دکھاوے کے لیے فرض کی ادائیگی کے نتائج

April 25, 2023

میں 2021ء، میں کئی کلیسیاؤں کے کام کی انچارج تھی۔ ان کا قیام حال ہی میں عمل میں آیا تھا اور ان کا سارا کام اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ ہماری اعلیٰ رہنما کو کام کی ہدایت کے لیے اکثر آنا پڑتا تھا، اور جب مسائل کا پتہ چلتا تو وہ بروقت رفاقت کی پیشکش کرتیں۔ وہ خاص طور پر خوش خبری کے کام کے بارے میں بہت کچھ پوچھتی تھیں۔ یہ دیکھ کر کہ دوسری کلیسیاؤں میں خوش خبری کا کام واقعی بہت اچھا چل رہا تھا، کہ ان کے پاس بہت کم لوگ تھے جو سچے راستے کی تحقیق کرتے اور ہر ماہ اپنی کلیسیاؤں میں شامل ہوتےتھے، مجھے واقعی رشک آتا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ خوش خبری کا کام اعلیٰ رہنما کے لیے واقعی اہم تھا۔ اور میں اس پہلو میں کافی کمزور واقع ہوئی تھی۔ اگر میں اسے اچھی طرح سے انجام نہ دے پاتی اور ہمارا خوش خبری کا کام رک جاتا، تو ہماری رہنما یقیناً یہ کہتی کہ مجھ میں صلاحیت کی کمی ہے، اپنا کام نہیں کر سکتی، اور مجھے برطرف کر دیتی۔ لہٰذا کچھ عرصے کے لیے میں نے خوش خبری کے کام میں بہت کوشش کی، بھائیوں اور بہنوں سے پیروی میں اکثر استفسارکرتی کہ معاملات کیسے چل رہے ہیں، مسائل کے حل کے لیے ان کے ساتھ مختصراً تبادلہ خیالات کرتی، لیکن میں نے کسی اور کام کے بارے میں زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی نہ ہی اس کے پیروی کی۔ کچھ عرصے کے بعد، ہمیں اپنے خوش خبری کے کام میں کچھ بہتر نتائج موصول ہونے لگے، لیکن ہمارے سیرابی کے کام کی تاثیر ختم ہو رہی تھی۔ کچھ نئے ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا تھا یا وہ اپنے پادریوں سے پریشان تھے۔ انھیں بر وقت سیرابی یا سہارا نہیں ملا، چنانچہ وہ منفی ہو گئے اور اجتماعات میں جانا چھوڑ دیا۔ یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ ہمارے پاس سیرابی کے عملے کی کمی ہے، لہٰذا ہمیں کچھ نئے ایمان لانے والوں کو سیرابی کی تربیت دینی چاہیے۔ لیکن پھر میرے ذہن میں یہ آیا کہ اس وقت اعلیٰ رہنما نے بنیادی طوراپنی توجہ خوش خبری کے کام پر مرکوز کررکھی تھی، اور دوسری کلیسیائیں اس سلسلے میں بہت اچھا کام کر رہی تھیں۔ اگر میں اچھے نتائج حاصل نہ کر سکی، تو رہنما کو یقین ہو جائے گا کہ مجھ میں صلاحیت کی کمی ہے۔ میں نے سوچا کہ مجھے اپنی توانائی خوش خبری کے کام پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے، میں نے نئے آنے والوں کو پروان چڑھانے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ جب رہنما نے بعد میں ہمارے کام کی جانچ کی تو اس نے محسوس کیا کہ ہم نے حالیہ مہینوں میں نئے ایمان والوں کو تربیت نہیں دی تھی، اور کلیسیا کے نئے ارکان بروقت سیراب نہیں کیے جا رہے تھے۔ وہ غصے سے بولی، ”خدا کا گھر بار بار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم نئے ایمان والوں کو پروان چڑھائیں۔ آپ نے ہمارے کام کا اتنا اہم حصہ روک دیا ہے – کیوں؟“ اس نے سیرابی کے کام کی میری ذمہ داری منسوخ کر دی۔ مجھے انتہائی مایوسی ہوئی۔ لیکن میں نے سوچا کہ اس کام کا انچارج نہ بننا ہی ٹھیک تھا۔ کلیسیا کا اور بھی بہت زیادہ کام تھا اور میں اس کے ساتھ نہیں چل سکتی تھی، لہٰذا صرف خوش خبری کے کام کی ذمہ داری سنبھال کر، میں اسے اچھی طرح سے انجام دے سکتی تھی۔ مجھے اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں تھا کہ مجھ میں کیا مسئلہ ہے۔ اپنی عبادت کے دوران اگلے روز تک مجھے احساس نہ ہوا نئے آنے والوں کو سیراب کرنے کی اہم ذمہ داری مجھ سے واپس لے لی گئی تھی اس میں لازماً میرے سیکھنے کے لیے ایک سبق ہونا چاہیے۔ مجھے واقعی اس کی روشنی میں خود پر غور کرنا پڑا۔ میں نے اپنے دل میں خُدا سے ایک خاموش دعا کی، اُس سے کہا کہ وہ مجھے آگہی بخشے اور اپنی ذات کی پہچان میں میری رہنمائی کرے۔ دعا کے بعد مجھے احساس ہوا میں صرف اس کام پر توجہ مرکوز کر رہی تھی جس کی میری رہنما حال ہی میں جانچ کر رہی تھا۔ اگر رہنما نے کچھ ذکر نہیں کیا، تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی یہاں تک کہ میری ذمہ داری کے دائرے میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا۔ کیا میں صرف دکھاوے کے لیے کام نہیں کر رہی تھی؟ بعد میں مجھے اس بارے میں خدا کا کچھ متعلقہ کلام ملا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”کچھ کلیسیا بشارت کے کام کو پھیلانے میں خصوصی طور پر سست ہیں اور ایسا بس جھوٹے رہنماؤں کی اپنے فرائض میں کوتاہی اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے کی وجہ سے ہے۔ کام کے مختلف اجزاء انجام دیتے ہوئے، دراصل بہت سے مسائل، انحرافات، غلطیاں ہوتی ہیں جنھیں جھوٹے رہنما کو حل کرنا، درست کرنا اور ان کی چارہ جوئی کرنی چاہیےلیکن چونکہ ان میں ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا ہے، چونکہ وہ صرف ایک سرکاری اہلکار کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور اصل کام نہیں کرتے ہیں، نتیجتاً ان کی وجہ سے تباہ کن بے ترتیبی ہوتی ہے۔ کچھ کلیسیاؤں کے ممبران میں اتحاد کا فقدان ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو کمزور کرتے ہیں، ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں اور محتاط رہتے ہیں؛ وہ بے چین اور خوفزدہ بھی ہو جاتے ہیں کہ خدا کا گھر انھیں نکال باہر کرےگا۔ جب جھوٹے رہنماؤں کو اس صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو وہ کوئی خاص کام نہیں کرتے۔ جھوٹے رہنماؤں کو ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی کہ ان کا کام مفلوج حالت میں ہے؛ وہ کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے خود کو کھڑا نہیں کر سکتے اور اس کے بجائے اوپر سے حکم آنے کا انتظار کرتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، جیسے ان کے ذریعہ کیا جانے والا کام صرف اوپر والوں کے لیے ہے۔ اگر اوپر کچھ خاص تقاضے نہیں کیے جاتے اور کوئی براہ راست ہدایت یا احکام نہیں ملتے تو وہ کچھ نہیں کرتے اور لاپروا اور غافل رہتے ہیں۔ وہ اتنا ہی کرتے ہیں جتنا انھیں اوپر سے کرنے کو ملتا ہے، جب دھکا دیا جاتا ہے تو حرکت کرتے ہیں اور دھکا نہیں دیا جاتا ہے تو ساکن ہوتے ہیں، لا پروا اور غافل۔ جھوٹا رہنما کیا ہوتا ہے؟ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عملی کام نہیں کرتے، جس کا مطلب ہے کہ وہ رہنما کے طور پر اپنا کام نہیں کرتے۔ وہ اہم، بنیادی کاموں سے شدید غافل ہیں – وہ کچھ نہیں کرتے۔ جھوٹا رہنما یہی ہوتا ہے(کلام، جلد 5۔ راہنماﺆں اور کارکنان کی ذمہ داریاں)۔ خدا کے کلام میں، میں نے دیکھا کہ جھوٹے رہنما اپنا سب کچھ اس کام میں لگا دیتے ہیں جو انھیں اچھا دکھائے۔ وہ صرف وہی کام کرتے ہیں جس پر ان کے رہنما اصرار کرتے ہیں، یا وہ چیزیں کرتے ہیں جنھیں ہر کوئی دیکھ سکے۔ اگر رہنما کسی چیز کا حکم نہیں دیتا، یہاں تک کہ اگر وہ کام پہلے سے ہی مشکل میں ہو، وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا بس جیسے تیسے کام چلالیتے ہیں۔ اس قسم کا شخص اپنے فرض کی ادائیگی میں کلیسیا کا کام بالکل بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ نہ ہی وہ کوئی عملی کام کرسکتا ہے۔ ان میں نہ ہی کوئی انسانیت ہے نہ کردار، ایسے لوگ سچائی کے متلاشی یا دلدادہ نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ جب کسی فرض کی ادائیگی کرتے ہیں تو صرف خلل اندازی اورشرانگیزی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے مجھے کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ مجھ میں اچھی انسانیت نہیں، لیکن پھر میں نے دیکھا کہ میں اس طرح کی حالت میں تھی۔ میں نے سوچا کہ میں اپنا فرض کیسے نبھا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اعلیٰ رہنما واقعی خوش خبری کے کام کو ترجیح دیتی ہیں اور اس نے اس پہلو میں میری بہت رہنمائی اور مدد کی کیونکہ میں اس میں بہت اچھی نہیں تھی، لہٰذا میں فکرمند تھی کہ اگر میں یونہی لغزش کرتی رہی مجھے برطرف کر دیا جائے گا۔ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے، میں نے خوش خبری کے کام پر زیادہ توجہ دینا شروع کی اور اپنے کام کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کیا۔ اس دوران میرے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا کہ دوسرے امور بھی میرے دائرہ کار میں تھے مجھے ان پرتوجہ دینا چاہیے، لیکن میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ چونکہ رہنما ان امور کے بارے میں نہیں پوچھ رہی تھی، اس لیے وہ اتنے اہم نہیں تھے، لہذا میں نے وہ نہیں کیے۔ میں نے صرف وہی کام کیا جس کا رہنما نے مطالبہ کیا، وہ امورجن سے میرے نام اور حیثیت کو فائدہ پہنچے گا۔ میں خدا کی مرضی کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتی تھی۔ میں اپنے فرائض میں ایک رہنما کی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہی تھی۔ میں صرف دکھاوے کے لیے، اپنے رہنما کو مطمئن کرنے کے لیے کام کر رہی تھی۔ میرا فرض کے بارے میں جو رویہ تھا اس نے پہلے ہی میرے کام کو متاثر کردیا تھا۔ خدا کے گھر نے کئی باررفاقت کی کہ ہمیں اچھی صلاحیت کے حامل نئے ایمانوالوں کو سیراب کرنا اور پروان چڑھانا تھا تاکہ وہ فرض سنبھال سکیں۔ اس سے بادشاہی کی خوش خبری کی توسیع کو فائدہ ہوگا۔ لیکن میں نے دو تین ماہ سے ایسا اہم کام نہیں کیا تھا، ہمارے کام میں بہت زیادہ تاخیر ہورہی تھی۔ یہ بہت برا ہو رہا تھا۔ اس کے بارے میں اس طرح سوچنا واقعی پریشان کن تھا۔ میں نے خدا سے دعا کی، ”اے خدا، میں بہت جھوٹی اور مکار رہی ہوں۔ میں صرف اپنے آپ کو اچھا دکھانے کے لیے کام کر رہی ہوں اور میں نے کلیسیا کے کام میں تاخیر کی ہے۔ خدا، میں توبہ کرنا چاہتی ہوں!“

اس کے بعد میں نے خدا کا کچھ کلام پڑھا جن میں مسیح مخالف خیالات بے نقاب کیے گئے تھے۔ اس سے مجھے اپنا آپ سمجھنے میں مدد ملی۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”سچائی پر عمل کرنے کے بارے میں مسیح مخالفین کا یہ رویہ ہے: جب یہ ان کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے، جب ہر کوئی اس کے لیے ان کی تعریف اور ستائش کرے گا تو وہ یقینی طور پر اس کی پابندی کریں گے اور دکھاوے کے لیے کچھ علامتی کوششیں کریں گے۔ اگر حق پر عمل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر اسے کوئی نہیں دیکھتا ہے اور بڑے رہنما موجود نہ ہوں تو ایسے وقت میں ان کے حق پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا سچائی پر عمل کرنے کا انحصار سیاق و سباق، وقت پر اور اس بات پر کہ اسے عوام کے سامنے کیا جاتا ہے یا ان کی نظروں سے دور، نیز یہ کہ اس کے کتنے بڑے فائدے ہیں؛ جب اس قسم کی چیزوں کی بات آتی ہے تو وہ غیر معمولی طور پر سمجھدار اور تیز فہم ہوجاتے ہیں اور کوئی فائدہ حاصل نہہونا یا دکھاوا نہ کرنا قابل قبول نہٰیں ہوتا۔ اگر ان کی کوششوں کو تسلیم نہ کیا جائے، اگر وہ کتنی بھی کوشش کریں کوئی نہیں دیکھتا تو وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اگر کام کا بندوبست براہ راست خدا کا گھر کرتا ہے اور ان کے پاس اسے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا، وہ تب بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اس سے ان کی حیثیت اور شہرت کو کوئی فائدہ پہنچے گا یا نہیں۔ اگر یہ ان کی حیثیت کے لیے اچھا ہے اور ان کی ساکھ کو بہتر کر سکتا ہے تو وہ کام کو اچھی طرح کرنے کے لیے اپنے پاس موجود ہر چیز کو اس کام میں لگاتے ہیں؛ انھیں لگتا ہے کہ وہ ایک تیر سے دو شکار کر رہے ہیں۔ اگر اس سے ان کی حیثیت یا ساکھ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے اور اسے بری طرح کرنے سے ان کی بدنامی ہوتی ہے تو وہ اس سے نکلنے کا کوئی طریقہ یا بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کیا فرض ادا کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اسی اصول پر قائم رہتے ہیں: انھیں کچھ فائدہ ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ مسیح مخالف کو سب سے زیادہ وہ کام تب پسند آتا ہے جس پر اس کا کچھ خرچ نہیں ہوتا، جب انھیں کوئی نقصان نہیں اٹھانا پڑتا اور نہ ہی کوئی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور جب ان کی ساکھ اور حیثیت کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، مسیح مخالف پہلے اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہیں اور وہ صرف اس وقت عمل کرتے ہیں جب وہ سب کچھ سوچ سمجھ لیتے ہیں؛ وہ کسی سمجھوتے کے بغیر خلوص کے ساتھ اور قطعی طور پر سچائی کی اطاعت نہیں کرتے، بلکہ وہ ایسا انتخاب کرکے اور مشروط طور پر کرتے ہیں۔ یہ کیسی شرط ہے؟ یہ ایسا ہے کہ ان کی حیثیت اور ساکھ کا ہر حال میں تحفظ ہوناچاہیے اورانھیں کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ شرط پوری ہونے کے بعد ہی وہ فیصلہ اور انتخاب کریں گے کہ کیا کرنا۔ ہے یعنی، مسیح مخالف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں کہ سچائی کے اصولوں، خُدا کے احکام، اور خُدا کے گھر کے کام کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جائے یا جن چیزوں کا وہ سامنا کرتے ہیں ان سے کیسے نمٹا جائے۔ وہ اس پر غور نہیں کرتے کہ خدا کی مرضی کیسے پوری کی جائے، خدا کے گھر کے مفادات کو نقصان پہنچنے سے کیسے بچایا جائے، خدا کو کیسے راضی کیا جائے یا بھائیوں اور بہنوں کو کیسے فائدہ پہنچایا جائے؛ یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن پر وہ غور کرتے ہیں۔ مسیح مخالف کس پر غور کرتے ہیں؟ آیا ان کی اپنی حیثیت اور ساکھ متاثر ہوگی اور آیا ان کا وقار کم ہوگا۔ اگر سچائی کے اصولوں کے مطابق کچھ کرنے سے کلیسیاکے کام اور بھائیوں اور بہنوں کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن ان کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ان کے حقیقی قد کا احساس ہوتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کی فطرت اور جوہر رکھتے ہیں تو وہ یقینی طور پر سچائی کے اصولوں کے مطابق عمل نہیں کریں گے۔ اگر عملی کام کرنے کی وجہ سے مزید لوگ ان کے بارے میں اچھی رائے رکھیں گے، ان کی جانب دیکھیں گے اور ان کی تعریف کریں گے یا ان کے الفاظ کو جواز بخشیں گےکہ وہ مستند ہوں اور مزیدلوگ اس قابل ہوں کہ انھیں تسلیم کریں تو وہ ایسا کرنے کو چنیں گے؛ بصورت دیگر، وہ کبھی بھی خدا کے گھر یا بھائی بہنوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مفادات کو نظر انداز کرنے کا انتخاب نہیں کریں گے۔ یہ مسیح مخالف کی فطرت اور جوہر ہے۔ کیا یہ خود غرضی اور کریہہ نہیں ہے؟(کلام، جلد 4۔ مسیح کے مخالفوں کو بے نقاب کرنا۔ شق نہم: وہ صرف اپنے آپ کو ممتاز کرنے اور اپنے مفادات اور عزائم کو پورا کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کرتے ہیں؛ وہ کبھی بھی خدا کے گھر کے مفادات پر غور نہیں کرتے، اور یہاں تک کہ ان مفادات کو ذاتی شان کے بدلے بیچ دیتے ہیں (حصہ سوم))۔ ”مسیح مخالف چالاک قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کیا وہ نہیں ہیں؟ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، وہ اس سے چشم پوشی کرتے ہیں اور کرنے سے پہلے آٹھ سے دس مرتبہ یا اس سے زیادہ حساب لگاتے ہیں۔ ان کے دماغ ان سوچوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ ہجوم میں اپنے لیے زیادہ مستحکم مقام کیسے حاصل کرنا ہے، بہتر ساکھ اور اعلی وقار حاصل کر نا ہے، اوپر والوں کی خوشنودی کیسے حاصل کر نی ہے، بھائیوں اور بہنوں کی مدد کیسے کرنی ہے، ان سے محبت اور احترام کرنا ہے اور وہ ان نتائج کو حاصل کرنے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ وہ کس راستے پر چل رہے ہیں؟ اُن کے لیے، خُدا کے گھر کے مفادات، کلیسیا کے مفادات اور خُدا کے گھر کا کام بنیادی تامل کی چیز نہیں ہوتی، یہ چیزیں ان چیزوں سے بہت چھوٹی ہیں جن کے بارے میں وہ فکر مند ہیں۔ وہ کیا سوچتے ہیں؟ ’ان چیزوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ہر آدمی کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر شخص کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے؛ لوگوں کو اپنے لیے اور اپنی ساکھ اور حیثیت کے لیے جینا چاہیے۔ یہ سب سے بڑا مقصد ہے۔ اگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے اپنے لیے جینا چاہیے اور اپنی حفاظت کرنی چاہیے تو وہ ایک گھامڑ ہے۔ اگر مجھ سے سچائی کے اصولوں پر عمل کا مطالبہ کیا جائےنیز یہ کہ میں خدا اور اس کے گھر کے نظم و نسق کو تسلیم کروں تو اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ایسا کرنے میں میرا کوئی فائدہ ہے یا نہیں اور ایسا کرنے میں کیا فوائد ہیں۔ اگر خدا کے گھر کے نظم و نسق کو تسلیم نہ کرنے سے مجھے نکالاجا سکتا ہے اور میں برکت حاصل کرنے کا موقع کھو دیتا ہوں تو میں تسلیم ہو جاؤں گا۔‘ پس اپنی ساکھ اور حیثیت کو بچانے کے لیے، مسیح مخالف اکثر کچھ سمجھوتہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ تو کہہ سکتا ہے کہ حیثیت کی خاطر، مسیح مخالف کسی بھی قسم کی تکالیف کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اچھی شہرت کی خاطر، وہ کسی بھی قسم کی قیمت ادا کرنے کے قابل ہیں۔ یہ کہاوت ’ایک عظیم آدمی جانتا ہے کہ کب نفع لینا ہے اور کب نہیں،‘ ان پر صادق آتی ہے۔ شیطان کی منطق یہی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ یہ دنیا میں زندگی گزارنے کا شیطانی فلسفہ ہے، اور یہ بقا کا شیطانی اصول بھی ہے۔ یہ انتہائی مکروہ ہے!(کلام، جلد 4۔ مسیح کے مخالفوں کو بے نقاب کرنا۔ شق نہم: وہ صرف اپنے آپ کو ممتاز کرنے اور اپنے مفادات اور عزائم کو پورا کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کرتے ہیں؛ وہ کبھی بھی خدا کے گھر کے مفادات پر غور نہیں کرتے، اور یہاں تک کہ ان مفادات کو ذاتی شان کے بدلے بیچ دیتے ہیں (حصہ دوم))۔ خدا کے کلام میں مجھے دکھائی دیا کہ مسیح مخالف فطرتاً چالاک اور فریب کار ہیں۔ وہ بہت خود غرض اور گھٹیا ہیں۔ اپنے فرض کی ادائیگی میں وہ صرف اپنے نام اور مرتبے کا سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ اگر کوئی چیز انھیں فائدہ پہنچاتی ہے تو ان کی ساکھ کو فائدہ پہنچاتی ہے، اور جس سے انھیں رہنماؤں کی تعریف حاصل ہو اور بھائیوں اور بہنوں کی حمایت ملے، وہ اس میں منہمک ہو جائیں گے۔ لیکن وہ کام جن پر رہنماؤں کی توجہ نہ ہو چاہے ان کا کرنا ضروری ہی کیوں نہ ہو یا ایسے چیزیں جو ان کے نام اور حیثیت بڑھانے میں مدد نہ کریں وہ ان کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس سے پہلے کہ کوئی مسیح مخالف کچھ کرے، وہ یہ حساب لگاتے ہیں کہ کس طرح اپنی ساکھ اور حیثیت کو بچانا ہے، کس طرح زیادہ سے زیادہ اپنا فائدہ حاصل کیا جائے۔ وہ کبھی بھی کلیسیا کے کام کو برقرار رکھنے پر کوئی غور نہیں کرتے۔ یہی غور کرتے ہیں کہ اپنا کام کیسے کرنا ہے، میں نے دیکھا کہ میں نے بھی وہی رویہ روا رکھا ہے جو ایک مسیح مخالف کا ہے۔ اپنے فرض کی ادائیگی میں نے غور ہی نہیں کیا کہ کلیسیا کے کام سے کیا فائدہ ہوگا۔ اور میں کلیسیا کے کام کو برقرار نہیں رکھ رہی تھی۔ اس کے بجائے میں صرف اندرونی طور پر یہی حساب لگا رہی تھی کہ میرے رہنما کو کیا چیز متاثر کرے گی، اس کے ساتھ کیا ایسا کروں کہ اسے میری کوتاہیاں دکھائی نہ دیں۔ تاکہ میں اپنے منصب پر بحال رہ سکوں۔ جب میں نے دیکھا کہ ہماری رہنما انجیل کے کام کے بارے میں بہت پوچھ رہی ہے، تو میں نے سوچا کہ یہ اس کے لیے اہم ہے، لہذا اپنا منصب بچانے کے لیے، میں نے انجیل کے کام پر غیر ضروری زور دیا، یہی کوشش کرتی رہی کہ اس کام پر ڈٹی رہوں اور ان مسائل کو حل کروں۔ لیکن یہ دیکھ کر کہ رہنما تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنی توجہ سیرابی کے کام پر مرکوز نہیں کر رہی، میں نے اپنے کام کے اس پہلو کو نظر انداز کردیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نے اس کو وقت دیا تو میں رہنما کی تعریف حاصل نہیں کر پاؤں گی۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہم میں سیراب کرنے والے کم تھے۔ اور نئے ماننے والوں کو بر وقت سیراب نہ کیے جانے کے نتائج پہلے ہی سامنے آچکے تھے، لیکن میں نے پھر بھی اسے روکنے کی کوشش نہ کی اور میری ناک کے بالکل نیچے سیرابی کے عمل کو نقصان پہنچتا رہا۔ میں واقعی اپنےفرض میں مصروف دکھائی دیتی اور رہنما جو کچھ کہتی میں دوڑ کر اسے سرانجام دیتی، لیکن در حقیقت، میں اپنا کاروبار چلا رہی تھی، لوگوں کو فریب دے رہی تھی اور ایک جھوٹی تصویر کے ساتھ خدا کو دھوکہ دے رہی تھی۔ میں خود غرض، عیار اور چالاک تھی۔ میں نے اس قدر اہم کام اپنے ذمہ لیا تھا لیکن میں ہر موڑ پر اپنے مفادات کے لیے سوچتی رہی اور حساب کتاب کرتی رہی۔ میں نے اپنے فرض کو اپنے نام اور حیثیت کے حصول کا ایک سرچشمہ سمجھا۔ میں مسیح مخالف کی راہ پر چل نکلی تھی – میں نے جو کچھ بھی کیا وہ خدا کے لیے ناگوار تھا۔ ایک بار جب مجھے یہ بات سمجھ آ گئی، میں نے محسوس کیا کہ میں کلیسا کے کام میں خلل ڈال رہی ہوں اور مجھے برخاست کرنا کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ میں انتہائی خود غرض، چالاک اور غیر ذمہ دار تھی، میں اس قدر اہم کام کے قابل نہیں تھی۔ مجھے جرم اور افسوس کا احساس ہوا، اور یہ جانا کہ میں خدا کی بہت زیادہ مقروض ہوں! میں نے دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگی کہ رہنما کسی چیز کے بارے میں دریافت کرے یا نہ کرے، جب تک یہ میرے کام کے دائرہ کار میں ہوگا، میں اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کر دوں گی، اور واقعی اپنے تمام گناہوں کی تلافی کروں گی۔ میں حیران رہ گئی، ایک بار جب میں خدا سے توبہ کرنے کے لیے تیار ہوئی، رہنما نے مجھے دوبارہ سیرابی کے کام پر مامور کر دیا۔ میں اسی لمحے پسیج گئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ مجھے اپنا فرض پورا کرنا ہے، اور آئندہ کبھی اپنے نام اور حیثیت کے بارے میں نہیں سوچنا۔ اس کے بعد میں اپنے کام میں مگن ہو گئی۔ میں نے ان کاموں کو ترجیح دی جن پر میں نے فوری طور پر توجہ نہیں دی تھی، ان کے بارے میں سیکھا اور ان پر عمل کیا، اور مسائل کا عملی حل تلاش کیا۔ جب میں نے اس طرح کام کرنا شروع کیا تو مجھے بہت بہتر محسوس ہوا۔

کچھ دنوں کے بعد، خدا کے گھر نے حکم صادر کیا کہ کلیساؤں میں پاک کرنے کا کام ہونا چاہئے۔ میرے ساتھ یہی ہوا کہ میں انجیل اور سیرابی کے کام کی ذمہ دار تھی، اور یہ اہم کام تھے، اورپاک کرنے کے کام کی بنیادی ذمہ داری میری نہیں تھی۔ میں نے سوچا کہ میری ساتھی اس کا خیال رکھ سکتی ہے۔ لہذا، میں نے اسے اپنے دماغ پر سوار نہیں کیا۔ میں نے صرف اپنی ساتھی کے ساتھ اس کام کو انجام دینے کے بارے میں مختصراً بات کی۔ اور اسے اس کی دیکھ بھال کے لیے بھیج دیا۔ میں نے کام کی پیش رفت اور کوشش کے بارے میں اس سے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ مجھے حیرت ہوئی جب ایک اجتماع میں، رہنما نے پوچھا کہ پاک کرنےکا کام کیسے چل رہا ہے۔ وہ کسی اور کلیسا کے بارے میں پوچھ رہی تھی اور جاننا چاہتی تھی کہ انھوں نے پاک کیسے کیا اور لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا گیا، کیا انھیں اس کام میں مشکلات در پیش آئیں یا کوئی ایسی چیز جو انھیں سمجھ نہ آئی ہو۔ میں واقعی پریشان ہوگئی کیونکہ میں پاک کرنے کے کام کو نہ تو دیکھ رہی تھی اور نہ ہی اس بارے میں کچھ جانتی تھی۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا اور مجھے علم نہ ہوتا تو رہنما یقیناً یہی سمجھتی کہ میں عملی کام نہیں کر رہی۔ اگر میرا فرض بدل دیا جائے، یا مجھے برطرف کر دیا جائے تو پھر کیا ہوگا؟ اس وقت میرے ذہن میں بس ایک ہی خیال تھا: اجتماع ختم ہوتے ہی میں اس پروجیکٹ کی پیش رفت کا پتا لگانے جاؤں گی، جن لوگوں کوا پاک کیا گیا ان کی تعداد معلوم کروں گی، اور دیکھوں گی کہ مجھے کس کے بارے میں یقین نہیں ہے، اور اس بارے میں بات کروں گی اور فوری فیصلہ کروں گی کہ آیا انھیں ہٹایا جائے یا نہیں۔ جس سے میں رہنما کو اگر وہ اس بارے میں جاننا چاہے گی تو ایک بنیادی جواب دینے کے قابل ہو جاؤں گی۔ اس طرح وہ سوچے گی کہ میں کچھ حقیقی کام کرنے کے قابل ہوں۔ جب اجتماع ختم ہوا تو آدھی رات گزر چکی تھی اور میں اب بھی اس منصوبے کے بارے میں اپنی ساتھی سے پوچھنے کی خواہشمند تھی۔ جیسے ہی میں اس سے رابطہ کرنے کے لیے تیار ہو رہی تھی، مجھے تھوڑی سی مایوسی ہوئی۔ کیا میں صرف دکھاوے کے لیے تو دوبارہ کام نہیں کر رہی؟ اس بات کو اس نظر سے دیکھنا صرف اور صرف حرکات سے گذرنا تھا۔ اگر ہم سے کوئی غلط فیصلہ سرزد ہو جاتا اور ہم کسی ایسے شخص کو ہٹا دیتے جسے نکالنا نہیں چاہئے تھا تو کیا یہ بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ رویہ نہیں ہوتا؟ اگر میں نے جلد بازی سے کام لیا اور احتیاط کے ساتھ جانچ پڑتال کرکے درست فیصلہ نہ کیا اور کسی غلط شخص کو نکال دیا، تو اس سے نہ صرف میرا کام غیر ذمہ دارانہ ہوگا بلکہ یہ بھائیوں اور بہنوں کے حق میں نقصان دہ بھی ہوگا۔ یہ سوچتے ہی مجھے ٹھنڈے پسینے چھوٹ پڑے۔ اور میں نے خاموشی سے دعا مانگی، ”خدایا، میں نے دوبارہ دکھاوے کے لیے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ میں اب بھی پاک کرنے کے کام پر عمل کرنے کے لیے جلد بازی سے کام لے رہی ہوں۔ یہ آپ کی مرضی پر غور کرنے اور اپنا فرض احسن طریقے سے ادا کرنے کے لیے نہیں بلکہ یہ سب اپنی ساکھ اور مرتبے کے لیے ہے۔ میں کھیل کھیل رہی ہوں اور آپ کو دوبارہ دھوکہ دے رہی ہوں۔ خدایا، میں اپنے فرض میں دور سے بھی حقیقی طور پر مخلص نہیں ہوں، بلکہ میں صرف اچھا دکھائی دینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی تھی۔ یہ سب آپ کو بہت ناگوار ہے۔ اے خدا، میں خود سوچنا چاہتی ہوں اور تجھ سے توبہ کرنا چاہتی ہوں۔“ اسی وقت، خدا کے کلام کی ایک عبارت جو میں نے حال ہی میں پڑھی تھی، ذہن میں آئی۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”اگر تو ایک رہنما ہے تو اس سے قطع نظر کہ تو کتنے منصوبوں کے لیے ذمہ دار ہے، یہ تیری ذمہ داری ہے کہ تو مسلسل دلچسپی لے اور سوال کرے، اس کے ساتھ ہی چیزوں کی جانچ پڑتال کرے اور مسائل کے پیدا ہوتے ہی مستعدی کے ساتھ ان کا تدارک کرے۔ یہ تیری ذمہ داری ہے۔ اور اس طرح، خواہ تو علاقائی رہنما ہو، ضلعی رہنما ہو، کلیسیا کا رہنما ہو یا کسی ٹیم کا راہنما یا سپروائزر ہو، ایک بار جب تواپنی ذمہ داریوں کا دائرہ کار متعین کر لے تو تجھے بار بار اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا تو اس کام میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے یا نہیں، کیا تو نے وہ ذمہ داریاں ادا کی ہیں جو کسی رہنما یا کارکن کو ادا کرنی چاہییں، تو نے کون سا کام نہیں کیا، وہ کون سا کام ہے جو تو نے اچھا نہیں کیا، کون سا کام تو نہیں کرنا چاہتا ہے، کس کام کا اثر نہیں ہوا ہے اور تو کس کام کے اصولوں کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن پر تجھے اکثر غور کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ، تجھے چاہیے کہ تو دوسروں کے ساتھ رفاقت کرنا اور سوال پوچھنا سیکھے اور تجھے سیکھنا چاہیے کہ خدا کے کلام اور کام کے بندوبست میں کس طرح کسی منصوبے، اصولوں اور نفاذ کے طریقے کی نشاندہی کی جائے۔ کسی بھی کام کے بند و بست کے حوالے سے، خواہ اس کا تعلق انتظامیہ، ایچ آر یا کلیسیا کی زندگی سے ہو یا کسی اور قسم کے ماہرانہ کام سے، اگر اس کا دائرہ کار رہنماؤں اور کارکنوں کی ذمہ داریوں سے ملتا جلتاہے، اگر یہ ایسی ذمہ داری ہے تجھے ادا کرنیچاہیے اور تیری ذمہ داریوں کی حدود میں ہے تو تجھے چاہیے کہ تو اس کی فکر کرے۔ فطری طور پر، ترجیحات کا تعین حالات کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی منصوبہ تاخیر کا شکار نہ ہو(کلام، جلد 5۔ راہنماﺆں اور کارکنان کی ذمہ داریاں)۔ خدا کا کلام بہت واضح ہے۔ کلیسیا کے کام کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک رہنما کی حیثیت سے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم کتنے منصوبوں کی نگرانی کرتے ہیں، ہمیں ان کو ترجیح دینا ہے، ان کی نگرانی کرنی ہے، ان کے بعد پوچھ گچھ کرنی ہے اور ان کا معائنہ کرنا ہے تاکہ ہر ایک یوں آگے بڑھے جیسا اسے بڑھنا چاہئے۔ یہی وہ کام ہے جو ایک رہنما یا کارکن کو کرنا چاہئے، اور یہی حقیقی کام کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ لیکن میں نے سوچا کہ میں اس وقت تک اہم کام مکمل کرتا ہوں جو ٹھوس نتائج دے سکے، یا وہ کام جن کے بارے میں رہنما باقاعدگی سے کہتا ہے، وہی عملی کام ہوتا تھا۔ لیکن وہ کام جس کے بارے میں اعلی رہنما زیادہ نہیں کہتا یا وہ چیزیں جو واقعی واضح طور ادا نہیں کرتی تھیں، تو میں بمشکل ان پر کام کیا یا ان کی نگرانی کی۔ لیکن در حقیقت، مجھے اپنا سب کچھ اپنے فرائض کے دائرہ کار میں لگا دینا چاہئے تھا۔ کچھ منصوبے پہلے ہی شروع کئے گئے تھے اورتھوڑی دیر کے لیے بھی ان پر تبادلہ خیال نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رک جائیں گے اور انھیں نگرانی کی ضرورت نہیں۔ مجھے حسبِ ترجیح ان کو دیکھتے رہنا چاہئے تھا۔ اگر میں نے ان کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا اور ان کی پیش رفت رک گئی، تو یہ ایک غیر ذمہ دارانہ کام، اور خدا کے لئے خلوص کی کمی شمار ہو گا۔ میں نے کام سے متعلقہ اپنے رویے کے بارے میں سوچا۔ میں جانتی تھی کہپاک کرنے کا کام واقعی اہم ہے، لیکن مجھے لگا کہ یہ اتنا بھی اہم نہیں تھا جس کے لیے مجھے اس کا بنیادی ذمہ دار بنایا جاتا، اور اگر اسے اچھی طرح سے کیا جاتا تو کوئی بھی اس کوشش کو نہ دیکھتا جو میں نے اس میں کی تھی، لہذا میں نے نہ تو اسے دل سے سرانجام دیا نہ ہی اسے سنجیدگی سے نمٹایا۔ مجھے اس پر ہونے والی پیش رفت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ جیسے ہی میں نے رہنما کو اس کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنا تو میں اسے دیکھنے کے لیے دوڑی۔ میں کچھ سرسری سی پیروی کرنا چاہتی تھی تاکہ جب رہنما میرے کام کے بارے میں پوچھے تو میں اس کو جواب دے سکوں، پھر اسے پتہ نہیں چلے گا کہ میں نے بالکل کام نہیں کیا نہ ہی وہ مجھے برطرف کرے گی۔ میں ایک کھیل کھیل رہی تھی اور دھوکہ دے رہی تھی، میں اپنے نام اور حیثیت کو بچا رہی تھی اور کلیسا کے کام کی کوئی ذمہ داری اپنے سر نہ لے رہی تھی یہ برا کام تھا!

اس کے بعد میں نے اپنے موجودہ رویے اور اپنے کام کی انجام دہی پر کچھ غور و خوض کیا۔ خدا کی کلام کے مندرجہ ذیل عبارتیں میرے ذہن میں آئیں: ”جب کوئی شخص اُس چیز کو قبول کرتا ہے جو خُدا اُس کے سپرد کرتا ہے، تو خدا کا ایک معیار ہے جس پر وہ جانچتا ہے کہ کیا اس کے اعمال اچھے ہیں یا بُرے اور کیا اُس شخص نے اطاعت کی ہے یا نہیں، اور آیا اُس شخص نے خُدا کی مرضی کو پورا کیا ہے یا نہیں اور کیا وہ اُس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ خدا جس چیز کو اہمیت دیتا ہے وہ اس شخص کا دل ہے، نہ کہ اس کے سطحی اعمال۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کو کسی کو تب تک برکت عطا کرنی چاہیے جب تک کہ وہ کوئی کام کرتا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ شخص کیسے یہ کام کرتا ہے۔ یہ خدا کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمی ہے۔ خدا صرف چیزوں کے انجام ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ اس بات پر زیادہ زور دیتا ہے کہ چیزوں کے آگے بڑھنے کے دوران کسی شخص کا دل کیسا ہے اور کسی شخص کا رویہ کیسا ہے، اور وہ یہ دیکھتا ہے کہ آیا اس کے دل میں اطاعت، غور و فکر اور خدا کو راضی کرنے کی خواہش ہے یا نہیں(کلام، جلد 2۔ خدا کو جاننے کے بارے میں۔ خدا کا کام، خدا کا مزاج، اور خود خدا I)۔ ”اگرچہ ہر شخص سچائی کے لیے تگ و دو کرنا چاہتا ہے، تاہم اس کی حقیقت میں داخل ہونا آسان نہیں ہے۔ اس کی کلید سچائی کی تلاش اور سچائی پر عمل کرنا ہے۔ تجھے ان چیزوں پر ہر روز غور کرنا ہوگا۔ اس سے قطع نظر کہ تجھے کیا مسائل اور مشکلات درپیش ہیں، سچائی پر عمل کرنا نہ چھوڑ؛ تجھے سچائی پر عمل کا طریقہ سیکھنا چاہیے اور خود پر غور کرنا چاہیے، اور بالآخر سچائی پر عمل کرنا چاہیے۔ یہ سب سے اہم ہے کہ تو جو بھی کر، خود اپنے مفاد کی حفاظت کرنے کی کوشش نہ کر اور اگر تو اپنے مفاد کو اولیت دیتا ہے تو تو سچائی پر عمل کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کو دیکھ جو صرف اپنے لیے باہر نکلے ہیں – ان میں سے کون سچائی پر عمل کر سکتا ہے؟ کوئی ایک بھی نہیں۔ وہ لوگ جو سچائی پر عمل کرتے ہیں وہ سب ایماندار لوگ ہیں، سچائی سے محبت کرنے والے اور رحم دل لوگ۔ ان سب لوگوں میں ضمیر اور سمجھ ہوتی ہے، جو اپنے مفادات، گھمنڈ اور فخر کو چھوڑ سکتے ہیں، جو جسم کو ترک کر سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سچائی پر عمل کر سکتے ہیں۔ ۔۔۔ سچائی سے محبت کرنے والے لوگ ان لوگوں سے الگ راستے پر چلتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے: وہ لوگ جو سچائی سے محبت نہیں کرتے وہ ہمیشہ شیطانی فلسفوں کے مطابق زندگی گزارنے پر توجہ مرکوزرکھتے ہیں، وہ صرف حسن سلوک اور پارسائی کے دکھاوے سے مطمئن ہیں لیکن ان کے دلوں میں اب بھی وحشیانہ خواہشات اور آرزوئیں موجود ہیں اور وہ اب بھی حیثیت اور وقار کے تعاقب میں ہیں، اب بھی برکت حاصل کرنا اور بادشاہی میں داخل ہونا چاہتے ہیںلیکن چونکہ وہ سچائی کی تگ و دو نہیں کرتے اور اپنے بدعنوان مزاج کو نکال باہر کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ ہمیشہ شیطانی قوت کے زیر اثر زندگی گزارتے ہیں۔ تمام لوگ جو سچائی سے محبت کرتے ہیں اور اس کی تلاش کرتے ہیں، وہ ہر چیز میں خود پر غور کرتے ہیں اور خود کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور سچائی پر عمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور ان کے دل میں ہمیشہ خدا کی فرماں برداری ہوتی ہے اور اس کا خوف ہوتا ہے۔ اگر اس کے بارے کچھ تصورات یا غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، تو وہ ان کے حل کے لیے فوراً خدا سے صحیح راہ دکھانے کی دعا کرتے ہیں؛ وہ اپنا فرض بہتر طور پر ادا کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اس طرح کہ خدا کی رضا حاصل ہو اور وہ سچائی کے لیے کوشش کرتے ہیں اور خدا کے علم کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، اپنے دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور تمام برے کاموں سے بچتے ہیں۔ یہ ایساشخص ہے جو ہمیشہ خدا کے سامنے رہتا ہے(کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ اچھے برتاؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کا مزاج بدل گیا ہے)۔ میں نے اپنے فرض کی ادائیگی میں صرف وہی کام کیا جس سے میں اچھی دکھائی دے سکوں، میں ہمیشہ رہنما کی نظروں میں عزت پانے اور اپنا مرتبہ بچانے کے متعلق سوچتی رہی۔ میں سوچتی رہی کہ میں ہوشیار ہوں، لیکن در حقیقت میں بیوقوف تھی۔ خدا کے کلام بالکل واضح ہیں – خدا انسان کے دل کی اپنے فرض کی ادائیگی میں خیال رکھتا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ لوگ اپنے فرض میں خدا کی مرضی کا کس قدر خیال رکھتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ لوگ کتنا کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یا کتنے لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ کلیسیا نے لوگوں کو برطرف کرنے کے قوانین وضع کر رکھے ہیں۔ عام طور پر کسی کو بھی اس بات پر برطرف نہیں کیا جاتا ہے کہ اس نے ایک مختصر وقت کے لیے اپنا کام اچھی طرح نہیں کیا۔ اگر ان کا دل مخلص صحیح جگہ پر ہے اور کلیسیا کے کام کو برقرار رکھ سکتے ہیں، تو اگر وہ تجربے کی کمی کی وجہ سے کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں، خدا کا گھر ان کی مدد اور انھیں سہارا دیگا۔ اگر وہ صلاحیت کی کمی کی وجہ سے واقعتاً کسی کام کو سنبھال نہیں سکتے تو کلیسا ان کے لیے کسی اور فرض کا انتظام کر ے گا۔ مجموعی طور پر اہم بات یہ ہے کہ آپ کا دل صحیح جگہ پر ہو۔ فرض کی ادائیگی میں اگر آپ کی نیت غلط ہے یا آپ خدا کی مرضی کا خیال نہیں کرتےہیں، اگر آپ صرف نام اور حیثیت کے طلبگار ہیں، یا آپ چالبازیاں کر رہے ہیں اور دھوکہ دہی سے کام چلا رہے ہیں تاکہ رہنما آپ کی قدر کرے، ایسا لگ سکتا ہے کہ آپ کام کر رہے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ آپ تکلیف اٹھانے اور قیمت بھی ادا کرنے کے قابل ہیں، لیکن آپ کے مقاصد غلط ہیں، آپ یہ سب کچھ اپنے لیے کر رہے ہیں۔ تو آپ اپنا فرض بالکل نہیں نبھا رہے اور نہ ہی اس سے آپ کو خدا کی منظوری حاصل ہو گی۔ میں جانتی تھی کہ پاک کرنے کا کام خدا کے گھر کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اپنے ساتھی کارکنوں کی پیش رفت کو سمجھنا اور اس کی نگرانی کرنا میرے کام کا حصہ تھا۔ مجھے صحیح رویہ اختیار کرنا چاہئے اور اصول کے مطابق اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔ اس کے بعد، میں پاک کرنےکے کام میں اپنے ساتھی کارکنوں سے ان کی پیش رفت کے بارے میں بات کرنے گئی اور ان سے پوچھا کہ انھیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنی دسترس میں عملے کا جائزہ لینے میں ان کی مدد کی اور جو لوگ پاک کرنےکی شرائط پر پورا اترتے تھے ہم نے ان لوگوں کو پاک کر دیا۔ ایسا کرنے کے بعد میں نے خود کو پرسکون محسوس کیا۔

میں نے ان تمام تجربات سے بہت کچھ سیکھا۔ میں سوچتی تھی کہ رہنما جس کام کو ترجیح دے اسی پر توجہ دی جائے وہی عملی کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ان تجربات کی بدولت میں نے دیکھا کہ اگر میرے پاس صحیح محرکات نہیں ہیں اور میں نام، حیثیت، اور دوسروں کی تعریف سمیٹنے کے لیے اپنا فرض ادا کرتی ہوں، یا ایک رہنما کو پورا کرنے کے لئے، تو یہ کام دکھاوے کے لئے کر رہی ہوں، نہ کہ اپنے فرض کی ادائیگی کر رہی ہوں۔ پھر میں خواہ جتنا زیادہ کام کر لوں، خدا اسے کبھی منظور نہیں کرے گا۔ فرض کی ادائیگی خدا ہمارے دلوں کو اہمیت دیتا ہے اور وہ فرض کی ادائیگی میں ہمارے رویے کو دیکھتا ہے، اگر ہم کلیسیا کا کام کو برقرار رکھتے ہیں، اگر ہم سچائی کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں اور خدا کے کلام کے مطابق زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ یہی سب سے اہم ہے۔ مجھے یہ بات سمجھ آئی مکمل ظور پر خدا کی رہنمائی کا شکریہ۔ خدا کا شکر ہے!

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

جھوٹ بولنے کی تکلیف

اکتوبر 2019 میں، میں نے آخری ایّام میں قادرِ مطلق خُدا کا کام قبول کیا۔ میں نے دیکھا کہ بھائی اور بہنیں اجتماعات میں اپنے تجربات اور سمجھ...

حسد سے آزادی

2021 کے آغاز میں، میں ایک مبلغ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا تھا اور برادر میتھیو کے شریک کار کے طور پر چرچ کے کاموں کی نگرانی بھی کر...

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp