ایک میانماری مسیحی کا موت کے بعد جہنم کا تجربہ
میں جب چھوٹی تھی تو میں مسیحیت میں دلچسپی رکھتی تھی، مگر چونکہ میرا خاندان بدھ مت کا پیرو تھا، میں مسیحی نہ ہو سکی۔ میں نے اس وقت جہنم کے متعلق سن رکھا تھا، لیکن مجھے اس پر حقیقی یقین نہیں تھا۔
اپریل 2022 میں میری ایک دوست نے مجھے ایک آن لائن اجتماع میں شرکت کی دعوت دی، جو کہ میرا قادر مطلق خدا کا کلام پڑھنے کا پہلا موقع تھا۔ مجھے لگا کہ قادرِ مطلق خُدا کے کلام میں آسمانی تخلیق کار بنی نوع انسان سے بات کر رہا ہے۔ اس کے بعد میں نے قادر مطلق خدا کا بہت سا کلام آن لائن پڑھا۔ میں نے جانا کہ قادر مطلق خدا ہی واحد سچا خدا ہے، اوریہ کہ خدا نوع انسانی کو بچانے کے لیے نیچے زمین پر آ چکا ہے۔ لیکن چونکہ میرا خاندان راستے میں کھڑا تھا، اور اس وجہ سے بھی کہ میں دنیاوی چیزوں سے چمٹی ہوئی تھی، میں باقاعدگی سےاجتماعات میں شرکت نہیں کرتی تھی اور میں تھوڑی دیر کے لیے اپنے اجتماعی گروپ سے بھی باہر ہو گئی تھی۔
پھر، 03 فروری، 2023 کو تقریباً 9:30 بجے صبح میں ایک اجتماع کے بعد تھکی ہوئی تھی، تو میں آرام کے لیے لیٹ گئی۔ بعد میں میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا، میرا خاندان اپنی ہر ممکن کوشش کے باوجود مجھے نیند سے نہ جگا سکا، لہٰذا وہ عجلت میں مجھے ہنگامی علاج کے لیے ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے میرے معائنے کے بعد کہا کہ میرا سانس پہلے ہی رک چکا ہے، لہٰذا اس نے موت کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ میرے خاندان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مجھے واپس گھر لے چلیں۔ انہوں نے ہمارے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو مطلع کیا، اور تین دن بعد میری آخری رسومات اور دفنانے کی تیاری کی۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس وقت میرے گھر میں کیا ہو رہا تھا۔ میں صرف اتنا جانتی تھی کہ میں ایک دوسری دنیا میں چلی گئی ہوں۔ میں نے سفید چوغہ پہن رکھا تھا، ایک تاریک، دھواں دار، تنگ راستے پر تنہا چلی جا رہی تھی۔ میں آسمان یا میرے سامنے جو کچھ تھا اسے نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ رستہ ڈھلوان، ناہموار، گڑھوں سے بھرا، سنگلاخ اور پُرپیچ تھا میں دونوں طرف بس ہر قسم کے عجیب پودے دیکھ سکتی تھی جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جو کانٹوں سے بھرے تھے۔ میں ہر طرف سے آتی جانوروں کی آوازیں بھی سن سکتی تھی۔ ۔۔۔ میں اس راستے پر ننگے پاؤں چل رہی تھی، اور یہ میرے پاؤں چھیل رہا تھا۔ میرا پورا جسم گرمی میں جل رہا تھا او میں تھوڑا ہانپ رہی تھی۔ میں لگاتار چلتی جا رہی تھی۔ پھر میں ایک شیطان تک پہنچی جو کالے لباس میں تھا۔ یہ سر سے لے کر پاؤں تک کالا تھا – اور میں اس کا چہرہ یا پاؤں نہیں دیکھ سکی۔ اس نے کہا، ”میرے ساتھ آؤ!“ اس کی آواز بڑی ڈراؤنی تھی۔ ڈرے ہوئے، میں نے کہنے کی جسارت کی، ”تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ میں کبھی یہاں نہیں آئی – میں نہیں جا رہی۔ میں گھر جانا چاہتی ہوں۔“ میں بھاگ جانا چاہتی تھی۔ اسی وقت نیلے-کالے چوغوں میں ملبوس چار یا پانچ شیاطین میرے اوپر تیرتے آ گئے، مجھے پکڑا اور کہا، ”تم مر چکی ہو – تم واپس نہیں جا سکتی۔ تم نے بہت گناہ کیے ہیں، اورتمہیں اپنی زندگی کے دوران کیے گئے گناہوں کی سزا بھگتنی ہوگی۔“
پھر مجھے وہ ایک بڑے پھاٹک کے سامنے لے گئے جہاں مجھے بہت سارے شیاطین پہرہ دیتے نظر آئے۔ ان کے قد لمبے اور آنکھیں اور کان بڑے بڑے تھے، اور کچھ کے نوکیلے دانت باہرنکلے ہوئے تھے، جن سے ان کی شکلیں بھیانک نظرآرہی تھیں۔ انہوں نے ہتھیار پکڑ رکھے تھے، اور وہ کمر سے اوپر بے لباس تھے، ہڈیوں سے بنے ہار پہنے ہوئے تھے اور ان کے جسموں سے مردوں کی کھوپڑیاں لٹک رہی تھیں۔ وہ زخموں کے نشانوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ دربانوں نے جیسے ہی پھاٹک کھولا میں نے بہت سی اذیت ناک چیخیں سنیں۔ قریب اور دور، ہر طرف سے کشمکش کی انتہائی دردناک آوازیں آرہی تھیں۔ وہاں جلانے والی گرمی تھی، جھلسا دینے والی گرمی۔ میں واقعی خوف زدہ ہو گئی اور شیاطین سے پوچھا، ”میں نے کیا غلط کیا تھا؟ مجھے یہاں نہیں ہونا چاہیے۔“ انہوں نے مجھے وہ سارے گناہ ایک ایک کر کے دکھائے جو میں نے اپنی زندگی کے دوران کیے تھے، کس دن، کس گھنٹے، اور یہاں تک کہ کس منٹ اور کس سیکنڈ میں نے یہ سب کیا تھا۔ حتیٰ کہ میرا لاپرواہی سے بولا گیا کوئی جھوٹ بھی وہاں واضح طور پر درج تھا۔ یہاں ہیں چند مثالیں۔ 05 ستمبر، 2022 کو، بھائیوں اور بہنوں نے مجھے ایک اجتماع کی دعوت دی تھی، لیکن میں خاندان کا دباؤ محسوس کر رہی تھی اور اس میں شرکت نہ کر سکی۔ 10 ستمبر، 2022 کو، میں نے ایک اجتماع چھوڑ دیا اور بھائیوں اور بہنوں کی فون کالوں کا جواب تک نہیں دیا، کیونکہ میں انہیں ملنا نہیں چاہتی تھی۔ 05 اکتوبر، 2022 کو، میں اجتماع کے تمام گروپوں سے نکل گئی اور کلیسیا کے تمام اراکین سے رابطہ منقطع کر دیا۔ 06 اکتوبر، 2022 کو، میں دنیاوی ترغیبات اور موج مستی کی خاطر خدا سے دور ہوگئی۔ میں ہکا بکا رہ گئی۔ یہ دیکھ کر کہ میں نے کتنے گناہ کیے ہیں، میں واقعی ڈرگئی۔
پھر کالے لباس والا شیطان مجھے ایک ایسی جگہ لے گیا جہاں لکڑی کا ایک نشان تھا، جو بتاتا تھا یہاں خدا سے دھوکا دہی، تنقید کرنے والے یا گستاخ سزا پاتے ہیں۔ وہیں میں سب سے سخت سزا دیکھی۔ پہلی قسم کی سزا یہ تھی سزا پانے والوں کے منہ اور جلد کے اندر سے کیڑے نکلتے ہیں اور انہیں کاٹتے ہیں، اس طرح کہ کیڑے انہیں ہر جگہ پر کتر رہے تھے – یہ واقعی خوفناک تھا۔ دوسری قسم میں، سزا پانے والے ننگے تھے، اور وہ ایک ایک کر کے لمبے تختے پر لے جائے جاتے تھے جہاں 10 لوگوں کو ایک ساتھ سزا دی جاسکتی تھی۔ انہیں گھٹنے ٹیکنے پڑتے تھے، ان کے ہاتھ ان کی پیٹھ کے پیچھے باندھ دیے جاتے، اور ان کی ٹھوڑیاں تختے پر ٹکی ہوتی تھیں۔ ان کی گردنوں کے گرد رسے تھے، اور جب رسے پیچھے کھینچے جاتے تو ان کی زبانیں نکل آتی تھیں۔ تختے کے دوسری طرف، سینگوں والا ایک بھیانک شیطان ان کی زبانوں میں سے خمیدہ کانٹے گزارتا تھا، پھر جھٹکے سے باہر کھینچ لیتا تھا؛ کچھ کی زبانیں اپنی لمبائی سے دگنی باہر کھینچ دی گئی تھیں۔ پھر شیطان نے قلم جتنی لمبی ایک میخ لے کر ان کی زبانیں تختے پر ٹھونک دیں، جس کے نیچے آگ جل رہی تھی۔ وہ شیطان زبانوں پر لگاتار ابلتا ہوا گرم، آگ جیسا کھولتا پانی ڈال رہا تھا۔ یہ آگ جیسا کھولتا پانی دور کسی تالاب سے لایا جا رہا تھا، اور مسلسل سب شیطانوں کو دیا جا رہا تھا۔ جب اسے کسی زبان پر ڈالا جاتا تھا تو زبان مکمل طور پر برباد ہو جاتی تھی۔ کچھ کے تو آنکھوں کے گولے باہر گر گئے۔ پھر شیاطین نے ا ن کے تمام جسموں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا، جس سے وہ پوری طرح تباہ ہو گئے۔ سزا پانے والے اذیت سے چیختے رہے حتیٰ کہ وہ مر گئے۔ یہ ایک دہشتناک منظر تھا۔ کچھ لوگ اسے برداشت نہ کر پائے اورجلد ہی مر گئے۔ لیکن اگر ان کے مزید گناہوں کی سزا دینا ابھی باقی ہوتی، تو وہ واپس زندہ کیے جاتے تھے تاکہ ان کی سزا جاری رہ سکے۔ اگر وہ سزا ختم ہونے کے بعد بھی نہ مرتے تو ان کے جسم سے کیڑے نکل آتے اور انہیں کھا جاتے، پھر انہیں دوبارہ زندہ کیا جاتا تاکہ انہیں کسی اور طریقے سے سزا دی جائے۔
تیسری قسم کی سزا انہیں کھولتے پانی کے تالاب میں پھینکنا تھا۔ میں نے ایک بہت بڑی لوہے کی گول پلیٹ دیکھی جس کے ساتھ چار رسے بندھے تھے۔ ایک یا دو سو لوگ سزا کی کسی دوسری جگہ سے چند سیکینڈوں میں آئے اور پلیٹ پر نمودار ہو گئے۔ انھوں نے کپڑوں کے بغیردہکتی پلیٹ پر گھٹنے ٹیک دیے۔ جب کہ خاردار رسوں نے خود بخود ان کے ہاتھ اور جسم کے بالائی حصے جکڑ لیے۔ یہ لوگ مختلف مزہبوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے، جب کہ دیگر مسیحی یا بدھ مت کے پیرو تھے۔ اُنہیں سزا دی جا رہی تھی کیونکہ اُنہوں نے خُدا کے نئے کام کو قبول نہیں کیا تھا، اور خُدا کی توہین اور اس پر تنقید کی تھی۔ اُگرچہ ان میں سے بعض خدا کا نیا کام قبول کرچکے تھے، ان کا ایمان سطحی، برائے نام اور خدا کو دھوکہ دینے والا تھا۔ اس قسم کے شخص کو بھی خدا کی جانب سے سزا دی گئی تھی۔ وہ سب اپنے عقیدے کے خدا کو پکار رہے تھے۔ کچھ نے اِس خدا کو پکارا اور پھر اُس خدا کو۔ اتنا غل غپاڑا تھاکہ مجھے کوئی آوازصاف سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ چاہے کیسی بھی چیخ و پکار کرتے تھے، مگر انہیں کوئی جواب نہ ملا۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ایک بڑے تالاب پر لے جایا گیا، اور اس تالاب کے اندر ابلتا ہوا گرم پانی تھا۔ ان کی رسیاں خود بخود ڈھیلی ہو گئیں، لوہے کی پلیٹ جھک گئی اور وہ سب اندر گر گئے۔ وہ ابل رہے اور تلے جا رہے تھے، وہ اس حد تک جل رہے تھے کہ وہ اذیت ناک کرب سے چیخ رہے تھے۔ کچھ لوگ کنارے پر تھے، تالاب سے رینگ کر نکلنے کے لیے اپنی پوری طاقت سے لڑ رہے تھے، لیکن وہ واپس اندر گر جاتے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چیخ و پکار کی آواز ختم ہو گئی۔ ہر ایک مر چکا اور تالاب کے ابلتے گرم پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ جب وہ سب مر چکے، تو ایک دیو قامت جال ان سب کو گھیر کر اٹھا کر اوپر لے گیا، اور وہ اگلی سزا کے لیے پھر سے زندہ ہو گئے۔
پھر مجھے ایک اور جگہ لے جایا گیا۔ وہاں والوں کو اپنے والدین، بزرگوں یا اساتذہ کی توہین کرنے پر ہر طرح کی سزا دی جا رہی تھی۔ ان میں سے کچھ ننگے تھے، گردن میں، بازوؤں اور ٹانگوں میں کانٹے دار زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے۔ انہیں کوڑے مارکر ایسا خونی گودا بنا دیا گیا کہ ان کا گوشت اور خون نیچے کی طرف بہنے لگا۔ وہ ہاتھ پاوں مار رہے اور درد سے کراہ رہے تھے۔ جہنم کے شیاطین نے ان کے ہاتھ پاؤں کلہاڑوں سے کاٹ ڈالے، اور انہیں کچلنے کے لیے ہتھوڑے جیسی کوئی چیز استعمال کی۔ سزا دیتے وقت ان سے پوچھا جاتا، ”کیا تم نے اس وقت یہ گناہ نہ کرنے کے کا نہیں سوچا تھا؟“ وہ پشیمان تھے، مگر انہیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا، اور انہیں تشدد کر کے مار دیا گیا۔ اس کے وہ دوبارہ زندہ ہو گئے اور اگلی سزا پائی۔ کچھ لوگ زندہ دفن کر دیے گئے تھے۔ وہاں پر زمین حرکت میں تھی، گھوم رہی تھی، اور ریت میں آگ جل رہی تھی۔ سزا یافتگان کو زمین آہستہ آہستہ نگل رہی تھی، وہ دھنس رہے تھے، حتیٰ کہ انھیں موت آجاتی۔
پھر مجھے اس جگہ لے جایا گیا جہاں بدکاروں کو سزا دی جا رہی تھی۔ وہ اپنی زندگیوں کے لیے بھاگ رہے تھے۔ کچھ کو تیرمار کر ہلاک کر دیا گیا، جب کہ کچھ کو چھرا گھونپ کر ہلاک کر دیا گیا۔ کچھ کے پیچھے جانور پڑ گئے اور انہیں کاٹ کر ہلاک کر دیا۔ بالآخر ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا، اور ان میں سے ہر ایک مر گیا۔ جو مر گئے تھے وہ اگلی سزا پانے کے لیے پھر زندہ ہو گئے۔
میں نے ایک اور جگہ دیکھی جو ایسے لوگوں کو سزا دینے کے لیے تھی جو دھوکا دیتے تھے یا جو دوسروں کے بارے میں غلط اردے پالتے تھے۔ جنہوں نے لوگوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا تھا، یا جو دوسروں کے خلاف سازشیں کر تے تھے یا ان کے حاسد تھے۔ وہاں ایک لٹکتا ہوا پل تھا جس کا فرش لکڑی کے تختوں کا تھا اور جس کی دونوں طرف کانٹے دار رسے تھے، کانٹے دار رسوں کو پکڑنے پر خون نکلتا تھا، مگر انہیں پکڑے بنا وہ گر جاتے، اور نیچے ایک آگ کی جھیل تھی۔ اگر وہ نہ بھی گرتے تو انہیں گوشت پیسنے والی مشین سے گزرنا پڑتا جہاں وہ پیس دیے جاتے، اور پھر بھی آخر میں وہ آگ کی جھیل میں گر جاتے۔
کچھ لوگ واقعی اپنی شکل کے بارے میں فکر مند رہتے تھے، اچھا لباس پہننے کی کوشش میں اپنا وقت ضائع کرتے رہتے تھے، لیکن خدا پرقطعاً ایمان نہیں رکھتے اورحتیٰ کہ اس پر تنقید کرتے اور اس کے خلاف گستاخیاں کرتے تھے۔ کیڑے ان کے چہرے تھوڑا تھوڑا کر کے کھائے جا رہے تھے۔ ان کے علاوہ، ایسے لوگ بھی تھے جو دوسروں پر لعنت بھیجنے، چیزیں چوری کرنے وغیرہ کی سزا پا رہے تھے۔ اپنے کیے گئے گناہوں کی بنا پر، لوگوں کو بار بار ایک طرح سے سزا دی جاتی تھی اس سے پہلے کہ وہ دوسری قسم کی سزا کی طرف بڑھیں۔ اس منظر کو دیکھ کر میرا سارا جسم خوف سے کانپنا شروع ہو گیا تھا۔ اس طرح سزا پانا واقعی انتہائی ہول ناک ہوگا! مجھے اپنے کیے گئے گناہوں پر ندامت ہوئی۔ لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کس سے گلہ کروں، کون مجھے بچا سکتا تھا۔ اس وقت میں نے بد حواسی میں بدھ مت کے کچھ صحیفے پڑھے، لیکن کوئی جواب نہ ملا، اور میرا خوف بھی کم نہ ہوا۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ میں تو سچے خدا – قادر مطلق خدا پر ایمان رکھتی تھی۔ قادر مطلق خدا کا کچھ فرمایا ہوا مجھے یاد آیا۔ ”اپنی روز مرہ کی زندگی میں، تمہیں جن بھی مشکلات کا سامنا ہو، تمہیں لازماً خدا کے حضور آنا ہو گا؛ تمہیں سب سے پہلے دعا میں خدا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے چاہییں، یہی سب سے اہم ہے“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ خدا پر ایمان لانے کے لیے، سچائی کو حاصل کرنا سب سے اہم ہے)۔ میں جانتی تھی کہ خدا ہر چیز پر فرماں روائی کرتا ہے، اور میرے ساتھ سب کچھ اس کی اجازت سے ہو رہا تھا، اس لیے مجھے اسے ہی پکارنا چاہیے، میں نے اپنے مختلف گناہوں کے متعلق سوچا۔ میرا رویہ خدا کی جانب لاپرواہانہ تھا، اور میں نے اسے اپنے ذہن سے مٹا دیا تھا۔ جب میں اچھا محسوس کرتی تھی تو میں اپنے عقیدے پر عمل کرتی اور اجتماعات میں شرکت کرتی تھی۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تومیں اجتماعات چھوڑ دیتی تھی۔ میں ایک مسیحی تھی مگر میرا خدا پر ایمان مستند نہیں تھا۔ میں اس کی طرف لاپرواہ اور پرفریب تھی۔ میں موج مستی میں وقت گزار کر خوشی تھی، لیکن خدا کی عبادت میں کوئی وقت نہیں گزارتی تھی۔ میں نے یہ سب سوچا تو مجھے حقیقی پچھتاوا ہوا، اور میں نے اپنے دل میں خدا سے دعا کی، ”قادر مطلق خدا میں نے بہت سے گناہ کیے ہیں۔ میں نے تجھ سے بے اعتنائی برتی ہے اور تجھے سرد مہری دکھائی ہے، گناہ کرنے کے سرور میں موج میلہ کرتی رہی اور اپنا فرض بخوبی انجام نہیں دیتی تھی۔ اب میں واقعی خوف زدہ ہوں اور پچھتاوے سے لبریز ہوں۔ میں یہاں آنا اور ان گناہوں کی سزا پانا نہیں چاہتی۔ میں توبہ کرنے کے لیے تیار ہوں – براہ مہربالی مجھے ایسا کرنے کا ایک موقع دو۔ میں تیرے انتظامات کی اطاعت کرنا اور تیری مرضی کے مطابق سب کچھ کرنا چاہتی ہوں۔“ میں نے اس طرح بار بار دعا اور اعتراف کیا، ایک ایک کر کے اپنے کیے گئے گناہوں کے لیے خُدا سے توبہ کی۔ میں بتدریج پر سکون ہو گئی اور پھر اتنا خوفزدہ محسوس نہیں کیا۔ بعد میں، میں نے محسوس کیا کہ کوئی آواز میرا نام لے کر پکار رہی تھی۔ پھر میں نے روشنی کی ایک کرن دیکھی، اور روشنی سے ایک آواز آئی اور مجھے کہا، ”دانی کیا تم نے توبہ کر لی ہے؟ تم نے بہت سے گناہ کیے ہیں۔ تمہیں خدا پر انحصار اور ان گناہوں سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے – تم توبہ کے لیے سزا کا انتظار نہیں کر سکتی۔ خدا کے الفاظ کو اپنے دل میں نقش کر لو اور سچائی کی پیروی کرو۔ تم جو سمجھتی اور عمل میں لاتی ہو وہ درست ہونا چاہیے۔ یہ تمہارا آخری موقع ہے، اور اگلی بار نجات تمہیں دوبارہ دستیاب نہیں ہو گی۔ جب تک تم زندہ ہو، اپنا فرض بخوبی نبھانے اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے سخت محنت کرو۔ اپنے گناہ یا غلطیاں مت دہراؤ، اور ایسے کام نہ کرو جس پر تمہیں پچھتاوا ہو۔ چونکہ تم نے اپنا فریضہ پورا نہیں کیا اس لیے تم نہیں مرو گی۔ تم ان لوگوں کو بچانے جا رہی ہو جو تباہی میں پڑ گئے ہیں۔“
وہ آواز میرے کسی شناسا کی نہیں تھی۔ یوں لگ رہا جیسے ہوا کی آواز کے ساتھ بولا جارہا ہو۔ وہ پوری طرح صاف سنائی نہیں دے رہی تھی، لیکن میں اسے سمجھ سکتی تھی۔ الفاظ سخت ہونے کے باوجود نصیحت آمیز تھے اور مجھے سکون کا احساس دلایا۔ وہ تحفظ کے احساس کے ساتھ گرم جوش تھے۔ میں نے ایک ایسی خوشی محسوس کی جس سے میں پہلے کبھی واقف نہیں تھی۔ میں جانتی تھی کہ خدا مجھے بچا رہا تھا اور مجھے زندگی کا دوبارہ موقع دے رہا تھا۔ یہ آواز سن کر میں بتدریج ہوش میں آ گئی۔
بیدار ہونے کے بعد، میں کانپ رہی تھی، ابھی تک واقعی ڈر محسوس کر رہی تھی۔ میں نےاتنے سارے گناہوں کا ارتکاب کرنے پر بہت برا اور واقعی افسوس محسوس کیا۔ میں جانتی تھی کی یہ خدا کی میرے لیے تنبیہ تھی۔ جو کچھ بھی خدا نے کہا وہ سب سچ تھا۔ اس نے جو بھی کہا تھا مجھے اس پر یقین کرنا تھا اور اس پر کان دھرنے تھے۔ میں اس سے بے اعتنائی اور لاپرواہی نہیں برت سکتی تھی۔ خدا مجھے ایسا موقع دے رہا تھا جو میں دوبارہ نہیں پا سکتی تھی۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا، ”میں بہن سمر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔“ بہن سمر قادر مطلق خدا کی کلیسیا میں ایک سیراب کنندہ تھی، جس نے میرے ساتھ متعدد بار آن لائن اجتماع کیا تھا۔ سمر نے میری حالت معلوم ہونے پر مجھے خدا کا کچھ کلام بھیجا تھا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”خدا ہر ایک انسانی زندگی کا ذمہ دار ہے اور وہ بالکل آخر تک ذمہ دار ہے۔ خدا تیرے لیے فراہم کرتا ہے، اور یہاں تک کہ اگر شیطان کے ذریعے تباہ شدہ اس ماحول میں، تُو بیماری یا آلودگی یا کسی زیادتی کا شکار ہوا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے – خدا تیرے لیے مہیا کرے گا، اور خدا تجھے زندہ رہنے دے گا۔ تمہیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے۔ خدا کسی انسان کو آسانی سے مرنے نہیں دے گا“ (کلام، جلد 2۔ خدا کو جاننے کے بارے میں۔ خدا خود، منفرد VII)۔ ”تیری پیدائش سے لے کر اب تک، خدا نے تجھ پر بہت زیادہ کام کیا ہے، لیکن وہ تجھے اپنے کیے ہوئے ہر کام کا جامع حساب نہیں دیتا ہے۔ خدا نے تجھے یہ جاننے کی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی اس نے تجھے بتایا۔ تاہم، بنی نوع انسان کے لیے، وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اہم ہے۔ جہاں تک خُدا کا تعلق ہے، یہ وہ کام ہے جو اُسے ضرور کرنا چاہیے۔ وہ ایک اہم چیز جو اس کے دل میں اور اسے کرنے کی ضرورت ہے، وہ ان چیزوں میں سے کسی بھی چیز سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش سے لے کر آج تک خدا کو ان کی حفاظت کی ضمانت لازمی دینی ہے۔ ۔۔۔ اس ’حفاظت‘ کا مطلب یہ ہے کہ تجھے شیطان ہڑپ نہیں کرے گا۔ کیا یہ ضروری ہے؟ شیطان کی طرف سے ہڑپ نہ کیا جانا – کیا اس کا تعلق تیری حفاظت سے ہے یا نہیں؟ ہاں، اس کا تعلق تیری ذاتی حفاظت سے ہے، اور اس سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایک بار جب تجھے شیطان نے ہڑپ کر لیا تو تیری روح اور تیرا جسم اب مزید خدا کا نہیں رہے گا۔ خدا تجھے اب مزید نہیں بچائے گا۔ خُدا اُن روحوں اور لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے جنہیں شیطان نے ہڑپ کر لیا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ سب سے اہم چیز جو خدا کو کرنی ہے وہ یہ ہے کہ تیری حفاظت کی ضمانت دے، اس بات کی ضمانت دے کہ شیطان تجھے ہڑپ نہیں کرے گا۔ یہ بہت اہم ہے، کیا نہیں ہے؟“ (کلام، جلد 2۔ خدا کو جاننے کے بارے میں۔ خدا خود، منفرد VI)۔
قادر مطلق خدا کا کلام پڑھنے سے مجھے تحفظ کا احساس ملا، جیسے میرے پاس کچھ ایسا تھا جس پر میں تکیہ کر سکتی تھی۔ اس تجربے نے مجھے اور واضح طور پر دکھایا، کہ میری پیدائش سے لے کرعین لمحہ موجود تک، خدا ہماری رہنمائی کرتا رہا ہے، ہر لمحہ ہماری نگرانی اور حفاظت کرتا رہا ہے۔ مجھے خدا کے روبرو آنا چاہیے، اپنا فریضہ ادا کرنا اور اس کے ناقابل یقین فضل کا بدلہ چکانا چاہیے۔ مجھے یہ گواہی دینے کی ضرورت تھی کہ خدا واقعی تمام چیزوں پر حکمرانی کرتا ہے، بشمول روحانی دنیا کے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ جہنم واقعی موجود ہے۔ میں نے جہنم کی سزا کی اذیت کا مزا نہیں چکھا تھا، مگر میں نے جہنم میں لوگوں کو سزا دیے جانے کا منظر دیکھا تھا۔ میرے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو شیطان کی پیروی میں، دنیاوی ترغیبات کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ وہ خدا کے روبرو نہیں آئے ہیں۔ میں واقعی ان کے بارے میں فکرمند ہوں، اور میں نہیں چاہتی کہ جن لوگوں کو میں جانتی ہوں وہ جہنم میں جائیں، اس طرح تکلیف اٹھائیں۔ چاہے وہ قادر مطلق خدا کے آخری ایام کے کام کو قبول کریں یا نہ کریں، میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گی اور انھیں گواہی دوں گی کہ جہنم واقعی موجود ہے، اور خدا کا اختیار واقعی موجود ہے۔ صرف قادر مطلق خدا ہی ہمیں جہنم کی اذیت سے بچا سکتا ہے۔ میں ان لوگوں کے لیے جو اس کے سامنے نہیں آئے، قادر مطلق خدا کے کلام کا ایک اقتباس پڑھنا چاہوں گی، اور ان لوگوں کے لیے جنہوں نے قادر مطلق خدا کو قبول کیا ہے، لیکن اس کی نجات کی قدر نہیں کرتے۔
قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”میرا آخری کام نہ صرف انسان کو سزا دینے کے لیے ہے، بلکہ انسان کی منزل کا انتظام کرنے کی خاطر بھی ہے۔ مزید برآں، یہ اس لیے ہے کہ تمام لوگ میرے اعمال اور افعال تسلیم کر لیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک فرد یہ دیکھے کہ میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ درست ہے، اور یہ کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ میرے مزاج کا ایک اظہار ہے۔ یہ انسان کا کام نہیں ہے، فطرت کا کام تو بالکل بھی نہیں ہے، جس نے انسانوں کو پیدا کیا، بلکہ میں ہوں جو مخلوق میں ہر جاندار کی پرورش کرتا ہوں۔ میرے وجود کے بغیر، بنی نوع انسان صرف فنا ہو جائے گا اور آفت کے غضب کا شکار ہو جائے گا۔ کوئی بھی انسان پھر کبھی خوبصورت سورج اور چاند یا ہری بھری دنیا کو نہیں دیکھ سکے گا؛ بنی نوع انسان کا سامنا صرف سرد رات اور موت کے سائے کی بے رحم وادی سے ہو گا۔ میں بنی نوع انسان کی واحد نجات ہوں۔ میں ہی بنی نوع انسان کی واحد امید ہوں، اور اس سے بھی بڑھ کر، میں وہ ہوں جس پر تمام بنی نوع انسان کا وجود قائم ہے۔ میرے بغیر بنی نوع انسان فوری طور پر ساکت ہو جائے گی۔ میرے بغیر، نوع انسانی تباہی کا شکار ہو جائے گی اور ہر طرح کے بھوتوں کے پاؤں تلے روندی جائے گی، تاہم کوئی میری طرف توجہ نہیں دیتا۔ میں نے وہ کام کیا ہے جو کوئی دوسرا نہیں کر سکتا، اور صرف امید ہے کہ انسان کچھ اچھے کاموں سے مجھے بدلہ دے گا۔ اگرچہ چند ہی لوگ میرا قرض چُکانے کے قابل رہے ہیں، لیکن پھر بھی میں انسانی دنیا میں اپنا سفر ختم کروں گا اور اپنے آشکار ہوتے ہوئے کام کا اگلا مرحلہ شروع کروں گا، کیونکہ ان کئی سالوں میں انسان کے درمیان میری تمام تر بھاگ دوڑ نتیجہ خیز رہی ہے، اور میں بہت خوش ہوں۔ مجھے لوگوں کی تعداد کی نہیں، بلکہ ان کے اچھے کاموں کی پروا ہوتی ہے۔ بہر حال، میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنی منزل کے لیے نیک اعمال کی کثیر مقدار تیار کرو گے۔ پھر میں مطمئن ہو جاؤں گا؛ ورنہ، تم میں سے کوئی بھی اپنے اوپر پڑنے والی اس آفت سے نہیں بچ سکتا۔ آفت میرے ساتھ شروع ہوتی ہے اور بے شک میری طرف سے ہی ترتیب دی گئی ہے۔ اگر تم میری نگاہوں میں اتنے اچھے دکھائی نہیں دے سکتے، تو تم آفت سے نہیں بچ پاؤ گے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ اپنی منزل کے لیے کافی بہتر اعمال تیار کرو)۔
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟