کیا قادر مطلق خدا پر ایمان خداوند یسوع کے ساتھ خیانت ہے؟

April 25, 2023

آخری ایام کا مسیح، قادر مطلق خدا 30 سال پہلےظاہر ہو چکا ہے اور اس نے 1991 میں کام کرنا اور سچائیوں کا اظہار شروع کیا۔ انھوں نے اظہار کیا ہے ”کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے“، ان کے لاکھوں الفاظ، جو سب آن لائن ہیں، مشرق سے لے کر مغرب تک ایک عظیم روشنی کی طرح چمک رہے ہیں، اورپوری دنیا کو ہلا رہے ہیں۔ تمام فرقوں کے وہ لوگ جو سچائی سے محبت کرتے ہیں انہوں نے دیکھا کہ قادر مطلق خدا کا کلام سچا ہے اور روح القدس کلیسیاؤں سے بات کر رہا ہے۔ خدا کی آواز سن کر، انھوں نے بے تابی سے قادر مطلق خدا کو قبول کیا ہے۔ وہ خدا کے تخت کے سامنے پیش کیے گئے اور میمنے کی دعوت میں شریک ہیں، روزانہ خدا کا موجودہ کلام کھاتے اور پیتے ہیں، زندہ پانیوں کے رزق سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کے دل زیادہ سے زیادہ روشن ہیں، انھوں نے بہت سی سچائیاں جان لی ہیں۔ ان کے پاس خدا کی ذاتی رہنمائی اور گلہ بانی ہے۔ خدا کی عدالت کے کام کے ذریعے ان کے بدعنوان مزاجوں کو صاف اور تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان کے پاس دیدہ زیب شہادتیں ہیں۔ وہ خدا کی طرف سے آفتوں سے پہلے غالب بنائے گئے، اور وہ پہلے پھل بن گئے ہیں، خدا کی خوشنودی اور برکت حاصل کرتے ہوئے۔ اورآج، قادر مطلق خدا کی کلیسیا دنیا بھر کے ممالک میں بہار کے پہلے شگوفوں کی طرح پھوٹ رہی ہے، اورمنتخب کردہ لوگ تن من سے خدا کی بادشاہی کی خوشخبری پھیلا رہے ہیں۔ قادر مطلق کی گواہی دیتے ہوئے۔ تمام ممالک، خطوں اور تمام فرقوں کے زیادہ سے زیادہ لوگ خدا کے آخری ایام کے کام کو قبول کر رہے ہیں۔ بادشاہی کی یہ بشارت نہ رکنے والی طاقت اور رفتار کے ساتھ پھیل رہی ہے، انجیل کی پیشن گوئیوں کو پورا کرتے ہوئے: ”آخِری دِنوں میں یُوں ہو گا کہ خُداوند کے گھر کا پہاڑ پہاڑوں کی چوٹی پر قائِم کِیا جائے گا اور ٹِیلوں سے بُلند ہو گا اور سب قَومیں وہاں پُہنچیں گی(یسعیاہ 2: 2)۔ ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا(متّی 24: 27)۔ تاہم، اگرچہ بہت سے ایمان والوں نے قادر مطلق خدا کے کلام کو پڑھا ہے اور قائل ہیں کہ وہ سب سچ ہے، چونکہ قادر مطلق خدا ایک معمول کے انسان جیسا لگتا ہے اوربادل پر لوٹنے والا خداوند یسوع نہیں ہے، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ اور کچھ لوگ انجیل کے لغوی الفاظ سے چمٹے ہوئے ہیں، اس آیت کو لے کر ”یِسُوع مسِیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے“ (عِبرانیوں 13: 8)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند یسوع کا نام کبھی نہیں بدلے گا۔ قادر مطلق خدا یسوع نہیں کہلاتا، اور انجیل کہیں ”قادر مطلق خدا“ کے نام کا ذکر نہیں کرتی۔ وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں اگر انھوں نے اسے قبول کر لیا، صرف قادر مطلق خدا کے کلام کو پڑھا اور انجیل کو نہیں، اور یسوع کے نام سے دعا مانگنا چھوڑ دی، یہ خداوند یسوع کے ساتھ صریح خیانت ہو گی۔ اتنے برس خداوند پر ایمان اور، اس کے فضل سے لطف اٹھانے کے بعد، وہ اسے دھوکہ نہیں دے سکتے تھے۔ یہ ان کی سب سے بڑی دلیل ہے، اور جو لوگ قادر مطلق خدا پر ایمان رکھتے ہیں، یہ ان کی خدا وند یسوع کے غدار کے طور پر مذمت کرتے ہیں، اس نے بہت لوگوں کوسچے طریقے کی تحقیق سے روک رکھا ہے، اور شاید قادر مطلق خدا کا کلام سچ اور خدا کی آواز بھی مانیں، مگر وہ قبول کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ نتیجتاً، وہ اپنی زندگی میں آنے والی آفات کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ واقعی افسوسناک، احمقانہ اور جاہلانہ ہے۔ یہ انجیل کی ایک اور بات کو پورا کرتا ہے: ”احمق بے عقلی سے مَرتے ہیں“ (امثال 10: 21)۔ ”میرے لوگ عدمِ معرفت سے ہلاک ہُوئے(ہوسِیعَ 4: 6)۔ تو کیا قادر مطلق خدا کو قبول کرنا، خداوند یسوع کو دھوکہ دینا ہے یا نہیں؟ آئیے آج ہم اسی موضوع پر کچھ گفتگو کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ قادر مطلق خدا کو قبول کرنا خداوند کے ساتھ خیانت ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ صرف نام مختلف ہونا ہمیں مطمئن نہیں کر سکتا لیکن ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایک روح ہیں، کیا کام پر لگا ہوا وہی ایک خدا ہے۔ قانون کے دور میں، یہوواہ خدا کام کر رہا تھا، اور فضل کے دور میں یہ خداوند یسوع تھا۔ اب ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کا نام بدل گیا تھا، کہ وہ اب یہوواہ نہیں بلکہ اس کے بجائے یسوع کہلاتا تھا۔ لیکن کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ خداوند یسوع یہوواہ سے مختلف خدا تھا؟ یا یہ کہ خداوند یسوع پر ایمان لانا یہوواہ خدا کے ساتھ خیانت تھی؟ بالکل بھی نہیں۔ پر یہودیت کے زیادہ تر لوگوں نے خداوند یسوع کو قبول نہیں کیا، یہ کہتے ہوئے کہ ایسا کرنا یہوواہ کو دھوکہ دینا ہے، انھوں نے اسے مصلوب کرنے میں بھی مدد کی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ انھیں یہ احساس نہیں تھا کہ خداوند یسوع یہوواہ خدا کی روح ہے جو جسم میں ظاہر ہوا اور کام کر رہا ہے۔ اس کا نام مختلف تھا، لیکن خداوند یسوع اور یہوواہ ایک ہی روح اور، ایک ہی خدا تھے۔ انجیل میں ایک بہت ہی حیرت انگیز کہانی درج ہے فلپ کی جو خداوند یسوع سے کہتا ہے، ”اَے خُداوند! باپ کو ہمیں دِکھا۔ یِہی ہمیں کافی ہے“ (یُوحنّا 14: 8)۔ یسوع نے جواب دیا، ”فِلِپُّس! مَیں اِتنی مُدّت سے تُمہارے ساتھ ہُوں کیا تُو مُجھے نہیں جانتا؟ جِس نے مُجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیوں کر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا؟ کیا تُو یقِین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہُوں اور باپ مُجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تُم سے کہتا ہُوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مُجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے(یُوحنّا 14: 9-10)۔ خداوند یسوع کے الفاظ بہت واضح تھے۔ وہ اور یہوواہ ایک ہی خدا تھے، اور اس کی روح یہوواہ ہی کی روح تھی۔ خداوند یسوع یہوواہ خدا کا ظہور تھا، جو ایک سچا خدا ہے۔ خداوند یسوع پر ایمان لانا یہوواہ خدا سے خیانت نہیں، بلکہ یہوواہ کے تابع ہونا تھا۔ یہ خدا کی مرضی کے مطابق تھا۔ اگر آپ اپنے ایمان میں ایک نام اور انجیل کے لغوی الفاظ سے چمٹے ہوئے ہیں وہ بھی روح اور اس کے کام کو سمجھے بغیرتو، ممکن ہےآپ گمراہ ہو جائیں اور خدا کی مخالفت کریں۔ پھر آپ خدا کو دھوکہ بھی دے سکتے ہیں، جس کے نتائج ناقابل تصور ہونگے۔ جب خداوند نمودار ہوا اور کام کیا تو یہودیت کے پیروکاروں نے اسے مسترد کیا۔ توکیا یہ یہوواہ خدا کے ساتھ خیانت نہ تھی؟ ان کے عمل کا جوہر خیانت ہے، اسی لئے خدا نے بنی اسرائیل پر لعنت کی۔ اس کے علاوہ، خداوند یسوع کے ظہور اور کام سے بہت پہلے، اس کے بارے انجیل کی ایک پیشن گوئی تھی، جو کہتی ہے، ”دیکھو ایک کنواری حامِلہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اُس کا نام عِمّانُوئیل رکھیں گے(متّی 1: 23)۔ لیکن جب وہ آیا تو اسے ایمانوئیل نہیں کہا گیا – بلکہ یسوع کہا جاتا رہا۔ یہودیت کے فریسیوں نے لغوی کلام پر سختی سے عمل کیا، چونکہ خدا کا نیا نام مطابقت نہیں رکھتا تھا، تو انھوں نے خداوند کے انکاراور مذمت کی کوشش کی۔ چاہے خداوند یسوع کی تعلیمات میں کتنا اختیاراورکتنی طاقت موجود ہے، انھوں نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور آخر کار گھناؤنے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسے صلیب پر کیلوں سے جڑ دیا، اور خدا کی لعنت اور سزا کے مستحق ہوئے۔ یہ واقعی ایک فکر انگیز سبق ہے! تو جہاں تک خداوند کے استقبال کا تعلق ہے، کیا ہمیں سختی سے کتابوں سے چمٹے رہنا ہے، اور کیا صرف یسوع کے نام کے ساتھ چمٹے رہنا ہے؟ ایسا کرنے سے خدا کی مخالفت اور مذمت کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے، بہت سے ایمان داروں کو بصیرت نہیں، لہٰذا وہ یسوع کے نام اور انجیل کے لغوی الفاظ کو پکڑتے ہیں، اور سچے طریقے کی تحقیق کریں تو پوچھتے رہتے ہیں، ”کیا قادر مطلق خدا کے نام کے لیے انجیل کی کوئی بنیاد ہے؟ اگر قادر مطلق خدا کا نام انجیل میں نہیں ہے، تو میں اسے قبول نہیں کر سکتا۔“ اگر آپ کہتے ہیں کہ قادر مطلق خدا کا نام انجیل میں نہ ہوتو میں اسے قبول نہیں کروں گا، پھر آپ خداوند یسوع پر ایمان کیوں لاتے ہیں کیونکہ ان کا نام عہد نامہ قدیم میں نہیں ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ واضح طور پر، بہت سے لوگ انجیل کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھتے، لیکن اندھا دھند لفظی کلام و قوانین سے چمٹے رہتے ہیں۔ وہ مناجات نہیں کرتے، تاکہ خدا کے کلام سے سچائی تلاش کریں یا روح القدس سے تصدیق کریں، یہ بالآخر انہیں ہلاک کرے گا۔ درحقیقت، خدا کے آخری ایام میں کام اور ظہورکے بارے انجیلی پیشن گوئیاں ہیں، قادر مطلق خدا کے نام پر۔ ”تب قَوموں پر تیری صداقت اور سب بادشاہوں پر تیری شَوکت ظاہِر ہو گی اور تُو ایک نئے نام سے کہلائے گی جو خُداوند کے مُنہ سے نِکلے گا(یسعیاہ 62: 2)۔ ”جو غالِب آئے مَیں اُسے اپنے خُدا کے مَقدِس میں ایک سُتُون بناؤں گا۔ وہ پِھر کبھی باہر نہ نِکلے گا اور مَیں اپنے خُدا کا نام اور اپنے خُدا کے شہر یعنی اُس نئے یروشلِیم کا نام جو میرے خُدا کے پاس سے آسمان سے اُترنے والا ہے اور اپنا نیا نام اُس پر لِکُھوں گا(مُکاشفہ 3: 12)۔ ”میں الفا اور اومیگا ہوں، ابتدا اور انتہا ہوں، جو ہے، اور جو تھا، اور جو آنے والا ہے، قادرِ مطلق(مُکاشفہ 1: 8)۔ ”اور یہ کہا کہ اَے خُداوند خُدا۔ قادِرِ مُطلِق! جو ہے اور جو تھا۔ ہم تیرا شُکر کرتے ہیں کیونکہ تُو نے اپنی بڑی قُدرت کو ہاتھ میں لے کر بادشاہی کی(مُکاشفہ 11: 17)۔ ”پِھر مَیں نے بڑی جماعِت کی سی آواز اور زور کے پانی کی سی آواز اور سخت گرجوں کی سی آواز سُنی کہ ہلّلُویاہ! اِس لِئے کہ خُداوند ہمارا خُدا قادِرِ مُطلِق بادشاہی کرتا ہے(مُکاشفہ 19: 6)۔ آپ وحی 4: 8، اور 16: 7، میں، اورمزید بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ کتاب مقدس میں پیشن گوئی کی گئی تھی کہ آخری ایام میں خدا کا ایک نیا نام ہو گا، ”قادر مطلق“، یعنی قادر مطلق خدا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خدا آخری ایام میں ظاہرہو کر قادر مطلق کے نام سے کام کرتا ہے، اور خدا نے پہلے اس کی منصوبہ بندی کی۔ جن لوگوں نے قادر مطلق کو مانا، انھوں نے خداوند کی آواز سنی ہے اور قادر مطلق خدا کو لوٹے ہوئے خداوند یسوع کے طور پرمانا ہے۔ انھوں نے خداوند کا استقبال کیا ہے، اس کی حضوری میں پیش ہوئے اور میمنے کی شادی کی دعوت میں شریک ہیں۔ یہی لوگ سچے دین دار اور اصلی ایمان والے ہیں۔ انھوں نے آخر کار خداوند کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے حاصل کیا ہے۔ جو لوگ خداوند کا استقبال کرنے میں ناکام رہتے ہیں وہ اپنے ایمان کو گمشدہ اور ختم پائیں گے۔ وہ خداوند کو کھو دیں گے۔ وہ لوگ جو یسوع کے نام پر قائم رہتے ہیں جب خداوند آتا ہے تو اس کی آواز کو نہیں پہچانتے۔ وہ قادرِ مطلق خُدا کو خُداوند یسوع کی روح کے ظاہر ہونے اور کام کرنے کے طور پر نہیں پہچانتے ہیں۔ خداوند یسوع کی واپسی کو قبول کیے بغیر، اسے پہچانے بغیر اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ خداوند یسوع کی مخالفت اوراسے دھوکہ دینا ہے۔ خداوند کے ساتھ خیانت کیا ہے؟ یہ اسے پہچانے بغیر اس پر ایمان لانا ہے! یہ سب اب واضح ہے، ٹھیک ہے؟

تو اب خدا کا نام کیوں بدلتا رہتا ہے؟ وہ ہر دور کے لیے ایک نیا نام کیوں اپناتا ہے؟ اس میں سچائی کا ایک راز چھپا ہے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالنے کے لیےآئیے ہم قادر مطلق خدا کے کلام پر نظر ڈالیں۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”ہر بار جب خدا زمین پر آتا ہے، وہ اپنا نام، اپنی جنس، اپنی شبیہ، اور اپنا کام بدلتا ہے؛ وہ اپنے کام کو دہراتا نہیں ہے۔ وہ ایک خدا ہے جو ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ جب وہ پہلے آیا تو اسے یسوع کہا گیا تھا؛ جب وہ دوبارہ آئے گا توکیا وہ اب بھی یسوع ہی کہلا سکتا ہے؟ جب وہ پہلے آیا تو وہ مرد تھا؛ کیا وہ دوبارہ اس مرتبہ بھی مرد ہی ہو سکتا ہے؟ جب وہ فضل کے دور میں آیا تو اس کا کام صلیب پر میخوں سے جڑنا تھا۔ جب وہ دوبارہ آئے گا، تو کیا وہ اب بھی بنی نوع انسان کی گناہ سے خلاصی کروا سکتا ہے؟ کیا اسے دوبارہ صلیب پر میخوں سے جڑا جا سکتا ہے؟ کیا یہ اس کے کام کو دہرانا نہیں ہوگا؟ کیا تو نہیں جانتا تھا کہ خدا ہمیشہ نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا تبدیل نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے، لیکن اس سے مراد خدا کے مزاج اور اس کے جوہر کی تبدیلی ہے۔ اس کے نام اور کام میں تبدیلیاں اس بات کو ثابت نہیں کرتی ہیں کہ اس کے جوہر میں تبدیلی آئی ہے؛ دوسرے الفاظ میں، خدا ہمیشہ خدا رہے گا، اور یہ کبھی نہیں بدلے گا۔ اگر تو کہتا ہے کہ خدا کا کام تبدیل نہیں ہو سکتا ہے، تو پھر کیا وہ اپنے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کو مکمل کرنے کے قابل ہو سکے گا؟ تو صرف یہ جانتا ہے کہ خدا ہمیشہ کے لیے ناقابلِ تغیر ہے، لیکن کیا تو جانتا ہے کہ خدا ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ اگر خدا کا کام ناقابلِ تغیر ہوتا، تو کیا وہ بنی نوع انسان کی آج کے دور تک راہنمائی سکتا تھا؟ اگر خدا ناقابلِ تغیر ہے تو ایسا کیوں ہے کہ اس نے پہلے سے ہی دو ادوار کا کام کر رکھا ہے؟ ۔۔۔ اور اس طرح، یہ الفاظ کہ 'خدا ہمیشہ نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا' اس کے کام کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور یہ الفاظ کہ 'خدا ناقابل تغیر ہے' اس بات کا حوالہ دیتے ہیں جو خدا فطری طور پر رکھتا ہے اور جو وہ خود ہے۔ اس بات سے قطع نظر، تو چھ ہزار سال کے کام کا تعلق کسی ایک نکتے سے نہیں جوڑ سکتا اور نہ ہی مردہ الفاظ سے اس کو محدود کر سکتا ہے۔ یہ انسان کی حماقت ہے۔ خدا اتنا سادہ نہیں ہے جتنا انسان تصور کرتا ہے، اور اس کا کام کسی ایک دور میں ٹہرا نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر، خدا کا نام ہمیشہ یہوواہ نہیں ہو سکتا؛ خُدا اپنا کام یسوع کے نام سے بھی کر سکتا ہے؛ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ خدا کا کام ہمیشہ آگے کی سمت بڑھ رہا ہے۔

”خدا ہمیشہ خدا ہے، اور وہ کبھی شیطان نہیں بنے گا؛ شیطان ہمیشہ شیطان ہے، اور یہ کبھی خدا نہیں بنے گا۔ خدا کی حکمت، خدا کی حیرت انگیزی، خدا کی راستبازی، اور خدا کی عظمت کبھی نہیں بدلے گی۔ اس کا جوہر اور جو وہ رکھتا ہے اور جو وہ خود ہے، کبھی نہیں بدلے گا۔ جہاں تک اس کے کام کا تعلق ہے، چونکہ وہ ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ ہمیشہ گہرائی میں جاتے ہوئے آگے کی سمت ترقی کرتا ہے، ہر دور میں خدا ایک نیا نام رکھتا ہے، ہر دور میں وہ نیا کام کرتا ہے، اور ہر دور میں وہ اپنی مخلوق کو اپنی نئی مرضی اور نئے مزاج کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اگر، نئے دور میں، لوگ خُدا کے نئے مزاج کے اظہار کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں، تو کیا وہ اُسے ہمیشہ کے لیے صلیب پر میخوں سے نہیں جڑیں گے؟ اور ایسا کرنے سے کیا وہ خدا کی تشریح نہیں کریں گے؟(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے کام کی بصیرت (3))۔

’یہوواہ‘وہ نام ہے جو میں نے اسرائیل میں اپنے کام کے دوران اپنایا اور اس کا مطلب ہے بنی اسرائیل (خدا کے چُنے ہوئے لوگ) کا خدا جو انسان پر رحم کر سکتا ہے، انسان پر لعنت بھیج سکتا ہے اور انسان کو زندگی کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ وہ خدا جو بڑی طاقت کا مالک ہے اور حکمت سے پُر ہے۔ ”یسوع“ عمانویل ہے، جس کا مطلب ہے گناہ کا چڑھاوا جو محبت سے سرشار ہے، شفقت سے مملو ہے اور جو انسان کو خلاصی دلاتا ہے۔ اس نے فضل کے دور کا کام کیا اور وہ فضل کے دور کی نمائندگی کرتا ہے، اور انتظامی منصوبے کے کام کے صرف ایک حصے کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ ۔۔۔ یسوع کا نام اس لیے وجود میں آیا تاکہ دور فضل کے لوگ دوبارہ جنم لے سکیں اور انہیں بچایا جا سکے، اور یہ پوری بنی نوع انسان کی خلاصی کے لیے ایک خاص نام ہے۔ اس طرح، یسوع نام خلاصی کے کام کی نمائندگی کرتا ہے، اور دور فضل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہوواہ نام اسرائیل کے لوگوں کے لیے ایک خاص نام ہے جو شریعت کے تحت رہتے تھے۔ کام کے ہر دور اور ہر مرحلے میں، میرا نام بے بنیاد نہیں ہے، لیکن نمائندہ اہمیت رکھتا ہے: ہر نام ایک دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ ”یہوواہ“ شریعت کے دور کی نمائندگی کرتا ہے اور وہ اعزاز ہے جس کے ذریعہ اسرائیل کے لوگوں نے اپنے خدا وند کو، جس کی وہ عبادت کرتے تھے، پکارا۔ ”یسوع“ فضل کے دور کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ ان تمام لوگوں کے خدا کا نام ہے جنہیں فضل کے دور میں خلاصی دی گئی۔ اگر انسان اب بھی آخری دور میں نجات دہندہ یسوع کی آمد کی آرزو رکھتا ہے اور اب بھی اُس سے اُس صورت میں آنے کی امید رکھتا ہے جو اس نے یہودیہ میں اپنائی تھی تو چھ ہزار سالہ مکمل انتظامی منصوبہ خلاصی کے دور میں رک گیا ہوتا اور آگے نہ بڑھ سکتا۔ مزید برآں، آخری ایام کبھی نہیں آئیں گے اور دور کبھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یسوع نجات دہندہ صرف انسانوں کی خلاصی اور نجات کے لیے ہے۔ میں نے یسوع کا نام صرف فضل کے دور میں تمام گنہگاروں کی خاطر لیا، لیکن یہ وہ نام نہیں ہے جس سے میں پوری انسانیت کو ختم کروں گا۔ اگرچہ یہوواہ، یسوع، اور مسیحا سبھی میری روح کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ نام صرف میرے انتظامی منصوبے کے مختلف زمانوں کی نشاندہی کرتے ہیں، اور میری ذات کی تمامیت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ نام جن سے روئے زمین پر لوگ مجھے پکارتے ہیں وہ میرے مکمل مزاج اور جو کچھ میں ہوں اس کی تمامیت بیان نہیں کر سکتے۔ وہ محض مختلف نام ہیں جن سے مجھے مختلف زمانوں میں پکارا گیا ہے اور یوں، جب آخری دور – آخری ایام کا دور – آئے گا، میرا نام دوبارہ بدل جائے گا۔ مجھے یہوواہ یا یسوع نہیں کہا جائے گا، کجا یہ کہ مسیحا کے نام سے – میں خود طاقتور قادرِ مطلق خدا کہلاؤں گا اور اس نام کے تحت میں پورا دور ختم کروں گا۔ مجھے کبھی یہوواہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مجھے مسیحا بھی کہا جاتا تھا، اور لوگوں نے ایک وقت میں مجھے پیار اور عزت کے ساتھ یسوع نجات دہندہ بھی کہا۔ تاہم، آج میں وہ یہوواہ یا یسوع نہیں ہوں جسے لوگ ماضی میں جانتے تھے، میں وہ خدا ہوں جو آخری ایام میں واپس آیا ہے، وہ خدا جو دور ختم کرے گا۔ میں خود وہ خدا ہوں جو زمین کے آخری سرے سے اٹھتا ہے، اپنے پورے مزاج سے معمور نیز اختیار، عزت اور شان سے سرشار ہوں۔ لوگ کبھی میرے ساتھ شامل نہیں ہوئے، انھوں نے مجھے کبھی نہیں جانا اور ہمیشہ میرے مزاج سے ناواقف رہے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک کسی ایک شخص نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ یہ وہ خدا ہے جو آخری ایام میں انسان پر ظاہر ہوتا ہے لیکن انسانوں کے درمیان پوشیدہ ہے۔ وہ انسان کے درمیان رہتا ہے، سچا اور حقیقی، جلتے سورج اور بھڑکتے شعلے کی طرح، طاقت سے پُر اور اختیار سے لبریز۔ کوئی بھی شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جس کی عدالت میرے کلام سے نہیں کی جائے گی، اور کوئی ایک شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جو آگ کے جلنے سے پاک نہ ہو۔ آخرکار، تمام قومیں میرے کلام کی وجہ سےنعمتیں پائیں گی اور میرے الفاظ کی وجہ سے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی۔ یوں آخری ایام میں تمام لوگ دیکھیں گے کہ میں نجات دہندہ ہوں، واپس آیا ہوں، اور یہ کہ میں ہی وہ قادرِ مطلق خدا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کو فتح کرتا ہے۔ اور سب دیکھیں گے کہ میں کبھی انسان کے لیے گناہوں کا کفارہ تھا، لیکن یہ کہ آخری دنوں میں، میں سورج کے شعلے بن جاؤں گا جو تمام چیزوں کو جلا کر خاک کردیتے ہیں اور ساتھ ہی راستبازی کا سورج ہوں جو تمام چیزوں کو منکشف کرتا ہے۔ یہ آخری ایام میں میرا کام ہے۔ میں نے یہ نام لیا ہے اور میں اس مزاج کا حامل ہوں تاکہ سب لوگ دیکھیں کہ میں ایک راست باز خدا ہوں، جلتا ہوا سورج ہوں، بھڑکتا ہوا شعلہ ہوں اور سب میری عبادت کریں جو ایک حقیقی خدا ہے۔ تاکہ وہ میرا حقیقی چہرہ دیکھ سکیں: میں نہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہوں اور میں نہ صرف خلاصی دہندہ ہوں، میں آسمانوں اور زمین اور سمندروں کی تمام مخلوقات کا خدا ہوں(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ نجات دہندہ پہلے ہی ”سفید بادل“ پر واپس آ چکا ہے)۔

قادر مطلق خدا کا کلام ان ناموں کی وضاحت کرتا ہے جو خدا ہر دور میں اپنے لیے استعمال کرتا ہے اور اس کے ناموں کے ارد گرد سچائی کے اسراروں کی بھی۔ خدا کا نام دور اور اس کے کام کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اس کا ہر نام اس کام کا نمائندہ ہے جو وہ اس دور میں کر رہا ہے۔ پر فرق نہیں پڑتا کہ خدا کا نام یا کام کس طرح تبدیل ہوسکتا ہے، اس کا جوہر کبھی نہیں بدلتا – خدا ہمیشہ خدا ہے۔ خدا نے قانون کے دور میں یہوواہ کے نام سے کام کیا، قانون کا اجراء اور زمین پر بنی نوع انسان کی زندگیوں کی رہنمائی کرتے ہوئے، لوگوں کو سکھاتے ہوئے کہ گناہ کیا ہے اور یہوواہ خدا کی عبادت کیسے کرنی ہے۔ فضل کے دور میں، خدا کی روح ابن آدم کے طور پر جسم میں ملبوس تھی۔ اس نے یسوع کے نام سے سچائیوں کا اظہار کرتے خلاصی کا کام کیا اس نے سچائیوں کا اظہار اور یسوع کے نام سے خلاصی کا کام کیا، ہمیں ہمارے گناہوں سے خلاصی دلا کر۔ اب آخری ایام میں، خدا نے دوبارہ تجسیم اختیار کی اور آخری ایام کی عدالت کا کام قادر مطلق خدا کے نام سے کر رہا ہے، نوع انسانی کی عدالت اور اسے پاک کرنے کے لیے سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے، ہمیں مکمل طور پر گناه اور شیطان کی قوتوں سے بچانے، نیز اس تاریک پرانی بری دنیا کا خاتمہ کر رہا ہے۔ وہ انسان کو ایک خوبصورت منزل کی طرف لے جائے گا۔ اس طرح نوع انسان کو بچانے کے لیے خدا کا 6000 سالہ انتظامی منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ خدا کے کام کے حقائق ہمیں دکھاتے ہیں کہ یہوواہ، یسوع اور قادر مطلق خدا تینوں نام، تین مختلف مراحل میں نوع انسانی کو بچانے کے لیے خدا کے کام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر لگتا ہے کہ خدا کا نام اور کام بدل رہا ہے، پر خدا کا جوہر نہیں بدلتا۔ خدا کا مزاج اور جو کچھ اس کے پاس ہے وہ کبھی نہیں بدلتا ہے۔ وہ واحد خدا ہے، جو نوع انسانی کی رہنمائی، خلاصی اور مکمل طور پر تطہیر کرتا اور بچاتا ہے۔ جب ہم قانون کے دور میں عہد نامہ قدیم میں یہوواہ خدا کے کلام کو دیکھتے ہیں، فضل کے دور میں خداوند یسوع کے کلام کو، اور اب بادشاہی کے دور میں قادر مطلق خدا کے کلام کو، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ سچائیاں مکمل طور پر ایک ہی روح سے ہیں اور ایک ہی روح کے بیانات ہیں، کیونکہ مختلف ادوار میں خدا کے سب کلمات اس کی محبت اور راستباز مزاج پر مشتمل ہیں۔ جو کچھ خدا کے پاس تھا اور ہے وہ ان کے اندر موجود ہے۔ خدا کی محبت، خدا کا مزاج، اور اس کے پاس جو تھا اور ہے یہ سب ایک ہی سچے خدا کا جوہراور اسی کی ملکیت اور وجود کو تشکیل دیتے ہیں۔ فضل کے دور میں، خداوند یسوع کا ارشاد سننا، بالکل ایسا ہی تھا جیسے یہوواہ خدا کی آواز کو سننا۔ جب ہم قادر مطلق خدا کا کلام سنتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے خداوند یسوع ذاتی طور پر ہم سے بات کر رہا ہے، اور یہوواہ خدا ہم سے بات کر رہا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا کے کام کے تینوں مراحل ایک ہی خدا کی طرف سے سر انجام دیے گئے ہیں. خدا کا نام بدل جاتا ہے، لیکن اس کا جوہر، جو کچھ اس کے پاس تھا اور ہے اور وہ راستباز مزاج جس کا وہ اظہار کرتا ہے ذرا سی بھی تبدیلی کے بغیر، ایک ہی ہیں۔ قادر مطلق خدا کے آج والے تمام کام خداوند یسوع کے کام کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ خلاصی کے کام کی بنیاد پر قائم کردہ کام کا ایک مرحلہ ہے جو گہرا اور زیادہ بلند ہے – نوع انسانی کو مکمل صاف کرنے اور بچانے کا کام۔ قادر مطلق خدا نے سچائیوں کا بکثرت اظہار کیا ہے، نہ صرف انجیل کے اسرار کو ظاہر کیا ہے، بلکہ بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے خدا کے 6000 سالہ انتظامی منصوبے کے اسرار کو بھی بے نقاب کیا، جیسے اس کے انتظامی کام میں خدا کے مقاصد، خدا کس طرح انسان کو بچانے کے لیے تین مراحل میں کام کرتا ہے، اور تجسیمات کے اسرار، کس طرح خدا نوع انسانی کو پاک کر کے انصاف کرتا اور بچاتا ہے، کیسے ہر قسم کے شخص کے انجام اور منزل کا تعین ہوتا ہے، کس طرح مسیح کی بادشاہی زمین پر قائم کی جاتی ہے اور بہت کچھ۔ خدا انسان کی شیطانی بدعنوانی کی سچائی بھی ظاہر کرتا ہے، وہ انسان کی شیطانی، خدا مخالف فطرت کی عدالت کرتا ہے۔ اور وہ سچائیاں بھی واضع کرتا ہے جنھیں نوع انسانی عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے، ہمیں اپنی بدعنوانی کو ختم کرنے اورمزاج کو تبدیل کرنے کے لیے عملی راستے فراہم کرتا ہے۔ قادر مطلق خدا، جو سچائیاں ظاہرکرتا ہے وہ ہیں جن کی انسان کو پاک ہونے اور مکمل نجات حاصل کرنے کے لیے ضرورت ہے، اور خداوند یسوع کی پیشن گوئی کو پورا کرتی ہیں: ”مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا(یُوحنّا 16: 12-13)۔ آخری ایام میں قادر مطلق خدا کا عدالت کا کام نوع انسانی کو پوری طرح سے بچاتا ہے اور ان لوگوں کو جنھیں خدا نے بچانے کے لیے طے کیا ہوا ہے، اس کے حضور پیش کرتا ہے تاکہ انھیں عدالت اور سزا کے ذریعے پاک صاف کیا جائے۔ وہ آفات سے پہلے ہی فاتحین کے ایک گروہ کی تکمیل کرچکا ہے۔ اب بڑی بڑی آفات کا آغاز ہو چکا ہے اورجزا و سزا کا کام شروع ہو چکا ہے۔ وہ سب جو خدا مخالف اور شیطان کے پیروکار ہیں تباہ ہو جائیں گے، جبکہ وہ لوگ جو خدا کی عدالت کے وسیلہ سے پاک کیے گئے ہیں خدا ان کی حفاظت کرے گا اور وہ آفات میں سلامت رہیں گے۔ آفات کے بعد، مسیح کی بادشاہی زمین پر ظاہر ہو گی، وحی سے ان تمام پیشن گوئیوں کو سمجھتے ہیں: ”دُنیا کی بادشاہی ہمارے خُداوند اور اُس کے مسِیح کی ہو گئی اور وہ ابدُالآباد بادشاہی کرے گا(مُکاشفہ 11: 15)۔ ”ہلّلُویاہ! اِس لِئے کہ خُداوند ہمارا خُدا قادِرِ مُطلِق بادشاہی کرتا ہے(مُکاشفہ 19: 6)۔ ”دیکھ خُدا کا خَیمہ آدمِیوں کے درمِیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکُونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خُدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خُدا ہو گا۔ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسُو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ مَوت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چِیزیں جاتی رہیِں(مُکاشفہ 21: 3-4)۔ قادر مطلق خدا نے بکثرت سچ کا اظہار کرتے، ایسا عظیم کام حاصل کیا یہ ثابت کرتا ہے کہ وه خدا کی مجسم روح ہے، جو ابن آدم کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ یسوع نہیں کہلاتا ہے اور نہ ہی وہ یہودی خداوند یسوع کی صورت میں ہے، لیکن قادر مطلق خدا کی روح خداوند یسوع کی روح ہے – وہ خداوند یسوع ہے جو واپس آیا ہے۔ قادر مطلق خدا، خداوند یسوع، اور یہوواہ سب ایک خدا ہیں۔ غورو فکر کے بعد آپ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ قادر مطلق خدا پر ایمان لانا خداوند کو دھوکہ دینا ہے، کیونکہ قادر مطلق خدا کا استقبال خداوند کا استقبال ہے، میمنے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور خدا کے سامنے پیش کیے جانے پر! مذہبی دنیا میں بہت سے لوگ اب بھی لغوی کلام سے چمٹے ہوئے ہیں، خداوند یسوع کے نام سے، اس کے بادل پر اترنے کا انتظار کر رہے ہیں، اورقادر مطلق خدا کے آخری ایام کے کام کی تحقیق سے انکاری ہیں۔ چاہے وہ جتنی بھی سچائیوں کا اظہار کرے، وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ یہ خدا کی روح کی طرف سے ہے، کہ یہ اظہار اور کام خداوند یسوع کی روح کا ہے۔ حتیٰ کہ وہ، ہمارے پاس سچائی لانے والے قادر مطلق خدا کی مذمت کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ وہی غلطی نہیں کر رہے جو فریسیوں نے کی تھی؟ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خداوند یسوع سے عقیدت ہے، لیکن خداوند یسوع نے ان کو بدکار قرار دیا۔ خداوند یسوع نے کہا، ”اُس دِن بہتیرے مُجھ سے کہیں گے اَے خُداوند اَے خُداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبُوّت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نِکالا اور تیرے نام سے بُہت سے مُعجِزے نہیں دِکھائے؟ اُس وقت مَیں اُن سے صاف کہہ دُوں گا میری کبھی تُم سے واقفِیّت نہ تھی۔ اَے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ(متّی 7: 22-23)۔ اور اس طرح، خداوند انھیں ختم کر دے گا۔

خلاصے کے لیے قادر مطلق خدا کے مزید کلام کو پڑھتے ہیں۔ ”آخری دور کا مسیح زندگی لائے گا اور سچائی کا دیرپا اور جاوداں راستہ لائے گا۔ یہ وہ سچا راستہ ہے جس سے انسان زندگی حاصل کرتا ہے اور یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انسان خدا کو جانے گا اور اس سے توثیق پائے گا۔ اگر تُو آخری ایام کے مسیح کے فراہم کردہ زندگی کے راستے کی جستجو نہیں کرتا تو تجھے کبھی یسوع کی تائید حاصل نہیں ہو سکے گی اور تُو آسمانوں کی بادشاہی کے دروازے سے داخل ہونے کا کبھی اہل نہیں ہو پائے گا، کیونکہ تُو صرف ایک کٹھ پتلی اور تاریخ کا قیدی رہے گا۔ جو لوگ ضابطوں، حروف، اور تاریخ کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں، وہ کبھی زندگی حاصل نہ کر پائیں گے اور نہ ہی دائمی زندگی کا راستہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ان کے پاس صرف وہ گدلا پانی ہے جو ہزاروں سال سے رکا ہوا ہے، وہ زندگی کا پانی نہیں ہے جو تخت سے بہتا ہے۔ جن تک زندگی کا پانی نہیں پہنچتا، وہ ہمیشہ لاشیں، شیطان کے کھلونے اور دوزخ کے بیٹے رہیں گے۔ پھر وہ خدا کو کیسے دیکھ سکیں گے؟ اگر تُو صرف ماضی سے جڑے رہنے کی کوشش کرتا ہے، صرف جامد رہ کر چیزوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور جمود تبدیل کرنے اور تاریخ کو ترک کرنے کی کوشش نہیں کرتا، تو کیا تُو ہمیشہ خدا کے خلاف نہیں رہے گا؟ خدا کے کام کے مراحل بہت پھیلے ہوئے اور زبردست ہیں، جیسے لہریں اور گرجتی بجلی – پھر بھی تُو بس بیٹھ کر کاہلی سے تباہی کا انتظار کرتا ہے، اپنی حماقت سے چمٹا ہوا ہے اور کچھ نہیں کر رہا ہے۔ اس طرح، تُو کچھ ایسا کیسے بن سکتا ہے جو برّے کے نقش قدم پر چلے؟ تُو جس خدا کو خدا کے طور پر دیکھتا ہے، اس کا جواز کیسے پیش کرے گا جوہمیشہ نیا اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ اور تیری خستہ حال کتابوں کے الفاظ تجھے نئے دور میں کیسے لے کر جا سکتے ہیں؟ وہ خدا کے کاموں کے نقش قدم کی جستجو کی طرف تیری راہنمائی کیسے کر سکتے ہیں؟ اور وہ تجھے جنت میں کیسے لے کر جائیں گے؟ تیرے ہاتھوں میں جو لغوی الفاظ ہیں، وہ عارضی سکون تو فراہم کر سکتے ہیں، لیکن زندگی کا راستہ فراہم کرنے والی سچائیاں فراہم نہیں کر سکتے۔ تُو جو صحیفے پڑھتا ہے وہ صرف تیری زبان کو تقویت دے سکتے ہیں اور وہ فلسفے کے الفاظ نہیں ہیں جو تجھے انسانی زندگی کے متعلق جاننے میں مدد دے سکیں، نہ ہی وہ راستے جو تجھے کمال کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ نقص تجھے غور و فکر کی بنیاد فراہم نہیں کرتا؟ کیا یہ تجھے اندر موجود رازوں کا ادراک نہیں دیتا؟ کیا تُو اپنے طور پر خدا سے ملنے کے لیے جنت میں جانے کے قابل ہے؟ خدا کی آمد کے بغیر، کیا تُو خدا کے ساتھ خاندان والی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے خود کو جنت میں لے جا سکتا ہے؟ کیا تُو اب بھی محو خواب ہے؟ پھر میری تجویز ہے کہ تُو خواب دیکھنا چھوڑ دے اور یہ دیکھ کہ اب کون کام کر رہا ہے – دیکھ کہ آخری دور میں انسان کو بچانے کا کام کون کر رہا ہے۔ اگر تُو ایسا نہیں کرتا تو تُو کبھی سچائی تک نہیں پہنچ سکتا اور کبھی زندگی حاصل نہیں کر سکتا(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی بشر کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

تجسیم کیا ہے؟

ہم سب جانتے ہیں کہ دو ہزار سال پہلے، خدا بنی نوع انسان کی نجات کے لیے خدا وند یسوع کی صورت میں انسانی دنیا میں آیا، اور منادی کی، ”تَوبہ...

Leave a Reply

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp