شیطان کے امتحان کے درمیان ایک فتح
میرا نام داؤد ہے، اور میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ میں بچپن سے ہی اپنے والدین کے ساتھ خداوند پر ایمان رکھتا تھا۔ بڑے ہوکر، میں نے بطور یوتھ فیلوشپ سکریٹری اور پادری کے ترجمان کے طور پرخدمات سرانجام دیں۔ میں نے گائیک طائفے اور دیگر مختلف قسم کے انتظامی کاموں میں بھی حصہ لیا۔ لیکن بعد میں مجھے محسوس ہوا کہ یوں تو ہماری کلیسیا واقعی متحرک دکھائی دیتی ہے، لیکن ہر شخص روحانی طور پر بنجر تھا۔ پادری اور بزرگوں کے وعظ کھوکھلے تھے اور ان میں نئی آگہی کی کمی تھی اور کسی کو بھی روحانی غذا نہیں مل رہی تھی۔ بہت سے لوگ ایمان کھو بیٹھے تھے اور وہ وعظ کے دوران صرف سر ہلاتے رہتے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ کلیسیا میں فروخت کا سامان لے آتے اور لادینی معاملات پر باتیں کرتے۔ میں نے دیکھا کہ کلیسیا میں حاصل کرنے کے لیے کوئی حقیقی روحانی غذا نہیں تھی۔ میں صرف اتنا کر سکتا تھا کہ مسیحی ویڈیوز آن لائن تلاش کروں۔
جنوری 2019 ء میں، میں ہمیشہ کی طرح یوٹیوب پر ویڈیوز براؤز کر رہا تھا۔ جب میں نےقادر مطلق خدا کی کلیسیا کی طرف سے ایک فلم، تڑپ کا ایک کلپ دیکھا، جس کا نام کچھ اس طرح ہے ”تو اس طرح خداوند لوٹے گا۔“ میں بہت پُرجوش تھا: کیا یہ ویڈیو یہ بتا رہی تھی کہ خداوند یسوع واپس آچکا ہے؟ میں نے فوراً اس پر کلک کیا۔ مجھے اس ویڈیو سے پتہ چلا کہ خُداوند یسوع کے پاس آخری ایام میں واپسی کے دو راستے ہیں۔ پہلا، وہ بطور ابن آدم جسم بن جائے اور خفیہ طور پر آجائے ہے، اور پھر وہ سرِ عام ایک بادل پر ظاہر ہو، جو ہر ایک کو دکھائی دے۔ ویڈیو نے اس بات کی گواہی بھی دی کہ خداوند یسوع پہلے ہی واپس آ چکا ہے، کہ وہ قادر مطلق خدا کے طور پر مجسم ہوچکا ہے۔ میں خداوند کی واپسی کا سن کر بہت خوش تھا، اور بہت متجسس بھی۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کی رفاقت واقعی آگہی بخش تھی اور میں اس بارے مزید کھوج لگانا چاہتا تھا۔ اس کے بعد میں نے کچھ اور فلمیں دیکھیں، جیسا کہ خدا پر ایمان، نجات، مہلک جہالت، اور پھندے سے رہائی۔ مجھے لگا کہ واقعی میری آنکھیں کھل گئیں ہیں۔ قادر مطلق خدا کی کلیسیا کی یہ فلمیں دیکھ کر، مجھے پتہ چل گیا کہ ہماری کلیسیا اتنی ویران کیوں تھی۔ اور مجھے سچائی کے بہت سے پہلو سیکھنے کا پتہ چلا جیسا کہ، سچا ایمان کیا ہے، کس قسم کا شخص آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتا ہے، اور یہ کہ آخری ایام میں قادر مطلق خدا اپنے کلام کی عدالت کے ذریعے انسان کو پاک کرتا اور نجات دیتا ہے۔ یہ سب وہ اسرار اور سچائیاں تھیں جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں، یہ واقعی میرے لیے باعث تقویت تھیں۔ مجھے فلمیں بہت پسند آئیں – انھوں نے میری بہت مدد کی۔ ان فلموں میں میں نے دیکھا کہ وہ کتاب کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے پڑھ رہے ہیں، لہٰذا میں نے اسے آن لائن تلاش کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں مجھے قادر مطلق خدا کی کلیسیا کی ایک ایپ ملی، اسے ڈاؤن لوڈ کیا، پھر قادرِ مطلق خدا کا بہت سا کلام پڑھا۔ خدا کے کلام میں ایسی حاکمیت ہے، کہ میں اسے جتنا زیادہ پڑھتا ہوں مجھے اتنا ہی زیادہ لگتا ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے، کہ یہ واقعی خدا کی آواز ہے اور بلا شبہ سچائی کا اظہار ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی، اور فوراً ایپ کے ذریعے قادر مطلق خدا کی کلیسیا سے رابطہ کیا۔ چند دنوں میں اجتماعات میں خدا قادر مطلق کا کلام پڑھنے اور بھائیوں اور بہنوں کی رفاقت اور گواہی سننے سے، مجھے یقین ہو گیا کہ خداوند یسوع واپس آ چکا ہے، اور قادر مطلق خدا کی واپسی خداوند یسوع کی واپسی ہے۔ خداوند واقعی واپس آ چکا ہے! میں بہت مسرور اور انتہائی پُر جوش تھا، میں نے محسوس کیا کہ میں بہت مبارک ہوں۔ اس لمحے میری صرف یہی خواہش تھی، کہ میں ہر جگہ اس کی واپسی کا اعلان کروں تاکہ تمام ایمان والوں کو اس حیرت انگیز خبر کی اطلاع ہو سکے۔ مجھے اپنی کلیسیا کے وہ پادری یاد آئے جو اکثر ہمیں خداوند کی واپسی پر نظر رکھنے اور انتظار کرنے کا کہتے تھے۔ میں نے سوچا کہ انہیں یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ خداوند یسوع واپس آ چکا ہے۔ میں دوڑ کر انہیں یہ خوشخبری سنانا چاہتا تھا تاکہ وہ خُداوند کی آواز سن سکیں اور فوراً اُس کا استقبال کر سکیں۔ میں نے سب سے پہلے اپنے کلیسیا میں پادری گلبرٹ اور بزرگ رومین کے بارے میں سوچا۔ انہوں نے کلیسیا میں خداوند کے لیے واقعی بہت محنت کی، اور وہ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ گرم جوش، ان سے محبت اور تحمل کا برتاؤکرنے والے تھے، وہ ان کی بہت زیادہ مدد کرتے تھے۔ خاص طور پر پادری گلبرٹ نے ایک بائبل کالج میں جانے اور پادری بننےکے لیے اپنا دنیاوی کام چھوڑدیا تھا۔ میں نے سوچا چونکہ وہ اچھے مبلغ ہیں، لہٰذا ان میں خدا کا کام قبول کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ میں نے سب سے پہلے بزرگ رومین کو خُداوند کی واپسی کی خوشخبری سنائی۔
اس دن، ہم نے ایک ساتھ مل کر قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا کی طرف سے خوشخبری کی ایک فلم دیکھی اور میں نے اسے گواہی دی کہ خداوند یسوع واپس آچکا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ مجھ سے بہت سارے سوالات پوچھے گا، لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس نے کچھ نہیں کہا، بلکہ سرد مہری دکھائی۔ وہ اس بارے میں جستجو یا بات کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا تھا۔ مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ مجھ سے وضاحت کرنے میں کوتاہی تو نہیں ہوئی، لہٰذا میں نے اس سے کہا کہ وہ قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا کی ایپ انسٹال کرے تاکہ وہ خود اسے دیکھ سکے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ قادرِ مطلق خدا کی ز کلیسا کی تقاریب میں شرکت کے لیے اسے بار بار دعوت دینے کے بعد، وہ با دلِ ناخواستہ راضی ہوگیا۔ لیکن وہ محض نیم دلی سے ایک آن لائن اجتماع میں شریک ہوا اور پھر کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ وہ پھر کبھی کسی اور اجتماع میں شریک نہیں ہوا۔ اس کے بعد رومین جان بوجھ کر مجھ سے کترانے لگا اور پھر وہ میرے گھر کے پاس سے کبھی نہیں گزرا۔ میں اس کے اس رویے سے تھوڑا سا حیران تھا۔ ماضی میں ہم آپس میں بہت اچھی شناسائی تھی، تو پھر جیسے ہی میں نے اسے بتایا کہ خداوند واپس آ چکا ہے وہ مجھ سے اتنا دور کیوں ہو گیا؟ اپنے وعظوں میں وہ ہمیشہ ہمیں خداوند کی آمد پر نظر رکھنے اور انتظار کرنے کہتا تھا۔ اب جب خداوند یسوع واپس آ چکا ہے تو وہ جستجو اور تحقیق کیوں نہیں کرتا؟ اس سے پہلے کہ مجھے ان چیزوں کی سمجھ آتی کچھ ایسا ہوگیا جس کی مجھے توقع نہیں تھی۔
کچھ دنوں بعد، پادری گلبرٹ نے اچانک مجھے اپنے دفتر بلایا۔ میں تھوڑا سا محتاط ہوگیا۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا، پادری گلبرٹ نے مجھ سے پوچھا، ”داؤد، ایسا لگتا ہے کہ تمہیں کچھ دوست مل گئے ہیں جن کے ساتھ تم آن لائن بات چیت کرتے ہو۔ یہ بہت دل چسپ بات ہے۔ وہ کون ہیں؟ اور کس کلیسیا سے ان کا تعلق ہے؟“ چونکہ اس کا رویہ گرم جوشی لیے ہوئے تھا، میں نے سوچا کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لینا چاہتا ہے، تو میں نے اسے بتایا کہ وہ قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا ہے۔ اس نے کلیسیا کا نام لکھا اور مجھے فخریہ انداز میں کہا، ”میں ان سے مل چکا ہوں، ہمیں ان کی بات نہیں سننی چاہیے۔ انجیل میں ہمیں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ آخری ایام میں بہت سے جھوٹے مسیح پیدا ہوں گے جو بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔“ یہ کہہ کر اس نے بائبل کھولی اور اس نے 1 تھسلنیکیوں 4: 16-17 سے یہ پڑھا: ”کیونکہ خُداوند خُود آسمان سے للکار اور مُقرّب فرِشتہ کی آواز اور خُدا کے نرسِنگے کے ساتھ اُتر آئے گا اور پہلے تو وہ جو مسِیح میں مُوئے جی اُٹھیں گے۔ پِھر ہم جو زِندہ باقی ہوں گے اُن کے ساتھ بادلوں پر اُٹھائے جائیں گے تاکہ ہوا میں خُداوند کا اِستِقبال کریں اور اِس طرح ہمیشہ خُداوند کے ساتھ رہیں گے۔“ یہ آیات پڑھ کر اس نے متکبر انداز میں مجھے سمجھایا، ”یہ آیات ہمیں واضح طور پر بتاتی ہیں کہ جب خداوند آئے گا تو فرشتے نرسنگا پھونکیں گے، مُردوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا، اور ہم بادلوں میں اٹھائے جائیں گے تاکہ خداوند کو دیکھ سکیں۔ اگر کوئی کہے کہ خُداوند واپس آچکا ہے، لیکن ہم ابھی تک زمین پر ہیں اور آسمان پر نہیں اٹھائے گئے، تو یہ جھوٹ ہے! جب خداوند آئے گا تو ہم زمین چھوڑ دیں گے اور اس کے ساتھ ہمیشہ رہنے کے لیے آسمانوں میں چلے جائیں گے۔“ لیکن جب میں نے اسے یہ کہتے سنا تو میں بالکل منجمد ہوگیا۔ اس نے جو آیات پڑھی تھیں ان میں کہا گیا تھا کہ خداوند بادلوں پر اترے گا، لیکن قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا کی فلموں میں اس کے خفیہ طور پر مجسم ہونے کے بارے میں رفاقت تھی۔ اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟ میں تھوڑا سا الجھا ہوا تھا۔ انجیل میں، خداوند یسوع نے ”ابن آدم کے آنے“ کی نبوّت کی اور ”ابن آدم کئی بار آتا ہے“۔ یہ خُداوند کے ابنِ آدم بننے اور پوشیدہ طور پر آنے کے بارے میں تھا۔ خُداوند یسوع نے کبھی نہیں کہا کہ ہم بادلوں میں اُٹھائے جائیں گے۔ تو پولس نے جو کہا وہ خداوند یسوع کے کہنے سے متصادم کیوں تھا؟ یہ حقیقتاً کس بارے میں تھا؟ کیا قادرِ مطلق خدا واقعی خداوند کی واپسی تھا؟ اگر وہ نہ ہوتا، اُس کے کلام میں اتنی سچائی کیسے ہو سکتی ہے، اور وہ کلام اِس قدر حاکمیت اور طاقت سے بھرپور کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے واقعی یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ گلبرٹ پادری نے اس کے فوراً بعد ہی کچھ سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔ اور مجھے مجبور کیا کہ قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا کے بارے میں مزید کچھ بتاؤں کہ میں نے کیا سیکھا۔ اس نے کچھ تضحیک آمیز اور تہمت آمیز باتیں بھی کہیں۔ تب مجھے احساس ہوا مجھ سے سوالات پوچھنے میں اس کا مقصد جستجو اور تحقیق کرنا نہیں تھا، بلکہ مزید معلومات حاصل کرنا تھا تاکہ وہ مجھے صحیح راستے کی تحقیق سے روک سکے۔ پھر مجھے قادرِ مطلق خدا کے کلیسیا کی فلم پھندے کے ذریعے توڑ یاد آئی جس میں جدید فریسیوں کا ذکر ہے۔ فلم میں پادریوں اور بزرگوں کو کبھی بھی قادر مطلقِ خدا کا کام دکھائی نہیں دیا، بلکہ اندھا دھند اس کی مذمت کی، سچے راستے کی تحقیق اور خدا کی اتباع کرنے والے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے غلط معلومات تیار کرتے رہے۔ اب پادری گلبرٹ بھی یہی کچھ کر رہا تھا۔ وہ مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ بعد میں افواہیں پھیلا سکے، خدا کے اطاعت گزاروں کو خدا کی آواز سننے اور خداوند کا استقبال کرنے سے روک سکے۔ میں نے دل ہی دل میں خدا سے التجا کی کہ وہ مجھے اس کا جواب دینے کی سمجھ عطا کرے۔ میں نے اس سے کہا، ”میں تمہیں اب اور کچھ نہیں بتا سکتا۔ میں ابھی اس کا جائزہ لے رہا ہوں۔ جب مجھے مزید کچھ پتا چلا تو میں آپ کو بتا دوں گا۔“ بالآخر اس نے کہا کہ وہ مجھ سے اور کچھ نہیں جاننا چاہتا، اور ہماری بات چیت ختم ہوگئی۔ لیکن میں اب بھی اس دعوے کے بارے میں تھوڑا الجھن کا شکار تھا کہ خداوند آئے گا اور ہمیں آسمان میں لے جائے گا۔
اس دن جب میں پادری کے دفتر سے نکلا، میں نے دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگی، اور التجا کی کہ وہ مجھے رہنمائی اور آگہی عطا کرے۔ بعد میں، میں 1 تھسلنیکیوں 4: 16-17 والی آیات کے بارے میں سوچتا رہا کافی سوچ بچار کے بعد، مجھے ادراک ہوا کہ پادری گلبرٹ نے جو آیات پڑھی ہیں وہ پولس کی طرف سے آئی ہیں، یہ پولس کی کہی ہوئی باتیں تھیں۔ خُداوند یسوع نے کبھی نہیں کہا کہ جب وہ واپس آئے گا تو وہ ایمان والوں کو اوپر بادلوں میں لے آئے گا، اور اس نے کبھی نہیں کہا کہ آسمان کی بادشاہی آسمان پر ہو گی۔ بعد میں، دعا اور جستجو کے میرے جاری عمل میں، میں نے قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا کی ایک اور فلم خواب سے بیداری دیکھی، اس نے واقعی مجھے آگہی دی۔ فلم کے کچھ مواد میں اٹھائے جانے کا احاطہ کرنے والے سوالات اور کیا بادشاہی آسمان میں ہے کے بارے میں وضاحت کی گئی۔ فلم میں خوشخبری میں شریک کرنے والے لوگوں نے رفاقت کی کہ سب لوگ اپنے اپنے تصورات کی بدولت یہ سمجھتے ہیں کہ آسمان کی بادشاہی آسمان پر ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند یسوع نے یہ کہا: ”اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جَیسی آسمان پر پُوری ہوتی ہے زمِین پر بھی ہو“ (متّی 6: 9-10)۔ خداوند یسوع نے ہمیں واضح طور پر بتایا کہ خدا کی بادشاہی زمین پر ہے، آسمان میں نہیں: خدا کی مرضی زمین پر پوری ہوگی، جیسے کہ یہ آسمان پر پوری ہوتی ہے۔ اب آئیے مکاشفہ 21: 2-3 کو دیکھتے ہیں: ”پِھر مَیں نے شہرِ مُقدّس نئے یروشلِیم کو آسمان پر سے خُدا کے پاس سے اُترتے دیکھا ۔۔۔ دیکھ خُدا کا خَیمہ آدمِیوں کے درمِیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکُونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خُدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خُدا ہو گا۔“ اور مکاشفہ 11: 15: ”دُنیا کی بادشاہی ہمارے خُداوند اور اُس کے مسِیح کی ہو گئی اور وہ ابدُالآباد بادشاہی کرے گا۔“ ان نبوّتوں میں ذکرکیا گیا ہے ”خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے“۔ ”نیا یروشلِیم آسمان پر سے خُدا کے پاس سے اُترتا ہے“ اور ”دُنیا کی بادشاہی ہمارے خُداوند اور اُس کے مسِیح کی ہو گئی“۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا زمین پر اپنی بادشاہی قائم کرے گا، یہ کہ وہ انسانوں کے درمیان رہے گا۔ زمین پر بادشاہتوں کو مسیح کی بادشاہی بننا چاہیے، اور ابد تک کے لیے۔ اگر ہم اپنے تخیلات کے مطابق چلیں اور یہ سوچیں کہ خدا کی بادشاہی آسمانوں میں ہوگی، اور جب خداوند آئے گا وہ ہمیں آسمان میں لے جائے گا، کیا خدا کی طرف سے یہ سب باتیں بے معنی نہیں ہوجائیں گی؟ پھر یہ اٹھایا جانا کیا ہے؟ زیادہ تر لوگ یہ بات نہیں جانتے۔ مقدسین کےاٹھائے جانے کا راز ظاہر نہیں ہوا، جب تک کہ قادر مطلق خدا نہیں آیا تھا۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”’گرفتار ہوجانے‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی نیچی جگہ سے اونچی جگہ پر لے جایا جائے، جیسا کہ لوگ تصور کر سکتے ہیں؛ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ’گرفتار ہونے‘ سے مراد میرا جبر و قدر اور پھر انتخاب ہے۔ اس سےمراد وہ تمام لوگ ہیں جنھیں میں نے مقدر اور منتخب کیا ہے۔ ۔۔۔ یہ لوگوں کے تصورات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ جن کا مستقبل میں میرے گھر میں حصہ ہوگا یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے سامنےگرفتار ہوگئے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے، کبھی نہ بدلنے والا، اور ناقابل تردید۔ یہ شیطان کے خلاف جوابی حملہ ہے۔ جس کو میں نے پہلے سے مقدر کر دیا ہے وہ میرے سامنے گرفتار ہو جائے گا“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح کے شروع کے بیانات، باب 104)۔ قادرِ مطلق خدا بہت واضح ہے۔ اٹھائے جانے کا مطلب یہ نہیں جو ہم نے سمجھا ہے کہ بادلوں میں خداوند سے ملنے کے لیے زمین سے آسمان میں لے جایا جانا۔ یہ اس وقت کے بارے میں ہے جب خدا زمین پر بولنے اور کام کرنے کے لیے واپس آئے گا، لوگ خدا کی آواز سنیں گے اور خدا کی پیروی کے لیے کھڑے ہوں گے، اور خدا کے آخری ایام کے کام کے تابع ہوں گے۔ یہ خدا کے تخت کے سامنے اٹھائے جانے کا حقیقی معنی ہے۔ وہ سب جو خداوند کی آواز کو پہچان لیں گے جو قادرِ مطلق خدا کے کلام سے سچائی دریافت اور قبول کریں گے اور اس کی طرف رجوع کریں گے۔ وہی عقل مند لوگ ہیں۔ یہی لوگ وہ ”قیمتی ہیرے“ ہیں جنہیں ”چراکر“ خدا کے گھر میں واپس لایا گیا جو سب سچائی قبول کرتے ہیں اور خدا کی آواز سمجھ سکتے ہیں۔ یہی لوگ حقیقتاً اٹھائے گئے ہیں، یہ لوگوں کا وہ گروہ ہے کہ جنھیں خدا غالب آنے والوں کی شکل میں کامل کرے گا، جب وہ آخری ایام میں کام کرنے کے لیے خفیہ طور پر آئے گا۔ جب سے قادرِ مطلق خدا کے آخری ایام کا کام شروع ہوا ہے، حقیقتاً خدا کے ظہور کو ترستے زیادہ سے زیادہ لوگوں نے قادرِ مطلق خدا کے کلام سے خدا کی آواز کی پہچان لی ہے اور خدا کا آخری ایام کا عدالت کا کام قبول کر لیا۔ وہ خدا کے تخت کے سامنے اٹھائے جاچکے ہیں تاکہ وہ اس سے مل سکیں۔ انہیں خدا کے کلام سے غذا دی جاتی ہے اور سیراب کیا جاتا ہے۔ انہوں نے خدا کی حقیقی معرفت حاصل کی ہے، ان کے بدعنوان مزاج پاک کیے جاچکے ہیں، اور وہ خدا کے کلام کی حقیقت میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہی لوگ خدا کی جانب سے عظیم نجات پانے والے ہیں۔ یہی لوگ تباہی سے پہلے ہی غالب آنے والے بن چکے ہیں۔ وہ پہلے ہی خدا کی طرف سے حاصل کردہ پکے ہوئے پھل بن چکے ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنے تصورات اور خواہشات سے چمٹے رہتے ہیں، جو احمقانہ طور پر انتظار کرتے ہیں کہ خداوند انہیں آسمان پر لے جائے گا اور خدا کا آخری ایام کا عدالت کا کام قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں یہی بے وقوف لوگ ہیں۔ یہ سب خدا کی طرف سے نکال باہر کیے جائیں گے۔ بالآخر، وہ روتے ہوئے اور دانت پیستے ہوئے آفات میں گریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔
فلم دیکھنے کے بعد میں نے دیکھا کہ ہم ”اٹھائے جانے“ کی لفظی تشریح نہیں کر سکتے۔ یہ بنیادی طور پر خدا کی آواز سننے والے اور خداوند کا استقبال کرنے والے لوگوں کی طرف اشارہ ہے، اور خُدا کے تخت کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اٹھایا جانا یہی ہے۔ وہ لوگ جو آخری ایام کے خدا کے کام کو قبول کرتے ہیں وہ عقلمند کنواریاں ہیں جو خدا کے تخت کے سامنے اٹھائی جاتی ہیں۔ قادرِ مطلق خُدا کا کلام ان کا کھانا پینا ہے، وہ اُس کی عدالت اور پاک کیے جانے کو قبول کرتے ہیں۔ یہی بّرہ کی شادی کی دعوت میں شرکت ہے۔ اس طرح اٹھایا جانا بہت عملی ہے۔ خدا کا کام اس قدر دانش مندانہ اور با مقصد ہے! میں نے دیکھا کہ میرا وقت قادر مطلق خدا کی کلیسیا کے اراکین کے ساتھ مل بیٹھنے اور بات چیت کرنے میں گزرتا ہے، یہ واقعی ایسا ہی تھا۔ وہ بالکل ہم میں سے باقی لوگوں کی طرح زمین پر معمول کی زندگی گزارتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کا کلام ان کا کھانا پینا ہے، سچائی پر ان کی رفاقت بصیرت اور کی حامل ہے۔ امور کے بارے میں ان کی توقعات اور ایمان کے بارے میں ان کا نقطہ نظر انتہائی تازگی بخش ہے۔ جب وہ مسائل میں الجھے ہوتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ خدا سے اس کا فضل کیسے مانگیں، بلکہ وہ جستجو اور رفاقت کرتے ہیں کہ کس طرح خدا سے محبت اور اطاعت کریں۔ کس طرح اپنی لغزشیں دور کرنے کی کوشش کریں اور کس طرح سچائی پر عمل کریں اور خدا کے کلام کے مطابق زندگی بسر کریں۔ میں نے واقعی محسوس کیا کہ وہ ایک نئی دنیا میں ہیں، کہ وہ ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور بالکل نئی قسم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے کبھی ان جیسے لوگ نہیں دیکھے۔ انہوں نے ہم میں سے ان لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا جو خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ اس بات نے میری قادرِ مطلق خُدا کا کلام پڑھنے، اُس کی عدالت کے کام کا تجربہ کرنے کی پیاس اور زیادہ بڑھا دی، تاکہ میں اپنی زندگی ان کے مطابق گزاروں۔ پھر یہ بات مجھ پر اور بھی عیاں ہو گئی کہ پولس کی یہ باتیں مکمل طور پر اس کے ذاتی تصورات ہیں، اور مجھے یقین کرنا پڑا کہ سچ یہی ہیں کہ پولس کے الفاظ خداوند کے الفاظ نہیں، کیونکہ پولس ایک بشر تھا۔ خداوند کا استقبال کرنے جیسے اہم معاملے میں کسی شخص پر یقین کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ خاص طور پر جب انسان کی باتیں اور خداوند کا کلام باہم متصادم ہوں، ہم انسان کی باتوں کو اپنی بنیاد نہیں بنا سکتے۔ قریب تھا کہ میں پادری کی طرف سے پولس کے گمراہ کن الفاظ سے دھوکا کھا جاتا۔ ان تمام سالوں میں، کوئی بھی کبھی مقدس ہستیوں کے اٹھائے جانے کا اسرار نہیں سمجھ پایا، اور کسی کو پولس کی تخیلات سے بھرپور باتوں کی سمجھ نہیں تھی، پتہ چلتا ہے کہ وہ خداوند یسوع کے الفاظ کے بالکل برعکس تھے۔ اس سے میرے لیے امور واضح ہوئے۔
میں نے اجتماعات اور رفاقت کے ذریعے پادریوں کو تھوڑا سا سمجھ لیا ہے۔ وہ انجیل سے اچھی طرح واقف تھے، لیکن انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ خداوند کا استقبال کرنا خدا کے کلام سے ثابت ہونا چاہیے نہ کہ انسان کی باتو ں پر۔ وہ خدا کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ چند دنوں بعد ایک شام اپنے گاؤں میں فٹ بال کے میدان کے قریب پادری گلبرٹ سے میری غیرمتوقع ملاقات ہوئی۔ اس کی اب بھی یہی کوشش تھی کہ میرا ذہن تبدیل کرے۔ اس بار وہ مثالیں استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جیسے کوئی چٹکلہ پیش کررہا ہو۔ اس نے ہاتھ اٹھائے اور آسمان کی طرف دیکھا پھر زمین پر یوں قدم رکھنے لگا گویا وہ سیڑھیاں چڑھ رہا ہو۔ اس نے کہا، ”ہم بادلوں پر چلنے کے قابل ہو جائیں گے۔ لیکن اگر تم اس دن روح القدس سے معمور نہیں ہوئے تو تم ایسا نہیں کر سکو گے۔“ پادری گلبرٹ کی اس بچکانہ حرکت نے مجھے مزید یقین دلایا کہ بادلوں میں اٹھائے جانے کی کہانی خالصتا انسانی تخیل ہے۔ یہ اتنا مضحکہ خیز اور دل چسپ تھا کہ میں ہنسنا چاہتا تھا۔ یہ اتنا ہی بچکانہ تھا جتنا یہ یقین کرنا کہ سانتا کلاز واقعی 25 دسمبر کو بچوں کے لیے تحائف لے کر آتا ہے۔ اس دن سے، میں اب اس تخیل طرازی پر یقین نہیں رکھتا، بلکہ صرف حقیقت پر توجہ دیتا ہوں، اور میں قادرِ مطلق خدا کا آخری ایام کا کام مدنظر رکھتا ہوں۔
بعد میں، پادری گلبرٹ کے چھوٹے بھائی اور میں نے قادرِ مطلق خدا کا آخری ایام کا کام قبول کیا اور ہمیں قادرِ مطلق خدا کے کلام کی کتابوں کے نسخے ملے۔ ہم دونوں بہت خوش اور مسرور تھے۔ پادری گلبرٹ کو جب یہ پتہ چلا تو وہ غصے میں آ گیا، وہ نہ صرف اپنے بھائی کے ایمان کی راہ میں حائل ہوا بلکہ اس سے کتابیں بھی چھین لیں اور ان میں سے کچھ کتابیں بزرگ رومین کو بھیج دیں۔ میں جانتا تھا کہ اس نے قادرِ مطلق خدا کے کلام کی کتابیں سچائی کی جستجو کے لیے نہیں لی تھیں، بلکہ ان میں غلطی تلاش کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسے قادرِ مطلق خدا کے ظہور اور کام کی مذمت میں استعمال کر سکے، اور آخر کار ہمیں قادرِ مطلق خدا کے ساتھ غداری کرنے پر آمادہ کرسکے۔ ان کے ارادے اچھے نہیں تھے۔ اور حقیقت میں یہی کچھ ہوا۔
ایک دن بزرگ رومین نے مجھ سے کہا، ”اس کتاب میں تو کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ سب چیزیں وہ ہیں جو انجیل میں ہیں – کچھ بھی نیا نہیں ہے۔“ جب میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا تو مجھے ایک بار پھر مایوسی ہوئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ قادرِ مطلق خدا کا کلام اس قدر حاکمانہ اور طاقتور ہے اور وہ سچائی کے اسرار کے بارے میں بات کرتا ہے۔ کیا وہ اس طرح جھوٹ بھی نہیں بول رہا تھا، یہ کہنا کہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، ایسی بات صرف ایک شیطانی شخص ہی کہہ سکتا ہے؟ قادر مطلق خدا کا کلام خدا کے 6000 سالہ انتظامی کام کے اسرار، مجسم ہونا، خدا کے نام، خدا کا عدالت کا کام کرنے کا طریقہ وغیرہ ظاہر کرتا ہے۔ بہت سے دوسرے اسرار اور سچائیاں بھی ہیں۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو انجیل میں نہیں ہیں، اور وہ چیزیں جو ہم اپنے ایمان کے سالوں میں کبھی نہیں سمجھ پائے۔ وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس نے کتاب میں کوئی نئی چیز نہیں دیکھی؟ وہ محض مضحکہ خیز تھا۔ میں اس سے دھوکا کھانے والا نہیں تھا۔ اس نے مجھے یہ بھی باور کرایا کہ اس میں سچائی کی کمی ہے اور وہ خدا کا کلام بالکل نہیں سمجھ سکتا۔ پادری گلبرٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے نہ صرف اس کی جانچ پڑتال نہیں کی بلکہ اس کی اور زیادہ مخالفت اور مذمت بھی کی، عبادتی اجتماعات میں اپنے مذہبی تصورات کو مزید پھیلاتے ہوئے اس نے بھائیوں اور بہنوں کو بتایا کہ خدا کا تمام کلام انجیل میں ہیں، اور اس سے خدا کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ خداوند یسوع بادل پر اتریں گے، اور جو کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خداوند آچکا ہے، وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں ابھی تک کلیسیا میں بطور مترجم خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں سوچ رہا تھا کہ لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے والے مغالطوں کا ترجمہ کرنا برائی میں حصہ لینے کے مترادف ہے۔ کیا میں پادریوں کی مزاحمت اور گستاخی میں شریک نہیں ہوں؟ وہ جو باتیں کر رہے تھے، ان سے مجھے قادر مطلق خدا کے کلام کا ایک اقتباس یاد آیا: ”ہر فرقے کے راہنماؤں کو دیکھو – وہ سب متکبر اور پارسا بنے ہوئے ہیں اور بائبل کی جو تشریحات وہ کرتے ہیں ان میں سیاق و سباق کی کمی ہے اور وہ ان کے خیالات و توہمات کی مرہون منت ہیں۔ وہ اپنے کام کرنے کے لیے تحفوں اور علمیت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر وہ بالکل بھی منادی نہ کر سکتے تو کیا لوگ ان کی پیروی کرتے؟ ان کے پاس بہرحال کچھ علم ہوتا ہے اور کسی نظریہ پر وہ منادی کر سکتے ہیں یا وہ یہ جانتے ہیں کہ کہ دوسروں کو کس طرح فتح کرنا ہے اور کچھ مکاری کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ وہ ان کا استعمال لوگوں کو دھوکہ دینے اور انھیں اپنے سامنے لانے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا پرنام نہاد یقین رکھتے ہیں لیکن در حقیقت، وہ اپنے راہنما کی پیروی کرتے ہیں۔ جب ان کا سامنا درست راہ کی منادی کرنے والے کسی شخص سے ہوتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں، ’ہمیں اپنے عقیدے کے حوالے سے اپنے راہنما سے بات کرنی ہوگی۔‘ دیکھیں کہ جب لوگ خدا کو مانتے ہیں اور سچے راستے کو قبول کرتے ہیں تب بھی دوسروں کی رضامندی اور منظوری کی ضرورت کیسے ہوتی ہے – کیا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ پھر وہ راہنما کیا ہو گئے؟ کیا وہ فریسی، جھوٹے چرواہے، مسیح دشمن اور سچائی کی راہ کو قبول کرنے کے حوالے سے لوگوں کی آمادگی کی رکاوٹ نہیں بن گئے؟“ (کلام، جلد 3۔ آخری ایام کے مسیح کے مقالات۔ تیسرا حصہ)۔ میں نے خدا کے کلام میں دیکھا کہ پادری تبلیغ اور خداوند کے لیے کام کرنے اور اس کے ریوڑ کی حفاظت کرنے کی آڑ میں لوگوں کو خدا کے آخری ایام کے کام کی جستجو اور تحقیق کرنے سے روک رہے ہیں۔ وہ کلیسیا کے ارکان کو پھنسا رہے ہیں، انہیں اپنی گرفت میں لے رہے ہیں تاکہ ان پر قابو پانےک کا اپنا مقصد حاصل کرسکیں۔ وہ خلوصِ دل سے خُداوند یسوع کی واپسی کی خواہش نہیں رکھتے، بلکہ وہ دور جدید کے فریسی ہیں۔ وہ فطرتاً سچائی سے نفرت کرتے ہیں اور خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے پادری سے دوری اختیار کر لی اور اس کے مترجم کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینا چھوڑ دیا۔ یہ فیصلہ میرے لیے آزادی کا پروانہ ثابت ہوا، گویا میں ایک چھوٹا سا پرندہ ہوں جو اپنے پنجرے سے آزاد ہو رہا ہو۔
لیکن کلیسیا کے پادریوں نے مجھے پریشان کرنا بند نہیں کیا۔ ایک اتوار کو کام کے بعد بزرگ رومین میرے گھر آیا اور مجھ سے پوچھا کہ میں نے کلیسیا کے لیے بطور مترجم کام کرنا کیوں چھوڑ دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ان چیزوں سے متفق نہیں ہوں جن کی پادری نے حال ہی میں تبلیغ کی تھی۔ اُس نے کہا خُداوند بادل پر آئے گا، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ مسیح آ آچکا ہے، لیکن ہم آسمان پر نہیں اٹھائے جائیں ہیں، تو وہ ایک جھوٹے مسیح کے بارے میں بات کرتا ہے۔ لیکن کیا خداوند یسوع کے کلام میں اس کی کوئی بنیادی وجہ تھی؟ اگر نہیں، تو کیا وہ اس بات سے انکاری نہیں تھا کہ قادرِ مطلق خدا ہی واپس آنے والا خداوند ہے؟ یہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے افواہیں پھیلانا تھا۔ بزرگ رومین نے کہا، ”اس میں غلط کیا ہے؟ انجیل واقعی یہ کہتی ہے کہ خُداوند آخری ایام میں بادلوں پر آئے گا۔“ میں نے کہا، ”انجیل واقعی کہتی ہے کہ خداوند آخری دنوں میں بادلوں پر آئے گا، لیکن انجیل میں اور بھی بہت سی نبوّتیں موجود ہیں۔ جیسا کہ خُداوند کا ابنِ آدم کے طور پر جنم لینا اور آخری ایام میں پوشیدہ طور پر آنا۔“ میں نے ایک انجیل اٹھائی اور اسے کچھ آیات پڑھ کر سنائیں۔ ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا“ (متّی 24: 27)۔ ”اِس لِئے تُم بھی تیّار رہو کیونکہ جِس گھڑی تُم کو گُمان بھی نہ ہو گا اِبنِ آدمؔ آ جائے گا“ (متّی 24: 44)۔ ”جَیسا نُوح کے دِنوں میں ہُؤا وَیسا ہی اِبنِ آدمؔ کے آنے کے وقت ہو گا“ (متّی 24: 37)۔ میں نے اس سے کہا ”’ابن آدم کا آنا‘ ایک حوالہ ہے کہ خداوند در پردہ ایک جسم میں آئے گا۔ ’ابنِ آدمؔ‘ ایک انسان سے پیدا ہونے، جسم والی ہستی ہونے اور عام انسانیت کا حامل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ خداوند یسوع کو ابن آدم اور مسیح کہا گیا ہے۔ باہر سے، وہ بالکل ایک عام شخص کی طرح دکھائی دے رہا ہوگا۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح کھاتا، پہنتا اور زندگی گزار رہا ہوگا۔ نہ تو خدا کی روح اور نہ ہی خُداوند یسوع کا روحانی جسم اُس کے دوبارہ جی اُٹھنے کے بعد ’ابن آدم‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ’ابن آدم کی آمد‘ کا ذکر ان نبوّتوں میں کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خُداوند ابنِ آدم کے جسم میں پوشیدہ ہو کر واپس آئے گا۔“ بزرگ رومین نے جواب دیا، ”یہ سچ ہے۔“ لہٰذا میں نے بات جاری رکھی، ”در حقیقت، وہ بہت عرصہ پہلے خفیہ طور پر آیا تھا – وہ قادرِ مطلق خدا ہے۔ اس نے سچائیوں کا آشکارا اظہار کیا ہے اور عدالت کا کام کر رہا ہے، اور وہ پہلے ہی آفتوں سے قبل غالب آنے والوں کا ایک گروہ تشکیل دے چکا تھا۔ بڑی آفتیں شروع ہو چکی ہیں، اور جب آفتیں گزر جائیں گی تو خُدا سرِعام بادل پر آئے گا، تمام لوگوں اور تمام قوموں پر ظاہر ہو گا۔ تب ابنِ آدم کی آمد اور بادل پر خدا کے ظاہر ہونے کی تمام پیشین گوئیاں پوری ہوں گی۔ یہ مکمل طور پر انجیل کے مطابق ہے، تو آپ اس کی جستجو اور تحقیق کیوں نہیں کرتے؟ آپ صرف خداوند کے بادلوں پر آنے کی نبوّتیں کیوں پڑھتے ہو؟ کیا یہ خداوند کا کلام سیاق و سباق سے ہٹا کرلینا، اس کی غلط تشریح نہیں ہے؟ ہمیشہ اپنے تخیل پر مبنی نبوّتیں بیان کرکے اور یہ سوچ کر کہ خداوند صرف بادل پر آ سکتا ہے، آپ بالکل ان فریسیوں کی طرح ہیں جنہوں نے مسیح کی آمد کی نبوّوں کی وضاحت اپنے تصورات اور تخیلات کی بنیاد پر کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسیح کسی بادشاہ کی طرح ہو گا، جوشریفانہ حلیے کے ساتھ ایک شاہی خاندان میں پیدا ہوگا، اور وہ لوگوں کو رومی حکومت سے بچائے گا۔ لیکن جب مسیح آیا تو وہ ایک عام آدمی تھا جوایک چرنی میں پیدا ہوا تھا۔ ان کا خاندان متوسط درجے کا تھا، جس کا معاشرے میں ان کا کوئی مرتبہ نہیں تھا، اور اس نے لوگوں کو رومی حکومت سے بھی نہیں بچایا۔ یہاں تک کہ اسے صلیب پر میخوں سے بھی جڑدیا گیا تھا۔ خداوند یسوع کا ظہور اور کام فریسیوں کے تصورات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ تو بس اسی طرح ہم اپنے تصورات کے مطابق کیسے جا کر اور کہہ سکتے ہیں کہ رب بادل پر اترے گا؟“ میں نے اسے انجیل کا ایک اور اقتباس پڑھ کر سنایا۔ ”خُداوند فرماتا ہے کہ میرے خیال تُمہارے خیال نہیں اور نہ تُمہاری راہیں میری راہیں ہیں۔ کیونکہ جِس قدر آسمان زمِین سے بُلند ہے اُسی قدر میری راہیں تُمہاری راہوں سے اور میرے خیال تُمہارے خیالوں سے بُلند ہیں“ (یسعیاہ 55: 8-9)۔ ”ہم انجیل میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ کبھی بھی پیشگی اندازہ نہیں لگا سکیں گے کہ خدا کیا کرنے والا ہے کیونکہ خدا ایک صاحبِ حکمت خدا ہے اور اس کی نبوّتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ لوگ ان کی تشریح نہیں کرسکتے اور انہیں اس وقت تک سمجھ نہیں سکتے جب تک کہ ان کے پورا ہونے کا وقت نہ آجائے۔ فریسیوں نے اپنے تصورات کے مطابق نبوّتوں کی تشریح کی اور مسیح کے آنے کے بارے میں غلط نتائج اخذ کیے۔ نتیجتاً، جب خداوند یسوع کی آمد ہوئی، تو انہوں نے اس کی مخالفت کی اور برا بھلا کہا۔ خدا کی طرف سے سزا اور لعنت پر ان کا خاتمہ ہوا۔ آج، ہمارا اپنے تصورات کے مطابق نبوّتوں کی تشریح کرنا صحیح نہیں ہے۔ درحقیقت، ہم نبوّتوں کو ان کے پورا ہونے کے بعد ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اب جب کہ خداوند یسوع واپس آ چکا ہے اور خداوند کی آمد کی تمام نبوّتیں پوری ہو چکی ہیں۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ در اصل کس بارے میں تھیں۔“ میں نے اس دن بزرگ رومین سے بہت کچھ کہا، لیکن اس نے کوئی بات نہ سنی۔
جس چیز نے مجھے واقعی حیران کیا وہ یہ تھی کہ پادری گلبرٹ اور بزرگ رومین نے نہ صرف جستجو کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ انہوں نے میرے ایمان کی پہلے سے بھی زیادہ مخالفت شروع کر دی۔ ایک اتوار جب ہماری کلیسیا کے تمام پادری اور بزرگ کلیسیا میں موجود تھے، انھوں نے مجھ سے قادرِ مطلق خدا پر میری ایمانی کیفیت کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انھیں قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دیں۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ افواہیں گھڑنے کے لیے اس میں کوئی خامی تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں نے کچھ زیادہ تو نہیں کہا، صرف اتنا کہا کہ میں اب بھی اس پر غور کر رہا ہوں۔ پادری نے اتفاق نہیں کیا اور اس نے مجھے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا۔ اگر میں نے قادرِ مطلق خدا کے کام کی کھوج بند نہ کی، وہ تمام کلیسیاؤں کو لکھ بھیجیں گے اور یہ بتائیں گے کہ مجھے نکال پھینکا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر مجھے نکال پھینکا گیا تو میرے ارد گرد ہر شخص یہی سوچے گا کہ میں نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے، جس کے بعد وہ سب مجھے حقارت سے دیکھیں اور مجھے دھتکار دیں گے۔ ان نتائج کا سوچتے ہی میں خوفزدہ ہو گیا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ اگر میں نے ذلت کے ڈر سے قادرِ مطلق خدا کو قبول کرنا چھوڑ دیا، تو میں خداوند کا استقبال کرنے کا موقع گنوا دوں گا، پھر میں کبھی بھی سچائی یا نجات حاصل نہیں کر پاؤں گا۔ اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ میں نے اپنی ذات میں کچھ کشمکش محسوس کی۔ تب ہی پادری نے مجھے دھمکی دی، اور کہا کہ اگر میں نے وہ نہ کیا جو وہ کہتا ہے تو وہ مجھے لعنت کریں گے۔ مجھے لگا کہ ایسا کہنا ایک شیطانی حرکت ہے لہٰذا میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ انجیل کی ایک بات میرے ذہن میں آئی: ”اُس نے بڑی آواز سے چِلاّ کر کہا کہ گِر پڑا۔ بڑا شہر بابل گِر پڑا اور شَیاطِین کا مَسکن اور ہر ناپاک رُوح کا اڈّا اور ہر ناپاک“ (مُکاشفہ 18: 2)۔ ”پِھر مَیں نے آسمان میں کِسی اَور کو یہ کہتے سُنا کہ اَے میری اُمّت کے لوگو! اُس میں سے نِکل آؤ تاکہ تُم اُس کے گُناہوں میں شرِیک نہ ہو اور اُس کی آفتوں میں سے کوئی تُم پر نہ آ جائے“ (مُکاشفہ 18: 4)۔ میں نے قادرِ مطلق خدا کی کلیسیا کی ایک فلم کے بارے میں سوچا جو میں نے دیکھی تھی اور جانتا تھا کہ بابل مذہبی دنیا کا عظیم حوالہ ہے۔ آیتوں میں بالکل واضح ہے، کہ بابل کو چھوڑنا، مذہبی دنیا چھوڑنا ہے، اور اس میں حصہ نہ لینا گناہ ہے۔ اس موقع پر میں نے محسوس کیا کہ مجھے کلیسیا کو چھوڑ دینا چاہیے، مذہبی دنیا کو چھوڑ دینا چاہیے، اور خدا کی پیروی کرنی چاہیے۔ میں نے دیکھا کہ مذہبی دنیا کس قدر ویران تھی، کہ کوئی بھی سچ کی تلاش میں نہ تھا، تمام پادری نام اور مرتبے کے لیے لڑتے تھے، کلیسیا میں روح القدس کے کام کا فقدان تھا اور وہ گناہ اور غلاظت سے بھری ہوئی تھی۔ جب مذہبی رہنماؤں نے خداوند کی واپسی کی خبر سنی تو انہوں نے اس کی جستجو نہیں کی، بلکہ اس کی مخالف اور مذمت کی، طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ایمان والوں کو صحیح راستے کی تحقیق سے روکے رکھا۔ ان میں سے کوئی بھی خداوند کی تعلیمات کے مطابق زندگی نہیں گزارتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میری کلیسیا بھی ایک بابل ہے اور مجھے اسے جلد چھوڑ دینا چاہئے، بصورت دیگر میں خداوند کا استقبال کرنے اور آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے قابل نہیں رہوں گا۔ میں روح القدس کے کام سے محروم ہو جاؤں گا اور ان کے ساتھ بدکاری میں پڑجاؤں گا، اور اپنی نجات کا موقع گنوا دوں گا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر وہ مجھے باہر نہ بھی نکالیں، تب بھی میں وہ مذہبی بنجر زمین چھوڑ دوں گا۔ میں اس کلیسیا میں کبھی واپس نہیں گیا۔
مجھے کلیسا میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے، پادری گلبرٹ میرے گھر آیا اور میرے والدین سے کہا کہ میں اب کلیسیا نہیں جا رہا، اور ان سے کہا کہ وہ مجھے واپس جانے کے لیے کہیں۔ میرے والد بھی کلیسیا کے بزرگ تھے۔ وہ اور میری ماں پہلے سے ہی قادرِ مطلق خدا پر میرے ایمان کے بارے میں جانتے تھے، اور اگرچہ انھوں نےاپنے تصورات نہیں چھوڑے تھے، وہ مجھ پر زور نہیں دیتے تھے۔ پادری کے ان سے بات کرنے کے بعد انہوں نے مجھ پر زور دینا شروع کر دیا، وہ مجھ سے کہتے کہ میں کلیسیا واپس چلا جاؤں۔ میں نے انکار کر دیا۔ جونہی قادر مطلق خدا کی کلیسیا کے اجتماعات کا وقت ہوتا، تو میرے میرے والد جان بوجھ کر میرے کام میں خلل اندازہوتے، اور ہر روز مجھ پر تنقید کرتے ہوئے ہر طرح کی اذیت ناک باتیں کہتے۔ میری ماں مجھے اجتماعات میں شرکت سے روکنے کے لیے جسمانی طاقت کا استعمال کرتیں، جب بھی میں کسی اجتماع میں ہوتا تو وہ مجھ سے میرا فون چھیننے کی کوشش کرتیں، یہ کہتیں کہ وہ اسے توڑنے جا رہی ہیں تاکہ میں اجتماعات میں شریک نہ ہو سکوں۔ ایک بار جب میں وہاں نہیں تھا تو میرے والد نے میرا فون چھپا دیا، اور پھر ہماری بجلی کاٹنے کی دھمکی دی۔ جیسے جیسے میرے والدین کا جبر بڑھتا گیا، میرے لیے برداشت کرنا مشکل ہوتا گیا، لیکن خدا کے کلام نے ہمیشہ میری رہنمائی کی، میں نے کبھی ان سے ہار نہیں مانی۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ وہ مجھ سے تعلقات منقطع کرنے جا رہے ہیں اور مجھے گھر سے نکال دیں گے۔ میں نے اپنے والدین کے اس ظلم و ستم کے سامنے خدا کے کلام سے مدد مانگی۔ اس کے کلام نے مجھے اآگہی دی اور مجھے ان سب کے بارے میں واضح سمجھ دی۔ خدا کہتا ہے، ”جب خدا کام کرتا ہے، کسی شخص کی پروا کرتا ہے، اور اس شخص کو دیکھتا ہے اور جب اس شخص کی حمایت اور تائید کرتا ہے تو شیطان اس شخص کو دھوکا دینے اور نقصان پہنچانے کے لیے اس کے پیچھے بہت قریب سے تعاقب کرتا ہے۔ اگر خدا اس شخص کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو شیطان اپنے پوشیدہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خدا کے کام کو آزمانے، اس میں خلل ڈالنے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے مختلف شیطانی چالوں کا استعمال کرتے ہوئے خدا کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اپنی مقدور بھر کوشش کرے گا۔ یہ مقصد کیا ہے؟ یہ نہیں چاہتا کہ خدا کسی کو حاصل کرے؛ یہ ان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جن کو خدا حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ ان کو قابو کرنا چاہتا ہے، ان کا اختیار سنبھالنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں، اور وہ اس کے ساتھ برے کام کرنے میں شامل ہو جائیں، اور خدا کی مزاحمت کریں۔ کیا یہ شیطان کا مذموم مقصد نہیں ہے؟“ (کلام، جلد 2۔ خدا کو جاننے کے بارے میں۔ خدا خود، منفرد IV)۔
”کام کے ہر مرحلے پر، جو خدا لوگوں کے اندر کرتا ہے، ظاہری طور پر یہ لوگوں کے درمیان تعامل معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ انسانی اقدامات یا انسانی مڈ بھیڑ سے پیدا ہوتا ہو لیکن پس پردہ، کام کے ہر مرحلہ پر، ہر وہ شے جو رونما ہوتی ہے، ایسی بازی ہے جو شیطان نے خدا کے سامنے لگائی ہے اور لوگوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ خدا کی گواہی میں ثابت قدم رہیں۔ مثال کے طور پر جب ایوب کو آزمایا گیا: پس پردہ شیطان خدا کے ساتھ شرط لگا رہا تھا اور ایوب کے ساتھ جو ہوا انسانوں کے اعمال اور انسانوں کی دخل اندازی تھی۔ کام کے ہر مرحلہ پر جو بھی خدا تمھارے اندر انجام دیتا ہے خدا کے ساتھ شیطان کی لگائی ہوئی بازی ہے – اس کے پیچھے ایک جنگ ہے۔ ۔۔۔ جب خدا اور شیطان روحانی دنیا میں جنگ کرتے ہیں، تو تجھے کیسے خدا کو مطمئن کرنا چاہیے اور تجھے اس کی گواہی دیتے ہوئے کیسے ثابت قدم رہنا چاہیے؟ تجھے جاننا چاہیے کہ تیرے اندر ہونے والی ہر چیز عظیم آزمائش ہے اور یہ وہ وقت ہے جب خدا تجھ سے گواہی چاہتا ہے۔ اگرچہ وہ باہر سے غیر اہم لگ سکتی ہیں، لیکن جب یہ چیزیں ہوتی ہیں تو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ آیا تُو خدا سے محبت کرتا ہے یا نہیں۔ اگر تُو کرتا ہے، تو تُو اس کے لیے اپنی گواہی میں ثابت قدم رہ سکے گا، اور اگر تُو نے اس کی محبت پر عمل نہیں کیا، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تُو سچائی پر عمل کرنے والا نہیں ہے، یہ کہ تُو سچائی سے عاری، اور زندگی سے محروم ہے، کہ تُو بے کار چیز ہے! لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ اس وقت ہوتا ہے جب خدا چاہتا ہے کہ وہ اس کی گواہی پر ثابت قدم رہیں۔ اگرچہ اس وقت تیرے ساتھ کچھ بڑا نہیں ہو رہا ہے اور تُو بڑی گواہی نہیں دے رہا ہے، لیکن تیری روزمرہ زندگی کی ہر تفصیل خدا کی گواہی کا معاملہ ہے“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف خدا سے محبت کرنا ہی خدا پر سچا ایمان رکھنا ہے)۔ میں خدا کے کلام سے سمجھ گیا کہ مجھے اتنی رکاوٹوں کا سامنا کیوں ہے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میرے اور میرے والدین کے درمیان کچھ چل رہا ہے، لیکن معاملہ یہ نہیں تھا۔ اس سب کے پیچھے شیطان کی رکاوٹیں اور جوڑ توڑ تھے۔ شیطان میرے خاندان کو استعمال کر رہا تھا تاکہ مجھے قادر مطلق خدا پر ایمان لانے سے اور خدا کی نجات قبول کرنے سے روک سکے۔ یہ ایک روحانی جنگ تھی۔ اس وقت میں جان گیا کہ خدا کی مرضی یہی ہے کہ میں اپنی گواہی میں ثابت قدم رہوں۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کر لیا میرے گھر والے مجھ پر جو بھی پابندی لگائیں مجھے اس کی کوئی پروا نہیں میں بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ آن لائن اجتماعات میں شامل ہوتا رہوں گا، قادرِ مطلق خدا کا کلام پڑھتا اور اپنا فرض نبھاتا رہوں گا، اور شیطان کو شرمندہ کرنے کے لیے ثابت قدم رہوں گا۔
میرے والدین مجھ پر جبر کرتے رہے اور میری راہ میں حائل ہوتے رہے، لیکن انہوں نے چاہے جو کچھ بھی کیا یا کہا، میں نے ان کے زبانی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خدا پر بھروسا کیا اور اجتماعات میں شرکت کرتا رہا اور قادرِ مطلق خدا کا کلام پڑھتا رہا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مجھ پر تنقید کرنا چھوڑ دیا۔ میں نے اس کے لیے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ قادرِ مطلق خدا کا کلام واقعی سچا ہے، اور ان سچائیوں کے ساتھ، کوئی بھی مجھ پر حملہ نہیں کرسکتا یا قادرِ مطلق خدا پر میرا ایمان ختم نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد پادریوں نے بھائیوں اور بہنوں کو حق راہ کی تلاش سے روکنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ پادری گلبرٹ نے اپنے چھوٹے بھائی پر بہت دباؤ ڈالا، اس سے کہا کہ وہ کلیسیا میں رسومات ادا کرے اور کلیسیا نہ چھوڑے۔ دونوں بھائیوں میں شدید سرد جنگ جاری تھی۔ اس کا چھوٹا بھائی گھر سے باہر نکلنے سے ڈرتا تھا۔ اسے وہی کرنا پڑا جو اس کے بھائی نے کہا تھا، اور وہ ہمارے اجتماعات میں شامل نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے اس کے بھائی پر بہت افسوس ہوا۔ اور مذہبی پادریوں کا اصل چہرہ اور بھی کھل کر سامنے آگیا۔ وہ واقعی جدید دور کے فریسی ہیں۔ وہ خود صحیح راستے کی جستجو نہیں کرتے، اور وہ دوسروں کی تحقیق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو جہنم کی طرف کھینچ رہے ہیں، اور انہیں خدا کی آخری ایام کی نجات سے محروم کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے آپ کو خدا کا دشمن نہیں بنا رہے ہیں؟ جیسا کہ خداوند یسوع نے فرمایا، ”اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیِو تُم پر افسوس! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخِل ہوتے ہو اور نہ داخِل ہونے والوں کو داخِل ہونے دیتے ہو“ (متّی 23: 13)۔ قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”ایسے بھی ہیں جو پُر شکوہ کلیساؤں میں کتابِ مقدس پڑھتے ہیں اور سارا دن اسے دہراتے ہیں، اس کے باوجود ان میں سے کوئی ایک بھی خدا کے کام کا مقصد نہیں سمجھتا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی خدا کو جاننے کے قابل نہیں ہے، ان میں سے کسی کا خدا کی منشا کے مطابق ہونے کا امکان تو اس سے بھی کم ہے۔ وہ سب کے سب بے وقعت حقیر لوگ ہیں، ہر ایک خدا کو وعظ کرنے کے لیے بلند مرتبے پر ہوتا ہے۔ وہ دانستہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں، حالاں کہ وہ اس کا پرچم اٹھا ئے ہوتے ہیں۔ وہ خدا پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ انسان کا گوشت کھاتے اور خون پیتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ ایسے شیطان ہیں جو انسان کی روح ہڑپ کرتے ہیں، سرغنہ بدروحیں جو صحیح راہ پر چلنے کی کوشش کرنے والوں کی راہ میں جان بوجھ کر رکاوٹ بنتی ہیں اور خدا کی جستجو کرنے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں۔ وہ ’معتبر دستور‘ کی حامل نظر ا ٓسکتی ہیں، مگر ان کے پیروکاروں کو کیسے معلوم ہو کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ مسیح مخالف ہیں جو لوگوں کو خدا کے خلاف کھڑا کر دیتی ہیں؟“ (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ وہ سب لوگ، جو خدا کو نہیں جانتے، وہ لوگ ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں)۔ اسی دوران خدا کے کلام آگاہی اور میرے اپنے ذاتی تجربات کے باعث، میں نے واقعی مذہبی پادریوں کے منافقانہ اور مکروہ چہرے دیکھے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ انجیل کی بہت اچھی تشریح کرتے ہیں، عاجزانہ اور خدائی زندگی گزارتے ہیں، اور ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ خُداوند کے آنے کا انتظار کریں، لیکن اب جب کہ خداوند یسوع واپس آ چکا ہے، اب نہ صرف وہ خدا کا کلام سننے سے انکاری ہیں بلکہ اس کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں، اہل ایمان سے اس لیے لڑتے ہیں کہ انھیں صحیح راستے کی جستجو سے روک سکیں۔ ظاہر ہے، وہ ان فریسیوں کی طرح ہیں جنہوں نے خداوند یسوع کو دن دہاڑے مصلوب کیا تھا۔ وہ سب فاسق ہیں اور فطرتَا سچائی سے نفرت کرتے ہیں، وہ مسیح مخالف ہیں جنھیں خدا کا کام بے نقاب کررہا ہے۔ وہ خدا کے خلاف شیطان کے غلام ہیں۔ ایک بار جب میں نے واضح طور پر پادریوں کی خدا مخالف، سچائی سے نفرت کرنے والی فطرت اور جوہر کو جان لیا تو میں انہیں اچھی طرح پہچان گیا۔ مجھے اب ان کے سطحی اچھے رویے کے ذریعے گمراہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں مسیح مخالف مذہبی قوتوں کے بندھن سے مکمل طور پر آزاد ہو چکا تھا۔ قادرِ مطلق خدا کا شکر ہے!
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟