خداوند یسوع نے صلیب پر جب ”تمام ہُؤا“ کہا تو اس کا حقیقی مطلب کیا تھا؟

April 25, 2023

خدا وند پر ایمان رکھنے والوں کا خیال ہے کہ خداوند یسوع نے صلیب پر جب ”تمام ہُؤا“ کہا، تو وہ کہہ رہا تھا کہ خدا کا بنی نوع انسان کو بچانے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ لہٰذا سب یقین کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ جب خداوند واپس لوٹے گا، اس کے پاس کرنے کو نجات کا مزید کوئی کام نہیں ہوگا، لیکن وہ تمام ایمان والوں کو اٹھا کر خداوند سے ملانے کے لیے آسمان پر لے جائے گا، ہمیں جنت میں لے جائے گا، اور بس قصہ تمام ہو جائے گا۔ خداوند پر ایمان رکھنے والے بس اسی پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے زیادہ لوگ ہمیشہ آسمان کو تکتے رہتے ہیں، بے پرواہی سے انتظار کرتے ہوئے کہ خداوند انہیں سیدھا اوپر اپنی بادشاہی میں لے جائے۔ لیکن اب عظیم آفتیں آ چکی ہیں اور بیشتر نے خدا کی آمد کا نظارہ نہیں کیا ہے، لہٰذا ان کا ایمان زائل ہو رہا ہے اور وہ خود کو بے حوصلہ محسوس کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض شکوک تک رکھتے ہیں کہ: کیا خداوند کا وعدہ واقعی حقیقی بھی تھا؟ کیا وہ آ رہا ہے یا نہیں؟ درحقیقت، خداوند یسوع طویل عرصہ پہلے بطور ابن آدم رازداری سے واپس آیا تھا۔ اور بہت سی سچائیوں کا اظہار کرتے ہوئے اور عدالت کے کام کا خدا کے گھر سے آغاز کرتے ہوئے۔ لیکن زیادہ تر لوگ خدا کی آواز سننے یا کلیساؤں کے لیے روح القدس کے الفاظ سننے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اور وہ اس تمام عرصے میں یہ فرض کرتے رہے ہیں کہ خدا وند کو انہیں آسمان میں لے جانے کے لیے بادل پر ہی آنا پڑے گا، پس وہ خداوند کے خیرمقدم کا موقع گنوا رہے ہیں۔ یہ عمر بھر کا پچھتاوا ہو گا۔ ہوسکتا ہے اس کا اس سے بہت قریبی تعلق ہو کہ کہ لوگ صلیب پر خداوند یسوع کے الفاظ کی کیسے تشریح کرتے ہیں: ”تمام ہُؤا۔

آئیے اس کے ساتھ آغاز کریں۔ بہت سے ایمان رکھنے والے یہ کیوں سوچتے ہیں کہ خداوند یسوع کےقول ”تمام ہُؤا“ کا مطلب تھا کہ خدا کا بنی نوع انسان کو بچانے کا کام مکمل ہوا؟ کیا اس کا انجیل میں کوئی جواز ہے؟ کیا یہ روح القدس کی جانب سے تصدیق شدہ ہے؟ کیا خداوند نے کبھی کہا کہ وہ بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے مزید کوئی کام نہیں کرے گا؟ کیا روح القدس نے گواہی دی ہےکہ یہ الفاظ خدا کی جانب سے اپنے نجات کے کام کی تکمیل کا حوالہ دے رہے ہیں؟ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں: نہیں۔ تو پھر، ہر کوئی خداوند یسوع کے اِن الفاظ کی یہ تشریح کیوں کرتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا نجات کا کام تب مکمل ہوگیا تھا؟ یہ قدرے مضحکہ خیز ہے، ہے ناں؟ خدا کا کلام سمجھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ 2 پطرس 1: 20 میں یہ کہا گیا ہے، ”اور پہلے یہ جان لو کہ کِتابِ مُقدّس کی کِسی نبُوّت کی بات کی تاوِیل کِسی کے ذاتی اِختیار پر مَوقُوف نہیں۔“ کتاب مقدس کی من مانی تشریح کرنے کے نتائج بہت سنگین ہیں۔ فریسیوں کا سوچو – انھوں نے مسیح کے بارے میں پیشنگوئیوں کی من مانی تشریح کی، اور نتیجے کے طور پر، مسیح کی آمد ہوئی، اور انہوں نے دیکھا کہ خداوند یسوع ان کی تشریحات پر پورا نہیں اترتا۔ پس انہوں نے اس کے کام کی مذمت کی اور حتیٰ کہ اسے مصلوب کر ڈالا۔ انہوں نے نہایت سنگین نتائج بھگتے۔ یہ براہ راست ان پر خداوند یسوع کی طرف سے لعنت کا باعث بنا۔ وہ ملعون ہو گئے!

جب خداوند یسوع نے صلیب پر ”تمام ہُؤا“ کہا تھا، وہ کس بارے میں بات کر رہا تھا؟ یہ سمجھنے کے لیے آخری ایام میں خداوند کی واپسی کے بارے میں انجیل کی پیشنگوئیوں اور آسمان کی بادشاہی کے حوالے سے ان کی تمثیلات پر احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہے، خصوصاً ان چیزوں پر جن کے بارے میں خداوند یسوع نے بذات خود کہا تھا کہ وہ کرے گا۔ یہ چیزیں آخری ایام میں اس کے کام سے براہ راست جڑی ہوئی ہیں۔ جب اس نے صلیب پر یہ کہا تھا، تو خداوند یسوع حقیقتاً کیا بات کر رہا تھا، اس بارے میں درست طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں ان پیشنگوئیوں اور تمثیلات کی بنیادی سمجھ ہونی چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر ہم اسے پوری طرح نہیں بھی سمجھتے، یہ فرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کا بنی نوع انسان کو بچانے کا کام پوری طرح انجام پا چکا ہے۔ یہ ایک من مانا، مضحکہ خیز عقیدہ ہے۔ درحقیقت، اگر ہم آسمان کی بادشاہی کے لیے خداوند یسوع کی پیشین گوئیوں اور تمثیلوں پر سنجیدگی سے غور کریں، ہم اس کی واپسی پر بادشاہی اور خداوندکے کام کی بنیادی سمجھ حاصل کر سکتے ہیں۔ تب ہم اُس کے بیان، ”تمام ہُؤا“ کی غلط تشریح نہیں کریں گے۔ خداوند یسوع نے پیشنگوئی کی تھی: ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا(یُوحنّا 16: 12-13)۔ ”اگر کوئی میری باتیں سُن کر اُن پر عمل نہ کرے تو مَیں اُس کو مُجرِم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دُنیا کو مُجرِم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہُوں۔ جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخِری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا(یُوحنّا 12: 47-48)۔ ”کیونکہ باپ کِسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کِیا ہے۔ ۔۔۔ بلکہ اُسے عدالت کرنے کا بھی اِختیار بخشا۔ اِس لِئے کہ وہ آدمؔ زاد ہے(یُوحنّا 5: 22، 27)۔ اور 1 پطرس میں یہ کہتا ہے: ”کیونکہ وہ وقت آ پُہنچا ہے کہ خُدا کے گھر سے عدالت شرُوع ہو(۱-پطرؔس 4: 17)۔ مکاشفے میں ہم دیکھتے ہیں: ”دیکھ۔ یہُوداؔہ کے قبِیلہ کا وہ بَبر جو داؤُد کی اصل ہے اُس کِتاب اور اُس کی ساتوں مُہروں کو کھولنے کے لِئے غالِب آیا(مُکاشفہ 5: 5)۔ ”جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے(مُکاشفہ 2: 7)۔ خداوند یسوع نے آسمان کی بادشاہی کی وضاحت کے لیے بہت سی تمثیلات بھی استعمال کی تھیں، مثلاً ”ھر آسمان کی بادشاہی اُس بڑے جال کی مانِند ہے جو دریا میں ڈالا گیا اور اُس نے ہر قِسم کی مچھلِیاں سمیٹ لِیں۔ اور جب بھر گیا تو اُسے کنارے پر کھینچ لائے اور بَیٹھ کر اچّھی اچّھی تو برتنوں میں جمع کر لِیں اور جو خراب تِھیں پَھینک دِیں۔ دُنیا کے آخِر میں اَیسا ہی ہو گا۔ فرِشتے نِکلیں گے اور شرِیروں کو راست بازوں سے جُدا کریں گے اور اُن کو آگ کی بھٹّی میں ڈال دیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہو گا(متّی 13: 47-50)۔ ہم ان پیشنگوئیوں اور تمثیلات سے دیکھ سکتے ہیں کہ خداوند یسوع نے کہا تھا کہ جب وہ واپس آئے گا تو وہ بہت سا کام کرے گا۔ لیکن اس کا سب سے اہم حصہ سچائی کا اظہار کرنا اور عدالت کا کام کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ تمام سچائیوں میں داخل ہوں گے اور پھر ان کی نوعیت کے مطابق سب کی چھانٹی کریں گے۔ جو کامل ہو سکتے ہیں وہ ہو جائیں گے اور جن کو ختم کرنا ضروری ہے وہ ختم کر دیے جائیں گے۔ اس سے ان سب باتوں کا مکمل ادراک ہو جائے گا جو خداوند یسوع نے بادشاہی کے بارے میں کہی تھیں۔ گیہوں اور کڑوے دانوں، ماہی گیری کے جال، عقلمند اور بے وقوف کنواریوں، بھیڑوں اور بکریوں، اور اچھے اور برے خادموں کا سوچو۔ خدا کے گھر سے شروع ہونے والا عدالت کا کام گندم کو کڑوے دانوں سے، اچھے خادموں کو برے خادموں سے، جو سچائی سے محبت کرتے ہیں، صرف آرام کی طلب رکھنے والوں سے الگ کرے گا۔ عقلمند کنواریاں میمنے کی شادی کی دعوت میں شرکت کریں گی اور خدا کی طرف سے کامل ہوں گی۔ بے وقوف کنواریوں کا کیا ہو گا؟ وہ روتے ہوئے اور دانت پیستے ہوئے، آفتوں میں گریں گے، کیونکہ انہوں نے خدا کی آواز پر کان نہیں دھرے تھے۔ یہ سب کی ان کی نوعیت کے مطابق چھانٹی کرنے، اچھے کو جزا دینے اور برے کو سزا دینے کے لیے عدالت کا کام ہے، اور یہ مکاشفے میں اس پیشین گوئی کو مکمل طور پر پورا کرے گا: ”جو بُرائی کرتا ہے وہ بُرائی ہی کرتا جائے اور جو نجِس ہے وہ نجِس ہی ہوتا جائے اور جو راست باز ہے وہ راست بازی ہی کرتا جائے اور جو پاک ہے وہ پاک ہی ہوتا جائے(مُکاشفہ 22: 11)۔ ”دیکھ مَیں جلد آنے والا ہُوں اور ہر ایک کے کام کے مُوافِق دینے کے لِئے اَجر میرے پاس ہے(مُکاشفہ 22: 12)۔ جب ہم واقعی سمجھ سکتے ہیں کہ خداوند یسوع کی پیشن گوئیاں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آخری ایام میں خُداوند کا آنا بنیادی طور پر سچائی کا اظہار کرنے اور عدالت کا کام کرنے، ہر ایک کی ان کی نوعیت کے مطابق چھانٹی اور ان کے انجام کا تعین کرنے کے لیے ہے۔ تو کیا ہم واقعی یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ جب خداوند یسوع نے صلیب پر کہا ”تمام ہُؤا“، تووہ کہہ رہے تھے کہ خدا کا انسانوں کو بچانے کا کام مکمل ہو گیا؟ کیا ہم احمقانہ انداز میں آسمان کی طرف دیکھتے رہیں گے، خداوند یسوع کے بادل پر اترنے، اور ہمیں اپنے ساتھ ملاقات کے لیے آسمان پر لے جانے کا انتظار کرتے رہیں گے؟ کیا ہم اب بھی سرسری انداز میں ان تمام سچائیوں کی مذمت کریں گے جن کا خُدا نے اپنے آخری ایام کا کام کرتے ہوئے اظہار کیا تھا؟ کیا ہم ڈھٹائی سے انکار کریں گے کہ خُداوند آخری ایام کا عدالت کا کام کرنے کے لیے ابنِ آدم کے طور پر جسم میں واپس آچکا ہے، عظیم آفتیں پہلے ہی آچکی ہیں، اور بہت سے مذہبی لوگ ابھی تک خداوند کی واپسی کے خوابوں میں کھوئے ہوئے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ انہیں کبھی نکال باہر نہیں کرے گا۔ یہ جاگ جانے کا وقت ہے۔ اگر وہ بیدار نہ ہوئے تو آفتوں کے ختم ہو جانے اور قادر مطلق خدا کے کھلے عام تمام لوگوں پر ظاہر ہونے کے بعد، خدا نئے سرے سے آسمان اور زمین بنائے گا، اور مذہبی دنیا کے وہ تمام لوگ رو رہے ہوں گے اور دانت پیس رہے ہوں گے۔ اس سے مکاشفے میں موجود یہ پیشنگوئی پوری ہو جائے گی: ”دیکھو وہ بادِلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اُسے دیکھے گی اور جنہوں نے اُسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے اور زمِین پر کے سب قبِیلے اُس کے سبب سے چھاتی پِیٹیں گے(مُکاشفہ 1: 7)۔

بہت سے لازماً پوچھیں گے جب خداوند یسوع نے صلیب پر ”تمام ہُؤا“ کہا تھا، تو اس کا حقیقتاً کیا مطلب تھا۔ یہ درحقیقت بہت سادہ بات ہے۔ خداوند یسوع کے الفاظ ہمیشہ بہت حقیقت پسندانہ ہوتے تھے، تو جب اس نے یہ کہا وہ یقینی طور پر اپنےخلاصی کے کام کا حوالہ دے رہا تھا۔ لیکن لوگ خداوند کے ان عملی الفاظ کو انسان کو بچانے کے لیے خدا کے کام سے متعلق سمجھنے پر اصرار کرتے ہیں، لیکن یہ مکمل طور پر من مانی ہے، کیونکہ خدا نے بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے اپنا کام صرف جزوی طور پر مکمل کیا تھا۔ سب سے نازک مرحلہ اب بھی باقی تھا – یعنی آخری ایام میں اس کا عدالت کا کام۔ آپ کیوں اس پر قائم رہیں گے کہ ”تمام ہُؤا“ ہے کا مطلب یہ تھا کہ خدا کا نجات کا کام انجام پاچکا تھا؟ کیا یہ کسی حد تک مضحکہ خیز اور غیر معقول نہیں ہے؟ اول تو یہ کہ خداوند یسوع کو مصلوب کیوں کیا گیا تھا؟ انہوں نے اس کےذریعے دراصل کیا حاصل کیا؟ نتیجہ کیا نکلا؟ تمام ایمان والے یہ جانتے ہیں، کیوں کہ اسے انجیل میں بہت عمدگی سے دستاویز بند کیا گیا ہے۔ خداوند یسوع بنی نوع انسان کی نجات کے لیے آیا تھا۔ مصلوب ہونے کے ذریعے، خداوند یسوع نےگناہوں کے کفارے کے طور پر بنی نوع انسان کی خدمت کی، سب کے گناہ لے لیے تاکہ لوگوں کو قانون کے تحت اسیری اور موت کی سزا مزید نہ بھگتنی پڑے۔ تب لوگ اپنے گناہ معاف کروا سکتے، جب تک کہ وہ خداوند پر یقین رکھتے اور اس سے دعا اور اعتراف کرتے، اور خدا کی طرف سے زبردست فضل سے لطف اندوز ہوتے۔ یہ نجات فضل کی بدولت ہے، اور یہ وہی ہے جو خداوند یسوع کے نجات کے کام نے حاصل کیا۔ اگرچہ ہمارے گناہ ہمارے ایمان کے باعث معاف کر دیے گئے تھے، کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہم ہمہ وقت گناہ سے باز نہیں رہ سکتے۔ ہم گناہ کرنے، اعتراف کرنے، اور دوبارہ گناہ کرنے کے ایک دائرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم نے گناہ سے ہرگز چھٹکارہ نہیں پایا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہماری فطرت اب بھی گناہ سے بھرپور ہے، اور ہم شیطانی مزاج رکھتے ہیں، پس ہم اپنے گناہ معاف کیے جانے کے بعد گناہ جاری رکھنے کے مسئلے پر قابو نہیں پا سکتے۔ اس سے سب ایمان والے خسارے میں رہتے ہیں، یہ ایک انتہائی تکلیف دہ چیز ہے۔ خدا کاکلام کہتا ہے، ”اِس لِئے تُم مُقدّس ہونا کیونکہ مَیں قُدُّوس ہُوں(احبار 11: 45)۔ خدا راست باز اور پاک ہے، چناں چہ کوئی بھی ناپاک شخص اسے نہیں دیکھ سکتا۔ پس وہ لوگ جو ہمیشہ گناہ اور خدا کی سرکشی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں، کیسے خدا کی بادشاہی میں داخلے کے اہل ہوں گے؟ جیسا کہ لوگ ابھی تک گناہ سے پیچھا چھڑانے اور پاکیزہ بننے سے قاصر ہیں، کیا خدا کا بنی نوع انسان کو بچانے کا کام واقعی ختم ہو سکتا ہے؟ خدا کی نجات مکمل نجات ہو گی۔ وہ اپنا کام آدھے راستے میں ترک نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند یسوع نے اپنی واپسی کی کئی بار پیشنگوئی کی تھی۔ وہ کافی عرصہ پہلے بطور مجسم قادر مطلق خدا آخری ایام میں واپس آچکے ہیں۔ قادر مطلق خدا، خداوند کے نجات کے کام کی بنیاد پر عدالت کا کام کرنے کے لیے سچائیوں کا اظہار کرچکا ہے۔ یہ ہمارے بدعنوان مزاج والی بنی نوع انسان کو پاک کرنے کے لیے ہے تاکہ ہمیں گناہ کی بیڑیوں سے آزادی دلائی جا سکے۔ یہ ہمیں شیطان کی قوتوں سے مکمل طور پر بچانا اور بالآخر ہمیں خدا کی بادشاہی میں لے جانا ہے۔ یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ آخری ایام کے بارے میں قادر مطلق خدا کا عدالت کا کام مکمل نہ ہو جائے کہ خدا کا بنی نوع انسان کو بچانے کا کام ختم ہو جائے گا۔

قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”اگرچہ یسوع نے انسانوں کے درمیان بہت زیادہ کام کیا، مگراس نے صرف تمام بنی نوع انسان کی خلاصی مکمل کی اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اس نے انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں دلایا۔ انسان کو شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچانے کے لیے نہ صرف یسوع کو گناہ کا کفارہ بننے اور انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خدا انسان کو اس کے شیطانی بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے اس سے بھی بڑا کام کرے۔ اور اس طرح، اب جب کہ انسان کو اس کے گناہوں سے معافی مل گئی ہے تو خدا انسان کو نئے دورمیں لے جانے کے لیے جسم میں واپس آیا ہے اور اس نے سزا اور عدالت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کام نے انسان کو ایک بلند تر عالم میں پہنچا دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کے تسلط کے تابع ہوں گے وہ اعلیٰ سچائی سے لطف اندوز ہوں گے اور عظیم نعمتیں حاصل کریں گے۔ ان کو واقعی روشنی میں رہنا چاہیے، اور سچائی، راستہ اور زندگی حاصل کرنی چاہیے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔

فیصلے اور سزا کے اس کام سے انسان اپنی ذات کی اندرونی غلاظت اور بدعنوان اصلیت کو پوری طرح جان لے گا اور وہ پوری طرح تبدیل ہونے اور پاک صاف ہو نے کے قابل ہو جائے گا۔ صرف اسی طرح انسان خدا کے تخت کے سامنے واپس آنے کے لائق بن سکتا ہے۔ اس دن کے تمام کام اس لیے کیے جاتے ہیں کہ انسان کو صاف ستھرا بنایا جائے اور بدلا جائے؛ کلام کے ذریعے فیصلے اور سزا کے ساتھ ساتھ تزکیے کے ذریعے انسان اپنی بدعنوانی دور کر سکتا ہے اور اسے پاکیزہ بنایا جاسکتا ہے۔ کام کے اس مرحلے کو نجات کا مرحلہ سمجھنے کی بجائے، یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ تزکیے کا کام ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔

سزا اور عدالت کے خدا کے کام کا مقصد بنیادی طور پر نوع انسانی کو پاکیزہ بنانا ہے، حتمی سکون کی خاطر؛ اس طرح کی صفائی کے بغیر، نوع انسانی میں سے کسی کی بھی اپنی قسم کے مطابق مختلف زمروں میں درجہ بندی نہیں کی جا سکتی تھی یا سکون میں داخل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ کام سکون میں داخل ہونے کے لیے نوع انسانی کا واحد راستہ ہے۔ صرف خدا کا پاکیزہ بنانے کا کام ہی انسانوں کو ان کی برائی سے پاک کرے گا اور صرف اس کا سزا اور عدالت کا کام ہی نوع انسانی کے ان نافرمان عناصر کو روشنی میں لائے گا، اس طرح بچائے جانے والے لوگوں کو نہ بچائے جا سکنے والے لوگوں سے الگ کر دے گا۔ اور باقی رہ جانے والے لوگوں کو باقی نہ رہ جانے والے لوگوں سے الگ کر دے گا۔ جب یہ کام ختم ہو جائے گا تو وہ لوگ جنھیں رہنے کی اجازت دی جائے گی وہ سب پاک صاف ہو جائیں گے اور نوع انسانی کی ایک اعلیٰ حالت میں داخل ہو جائیں گے جس میں وہ زمین پر مزید حیرت انگیز دوسری انسانی زندگی سے لطف اندوز ہوں گے؛ دوسرے لفظوں میں، وہ اپنے سکون کے انسانی دن کا آغاز کریں گے اور خدا کے ساتھ مل جل کر رہیں گے۔ جن لوگوں کو رہنے کی اجازت نہیں ہو گی ان کو سزا دینے اور ان کے بارے عدالت کرنے کے بعد ان کے حقیقی رنگ مکمل طور پر بے نقاب ہو جائیں گے، جس کے بعد وہ سب تباہ کر دیے جائیں گے اور شیطان کی طرح انھیں زمین پر زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مستقبل کی نوع انسانی میں اب اس قسم کے لوگوں میں سے کوئی بھی شامل نہیں ہوگا؛ ایسے لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ وہ حتمی سکون کی زمین میں داخل ہو سکیں اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ وہ اس سکون کے دن میں شامل ہوں جس میں خدا اور نوع انسانی شریک ہوں گے، کیونکہ وہ سزا کا نشانہ ہیں اور وہ خبیث اور برے لوگ ہیں۔ ۔۔۔ بدی کو سزا دینے اور نیکی کا بدلہ دینے کے خدا کے حتمی کام کے پیچھے پورا مقصد تمام انسانوں کو مکمل طور پر پاکیزہ بنانا ہے تاکہ وہ ایک خالص مقدس نوع انسانی کو ابدی سکون میں لا سکے۔ اس کے کام کا یہ مرحلہ سب سے اہم ہے۔ یہ اس کے پورے انتظامی کام کا آخری مرحلہ ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا اور انسان ایک ساتھ حالت سکون میں داخل ہوں گے)۔

قادر مطلق خدا کا کلام بہت واضح ہے۔ فضل کے دور میں، خداوند یسوع کا نجات کا کام صرف انسان کے گناہوں کو معاف کرنا تھا۔ آخری ایام میں یہ قادر مطلق خدا کا عدالت کا کام ہے جو پوری طرح سے بنی نوع انسان کا تزکیہ کرتا اور بچاتا ہے۔ قادر مطلق خدا کا کلام انسان کی سرکش، خدا مخالف فطرت اور جوہر کو بے نقاب کرتا ہے، ہمیں ہمارا اپنا شیطانی مزاج اور بدعنوانی جاننے کا موقع دیتا ہے۔ یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم ہلکی سی بھی انسانی مشابہت کے بغیرشیطانی مزاجوں، مثلاً تکبر، مکاری اور شرارت سے بھرے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ سچائی دیکھنے کا واحد راستہ ہے کہ وہ شیطان کے ہاتھوں بدنامی میں کتنے گہرے دھنسے ہوئے ہیں، تاکہ وہ حقیقتاً اپنے آپ سے نفرت کریں اور حقیقی پچھتاوا پیدا کریں، تب خدا سے توبہ کریں۔ تب وہ دیکھتے ہیں کہ سچ کتنا بیش قیمت ہے اورخدا کے کلام پر عمل اور سچائی کی حقیقت میں داخل ہونے پر توجہ مرکوز کرنا شروع کرتے ہیں۔ اس سے انہیں اپنے بدعنوان مزاج سے بتدریج چھٹکارا پانے اور اپنی زندگی کے مزاج میں تبدیلی کے آغاز کا موقع ملتا ہے، اور بالآخر حقیقی معنوں میں خدا کے خوف کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کے کلام کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل بن جاتے ہیں۔ اس طرح لوگ شیطان کی قوتوں سے مکمل پیچھا چھڑانے اور خدا کی طرف سے مکمل طور پر بچائے جانے کے قابل ہو سکتے ہیں، تب وہ خدا کی طرف سے محفوظ کیے اور آخری ایام میں زبردست آفتوں سے بچائے جا سکتے ہیں، اور خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے تیار کردہ خوب صورت منزل میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے مکاشفہ 21: 3-6 میں کی گئی پیشنگوئی کی تکمیل ہوتی ہے۔ ”پِھر مَیں نے تخت میں سے کِسی کو بُلند آواز سے یہ کہتے سُنا کہ دیکھ خُدا کا خَیمہ آدمِیوں کے درمِیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکُونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خُدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خُدا ہو گا۔ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسُو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ مَوت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چِیزیں جاتی رہیِں۔ اور جو تخت پر بَیٹھا ہُؤا تھا اُس نے کہا دیکھ مَیں سب چِیزوں کو نیا بنا دیتا ہُوں۔ پِھر اُس نے کہا لِکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔ پِھر اُس نے مُجھ سے کہا یہ باتیں پُوری ہو گئِیں۔ مَیں الفا اور اومیگا یعنی اِبتدا اور اِنتِہا ہُوں۔ مَیں پیاسے کو آبِ حیات کے چشمہ سے مُفت پِلاؤُں گا۔“ یہاں، خدا کہتا ہے، ”یہ باتیں پُوری ہو گئِیں۔“ یہ اس سے بالکل مختلف ہے جو خداوند یسوع کی طرف سے صلیب پر کہاگیا: ”تمام ہُؤا۔“ یہ مختلف تناظر، مختلف دنیائیں ہیں۔ جب خداوند یسوعنے صلیب پر ”تمام ہُؤا“ کہا تھا، وہ اپنے نجات کے کام کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ مکاشفے کی کتاب میں ”یہ باتیں پُوری ہو گئِیں“ کے الفاظ سے خدا بنی نوع انسان کو بچانے کے اپنے کام کے بارے میں بات کر رہا ہے، جب خدا کا خیمہ انسانوں کے ساتھ ہو گا، وہ ان کے درمیان زندگی گزارے گا، اور وہ اس کی بادشاہی کے لوگ ہوں گے، جہاں آنسو، موت یا مصیبت کا کوئی وجود نہیں ہو گا۔ یہ خدا کے اپنا نجات کا کام مکمل کرنے کی واحد علامت ہے۔

اس موقع پر، یہ سب پر واضح ہوجانا چاہیے کہ صلیب پر خداوند یسوع کے الفاظ کا یہ مطلب ہونے کا دعویٰ کہ خدا کا نجات کا کام مکمل ہوچکا تھا خدا کے کام کی حقیقت کے بالکل متضاد اور خالصتاً انسانی واہمہ ہے۔ یہ خدا وند کے الفاظ کی غلط تشریح ہے جو فریب اور گمراہ کن ہے، اور یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ کتنے لوگوں اس کا شکار بن چکے ہیں۔ وہ جو اندھا دھند اس سے چپکے ہوئے ہیں، بس خداوند کے اچانک بادل پر آنے کاانتظار کر رہے ہیں تاکہ انہیں بادشاہی میں لے جایا جا سکے، اور اس دوران قادر مطلق خدا کی طرف سے اظہار کردہ بہت سی سچائیوں کی جانچ کرنے سے انکاری ہیں، خدا وند سے ملاقات کا اپنا موقع گنوا دیں گے۔ اور بلاشبہ، وہ کبھی گناہ سے چھٹکارے اور مکمل بچاؤ سے ہمکنار نہیں ہو پائیں گے۔ تب عمر بھر کا ایمان رائیگاں ہو جائے گا، اور آفتوں میں پڑنا اور خد ا کی طرف سے نابود ہونا ان کا مقدر بن جائے گا۔

قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”آخری دور کا مسیح زندگی لائے گا اور سچائی کا دیرپا اور جاوداں راستہ لائے گا۔ یہ وہ سچا راستہ ہے جس سے انسان زندگی حاصل کرتا ہے اور یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انسان خدا کو جانے گا اور اس سے توثیق پائے گا۔ اگر تُو آخری ایام کے مسیح کے فراہم کردہ زندگی کے راستے کی جستجو نہیں کرتا تو تجھے کبھی یسوع کی تائید حاصل نہیں ہو سکے گی اور تُو آسمانوں کی بادشاہی کے دروازے سے داخل ہونے کا کبھی اہل نہیں ہو پائے گا، کیونکہ تُو صرف ایک کٹھ پتلی اور تاریخ کا قیدی رہے گا۔ جو لوگ ضابطوں، حروف، اور تاریخ کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں، وہ کبھی زندگی حاصل نہ کر پائیں گے اور نہ ہی دائمی زندگی کا راستہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ان کے پاس صرف وہ گدلا پانی ہے جو ہزاروں سال سے رکا ہوا ہے، وہ زندگی کا پانی نہیں ہے جو تخت سے بہتا ہے۔ جن تک زندگی کا پانی نہیں پہنچتا، وہ ہمیشہ لاشیں، شیطان کے کھلونے اور دوزخ کے بیٹے رہیں گے۔ پھر وہ خدا کو کیسے دیکھ سکیں گے؟ اگر تُو صرف ماضی سے جڑے رہنے کی کوشش کرتا ہے، صرف جامد رہ کر چیزوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور جمود تبدیل کرنے اور تاریخ کو ترک کرنے کی کوشش نہیں کرتا، تو کیا تُو ہمیشہ خدا کے خلاف نہیں رہے گا؟ خدا کے کام کے مراحل بہت پھیلے ہوئے اور زبردست ہیں، جیسے لہریں اور گرجتی بجلی – پھر بھی تُو بس بیٹھ کر کاہلی سے تباہی کا انتظار کرتا ہے، اپنی حماقت سے چمٹا ہوا ہے اور کچھ نہیں کر رہا ہے۔ اس طرح، تُو کچھ ایسا کیسے بن سکتا ہے جو برّے کے نقش قدم پر چلے؟ تُو جس خدا کو خدا کے طور پر دیکھتا ہے، اس کا جواز کیسے پیش کرے گا جوہمیشہ نیا اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ اور تیری خستہ حال کتابوں کے الفاظ تجھے نئے دور میں کیسے لے کر جا سکتے ہیں؟ وہ خدا کے کاموں کے نقش قدم کی جستجو کی طرف تیری راہنمائی کیسے کر سکتے ہیں؟ اور وہ تجھے جنت میں کیسے لے کر جائیں گے؟ تیرے ہاتھوں میں جو لغوی الفاظ ہیں، وہ عارضی سکون تو فراہم کر سکتے ہیں، لیکن زندگی کا راستہ فراہم کرنے والی سچائیاں فراہم نہیں کر سکتے۔ تُو جو صحیفے پڑھتا ہے وہ صرف تیری زبان کو تقویت دے سکتے ہیں اور وہ فلسفے کے الفاظ نہیں ہیں جو تجھے انسانی زندگی کے متعلق جاننے میں مدد دے سکیں، نہ ہی وہ راستے جو تجھے کمال کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ نقص تجھے غور و فکر کی بنیاد فراہم نہیں کرتا؟ کیا یہ تجھے اندر موجود رازوں کا ادراک نہیں دیتا؟ کیا تُو اپنے طور پر خدا سے ملنے کے لیے جنت میں جانے کے قابل ہے؟ خدا کی آمد کے بغیر، کیا تُو خدا کے ساتھ خاندان والی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے خود کو جنت میں لے جا سکتا ہے؟ کیا تُو اب بھی محو خواب ہے؟ پھر میری تجویز ہے کہ تُو خواب دیکھنا چھوڑ دے اور یہ دیکھ کہ اب کون کام کر رہا ہے – دیکھ کہ آخری دور میں انسان کو بچانے کا کام کون کر رہا ہے۔ اگر تُو ایسا نہیں کرتا تو تُو کبھی سچائی تک نہیں پہنچ سکتا اور کبھی زندگی حاصل نہیں کر سکتا(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

تجسیم کیا ہے؟

ہم سب جانتے ہیں کہ دو ہزار سال پہلے، خدا بنی نوع انسان کی نجات کے لیے خدا وند یسوع کی صورت میں انسانی دنیا میں آیا، اور منادی کی، ”تَوبہ...

کیا نظریہ تثلیث قابل دفاع ہے؟

جب سے مجسم خداوند یسوع نے زمانہ فضل کا کام کیا، 2،000 سال تک، تمام مسیحیت نے ایک حقیقی خدا کو "تثلیث" کے طور پر بیان کیا۔ انجیل میں چونکہ...

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp