہیں، خدا نے خلاصی کے کا م کے لیے کسی شخص کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ خدا نے تجسیم کیوں اختیار کی؟ کیونکہ بدعنوان بنی نوع انسان کا ہر فرد گناہ گار ہے، مطلب گناہ کا کوئی اہل کفارہ نہ تھا۔ صرف مجسم ابن آدم ہی گناہ سے مبرا تھا، لہٰذا خدا نے خود نجات کا کام کرنے کے لیے ابن آدم کی تجسیم اختیار کی۔ صرف اس سے خدا کی راست بازی اور تقدس ظاہر ہوا، شیطان کی تذلیل ہوئی اور اس کے خدا پر الزام کو بنیاد نہ ملی۔ اس سے بنی نوع انسان کو اپنے لیے خدا کی مخلصانہ محبت اور رحمت جاننے کا موقع ملا۔ جب خداوند یسوع نے نجات کا کام مکمل کر لیا تو اُس نے پیشین گوئی کی کہ وہ دوبارہ آئے گا۔ آج، خداوند یسوع واپس آیا ہے، اور مجسم قادر مطلق خُدا ہے۔ اس نے بکثرت سچائی کا اظہار کیا اورنوع انسانی کی بدعنوانی کے تزکیے کے لیے آخری ایام میں انصاف کا کام کرتا ہے، انسانوں کو گناہ اور شیطان کی طاقت سے بچانے کے لیے، اور اور نوع انسانی کو ایک حسین منزل تک پہنچانے کے لیے۔ اس کے باوجود غیرمتوقع بات یہ ہے، اگرچہ قادر مطلق نے بکثرت سچائی کا اظہار کیا ہے، مذہبی دنیا میں مسیح مخالفین کی جانب سے اب بھی اس کی وحشیانہ مذمت کی جاتی ہے، حتیٰ کے انھوں نے آخری ایام میں خدا کے ظہور اور کام میں رکاوٹ ڈالنے، اور اس پر پابندی لگانے میں حکمران سی سی پی کے ساتھ اشتراک کرلیا ہے۔ وہ اس بات سے انکار کی کوشش کرتے ہیں کہ قادر مطلق خدا مجسم خدا کا ظہور ہے، قادر مطلق خدا کی بحیثیت ایک عام انسان مذمت اور اس کی شان میں گستاخی بھی کرتے ہیں، جو مسیح مخالف قوتوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔ ان لوگوں کی مانند جو سچائی سے نفرت اورسرکشی کرتے ہیں۔ اگر دو ہزار سال قبل نظر دوڑائیں، ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیت کے کاہنوں کے سردار، کاتب اور فریسی خداوند یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول کرنے کے بجائے مرنا پسند کریں گے۔ انھوں نے خداوند یسوع کو ایک عام شخص کے طور پر بیان کیا جو گستاخانہ کلمات ادا کرتا تھا، انھوں نے خداوند یسوع کے خلاف سرکشی، مذمت اور اُن کی توہین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اور بالآخر انھیں میخوں سے صلیب پر جڑا، اور ایسے بھیانک جرم کا ارتکاب کیا جس کے لیے خدا کی طرف سے ان پر لعنت کی گئی اور سزا دی گئی۔ آج، قادرِمطلق خدا ابنِ آدم کی صورت میں ظاہر ہوتا اور کام کرتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے دیکھا ہے کہ قادرِ مطلق خدا کے الفاظ سچ ہیں، انھوں نے خدا کی آواز سنی ہے، اور انھوں نے خداوند کو خوش آمدید کہتے اۤ خری ایام میں اُس کا کام قبول کیا۔ تاہم، ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مجسم خدا کو نہیں مانتے، جو آج بھی قادر مطلق خدا سےایک عام انسان کا سا برتاؤ کرتے ہیں، اور قادر مطلق خدا کو قبول کرنے والوں کی مذمت کرتے ہیں، یہ کہہ کر کہ وہ ایک عام آدمی پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ سو چتے ہیں کہ وہ انجیل کی سچائی کو سمجھتے ہیں، وہ سچ کی تحقیق سے انکار کرتے ہیں. وہ قادر مطلق خدا کی مذمت اور اُس سے سرکشی کرتے ہیں، اور خدا کو دوبارہ مصلوب کرنے کے گناہ کےمُرتکب ہیں۔ خدا کی دونوں تجسیم کی انسان نے کیوں مذمت کی اور کیوں مسترد کیا؟ اس لیے کہ لوگ خدا کو نہیں جانتے، وہ یہ سمجھ نہیں رکھتے کہ سچائی کیا ہے، اور وہ تجسیم کےاس راز کی اس سے بھی کہیں کم سمجھ رکھتےہیں۔ اس لیے بھی کہ انسان بڑی بدعنوانی میں مبتلا ہے، اور شیطانی فطرتیں رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف سچائی سے نالاں اور نفرت کرتے ہیں، وہ خدا کے بھی سخت مخالف ہیں اور ہرگز کوئی خوف نہیں رکھتے۔ کچھ نسبتاً متقی اور خدا پر ایمان رکھنے والے ہیں جو اپنی جہالت کی وجہ سے سی سی پی، شیاطین کے بادشاہ، اور مسیح مخالف قوتوں کے فریب میں آچکے ہیں۔ اور خدا سے سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ ان کی ناکامی کی اصل وجہ تجسیم اور سچائی کے بارے میں علم اور فہم کی کمی ہے، لہٰذا وہ خدا کی آواز سننے سے قاصر ہیں۔ اور اس لیے مجسم خدا کو ایک عام فرد تصور کرتے ہیں، اور اس کی مذمت اور تو ہین کر تے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ تجسیم کے اصل سچ کو سمجھنا خداوند کے خیرمقدم اور ہمارے آسمان کی بادشاہی میں اٹھائے جانے کے لیے لیے اہم ہے۔ یہ ہماری آخری منزل سے متعلق ایک نازک مسئلہ ہے۔
اب بہت سے لوگ پوچھیں گے، چونکہ خُداوند یسوع مجسم خدا ہے اس نے نجات کا کام کیا ہے، اور نوع انسانی کو پہلے ہی بچا کر خدا کی طرف پھیر دیا گیا ہے، خُدا کو آخری ایام میں نوع انسانی کی نجات اور انصاف کے لیے تجسیم کی کیا ضرورت ہے؟ اس بات میں بہت گہرا مفہوم ہے۔ سادہ الفاظ میں، نوع انسانی کی نجات، اور پھر ہمارا مکمل طور پر تزکیہ کرنے اور بچانے کے لیے خدا کا دوبار مجسم ہو کر آنا تخلیق سے بہت پہلے متعین تھا انجیل میں بہت سی پیشین گوئیاں ہیں کہ خدا ابنِ آدم کے طور پر دو بار مجسم ہوکر آئے گا۔ پہلی بار، مصلوبیت کے ذریعے گناہ کے کفارے کی حیثیت سے، اس نے نجات کا کام مکمل کیا، تاکہ لوگوں کے گناہ معاف ہو جائیں، لیکن لوگوں نے گناہ سے فرار اور تقدس حاصل نہیں کیا۔ دوسری بار، سچائی کے اظہاراور فیصلے کے کام کے ذریعے، وہ پوری طرح انسانیت کا تزکیہ کرے گا، انسان کو گناہ اور شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچائےگا، ایک دور کا اختتام کرکے انسایت کو حسین منزل تک پہنچائے گا۔ لہٰذا، دو تجسم کا مقصد بنی نوع انسان کی نجات ہے اور پھر مکمل طور پر انسانیت کو بچانا۔ خدا بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے انتظامی منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے دو بار مجسم ہوا۔ آج، خدا کے فیصلے کے کام نے لوگوں کے ایک گروہ کو فتح اور بذریعہ تکمیل غالب بنا دیا ہے، خدا نے شیطان کو شکست دے کر عظمت حاصل کرلی ہے، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا نے اپنا عظیم کام مکمل کر لیا ہے۔ یہ کام ہیں خدا نے پہلے ہی کرلیے ہیں۔ اب ہم آخری ایام میں خدا کی تجسیم کی زبردست اہمیت دیکھ سکتے ہیں۔ ایک طرف، اس نے پرانے دور، فضل کے زمانے کا خاتمہ کیا، اور ایک نیا دور شروع کیا، بادشاہی کا زمانہ۔ دوسری طرف، یہ بنی نوع انسان کا مکمل تزکیہ کرتا ہے اسے بچاتا ہے، اور ایک حسین منزل پہ لے جاتا ہے۔ خلاصی اور فیصلے کا کام، دونوں ہی مجسم خدا کے ذریعے مکمل ہوتے ہیں، اس لیے خدا کی دو تجسیمیں واقعی اہمیت کی حامل ہیں۔ آج، قادرمطلق خدا نے سچ بکثرت ظاہر کیا ہے اُس نے دنیا میں ایسے عظیم کام کیے ہیں، تو پھر بھی لوگوں کی کثیر تعداد خدا کے کام کو کیوں نہیں جانتی؟ بہت سے لوگ اب بھی نہیں مانتے کہ قادرِ مطلق خدا ہی مجسم خدا ہے، مذہبی تصورات سے چمٹے رہ کر، ایمان رکھتے ہیں کہ صرف خداوند یسوع ہی خدا ہے، اورکہتے ہیں کہ انجیل پر عمل سے ہی ہم آسمانی بادشاہی پا سکتے ہیں۔ یہ کتنی احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے! ایسے بے وقوف لوگ کبھی خدا کی آواز کیسے سن سکتے ہیں؟ اور وہ قادر مطلق خدا کی اظہارکردہ تمام سچائیاں کیسے دریافت کر سکتے ہیں؟ قطعی طور پر، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں مجسم خدا کے بارے میں علم کی کمی ہے۔ وہ خدا کی آواز نہیں پہچان سکتے، لہٰذا یہ خدا کے تخت کے سامنے سرفراز نہیں ہوں گے۔ یہ جاہل لوگ، اور یہ بے عقل کنواریاں، خواہ کتنے ہی برس ایمان رکھیں کبھی خدا کی خوشنودی حا صل نہیں کر سکتے۔ اگر تم خدا کا خیرمقدم کرنا چاہتے ہو، تو مجسم خدا کا علم اور تجسیم کی حقیقت سمجھنا بہت ذیادہ ضروری ہے! پس، تجسیم درحقیقت کیا ہے؟ ہم سچے اور جھوٹے مسیحوں کے درمیان تمیز اۤخر کیسے کر سکتے ہیں؟ تو اسے قادر مطلق کے کلام سے سمجھتے ہیں۔
قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”’تجسیم‘ کا مطلب خدا کا جسم کی صورت میں ظاہر ہونا ہے؛ خدا تخلیق شدہ انسانوں کے درمیان جسمانی شبیہ میں کام کرتا ہے۔ لہٰذا خدا کی تجسیم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے لازماً جسم بنے، ایک عام انسانیت والا جسم؛ یہ سب سے بنیادی اولین شرط ہے۔ درحقیقت مجسم خدا کا مفہوم یہ ہے کہ خدا جسم میں رہتا اور کام کرتا ہے، خدا اپنے جوہر میں جسم بن جاتا ہے، ایک انسان بن جاتا ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے مسکن بنائے گئے جسم کا جوہر)۔ ”مجسم خُدا کو مسیح کہا جاتا ہے، اور مسیح وہ جسم ہے جسے خدا کی روح نے اوڑھا ہے۔ یہ جسم کسی بھی دوسرے انسانی جسم سے مختلف ہے۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ مسیح گوشت اور خون سے نہیں بنا ہے؛ وہ روح کی تجسیم ہے؛ وہ عمومی انسانییت اور مکمل الوہیت، دونوں کا حامل ہے۔ اس طرح کی الوہیت کسی بھی انسان میں نہیں پائی جاتی۔ اس کی عمومی انسانیت جسم میں اس کی تمام عام سرگرمیوں کو برقرار رکھتی ہے، جبکہ اس کی الوہیت خود خدا کا کام سرانجام دیتی ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح کا جوہر آسمانی باپ کی مرضی کی اطاعت ہے)۔ ”خدا کا مجسم ہونا مسیح کہلاتا ہے اور اس لیے وہ مسیح جو لوگوں کو سچی راہ دے سکتا ہے وہ خدا کہلاتا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کیونکہ وہ خدا کے جوہر کا مالک ہے اور وہ خدا کے مزاج اور کام میں اس کی ایسی حکمت رکھتا ہے، جو کوئی انسان حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ جو اپنے آپ کو مسیح کہتے ہیں اور پھر بھی خدا کا کام نہیں کر سکتے، دھوکے باز ہیں۔ مسیح دنیا میں خدا کا صرف مظہر نہیں ہے بلکہ وہ مخصوص جسم ہے جو خدا انسانوں کے درمیان اپنا کام کرنے اور اسے کامل کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اس جسم کی جگہ کوئی انسان نہیں لے سکتا بلکہ یہ ایسا جسم ہے جو زمین پر خدا کے کام کا بوجھ مناسب طور پر اٹھا سکتا ہے، خدا کے مزاج کا اظہار کرسکتا ہے، خدا کی بہتر نمائندگی کرسکتا ہے اور انسان کو زندگی فراہم کر سکتا ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔ خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ خدا کی روح کا انسانی جسم میں تحقق تجسیم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی روح ایک عام شخص بننے کے لیے جسم اوڑھ لیتی ہے، اور انسانی دنیا میں ظاہر ہو کے کام کرتی ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہ خدا کی روح جسم کا لباس پہن کر ابن آدم بن جاتی ہے۔ بیرونی طور پر، مجسم خدا ایک معمول کا، عام شخص ہے، جو نہ بلند رتبہ ہے اور نہ ہی غیر معمولی، جو عام لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور نقل و حمل کرتا ہے، ایک عام سی زندگی گزارتا ہے۔ وہ بھوکا ہوتو کھانے کی اور تھکا ہو تو نیند کی ضرورت ہو تی ہے، وہ عام انسانی جذبات محسوس کرتا ہے، وہ حقیقتاً انسانوں کے درمیان رہتا ہے، اور کوئی نہیں دیکھ سکتا کہ وہ عملی مجسم خدا ہے۔ اتنا معمول کا، عام شخص ہونے کے باوجود، اس میں اور تخلیق شدہ انسانوں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ وہ خدا کی تجسیم ہے اور اس کے اندر خدا کی روح ہے۔ وہ عام انسانیت کا حامل ہے، لیکن اس میں مکمل الوہیت بھی ہے، جو قابل مشاہدہ اور قابل لمس ہے۔ اس ظہور کی بنیادی وجہ یہ کہ وہ کسی بھی وقت اور مقام پر سچائی کا اظہار اور انکشاف کرسکتا ہے، وہ خدا کے مزاج کا اظہار اور توثیق کرسکتا ہے، وہ سب کچھ جو خدا رکھتا ہے اور جو وہ ہے، خدا کی سوچ خیالات، محبت، اس کی مطلق قدرت اور دانش، تاکہ تمام لوگ خدا کو جان سکیں اور اُسے سمجھ سکیں۔ وہ اَنجیل کے تمام اسرار کا انکشاف بھی کر سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس نوشتے کو کھول سکتا ہے جس کی وحی میں پیشین گوئی کی گئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے پاس مکمل الوہیت ہے۔ بیرونی طور پر، مسیح ایک عام فرد ہے، لیکن وہ سچائی کے بکثرت اظہار اور لو گو ں کو بیدارکرنے، اور بنی نوع انسان کو شیطان کے اثر سے بچانے کی قابلیت رکھتا ہے، اپنے اندر خدا کی روح کے بغیر، کوئی ایسے کام کیسے کرسکتا ہے؟ یقیناً کوئی مشہور شخصیت یا عظیم انسان ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ کوئی مشہوریا عظیم انسان سچائی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ ان میں سچائی بالکل ہے ہی نہیں، حتیٰ کہ وہ اپنا بچاؤ نہیں کرسکتے، تو بنی نوع انسان کو کیسے بچائیں گے؟ مجسم خدا سچائی کا اظہار اور انصاف کا کام کرسکتا ہے تاکہ بنی نوع انسان کا تزکیہ اور بچاؤ ہو، اور یہ ایسی قابلیتیں ہیں جو کسی انسان میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ کتاب کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے آخری ایام میں خدا کا کلام ہے، جو آخری ایام میں خدا کے فیصلے کے کام کی گواہی ہے۔ خدا کے منتخب لوگوں کو آخری ایام میں خدا کے فیصلے کے کام کا تجربہ ہوچکا ہے اور خود قادر مطلق خدا کی طرف سے سیرابی اور گلہ بانی قبول کرچکے ہیں، اور وہ سب مجسم خدا کے کام کے گہرے عملی پہلو کومحسوس کرچکے ہیں۔ خدا واقعی اور حقیقتاً لوگوں کے درمیان رہتا ہے، اور ہماری صورتِ حال کے مطابق سچائی کا اظہار کرتا ہے تاکہ ہماری حمایت اور ہم پر عنایت کریں، اور ساتھ ساتھ خدا پر ہمارے ایمان میں انحراف، غلط جستجو اور نظریات اور ہمارے شیطانی مزاج کو بے نقاب کر کے ہمیں علم اور تبدیلی سے ہم کنار کرے۔ خدا ہم سے اپنی خواہشات اور لوگوں سے تقاضوں کا بھی اظہار کرتا ہے، ہمارے حصو ل کے لیے انتہائی عملی اور درست اہداف اور عمل کے اصول فراہم کرتاہے، تاکہ ہم سچائی کی حقیقتوں میں داخل ہو سکیں، خدا کی نجات حاصل کرکے شیطان کی تاریک قوتوں سے پوری طرح بچ جائیں۔ جو کوئی بھی قادرِ مطلق خدا کی پیروی کرتا ہے اسے گہرا تجربہ ہوتا ہے مجسم خدا کی سچائی، فیصلے اور لوگوں کو سزا دینے کے لیے آمد کے بغیر، وہ اپنی گناہ گار فطرتوں کو نہیں پہچان سکتے، اور نہ ہی وہ گناہ کی غلامی اور محکومیت سے بچ سکیں گے۔ انھیں یہ بھی ادراک ہوتا ہے کہ صرف خدا کا فیصلہ اور سزا قبول کرنے سے ان کے بدعنوان مزاجوں کو پاک کیا جا سکتا ہے، صرف خدا کے راستباز مزاج کو جان کے ہی وہ خدا سے ڈر سکتےاور برائی سے بچ سکتے ہیں۔ اور صرف خُدا کے کلام کے مطابق جینا ہی حقیقی انسانی مماثلت کے مطابق جینا ہے، اور تب وہ خدا کے وعدے اور فضل حاصل کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں اور خدا کی بادشاہی پا سکتے ہیں۔ اس پر غور کریں: آخری ایام میں مجسم خدا کی آمد اور سچائی کے کثرت سےاظہار کے بغیر، کیا ہمیں زندگی میں ایک بار بچائے جانے کا یہ موقع ملے گا؟ کیا ہم خدا کا فیصلہ اُس سے سزا پانے اور اُس کی وافرنعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہوں گے؟ آخری ایام میں مجسم خدا کے بغیر، تباہی پوری انسانیت کا مقدر بن جائے گی، اور کوئی نجات نہیں پاسکے گا۔ بالکل جیسے خدا کا کلام کہتا ہے، ”اس بار، خدا روحانی جسم میں نہیں بلکہ بہت ہی عام جسم میں کام کرنے آتا ہے۔ مزید برآں، یہ نہ صرف دوسری بار مجسم ہونے والے خدا کا جسم ہے بلکہ یہ وہ جسم بھی ہے جس کے ذریعے خدا گوشت پوست کی صورت میں آتا ہے۔ یہ نہایت عام بدن ہے۔ تُو کوئی ایسی چیز نہیں دیکھ سکتا جو اسے دوسروں سے منفرد بنائے، لیکن تُو ان سنی سچائیاں اس سے حاصل کر سکتا ہے، یہ غیر معمولی جسم خدا کی جانب سے سچائی کے تمام الفاظ مجسم کرتا ہے، آخری ایام میں خدا کا کام انجام دیتا ہے اور بشر کے سمجھنے کے لیے خدا کے تمام تر مزاج کا اظہار کرتا ہے۔ کیا تُو جنت میں خدا کو دیکھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ کیا تُو جنت میں خدا کو سمجھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ کیا تُو بنی نوع انسان کی منزل دیکھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ وہ تجھے یہ تمام راز بتائے گا – وہ راز جو کوئی بشر تجھے بتانے کے قابل نہیں تھا، اور یہ تجھے وہ سچائیاں بھی بتائے گا جو تُو نہیں سمجھتا۔ وہ بادشاہی کے لیے تیرا دروازہ ہے، اور نئے دور میں تیرا راہنما۔ ایسا معمولی جسم اپنے اندر بہت سے ناقابل ادراک راز لیے ہوئے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے اعمال تیرے لیے ناقابلِ فہم ہوں لیکن اس کے انجام دیے گئے کام کا پورا مقصد تجھے یہ دیکھنے کے قابل بنانے کے لیے کافی ہے کہ وہ، جیسا کہ لوگ مانتے ہیں، کوئی معمولی جسم نہیں ہے۔ کیونکہ وہ خدا کی مرضی اور آخری ایام میں بنی نوع انسان کے لیے خدا کی نگہداشت کا اظہار ہے۔ اگرچہ تجھے اس کی باتیں آسمان و زمین ہلا دینے والی نہیں لگیں گی، اگرچہ اس کی آنکھیں آگ کے شعلے کی مانند نہیں لگیں گی اور اگرچہ تجھے اس کا نظم و ضبط لوہے کی سلاخ کی طرح سخت نہیں ملے گا، اس کے باوجود تُو اس کی باتوں سے سمجھ سکے گا کہ خدا غضب ناک ہے اور یہ جان سکے گا کہ خدا بنی نوع انسان پر رحم کر رہا ہے؛ تُو خدا کا راست باز مزاج اور حکمت دیکھ سکے گا نیز تمام بنی نوع انسان کے لیے خدا کی منشا محسوس کر سکے گا۔ آخری ایام میں خدا کا کام یہ ہو گا کہ بشر زمین پر دیگر لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے آسمان پر اسے دیکھ سکے، اسے جان سکے اور اس کی عبادت، تعریف اور اس سے محبت کر سکے۔ اسی لیے وہ مجسم ہو کر دوسری بار آیا ہے۔ اگرچہ آج بشر کو جو نظر آتا ہے وہ بشر کی طرح کا ہی خدا ہے، ایک ناک اور دو آنکھوں والا بے مثال خدا، آخر میں خدا تمھیں دکھائے گا کہ اگر اس بشر کا وجود نہ ہوتا تو زمین و آسمان ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزرتے۔ اگر یہ بشر نہ ہوتا تو آسمان مدھم پڑ جاتا، دنیا افراتفری میں غرق ہو جاتی اور تمام بنی نوع انسان قحط اور بیماریوں میں گِھر جاتی۔ وہ تمھیں دکھائے گا کہ اگر آخری ایام میں خدا تمھیں بچانے کے لیے مجسم نہ ہوتا، تو خدا بہت پہلے تمام انسانوں کو جہنم میں تباہ کر چکا ہوتا۔ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو تم ہمیشہ گناہ گار رہتے اور ہمیشہ کے لیے محض لاشیں بنے رہتے۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو تمام بنی نوع انسان کو ایک ناقابل تلافی آفت کا سامنا کرنا پڑتا اور اس سے بھی زیادہ، سخت عذاب سے بچنا ناممکن ہو جاتا جو خدا آخری ایام میں بنی نوع انسان کو دے گا۔ اگر یہ عام جسم پیدا نہ کیا جاتا تو تمھاری حالت یہ ہوتی کہ زندگی کی بھیک مانگتے لیکن جی نہ سکتے، مرنے کی دعا کرتے لیکن مر نہ سکتے؛ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو آج تم سچائی حاصل کرنے اور خدا کے عرش کے سامنے آنے کے قابل نہ ہوتے بلکہ تمھیں اپنے سنگین گناہوں کی وجہ سے خدا کی طرف سے سزا ملتی۔ کیا تمھیں پتا ہے کہ اگر خدا کی جسم میں واپسی نہ ہوتی تو کسی کو نجات کا موقع نہ ملتا اور اگر یہ جسم نہ ہوتا تو خدا بہت پہلے بڑھاپا ہی ختم کر دیتا؟ اب جب کہ ایسا ہے تو کیا تم اب بھی خدا کا دوسرا مجسم ظہور مسترد کر سکتے ہو؟ چونکہ تم اس عام انسان سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہو، تم اسے بخوشی کیوں قبول نہیں کر سکتے؟“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ کیا تجھے معلوم ہے؟ خدا نے انسانوں میں عظیم چیز کی ہے)۔
اس موقع پر، کچھ لوگ پوچھ سکتے ہیں، کہ مجسم خدا کی ظاہری شکل عام ہے اور اس کی الوہیت اس کے جسم میں پوشیدہ ہے، پس اگر خدا آ چکا ہے تو ہم اسے مجسم خدا کے طور پر کیسے پہچان سکتے ہیں؟ قادرِ مطلق خُدا کا کلام ہمیں راہ دکھاتا ہے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”وہ جو مجسم خدا ہے اس کے پاس خدا کا جوہر ہو گا، اور وہ جو مجسم خدا ہے وہ خدا کے اظہار کا مالک ہو گا۔ چونکہ خُدا جِسم بن گیا ہے تو وہ اُس کام کو سامنے لائے گا جو وہ کرنا چاہتا ہے اور چونکہ خدا جِسم ہے، اِس لیے وہ اِس بات کا اظہار کرے گا کہ وہ کیا ہے اور اِنسان تک سچائی لانے کا اہل ہو گا، اُس کو زندگی بخشے گا اور اُس کے لیے راستے کی نشاندہی کرے گا۔ وہ جسم جس میں خدا کا جوہر نہیں ہے وہ یقینی طور پر مجسم خدا نہیں ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اگر انسان یہ دریافت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ آیا یہ مجسم خدا کا جسم ہے، تو اسے اس کی تصدیق اس مزاج سے کرنی چاہیے جس کا خدا اظہار کرتا ہے اور ان کلمات سے جو وہ ادا کرتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کہ آیا یہ مجسم خدا کا جسم ہے یا نہیں، اور یہ سچا راستہ ہے یا نہیں، اس کے جوہر کی بنیاد پر امتیاز کرنا ہو گا۔ لہٰذا، آیا یہ مجسم خدا کا جسم ہے یا نہیں، یہ تعین کرنے کی کلید اس کی ظاہری شکل و صورت کی بجائے اس کے جوہر (اس کے کام، اس کے بیانات، اس کے مزاج، اور بہت سے دوسرے پہلو) میں ہے۔ اگر انسان صرف اس کی ظاہری شکل کا جائزہ لے اور نتیجتاً اس کا جوہر نظر انداز کر دے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نادان اور جاہل ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔ توخدا کے کلام سے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ، مجسم خدا کی شناخت اس کی شکل وصورت پر منحصر نہیں ہے، اور نہ ہی اس بنیاد پر کہ وہ کس خاندان میں پیدا ہوا، یا آیا اس کے پاس عہدہ یا طاقت ہے، یا مذہبی دنیا میں اس کا وقار ہے۔ یہ ان چیزوں پر منحصر نہیں۔ یہ اس بات پر مبنی ہے کہ آیا اس میں خدا کا جوہر ہے، آیا وہ سچائی کا اظہار کرسکتا ہے اور بذات خود خدا کا کام کرسکتا ہے۔ یہ سب سے اہم عنصر ہے۔ اگر وہ سچائی کا اظہاراور بنی نوع انسان کو بچانے کا کام کر سکتا ہے، پھر چاہے وہ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوا ہو اور معاشرے میں طاقت اور مرتبےسے محروم ہو، وہ خدا ہے۔ جیسا کہ فضل کے دور میں، جب خُداوند یسوع کام پر آیا، وہ ایک عام گھرانے میں پیدا ہوا، ایک چرنی میں دنیا میں آیا، وہ بلند قد یا طاقت ور جسامت نہیں رکھتا تھا اور اس کا کوئی مرتبہ یا حاکمیت نہیں تھی، پھر بھی وہ سچائی کا اظہار کر سکتا تھا، لوگوں کو توبہ کا راستہ دکھا سکتا تھا اور لوگوں کے گناہ معاف کر سکتا تھا۔ وہ جو سچائی سے محبت کرتے تھے، جیسے اُس کے حواری پطرس اور یوحنا نے، خُداوند یسوع کا کام اور سچائی دیکھی جس کا اُس نے اظہار کیا کہ اس کے پاس خدا کی طاقت اور اختیار ہے اور خداوند یسوع کو مسیحا کے طور پر پہچان لیا، پس انھوں نے اس کی پیروی کی اور خداوند کی نجات پالی۔ آج، خدا دوبارہ مجسم ہوکر انسانی دنیا میں آیا ہے، اور اگرچہ ظاہری طور پروہ ایک عام آدمی دکھائی دیتا ہے، قادرِ مطلق خُدا آخری ایام میں سچائی کا بکثرت اظہاراور فیصلے کا کام کرتا ہے۔ تمام ممالک اور مقامات پر بہت سے لوگوں نے قادر مطلق خدا کی طرف سے اظہار کردہ سچائی دیکھی، اور اس کی آواز پہچانی ہے، قادر مطلق خدا کو قبول کر کے خدا کے تخت کے سامنے اٹھائے جا چکے ہیں۔ انھوں نے خدا کے فیصلے اور سزا کا تجربہ کرنا شروع کر دیا ہے اور کچھ سچائی کو سمجھ لیا ہے۔ ان سب کے پاس شاندار تجربات اور گواہیاں ہیں، وہ بشارت کی منادی اور خدا کی گواہی کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں۔ تو تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ صرف وہی شخص، جو سچائی کا اظہار لوگوں کا فیصلہ اور تزکیہ کر سکتا ہے اور انسانیت کو مکمل طور پر بچا سکتا ہے مسیح اور مجسم خدا ہے۔ یہ ناقابل تردید ہے۔ اگر کوئی سچائی کا اظہار نہیں کر سکتا اور محض نشانیاں دکھا کر دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، یہ ایک شیطانی روح کا کام ہے: اگر وہ خود کو خدا کہتے ہیں تو وہ جھوٹے مسیح ہیں جنھوں نے خدا کا بھیس بدل رکھا ہے۔ تو مجسم خدا کو جاننے کے لیے، ہمیں اس حقیقت کا جاننا ضروری ہے: صرف مجسم خدا ہی سچ کا اظہار کر سکتا ہے اور، آخری ایام میں فیصلے کا کام کرتا ہے، اور انسانوں کو شیطانی قوتوں سے مکمل طور پر بچاتا ہے۔
قادر مطلق خدا نے سچائی کا بکثرت اظہار کیا ہے اور آخری ایام میں اتنا عظیم کام کیا ہے، پھر بھی بہت سے لوگ ان حقائق سے چشم پوشی کرلیتے ہیں، اور محض خداوند یسوع کا بادل پر واپس اۤنے کا انتظار کرتے ہیں تو ایسے لوگ آفت میں تباہ ہوتے ہوئے روئیں گے اور دانت پیسیں گے۔ یہ وحی میں پیشن گوئی کی تکمیل کرتا ہے: ”دیکھو وہ بادِلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اُسے دیکھے گی اور جنہوں نے اُسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے اور زمِین پر کے سب قبِیلے اُس کے سبب سے چھاتی پِیٹیں گے“ (مُکاشفہ 1: 7)۔ قادر مطلق خدا یہ بھی کہتا ہے، ”جب آپ یسوع کا روحانی جسم مشاہدہ کریں گے، تب خدا نئے زمین و آسمان بنائے گا“۔ اب آئیے ہم قادر مطلق خدا کے کلام میں سےاقتباس پڑھتے ہیں۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”جو لوگ مسیح کی طرف سے کہی گئی سچائی پر بھروسا کیے بغیر زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ دنیا میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز لوگ ہیں اور جو لوگ مسیح کا لایا ہوا زندگی کا راستہ قبول نہیں کرتے وہ تصورات میں کھو جاتے ہیں اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جو آخری دور کے مسیح کو قبول نہیں کرتے خدا ان سے ہمیشہ نفرت کرے گا۔ آخری دور میں مسیح بادشاہی کا دروازہ ہے اور اسے کوئی بھی نظر انداز کر کے آگے نہیں جا سکتا۔ خدا صرف مسیح کے ذریعے ہی کمال بخشے گا۔ تُو خدا پر یقین رکھتا ہے اور اس لیے تجھے اس کا کلام قبول کرنا چاہیے اور اس کے طریقے کی اطاعت کرنی چاہیے۔ تُو فقط برکت کے حصول کا تصور نہیں کر سکتا جب تک تُو سچائی اور زندگی کی فراہمی قبول کرنے کے قابل نہ ہو۔ مسیح آخری ایام میں آئے گا تاکہ وہ سب جو دل سے اس پر یقین رکھتے ہیں انھیں زندگی دی جا سکے۔ اس کا کام پرانے دور کو ختم کرنا اور نئے دور میں داخل ہونا ہے اور اس کا کام وہ راستہ ہے جو ان تمام لوگوں کو اختیار کرنا چاہیے جو نئے دور میں داخل ہوں گے۔ اگر تُو اسے تسلیم کرنے کے قابل نہیں ہے اور اس کی بجائے اس کی مذمت کرتا ہے، توہین کرتا ہے، یا حتیٰ کہ اسے ستاتا ہے تو تُو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلے گا اور خدا کی بادشاہی میں کبھی داخل نہیں ہو پائے گا کیونکہ یہ مسیح خود روح القدس اور خدا کا اظہار ہے، جسے خدا نے زمین پر اپنا کام کرنے کے لیے مقرر کیا ہے اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر تُو آخری ایام کے مسیح کی طرف سے کیے گئے تمام کام قبول نہیں کر سکتا تو تُو روح القدس کی توہین کرتا ہے۔ روح القدس کی توہین کرنے والوں سے جو بدلہ لیا جائے گا وہ سب پر واضح ہے۔ میں تجھ سے یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر تُو آخری ایام کے مسیح کی مخالفت کرے گا، اگر تُو آخری دور کے مسیح کو مسترد کرے گا، تو تیری طرف سے اس کے نتائج کوئی اور برداشت نہیں کرے گا۔ مزید برآں، اس دن سے تجھے خدا کی منشا حاصل کرنے کا ایک اور موقع نہیں ملے گا؛ خواہ تُو توبہ کرنے کی کوشش کرے، تب بھی تُو خدا کا چہرہ نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ تُو جس کی مخالفت کرے گا وہ کوئی انسان نہیں ہے جسے تُو ٹھکرا رہا ہے وہ کوئی عام فرد نہیں ہے بلکہ مسیح ہے۔ کیا تجھے معلوم ہے کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ تُو نے کوئی معمولی غلطی نہیں کی ہوگی بلکہ ایک بہت بڑا جرم کیا ہوگا اور اس لیے میں سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ سچائی پر تنقید، یا بے جا تنقید نہ کر کیونکہ صرف سچ ہی تجھے زندگی بخش سکتا ہے اور سچائی کے سوا کوئی اور چیز تجھے دوبارہ جنم لینے اور خدا کے چہرے کا مشاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟