خدا آخری ایام میں مجسم کیوں ہوتا ہے، روحانی شکل میں کیوں نہیں؟

April 25, 2023

چونکہ قادرِ مطلق خُدا، نجات دہندہ، نے اپنے آخری ایام کے عدالت کے کام کے لیے سچائیوں کا اظہار کیا، بہت سے لوگوں نے سچے طریقے کی تلاش اور تحقیق کی ہے، اور پھر نجات دہندہ کی واپسی کا خیرمقدم کیا ہے۔ اُنہوں نے دیکھا ہے کہ قادرِ مطلق خُدا کا کلام کتنی ناقابل یقین حد تک مستند اور طاقتور ہے، کہ وہ واقعی سچ ہے، اور تصدیق کی کہ یہ روح القدس کی آواز ہے، کہ کوئی بھی عام فرد یہ الفاظ نہیں بول سکتا۔ خدا کی آواز سن کر، انہوں نے قادر مطلق خدا کو قبول کیا، خدا کے تخت کے سامنے اٹھائے گئے، اور برّہ کی شادی کی ضیافت میں شرکت کی۔ خُدا کے چنیدہ لوگ ہر روز خُدا کا کلام کھاتے، پیتے اور مزے لیتے ہیں، جو اُن کے دل زیادہ سے زیادہ منور کرتا ہے۔ وہ نہ صرف خُدا کی موجودگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، بلکہ اُس کے کلام سے آگہی حاصل کرتے ہیں، بہت ساری سچائیاں سیکھتے اور بہت سی چیزوں کا ادراک حاصل کرتے ہیں۔ وہ انجیل کے بہت سے اسرار بھی سیکھتے ہیں، جو کہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ وہ ایمان سے لبریز ہیں اور خدا کے لیے ان کی محبت گہری ہو گئی ہے۔ خدا کے چنے ہوئے بہت سے لوگ چینی کمیونسٹ پارٹی کے جبر، گرفتاریوں اور ظلم و ستم کے سامنے بے خوف ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں اور دنیاوی رشتوں کو پیچھے چھوڑتے ہیں، خُدا کی گواہی کے لیے خوشخبری کا اشتراک کرنے کے فرض کے پابند ہیں۔ وہ CCP کی وحشیانہ گرفتاریوں اور ظلم وجور کا شکار ہیں، لیکن بہادری، بے خوفی سے خدا کی پیروی کرتے اور اس کی گواہی دینا جاری رکھتے ہیں۔ انہیں شکست نہیں ہوئی، اور وہ یقیناً ختم نہیں ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے خُدا کے لیے بڑی گونجدار گواہی دی ہے۔ قادرِ مطلق خُدا کی بادشاہی کی خوشخبری اب زمین پر ہر ملک میں پھیل چکی ہے، اور ان میں سے بہت سوں میں قادرِ مطلق خُدا کی کیلسیا قائم کی گئی ہیں۔ خدا کی آواز سن کر زیادہ سے زیادہ لوگ قادرِ مطلق خدا کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ قادرِ مطلق خُدا کے کام کی آن لائن تحقیق کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ خُداوند یسوع کی پیشینگوئی کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے: ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا(متّی 24: 27)۔ جیسا کہ قادرِ مطلق خُدا کا کلام کہتا ہے: ”میں پوری کائنات میں اپنا کام کر رہا ہوں، اور مشرق میں تمام قوموں اور فرقوں کو لرزہ براندام کر دینے والی گرج چمک کے ساتھ یہ لامتناہی طور پر جاری ہے۔ یہ میری آواز ہے جو تمام لوگوں کو حال میں لے آئی ہے۔ میں اپنی آواز سے تمام لوگوں کو فتح کرنے، اس دھارے میں شامل ہونے، اور میرے حضور سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرتا ہوں، کیونکہ میں نے طویل عرصہ پہلے تمام روئے زمین پر اپنا جلال دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اسے مشرق میں نئے سرے سے جاری کیا ہے۔ کون ہے جو میرا جلال دیکھنے کی تمنا نہیں کرتا؟ کون ہے جسے بے چینی سے میری واپسی کا انتظار نہیں؟ کون ہے جو میرےدوبارہ ظہور کا پیاسا نہیں ہے؟ کون ہے جو میری دلکشی کو یاد نہیں کرتا؟ کون ہے جو روشنی میں نہیں آئے گا؟ کنعان کی دولت کون نہیں دیکھے گا؟ کون ہے جو نجات دہندہ کی واپسی کی خواہش نہیں کرتا؟ کون اس کی پرستش نہیں کرتا جو قدرت میں عظیم ہے؟ میری آواز تمام روئے زمین پر پھیل جائے گی۔ میں اپنے منتخب لوگوں کا سامنا کروں گا اور ان سے مزید الفاظ کہوں گا۔ پہاڑوں اور دریاؤں کو ہلادینے والی زبردست گھن گرج کی طرح، میں اپنی باتیں پوری کائنات اور بنی نوع انسان سے کہتا ہوں۔ لہٰذا میرے الفاظ انسان کا خزانہ بن گئے ہیں اور تمام انسان میرے الفاظ عزیز رکھتے ہیں۔ بجلی مشرق سے مغرب تک پوری طرح چمک رہی ہے۔ میرے الفاظ ایسے ہیں کہ انسان انہیں ترک کرنے سے متنفر ہے اور ساتھ ہی ان کو ناقابل فہم پاتا ہے لیکن ان تمام چیزوں سے اور زیادہ مسرور ہوتا ہے۔ تمام لوگ خوش اور مسرور ہیں، میری آمد کا جشن منا رہے ہیں، گویا ابھی ابھی کوئی بچہ پیدا ہوا ہو۔ میں اپنی آواز کے وسیلے سے سب انسانوں کو اپنے سامنے لاؤں گا۔ اس کے بعد سے میں باضابطہ طور پر نسل انسانی میں شامل ہو جاؤں گا تاکہ وہ میری عبادت کرنے آئیں۔ میں اپنے درخشاں جلال اور اپنےمنہ کے الفاظ کے ساتھ، اسے ایسا بناؤں گا کہ تمام لوگ میرے سامنے آئیں اور دیکھیں کہ بجلی مشرق سے چمکتی ہے اور یہ کہ میں مشرق کے ’جبل زیتون‘ پر بھی اتر آیا ہوں۔ وہ دیکھیں گے کہ میں پہلے ہی زمین پر طویل عرصے سے ہوں، اب یہودیوں کے بیٹے کی حیثیت سے نہیں بلکہ مشرق کی بجلی کی حیثیت سے۔ کیونکہ مجھے دوبارہ زندہ ہوئے بہت وقت ہو چکا ہے اورمیں بنی نوع انسان کے درمیان سے چلا گیا تھا، اور جلال کے ساتھ لوگوں کے درمیان دوبارہ ظاہر ہوا ہوں۔ وہ میں ہی ہوں جس کی اب سے پہلے بے شمار ادوارسے پرستش کی جاتی تھی، میں وہ شیرخوار بچہ بھی ہوں جسے بنی اسرائیل نےاب سے بے شمار ادوار پہلے چھوڑ دیا تھا۔ مزید برآں، میں موجودہ دور کا عظیم الشان قادر مطلق خدا ہوں! سب میرے تخت کے سامنے آئیں اور میرا جلالی چہرہ دیکھیں، میری آواز سنیں اور میرے کام دیکھیں۔ یہ میری منشاکی کُلیّت ہے۔ یہ میرے منصوبے اور ساتھ ہی ساتھ میرے انتظام کے مقصد کا اختتام اور عروج ہے: ہر قوم میری عبادت کرے، ہر زبان مجھے تسلیم کرے، ہر انسان مجھ پر ایمان لائے، اور ہر قوم میرے تابع ہو!(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ سات گرج دار آوازیں – نبوت کر رہی ہیں کہ بادشاہی کی خُوشخبری پوری کائنات میں پھیل جائے گی)۔

قادرِ مطلق خُدا کا کلام، ایک عظیم نور کی طرح، پہلے ہی مشرق سے مغرب تک پھیل چکا ہے۔ ہر ملک سے خدا کے چنیدہ لوگ خوشخبری کی منادی کرتے، اس کی گواہی دیتے ہیں، اور شیطان کو پہلے ہی شکست دینے اور تمام عظمت حاصل کر لینے پر خوشی سے خدا کی حمد کرتے ہیں۔ نجات دہندہ قادرِ مطلق خُدا آفات سے پہلے، ظاہر ہوا اور کام کرنے لگا ہے، اور اُس نے غالبین کا ایک گروہ بنایا ہے۔ اُس کی بادشاہی کی خوشخبری ہر قوم میں پھیل چکی ہے، اور آفات اسی کے مطابق پیچھے آئیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خُدا کے گھر سے شروع ہونے والا عدالت کا کام پہلے ہی ایک بڑی کامیابی تھی، اور اس کے بعد، خدا اس دنیا کی عدالت کرنے اور عذاب دینے کے لیے ہر طرح کی آفات کا استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ آفات بادشاہی کی خوشخبری کو پھیلانے میں مدد کرتی ہیں، تاکہ زیادہ لوگوں کو گناہ اور شیطانی قوتوں سے بچایا جا سکے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ خدا سزا دینے اور اس تاریک، برے دور کا خاتمہ اور خدا کی مخالف، تمام بری طاقتوں کا صفایا کرنے کے لیے آفات استعمال کرتا ہے۔ یہ وہ نتیجہ ہے جوآخری ایام میں خُدا کی عدالت کا کام لائے گا۔ قادرِ مطلق خُدا، نجات دہندہ نے بہت سی سچائیوں کا اظہار کیا، عظیم کام کیا، اور اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن مذہبی دنیا میں بہت سے لوگ اب بھی بڑے لال اژدہے، CCP کی طرف سے گمراہ کیے جاتے ہیں، اور اب بھی مذہب کے اندر مسیح مخالف قوتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اس خیال سے چپکے ہوئے ہیں کہ خداوند کو روح کی شکل میں بادل پر اترنا چاہیے، کہ وہ ممکنہ طور پر بطور ابن آدم جسم میں واپس نہیں آ سکتا تھا۔ اس لیے انہیں یقین ہے کہ جو بھی بادل پر نہیں آتا، وہ جھوٹا ہے، کہ کوئی بھی گواہی کہ وہ ابنِ آدم ہے جھوٹی ہے، کہ یہ صرف انسان پر ایمان ہے۔ نہ صرف وہ کلیسیاؤں کے لیے روح القدس کے کلام کی تلاش اور تحقیق کرنے، یا خدا کی آواز، ڈھونڈنے اور سننے میں ناکام رہتے ہیں، مگر وہ مذہبی مسیح مخالفین کی پیروی کرتے ہیں، مستقل طور پرتنقید، مذمت، اور قادر مطلق خدا کے ظہور اور کام کی توہین کرتے ہوئے۔ اِسی لیے اُنہوں نے ابھی تک خُداوند کا استقبال نہیں کیا ہے، لیکن آفات میں گرپڑےہیں، روتے اور دانت پیستے ہیں، اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ زندہ رہیں گے یا مر جائیں گے۔ بہت سے لوگوں کا سوال ہے۔ خُداوند یسوع اپنے جی اُٹھنے کے بعد چالیس دن تک روحانی شکل میں ظاہر رہا، اس لیے اسے روح کی شکل میں واپس آنا چاہیے۔ قادرِ مطلق خُدا روح کے بجائے مجسم ابن آدم کے طور پر کیوں ظاہر ہوگا؟ لہٰذا بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں، اور بہت سے لوگ قادرِ مطلق خدا کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ جسم میں ہے، روح میں نہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے! وہ نجات کا اپنا واحد موقع گنوا رہے ہیں، جس کا انہیں ابد تک افسوس رہے گا۔ آگے میں سوال کو حل کرنے کے لیے تھوڑی سی رفاقت کا اشتراک کروں گا کہ آخری ایام میں خدا روح کے بجائے جسم میں کیوں ظاہر ہوتا ہے۔

اولاً، خداوند کے آخری ایام میں ظہور اور کام کرنےکے بارے میں، ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ خداوند یسوع اپنا کام انجام دینے کے لیے آخری دنوں میں بطور ابن آدم جسم میں دنیا میں واپس آئے گا۔ اس کی بنیاد خداوند یسوع کی منہ کی متعدد پیشین گوئیوں پر مبنی ہے، نہ کہ کسی انسان کی طرف سے طے شدہ۔ چاہے خُداوند اصل میں روح کی شکل میں واپس آئے یا بطور ابن آدم مجسم شکل میں خدا کی طرف سے بہت پہلے سے مقدر کر دیا گیا تھا، اور اس میں کوئی انسانی انتخاب نہیں ہے۔ بحیثیت انسان، ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ اطاعت کریں، ہم اپنے گمانوں اور تصورات کی بنیاد پر چیزوں کو محدود نہ کریں۔ درحقیقت، اگر خدا کی پہلے سے طے شدہ ظہور کی شکل انسانی تصورات کے مطابق نہیں بھی ہوتی، تو یہ بہترین ہے، اور ہماری نجات کے لیے سب سے زیادہ بامعنی اور فائدہ مند بھی۔ یہ غلط نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنے تخیل کی بنیاد پر اس سے رجوع نہیں کر سکتے۔ ہمیں لازماً عقلمند کنواریاں بننا چاہیے، بے وقوف نہیں۔ خداوند کے ظہور کو خوش آمدید کہنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ لوگ بادل پر اترنے والے خداوند کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول کرنے سے انکار، مجسم ابن آدم کو رد کرتے ہوئے اپنی حد بندیوں کے مطابق چلنے سے انکار کرسکتے ہیں۔ اس رویے کے نتائج کیا ہیں؟ وہ یقیناً آفات میں گر پڑیں گے اور اپنی ہی بربادی کو دعوت دیتے ہوئے سزا پائیں گے۔ اگر ہم عقلمند کنواریاں ہیں، ہمیں وہی کرنا چاہئے جیسا کہ خداوند چاہتا ہے، خداوند کے استقبال کے لئے خدا کی آواز کو تلاش کرنا اور سننا چاہئے، خوشی سے قبول کرنا اور اس کے تابع ہونا چاہے وہ کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہو، نہ کہ اپنے لیے انتخاب کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ، ہم بے وقوف کنواریاں بن جائیں گی، تباہی میں گرتے، روتے اور اپنے دانت پیستے ہوئے۔ تو آخری ایام میں واقعی کیا ہوتا ہے؟ کیا خدا روح کی شکل میں واپس آتا ہے، یا بطور ابن آدم؟ پہلے، آئیے اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ آیا خدا کی روح کے ساتھ بات چیت کرنا آسان ہے، یا ابن آدم کے ساتھ۔ کیا اس کے لیے روح کے ذریعے ہم سے بات کرنا آسان ہے، یا جسم کے ذریعے؟ اکثر لوگ جواب دیں گے کہ ابن آدم کے لیے دونوں لحاظ سے آسان ہے۔ یہ درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ظاہر ہوا اور فضل کے دور میں کام کیا تو خُدا جسم بن گیا۔ خُداوند یسوع ابنِ آدم تھا۔ وہ بنی نوع انسان کے درمیان رہا، کھاتے پیتے اور ہمارے ساتھ رہتے ہوئے۔ بہت سے لوگ خُداوند کی پیروی کرتے، رفاقت کرتے، بولتے اور اُس کے ساتھ تعامل کرتے تھے۔ یہ مکمل طور پر آزادانہ اور آسان تھا، بغیر کسی پابندی یا حد بندی کے۔ ان سب نے خداوند یسوع کے جمال کا مشاہدہ کیا۔ خداوند کی طرف سے سیرابی، دستگیری، اور معاونت پانے والے، لوگ بہت سی سچائیاں سیکھنے کے قابل تھے۔ خداوند کے بہت سی سچائیاں بیان کرنے کے بعد، اسے صلیب پر میخوں سے جڑدیا گیا تھا، بنی نوع انسان کا کفارہ گناہ بن گیا۔ خُداوند یسوع کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کر کے، اعتراف اور توبہ کرکے کوئی بھی اپنے گناہ معاف کرا سکتا ہے۔ تب وہ اپنے گناہوں کی معافی اور خُدا کی طرف سے عطا کردہ فضل کے سکون اور خوشی سے مستفیذ ہو سکتے تھے۔ خداوند کے مصلوب ہونے، دوبارہ زندہ ہونے اور پھر اس کے آسمان پر چڑھنے کے بعد، زیادہ سے زیادہ لوگوں نے اس کی خوش خبری کا اشتراک شروع کر دیا، یسوع مسیح کے بطور نجات دہندہ، خدا کے ظہور کی گواہی دینے لگے۔ خُداوند یسوع کی خوشخبری بہت پہلے دنیا کے ہر ملک میں پہنچ گئی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خُدا ابن آدم کے طور پر جسم بن کر بنی نوع انسان کو چھڑانے اور بچانے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر ہےَ۔ لوگ خدا کی روح دیکھ سکتے اور نہ ہی چھو سکتے ہیں – وہ اس کے ساتھ اس طرح تبادلہ خیال نہیں کر سکتے۔ ہم خُدا کی روح کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے۔ جب خُدا کی روح بولتی ہے تو سب خوف سے کانپتے ہیں۔ ہم اس طرح بات چیت کیسے کر سکتے ہیں؟ مزید برآں، خدا کی روح کو مصلوب کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ جس چیز کو لوگ دیکھ یا چھو نہیں سکتے اسے مصلوب کیسے کیا جا سکتا ہے، ٹھیک ہے؟ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کے لیے ابن آدم کے طور پر کام کرنا بہتر ہے۔ خُدا کی تقدیس اُس وقت ہوئی جب خُداوند یسوع نے بنی نوع انسان کو چھڑانے کے لیے اپنا کام مکمل کیا۔ یہ سب کے دیکھنے کے لیے واضح ہے۔ ہم خداوند یسوع کے کام کے حقائق سے یقین کر سکتے ہیں، کہ نوع انسانی کو بچانے کے لیے خدا کے کام میں، خواہ وہ اُس کا خلاصی کا کام ہو یا آخری ایام کا عدالت کا کام، ابن آدم کے طور پر مجسم ہونا سب سے بڑھ کر موزوں ہے۔ جس کے بہترین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ نیز، خُدا کا آخری ایام میں ابنِ آدم کے طور پر مجسم ہونا خداوند یسوع کی پیشین گوئیوں کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے: ”ابن آدم کا آنا،“ ”اِبنِ آدمؔ آ جائے گا،“ اور ”ابن آدم اپنے دن میں۔“ جو لوگ انجیل کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ خداوند کے الفاظ پورے ہو چکے ہیں۔ تو کیوں بہت سارے لوگ ابنِ آدم کے ظاہر ہونے اور کام کرنے کے بارے میں تصورات سے چمٹے رہتے ہیں؟ کیوں بہت سے لوگ اب بھی اصرار کرتے ہیں کہ خداوند روح کی شکل میں بادل پر اترے گا؟ یہ واقعی احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔ خُدا ظاہر ہوتا ہے اور ابنِ آدم کے طور پرعاجز اور پوشیدہ رہ کرکام کرتا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ یہ سب سے زیادہ موثر ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ ہم خُدا کے مزاج کو دیکھ سکیں، اور اُس کی عاجزی اور پوشیدگی کتنی پیاری ہے۔ خدا بنی نوع انسان سے بطور ابن آدم براہ راست ملاقات کرتا ہے، ہمارے ساتھ روبرو، کھاتا، پیتا اور ہمارے ساتھ رہتا ہے، ہماری سیرابی، گلہ بانی، اور ہمیں بچانے کے لیے سچائی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ خدا کی عظیم محبت ہے! لوگ یہ کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ جیسا کہ قادر مطلق خدا کا فرمان ہے: ”انسان کو بچانے کا کام خدا براہ راست روح کے طریقہ کار اور روح کی شناخت استعمال کرتے ہوئے نہیں کرتا، کیونکہ اس کی روح کو انسان نہ توچھو سکتا ہے اور نہ ہی دیکھ سکتا ہے، نہ انسان قریب جا سکتا ہے۔ اگر اس نے روح کے تناظر کو استعمال کرتے ہوئے براہ راست انسان کو بچانے کی کوشش کی تو انسان اس کی نجات کے حصول کے قابل نہیں ہوگا۔ اگر خُدا نے ایک تخلیق شدہ انسان کی ظاہری شکل نہ اپنائی تو انسان کے لیے یہ نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ انسان کے پاس اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اسی طرح جیسے کہ کوئی بھی یہوواہ کے بادل کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ صرف ایک تخلیق شدہ انسان بننے سے، یعنی صرف اپنا کلام گوشت پوست کے جسم میں ڈالنے سے، جو کہ وہ بننے والا ہے، وہ ذاتی طور پر ان تمام لوگوں پر کلام سے عمل کر سکتا ہے، جو اس کی پیروی کرتے ہیں۔ صرف اس وقت ہی انسان ذاتی طور پر اس کا کلام دیکھ اور سن سکتا ہے، مزید برآں اس کے الفاظ کے تصرف میں داخل ہوسکتا ہے، اور اس طریقے سے وہ مکمل طور پر بچایا جا سکتا ہے۔ اگر خُدا جسم نہ بنتا تو گوشت اور خون سے بنے انسانوں میں سے کوئی بھی ایسی عظیم نجات حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی ایک شخص بھی بچایا جا سکتا۔ اگر خُدا کی روح براہِ راست بنی نوع انسان کے درمیان کام کرتی تو تمام انسانیت ہلاک ہو جاتی، یا پھر خُدا کے ساتھ رابطے کا کا کوئی طریقہ نہ ہونے کے باعث وہ مکمل طور پر شیطان کے اسیر ہو جاتی۔ ۔۔۔ خدا صرف گوشت پوست کا جسم بن کر ہی انسانوں کے ہمراہ زندگی گزار سکتا ہے، دنیاوی مصائب کا تجربہ کرسکتا ہےاور گوشت پوست کے عام جسم میں زندہ رہ سکتا ہے۔ صرف اسی طریقے سے وہ انسانوں کو عملی طریقہ فراہم کرسکتا ہے جس کی تخلیق شدہ انسانوں کی حیثیت سے انھیں ضرورت ہے۔ انسان آسمان کی طرف سے براہ راست یا اپنی دعاؤں کے جواب میں نہیں، بلکہ مجسم خدا کے ذریعے ہی خدا کی طرف سے مکمل نجات حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ گوشت اور خون کا ہونے کی وجہ سے انسان کے پاس خدا کی روح کو دیکھنے کا طریقہ نہیں ہوتا، اور اس کی روح تک پہنچنے کا امکان تو اور بھی دور کی بات ہے۔ انسان جس سے رابطہ کر سکتا ہے وہ صرف مجسم خدا کا جسم ہے، اور صرف اسی ذریعے سےانسان تمام طریقے اور تمام حقائق دیکھ سکتا ہے اور مکمل نجات حاصل کر سکتا ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔ ”بدعنوان انسان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل وہ کام ہے جو درست الفاظ اور حصول کے لیے واضح اہداف فراہم کرے اور جسے دیکھا اور چھوا جا سکے۔ صرف حقیقت پسندانہ کام اور بروقت راہنمائی ہی انسان کے ذوق کے مطابق ہوتی ہے اور صرف حقیقی کام ہی انسان کو اس کے بدعنوان اور بدچلن مزاج سے بچا سکتا ہے۔ یہ صرف مجسم خدا کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے؛ صرف مجسم خدا ہی انسان کو اس کے سابقہ بدعنوان اور برے مزاج سے بچا سکتا ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ بدعنوان بنی نوع انسان کو مجسم خدا کی نجات کی زیادہ ضرورت ہے)۔

قادر مطلق خدا کا کلام بہت واضح ہے۔ صرف اس کے آخری ایام کے عدالت کے کام کے لیے جسم بن کر کیا خدا انسانوں کی مکمل تطہیرکر سکتا اور بچا سکتا ہے، اور ہمیں ایک خوبصورت منزل کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ہم نے قادر مطلق خدا کو اپنے درمیان، اپنے ساتھ رہتے ہوئے بذات خود دیکھا ہے۔ سچائی پر رفاقت کرنے اور عملی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ دستیاب۔ وہ اپنا کلام لکھ کراور ہمیں سچائی فراہم کر کے بنی نوع انسان کی بدعنوانی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ہم حقیقی طور پر خدا کے کلام سے مستفیذ ہوتے اور ہماری روحیں آزاد ہوتی ہیں۔ جب خُدا ہمارے ساتھ سچائی کی رفاقت کرتا ہے، تو ہم اُس سے سوالات کر سکتے ہیں، اور وہ صبر سے جواب دیتا ہے۔ قادرِ مطلق خُدا بنی نوع انسان کے درمیان رہتا ہے، ہمارے ساتھ بات کرتا اور رفاقت کرتا ہے۔ ہمارا ہر لفظ، ہمارا ہر اشارہ، یہاں تک کہ ہمارا ہر خیال سب کچھ خدا کے لیے اس دن کی طرح واضح ہے، عین اس کی آنکھوں کے سامنے۔ وہ کسی بھی وقت یا جگہ سچائیوں کا اظہار کر سکتا ہے، ہمارے شیطانی مزاجوں اور اس کے بارے میں ہمارے گمانوں اور تصورات کو اجاگر کرنا، ہمارے عقیدے میں غلطیوں اور پیروی کے بارے میں ہمارے غلط نقطہ نظر کو درست کر سکتا ہے۔ اس طرح خدا جسم میں ذاتی طور پر ہمیں سیراب کرتا اور ہماری گلہ بانی کرتا ہے، روبرو ہمیں تعلیم دیتا اور مدد کرتا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک شاندار، دل کو گرما دینے والا تجربہ ہے۔ خدا ناقابل یقین حد تک پیارا اور قابل رسائی ہے۔ ہم خُدا کے ان گنت خوبصورت پہلوؤں کو دیکھتے ہیں اور اپنے دلوں کی تہہ سے اُس سے پیار کرتے ہیں۔ مسیح بہت ساری سچائیوں کا اظہار کرتے ہیں اور اتنا بڑا کام کر رہے ہیں، لیکن وہ بہت ہی عاجز اور پوشیدہ ہے، کبھی شیخی نہیں بھگارتا اور نہ ہی اپنے آپ کو خدا کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہم سے انتہائی بے تکلفی اور گرم جوشی سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، کبھی کسی کو اپنی بات سننے پر مجبور نہیں کرتے۔ مسیح میں تکبر یا گھمنڈ کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مسیح کے الفاظ قابل بھروسہ ہیں، جھوٹ، دکھاوے اور چالوں سے پاک۔ وہ ہمارے ساتھ خاندان کے افراد جیسا برتاؤ کرتا ہے، ہمارے ساتھ خلوص سے بات چیت کرتا اور گپ شپ لگاتا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت دل خوش کر دینے والا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مسیح کی انسانیت میں کوئی بدعنوانی نہیں ہے۔ اس کے پاس عام انسانیت ہے – ایک مہربان، مقدس انسانیت۔ مسیح ہماری تربیت، معاونت اور رہنمائی کے لیے کہیں بھی، کسی بھی وقت سچائی کا اظہار کر سکتا ہے۔ ہم اس سے بھی زیادہ یقین رکھتے ہیں کہ مسیح نہ صرف عام انسانیت بلکہ ایک الوہی جوہر کا بھی کا حامل ہے۔ وہ واقعی خدا کا ظہور ہے، جسم میں عملی خدا۔ اب تک مسیح کی پیروی کرتے ہوئے، ہم جانتے ہیں کہ مسیح ہی سچائی، طریقہ اور زندگی ہے۔ مسیح کے علاوہ، کوئی مشہور یا عظیم لوگ سچائی کا اظہار کر سکتے اور نہ بنی نوع انسان کو بچا سکتے ہیں۔ خدا کی مجسم صورت میں، ہم بہت کچھ دیکھتے ہیں جو خدا کے پاس تھا اور ہے۔ ہم مسیح کا الوہی جوہر دیکھتے ہیں، اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کا مزاج مقدس اور راستباز ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خدا کتنا حلیم اور پوشیدہ ہے، اور یہ کہ وہ نہایت مہربان اور خوبصورت ہے۔ یہ ہمیں خدا کے قریب لاتا، اس کا تابع بناتا اور اس سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ نوع انسانی کو بچانے کے لیے جسم میں خُدا کا کام بہت بامعنی ہے۔ یہ نہ صرف خدا اور انسان کے درمیان فاصلے کو ختم کرتا ہے، بلکہ یہ ہمیں خدا کے بارے میں عملی علم اور سمجھ حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ خدا کے عملی کام کی بدولت ہے کہ ہم بتدریج سچائی کو سمجھیں اور حقیقت میں داخل ہوں، اپنے آپ کو بہت سے بدعنوان مزاجوں سے چھٹکارا دلائیں، جیسے تکبر اور دھوکہ دہی سے۔ ہم ایک حقیقی انسانیت سے مشابہت والی زندگی گزاریں اور خدا کی نجات کا فضل حاصل کریں۔ آخری ایام کے قادرِ مطلق خُدا کے کام کی بدولت، ہمیں بہت گہرا احساس ہوتا ہے۔ جسم میں خدا کا کام کتنا عملی، کتنا حقیقی ہے! اگر خدا مجسم نہ بنا ہوتا، تو ہم خدا کی طرف سے ایسی ٹھوس سیرابی اور رزق حاصل کرنے کے کبھی بھی قابل نہیں ہوتے۔ چہ جائیکہ ہم سچائی کو سمجھ اور حاصل کر پاتے، گناہ کو ترک کر پاتے، اور خدا کی طرف سے مکمل طور پر بچا لیے جاتے۔ یہ صرف جسم میں اپنا عدالت کا کام انجام دینے والے خدا کی طرف سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تو اب سب کو واضح دیکھنا چاہیے کہ مکمل طور پر نوع انسانی کو پاک کرنے اور نجات کی خاطر خدا آخری ایام میں جسم بن جاتا ہے، سچائی کااظہار اور اپنا عدالت کا کام کرتا ہے۔ اگر خدا نے ظاہر ہونا اور روح میں کام کرنا تھا، تو ہم، خراب لوگوں کے پاس، سچائی کو سمجھنے اور اسے حاصل کرنے کا موقع نہ ہوتا، اور ہم کبھی بھی اپنی بدعنوانی سے جان چھڑانے اور خدا کی نجات پانے کے قابل نہ ہوتے۔ اس میں شک کا شائبہ تک نہیں۔ اور تسلیم کرتے ہیں کہ قادر مطلق خدا کے کلام میں اختیار اور طاقت ہے، اور تسلیم کرتے ہیں کہ قادر مطلق خدا کے کلام میں اختیار اور طاقت ہے، لیکن چونکہ وہ ابن آدم ہے جس کی ظاہری شکل حسب معمول اور عام سی ہے، وہ قادر مطلق خدا پر تنقید اور اس کی مذمت کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ایک آدمی ہے، خدا نہیں۔ حتیٰ کہ وہ قادر مطلق خدا کی ظاہری شکل اور کام کی دیوانہ وار مزاحمت، مذمت اورتوہین کرتے ہیں۔ ہم یہ سوچے بنا نہیں رہ سکتے کہ 2000 سال قبل، جب خداوند یسوع کام کرنے کے لیے آیا تھا۔ چونکہ خُداوند یسوع کی شکل عام سی تھی، اس لیے فریسیوں نے اُس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے وہ صرف ایک عام آدمی ہو، اور اُس پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ”کیا یہ ناصری نہیں ہے؟“ ”کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں ہے؟“ چاہے اس نے کتنی ہی سچائی کا اظہار کیا، اس نے کتنے بڑے معجزات دکھائے، مگر فریسیوں نے اسکی تلاش کی اور نہ ہی اسے قبول کیا۔ اس کے بجائے، اُنہوں نے خُداوند یسوع پر تنقید اور اُس کی مذمت کی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ بدروحوں کے شہزادے کی مدد سے بدروحوں کو نکال رہا تھا، اور بالآخر اسے صلیب پر میخوں سے جڑ دیا، سب سے گھناؤنا گناہ کیا۔ وہ خدا کی طرف سے لعنت اور سزا یافتہ تھے۔ خدا اب ظاہر ہوا ہے اور دو بار ابن آدم کے طور پر جسم میں کام کیا ہے۔ تو لوگ اسے کیوں نہیں پہچانتے، بلکہ مسیح کی مخالفت، مذمت، اور اسے مسترد کرتے ہیں؟ وہ کہاں غلطی کر رہے ہیں؟ یہ اس لیے ہے کہ وہ صرف باہر کی حالت دیکھتے ہیں، کہ مسیح ایک عام شخص کی طرح نظر آتا ہے۔ وہ تحقیق نہیں کرتے، اور وہ ان تمام سچائیوں کوتسلیم نہیں کرتے جن کا مسیح اظہار کرتے ہیں۔ وہ مسیح کے الوہی جوہر کو نہیں دیکھ پاتے، بلکہ صرف اپنے انسانی تصورات کی وجہ سے مسیح سے لڑتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس لیے انہیں اس کی سزا دی اور لعنت کی جاتی ہے۔ انجیل کہتی ہے، ”جو بیٹے پر اِیمان لاتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زِندگی کو نہ دیکھے گا بلکہ اُس پر خُدا کا غَضب رہتا ہے(یُوحنّا 3: 36)۔ جو بھی سچائی کا اظہارکرنے والے ابنِ آدم کی مذمت اور مزاحمت کرتا ہے وہ روح القدس کی توہین کے گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے، اور اس دنیا یا آخرت میں معاف نہیں کیا جا سکتا۔ عقلمند کنواریوں کو لازماً سچائی تلاش کرنا اور خدا کی آواز پر دھیان دینا سیکھنا چاہیے۔ آخری ایام میں خُداوند کی واپسی بطور ابنِ آدم ہے، بولتا اور کام کرتا ہوا۔ اسے قبول کرنے والے وہ ہیں جو سچائی سے محبت کرتے ہیں۔ جو لوگ ابن آدم کو مسترد کرتے، اس کی مزاحمت کرتے اور مذمت کرتے ہیں وہ سب سچائی کو حقیر جانتے ہیں۔ خدا ہر ایک کو ابن آدم کے ظاہری شکل اور کام کی بدولت ظاہر کرتا ہے کہ وہ کیا ہیں۔ یہ خدا کی حکمت ہے، اور یہ اس کی قدرت کاملہ ظاہر کرتا ہے۔

آخر میں، آئیے خدا کے کلام کے چند اقتباسات پر نظر ڈالتے ہیں۔

قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”اس بار، خدا روحانی جسم میں نہیں بلکہ بہت ہی عام جسم میں کام کرنے آتا ہے۔ مزید برآں، یہ نہ صرف دوسری بار مجسم ہونے والے خدا کا جسم ہے بلکہ یہ وہ جسم بھی ہے جس کے ذریعے خدا گوشت پوست کی صورت میں آتا ہے۔ یہ نہایت عام بدن ہے۔ تُو کوئی ایسی چیز نہیں دیکھ سکتا جو اسے دوسروں سے منفرد بنائے، لیکن تُو ان سنی سچائیاں اس سے حاصل کر سکتا ہے، یہ غیر معمولی جسم خدا کی جانب سے سچائی کے تمام الفاظ مجسم کرتا ہے، آخری ایام میں خدا کا کام انجام دیتا ہے اور بشر کے سمجھنے کے لیے خدا کے تمام تر مزاج کا اظہار کرتا ہے۔ کیا تُو جنت میں خدا کو دیکھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ کیا تُو جنت میں خدا کو سمجھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ کیا تُو بنی نوع انسان کی منزل دیکھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ وہ تجھے یہ تمام راز بتائے گا – وہ راز جو کوئی بشر تجھے بتانے کے قابل نہیں تھا، اور یہ تجھے وہ سچائیاں بھی بتائے گا جو تُو نہیں سمجھتا۔ وہ بادشاہی کے لیے تیرا دروازہ ہے، اور نئے دور میں تیرا راہنما۔ ایسا معمولی جسم اپنے اندر بہت سے ناقابل ادراک راز لیے ہوئے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے اعمال تیرے لیے ناقابلِ فہم ہوں لیکن اس کے انجام دیے گئے کام کا پورا مقصد تجھے یہ دیکھنے کے قابل بنانے کے لیے کافی ہے کہ وہ، جیسا کہ لوگ مانتے ہیں، کوئی معمولی جسم نہیں ہے۔ کیونکہ وہ خدا کی مرضی اور آخری ایام میں بنی نوع انسان کے لیے خدا کی نگہداشت کا اظہار ہے۔ اگرچہ تجھے اس کی باتیں آسمان و زمین ہلا دینے والی نہیں لگیں گی، اگرچہ اس کی آنکھیں آگ کے شعلے کی مانند نہیں لگیں گی اور اگرچہ تجھے اس کا نظم و ضبط لوہے کی سلاخ کی طرح سخت نہیں ملے گا، اس کے باوجود تُو اس کی باتوں سے سمجھ سکے گا کہ خدا غضب ناک ہے اور یہ جان سکے گا کہ خدا بنی نوع انسان پر رحم کر رہا ہے؛ تُو خدا کا راست باز مزاج اور حکمت دیکھ سکے گا نیز تمام بنی نوع انسان کے لیے خدا کی منشا محسوس کر سکے گا۔ آخری ایام میں خدا کا کام یہ ہو گا کہ بشر زمین پر دیگر لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے آسمان پر اسے دیکھ سکے، اسے جان سکے اور اس کی عبادت، تعریف اور اس سے محبت کر سکے۔ اسی لیے وہ مجسم ہو کر دوسری بار آیا ہے۔ اگرچہ آج بشر کو جو نظر آتا ہے وہ بشر کی طرح کا ہی خدا ہے، ایک ناک اور دو آنکھوں والا بے مثال خدا، آخر میں خدا تمھیں دکھائے گا کہ اگر اس بشر کا وجود نہ ہوتا تو زمین و آسمان ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزرتے۔ اگر یہ بشر نہ ہوتا تو آسمان مدھم پڑ جاتا، دنیا افراتفری میں غرق ہو جاتی اور تمام بنی نوع انسان قحط اور بیماریوں میں گِھر جاتی۔ وہ تمھیں دکھائے گا کہ اگر آخری ایام میں خدا تمھیں بچانے کے لیے مجسم نہ ہوتا، تو خدا بہت پہلے تمام انسانوں کو جہنم میں تباہ کر چکا ہوتا۔ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو تم ہمیشہ گناہ گار رہتے اور ہمیشہ کے لیے محض لاشیں بنے رہتے۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو تمام بنی نوع انسان کو ایک ناقابل تلافی آفت کا سامنا کرنا پڑتا اور اس سے بھی زیادہ، سخت عذاب سے بچنا ناممکن ہو جاتا جو خدا آخری ایام میں بنی نوع انسان کو دے گا۔ اگر یہ عام جسم پیدا نہ کیا جاتا تو تمھاری حالت یہ ہوتی کہ زندگی کی بھیک مانگتے لیکن جی نہ سکتے، مرنے کی دعا کرتے لیکن مر نہ سکتے؛ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو آج تم سچائی حاصل کرنے اور خدا کے عرش کے سامنے آنے کے قابل نہ ہوتے بلکہ تمھیں اپنے سنگین گناہوں کی وجہ سے خدا کی طرف سے سزا ملتی۔ کیا تمھیں پتا ہے کہ اگر خدا کی جسم میں واپسی نہ ہوتی تو کسی کو نجات کا موقع نہ ملتا اور اگر یہ جسم نہ ہوتا تو خدا بہت پہلے بڑھاپا ہی ختم کر دیتا؟ اب جب کہ ایسا ہے تو کیا تم اب بھی خدا کا دوسرا مجسم ظہور مسترد کر سکتے ہو؟ چونکہ تم اس عام انسان سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہو، تم اسے بخوشی کیوں قبول نہیں کر سکتے؟(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ کیا تجھے معلوم ہے؟ خدا نے انسانوں میں عظیم چیز کی ہے)۔

آخری ایام میں خدا کا سارا کام اس عام بشر کے ذریعے انجام دیا جائے گا۔ وہ تجھے سب کچھ عطا کرے گا اور اس سے بڑھ کر وہ تجھ سے متعلق ہر چیز کا فیصلہ کرنے پر قادر ہو گا۔ کیا ایسا بشر ویسا ہو سکتا ہے جیسا تم اسے مانتے ہو: اتنا سادہ بشر جس کا تذکرہ کرنا بھی ضروری نہ ہو؟ کیا فقط اس کی سچائی تمھیں مکمل قائل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ کیا اس کے اعمال کی گواہی تمھیں مکمل قائل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ یا ایسا ہے کہ جو راستہ وہ لایا ہے وہ اس لائق نہیں کہ تم اس پر چلو؟ جب سب کہہ اور کر لیا جائے تو ایسی کیا چیز ہے جو تمھیں اس سے نفرت کرنے اور اسے دور بھگانے اور اس سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ یہ وہ بشر ہے جو سچائی کا اظہار کرتا ہے، یہی وہ بشر ہے جو سچائی فراہم کرتا ہے نیز یہی وہ بشر ہے جو تمھیں پیروی کرنے کا راستہ بتاتا ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم ان سچائیوں میں خدا کے کام کا سراغ پانے سے قاصر ہو؟ یسوع کے کام کے بغیر، نوع انسانی صلیب سے نجات نہیں پا سکتی تھی لیکن آج کے مجسم ہونے کے بغیر، وہ لوگ جو صلیب سے نجات حاصل کرتے ہیں، وہ کبھی خدا کی رضا حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس عام بشر کی آمد کے بغیر، تمھیں کبھی خدا کا حقیقی چہرہ دیکھنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی تم اس کے اہل ہوتے کیونکہ تم وہ تمام چیزیں ہو جنھیں بہت پہلے فنا ہو جانا چاہیے تھا۔ خدا کے دوسری بار مجسم ہو کر آنے کی وجہ سے، خدا نے تمھیں معاف کر دیا اور تم پر رحم کیا۔ اس کے باوجود، آخر میں جو الفاظ میں تم سے کہوں گا وہ یہ ہیں: یہ عام بشر، جو خدا کا مجسم ہے، تمھارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ عظیم چیز ہے جو خدا پہلے ہی انسانوں میں کر چکا ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ کیا تجھے معلوم ہے؟ خدا نے انسانوں میں عظیم چیز کی ہے)۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

کیا نظریہ تثلیث قابل دفاع ہے؟

جب سے مجسم خداوند یسوع نے زمانہ فضل کا کام کیا، 2،000 سال تک، تمام مسیحیت نے ایک حقیقی خدا کو "تثلیث" کے طور پر بیان کیا۔ انجیل میں چونکہ...

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp