میں نے اپنی گواہی لکھنے سے کیا حاصل کیا
میں نے حال ہی میں بہت سے بھائیوں اور بہنوں کو اپنے تجربات کے بارے میں گواہیاں لکھتے ہوئے دیکھا اور میں بھی گواہی لکھنے کی مشق کرنا چاہتی تھی۔ میں برسوں سے ایمان رکھنے والی تھی، خدا کے دیے ہوئے رزق کا بہت لطف اٹھایا اور کچھ تجربات بھی حاصل ہوئے۔ میں اپنی عبادت کا کچھ وقت مضمون لکھنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی، لیکن میں نے جب بھی ابتدائیہ لکھا، مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آگے کیا کہنا ہے۔ میں نے سوچا میں متعدد برطرفیوں، ناکامیوں اور ٹھوکروں سے دوچار ہوچکی ہوں اور بہت کچھ سے نمٹ چکی تھی۔ ایک خاص حد تک، میں نے کچھ تجربات حاصل کیے تھے۔ جب میں لکھنے کا آغاز کرنے لگی تو میرا دماغ خالی کیوں ہو گیا؟ ایک یا دو مہینے اسی طرح گزر گئے، اور آخرکار میں کوئی مضمون نہیں لکھ پائی۔ مجھے لگا کہ یہ بہت مشکل تھا۔ نیز رہنما جانتا تھا کہ میرے پاس صلاحیت اور خیالات کا فقدان ہے۔ مجھے خود پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے ہر روز بہت سی چیزوں سے نمٹنا پڑتا تھا، اور میں خدا کے کلام پر غور و خوض کرنے کے لیے سکون سے وقت نہیں نکال سکتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، اچھی صلاحیتوں اور تجربات کے حامل کچھ بھائی اور بہنیں لکھ سکتے ہیں۔ ان ہی کا مضامین لکھنا بہتر تھا – مجھے لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے مضمون لکھنے کا خیال بالکل ہی ترک کر دیا۔ کبھی کبھی بھائی اور بہنیں مجھے یاد دلاتے تھے کہ میں بھی لکھ سکتی ہوں، لیکن میں جھنجلا جاتی، اور حتیٰ کہ ان کے پیغامات کا جواب دینا بھی نہیں چاہتی تھی۔ کچھ عرصے بعد، میری عبادت ٹھیک نہیں چل رہی تھی۔ میں نے خدا کا کلام پڑھا لیکن مجھے روح القدس کی بصیرت نہیں ملی، اور خدا کو محسوس نہ کر سکی۔ کام میں بے شمار مسائل تھے جنھیں نہ تو میں سمجھ سکتی تھی اور نہ ہی حل کر سکتی تھی، اور ایک کے بعد ایک مسئلہ پیدا ہوتا گیا۔ میں بہت دباؤ محسوس کر رہی تھی، اور میں واقعی تکلیف میں تھی۔ میں نے خدا سے دعا مانگی، اس سے کہا کہ وہ مجھے آگہی دے اور میری رہنمائی کرے، تاکہ میں اپنے مسائل سمجھ سکوں۔
ایک دن اپنی عبادت کے دوران، میں نے خدا کے کلام میں یہ پڑھا: ”سچائی کی پیروی رضاکارانہ ہے؛ اگر تُو سچائی سے محبت کرتا ہے تو روح القدس کام کرتا ہے۔ جب تُو اپنے دل میں سچائی سے محبت کرتا ہے – تجھ پر کوئی بھی تکلیف اور مصیبت آنے پر، جب تُو خدا سے دعا کرتا ہے اور خدا پر بھروسا کرتا ہے، اور خود پر غور کرتا ہے، اور خود کو جاننے کی کوشش کرتا ہے – جب، اگرتجھے کسی مسئلے کی خبر ہوتی ہے، تو تُو اسے حل کرنے کے لیے فعال طور پر سچائی کی تلاش کرتا ہے – تب تُو اپنی گواہی میں ثابت قدم رہنے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ تمام مظاہر سچائی سے محبت کرنے والے لوگوں کی فطری پیداوار ہیں، اور یہ سب رضاکارانہ طور پر، خوشی سے، اور بغیر جبر کے ہوتے ہیں، اور بالکل غیر مشروط ہیں۔ اگر لوگ اس طریقہ سے خدا کی اتباع کرسکتے ہیں تو آخر میں جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ سچائی اور زندگی ہے، وہ جہاں داخل ہوتے ہیں وہ سچائی کی حقیقت ہے، اور جو وہ جیتے ہیں وہ انسان کی تصویر ہے۔ ۔۔۔ اگر تُو نے سچائی حاصل نہیں کی ہے، تو تیرے سامنے آنے والی کسی بھی دلیل یا عذر میں پائیداری نہیں ہوگی۔ تو جیسی چاہے دلیل دینے کی کوشش کر؛ جیسے چاہے خود کو گرہوں میں جکڑ – کیا خدا کو پروا ہے؟ کیا خدا تجھ سے بات کرے گا؟ کیا وہ تیرے ساتھ بحث ومشورہ کرے گا؟ کیا وہ تجھ سے مشاورت کرے گا؟ جواب کیا ہے؟ نہیں۔ وہ ہرگز نہیں کرے گا۔ تیری دلیل غلط ہے، چاہے وہ جیسی بھی ہو۔ یہ سوچ کر کہ تُو سچائی کی پیروی نہ کرنے کے لیے ہر طرح کے دلائل اور بہانے پیش کر سکتا ہے، تجھے خدا کی مرضی غلط نہیں سمجھنی چاہیے۔ خدا تجھ سے تیرے راستے میں آنے والے ہر ماحول اور ہر معاملے میں سچائی کی جستجو کا کام لے لے گا، اور تُو آخرکار سچائی کی حقیقت میں داخل ہوگا اور سچائی حاصل کرے گا۔ اس سے قطع نظر کہ خدا نے تیرے لیے کن حالات کا انتظام کیا ہے، تجھے کن لوگوں اور واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور تُو خود کو کس ماحول میں پاتا ہے، تجھے خدا سے دعا کرنی چاہیے اور سچائی کی تلاش کرنی چاہیے۔ یہ بالکل وہی اسباق ہیں جو تجھے سچائی کی جستجو میں سیکھنے چاہئیں۔ اگر تُو ہمیشہ عذر پیش کرنا، ٹال مٹول کرنا، انکار کرنا، مزاحمت کرنا چاہتا ہے تو خدا تجھے چھوڑ دے گا۔ یہ تیرے سرکش ہونے، یا مشکل ہونے، یا تجھے دلیل دینے کے لیے بے کار ہوگا۔ اگر خدا تیرے بارے میں فکر مند نہیں ہے، تو تو نجات کا موقع کھو دے گا۔ خدا کے لیے کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو حل نہیں ہو سکتا؛ اس نے ہر ایک کے لیے انتظامات کیے ہیں، اور انھیں سنبھالنے کا ایک طریقہ ہے۔ خدا تجھ سے بات نہیں کرے گا کہ آیا تیرے دلائل اور عذر جائز ہیں یا یہ نہیں سنے گا کہ آیا تیرا دفاع معقول ہے۔ وہ تجھ سے صرف یہ پوچھتا ہے، ’کیا خدا کا کلام سچا ہے؟ کیا تیرا مزاج بدعنوان ہے؟ کیا تجھے سچائی کی جستجو کرنی چاہیے؟‘ تجھے صرف ایک حقیقت کے بارے میں واضح ہونے کی ضرورت ہے: خدا سچائی ہے، تو بدعنوان بنی نوع انسان میں سے ایک ہے، اس لیے تجھے سچائی کی جستجو اپنے ذمہ لے لینی چاہیے۔ کوئی مسئلہ یا مشکل، یا دلیل یا عذر، جائز نہیں ہے؛ اگر تُو سچائی قبول نہیں کرے گا تو تُو ختم ہو جائے گا“ (کلام، جلد 6۔ سچائی کے حصول کی کوشش کے بارے میں۔ سچائی کی پیروی کرنا کیا ہے (1))۔ خدا کا کلام مجھے فوراً بیدار کرنے والا تھا۔ سچائی پر چلنا ایک ذاتی، رضاکارانہ چیز ہے۔ مجھے مضمون نہ لکھنے یا سچائی پر نہ چلنے کا ہر سبب، ہر بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ خدا کو اس کی پروا نہیں کہ وجوہات کتنی مناسب ہیں۔ خُدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کا کلام سنیں اور ہر صورت حال میں، ہر ہونے والی چیز کے لیے اُس کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ مجھے یہی کرنا چاہیے۔ خدا نے یہ بھی کہا، ”مجھ پر تیرے ایمان کا فریضہ یہ ہے کہ تُو میری گواہی دے، میرا وفادار رہ، دوسروں کا نہیں، اور آخر تک فرمانبردار رہ“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ تُوایمان کے بارے میں کیا جانتا ہے؟)۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم خدا کی گواہی دیں، اور یہ ہمارا فرض ہے، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ سچائی کے بارے میں میری سمجھ کتنی گہری ہے یا اُتھلی، میں وہ کام دفن نہیں کر سکتی جو اس نے مجھ میں کیا ہے، لیکن خدا کی گواہی دینے کے لیے مجھے لکھنا چاہیے کہ میں نے اپنے ایمان سے کیا حاصل کیا ہے۔ مضمون لکھتے ہوئے مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ مسائل صریحاً میری بدعنوانی اور خامیاں تھیں جو میں سمجھ نہیں پائی تھی، جہاں مجھے واقعی اپنے آپ کو خاموش کرنے، خدا کے کلام پر غور و خوض کرنے اور سچائی تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن اس کے بجائے، میں نے سچائی تلاش کرنے یا خدا کے کلام پرغور و خوض کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے ایک مضمون نہ لکھنے اور اس سے باز رہنے کے لیے ہر طرح کے بہانے ڈھونڈ لیے تھے۔ میں کہتی رہی کہ مجھ میں صلاحیت کا فقدان ہے، اور میرے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ میں کام میں بہت مصروف تھی۔ میں نے سوچا کہ مضمون نہ لکھنا معمول کی بات ہے۔ کبھی کبھی جب دوسرے مجھ سے کہتے کہ مجھے مضمون لکھنا چاہیے، میں جھنجلا جاتی اور بہانے بناتی۔ حتیٰ کہ ان کے پیغامات کا جواب دینے کو بھی میرا دل نہ چاہتا۔ لیکن اب خاموشی سے اس کے بارے میں سوچتی ہوں، اگرچہ مجھے ایک رہنما کے طور پر اپنے کام کا ہر پہلو برقرار رکھنا پڑتا ہے، تمام مسائل فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت نہیں ہے – میں بہت سی چیزوں کے لیے وقت نکال سکتی ہوں۔ اس کے علاوہ، معمول کے کچھ کام مکمل کرنے میں اتنا وقت نہیں لگتا تھا۔ میں اتنی مصروف بھی نہیں تھی کہ میرے پاس مضمون لکھنے کا وقت ہی نہ ہو۔ یہ صرف بہانے تھے جو میں نے ڈھونڈے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ معمول کے یہ کام کرنا سہل اور آسان تھا، اور اس کے لیے بہت زیادہ ذہنی مشقت کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں لکھنے میں اتنی ماہر نہیں تھی، اس لیے میں اس سے بچنا چاہتی تھی۔ میں نے یہ وجہ بھی استعمال کی کہ رہنما جانتا تھا کہ مجھ میں صلاحیت اور خیالات کا فقدان ہے۔ میں واقعی چیزیں مسخ کرنے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے میں طاق تھی۔ درحقیقت، گواہی پر مضمون لکھنا ہمیں سچائی پر چلنے کی کوشش کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ خدا کے کلام کے بارے میں سوچنے اور سچائی کی جستجو سے، ہم اپنی بدعنوانی کا خاتمہ، اصولوں کے مطابق عمل، اور اپنا فرض بہتر طریقے سے ادا کرسکتے ہیں۔ خدا کی گواہی دینے والے مضامین لکھنا ہمارا فرض ہے، اور ایسا نہ کرنے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔ خدا کہتا ہے، ”خدا سچائی ہے، تو بدعنوان بنی نوع انسان میں سے ایک ہے، اس لیے تجھے سچائی کی جستجو اپنے ذمہ لے لینی چاہیے۔ کوئی مسئلہ یا مشکل، یا دلیل یا عذر، جائز نہیں ہے؛ اگر تُو سچائی قبول نہیں کرے گا تو تُو ختم ہو جائے گا۔“ تب مجھے احساس ہوا کہ اپنے بہانوں میں الجھ جانا، سچ کی جستجو سے گریز یا اسے قبول نہ کرنا مجھے پوری طرح تباہ کر دے گا، اور آخر کار میرا نتیجہ بربادی کی صورت میں نکلے گا۔ ایسی حالت میں ہونا کتنا خوفناک ہے! چنانچہ میں نے جلدی سے دعا مانگی: ”خدا! مجھے ابھی احساس ہوا کہ میں سچائی قبول کرنے والی نہیں ہوں۔ میں نے تیرا بہت سا کلام پڑھا ہے، بہت سے وعظ سنے ہیں، لیکن میرے پاس سچائی کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور میں گواہی کا مضمون لکھنے کی مشق کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ یہ واقعی شرم ناک ہے۔ اب میں نے اپنی کوتاہیاں، اپنی خامیاں دیکھ لی ہیں۔ میں یہ غلط حالت بدلنا اور جو تُو کہتا ہے وہ کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہوں۔“
بعد میں، میں نے یہ جاننے کے لیے خدا سے یہ دعا مانگی: میرے سچائی پر نہ چلنے اور اپنی گواہی نہ لکھنے کی اصل وجہ کیا تھی؟ اپنے غور و فکر میں، میں نے خدا کے کلام میں کچھ پڑھا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”خدا پر اپنے ایمان کی وجہ سے، بہت سے لوگ صرف خُدا کے لیے کام کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اور محض مصائب برداشت کرنے اور قیمت ادا کرنے سے مطمئن ہیں۔ تاہم، وہ سچائی کی جستجو نہیں کرتے۔ اور نتیجہ؟ خدا پر دس سال، بیس سال، تیس سال تک ایمان رکھنے کے بعد، اب بھی وہ خدا کے کام کے حوالے سے صحیح علم سے محروم ہیں، اور وہ کسی تجربے یا سچائی یا خدا کے کلام کے علم کے بارے میں بات نہیں کرسکتے ہیں۔ اسمبلی کے دوران، جب وہ ذرا سی گواہی دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ہے۔ انھیں بالکل بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آیا انھیں بچایا جائے گا یا نہیں۔ یہاں مسئلہ کیا ہے؟ اسی طرح لوگ سچائی کی جستجو نہیں کرتے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کتنے برسوں سے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سچائی کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اور اس سے بھی کم سچائی پر عمل کرتے ہیں۔ جو شخص سچائی کا اثر بالکل قبول نہیں کرتا وہ سچائی کی حقیقت میں کیسے داخل ہو سکتا ہے؟ ایسے لوگ ہیں جو اس مسئلے کو نہیں دیکھ سکتے، جن کا ماننا ہے کہ اگر وہ لوگ جو نظریہ کے الفاظ کو رٹ لیتے ہیں سچائی پر عمل کرتے ہیں، تو وہ سچائی کی حقیقت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ وہ لوگ جو عقیدے کے الفاظ رٹ لیتے ہیں وہ فطری طور پر سچائی سمجھنے سے قاصر ہیں – تو وہ سچائی پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ ہر چند کہ وہ جو عمل کرتے ہیں وہ سچائی کی خلاف ورزی نہیں لگتا اور ایک اچھا عمل، اچھا رویہ ہوتا ہے، کیا ایسے اچھے اعمال اور اچھا رویہ سچائی کی حقیقت کہا جاسکتا ہے؟ جو لوگ سچائی نہیں سمجھتے وہ نہیں سمجھتے کہ سچائی کی حقیقت کیا ہے؛ وہ لوگوں کے اچھے اعمال اور اچھے سلوک کو ان کے ذریعہ سچائی پر عمل کرنا سمجھتے ہیں۔ یہ مضحکہ خیز ہے، ہے نا؟ یہ مذہبی لوگوں کے نظریاتی نقطہ نظر سے کس طرح مختلف ہے؟ اور اس قسم کی ناقص تفہیم کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ سب سے پہلے لوگوں کو خدا کے کلام سے خدا کی مرضی سمجھنی چاہیے، اور سچائی سمجھنے اور سچائی پر عمل کرنے سے آگاہ ہونا چاہیے، تاکہ وہ لوگوں کو دیکھ سکیں اور انہیں بتا سکیں کہ وہ در حقیقت کیا ہیں، اور یہ بتانے کے قابل ہوں کہ ان کے پاس سچائی کی حقیقت ہے یا نہیں۔ خدا کے انسان کو بچانے کے کام کا مطلب ہے لوگوں کو سچائی کو سمجھانا اور اس پر عمل کروانا؛ تب ہی لوگ اپنے بدعنوان مزاج چھوڑ پائیں گے، اور اصول کے مطابق عمل کر سکیں گے، اور سچائی کی حقیقت میں داخل ہو سکیں گے۔ اگر تُو سچائی کی پیروی نہیں کرتا، اور صرف اپنے خیالات اور تصورات کے مطابق خدا کے لیے خرچ کرنے، تکلیف برداشت کرنے اور قیمت ادا کرنے سے مطمئن ہے، تو کیا تُو جو بھی کرتا ہے وہ تیری طرف سے سچائی پر عمل کرنے اور خدا کے تابع ہونے کی نمائندگی کرے گا۔ کیا یہ ثابت کر سکتا ہے کہ تیری زندگی کے مزاج میں تبدیلیاں آئی ہیں؟ کیا یہ تیرے خدا کے سچے علم کا حامل ہونے کی نمائندگی کرسکتا ہے؟ نہیں۔ اور اس طرح تیرا ہر عمل کس کی نمائندگی کرتا ہے؟ یہ صرف تیرے ذاتی جھکاؤ، سمجھ بوجھ اور خواہش مندانہ سوچ کی نمائندگی کر سکتا ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو تُو کرنا پسند کرتا ہے اور کرنے کے لیے تیار رہتا ہے؛ تو جو بھی کرتا ہے وہ صرف تیری اپنی خواہشات، ضرورتوں اور نظریات کی تسکین ہے۔ واضح طور پر، یہ سچائی کی پیروی نہیں ہے۔ تیری کسی بھی چیز کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کہ خدا کیا چاہتا ہے۔ تُو جو بھی کرتا ہے وہ خود تیرے لیے ہے؛ تُو صرف اپنے نظریات، شہرت اور حیثیت کی خاطر کام کر رہا ہے، لڑ رہا ہے اور بھاگ دوڑ کررہا ہے – جو کہ پولس سے مختلف نہیں ہے“ (کلام، جلد 6۔ سچائی کے حصول کی کوشش کے بارے میں۔ سچائی کی پیروی کرنا کیا ہے (2))۔ عدالت اور مکاشفے کے بارے میں خدا کے کلام نے مجھے کہیں چھپنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ میں ان تمام برسوں میں میں ایک ایمان رکھنے والی رہی تھی، خدا کا بہت زیادہ کلام پڑھ چکی تھی، اور چند ناکامیاں اور تنزلّیاں تھیں، جنھیں کاٹ چھانٹ کر نمٹا دیا تھا، لیکن میں نے کوئی گواہی نہیں لکھی تھی۔ میں اپنے تجربات اور سچائی کی فہم، کسی کا بھی اظہار نہیں کر سکی، کیونکہ میں نےسچائی کی پیروی نہیں کی تھی۔ میں بس وہ کام کرتے ہوئے، جس کی میں بغیر کسی غلطی یا بھول چوک کے ذمے دار تھی، ایسی دکھائی دینے پر مطمئن تھی کہ میں مصیبت سہنے اور قیمت چُکانے کے قابل ہوں۔ دراصل، معمول کا کچھ کام فی الفور کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن مجھے ڈر تھا کہ دوسرے کہیں گے کہ میں نے عملی کام نہیں کیا یا حقیقی مسائل حل نہیں کیے۔ اگر رہنما کو پتہ چل گیا اور اس نے مجھے برطرف کر دیا تو کیا ہوگا؟ یہ سوچ کر، میں نے مضمون لکھنے اور خدا کے کلام پر غور و خوض کرنے کا ارادہ ترک کر دیا، اور حتیٰ کہ میں نے اپنی صبح کی عبادتیں بھی ترک کر دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مضمون لکھنے سے میرے کام کی تکمیل میں تاخیر ہوگی۔ کبھی کبھی میں اٹھ کر صبح کی عبادت کرنا چاہتی تھی، لیکن جب میں نے اپنا کمپیوٹر کھولا اور ہر طرح کے پیغامات دیکھے جن کے جوابات دینے کی ضرورت تھی، میں نے عبادت کا ارادہ ترک کر دیا اور جوابات دینے شروع کر دیے، تمام مسائل حل کرنے لگی۔ لیکن درحقیقت، ہر چیز فوری طور پر سنبھالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر میں کچھ وقت نکال کر جواب دیتی تو بھی کوئی تاخیر نہ ہوتی۔ لیکن چونکہ میں ان چیزوں میں مصروف تھی، میں نے خدا کا کلام کھانے پینے اور اس پر غور و خوض کرنے کا وقت نہیں نکالا۔ یہاں تک کہ میں نے سوچا کہ میں اپنے فرض کے لیے ذمے دار ہوں، بوجھ اٹھا رہی ہوں، اور میں حقیقی کام کر سکتی ہوں، لیکن درحقیقت، میں اپنے سطحی مصائب اور کوششیں تعریف حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ یہ فرض ادا کرنا کیسا تھا؟ میں اپنے نام اور رتبے کی حفاظت کے لیے اپنا فرض استعمال کرنا چاہتی تھی، اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے۔ میں خدا کے مخالف راستے پر تھی۔ میں جانتی تھی کہ مضمون لکھنے کا عمل سچائی کی تلاش کا عمل ہے، لیکن میں سچائی پر نہیں چلی اور میں گواہی دینے کے لیے کوئی مضمون نہیں لکھنا چاہتی تھی۔ میں ہر روز چیزوں میں مصروف رہتی تھی، اور یہاں تک کہ جب میں وقت نکال بھی سکتی تھی، میں نے نہ لکھنے کے لیے ہر طرح کا بہانہ تلاش کیا۔ کیا میں صرف خدمت نہیں کر رہی تھی؟ میں سچائی پر چلنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی، بلکہ میری توجہ صرف کام پر مرکوز تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ بھائی اور بہنیں اپنے فرائض میں زندگی کے داخلے پر توجہ نہیں دے رہے تھے۔ مسائل کا سامنا کرتے وقت، یا خدا کے کلام کے ذریعے اپنے بارے میں سیکھتے ہوئے وہ اپنے بارے میں غور و فکر نہیں کر رہے تھے۔ میں دوسروں کو خدا کی مرضی سے دور لے جا رہی تھی۔ میں نے خدا کے کلام کے بارے میں سوچا: ”تیری کسی بھی چیز کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کہ خدا کیا چاہتا ہے۔ تُو جو بھی کرتا ہے وہ خود تیرے لیے ہے؛ تُو صرف اپنے نظریات، شہرت اور حیثیت کی خاطر کام کر رہا ہے، لڑ رہا ہے اور بھاگ دوڑ کررہا ہے – جو کہ پولس سے مختلف نہیں ہے۔“ میں نے غور کیا کہ میں پول کا راستہ اختیار کر رہی ہوں۔ میں ہمیشہ کاموں کے بارے میں فکر مند رہتی تھی، ان کاموں کے بارے میں جو کرنا مجھے اچھا لگتا تھا، جو میں آسانی سے کر سکتی تھی، لیکن جہاں تک خدا کی طرف سے مطلوبہ کام کا تعلق ہے جس میں سچائی شامل ہے، میں نے نہ صرف سچائی کی تلاش ترک کر دی، بلکہ میں بے زار ہو گئی اور اس سے احتراز کیا۔ میں صرف اعلیٰ رتبہ پانے کی اپنی خواہش کی تسکین کے لیے کام کر رہی تھی۔ میں خدا کی دشمن ہونے کے راستے پر تھی۔ اگر یہ چلتا رہا، چاہے میں نے کتنا ہی کام کیا ہو، بالآخر خدا کی طرف سے میں نکال دی جاؤں گی۔ اس احساس نے مجھے خوفزدہ کر دیا، اور میں وہ صورت حال فوراً بدلنا چاہتی تھی۔
میں نے ایک دن اپنی عبادت کے دوران خدا کا کچھ کلام پڑھا۔ ”جو لوگ سچائی سے بیزار ہوتے ہیں ان کی واضح ترین حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ سچائی اور مثبت چیزوں میں دلچسپی نہیں رکھتے، یہاں تک کہ ان کی طرف سے بیزار اور گریزاں ہوتے ہیں، اور وہ خصوصی طور پر دنیاوی رجحانات کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے دل وہ چیزیں قبول نہیں کرتے جنھیں خدا پسند کرتا ہے اور جنھیں کرنے کا خدا لوگوں سے تقاضا کرتا ہے۔ اس کے بجائے، وہ نامعقول اور بے پروا ہیں، اور بعض لوگ اکثر ان معیارات اور اصولوں کو حقیر سمجھتے ہیں جن کا خدا لوگوں سے تقاضا کرتا ہے۔ وہ مثبت چیزوں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اور ان میں ان کے لیے ہمیشہ مزاحمت، تصادم اور حقارت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ سچائی سے بیزاری کا بنیادی مظہر ہے۔ چرچ کی زندگی میں، خدا کا کلام پڑھنا، دعا کرنا، سچائی پر رفاقت، فرائض کی انجام دہی، اور سچائی کے ساتھ مسائل حل کرنا سب مثبت چیزیں ہیں۔ ان سے خدا خوش ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگوں کو ان مثبت چیزوں سے کراہیت ہوتی ہے، وہ ان کی پروا نہیں کرتے اور ان سے لاتعلق رہتے ہیں۔ ۔۔۔ کیا یہ رویہ سچائی سے بیزاری کا نہیں ہے؟ کیا یہ بدعنوان رویہ بے نقاب نہیں کر رہا ہے؟ بہت سے لوگ ہیں جو خدا پر یقین رکھتے ہیں جو خدا کے لیے کام کرنا پسند کرتے ہیں اور سرگرمی کے ساتھ بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ اپنے تحائف اور طاقتیں بروئے کار لانے، دکھاوا کرنے، اپنی ترجیحات میں مگن ہونے کے لیےان کے پاس بے پناہ توانائی ہے – لیکن اگر تُو انھیں سچائی پر عمل کرنے اور اس کے اصولوں کے مطابق عمل کرنے کو کہے، تو ان کی توانائی ختم ہو جاتی ہے، اور ان میں جوش نہیں رہتا۔ اگر انہیں دکھاوے کی اجازت نہ ہو، تو وہ بد دل اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس دکھاوے کے لیے توانائی کیسےہوتی ہے؟ اور ان کے پاس سچائی پر عمل کرنے کی توانائی کیوں نہیں ہوتی ہے؟ یہاں مسئلہ کیا ہے؟ تمام لوگ خود کو ممتاز کرنا چاہتے ہیں؛ ان سب کو جھوٹی شان کی ہوس ہے۔ نعمتوں اور انعامات کی خاطر خدا پر ایمان رکھنے کے لیے سب کے پاس بے انتہا توانائی ہے، تو سچائی پر عمل کرنے میں اور جسم ترک کرنے میں وہ غافل کیوں ہو جاتے ہیں، مایوس کیوں ہو جاتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہے۔ وہ صرف نعمتوں کی خاطر خدا پر ایمان رکھتے ہیں – واضح طور پر کہا جائے تو، وہ آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے نکلے ہیں۔ اگر حاصل کرنے کے لیے برکتیں یا فوائد نہ ہوں، تو لوگ بد دل اور مایوس ہو جاتے ہیں، اور ان میں کوئی جوش نہیں ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کی وجہ بد عنوان مزاج ہے جو سچائی سے بیزار ہے“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ تیسرا حصہ)۔ خدا کا کلام میرے لیے آگہی بخش تھا۔ میں مکمل طور پر اپنے شیطانی مزاج اور سچائی سے بے زاری کی وجہ سے مضمون لکھنے سے گریز کر رہی تھی اور سچائی پر چلنے کے لیے کام نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ خدا ہم سے گواہی دینے والے مضامین لکھنے کا مطالبہ کرتا ہے، اور اگر کچھ گہرائی والا نہیں، تو میں کچھ سادہ لکھ سکتی ہوں۔ جہاں تک یہ قابل عمل ہے، تجربہ اور سمجھ ہے، اور یہ اصلاحی ہے، ٹھیک ہے۔ مضمون لکھنا اس بات کی گواہی دینا ہے کہ خدا کے کام نے ہم پر کیا اثر ڈالا ہے، کس طرح خُدا اپنے کلام سے لوگوں کو پاک صاف کرتا اور ان کی حفاظت کرتا ہے، اور یہ کلام لوگوں کی مختلف مشکلات اور بدعنوانیاں کو کیسے دور کرتے ہیں۔ خُدا واقعی لوگوں کی گواہیوں کو اہمیت دیتا ہے، اور ایک اچھی گواہی اس کے دل کو سب سے زیادہ سکون دیتی ہے۔ تو، خدا امید کرتا ہے کہ ہم اس کی گواہی دینے کے لیے اپنے تجربات اور کامیابیاں مضامین کی شکل میں لکھیں گے۔ لیکن خدا جو ہم سے چاہتا ہے اس کے لیے کوشش کرنے کے بجائے، میں نے اسے چکما دینے، انکار کرنے کے دلائل کیے۔ میں سچائی سے بے زار ہونے کا شیطانی مزاج ظاہر کر رہی تھی۔
پھر سچائی سے بے زاری کے مزاج کے بارے میں خدا کیا سوچتا ہے؟ میں نے اپنی عبادت میں خدا کے کلام کا یہ اقتباس پڑھا: ”وہ لوگ کیسے ہیں جو سچائی سے بیزار ہیں؟ کیا وہ لوگ وہ ہیں جوخدا کی مزاحمت اور مخالفت کرتے ہیں؟ ممکن ہے وہ کھلے عام خدا کی مزاحمت نہ کریں، لیکن ان کی فطرت اور ان کا جوہر خدا کا انکار اور مزاحمت ہے، جو خدا کو کھلے عام یہ کہنے کے مترادف ہے، ’تُو جو کہتا ہے میں اسے سننا پسند نہیں کرتا، مجھے یہ قبول نہیں ہے، اور چونکہ میں یہ نہیں مانتا کہ تیری باتیں سچ ہیں، میں تجھ پر یقین نہیں رکھتا۔ جو بھی میرے لیے نفع بخش اور فائدہ مند ہے، میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔‘ کیا یہ خدا کو نہ ماننے والوں کا رویہ ہے؟ اگر سچائی کے بارے میں تیرا رویہ یہی ہے تو کیا تُو خدا کے ساتھ کھلے عام دشمنی نہیں کر رہا ہے؟ اور اگر تُو خدا کے ساتھ کھلے عام دشمنی کرتا ہے، تو کیا خدا تجھے بچائے گا؟ وہ نہیں بچائے گا۔ ان تمام لوگوں پر جو خدا کا انکار اور مزاحمت کرتے ہیں خدا کے غضب کا سبب یہی ہے۔ ۔۔۔ کسی شخص کا سچائی سے بیزار ہونا ان کے نجات حاصل کرنے کے لیے مہلک ہے؛ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے معاف کیا یا نہیں کیا جا سکتا ہے، یہ رویہ کی کوئی شکل، یا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ان میں فوری طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک شخص کی فطرت اور اس کا جوہر ہے، اور خدا ایسے لوگوں سے سب سے زیادہ تنگ ہے۔ اگر تجھے کبھی کبھار بدعنوانی کا سامنا پڑتا ہے، تو تجھے خدا کے کلام کی بنیاد پر اس پر غور کرنا چاہیے کہ آیا یہ بدعنوانی سچائی سے نفرت کی وجہ سے ہوئی ہے یا حقیقت نہ سمجھ پانے کی وجہ سے۔ اس کے لیے جستجو کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کے لیے خدا کی آگہی اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر تیری نوعیت اور جوہر اس قسم کا ہے کہ وہ سچائی سے بیزار ہیں، اور تُو کبھی بھی سچائی قبول نہیں کرتا، اور خاص طور پر اس کا مخالف اور دشمن ہے، تو مصیبت ہے۔ تو یقیناً ایک بدکار شخص ہے، اور خدا تجھے نہیں بچائے گا“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ اپنے فرض کو اچھی طرح ادا کرنے کے لیے، سچائی کی سمجھ بوجھ سب سے اہم ہے)۔ خُدا کا کلام سیدھا میرے دل میں پیوست ہوگیا۔ سچائی سے بے زار ہونا کھلے عام خدا کی مخالفت کرنا، کھلے عام اس کا دشمن ہونا ہے۔ میں دعویٰ کر رہی تھی کہ میں قادرِ مطلق خدا پر ایمان رکھتی ہوں، میں اُس کے نام سے دعا کر رہی تھی، وہ سچائیاں کھا اور پی رہی تھی جو اُس نے بیان کی تھیں، ہر اجتماع میں خُدا کے کلام پر رفاقت کرنا، اور بھائیوں اور بہنوں کو اُس کی تبلیغ کرنا۔ لیکن جس طرح میں عمل کر رہی تھی، جس طرح سے میں زندگی گزار رہی تھی خدا کے کلام کے مطابق نہیں تھا، اور میں خدا کے تقاضوں پر عمل نہیں کر رہی تھی۔ اس کے بجائے میں سچائی سے بے زاری محسوس کر رہی تھی۔ میں اس طرح کی سچائی کیسے قبول کرسکتی ہوں اور اس پر عمل کر سکتی ہوں؟ ایک ایمان والی کے طور پر بچا ئے جانے کا واحد راستہ سچائی قبول کرنا ہے۔ لیکن مجھے ان سچائیوں سے محبت نہیں تھی جن کا خدا نے اظہار کیا ہے۔ اپنے دل کی گہرائیوں میں، میں خدا کے خلاف تھی۔ سچائی سے بے زار ہونے کا شیطانی مزاج مجھے برباد کر سکتا ہے۔ اس موقع پر میں نے دیکھا کہ سچائی سے بے زار ہونے کا مزاج واقعی خوفناک ہے، یہ نجات کے لیے ایک کمزور پہلو ہے۔ پھر میں توبہ کے لیے خدا کے حضور حاضر ہوئی: ”اے خدا! میں سچائی سے بے زار ہوں، میں مضمون لکھنے یا سچائی پر چلنے کی کوشش پر توجہ مرکوز نہیں کر رہی ہوں، اور اب میں نے دیکھا ہے کہ سچائی سے بے زار ہونے کا مزاج تجھے برہم کرتا ہے۔ میں توبہ کرنا چاہتی ہوں اور پوری طرح سچائی پر چلنا چاہتی ہوں – براہ کرم میری رہنمائی کر۔“
اس کے بعد میں نے خدا کا مزید کلام پڑھا۔ ”اگر تیرے دل میں واقعی سچائی کی محبت ہے، پھر بھی کسی حد تک صلاحیت کم ہے اور بصیرت سے محروم ہے، اور قدرے بیوقوف ہے؛ اگر تُو کبھی کبھار غلطیاں کرتا ہے، لیکن بدی کے ارتکاب کا ارادہ نہیں رکھتا، اور صرف چند احمقانہ کام کیے ہیں؛ اگر تُو سچائی کے بارے میں خدا کی رفاقت سننے کے لیے دل سے تیار ہے، اور تُو سچائی کی آرزو اپنے دل میں رکھتا ہے؛ اگر تُو سچائی اور خدا کے کلام کے ساتھ برتاؤ میں جو رویہ اختیار کرتا ہے وہ خلوص اور اشتیاق کا ہے اور اگرخدا کا کلام تجھے عزیز ہے اور تُو اس کی قدر کر سکتا ہے تو یہ کافی ہے۔ خدا ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ ہرچند کہ تُو بعض اوقات تھوڑی بیوقوفی کر سکتا ہے، پھربھی تُو خدا کو پسند ہے۔ خدا کو تیرا سچائی کی خواہش رکھنے والا دل پسند ہے، اور اسے سچائی کے لیے تیرا مخلصانہ رویہ پسند ہے۔ اس لیے خدا تجھ پر رحم کرتا ہے اور ہمیشہ تجھ پر فضل کرتا رہتا ہے۔ وہ تیری خراب صلاحیت یا تیری حماقت کو خاطر میں نہیں لاتا اور نہ ہی تیری خطاؤں پر غور کرتا ہے۔ چونکہ سچائی کے لیے تیرا رویہ مخلصانہ اور اشتیاق آمیز ہے، اور تیرا دل سچا ہے، اس لیے جیسا کہ خدا تیرے دل اور برتاؤ کی قدر کرتا ہے، اس لیے وہ تجھ پر ہمیشہ مہربان رہے گا، اور روح القدس تجھ پر کام کرے گا، اور تجھے نجات کی امید ہوگی“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ اپنے فرض کو اچھی طرح ادا کرنے کے لیے، سچائی کی سمجھ بوجھ سب سے اہم ہے)۔ خدا کے کلام نے مجھے بیدار کر دیا اور مجھے عمل کا راستہ دیا۔ میرا دل روشن ہو گیا اور مجھے رہائی کا احساس ہوا۔ خدا کو لوگوں کی ناقص صلاحیت یا ان کی کم علمی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک وہ سچائی کی پیاس رکھتے ہیں اور سچائی کے ساتھ خلوص کا رویہ رکھتے ہیں، ان پر خدا کی رحمت ہو گی۔ میں نے دیکھا کہ دوسرے بھائی اور بہنیں بھی موجود ہیں جو اوسط درجے کی صلاحیت کے حامل تھے جو خدا کے کلام کے پیاسے تھے، اور جب چیزیں سامنے آئیں تو پوری توجہ سے غور کرتے اور سچائی کی جستجو کرتے تھے خدا کے کلام سے مخلصانہ رویے کے ساتھ، ان کے پاس خدا کی رحمت اور رہنمائی تھی، وہ خدا کی گواہی دینے کے حوالے سے اپنے تجربات کے بارے میں حقیقی متحرک مضامین لکھنے کے قابل ہو گئے۔ اور چند ایک جو کچھ عرصہ پہلے ہی ایمان لائے اپنے فرائض کی ادائیگی سے نہیں بھاگے، چاہے انھیں جتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، بلکہ وہ خدا کی حکمرانی اور انتظامات کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں، اور سچائی کی تلاش اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے خدا پر بھروسا کرتے ہیں۔ آخرکار وہ متحرک گواہیاں دیتے ہیں۔ اور جب وہ بدعنوانی بے نقاب کرتے ہیں تو چند نئے ایمان والے سچائی کی جستجو کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ خدا کا کلام پڑھتے ہیں اور غور کرتے ہیں۔ جو تفہیم وہ دیتے ہیں وہ واقعی حقیقی اور عملی ہے۔ خدا کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ کوئی کتنے عرصہ سے ایمان رکھتا ہے، اگر وہ کم علم یا ناقص صلاحیتوں کے حامل ہوں، لیکن صرف اس بارے میں کہ آیا وہ سچائی پر چلتے ہیں، سچ سے محبت کرتے ہیں، سچائی کی پیاس، اور آیا وہ سچے دل سے خدا کے کلام سے رجوع کرتے ہیں یا نہیں۔ ناقص صلاحیت مہلک نہیں ہے۔ کلیدی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس سچائی سے پیار کرنے والا دل ہے، کیا ہم سچائی قبول کر سکتے ہیں اور اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ خدا وعدوں کا پابند اور عادل ہے، اور اسے اس بات کی پروا نہیں ہے کہ کسی کی صلاحیت اچھی ہے یا ناقص۔ جب تک ہم سچائی کے لیے پیاسے رہیں گے اور جدوجہد کرتے رہیں گے، اور ہم اس پر عمل درآمد کرتے ہیں جو ہم جانتے ہیں، ہم روح القدس کی آگہی حاصل کر سکتے ہیں، اور ہماری سمجھ داری اور بصیرت میں بہتری آئے گی۔ مجھے کمزور صلاحیت کی وجہ سے پیچھے نہیں ہونا چاہیے یا مضمون لکھنے سے بچنے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ میں حقیقتاً خدا کا کلام کھانا، پینا، اور اس کا تجربہ کرنا چاہتی تھی، خدا کے لیے گواہی دینے کے لیے اپنے تجربات ایک مضمون کی صورت میں لکھنا چاہتی تھی۔
میں نے بعد میں خدا کے کلام کا ایک اقتباس پڑھا جس نے میرے لیے خدا کی مرضی واضح کی۔ ”نجات کے حصول کا کوئی بھی راستہ سچائی تسلیم کرنے اور اس کی پیروی کرنے سے زیادہ سچا اور عملی نہیں ہے۔ اگر تُو سچائی حاصل نہیں کر سکتا ہے، تو خدا پر تیرا ایمان کھوکھلا ہے۔ وہ لوگ جو ہمیشہ نظریہ کی کھوکھلی باتیں کرتے ہیں، طوطے کی طرح بولتے ہیں، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، اصولوں کی پیروی کرتے ہیں، اور سچائی پر عمل کرنے پر کبھی توجہ نہیں دیتے، انھیں کچھ حاصل نہیں ہوتا، خواہ وہ کتنے ہی سال سے ایمان کیوں نہ رکھتے ہوں۔ وہ لوگ کون ہیں جو کچھ حاصل کرتے ہیں؟ وہ لوگ جو اپنا فرض خلوص سے ادا کرتے ہیں اور سچائی پر عمل کرنا چاہتے ہیں، جو خدا کی طرف سے انھیں سونپے گئے کام کو اپنا مشن مانتے ہیں، جو بخوشی اپنی پوری زندگی خدا کے لیے خرچ کر دیتے ہیں اور اپنے لیے کچھ نہیں سوچتے، جن کے قدم نہیں ڈگمگاتے اور جو خدا کی ترتیب مانتے ہیں۔ وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران سچائی کے اصول سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں اور ہر کام صحیح طریقے سے کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، جو انھیں خدا کی گواہی کا اثر حاصل کرنے، اور خدا کی مرضی پوری کرنے کے قابل بناتا ہے۔ جب انھیں اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، وہ خدا سے دعا کرتے ہیں اور خدا کی مرضی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اُن ترتیبوں اور انتظامات کو ماننے کے قابل ہیں جو خُدا کی طرف سے کیے جاتے ہیں، اور جو کچھ بھی کرتے ہیں، وہ سچائی کی جستجو اور عمل کرتے ہیں۔ وہ طوطے کی طرح رٹی ہوئی بات نہیں کرتے اور نہ ہی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، بلکہ صرف ثابت قدمی کے ساتھ کام کرنے اور اصولوں کی احتیاط سے پیروی پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ اپنے ہر کام میں سخت کوشش کرتے ہیں، اور ہر چیز سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بہت سے معاملات میں، وہ سچائی پر عمل کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جس کے بعد وہ علم اورفہم حاصل کرتے ہیں، اور وہ سبق سیکھنے اور صحیح معنوں میں کچھ حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اور جب ان کے ذہن میں غلط خیالات آتے ہیں یا غلط حالت میں ہوتے ہیں، تو وہ خدا سے دعا کرتے ہیں اور ان کے حل کے لیے سچائی تلاش کرتے ہیں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کون سی سچائیاں کو سمجھتے ہیں، ان کے دلوں میں ان کی قدر ہوتی ہے، اور وہ اپنے تجربات اور گواہی کے بارے میں بات کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بالآخر سچائی حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ سنگ دل لوگ کبھی اس بارے میں نہیں سوچتے کہ سچائی پر عمل کیسے کیا جائے۔ وہ صرف کوشش کرنے اور کام کرنے پر، اور اپنی نمائش اور دکھاوا کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی سچائی پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ان کے لیے سچائی کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں سوچ، کہ کس قسم کے لوگ سچائی کی حقیقتوں میں داخل ہوسکتے ہیں؟ (وہ لوگ جو ثابت قدم ہیں، جو عملی ہیں اور دل لگا کر کام کرتے ہیں۔) وہ لوگ جو ثابت قدم رہتے ہیں، جو دل لگا کر کام کرتے ہیں، اور دل رکھتے ہیں: ایسے لوگ عمل کرتے وقت حقیقت اور سچائی کے اصولوں کے استعمال پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ تمام چیزوں میں عملی پہلوؤں پر توجہ دیتے ہیں، وہ عملی ہیں، اور وہ مثبت چیزیں، سچائی اور عملی چیزیں پسند کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ بالآخر سچ کو سمجھتے اور حاصل کرتے ہیں“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ خدا پر ایمان لانے کے لیے، سب سے اہم چیز اس کے کلام پر عمل کرنا اور تجربہ کرنا ہے)۔ میں نے خدا کے کلام سے سیکھا کہ جو لوگ سچائی پر چلتے ہیں وہ خدا کے کلام پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اکثر خدا کے کلام پر غور کرتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ وہ سچائی کی تلاش کر سکتے ہیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں، چیزوں اور واقعات سے سبق سیکھ سکتے ہیں، اور اپنے تجربات سے انعامات حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک مضمون لکھنا ہمیں خُدا کے سامنے پیش ہونے، اُس کے کلام پر غور کرنے اور سچائی تلاش کرنے کی ترغیب دینے کے اچھے طریقوں میں سے ایک ہے، جو خدا کی مرضی ہے۔ ایک بار جب میں نے خدا کی مرضی سمجھ لی میں نے ایک بوجھ محسوس کیا، اور میں نے مضمون لکھنے کی تحریک محسوس کی۔ میں نے محسوس کیا کہ خدا کے دل کو تسکین دینے کے لیے مجھے یہ فرض ادا کرنا چاہیے۔ گواہی دینے کے لیے مضمون لکھنا اور بھی زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہ ایک بامعنی، قیمتی چیز ہے اور میری ذمے داری بھی۔
اس کے بعد میں نے روزانہ کے کام کی منصوبہ بندی، اور اس بات کا تعین کرنا شروع کر دیا کہ میں کسی بھی مسئلے کے لیے اس کی عجلت کے مطابق وقت استعمال کروں گی۔ جب بھی میرے پاس وقت ہوتا میں خدا کا کلام کھاتی پیتی اور مضمون پر کام کرتی۔ جب میں نے پہلی بار لکھنا شروع کیا، تو میں صرف کسی ایک چیز کی مکمل یادداشت لکھتی تھی۔ میں خدا کے کلام کے بارے میں اپنی فہم واضح طور پر نہیں لکھ سکتی تھی اور یہ کافی سطحی تھا۔ میں اس موقع پر ہار ماننا اور لکھنا روک دینا چاہتی تھی، اور میں خدا کے کلام پر مزید غور نہیں کرنا چاہتی تھی۔ تو میں نے خدا سے دعا مانگی، ”اے خدا! میں ہار نہیں ماننا چاہتی۔ میں تیرے کلام کے بارے میں سوچنا چاہتی ہوں، تاکہ اتنا لکھ سکوں جتنا میں ابھی جانتی ہوں، پھر جیسے جیسے میرا تجربہ بڑھتا جائے گا، لکھتی رہوں گی۔ میں اپنے بدعنوان مزاج کے مطابق زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔ میں تیری گواہی دینے کے لیے آپ کے کام کے بارے میں لکھنا چاہتی ہوں۔“ اس دعا کے بعد میں نے بہت سکون محسوس کیا۔ جب میں پرسکون ہو گئی اور اپنی حالت اور خدا کے کلام کے بارے میں سوچا، میں اپنے پاس موجود کسی بھی آگہی کی یاد داشت بنا سکتی تھی۔ لہٰذا، میں نے خدا کے کلام کے بارے میں سوچا اور جب مجھے وقت ملا میں نے اپنی سمجھ کے مطابق لکھ دیا۔ جب میرا کام مکمل ہو گیا، اور میں نے دیکھا کہ چند حصے پوری طرح واضح نہیں تھے، میں نے ان میں ترمیم کرنے کی پوری کوشش کی۔ میں نے جتنا زیادہ لکھتی گئی میری تحریر واضح ہوتی گئی، اور اپنی حالت میں بھی میں نے اتنی ہی بہتری دیکھی۔ میں نے سچائی کی زیادہ سے زیادہ عملی سمجھ بھی حاصل کی۔ میں نے اس قسم کی مشق سے واقعی اطمینان محسوس کیا۔ اس تجربے نے مجھ پر سچائی پر چلنے کی اہمیت ظاہر کی۔ تمام چیزوں میں، ہمیں سنجیدگی سے سچائی کی جستجو کرنی ہوگی، اپنے آپ پر غور و خوض کرنا اور جاننا ہوگاہ، اور خدا کے کلام پر عمل کرنا ہوگا، تبھی ہم انعامات حاصل کر سکتے ہیں۔ ذاتی گواہی لکھنا، سچائی پر چلنا اور زندگی کے مزاج میں تبدیلی کی جستجو کرنا بہت ضروری ہے، یہ بہت ہی اہم ہے۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟