آخری ایام میں مجسم خدا عورت کیوں ہے؟
آخری ایام میں قادر مطلق خدا کام کے لیے ظاہر ہوا اور متعدد سچائیوں کا اظہار کیا۔ انھیں اپ لوڈ کیا گیا اور ان سے دنیا میں بھونچال آ گیا، بہت سے لوگ قادر مطلق خدا کے ظہور اور کام پر تحقیق کر رہے ہیں۔ خدا کا مجسم ہو کر آنا اور سجائی کا اظہار کرنا خدا کے کلام اور خدا کے قادر مطلق ہونے کو پوری طر ح ظاہر کرتا ہے۔ صحیح راستے کی تحقیق کرتے ہوئے، بہت سے لوگ دیکھتے ہیں کہ قادر مطلق خدا کے بیان کردہ الفاظ طاقتور ہیں، کہ وہ معتبر ہیں سچ ہیں، اور خدا کی طرف سے نازل ہوئے ہیں، اور وہ قائل ہیں اور انہیں مزید کوئی شبہ نہیں ہے۔ تاہم جب وہ سنتے ہیں کہ آخری ایام کا مسیح، قادر مطلق خدا، خاتون ہے، تو بہت سے لوگ سرجھٹکتے ہیں اوراسے ماننے سے انکار کر دیتےہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب خداوند یسوع آئے تھے، تو وہ مرد تھے، روح القدس نے بھی گواہی دی تھی کہ خداوند یسوع "پیارا بیٹا" ہے، اور انجیل میں ایسے بیانات موجود ہیں، تو جب ان کی واپسی ہو گی، تو وہ یہودی خداوند یسوع کی صورت میں ایک مرد ہو گا۔ وہ قطعاً ایک خاتون نہیں ہوگا۔ قطع نظرکہ قادرمطلق خدا کتنا سچ بیان کرتا اور کتنےعظیم کام کرتا ہے، جستجواور تحقیق کا تو ذکر ہی کیا، وہ اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اوران کی دلیل یہ ہے، "اگر قادر مطلق خدا ایک مرد ہوگا، تویقین کروں گا، لیکن اگر وہ خاتون ہے، تو خواہ اۤپ کچھ بھی کہیں، میں اس پر یقین نہیں کروں گا، کیوںکہ خداوند یسوع ایک مرد تھے۔" یہی وجہ ہے کہ وہ خداوند کی واپسی پر اس کےاستقبال کا موقع گنوا کر تباہیوں میں گرجاتے ہیں، جو واقعتاً قابل رحم ہے۔ تو کیا ان مذہبی لوگوں کے بیانات اورانکے نظریات سچ پر مبنی ہیں؟ کیا وہ انجیل کی پیشین گوئی کے مطابق ہیں؟ کیا کلام خدا میں ان کی کوئی بنیاد ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ کیونکہ خداوند یسوع نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ جب وہ واپس اۤئیں گے تو وہ مرد ہوں گے یا عورت، اور روح القدس نے بھی گواہی نہیں دی کہ ابن آدم واپسی پر مرد ہوگا یا عورت۔ انجیل بھی پیشین گوئی نہیں کرتی کہ آخری ایام میں لوٹنے والا خداوند مرد ہوگا یا عورت۔ یہ ثبوت کافی ہے کہ انسانی نظریا ت اوراقوال کی انجیل میں کوئی بنیاد نہیں ہے اور یہ صرف لو گو ں کےتصورات اورتخیلات ہیں۔ بہت سے لوگ یہ پوچھتے ہیں، "کہ آخری ایام میں مجسم خدا اۤخرایک مرد ہونے کی بجائے عورت کیوں ہے؟" یہاں، میں اس سوال کے حوالے سے اپنے فہم کا اظہار کروں۔
انجیل میں ابنِ آدم کے آخری ایام میں مجسم خُدا بننے سے متعلق بہت سی پیشین گوئیاں ہیں، پراس سے واضح نہیں ہوتا کہ آخری ایام میں جب خداوند واپس آئیں گے تو وہ مرد ہوں گے یا عورت۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے "ابنِ آدمؔ کا آنا،" "اِبنِ آدمؔ آ جائے گا،" اور "اِبنِ آدمؔ اپنے دِن میں۔" آج، قادر مطلق خداکی آمد ہوچکی ہے، اس نے سچائی کا اظہار کیا ہے، اور آخری ایام میں عدالت بھی، جو ان پیشین گوئیوں کا پورا ہونا ہے۔ اس کے باوجود، لوگ یہ معلوم ہونے پر دنگ رہ جاتے ہیں کہ آخری ایام میں مسیح عورت ہے۔ یہ ہمارے تصورات پر بالکل کھرا نہیں اترتا۔ جیسا کہ یہ خداوند کی ظاہری شکل اور اس کا کام ہے، لوگوں کا اس پر تصورات رکھنا عام سی با ت ہے۔ جب خداوند یسوع کا نزول ہوا تو لوگوں میں اس سے زیادہ غلط فہمیاں تھیں۔ مگر کسی چیزپر لوگوں میں جتنے تصورات ہوں وہ چیز اتنی ہی پراسرار ہوتی ہے۔ اگر خدا یہ اسرار ظاہر نہیں کرتا ہے، تو ہم انھیں کبھی نہیں سمجھ پائیں گے۔ اس لیے، دیکھتے ہیں کہ قادر مطلق خدا اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ قادر مطلق خدا فرماتا ہے، "اگر خدا صرف بطور ایک مرد جسمانی روپ میں آیا ہوتا، تو لوگ بطور ایک مرد اس کی تشریح مَردوں کے خدا کے طور پر کرتے، اور کبھی یہ ایمان نہ رکھتے کہ وہ عورتوں کا بھی خدا ہے۔ تب مرد یہ سمجھتے کہ چونکہ خدا مردوں کا سردار ہے اس لیے خدا مردوں ہی کی صنف سے ہے، مگر پھر عورتوں کا کیا ہوگا؟ یہ ناانصافی ہے، کیا یہ ترجیحی سلوک نہیں ہے؟ اگر یہ معاملہ ہوتا، تو خدا جنہیں نجات دلاتا، وہ سب اس کی طرح مرد ہوتے، اور ایک بھی عورت نہ بچائی جاتی۔ جب خدا نے بنی نوع انسان کی تخلیق کی، تو اس نے آدم کی تخلیق کی اور اس نے حوا کو تخلیق کیا۔ اس نے صرف آدم کی تخلیق نہیں کی، بلکہ اپنی شبیہ میں نر اور مادہ دونوں کو تخلیق کیا۔ خدا صرف مردوں کا خدا نہیں ہے، وہ عورتوں کا بھی خدا ہے" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے کام کی بصیرت (3))۔ "خدا کی طرف سے کیے جانے والے کام کے ہر مرحلے کی اپنی عملی اہمیت ہوتی ہے۔ ماضی میں، جب یسوع کی آمد ہوئی، وہ مرد کی شکل میں آیا، اور اس مرتبہ جب خدا کی آمد ہوئی ہے، تو وہ عورت کی شکل میں ہے۔ اس سے، تم دیکھ سکتے ہو کہ خدا کی دونوں تخلیقات مرد اور عورت اس کے کام میں استعمال ہوسکتی ہیں، اور اس کے ہاں صنف کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ جب اس کی روح کی آمد ہوتی ہے، تو اسے جو پسند آئے، وہ وہی جسم اپنا سکتی ہے، اور وہ جسم خواہ مرد ہو یا عورت، اس کی نمائندگی کر سکتا ہے؛ وہ اس وقت تک خدا کی نمائندگی کر سکتا ہے جب تک کہ وہ خدا کے انسانی شکل کے جسم میں ہو" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کا دو مرتبہ مجسم ہونا، تجسیم کی اہمیت کی تکمیل کرتا ہے)۔ قادر مطلق خدا کے کلام میں، ہم دیکھ سکتے ہیں قطع نظر، خدا کا مجسم ہونا مرد یا عورت کی صورت میں ہوا ہے، یہ اہم ہے۔ اس میں سچائی تلاش کی جا سکتی ہے، اور یہ سچائی ہمیں خدا کی مرضی اور مزاج کو جاننے کے قابل بنا سکتی ہے۔ اگر مجسم خدا ہمیشہ مرد ہوتا، تواس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ لوگ خدا کو ہمیشہ کے لیے مرد کے طور پر محدود کرتے اور کبھی عورت نہیں سمجھتے، اور عورتیں امتیازی سلوک کا شکار اور بنیادی حقوق سے محروم ہوتیں۔ کیا یہ عورتوں کے ساتھ انصاف ہوتا؟ خدا راستباز خدا ہے، خدا نے مرد اور عورت کو بنایا، لہٰذا خدا اپنے پہلے مجسم ہونے میں مرد بنا، اور آخری ایام میں، خدا بطورعورت مجسم ہوا۔ یہ بہت اہم ہے، اور ایسی چیز جس کے لیے تمام عورتوں کو جشن منانا، اور اندیشوں سے آزاد ہونا چاہیے۔ اگر کوئی عورت اب بھی خدا کے بطور عورت مجسم ہونے کو رد کرتی اور امتیاز برتتی ہے، تو وہ عورت بہت قابل رحم ہے! درحقیقت، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خدا کا مجسم ہونا مرد یا عورت کے طور پر ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ سچائی کا اظہار کر سکتا ہے اور نجات کا کام کر سکتا ہے۔ لوگوں کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ خدا اپنے مجسم میں تبھی کام کر سکتا ہے اگر وہ مرد ہے، اور یہ کہ اگر وہ عورت ہے تو خدا کا کام نہیں کرسکتا۔ یہ ایک پسماندہ اور جاہلانہ سوچ ہے۔ آج، ہم سب نے دیکھا ہے کہ عورتیں ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر: اگر مرد ہوائی جہاز اڑا سکتے ہیں، تو عورتیں بھی اڑا سکتی ہیں۔ مرد خلاباز ہو سکتے ہیں، تو عورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ مرد صدر بن سکتے ہیں، تو عورتیں بھی بن سکتی ہیں۔ مرد کاروبار سے اپنا کریئر بنا سکتے ہیں، عورتیں بھی کاروبار سے اپنا کریئر بنا سکتی ہیں۔ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ خواتین مردوں سے کم باصلاحیت نہیں ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ خدا انسانی شکل میں صرف مرد ہو سکتا ہے، اور عورت نہیں ہوسکتا؟ قادر مطلق خدا کو دیکھیے، جس نے اتنی زیادہ سچائی ظاہر کی ہے اور اتنا زیادہ کام کیا ہے۔ کیا عورت ہونا خدا کے کام میں رکاوٹ بنا؟ آخری ایام میں قادر مطلق خدا کا عدالت کا کام خداوند یسوع کے کیے گئے کام سے بہت بڑا ہے۔ قادر مطلق خدا نے اُس سے زیادہ اور گہری سچائی کا اظہار کیا ہے جس کا اظہار خُداوند یسوع نے کیا تھا۔ حقائق سب پر عیاں ہیں، تو لوگ ان کو کیوں نہیں تسلیم کرتے؟ آج دنیا میں کتنی عورتیں مظلوم ہیں، امتیازی سلوک اور مصائب کا شکار ہیں؟ ان کا درجہ مردوں کے برابر ہونا چاہیے، اور اس سے بھی زیادہ انہیں نجات اور آزادی کی ضرورت ہے۔ ہماری خاتون ساتھیوں کی حفاظت کون کر سکتا ہے؟ آج، قادر مطلق خدا کا نزول ہوا ہے، اورانتہائی بدعنوان نوع انسانی کی عدالت کرنے کے لیے سچائی کا اظہار کیا ہے۔ بہت سی ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے دیکھا ہے کہ قادر مطلق خدا عورت کی تجسیم میں ہے، آخری ایام میں سچ ظاہراور عدالت کا کام کرتا ہے، اور اس لیےایک عورت ہونے پر فخر محسوس کرتی ہے۔ وہ اپنا سر اونچا رکھتی ہیں، ان میں آزادی کا احساس پیدا ہو گیا ہے، وہ خوشی مناتی اور قادر مطلق خدا کی تعریف کرتی ہیں۔ یہ کہ خدا کا عورت کے طور پر مجسم ھونا خدا کا راستباز مزاج ظاہر کرتا ہے۔ صرف خُدا ہی انسانوں سے سچی محبت کرتا ہے، اور خُدا ہی لوگوں سے منصفانہ سلوک کر سکتا ہے۔ خدا بہت قابل محبت ہے! اب ایک اور معاملے پر غور کرتے ہیں۔ مرد خُداوند یسوع لوگوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل تھے اور مصلوب ہو کر نجات کے کام کی تکمیل کی۔ اور اگر خُداوند یسوع عورت کے طور پر آئے ہوتے، تو کیا وہ مصلوب ہو کر نجات کے کام کی تکمیل کر پاتے؟ بے شک وہ ایسا کر سکتے تھے۔ خدا کے مجسم ہونے کا مطلب ہے کہ خدا کی روح ایک انسانی خول پہن لیتی ہے، اور اس سے قطع نظر کہ یہ خول مرد ہے یا عورت، کیونکہ وہ خود خدا ہے۔ وہ سچائی کا اظہار اور کام کرتا ہے، جو سب خدا کی روح کی طرف سے انجام اور کنٹرول کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کا مجسم بطور مرد ہے یا عورت، وہ خدا کی شناخت کی نمائندگی کرنے اور خود خدا کے کام کا اہل ہے، اور بالآخر، کام ختم ہو جائے گا اور خدا عظمت حاصل کرلے گا۔ جیسے قادر مطلق خدا فرماتا ہے۔ "یسوع جب آیا، اگر وہ بطور عورت ظاہر ہوا ہوتا، دیگر الفاظ میں، گویا لڑکے کا نہیں بلکہ ایک شیرخوار لڑکی کا حمل مقدس روح کی طرف سے ٹھہرایا گیا ہوتا، تو کام کا یہ مرحلہ اسی طرح مکمل ہوتا۔ اگر ایسا معاملہ ہوتا، تو کام کا موجودہ مرحلہ اس کی بجائے کسی مرد کو مکمل کرنا پڑتا، لیکن کام اسی طرح مکمل ہوتا۔ ہر مرحلے میں کیا جانے والا کام اپنی اہمیت رکھتا ہے؛ کام کا مرحلہ نہ تو دہرایا جاتا ہے اور نہ ہی یہ ایک دوسرے سے متصادم ہوتا ہے" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کا دو مرتبہ مجسم ہونا، تجسیم کی اہمیت کی تکمیل کرتا ہے)۔ اس کا مطلب اس سے فرق نہیں پڑتا کہ مجسم بطور مرد ہے یا عورت۔ وہ ہر اُس کام کی تکمیل کر سکتا ہے جسے خُدا انجام دینا چاہے اور نوع انسانی کو گناہوں سے بچا سکتا ہے، پھر وہ مجسم خدا ہے۔ اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا صرف مجسم مرد ہی ہو سکتا ہے، ایک عورت نہیں، تو کیا یہ خالصتاً لوگوں کے تصورات اور تخیلات کی پیداوار نہیں ہے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے مردوں کو بنایا ہے عورتوں کو نہیں؟ چونکہ خدا بطورعورت مجسم ہوا ہے، تو خواہ وہ کتنی ہی سچائی کا اظہار کرے یا عظیم کام کرے، لوگ اسے تسلیم یا قبول نہیں کرتے ہیں۔ کیا یہ خالصتاً اس لیے نہیں کہ لوگ عورتوں کو رد کرتے ہیں اور ان کےخلاف امتیازی سلوک کرتے ہیں؟ کیا یہ انسان کے بدعنوان مزاجوں میں سے نہیں؟ لوگوں کو اس بات کے انتخاب کا حق نہیں ہے کہ خدا کس شکل میں ظاہرہوتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ جب تک وہ خدا کا مجسم ہے، اور جب تک وہ سچائی کا اظہاراور خدا کا کام کرتا ہے، خواہ اس کا جسم مرد کا ہو یا عورت کا، لوگوں کو اسے تسلیم کرکے اطاعت کرنی چاہیے۔ یہی طریقہ عقل مندانہ اور معقول ہے۔ خدا قادر مطلق اور حکیم ہے، اور خدا کے خیالات انسانوں سے بالاتر ہیں۔ انسان خدا کا کام سمجھنے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟ زمانہ قدیم سے، خدا کے کام کا ہر مرحلہ انسانی تصورات سے ماورا اور اس کے برخلاف رہا ہے۔ جب خُداوند یسوع نمودار ہوئے اور کام کیا، ان کی ظاہری شکل، پیدائش اور خاندان انسانی تصورات سے حد درجہ بالا تر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فریسیوں نے انھیں وہ مسیحا تسلیم نہیں کیا جس کی پیشین گوئی کلام خدا میں کی گئی تھی اور بالآخر انھیں مصلوب کرکے کیلیں ٹھونک دیں، اور ایک گھناؤنے گناہ کے مرتکب ہوئے جس کے لیے انھیں خدا کی طرف سے سزا اور لعنت ملی۔ یہ ایک فکر انگیز سبق تھا جس کی قیمت خون سے ادا کی گئی۔ لہٰذا، ہر چیز جس میں خدا کی شکل اور کام شامل ہے ایک بڑا واقعہ اور ایک راز ہے۔ اگر لوگ سچ کی جستجو نہ کریں، اپنے تصورات سے چمٹے رہیں، اور جب فیصلہ کریں تو بہت ہلکا فیصلہ کریں، توامکان ہے وہ خدا کو برہم کریں اگر آپ کو خُدا کی طرف سے رد کیا جاتا ہے اور نجات سے محروم ہوتے ہیں، تو آپ کے لیے اس سے زیادہ افسوس ناک کچھ نہیں
آج بھی بے شمار لوگ ایسے ہیں جو آخری ایام میں خدا کا ظہور اور کام قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ عورت ہے، اور یہ جاننے کے باوجود کہ خدا کے الفاظ سچے ہیں، اسے قبول نہیں کرتے۔ یہاں پر مسئلہ کیا ہے؟ ان لوگوں کے تصورات اس قدر پکے کیوں ہیں؟ انھیں سچائی کی، اس سب سے بڑھ کر سچائی کے اظہار کی قدر کیوں نہیں ہے؟ بطور لوگ، بطور اراکین بنی نوع انسان ہم ایک تخلیق ہیں، ہمیں اپنے خالق کے اس کام سے مناسب برتاؤ کرنا چاہیے۔ اگر ہم جانتے ہیں کہ قادر مطلق خدا ہی مجسم خدا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ قادر مطلق خدا کا کلام سچ ہے، پھر بھی ہم اپنے تصورات سے چمٹے رہتے ہیں اور اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ عورت ہے، یہ تو بہت سنگین مسئلہ ہے۔ ایسا کرنا خدا سے انکار اور سرکشی ہے۔ مجسم خدا یا اس کے اظہار کردہ سچائی کو تسلیم نہ کرنا، محض تصورات و تخیلات کے مسئلے سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہ آپ کو مخالفِ مسیح، خُدا کا دشمن، اور لعنت زدہ شخص بناتا ہے! جیسا کہ کلام خدا میں درج ہے: "کیونکہ بُہت سے اَیسے گُمراہ کرنے والے دُنیا میں نِکل کھڑے ہُوئے ہیں جو یِسُوع مسِیح کے مُجسّم ہو کر آنے کا اِقرار نہیں کرتے۔ گُمراہ کرنے والا اور مُخالِفِ مسِیح یِہی ہے" (۲-یُوحنّا 1: 7)۔ "اور جو کوئی رُوح یِسُوع مسیح کا اِقرار نہ کرے وہ خُدا کی طرف سے نہیں: اور یِہی مُخالِفِ مسِیح کی رُوح ہے جِس کی خبر تُم سُن چُکے ہو کہ وہ آنے والی ہے بلکہ اب بھی دُنیا میں مَوجُود ہے" (۱-یُوحنّا 4: 3)۔ لہٰذا، ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کوئی ابنِ آدم کی واپسی قبول نہیں کرتا اور جو شخص واپس آنے والے مجسم خُدا کو تسلیم نہیں کرتا وہ مخالفِ مسیح ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ خدا واپسی پر مخالفِ مسیح کو چھوڑ دے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ مخالف مسیح لوگوں کا انجام کیا ہو گا؟ وہ کیا ہے جو مخالفِ مسیح لوگ غلط کرتے ہیں؟ وہ صرف ایک شخص کے خلاف نہیں، وہ خلاف ہیں آخری ایام کے مسیح اور خود خدا کے بھی قادر مطلق خدا کی مذمت اور نکتہ چینی کی بنیاد کیا ہے؟ یہ روح القدس کی توہین کا گناہ ہے۔ یہ گناہ کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا، نہ ہی ابھی، اور نہ ہی آئندہ۔
آج بہت سے لوگ خدا کو مانتے ہیں لیکن اُس کے کام سے آگاہ نہیں ہیں، نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ ابن آدم کون ہے، خدا کا مجسم ہونا کیا ہے، یا کون ایک سچا خدا ہے۔ اسی طرح، مجسم خدا سے سرکشی آسان ہے۔ لہٰذا، ہمیں اپنے تصورات اور تخیلات سے خدا کے کام کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں سچائی تلاش اور تصورات ترک کر دینے چاہییں۔ اسی طرح ہم خدا کی نعمتیں حاصل کر سکتے ہیں۔ خدا کی دومجسموں کے درمیان کام کی اہمیت بہت دور رس اور گہری ہے۔ یہی قادر مطلق خدا نے فرمایا ہے۔ "خدا صرف روح القدس، روح، سات گنا بڑھی ہوئی روح یا سب پر محیط روح نہیں ہے بلکہ وہ ایک انسان بھی ہے – ایک عام انسان، غیر معمولی طور پر ایک عام انسان۔ وہ صرف مرد ہی نہیں، عورت بھی ہے۔ وہ اس لحاظ سے مشابہ ہیں کہ وہ دونوں انسانوں سے پیدا ہوئے ہیں، اور اس معنیٰ میں مختلف ہیں کہ ایک روح القدس سے تولد ہوا تھا اور دوسرا انسان سے پیدا ہوا، گرچہ یہ براہ راست روح سے ماخوذ تھا۔ وہ اس لحاظ سے مشابہ ہیں کہ دونوں مجسم خدا، خدا باپ کا کام انجام دیتے ہیں، اور مختلف اس معنیٰ میں ہیں کہ ایک نے خلاصی کا کام انجام دیا جبکہ دوسرا فتح کا کام کرتا ہے۔ دونوں خدا باپ کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن ایک خلاصی دہندہ ہے، جو شفقت رحم اور مہربانی سے سرشار ہے، اور دوسرا راست بازی کا خدا ہے، جو غضب اور عدل سے پُر ہے۔ ایک خدا عظیم سالار ہے جس نے خلاصی کے کام کا آغاز کیا، جبکہ دوسرا خدا راست باز ہے جو فتح کا کام پورا کرتا ہے۔ ایک آغاز ہے، دوسرا اختتام ہے۔ ایک بے گناہ جسم ہے، جبکہ دوسرا وہ جسم ہے جو خلاصی مکمل کرتا ہے، کام جاری رکھتا ہے، اور کبھی بھی گناہ نہیں کرتا۔ دونوں ایک ہی روح ہیں، لیکن وہ مختلف جگہوں پر پیدا ہوئے ہیں اور وہ مختلف جسموں میں رہتے ہیں، اور وہ ہزاروں برس کا فاصلہ رکھتے ہیں۔ تاہم، ان کے تمام کام باہمی طور پر ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں، کبھی بھی متضاد نہیں رہے ہیں اوران کے بارے میں ایک ہی سانس میں بات کی جا سکتی ہے۔ دونوں لوگ ہیں لیکن ایک کم سن بچہ تھا اور دوسری شیر خوار لڑکی" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے بارے میں تیرا ادراک کیا ہے؟)۔ قادر مطلق خدا کے کلام سے ہم نے جانا۔ خداجب انسان کوبچانے مجسم ہو کر آتا ہے، تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ خدا مرد ہے یا عورت، وہ کس خاندان سے ہے، یا پھر وہ کیسا نظر آتا ہے۔ ان میں سے کچھ بھی اہم نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ خُدا کا کام کر سکتا ہے، خُدا کی مرضی کو پورا کر سکتا ہے، اور خُدا کی عظمت عام کرتا ہے۔ دو ہزار سال قبل خداوند یسوع یہودیہ کے ایک بہت ہی عام گھرانے میں ایک چرنی میں پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے بھی لوگوں کے تصورات تھے۔ ان سب نے خُداوند یسوع کے ناصرت کے ایک بڑھئی کا بیٹا ہونے پر انگلیاں اٹھائیں۔ اس وجہ سے ان کا کام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور نتیجے میں وہ خدا کی طرف سے ملعون ہوئے اور نجات سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آخری ایام میں قادرمطلق خدا کا نزول ہوچکا ہے۔ وہ ایک معمولی گھر میں پیدا ہوا اور اس کی شکل ایشیائی ہے۔ بظاہر، وہ ایک عام آدمی دکھائی دیتا ہے، پھر بھی وہ بہت زیادہ سچائی کا اظہار کرتا ہے، آخری ایام میں عدالت کے ساتھ تسخیر کرتا ہے اور غالب آنے والوں کا ایک گروہ بناتا ہے۔ قادر مطلق خدا نے ایسا کام کیا ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا دیا ہے، اور ہزاروں سال سے نوع انسانی کو خراب کرنے والی شیطانی تاریخ کو ختم کر کے نیا دور شروع کیا۔ کن باتوں کی بناء پر لوگ خدا کے بطورعورت، مجسم ظہور کے حوالے سے تصورات رکھتے ہیں؟ ایسے لوگ بہت زیادہ مغرور اور نامعقول ہوتے ہیں۔ آج، قادرِ مطلق خُدا کی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی پوری دنیا میں کی جاتی ہے۔ خدا کے کام کے مرحلے وسیع، قوی، اور رکاوٹ سے ماورا ہیں، اور کلام خدا ہرچیز کی تکمیل کرے گا۔ یہ خدا کے راستباز مزاج، اس کے قادر مطلق ہونے، اور حکمت کو مکمل طور پر ظاہر کرتا ہے۔ جیسے قادر مطلق خدا فرماتا ہے۔ "آخری ایام میں خدا کا سارا کام اس عام بشر کے ذریعے انجام دیا جائے گا۔ وہ تجھے سب کچھ عطا کرے گا اور اس سے بڑھ کر وہ تجھ سے متعلق ہر چیز کا فیصلہ کرنے پر قادر ہو گا۔ کیا ایسا بشر ویسا ہو سکتا ہے جیسا تم اسے مانتے ہو: اتنا سادہ بشر جس کا تذکرہ کرنا بھی ضروری نہ ہو؟ کیا فقط اس کی سچائی تمھیں مکمل قائل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ کیا اس کے اعمال کی گواہی تمھیں مکمل قائل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ یا ایسا ہے کہ جو راستہ وہ لایا ہے وہ اس لائق نہیں کہ تم اس پر چلو؟ جب سب کہہ اور کر لیا جائے تو ایسی کیا چیز ہے جو تمھیں اس سے نفرت کرنے اور اسے دور بھگانے اور اس سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ یہ وہ بشر ہے جو سچائی کا اظہار کرتا ہے، یہی وہ بشر ہے جو سچائی فراہم کرتا ہے نیز یہی وہ بشر ہے جو تمھیں پیروی کرنے کا راستہ بتاتا ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم ان سچائیوں میں خدا کے کام کا سراغ پانے سے قاصر ہو؟ یسوع کے کام کے بغیر، نوع انسانی صلیب سے نجات نہیں پا سکتی تھی لیکن آج کے مجسم ہونے کے بغیر، وہ لوگ جو صلیب سے نجات حاصل کرتے ہیں، وہ کبھی خدا کی رضا حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس عام بشر کی آمد کے بغیر، تمھیں کبھی خدا کا حقیقی چہرہ دیکھنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی تم اس کے اہل ہوتے کیونکہ تم وہ تمام چیزیں ہو جنھیں بہت پہلے فنا ہو جانا چاہیے تھا۔ خدا کے دوسری بار مجسم ہو کر آنے کی وجہ سے، خدا نے تمھیں معاف کر دیا اور تم پر رحم کیا۔ اس کے باوجود، آخر میں جو الفاظ میں تم سے کہوں گا وہ یہ ہیں: یہ عام بشر، جو خدا کا مجسم ہے، تمھارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ عظیم چیز ہے جو خدا پہلے ہی انسانوں میں کر چکا ہے" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ کیا تجھے معلوم ہے؟ خدا نے انسانوں میں عظیم چیز کی ہے)۔
"یہ حقیقت کہ تم آج کے دور تک پہنچے ہو، وہ اس جسم کی وجہ سے ہی ہے۔ تمھارے پاس بقا کا موقع اسی لیے ہے کہ خدا جسم میں رہتا ہے۔ ساری خوش قسمتی صرف اس عام بشر کی وجہ سے ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر قوم کو اس عام بشر کی عبادت کرنی چاہیے نیز اس غیر اہم انسان کا شکریہ ادا کر کے اس کی اطاعت کرنی چاہیے کیونکہ یہ سچائی، زندگی اور اس کے لائے ہوئے راستے ہیں، جس نے تمام نوع انسانی کو بچایا، بشر اور خدا کے درمیان تصفیہ کیا، ان کے درمیان فاصلہ کم کیا، اور خدا اور بشر کے درمیان ایک تعلق قائم کیا۔ یہ وہ بھی ہے جس نے خدا کے لیے عظیم تر شان حاصل کی۔ کیا ایسا عام بشر تمھارے بھروسے اور تقلید کے قابل نہیں ہے؟ کیا ایسا عام جسم مسیح کہلائے جانے کے لیے مناسب نہیں ہے؟ کیا ایسا عام فرد انسانوں کے درمیان خدا کا اظہار نہیں بن سکتا؟ کیا ایسا بشر جس نے بنی نوع انسان کو آفات سے بچایا ہے، تمھاری محبت اور تمھارے اسے تھام لینے کی خواہش کا مستحق نہیں؟ اگر تم اس کی زبان سے ادا ہونے والی سچائیاں رد کرتے ہو اور اپنے درمیان اس کے وجود سے نفرت کرتے ہو، تو آخر میں تمھارا کیا بنے گا؟" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ کیا تجھے معلوم ہے؟ خدا نے انسانوں میں عظیم چیز کی ہے)۔
"بادشاہی کے زمانے میں، خدا نئے دور میں پیشوائی کے لیے، اپنے اعمال کے ذرائع میں تبدیلی، اور پورے زمانے کا کام کرنے کے لیے کلام استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کے ذریعے خدا کلام کے زمانے میں کام کرتا ہے۔ وہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے بات کرنے کے لیے گوشت پوست کا جسم بن گیا ہے، تاکہ انسان حقیقی معنوں میں خدا کا دیدار کر سکے، وہ بدن کی شکل میں کلام ہے، تاکہ انسان اس کی دانش اور شان کا مشاہدہ کر سکے۔ ایسا کام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ انسان کو تسخیر کرنے، انسان کو کامل کرنے اور انسان کو نابود کرنے کے مقاصد بہتر طریقے سے حاصل کیے جا سکیں، جو کہ کلام کے دور کے کام میں کلام کے استعمال کا درست مفہوم ہے۔ اس کلام کے ذریعے، لوگ خدا کا کام، خدا کا مزاج، انسان کا مادّہ، اور انسان کو کس چیز میں داخل ہونا چاہیے، جان لیتے ہیں۔ کلام کے ذریعے، کلام کے زمانے میں خدا جو کام کرنا چاہتا ہے وہ مکمل طور پر بارآور کردیا جاتا ہے۔ اس کلام کے ذریعے لوگوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے، نابود کیا جاتا ہے اور آزمایا جاتا ہے۔ لوگوں نے خدا کا کلام دیکھا ہے ہیں، یہ کلام سنا ہے، اور اس کلام کا وجود پہچانا ہے۔ نتیجے کے طور پر، وہ خدا کے وجود پر، خدا کی قدرت اور حکمت کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے خدا کی محبت اور انسان کو بچانے کی خواہش پر یقین کرنے لگے ہیں۔ لفظ 'کلام' سادہ اور عام ہو سکتا ہے، لیکن مجسم خدا کے منہ سے نکلا کلام کائنات جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، وہ لوگوں کے دل بدل دیتا ہے، ان کے تصورات اور پرانے مزاج بدل دیتا ہے، اور پوری دنیا جس طرح نظر آتی تھی، اسے بدل دیتا ہے۔ زمانوں میں، صرف آج کے خدا نے اس طرح کام کیا ہے، اور صرف وہی اس طرح بولتا ہے اور انسان کو اسی طرح بچانے آتا ہے۔ اب کے بعد، انسان خدا کے کلام کی راہنمائی میں زندگی گزارتا ہے، اس کی نگہبانی کی جاتی ہے اور اسے خدا کا کلام فراہم کیا جاتا ہے۔ لوگ خدا کے کلام کی دنیا میں رہتے ہیں، خدا کے کلا م کی لعنتوں اور برکتوں کے مابین، اور حتیٰ کہ مزید لوگ ایسے ہیں جو اس کے کلام کی عدالت اور سزا کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ یہ کلام اور اس کا کام سب انسان کی نجات کے لیے، خدا کی منشا پوری کرنے کے لیے، اور پرانی تخلیق کی دنیا کی اصل شکل بدلنے کے لیے ہیں۔ خدا نے دنیا کو کلام کے ذریعے تخلیق کیا، وہ کلام کے استعمال سے پوری کائنات میں لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے، اور وہ کلام کے استعمال سے انھیں تسخیر کرتا اور بچاتا ہے۔ آخرکار، وہ پرانی دنیا ختم کرنے کے لیے کلام کا استعمال کرے گا، اس طرح اس کے انتظامی منصوبے کی مکمل تکمیل ہو گی" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ بادشاہی کا دور کلام کا دور ہے)۔
"مجھے کبھی یہوواہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مجھے مسیحا بھی کہا جاتا تھا، اور لوگوں نے ایک وقت میں مجھے پیار اور عزت کے ساتھ یسوع نجات دہندہ بھی کہا۔ تاہم، آج میں وہ یہوواہ یا یسوع نہیں ہوں جسے لوگ ماضی میں جانتے تھے، میں وہ خدا ہوں جو آخری ایام میں واپس آیا ہے، وہ خدا جو دور ختم کرے گا۔ میں خود وہ خدا ہوں جو زمین کے آخری سرے سے اٹھتا ہے، اپنے پورے مزاج سے معمور نیز اختیار، عزت اور شان سے سرشار ہوں۔ لوگ کبھی میرے ساتھ شامل نہیں ہوئے، انھوں نے مجھے کبھی نہیں جانا اور ہمیشہ میرے مزاج سے ناواقف رہے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک کسی ایک شخص نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ یہ وہ خدا ہے جو آخری ایام میں انسان پر ظاہر ہوتا ہے لیکن انسانوں کے درمیان پوشیدہ ہے۔ وہ انسان کے درمیان رہتا ہے، سچا اور حقیقی، جلتے سورج اور بھڑکتے شعلے کی طرح، طاقت سے پُر اور اختیار سے لبریز۔ کوئی بھی شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جس کی عدالت میرے کلام سے نہیں کی جائے گی، اور کوئی ایک شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جو آگ کے جلنے سے پاک نہ ہو۔ آخرکار، تمام قومیں میرے کلام کی وجہ سےنعمتیں پائیں گی اور میرے الفاظ کی وجہ سے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی۔ یوں آخری ایام میں تمام لوگ دیکھیں گے کہ میں نجات دہندہ ہوں، واپس آیا ہوں، اور یہ کہ میں ہی وہ قادرِ مطلق خدا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کو فتح کرتا ہے۔ اور سب دیکھیں گے کہ میں کبھی انسان کے لیے گناہوں کا کفارہ تھا، لیکن یہ کہ آخری دنوں میں، میں سورج کے شعلے بن جاؤں گا جو تمام چیزوں کو جلا کر خاک کردیتے ہیں اور ساتھ ہی راستبازی کا سورج ہوں جو تمام چیزوں کو منکشف کرتا ہے۔ یہ آخری ایام میں میرا کام ہے۔ میں نے یہ نام لیا ہے اور میں اس مزاج کا حامل ہوں تاکہ سب لوگ دیکھیں کہ میں ایک راست باز خدا ہوں، جلتا ہوا سورج ہوں، بھڑکتا ہوا شعلہ ہوں اور سب میری عبادت کریں جو ایک حقیقی خدا ہے۔ تاکہ وہ میرا حقیقی چہرہ دیکھ سکیں: میں نہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہوں اور میں نہ صرف خلاصی دہندہ ہوں، میں آسمانوں اور زمین اور سمندروں کی تمام مخلوقات کا خدا ہوں" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ نجات دہندہ پہلے ہی "سفید بادل" پر واپس آ چکا ہے)۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟