اپنے فریضے کی ادائیگی میں سعی نہ کرنے کا نتیجہ
2019 میں، بہن اینڈریا کواور مجھے آرٹ ڈیزائن ورک کا انچارج بنادیا گیا۔ جب میں نے پہلے پہل یہ فریضہ شروع کیا، تو میں بہت سے اصول سمجھ نہیں سکی، لہٰذا اینڈریا نے تحمل کے ساتھ مجھ سے رفاقت نبھائی اور زیادہ تر کام اپنے ذمے لے لیا۔ بعد ازاں، مجھے معلوم ہوا کہ وہ دو سال سے یہ فریضہ ادا کررہی تھی، اور کام کا کچھ تجربہ رکھتی تھی، نشستوں میں مباحثے سے کام کا خلاصہ کرنے تک، وہ میرے مقابلے میں زیادہ جامع سوچ رکھتی تھی۔ بھائیوں اور بہنوں نے جب بھی سوالات اٹھائے، اس کے پاس ہمیشہ اچھے حل موجود ہوتے تھے۔ میں اس کے مقابلے میں، سچ میں خود کو بہت پیچھے محسوس کرتی تھی۔ میں نے سوچا، ”اینڈریا جیسا بننے کے لیے مجھے کتنی مصیبت جھیلنی اور قیمت چُکانی پڑے گی؟ چونکہ وہ زیادہ تجربہ رکھتی اور زیادہ بوجھ برداشت کرتی ہے، میں اسے زیادہ کام کرنے کا موقع دوں گی۔“
کام کے خلاصوں میں، اس نے مجھ سے غور کرنے کو کہا کہ مسائل حل کرنے کے لیے کیسے مباحثہ کیا جائے، اور میں نے بس یہ سوچا، یہ تو بڑی مصیبت ہے۔ ہمار فریضے میں موجود مسائل کا خلاصہ کرنے کے علاوہ، مجھے مباحثے کے لیے خدا کے متعلقہ کلمات اور اصول بھی تلاش کرنے پڑتے تھے۔ خصوصا پیشہ ورانہ مسائل میں، مجھے زیادہ تجربہ نہیںہے۔ حل فراہم کرنے کے لیے، بہت زیادہ معلومات ڈھونڈنی پڑتی تھیں، اور جو میری سمجھ میں نہیں آتا تھا، اس کے لیے مشورہ کرنا پڑتا تھا۔ ”یہ بہت زیادہ وقت اور محنت طلب کام تھا۔ اینڈریا اس شعبے سے واقف ہے، لہٰذا وہ خلاصے کرسکتی ہے۔ یہ میں اس پر چھوڑدوں گی۔“ اس کے بعد میں نے کام کے خلاصوں کے بارے کبھی زیادہ نہ سوچا۔ بعد ازاں، جب اینڈریا نے پوچھامیں نے کیا سوچا، میں نے کہا، ”میں اس شعبے سے واقف نہیں ہوں، آپ سب سے بہتر خلاصے کریں گی۔“ بعض اوقات، جب وہ ہمارے مطالعہ کے رخ کی منصوبہ بندی کر رہی ہوتی تھی، وہ مجھ سے پوچھتی کہ کیا میں شریک ہونا چاہوں گی، مثلاً ممکنہ مسائل سے بچنے کے لیے اسے مشورہ اور مدد دینا۔ میں نے سوچا، ”اینڈریا ہمیشہ اس شعبے کی ذمہ دار رہی ہے، اور میں اس کے مقابلے میں کم سمجھ رکھتی ہوں۔ شرکت کے لیے، مجھے اس کے بارے میں سوچنا پڑے گا، اور ایسی چیزوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا جو میں نہیں جانتی۔ یہ تو بہت محنت کا کام ہے! چھوڑو، میں اس میں شامل نہیں ہوں گی۔“ اور اس طرح میں نے اینڈریا کو مسترد کردیا۔
بعد ازاں، ہم ڈرائنگ کی نئی تکنیک سیکھ رہے تھے۔ ہمیں بہت سی مشکلات اور مسائل کا سامنا تھا لیکن اس نے ہمارے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور انھیں حل کردیا۔ جیسا کہ میں اس شعبے سے اچھی طرح واقف نہیں تھی، چیزوں کی دودوبار وضاحت سننے کے بعد بھی میں الجھن میں رہتی تھی، اور میں نے سوچا، ”اس شعبے میں نئی مہارتیں سیکھنا کتنا تھکادینے والا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ میں اس بار شامل ہوں گی۔ بہرحال، ہمارے پاس اینڈریا ہے ناں، وہ سیکھنے میں ہماری مدد کرسکتی ہے۔“ بعدازاں، جب میں مطالعہ کررہی تھی، میں نے توجہ سے نہیں سنا۔ بعض اوقات میں نےایک لفظ بھی نہیں کہا، دیگر مواقع پر، میں دوسری چیزوںمیں لگ جاتی۔ جب بہن اینڈریا نے میرے افکار اور خیالات پوچھے، میں نے ہمیشہ لاپروائی سے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی نہیں ہے۔ بالآخر، مجھے پتا چلا کہ میں اپنے فریضے میں کم سے کم بوجھ اٹھارہی ہوں۔ مجھے جتنا زیادہ یہ احساس ہوتا کہ میں کام میں زیادہ اچھی نہیں ہوں، مسائل پر توجہ دینا اتنا ہی کم کردیا۔ اس مدت کے دوران میں، مجھےہرروز اپنا دل کھوکھلا محسوس ہوتا، اور میں مزید سے مزید تر منفی ہوتی گئی۔ مجھے محسوس ہوتا میری استطاعت کم ہے، اور میں فریضے کے لائق نہیں ہوں۔
ایک روز اینڈریا سے میرے کام پر تبادلہ خیال کے بعد، اس نے مجھے کہا، ”تم اس فریضے پر خاطر خواہ عرصے سے ہو، اس کے باوجود تم کہتی ہو کہ تمہیں تجربہ نہیں ہے یا تم سمجھتی نہیں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بوجھ اٹھا نا یا کوشش کرناہی نہیں چاہتی ہو۔ میرے پاس اچھے افکار اس لیے ہیں کہ میں اکثر دعا کرتی ہوں، خدا پر بھروسا کرتی ہوں اور چیزیں سمجھنے کے لیے اصولوں کی جستجو کرتی ہوں۔ جب ہم پیشہ ورانہ پہلو نہ سمجھ پائیں، تو لازم ہے کہ ہم ان کا مطالعہ کریں۔ بصورت دیگر، ہم اپنا فریضہ کیسےاچھی طرح انجام دے سکتے ہیں؟“ پھر اس نے بتایا کہ اس نے مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیےکیسے خدا پر بھروسا کیا مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے۔ بدقسمتی سے اس وقت مجھے اپنے مسئلے کا بالکل ادراک نہیں تھا۔ اس کے بجائے، مجھے لگا کہ اینڈریا میرے مسائل نہیں سمجھتی، لہٰذا میں نے اس کی تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا، نہ ہی بعد میں اپنے آپ پر غور کیا۔
جلد ہی اینڈریا کو کوئی دوسری ذمہ داری سونپ دی گئی۔ جب وہ رخصت ہوئی تو میں بہت اداس تھی کیوں کہ اتنے سارے کام کا سامنا کرکے، میرا ذہن ماؤف ہوگیا تھا۔ میں نے خود سے پوچھا، ”اب میں ایک سال سے اس کام کی ذمہ دار ہوں، تومیں اب بھی یہ کام کیوں انجام نہیں دے پا رہی ہوں؟“ اس وقت مجھے یاد آیا کہ اینڈریا نے مجھے کیا کہا تھا۔ میں نے اپنی ڈیوٹی میں کیا واقعی کوئی بوجھ نہیں اٹھایا تھا؟ میں نے اپنے آپ پر غور کیا تو خدا سے دعا کرکے اس کی راہنمائی طلب کی۔ بعد میں، میں نے خدا کے کلام کا یہ حوالہ پڑھا: ”اکثر اوقات، جب تم سے کام کے مسائل پر سوال کیا جاتا ہے تو تو جواب دینے سے قاصر ہوتے ہو۔ تم میں سے کچھ لوگ کام میں شامل تو ہو گئے ہیں لیکن تو نے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ کام کیسا چل رہا ہے یا اس کے بارے میں احتیاط سے نہیں سوچا۔ تمھاری صلاحیت اور علم کے مد نظر، تمھیں کچھ نہیں جاننا چاہیے، کیونکہ تم سب نے اس کام میں حصہ لیا ہے۔ تو زیادہ تر لوگ کیوں کچھ نہیں بولتے؟ یہ ممکن ہے کہ تمھیں پتہ نہ ہو کہ تمھیں کہنا کیا ہے – کہ تم نہیں جانتے کہ کام ٹھیک سے چل رہا ہے یا نہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ تم بالکل ہی مختلف ہو اور تم نے کبھی ان چیزوں پر توجہ نہیں دی اور انھیں صرف ایک کام سمجھا جسے مکمل کرنا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تم غیر ذمہ دار ہو اور تم ان چیزوں پر توجہ دینا نہیں چاہتے ہو۔ اگر تو واقعی توجہ دیتا، اور واقع شامل ہوتا، تو تیرے پاس ہر چیز کا ایک نظریہ اور تناظر ہوتا۔ کسی نقطہ نظر یا نظریہ کا نہ ہونا اکثر لاتعلق اور بے حس ہونے اور کوئی ذمہ داری قبول نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تو اپنے ذریعہ ادا کیے جانے والے فرض کے لیے مستعد نہیں ہے، تو کوئی ذمہ داری نہیں لیتا، تو نہیں چاہتا کہ تو کوئی قیمت ادا کرے یا کسی چیز میں شامل ہو، نہ ہی تو کوئی سردردی لیتا ہے یا اپنی زیادہ توانائی صرف کرنا چاہتا ہے۔ نہ، تو صرف ایک ماتحت بننا چاہتا ہے، جو خدا کو نہ ماننے والے کسی شخص کا اپنے مالک کے لیے کام کرنے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایسی فرض کی ادائیگی خدا کو پسند نہیں ہے اور وہ اس سے خوش نہیں ہوتا۔ اس سے اس کی رضامندی حاصل نہیں ہو سکتی“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ صرف ایماندار بن کر ہی کوئی سچا انسان بن کر رہ سکتا ہے)۔ خدا کے کلام نے میری حالت کا دقیق انکشاف کیا۔ جب میں نے اینڈریا کے ساتھ کام اور تبادلہ خیال کیا، میں کبھی اپنے نظریات یا افکار نہیں رکھتی تھی۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ میں اپنے شعبے یا کام سے بخوبی آگاہ نہیں تھی۔ صرف خدا کا کلام سمجھنے کے بعد ہی میں سمجھ پائی کہ اس کی وجہ میرا لاابالی پن اور غیرذمہ داری تھی۔ ماضی میں اینڈریا کے ساتھ اپنی شراکت پر غور کرتی ہوں تو مجھے جب بھی کوئی پیشہ ورانہ مسئلہ درپیش ہوتا، میں کبھی اس کے بارے فکر مند نہ ہوئی۔ میں نے اس سے بچنے کے لیے اپنی ناتجربہ کاری اور اصولوں کے ناقص فہم کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔ کا م پر جب بھی تبادلہ خیال ہوتا، میں صرف سننے والی ہوتی تھی۔ میں کبھی اس پر احتیاط سے نہیں سوچتی تھی۔ میں اکثر اینڈریا کے سامنے کہتی کہ میری سمجھ میں نہیں آیا اور یہ کہ وہ کام کا زیادہ تجربہ رکھتی ہے، مگر یہ محض جھوٹ اور بہانے تھے۔ میرا اصل مقصد اس کی ہمدردی اور تفاہم حاصل کرنا تھا تاکہ زیادہ کام وہ کرے اور میں اپنی فراغت سے لطف اندوز ہونا جاری رکھ سکوں۔ میں اتنی مکار اور فریبی تھی! میں ایک سال سے اس کام کی ا نچارج تھی اور میں ایک پیشہ ورانہ بنیاد رکھتی تھی، لہذا اگر میں ذمہدار ہوتی اور تندہی سے مطالعہ کرتی، جب میں کام پر تبادلہ خیال کرتی تو میرے کچھ اپنے نظریات بھی ہوتے۔ حتیٰ کہ جب اینڈریا کا تبادلہ ہوا تو میں اسے سنبھالنے کے قابل ہوسکتی تھی۔ میں نے اپنے فریضے میں پراگندگی اور غیرذمہ داری کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا، جیسے میں صرف تنخواہ حاصل کرنے کے لیے کام کررہی تھی، میں روزمرہ کی بنیاد پر گزارے لائق معمولی کوشش اور فکر کے ساتھ جان چھڑاسکتی۔ میں نے مناسب طریقے سے امورسرانجام دینے، اپنی بہترین کارکردگی دکھانے، اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں صرف پراگندگی کا مظاہرہ کر رہی تھی، یہ سوچتے ہوئے کہ اپنی جان کیسے چھڑائی جائے۔ میں نے خدا کی منشا کا بالکل خیال نہیں کیا۔ میں کیسے کہتی کہ میرے دل میں خدا کے لیے جگہ ہے؟ فریضے کے بارے میں میرے رویے سے خدا مجھ سے کیوں نفرت نہ کرتا؟
اس کے بعد میں نے خدا کے کلام کا ایک اور حوالہ پڑھا: ”خُداوند یسوع نے ایک بار کہا، ’کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور اُس کے پاس زِیادہ ہو جائے گا اور جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جو اُس کے پاس ہے‘ (متّی 13: 12)۔ اس کلام کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں تک کہ اگر تو کوئی فرض انجام نہیں دیتا ہے یا خود کو اپنے فرض یا کام کے لیے وقف نہیں کرتا ہے تو خدا تجھ سے وہ چھین لے گا جو کبھی تیرا تھا۔ ’چھین لینے‘ کا کیا مطلب ہے؟ ایک انسان کے طور پر یہ کیسا محسوس ہوتا ہے؟ ممکن ہے تو اس کے حصول میں ناکام ہو جاتا جس کی تیری صلاحیت اور عطیات خداوندی تجھے اجازت دے سکتے تھے اور تجھ کو کچھ محسوس نہیں ہوتا نیز تو بالکل خدا کو نہ ماننے والے کی طرح ہے۔ یہی خدا کے ذریعہ سب کچھ چھین لیا جانا ہے۔ اگر تو اپنے فرض میں کوتاہی برتتا ہے اور قیمت ادا نہیں کرتا اور مخلص نہیں ہوتا تو جو کچھ تیرا تھا خدا وہ تجھ سے چھین لے گا، وہ تجھ سے فرض کی ادائیگی کا حق واپس لے لے گا؛ وہ تجھے یہ حق نہیں دے گا کیونکہ خدا نے تجھے تحفے اور صلاحیتیں دیں لیکن تو نے اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا نہیں کیا، خود کو خدا کے لئے خرچ نہیں کیا، یا قیمت ادا نہیں کی اور کام میں دل نہیں لگایا، اس سے صرف یہی نہیں ہوتا کہ خدا تجھے برکت عطا نہیں کرتا ہے بلکہ خدا تجھ سے وہ بھی چھین لیتا ہے جو کبھی تیرے پاس تھا۔ خدا انسان کو تحائف سے نوازتا ہے، انھیں خاص مہارتوں کے ساتھ ساتھ ذہانت اور حکمت بھی دیتا ہے۔ انسان کو ان چیزوں کا استعمال کیسے کرنا چاہیے؟ تجھے چاہیے کہ تو اپنی خصوصی مہارتیں، اپنے خدا کی عطیہ کردہ صلاحیتیں، اپنی ذہانت اور حکمت کو اپنے فرض پر وقف کرے۔ جو کچھ بھی تو جانتا ہے، جو کچھ بھی سمجھتا ہے، جو کچھ بھی تو حاصل کر سکتا ہے اور جو کچھ بھی تو اپنے فرض کے بارے میں سوچتا ہے اس کے اطلاق کے لیے تجھے اپنے دل اور دماغ کا استعمال کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے، تجھے برکت ملے گی۔ خدا کے ذریعہ برکت عطا کیے جانے کا کیا مطلب ہے؟ اس سے لوگوں کو کیا محسوس ہوتا ہے؟ کہ انھیں خدا کے ذریعہ بصیرت اور ہدایت ملتی ہے اور یہ کہ جب وہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو اس کا ایک راستہ ہے۔ لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ تیری صلاحیت اور تیرے ذریعہ سیکھی گئی چیزوں سے تو چیزوں کو مکمل کر پائے گا – لیکن اگر خدا کام کرتا ہے اور تجھے بصیرت عطا کرتا ہے تو تو نہ صرف یہ کہ ان چیزوں کو سمجھ اور کر سکے گا بلکہ انھیں بہتر طور پر کر سکے گا۔ بالآخر، تو خود حیرت زدہ ہوگا، ’مجھ میں اتنی مہارت نہیں تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب میرے اندر اور بھی بہت سی چیزیں موجود ہیں، وہ سب مثبت ہیں۔ میں نے ان چیزوں کا کبھی مطالعہ نہیں کیا لیکن اب میں انھیں اچانک سمجھ گیا ہوں۔ میں اچانک اتنا سمجھدار کیسے ہو گیا؟ میں اتنی ساری چیزیں کیسے کر سکتا ہوں؟‘ تو اس کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ یہ خدا کا علم اور نعمت ہے؛ خدا اسی طرح لوگوں کو برکت دیتا ہے۔ اگر تو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے یا اپنا کام کرتے ہوئے ایسا محسوس نہیں کرتا ہے تو تجھے خدا کی جانب سے کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہے“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ صرف ایماندار بن کر ہی کوئی سچا انسان بن کر رہ سکتا ہے)۔ خدا کے کلام پر غور کرنے کے بعد، میں سمجھ گئی کہ خدا دیانت دار لوگوں پر اور ان لوگوں پر جو خلوص نیت سے اس کے لیےخرچ کرتے ہیں، رحمت کرتا ہے۔ انسان جتنا زیادہ محنتی ہواور اپنے فریضے کو بہتر انداز میں انجام دینے کی کوشش کرے، اور وہ اپنے فریضے کی ادائیگی میں جتنے زیادہ موثر ہوں، روح القدس ان کی اتنی ہی زیادہ راہنمائی کرتی ہے۔ لیکن اگر تم اپنے فریضے کی ادائیگی مکاریسے کرتے ہو، مستعد نہیں ہو، اور اس کی قیمت نہیں چُکاتے، تو تم کبھی ترقی نہیں کروگے یا اپنے فریضے سے فائدہ نہیں اٹھاؤ گے، اور تم اس سے بھی محروم ہوسکتے ہو جو تم حاصل کرسکتے تھے۔ اس لمحے، مجھے ایک تجربہ یاد اآرہا ہے جس کے بارے میں اینڈریا نے مجھے بتایا تھا۔ انھیں ابتداء میں کام کا زیادہ پتہ نہیں تھا، لیکن وہ اپنی مشکلیں اکثر خدا کے حضور پیش کیا کرتی تھی، دعا، جستجو اور غور وفکر کرتی، اور ان پر دوسروں سے مشاورت کرتی تھی، اور، لاشعوری طور پر، اسے روح القدس کی طرف سے آگہی سے نواز دیا گیا، اس کے پاس ہمیشہ نئے افکار موجود ہوتے۔ وہ مسلسل ترقی کرتی رہی اور اپنے فریضے کو مزید موثر انداز میں ادا کرنے لگی۔ تاہم، میں نے صورت حال جوں کی توں برقرار رکھنے کی کوشش کی، ترقی کی جستجو نہیں کی، فراغت سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کی، اور کبھی تکلیف اٹھانے یا قیمت چُکانے کی خواہش نہیں کی۔ نتیجے کے طور پر، میں کبھی اپنی ممکنہ استعداد تک بھی نہیں پہنچ سکی۔ جیسا کہ اللہ کا کلام کہتا ہے، ”جِس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جو اُس کے پاس ہے“ (متّی 13: 12)۔ خدا کو میر ا فرض کی ادائیگی میں سست اور غیر ذمہ دارانہ رویہ برا لگا۔ مجھے ادراک ہوا کہ اگر میں نے توبہ نہیں کی تو خدا کی طرف سے مجھے مستردکردیا جائے گا اور نفرت سے نوازا جائے گا، اور نتیجتا میں اپنے فریضےسے ہی محروم ہوجاؤں گی۔ یہ سوچ کر، مجھے خوف محسوس ہوا، لہٰذا میں نے فوراً خدا سے دعا کرکے عمل کا راستہ تلاش کرنے اوریہ کہنے کے لیے اس کی راہنمائی طلب کی کہ میں توبہ کرنا چاہتی ہوں۔
میں خدا کے کلا م کا یہ حوالہ پڑھتی ہوں: ”لوگوں کو اپنے فرائض کیسے سمجھنے چاہئیں؟ کسی ایس ذمہ داری جو خالق – خدا – کی جانب سے انھیں دی جاتی ہے؛ اسی طرح لوگوں کے فرائض ملتے ہیں۔ وہ ماموریت جو خدا کی جانب سے تجھے دی جاتی ہے، وہ تیرا فرض ہے، اور یہ آسمان کی طرف سے سونپا گیا ہے اور زمین یہ تسلیم کرتی ہے کہ تو اپنا فرض ویسے انجام دیتا ہے جیسے خدا چاہتا ہے۔ اگر تو دیکھ سکتا ہے کہ تو خدا کی طرف سے ماموریت وصول کر رہا ہے، تو یہ خدا کی محبت اور اس کی نعمتیں تجھ پر نازل ہو رہی ہیں، تو تو اپنا فرض خداسے محبت کرنے والے دل کے ساتھ قبول کر پائے گا، اور تب تو اپنا فرض انجام دیتے وقت خدا کی مرضی کا خیال رکھ پائے گا، اور تو خدا کو مطمئن کرنے کے لیے تمام مشکلات پر قابو پا سکے گا۔ وہ لوگ جو واقعی خود کو خدا کے لیے صرف کرتے ہیں، وہ خدا کی طرف سے ماموریت سے کبھی انکار نہیں کرتے، وہ کسی بھی فرض سے منہ نہیں موڑتے۔ خدا نے چاہے تمہیں جو بھی فرض سونپے ہوں، خواہ اس میں جتنی بھی مشکلات درپیش ہوں، تجھے اسے ٹھکرانا نہیں چاہیے، بلکہ اسے قبول کرنا چاہیے۔ یہ عمل کا راستہ ہے، جو خدا کو مطمئن کرنے کے لیے، تمام چیزوں میں سچائی پرعمل اور ہر شے میں اپنی عقیدت کے مطابق جینا ہے۔ اس میں مرکزی نکتہ کہاں ہے؟ یہ ’ہر شے میں‘ ہے۔ ’ہر شے‘ سے مراد ضروری نہیں کہ وہ چیزیں ہوں جو تجھے پسند ہیں یا جو تو بہتر کر سکتا ہے، بلکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے تو کم واقف ہے۔ بعض اوقات تو کچھ چیزیں بہتر طور پر نہیں کر سکتا، بعض اوقات تجھے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، بعض اوقات تجھے مشکلات کا سامنا ہوگا، اور بعض اوقات تجھے لازماً تکلیف بھی اٹھانی ہوگی۔ تاہم، اس سے قطع نظر کہ کام کیا ہے، اگر تجھے خدا کی طرف سے اس پر مامور کیا گیا ہے، تو تجھ پر لازم ہے کہ تو اس کی طرف اسے قبول کر، وہ فرض قبول کرنا اور اسے بطریق احسن پورا کرنا، اس طرح کہ وہ تیری عقیدت کے معیار پر پورا اترے اور خدا کی مرضی کے مطابق ہو، یہی عمل کی راہ ہے“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ تیسرا حصہ)۔ خدا کے اس کلام پر غور وفکر کرنے کے بعد، میں بہت متاثر ہوئی۔ میرا فربضج میری ذمہ داری اور عہد تھا۔ اور قطع نظر اس کے کہ میں اس میں مہارت رکھتی تھی، یا یہ سادہ تھا یا پیچیدہ، یہ خدا کی طرف سے آیا تھا، لہٰذا مجھے ذمہ دار ہونا چاہیے تھا، میرے لیے جتنا ممکن تھا وفادار ی لازم تھی۔ میں نے صرف ایک بارپنی پوری کوشش کی اور اپنی ذمہ داری پوری کی تو مجھے خدا کی رحمتیں حاصل ہوں گی۔ میں نے ان تمام اوقات کے بارے میں سوچا جب میں نے خدا کے سامنے قسم کھائی تھی کہ میں اس کی محبت کا بدلہ چُکانے کے لیے اپنے فرائض وفاداری سے انجام دوں گی۔ اب جب کہ میرا فریضہ قدرے پیچیدہ اور مشکل تھا، اور مجھے تکلیف برداشت کرنی اور قیمت چُکانی پڑی تھی، میں پراگندہ ہو گئی اور اس سے بچنے کی کوشش کی۔ جب مجھے یہ ادراک ہوا، مجھے احسا س ہوا کہ میں خدا کی مقروض ہوں اور اس کی محبت سے لطف اندوز ہونے کے لائق نہیں ہوں۔ میں اس طرح نہیں چل سکتی تھی، مجھے اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرنا تھا، مستقبل میں پچھتاوے سے بچنے کے لیے اپنے فرائض کو خلوص سے نبھانا، اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا تھا۔
لہذا، میں نے اس کام کو دیکھنا اور اس سے واقف ہونا شروع کیا جس نے ایک بار مجھے الجھا دیا تھا، اور میں نے کچھ پیچیدہ مسائل سے بچنے کی مزیدکوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے، میں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا اور مشاورت کی۔ اور مجھے وہ سکھانے کی درخواست کی جو میں نہیں جانتی تھی۔ بالآخر میں نے تفصیلات پر عبور حاصل کرنا شروع کردیا، اورپھر دوسروں کو مشکلات کا سامنا کرنے پر حل فراہم کرنے کے قابل تھی۔ جب میں نےاپنے کام کا خلاصہ کیا تو پہلےپہل میرے پاس نئے تصورات نہیں تھے اورمیں اس سے بچنا چاہتی تھی، لیکن مجھے یاد آیا کہ میں نے خدا کے کلام میں کیاپڑھا تھا، اس لیے میں نے شعوری طور پر اپنے جسم کو ترک کیا، اپنے فریضے کے مسائل کے بارے میں سوچا، اور اصولوں کی طلب نیز معلومات ڈھونڈنے کے لیے کام کیا، کچھ عرصہ اس طرح مشق کرنے کے بعد، میں نے واضح طور پر خدا کی رحمت اور راہنمائی محسوس کی۔ میں نے ان چیزوں پر عبور حاصل کرنا شروع کر دیا جو مجھے سمجھ نہیں آتی تھیں یا جومجھے الجھن میں ڈال دیتی تھیں، اور میرے کام کے خلاصوں نے کچھ نتائج حاصل کرلیے۔ میرے بھائیوں اور بہنوں نے میرے کیے ہوئے خلاصوں پر عمل کیا اور ترقی بھی کی۔
میں نے سوچا کہ میرے فریضے کے بارے میں میرا رویہ تھوڑا بدل گیا ہے، لیکن جب اسی طرح کی صورت حال مجھے درپیش ہوئی، تو میں اپنے پرانے طریقوں میں پڑ گئی۔
ستمبر 2021 میں، کام کی ضروریات کے سبب، میں نے نئے آنے والوں کو سیراب کرنے کے لیے بہن روزی کے ساتھ شراکت کی۔ میں نے سوچا کہ اس فریضے میں تکنیکی مسائل نہیں ہوں گے، لہٰذا دردسر کم ہو گا، لیکن جب میں نے یہ کرنا شروع کیا، تو مجھے معلوم ہوا کہ نئے آنے والوں کو اچھے طریقے سے سیراب کرنا آسان نہ تھا۔ مجھے نہ صرف انگریزی میں بات چیت کرنی تھی، بلکہ ان کے تصورات اور الجھنیں تیزی سے دور کرنے کے لیے سچائی پر رفاقت بھی کرنا پڑتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ روزی کام کے تمام پہلوؤں میں بہت ماہر تھیں۔ وہ نئے آنے والوں کے مسائل حل لیے فوری طور پر متعلقہ سچائی ڈھونڈ نکالتی تھی، لیکن میں اس میں بہت بری تھی۔ میں اکثر سچائی پر ان سے واضح طور پررفاقت یا مسائل کا حل نہیں کر سکتی تھی۔ روزی کے درجے تک پہنچنے کے لیے، مجھے ایک طویل عرصے تک مطالعہ کرنے اور اپنے آپ کو لیس کرنے کی ضرورت ہوگی اور ایک قابل ذکر قیمت چُکانی ہوگی۔ میں نے سوچا، ”چھوڑو، روزی اب میری شراکت دار ہے، لہذا مجھے اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس خیال کے باعث، میں نے سچائی ڈھونڈنے میں زیادہ دل چسپی نہیں لی، اور نشستوں کے بعد، میں نے نئے آنے والوں سے ان کے مسائل کے بارے میں فعال طور پر نہیں پوچھا۔ ایک دن، میں نے سوچا کہ میں دو مہینے سے یہ فریضہ انجام دے رہی ہوں، پھر بھی میں کسی نئے آنے والے کو تنہا سیراب نہیں کرسکتی۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ میں سمجھ نہیں پائی، لیکن میں نے کوئی قیمت چُکانے کی کوشش نہ کی۔ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی تھی کہ اپنے آپ سےپوچھوں، ”ایسا کیوں ہے کہ مجھے جیسے ہی کوئی فریضہ ملتا ہے، جس میں مجھے مہارت نہیں ہوتی، میں نہ جانے کس طرح لاعلمی کوبہانے کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔ فریضہ میں گڑبڑ کرتی ہوں، اور کوئی قیمت چُکانا نہیں چاہتی؟“ میں نے خدا کے سامنے اپنی حالت اور اپنی الجھنیں پیش کیں اور دعا کی۔
ایک دن، اپنی عبادات کے دوران، مجھے خدا کے کلام کے یہ دو حصے نظر آئے: ”فرض کی انجام دہی کے وقت، لوگ ہمیشہ ہلکا کام چنتے ہیں، جو تمہیں جلتی دھوپ اور بارش سے بچائیں۔ اسے کہتے ہیں آسان کام چننا اور مشکل کام کو چھوڑ دینا اور یہ جسمانی آسائشوں کی لالچ کا مظہر ہے۔ اور کیا؟ (جب بھی ان کا فرض ذرا مشکل، ذرا تھکا دینے والا ہوتا ہے، جب بھی اس میں قیمت ادا کرنی ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ شکایت کرتے ہیں۔) (غذا اور لباس میں محو اور مادی لذتوں میں مشغول رہنا۔) یہ تمام جسمانی آسائشوں کی خواہش کے مظہر ہیں۔ جب ایسا شخص دیکھے کہ کوئی کام بہت محنت طلب یا پرخطر ہے، وہ اسے کسی اور پر ٹال دیتا ہے؛ وہ خود صرف آرام والا کام کرتا ہے اور بہانے بناتے ہیں کہ وہ یہ کام کیوں نہیں کر سکتے یہ کہتے ہوئے کہ ان کی صلاحت ناقص اور ان کے پاس مطلوبہ مہارت نہیں ہے، اس کام کو نہ کر سکنے کے بہانے تلاش کرتا ہے – جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ مادی آسائشوں کی لالچ ہے۔ ۔۔۔ یہ تب بھی ہوتا ہے جب لوگ اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران ہمیشہ شکایت کرتے ہیں، جب وہ کوئی کوشش کرنا نہیں چاہتے، جب ذرا سا کام کا بوجھ کم ہوتے ہی، آرام کرنے لگتے ہیں، بات چیت اور گپ شپ میں لگ جاتے ہیںاور جب کام زیادہ ہوتا ہے اور وہ ان کے آہنگ اور ان کی زندگی کے شب و روز کو متاثر کرتا ہے تو وہ اس سے ناخوش ہوتے ہیں۔ وہ بڑبڑاتے اور شکایت کرتے ہیں اور وہ مطمئن نہیں ہوتے اور وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں لاپروائی اور غفلت برتتے ہیں۔ یہ مادی آرام کی لالچ ہے، کیا نہیں ہے؟ ۔۔۔ کیا وہ لوگ جو مادی آرام کی لالچ کرتے ہیں فرض کی انجام دہی کے لائق ہیں؟ اپنے فرض کی انجام دہی کا موضوع سامنے لاتے ہیں، قیمت ادا کرنے اور مشکلات جھیلنے کی بات کرتے ہیں اور وہ لوگ سر ہلاتے رہتے ہیں: ان کے پاس کتنے مسائل ہوتے ہیں، وہ شکایتوں سے بھرے ہوتے ہیں، وہ ہر چیز کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کام کے نہیں ہیں، وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے حقدار نہیں ہیں، اور انھیں نکال دیا جانا چاہیے“ (کلام، جلد 5۔ راہنماﺆں اور کارکنان کی ذمہ داریاں)۔ ”کچھ جھوٹے راہنماؤں میں صلاحیت کم ہوتی ہے لیکن وہ عملی کام نہیں کرتے ہیں اور ان میں جسمانی آسائشوں کی خواہش ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو مادی آسائشوں کے لالچی ہیں وہ سوروں سے مختلف نہیں ہیں۔ سور اپنا دن سو کر اور کھا کر گزارتے ہیں۔ وہ کچھ نہیں کرتے۔ انھیں پورے سال کھلانا مشکل کام ہے لیکن سال کے آخر میں جب پورا خاندان ان کا گوشت کھاتا ہے تو اسے ان کی خدمت کہا جا سکتا ہے۔ اگر ایک جھوٹے راہنما کو سور کی طرح رکھا جائے، ہر روز تین وقت کھلایا اور پلایا جائے، اسے طاقتور اور فربہ بنایا جائے لیکن وہ کوئی عملی کام نہ کرے اور نکما ہو تو اسے رکھنا فضول نہیں ہے؟ کیا اس کا کوئی استعمال ہوا؟ ان کا کام صرف خدا کے کام کا موازنہ کرنا ہے اور انھیں نکال دینا چاہیے۔ واقعی، ایک جھوٹا راہنما رکھنے سے بہتر ایک سور پالنا ہے۔ جھوٹے راہنما کا عنوان ’راہنما‘ ہو سکتا ہے، ممکن ہے وہ اس عہدے پر ہو اور دن میں تین وقت اچھی طرح کھاتا ہو اور خدا کے فضل سے لطف اندوز ہوتا ہو اور سال کے آخر میں، وہ سب خوب کھا کر موٹے ہو گئے ہوں – لیکن کام کیسا ہوا؟ ان تمام کاموں کو دیکھ جو تیرے ذریعے اس سال پورے ہوئے ہیں: کیا تجھے اس سال کام کے کسی شعبے میں نتائج نظر آئے ہیں؟ تو نے کون سا عملی کام کیا ہے؟ خدا کا گھر تجھ سے مطالبہ نہیں کرتا کہ تو ہر کام کمال مہارت کے ساتھ کر بلکہ تجھے کلیدی کام بہتر طور پر کرنا چاہیے – مثلاً خوشخبری کا کام، یا AV کا کام، متن پر مبنی کام، اور اسی طرح کے دوسرے کام۔ ان سب کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ عام حالات میں، ایک اثر – ایک نتیجہ – پانچ ماہ کے بعد دیکھا جا سکتا ہے؛ اگر ایک سال بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں ہے تو پھر یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایک سال بعد، یہ دیکھ کہ تیری ذمہ داری کے دائرے میں کون سا کام کامیاب ترین رہا ہے، جس میں تو نے سب سے بڑی قیمت ادا کی ہے اور سب سے زیادہ پریشان ہوا ہے۔ اپنی کامیابیوں کو دیکھ: اپنے دل میں، تجھے کچھ اندازہ ہونا چاہیے کہ خدا کے فضل سے لطف اندوز ہونے کے اس سال میں آیا تجھے کچھ قابل قدر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں یا نہیں۔ ان تمام اوقات میں تو کیا کرتا رہا تھا جب تو نے خدا کے گھر کا کھانا کھایا اور خدا کے فضل سے لطف اندوز ہوا؟ کیا تو نے کچھ حاصل کیا؟ اگر تو نے کچھ حاصل نہیں کیا، تو پھر تو ایک مفت خورہ ہے، ایک حقیقی جھوٹا راہنما“ (کلام، جلد 5۔ راہنماﺆں اور کارکنان کی ذمہ داریاں)۔ جب میں نے خدا کے اس کلام پر غور کیا تو مجھے ایسا لگا جیسے اس نے میرے دل کو چھلنی کر دیا ہے۔ صرف تب ہی میں سمجھی کہ میں اپنے فریضے میں ہمیشہ مشکل سے پیچھے ہٹ جاتی ہوں اور نہ سمجھنے اور نہ جاننے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔ کیونکہ میں بہت کاہل تھی اور مجھے جسمانی سکون کی بہت زیادہ طلب تھی۔ ماضی میں، جب میں اینڈریا کے ساتھ نگران تھی، میں ہمیشہ اپنے لیے سادہ اور آسان کام اپنے لیے چن لیتی تھی اور کوئی بھی ایسی چیز اسے دے دیتی تھی جس میں مجھے مہارت نہ ہوتی یا وہ احتیاط سے غور وفکر کا تقاضا کرتی۔ روزی کے ساتھ نئے آنے والوں کی سیرابی میں، میں اب بھی فکر کرنا، سہنا یا کوئی قیمت چُکانا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے غور کیا کہ میں اس طرح کا برتاؤ کیوں کرتی ہوں، اور محسوس کیا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مجھ پر شیطانی فلسفوں کا تسلط تھا۔ ”ہر آدمی اپنے لیے (سوچتاہے) اور شیطان سب سے پیچھے ہوتا ہے“ جیسی چیزیں اور ”آج کا مزا لو، کیونکہ زندگی مختصر ہے“ میرے دل کی گہرائیوں میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا تھا کہ لوگوں کو اپنے لیے جینا پڑتا ہے، اور جب ہمیں جسمانی سکون ملتا ہے اور کوئی فکر نہیں ہوتی، تو ہم اس طرح جی رہے ہوتے ہیں، جیسے ہمیں جینا چاہیے۔ جب میں اپنا فریضہ ادا کرنے کے لیے چرچ آئی، تب بھی میں نے یہی نظریہ رکھا، اور جب مشکلات آتیں یا ایسی چیزیں جن میں، میں اچھی نہیں تھی، جب مجھے تکلیف اٹھانی پڑییا قیمت چکانی پڑی تو میں بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹ گئی اور اپنے جسمانی سکون کو فوقیت دی۔ خنزیر کے پاس نہ کوئی سوچ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کچھ کرتے ہیں، وہ صرف کھانا پینا اور سونا جانتے ہیں۔ میں بھی ایسی ہی تھی، مجھے صرف اپنے جسمانی سکون کی فکر تھی۔ میں ایسی بے ہودہ زندگی گزار رہی تھی! ماضی میں بطور نگران، اور اب سیرابی کے دوران خدا نے مجھے اتنا سرفراز کیا تھا، لیکن میں پیشرفت کی کوشش نہ کی اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض پر ذرا بھی غور کیا۔ میں چرچ کے کام اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں کے بارے میں غیر ذمہ دار تھی۔ مجھ میں ذرہ بھر بھی ضمیر نہیں تھا! میں واضح طور پر نقصان اٹھانا یا کوئی قیمت چُکانا نہیں چاہتی تھی، لیکن میں نے ہمیشہ ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نہ سمجھنے یا نہ جاننے کا بہانہ کیا تاکہ دوسرے سوچیں کہ میں اپنی خامیوں کا اعتراف کرسکتی ہوں، تاکہ وہ مجھے ایک سمجھ دار اور دیانت دارکے طور پر دیکھیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے یہ الفاظ اپنی کاہلی اور غیر ذمہ داری چھپانے کے لیے استعمال کیے تھے میں اتنی مکاراور فریبی تھی کہ میں نے اپنے سب بھائیوں اور بہنوں کو بے وقوف بنایا تھا۔ اگرچہ میں انھیں تھوڑے عرصے کے لیے بے وقوف بنا سکتی تھی، خدا سب کچھ دیکھتا ہے، اور خدا راست باز ہے۔ میں فریبی تھی، تو خدا کیسے مجھ سے نفرت نہ کرتا؟ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں اپنے فرائض میں مجھےکبھی خدا کی رحمتیں یا راہنمائی دکھائی نہ دی۔ جب مسائل آپ کو ہمیشہ تذبذب کا شکار کریں اور آپ کی پیشرفت یقینی نہ ہو، یہ خطرے کی علامات ہیں!
اس کے بعد میں نے خدا کے کلام کا ایک اور حصہ پڑھا۔ ”خدا نے جب سے نوح کو کشتی کی تعمیر کا کام سونپا تھا، نوح کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ، ’خدا دنیا کو کب تباہ کرنے والا ہے؟ وہ مجھے ایسا کرنے کا اشارہ کب کرے گا؟‘ ان معاملات پر فکر کرنے کے بجائے، نوح نے خدا کے ذریعہ بتائی گئی ہر چیز کو یاد کرنے کی اور پھر ہر ایک کو انجام دینے کی پوری کوشش کی۔ خدا کے ذریعے نوح کو سونپا گیا کام قبول کرنے کے بعد، نوح نے بلا تاخیر خدا کے ذریعہ بتائی گئی کشتی کی تعمیر و تکمیل کا کام اس طرح شروع کیا جیسے یہ اس کی زندگی کی سب سے اہم چیز تھی۔ دن گزرے، سال گزرے، دن کے بعد دن، سال کے بعد سال۔ خدا نے نوح پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا، نوح اُس اہم کام میں ثابت قدم رہا جو خُدا نے اُسے سونپا تھا۔ خدا کے ذریعے بیان کردہ ہر لفظ اور عبارت نوح کے دل پر پتھر کی تختی پر کندہ الفاظ کی طرح نقش تھی۔ باہر کی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے، اپنے اردگرد کے لوگوں کے ذریعے مذاق اڑانے سے، اس میں شامل مشکلات سے، یا اسے پیش آنے والی مشکلات سے بے فکر، اس نے اسے کرنے کی پوری کوشش کی جو خدا نے اسے سونپا تھا، وہ کبھی مایوس نہیں ہوا اور نہ کبھی اس کام کو چھوڑنے کے بارے میں سوچا۔ خدا کا کلام نوح کے دل پر کندہ ہو گیا تھا اور وہ اس کی روزمرہ کی سچائی بن گئے۔ نوح نے ان تمام چیزوں کو تلاش اور ذخیرہ کیا جن کی ضرورت کشتی کی تعمیر کے لیے تھی اور کشتی کی شکل و صورت رفتہ رفتہ نوح کے ہتھوڑے اور چھینی کے ہر محتاط وار سے وہی شکل اختیار کر گئی جس کا خدا نے حکم دیا تھا۔ آندھی اور بارش میں اس بات سے بے پروا کہ لوگ کس طرح اس کا مذاق اڑاتے ہیں، نوح کی زندگی سال بہ سال اسی شکل میں آگے بڑھتی رہی۔ خدا نے خفیہ طور پر نوح کے ہر عمل کو دیکھا، اسے کچھ اور کہے بغیر اور نوح نے اس کے دل کو چھو لیا۔ تاہم، نوح کو نہ تو اس کی خبر تھی اور نہ ہی اس نے یہ محسوس کیا؛ آغاز سے انجام تک، خدا کے کلام کے لیے اپنی غیر متزلزل فرمانبرداری کے ساتھ، اس نے بس کشتی تعمیر کی اور ہر قسم کی جاندار مخلوق کو جمع کیا۔ نوح کے دل میں، اس سے اعلی کوئی ہدایت نہیں تھی جس کی اسے پیروی کرنی تھی اور جس پر عمل پیرا ہونا تھا: کلام خدا ہی اس کی ساری زندگی کی سمت اور ہدف تھا۔ اس لیے، خواہ خدا نے اس سے کچھ بھی کہا ہو، خواہ خدا نے اس سے کچھ بھی کرنے کو کہا ہو، جو بھی کرنے کا حکم دیا ہو، نوح نے اسے مکمل طور پر قبول کیا اور اسے اپنے یادداشت میں نقش کر لیا اور اسے اپنی زندگی کے جد و جہد کے طور پر لیا۔ وہ نہ صرف یہ کہ اسے بھولا نہیں، نہ صرف یہ کہ اس نے اسے اپنے دماغ میں نقش کر لیا بلکہ اپنے زندگی کو خدا کے حکم کو قبول کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا اس نے اسے اپنی زندگی کی حقیقت بنا لیا اور اس طرح تختہ در تختہ، کشتی کی تعمیر ہوئی۔ نوح کا ہر قدم، اس کا ہر دن، خدا کے کلام اور احکام کے لیے وقف تھا۔ ممکن ہے ایسا نہ لگے کہ نوح کوئی اہم کارنامہ انجام دے رہا تھا لیکن خدا کی نظر میں، نوح نے جو کچھ کیا، یہاں تک کہ اس کا ہر قدم جو اس نے کچھ حاصل کرنے کے لیے اٹھایا، ہر محنت جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کی، وہ سب انمول تھے اور یاد رکھے جانے لائق تھے اور اس بنی نوع انسان کے لیے لائق تقلید تھے۔ نوح نے اُس پر عمل کیا جو اُسے خدا نے سونپا تھا۔ وہ اپنے اعتقاد میں راسخ تھا کہ خدا کا ہر لفظ سچا ہے؛ اسے اس میں کوئی شک نہیں تھا اور نتیجے کے طور پر، کشتی مکمل ہوئی، اور ہر قسم کی جاندار مخلوقات اس پر رہنے کے قابل تھیں“ (کلام، جلد 4۔ مسیح کے مخالفوں کو بے نقاب کرنا۔ ضمیمہ دوم: نوح اور ابرہام نے خدا کا کلام کیسے سنا اور کیسے اس کی اطاعت کی (حصہ اول))۔ میں نے جیسے جیسے خدا کے کلام پر غور کیا، میں بے حد متاثر ہوتی گئی۔ نوح خدا کا اطاعت گزار اوراس کے بارے میں بامروت تھا۔ جب خدا نے نوح کو ایک کشتی بنانے کو کہا، نوح نے اس فریضے کی قدر کی اور اس کے تقاضوں کی تعمیل کی وہ ابتدا میں نہیں جانتا تھا کہ کشتی کیسے بنائی جاتی ہے، اور اسے بنانا بہت زیادہ مشکل تھا۔ ہر مرحلے پر اسے مشکل برداشت کرنی پڑی اور ایک قیمت چُکانی پڑی لیکن نوح خداکے فرمان سے وفادارتھا۔ خدا کے فرمان کی تکمیل کے لیے، اس نے تکلیف سہی، قیمت چُکائی، ایک ایک میخ سے کشتی بنائی۔ نوح 120 سال تک ثابت قدم رہا اور بالآخر خدا کے فرمان کی تکمیل کی۔ اگرچہ نوح کو کشتی بنانے میں بہت تکلیف سہنی پڑی اور جسمانی راحت سے لطف اندوز نہیںہوا، اس نے خدا کے فرمان پر عمل کیا، اسے مطمئن کیا، اس کی قبولیت سے سرفراز ہوا۔ نوح سے موازنے میں، میں نے دیکھا مجھ میں انسانیت نہیں ہے۔ میں نے اپنے فریضے کی قدر نہیں کی، میں وفادار نہیں تھی، میں کاہل اور مکار تھی، مجھے صرف جسمانی راحت کی طلب تھی اور تکلیف برداشت کرنے کے لیے قطعاً آمادہ نہ تھی۔ میں انسان کہلانے کے لائق نہیں تھی۔ میں واقعی قابل حقارت تھی! اگر میں اسی طرح چلتی رہتی اور تبدیل نہ ہوتی، آخر کارمیں اپنے فریضے سے محروم ہوجاتی، جس پر میں اپنی باقی تمام عمر پچھتاتی رہتی۔
بعد کے دنوں میں، میں نے اپنے وقت کو مرتب کیا، اور آنے والے ہر دن نئے آنے والوں کو سیراب کرنے کےلیے خود کو سچائیوں سے لیس کیا۔ ایک روز ایک نشست میں، بھائیو ں اور بہنوں نے سیرابی کے کام میں ایک مسئلہ اٹھایا، اور جب میں نے کچھ سنا تو میری سمجھ میں نہیں آیا، میں اس سے بچنا چاہتی تھی۔ میں نے سوچا کہ انھیں خود حل کرنے دوں۔ لیکن اس مرتبہ، مجھے ادراک تھا کہ میں جیسے تیسے گزرنا چاہتی ہوں اور ذمہ داری نہیں لینا چاہتی۔ میں نے فرمان کے حوالے سے نوح کے سنجیدہ اور ذمہ دارانہ طرز عمل کے بارے میں سوچا، اور پھر میں نے سوچ سمجھ کر اپنی غلط حالت درست کی۔ میں نے توجہ سے سنا کہ انھوں نے مسئلہ حل کرنے کے لیے سچ کے بارےمیں کیسے بحث کی، اور جب انھوں نے خلاصہ کیا، میں نے انھیں اپنا مشورہ دیا۔ جب انھوں نے کہا کہ میرا مشورہ اچھا تھا، تب مجھے حیرت ہوئی۔ جب میں نے روزی کے ساتھ مل کر نئے آنے والوں کو سیراب کیا، میں نے نئے آنے والوں کی عملی مشکلات حل کرنے کی مشق کی، اور اگر کچھ ایسےمسائل ہوتے، جنھیں میں حل نہ کرپاتی، میں فوراً مدد طلب کرتی۔ کچھ عرصے کے بعد، میں نئے آنے والوں کو آزادانہ بھی سیراب کرسکتی تھی۔ خدا کا شکر ہے! جہاں مجھ میں اب بہت سی خامیاں اور نقائص ہیں، میں خود کو نمو پاتی اور حاصل کرتی محسوس کرسکتی ہوں، اور اب میں زیادہ راحت محسوس کرتی ہوں۔ جو آگہی اور فوائد مجھے حاصل ہوئے ہیں، کلی طور پر خدا کے کلام کا اثر ہیں۔ خدا کا شکر ہے!
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟