کیا ایمان کے ذریعے نجات خدا کی بادشاہی میں داخلہ عطا کرتی ہے؟

April 25, 2023

ایک عالمی وباء مستقل پھیلتی ہے، اور زلزلے، سیلاب، کیڑوں کے غول، قحط واقع ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ کئی لوگ مستقل اضطراب کی حالت میں ہیں، اور اہل ایمان بے چینی سے بادل پر خداوند کی آمد کے منتظر ہیں تاکہ انہیں آسمان میں لے جایا جائے، تاکہ آفات کے ذریعے مصیبت سے چھٹکارا ملے اور موت سے بچا جائے۔ وہ نہیں جانتے کیوں کہ کیوں وہ ابھی تک خداوند سے ملنے کے لیے اوپر اٹھائے نہیں گئے ہیں، اور بنا کچھ دیکھے سارا دن آسمان پر نظریں لگائے رکھتے ہیں۔ کئی لوگ قطعی طور پر قابل نفرت ہیں، خاص طور پر یہ دیکھ کر کہ کلیسیا کے کئی پادریوں کی جانیں عالمی وباء نے لے لی ہیں۔ وہ بے چینی محسوس کرتے ہیں کہ انہیں خداوند نے ایک طرف پھینک دیا ہے اور وہ آفات میں مبتلا ہو گئے ہیں، اور اُن کی بقا غیریقینی ہوگئی ہے۔ وہ الجھن میں ہیں اور کھوئے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ وحی کی پیشین گوئی ہے کہ یسوع مسیح آفات سے قبل آئے گا اور ہمیں اوپرآسمان میں لے جائے گا تاکہ ہمیں اُن سے مغلوب ہونے سے بچایا جائے۔ یہی ہماری اُمید ہے۔ ہماراایمان آفت سے بچنا اور دائمی زندگی حاصل کرنا ہے۔ لیکن آفتیں پے در پے آنے لگی ہیں، تو اہل ایمان کو لے جانے کے لیے خداوند بادل پر بیٹھ کر کیوں نہیں آئے ہیں؟ ہمارے ایمان کی بدولت ہمارے گناہ معاف کردیے گیے ہیں، ہمیں نجات سے سرفراز کیا ہے اور راستبازی عطا کر دی گئی ہے۔ کیوں ہمیں آسمانی بادشاہی میں نہیں لے جایا گیا ہے؟ ہم نے کئی برسوں سے خداوند کا اذیت ناک انتظار کیا ہے اور بہت تکلیف برداشت کرچکے ہیں۔ کیوں وہ ہمارے لیے نہیں آئے ہیں، ہمیں اوپر نہیں لے گئے تاکہ ہم اُن سے ملیں اور آفات کی تکلیف سے بچیں؟ کیا اس نے واقعی ہمیں ایک طرف پھینک دیا ہے؟ ایسے سوالات کئی اہل ایمان کے ذہنوں میں ہیں۔ ٹھیک ہے، کیا ایمان کی بدولت حاصل کردہ نجات واقعی ہمیں بادشاہی میں پہنچاتی ہے؟ میں اس معاملہ میں کچھ اپنے ذاتی فہم کا اشتراک کروں گا۔

لیکن اس بارے میں تبادلہ خیال سے قبل، آئیے پہلے ایک بات کی وضاحت کر لیتے ہیں۔ کیا ایمان کی بدولت بادشاہی میں داخل ہونے کے خیال کے جواز کی خدا کے کلام سے کسی بھی طرح تائید ہوتی ہے؟ کیا خداوند یسوع نے کبھی کہا کہ ایمان کے ذریعہ جواز اور نجات کا فضل ہمیں اُس کی بادشاہی میں داخلے کے لیے درکار ہے؟ اس نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ کیا روح القدس نے کبھی اس کی شہادت دی؟ نہیں۔ لہٰذا ہم یقین کرسکتے ہیں کہ یہ خیال خالصتاً انسانی گمان ہے اور ہم بادشاہی میں اپنےداخلے کے لیے اس پر انحصار نہیں کرسکتے ہیں۔ درحقیقت، خداوند یسوع تو اس بارے میں بہت واضح تھے کہ بادشاہی میں کون داخل ہوسکتا تھا۔ خداوند یسوع نے کہا، ”جو مُجھ سے اَے خُداوند اَے خُداوند! کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخِل نہ ہو گا مگر وُہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ اُس دِن بُہتیرے مُجھ سے کہیں گے اَے خُداوند اَے خُداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبُوّت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نِکالا اور تیرے نام سے بُہت سے مُعجِزے نہیں دِکھائے؟ اُس وقت مَیں اُن سے صاف کہہ دُوں گا کہ میری کبھی تُم سے واقفِیّت نہ تھی۔ اَے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ(متّی 7: 21-23)۔ ”مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی گُناہ کرتا ہے گُناہ کا غُلام ہے۔ اور غُلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا بیٹا ابد تک رہتا ہے(یُوحنّا 8: 34-35)۔ ”اِس لِئے تُم مُقدّس ہونا کیونکہ مَیں قُدُّوس ہُوں(احبار 11: 45)۔ ”پاکیزگی کے بغیر کوئی انسان خداوند کو نہیں دیکھے گا(عِبرانیوں 12: 14)۔ خداوند یسوع نے واضح طور پر ہمیں بتایا ہے کہ صرف وہ جو خدا کی مرضی بجا لائیں، آسمان کی بادشاہی میں داخل ہوسکتے ہیں، صرف وہ جو گناہ سے بچتے اور پاک کیے جاتے ہیں، بادشاہی میں جگہ پائیں گے۔ داخلہ حاصل کرنے کے لیے یہی واحد کسوٹی ہے۔ کیا گناہ سے چھٹکارا پانے اور ایمان کی بدولت جواز پانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خدا کی مرضی بجا لا رہا ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اب گناہ نہیں کرتے یا خدا کے خلاف بغاوت اور مزاحمت نہیں کرتے؟ بے شک نہیں۔ خداوند پر ایمان رکھنے والے تمام لوگ اس حقیقت کو دیکھ سکتے ہیں کہ اگرچہ ہم ایمان کے ذریعہ چھٹکارا اور جواز پا رہے ہیں، ہم مسلسل گناہ کررہے ہیں، دن میں گناہ کرنے اور رات میں اعتراف کر نے کے چکر میں مبتلا جی رہے ہیں۔ ہم گناہ سے بچاؤ سے قاصر ہونے کا درد لیے جیتے ہیں – ہم خود اپنا بھلا نہیں کرسکتے ہیں۔ تمام فرقوں میں ایسے لوگ ہیں جو حاسد، اور جھگڑالو ہیں، نام اور فائدے کے لیے لڑتے، ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ یہ بہت عام بات ہے۔ اور زیادہ تر لوگوں کا ایمان صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ خدا کے فضل کے لالچی ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے جیسا وہ کہتا ہے۔ جب بحران کا سامنا ہو تو وہ کلیسیا کی طرف دوڑتے ہیں لیکن امن کی حالت میں وہ دنیاوی رجحانات کی پیروی کرتے ہیں۔ اور کلیساؤں میں بس یکے بعد دیگرے تقریبات منعقد ہورہی ہیں۔ کوئی بھی سچائی پر رفاقت یا ذاتی گواہی کا اشتراک نہیں کر رہا ہے، بلکہ صرف اس بارے میں مقابلہ کررہا ہے کہ سب سے زیادہ فضل اور سب سے بڑی نعمتیں کس کو ملتی ہیں۔ بڑی آفتوں کی آمد سے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ خداوند اب بھی اُن کو اتھا لے جانے کے لیے بادل پر نہیں آ رہا ہے، کئی لوگوں کا ایمان اور محبت ٹھنڈے پڑ رہے ہیں، اور انہوں نے خدا کو موردِ الزام ٹھہرانا اور جانچنا شروع کر دیا ہے۔ بعض نے تو اُس کا انکار کردیا اور اُسے دھوکہ دیا ہے۔ ہمیں حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کا معاف کردیا جانا اور نجات سے سرفراز ہونے کا مطلب ہوسکتا ہے کہ لوگ بہتر برتاؤ کریں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ گناہ سے یکسر دور ہوچکے ہیں، کہ وہ خدا کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں، اور خاص طور پر یہ نہیں کہ وہ تقدس حاصل کرچکے اور بادشاہی کے لائق ہیں۔ یہ بس تمنا سے پرسوچ ہے۔ اس طرح اب ہم یہ حقیقت جان سکتے اور سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں خداوند یسوع نے کہا کہ اُس کے نام پر جنھوں نے منادی کی اور بدروحوں کو نکال باہر کیا وہ خطاکار ہیں، اور اُن کو وہ کبھی نہیں جانتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اب بھی مسلسل گناہ کر رہے ہیں، حالانکہ اُن کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں، اور وہ خداوند کو موردِ الزام ٹھہراتے اور جانچتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ خداوند کی آمد ابھی تک نہیں ہوئی ہے تووہ شکایتوں کا انبار بن جاتے ہیں، اور انہوں نے اُس کا انکار کرنا اور اسے دھوکہ دینا شروع کردیا ہے۔ بعض یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اگر خداوند اُن کو اٹھا کر بادشاہی میں نہیں لے جاتا ہے تو وہ اُس سے جھگڑیں گے۔ یہ لوگ بمشکل ہی اُن فریسیوں سے کچھ بہتر یا شاید مزید بدتر ہیں جنھوں نے خداوند یسوع پر، ظلم کیا اور اُن کی مذمت کی۔ دیگر لوگ نہایت واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں، اور خدا کی نظروں میں وہ بلاشبہ خطاکار ہیں۔ خدا مقدس اور راستباز ہے، تو کیا خدا اُن کو جنت میں داخلے کی اجازت دے گا جو مسلسل گناہ کررہے ہیں، خدا کو جانچ رہے ہیں اور اُس کی مخالفت کررہے ہیں؟ بالکل نہیں۔ اور اس طرح، لوگوں کا یہ عقیدہ کہ ایمان کے ذریعے جواز پانا انہیں بادشاہی میں لے جائے گا۔ ایک ایسا تصور ہے جو خداوند کے اپنے الفاظ اور سچائی کے خلاف ہے۔ یہ خالصتاً ایک انسانی گمان اور تصور ہے جو ہماری بے پایاں خواہشات سے پیدا ہوتا ہے۔

اس مقام پر، بعض لوگ حوالہ دے سکتے ہیں کہ ایمان کے فضل کے ذریعے نجات پانے کی بنیاد انجیل ہے: ”کیونکہ راست بازی کے لِئے اِیمان لانا دِل سے ہوتا ہے اور نجات کے لِئے اِقرار مُنہ سے کِیا جاتا ہے“ (رُومِیوں 10: 10)۔ ”کیونکہ تُم کو اِیمان کے وسِیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے اور یہ تُمہاری طرف سے نہیں۔ خُدا کی بخشِش ہے“ (اَفسیوں 2: 8)۔ چنانچہ اگر ہم اُس طریقے سے بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں، تو پھر ”نجات“ پانے کا درحقیقت کیا مطلب ہے؟ قادرِ مطلق خدا ہمیں اس سچائی کے اسرار کی بابت بتاتا ہے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اُس کے کلام میں کیا کہا گیا ہے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”اس دور میں، یسوع کا کام تمام بنی نوع انسان کی خلاصی کروانا تھا۔ جو اس پر ایمان رکھتے تھے، ان سب کے گناہ معاف کر دیے گئے تھے؛ جب تک تو نے اس پر ایمان رکھا، وہ تیری خلاصی کروائے گا؛ اگر تو نے اس پر ایمان رکھا، تو تُو گناہ گار نہیں رہا، تجھے اپنے گناہوں سےچھٹکارا مل گیا۔ ایمان کی بدولت بچائے جانے، اور حق بجانب ہونے کا یہی مطلب ہے۔ اس کے باوجود ایمان لانے والوں میں وہ چیز باقی رہ گئی ہے جو سرکش اور خدا کی مخالف تھی اور جسے اب بھی آہستہ آہستہ دور کیا جانا چاہیے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے کام کی بصیرت (2))۔ ”انسان ۔۔۔ کے گناہ معاف کر دییے گئے، مگر یہ کام ابھی کیا جانا باقی تھا کہ انسان اپنے اندر کے بدعنوان شیطانی مزاج پر کیسے قابو پائے۔ انسان صرف اپنے ایمان کی بدولت بچایا گیا تھا اور اس کے گناہ معاف کر دیے گئے تھے، مگر انسان کی گناہ گار فطرت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور اب بھی اس کے اندر موجود ہے۔ ۔۔۔ انسان کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا تھا، اور یہ خدا کے مصلوب ہونے کے عمل کی وجہ سے ہوا ہے، لیکن انسان اپنے سابقہ شیطانی مزاج میں زندگی بسر کرتا رہا۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، انسان کو اس کے بدعنوان شیطانی مزاج سے مکمل طور پر بچانا چاہیے، تاکہ اس کی گناہ گار فطرت مکمل طور پر ختم ہو جائے، دوبارہ کبھی پروان نہ چڑھے، اس طرح انسان کے مزاج کو تبدیلی کے قابل بنائے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔ ہم اس سے دیکھ سکتے ہیں کہ خداوند یسوع کو انسانوں کے کفارہِ گناہ کے طور پر مصلوب کیا گیا تھا، جس نے ہمیں گناہ سے چھٹکارا دلایا ہے۔ ہمیں بس خداوند کے آگے اعتراف کرنا اور توبہ کرنا ہوگا تاکہ ہمارے گناہوٍں کو معاف کیا جائے۔ ہمیں اب قانون کے تحت مجرم قرار دے کر موت کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ خداوند اب ہمیں گناہ گاروں کے طور پر نہیں دیکھتا اور شیطان اب ہمیں موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا ہے۔ ہمیں اجازت ہے کہ عبادت میں خداوند کے سامنے حاضر ہوں اور اس کے بے پناہ فضل اور برکتوں کے ساتھ عطا کردہ امن و خوشی سے لطف اندوز ہوں۔ یہاں ”نجات پانے“ کا مطلب یہی ہے۔ ایمان کی بدولت نجات پانے کا مطلب صرف گناہ کی معافی، اور قانون کے تحت سزا نہ دیا جانا ہے۔ ایسا نہیں جیسے لوگ تصور کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نجات ہو گئی تو وہ ہمیشہ کے لیے نجات یافتہ ہیں اور بادشاہی میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے۔ بائبل کے تذکرے میں ”نجات پانے“ کا مفہوم وہ ہے جسے پولس نے بیان کیا ہے، لیکن نہ خداوند یسوع اور نا ہی روح القدس نے کبھی ایسا کہا۔ ہم بائبل میں درج انسانوں کے بیانات کو اپنی دلیل کے طور پر استعمال نہیں کرسکتے، سوائے خداوند یسوع کے ارشادات کے۔ بعض لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ چونکہ خداوند نے ہمارے گناہوں کو معاف کر دیا ہے، اس لیے خدا اب ہمیں گناہگار کے طور پر نہیں دیکھتا ہے اور ہمیں راستباز قرار دے چکا ہے، پھر کیوں ہمیں بادشاہی میں نہیں لے جایا جاسکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ خدا نے ہمیں راستباز قرار دیا ہے، لیکن اُس نے نہیں کہا کہ ہمارے گناہوں کی معافی نے ہمیں بادشاہی کے لائق بنا دیا ہے، یا یہ کہ ہمیں چونکہ معاف کردیا گیا ہے، ہم اب بھی کسی بھی قسم کے گناہ کا ارتکاب کرکے بھی مقدس رہ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ خدا کا مزاج مقدس اور راستباز ہے، اور وہ کبھی ایسے انسان کو مقدس نہیں کہے گا جو مسلسل گناہ کیے جا رہا ہے، یا کسی کو گناہ سے پاک قرار دے گا جو اب بھی گناہگار ہے۔ حتٰی کہ کوئی ماننے والا جس کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا ہے اگر وہ خدا سے سرکشی اور اُس کی توہین کرے تو اس پر بھی لعنت ملامت کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ بائبل کا کہنا ہے، ”کیونکہ حق کی پہچان حاصِل کرنے کے بعد اگر ہم جان بُوجھ کر گُناہ کریں تو گُناہوں کی کوئی اَور قُربانی باقی نہیں رہی(عِبرانیوں 10: 26)۔ فریسیوں پر خداوند یسوع نے لعنت ملامت کی کیوں کہ وہ اُن کی تنقید کرنے لگے تھے، اُن کی مذمت کی تھی، اور اُن سے سرکشی کی تھی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ تمام ماننے والے جانتے ہیں کہ خدا کا مزاج کوئی جرم برداشت نہیں کرے گا، اور خداوند یسوع نے کہا، ”آدمِیوں کا ہر گُناہ اور کُفر تو مُعاف کِیا جائے گا مگر جو کُفر رُوح کے حق میں ہو وہ مُعاف نہ کِیا جائے گا۔ اور جو کوئی اِبنِ آدمؔ کے برخِلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اُسے مُعاف کی جائے گی مگر جو کوئی رُوحُ القُدس کے برخِلاف کوئی بات کہے گا وہ اُسے مُعاف نہ کی جائے گی نہ اِس عالَم میں نہ آنے والے میں(متّی 12: 31-32)۔ گناہوں کی معافی واقعی خدا کا کرم ہے، لیکن اگر لوگ معاف کیے جانے کے بعد خدا کے مزاج کو ناراض کرنا جاری رکھتے ہیں، تو وہ اب بھی خدا کی طرف سے ملامت کے ساتھ سزا دیے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم خداوند یسوع کو پھر سے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں تو نتائج سخت ہوں گے۔ لیکن خدا (دراصل) محبت اور رحم ہے، اس لیے وہ ہمیں گناہ اور بُرائی سے بچانا چاہتا ہے، اس طرح ہم مقدس بنتے ہیں۔ اسی لیے خداوند یسوع نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے خلاصی کے کام کے بعد دوبارہ آئے گا۔ وہ کیوں واپس آئے گا؟ بنی نوع انسان کو گناہ اور شیطان کی قوتوں سے مکمل طور پر بچانے کے لیے، تاکہ ہم خدا کی طرف رجوع کرسکیں اور اُس سے فیض یاب ہوسکیں۔ صرف ایک ماننے والا جو خداوند کی واپسی کا خیرمقدم کرتا ہے آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کی کوئی اُمید رکھتا ہے۔ اس مقام پر، بعض لوگ تعجب کرسکتے ہیں، چونکہ ہمارے گناہ معاف کیے جا چکے ہیں، پھر کس طرح ہم گناہ سے واقعی بچ سکتے اور مقدس بن سکتے ہیں، اور بادشاہی میں داخلہ پا سکتے ہیں؟ یہ ہمیں مرکزی نکتہ پر لاتا ہے۔ صرف خداوند یسوع کی معافی کو قبول کرلینا کافی نہیں ہے۔ ہمیں خداوند یسوع کی آمد کا خیرمقدم بھی کرنا ہوگا اور گناہوں سے بچنے اور خدا کی طرف سے مکمل طور پر نجات کے لیے اُس کے اگلے عملی اقدام کو بھی قبول کرنا ہوگا، اور اس طرح بادشاہی کے لائق ہونا ہے۔ جیسا کہ خداوند یسوع نے پیشین گوئی کی، ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا(یُوحنّا 16: 12-13)۔ ”اگر کوئی میری باتیں سُن کر اُن پر عمل نہ کرے تو مَیں اُس کو مُجرِم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دُنیا کو مُجرِم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہُوں۔ جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخِری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا(یُوحنّا 12: 47-48)۔ ”کیونکہ باپ کِسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کِیا ہے۔ ۔۔۔ بلکہ اُسے عدالت کرنے کا بھی اِختیار بخشا۔ اِس لِئے کہ وہ آدمؔ زاد ہے(یُوحنّا 5: 22، 27)۔ اور ”کیونکہ وہ وقت آ پُہنچا ہے کہ خُدا کے گھر سے عدالت شرُوع ہو(۱-پطرؔس 4: 17)۔ اگر ہم اس کے بارے میں غور سے سوچیں، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خداوند یسوع آخری ایام میں ابنِ آدم کے طور پر، سچائیوں کا اظہار اور عدالت کا کام کرنے کے لیے واپس آتا ہے، ہماری تمام تر سچائیوں کو اپنانے کے لیے رہنمائی کرتے ہوئے، تاکہ ہم گناہ سے، شیطان کی قوتوں سے مکمل طور پر آزاد ہوسکیں، اورمکمل نجات حاصل کریں۔ لہٰذا خدا کی عدالت اور آخری ایام کا عذاب قبول کرنا، اور ہمارا بدعنوانی سے پاک ہونا ہی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کا واحد راستہ ہے۔ آئیے قادر مطلق خدا کےکلام کے مزید چند اقتباسات پرایک نظر ڈالتے ہیں۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”انسان کی خلاصی کروائے جانے سے پہلے، بہت سے شیطانی زہر اس کے اندر اتارے جا چکے تھے اور، شیطان کی طرف سے ہزاروں سال سے بدعنوان کیے جانے کے بعد اس کے اندر ایسی فطرت مستحکم ہو چکی ہے جو خدا کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ لہٰذا، جب انسان کی خلاصی کرو لی گئی ہے، تو یہ خلاصی کے ایسے معاملے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے جس میں ایک انسان مہنگی قیمت پر خریدا گیا ہے لیکن اس کی اندرونی زہریلی فطرت ختم نہیں کی گئی۔ جو انسان اتنا پلید ہو، اسے خدا کی خدمت کے لائق بننے سے پہلے تبدیلی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ فیصلے اور سزا کے اس کام سے انسان اپنی ذات کی اندرونی غلاظت اور بدعنوان اصلیت کو پوری طرح جان لے گا اور وہ پوری طرح تبدیل ہونے اور پاک صاف ہو نے کے قابل ہو جائے گا۔ صرف اسی طرح انسان خدا کے تخت کے سامنے واپس آنے کے لائق بن سکتا ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔ ”اگرچہ یسوع نے انسانوں کے درمیان بہت زیادہ کام کیا، مگراس نے صرف تمام بنی نوع انسان کی خلاصی مکمل کی اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اس نے انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں دلایا۔ انسان کو شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچانے کے لیے نہ صرف یسوع کو گناہ کا کفارہ بننے اور انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خدا انسان کو اس کے شیطانی بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے اس سے بھی بڑا کام کرے۔ اور اس طرح، اب جب کہ انسان کو اس کے گناہوں سے معافی مل گئی ہے تو خدا انسان کو نئے دورمیں لے جانے کے لیے جسم میں واپس آیا ہے اور اس نے سزا اور عدالت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کام نے انسان کو ایک بلند تر عالم میں پہنچا دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کے تسلط کے تابع ہوں گے وہ اعلیٰ سچائی سے لطف اندوز ہوں گے اور عظیم نعمتیں حاصل کریں گے۔ ان کو واقعی روشنی میں رہنا چاہیے، اور سچائی، راستہ اور زندگی حاصل کرنی چاہیے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔ کیا قادر مطلق خدا کا کلام ہر بات کو واضح تر نہیں بناتا ہے؟ خداوند یسوع نے فضل کے دور میں خلاصی کا کام کیا، جو انسان کے گناہوں کو معاف کرنے اور ہمارا اس سے چھٹکارا پانے کے لیے تھا – یہ سچ ہے۔ لیکن لوگوں کی گناہگار فطرت دور نہیں ہوئی ہے اورہم خدا کے خلاف سرکشی کرتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ مکمل طور پر بچائے جانے میں شمار نہیں ہوتا ہے۔ قادر مطلق خدا آخری ایام میں آیا ہے، بہت ساری سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے، اور عدالت کا کام کررہا ہے جس کی شروعات خدا کے گھر سے خداوند یسوع کے چھٹکارے کی بنیاد پر ہوچکی ہے۔ ہمیں خدا کی بادشاہی میں لے جانے کے لیے وہ انسانوں کو مکمل طور پر پاک کرنے اور بچانے کے لیے آیا ہے۔ خدا کی آخری ایام کی عدالت کا کام انسان کو بچانے کے لیے اُس کا نہایت اہم، نہایت بنیادی کام ہے، اور یہ ہمارے لیے پاک ہونے اور مکمل طور پر بچنے کا واحد راستہ ہے۔ یہ ایک سنہرا موقع اور آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کا ہمارے لیے واحد موقع ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے گھر سے شروع ہونے والا قادرِ مطلق خدا کا عدالت کا کام ماننے والوں کو پناہ خوشی میں مبتلا ہونے کا کام ہے۔ خدا کی عدالت اور عذاب کے ذریعہ ہماری بُرائی مٹائی جا سکتی ہے، اور پھر ہم بڑی آفتوں سے محفوظ کئے جائیں گے اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں گے۔ یہی در اصل اوپر اٹھا لیا جانا ہے۔ اگر ہم اس کام کو برقرار نہیں رکھتے ہیں، تو چاہے ہمارا ایمان کتنے ہی طویل عرصے کا ہو، ہم نے کتنی ہی تکلیف اٹھائی یا قیمت چکائی ہو، یہ سب بے فائدہ ہو گی۔ یعنی آدھے راستے پر دستبرداری، اور ہماری ساری پچھلی کوششیں ضائع ہوجائیں گی۔ ہم بس آفت میں گھر جائیں گے، روئیں اور اپنے دانت پیس رہے ہوں گے۔ خدا ایسے کسی انسان کو اپنی بادشاہی میں کبھی داخل نہیں کرے گا جو اب بھی اُس کے خلاف بغاوت کرسکتا ہے۔ یہ اُس کے راستباز مزاج سے طے ہوتا ہے۔

بعض لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ کس طرح قادر مطلق خدا انسانوں کو پاک کرنے اور بچانے کے لیے یہ عدالت کا کام کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”آخری ایام کا مسیح انسان کو سکھانے، انسان کا مادّہ منکشف کرنے، اور انسان کے قول و فعل پرکھنے کے لیے مختلف قسم کی سچائیوں کا استعمال کرے گا۔ یہ الفاظ مختلف سچائیوں پر مشتمل ہیں، جیسا کہ انسان کا فرض کیا ہے، انسان کو خدا کی اطاعت کیسے کرنی چاہیے، انسان کو خدا کا وفادار کیسے ہونا چاہیے، انسان کو معمول کی انسانیت والی زندگی کیسے گزارنی چاہیے نیز خدا کی حکمت اور مزاج وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ انسان کے مادے اور اس کے بدعنوان مزاج پر مبنی ہیں۔ خاص طور پر وہ الفاظ جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان خدا کو کیسے ٹھکراتا ہے، اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ انسان شیطان کا مجسم کیسے ہے اور خدا کے خلاف ایک دشمن قوت ہے۔ اپنا عدالت کا کام انجام دینے میں، خدا صرف چند الفاظ سے انسان کی فطرت واضح نہیں کرتا؛ وہ اسے بے نقاب کرتا ہے، اس سے نمٹتا ہے، اور طویل مدت کے لیے اس کی تراش خراش کرتا ہے۔ منکشف کرنے، نمٹنے اور تراش خراش کے ان تمام مختلف طریقوں کو عام الفاظ سے نہیں بدلا جا سکتا، بلکہ صرف سچائی ہی اس کا متبادل ہے جس سے انسان بالکل عاری ہے۔ صرف یہ طریقے ہی عدالت کہے جا سکتے ہیں؛ صرف اس قسم کے فیصلوں کے ذریعے ہی انسان کو محکوم اور خدا کے بارے میں مکمل طور پر قائل کیا جا سکتا ہے اور خدا کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا کام جو چیز لاتا ہے وہ انسان کا خدا کی حقیقی معرفت اور اپنی سرکشی کی سچائی حاصل ہونا ہے۔ عدالت کا کام انسان کو خدا کی مرضی، خدا کے کام کے مقصد، اور ان رازوں کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جو اس کے لیے ناقابلِ ادراک ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو اپنے بدعنوان جوہر اور اس بدعنوانی کی جڑوں، نیز انسان کی بدصورتی پہچاننے کے قابل بناتا ہے۔ یہ تمام اثرات عدالت کے کام سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ اس کام کا جوہر دراصل سچائی، راہ اور خدا کی زندگی کو ان تمام لوگوں کے لیے کھولنے کا کام ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کام خدا کی عدالت کا کام ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح عدالت کا کام سچائی کے ساتھ کرتا ہے)۔ قادر مطلق خدا نے آخری ایام میں لاکھوں ارشادات بیان کیے ہیں ہمیں ساری سچائیاں بتائی ہیں جو ہمیں ہماری بُرائی کو دور کرنے اور ہماری نجات کے لیے درکار ہیں۔ وہ ہماری گناہگار، مخالف خدا شیطانی فطرت اور ہمارے بدعنوان مزاجوں کے سارے پہلوؤں کی عدالت کرتے ہوئے ان کو آشکار کرتا ہے، اور وہ ہمارے سارے عمیق، نہایت پوشیدہ اور نفرت انگیز مقاصد اور تصورات کو (بھی) آشکار کرتا ہے۔ خدا کا کلام جتنا زیادہ ہم پڑھتے ہیں، اتنا زیادہ ہمیں اُس عدالت کا اندازہ ہوتا ہے، اور ہم جان سکتے ہیں کہ کس طرح ناقابل یقین گہرائی تک شیطان نے ہمیں بدعنوان بنا دیا ہے، ہم کس حد تک متکبر اور خود سر ہیں۔ ہم بہت چالاک، خودغرض اور لالچی ہیں، اور ہم ہر چیز میں شیطانی فلسفوں اور قواعد کے مطابق ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ حتٰی کہ ہمارا ایمان اور کلیسیا کے لیے ہماری کاوش نعمتوں اور بادشاہی میں داخلے کے لیے ہے۔ ہمارے پاس ضمیر یا کوئی شعور نہیں ہے، بلکہ پوری طرح شیطان کی پسند والی زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کی عدالت اور سزا کے ذریعے، ہم بالآخر اُس کی راستبازی کو دیکھ سکتے ہیں جو کسی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرتی ہے۔ خدا واقعی ہمارے دلوں اور ذہنوں کا حال جانتا ہے، اور حتٰی کہ اگر ہم اس کو زبان پر نہ لائیں، تب بھی خدا ہماری سوچ، ہمارے دلوں کی گہرائی میں پیوست بُرائی کو آشکار کر دے گا۔ چُھپنے کی کوئی جگہ نہ پا کر، ہم بہت شرمندگی محسوس کرتے ہیں، اور ہم میں خدا کا خوف بڑھتا ہے۔ جو کچھ ہمارے دلوں میں ہے ہم اس کے بارے میں دعا کرسکتے ہیں، اور اپنے غلط افکار وخیالات کا ایمانداری سے اظہار کرتے ہوئے ضمیر اور شعور حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں، تو ہم اسے فوراً ظاہر کریں گے، اوراصلاح کریں گے۔ خدا کے کلام کا اس طرح تجربہ کرنے سے، ہمارے بدعنوان مزاج بتدریج صاف اور بدل جاتے ہیں، اور ہم انسان جیسی زندگی گزار سکتے ہیں۔ قادر مطلق خدا کی عدالت اور تطہیرکے ذریعے ہمیں گہرا احساس ہوسکتا ہے کہ انسان کو بچانے کے لیے خدا کا کام کتنا عملی ہے! اس کے بغیر، ہم اپنی اصل بدعنوانی کا کبھی اندازہ نہیں کرسکتے، اور ہم کبھی بھی سچی توبہ یا تبدیلی نہیں کریں گے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بُرائی سے بچنا ہماری اپنی جاں فشانی اور خود پر قابو پانے کے ذریعہ نہیں ہوسکتا ہے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے ہماری عدالت ہو، سزا ہو، اور ہمیں آزمایا جائے۔ ہماری کاٹ چھانٹ، ہم سے نمٹنا، اور ہمیں منظم کرنا پڑے گا۔ ہمارے زندگی کےمزاجوں کو واقعی بدلنے اور حقیقی طور پر خدا کے آگے خود سپردگی اور خدا سے ڈرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ لہٰذا اگر ہمارے ایمان میں صرف خداوند یسوع کا چھٹکارا پانا ہے، تو ہمارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور ایمان کے ذریعہ ہماری توثیق ہوتی ہے، لیکن ہم بادشاہی کے لیے نا اہل ہیں۔ ہمیں اب بھی خداوند کی واپسی کا خیرمقدم اور قادر مطلق خدا کی عدالت کو قبول کرنا پڑے گا تاکہ ہم بدعنوانی کو مٹا سکیں اور اپنی گناہگار فطرت کو مکمل طور پر ختم کرسکیں۔ اور اس طرح، قادر مطلق خدا ہی واپس آیا ہوا خداوند یسوع ہے جو عدالت کا کام انجام دے رہا ہے۔ وہ مسیحا ہے جو ذاتی طور پر کام کر کے انسانوں کو پوری طرح بچانے کے لیے نازل ہوا ہے۔ تمام فرقوں کے بہت سے اہل ایمان خدا کی آواز سنتے ہیں اور قادر مطلق خدا کو قبول کررہے ہیں۔ وہ دانا کنوارے ہیں اورمیمنے کی شادی کی ضیافت میں شرکت کررہے ہیں۔ لیکن وہ جو قادر مطلق خدا کو مسترد کرتے ہیں، بے وقوف کنوارے ثابت ہو رہے ہیں جو روتے ہوئے آفتوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔ اب ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کیوں مذہبی دنیا نے خداوند یسوع کو نیچے بادل پر آتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ وہ صحیفے کے الفاظ سے ڈھٹائی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ خداوند یسوع اُن کے اپنے خیالات کی بنیاد پر، اُن کو اٹھا کر لے جانے کے لیے بادل پر آ رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں، خداوند یسوع کی آمد پہلے ہی خفیہ طور پر ہوچکی ہے تاکہ کام انجام دیا جائے۔ قادر مطلق خدا نے بہت ساری سچائیوں کا اظہار کیا ہے جن کو پانے کا وہ انکار کرتے ہیں۔ وہ سنتے مگر دھیان نہیں دیتے ہیں، اور دیکھتے مگر سمجھتے نہیں ہیں۔ وہ قادر مطلق خدا کی اندھی مزاحمت اور مذمت کرتے ہیں۔ وہ آسمان پر نظریں گاڑے ہوئے منتظر ہیں کہ نجات دہندہ یسوع بادل پر بیٹھ کر نیچے آئے۔ یہ ان کو آفات میں مبتلا کرے گا۔ کون ذمہ دار ہے؟

آج، قادر مطلق خدا نے غالبین کے ایک گروہ کو اپنے آخری ایام کے عدالت کے کام کے ذریعے مکمل کر لیا ہے۔ آفتیں شروع ہوچکی ہیں، اور خدا کے منتخب بندے قادر مطلق خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کو پھیلانے میں خود کو کھپا رہے ہیں، خدا کے ظہور اور کام کی گواہی دے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ تحقیق کرتے ہوئے سچے طریقے کو قبول کر رہے ہیں، اور قادر مطلق خدا کا کلیسا زیادہ سے زیادہ ملکوں میں قائم کیا جارہا ہے۔ قادر مطلق خدا کا کلام ساری دنیا میں پھیلایا جا رہا اور اس کی گواہی دی جا رہی ہے۔ وہ لوگ جو سچائی کے پیاسے ہیں اور خدا کے ظہور کی تلاش میں ہیں، وہ یکے بعد دیگرے اُس کے تخت کے سامنے آرہے ہیں۔ یہ روکا نہیں جاسکتا! یہ بائبل کی اس پیشین گوئی کو پورا کرتا ہے: ”آخِری دِنوں میں یُوں ہو گا کہ خُداوند کے گھر کا پہاڑ پہاڑوں کی چوٹی پر قائِم کِیا جائے گا اور ٹِیلوں سے بُلند ہو گا اور سب قَومیں وہاں پُہنچیں گی(یسعیاہ 2: 2)۔ لیکن مذہبی دنیا کی وہ مخالف مسیح قوتیں جو قادر مطلق خدا کی مخالفت کرتی ہیں، اور وہ نام نہاد ماننے والے جو گمراہ اور ان کے کنٹرول میں ہیں، پہلے ہی آفتوں کا شکار ہوچکے ہیں، اٹھا لیے جانے کا اپنا موقع کھوچکے ہیں۔ وہ رو رہے ہیں اوردانت پیس رہے ہیں۔ یہ واقعی المیہ ہے۔ آئیے خدا کا کلام پڑھے جانے کی ایک ویڈیو دیکھتے ہوئے آج کے دن کے لیے ختم کرتے ہیں۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”آخری دور کا مسیح زندگی لائے گا اور سچائی کا دیرپا اور جاوداں راستہ لائے گا۔ یہ وہ سچا راستہ ہے جس سے انسان زندگی حاصل کرتا ہے اور یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انسان خدا کو جانے گا اور اس سے توثیق پائے گا۔ اگر تُو آخری ایام کے مسیح کے فراہم کردہ زندگی کے راستے کی جستجو نہیں کرتا تو تجھے کبھی یسوع کی تائید حاصل نہیں ہو سکے گی اور تُو آسمانوں کی بادشاہی کے دروازے سے داخل ہونے کا کبھی اہل نہیں ہو پائے گا، کیونکہ تُو صرف ایک کٹھ پتلی اور تاریخ کا قیدی رہے گا۔ جو لوگ ضابطوں، حروف، اور تاریخ کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں، وہ کبھی زندگی حاصل نہ کر پائیں گے اور نہ ہی دائمی زندگی کا راستہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ان کے پاس صرف وہ گدلا پانی ہے جو ہزاروں سال سے رکا ہوا ہے، وہ زندگی کا پانی نہیں ہے جو تخت سے بہتا ہے۔ جن تک زندگی کا پانی نہیں پہنچتا، وہ ہمیشہ لاشیں، شیطان کے کھلونے اور دوزخ کے بیٹے رہیں گے۔ پھر وہ خدا کو کیسے دیکھ سکیں گے؟ اگر تُو صرف ماضی سے جڑے رہنے کی کوشش کرتا ہے، صرف جامد رہ کر چیزوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور جمود تبدیل کرنے اور تاریخ کو ترک کرنے کی کوشش نہیں کرتا، تو کیا تُو ہمیشہ خدا کے خلاف نہیں رہے گا؟ خدا کے کام کے مراحل بہت پھیلے ہوئے اور زبردست ہیں، جیسے لہریں اور گرجتی بجلی – پھر بھی تُو بس بیٹھ کر کاہلی سے تباہی کا انتظار کرتا ہے، اپنی حماقت سے چمٹا ہوا ہے اور کچھ نہیں کر رہا ہے۔ اس طرح، تُو کچھ ایسا کیسے بن سکتا ہے جو برّے کے نقش قدم پر چلے؟ تُو جس خدا کو خدا کے طور پر دیکھتا ہے، اس کا جواز کیسے پیش کرے گا جوہمیشہ نیا اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ اور تیری خستہ حال کتابوں کے الفاظ تجھے نئے دور میں کیسے لے کر جا سکتے ہیں؟ وہ خدا کے کاموں کے نقش قدم کی جستجو کی طرف تیری راہنمائی کیسے کر سکتے ہیں؟ اور وہ تجھے جنت میں کیسے لے کر جائیں گے؟ تیرے ہاتھوں میں جو لغوی الفاظ ہیں، وہ عارضی سکون تو فراہم کر سکتے ہیں، لیکن زندگی کا راستہ فراہم کرنے والی سچائیاں فراہم نہیں کر سکتے۔ تُو جو صحیفے پڑھتا ہے وہ صرف تیری زبان کو تقویت دے سکتے ہیں اور وہ فلسفے کے الفاظ نہیں ہیں جو تجھے انسانی زندگی کے متعلق جاننے میں مدد دے سکیں، نہ ہی وہ راستے جو تجھے کمال کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ نقص تجھے غور و فکر کی بنیاد فراہم نہیں کرتا؟ کیا یہ تجھے اندر موجود رازوں کا ادراک نہیں دیتا؟ کیا تُو اپنے طور پر خدا سے ملنے کے لیے جنت میں جانے کے قابل ہے؟ خدا کی آمد کے بغیر، کیا تُو خدا کے ساتھ خاندان والی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے خود کو جنت میں لے جا سکتا ہے؟ کیا تُو اب بھی محو خواب ہے؟ پھر میری تجویز ہے کہ تُو خواب دیکھنا چھوڑ دے اور یہ دیکھ کہ اب کون کام کر رہا ہے – دیکھ کہ آخری دور میں انسان کو بچانے کا کام کون کر رہا ہے۔ اگر تُو ایسا نہیں کرتا تو تُو کبھی سچائی تک نہیں پہنچ سکتا اور کبھی زندگی حاصل نہیں کر سکتا(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی انسان کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

Leave a Reply

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp