خدا کی جانب میرے سفر میں حائل رکاوٹیں اور موڑ

April 25, 2023

میں نے 2000ء میں مسیحیت اختیار کی۔ جنوبی کوریا کے پادری اکثر اوقات ہمارے ساتھ وعظ شئیر کرتے۔ ایک اجتماع میں ایک پادری نے دستاویز کا ایک اقتباس پڑھا اور ہمیں بتایا کہ ہر چیز میں ہم رواداری اور صبر سے کام لیں اور یہ کہ یہ وعظ صرف سن لینے سے نہیں بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے سے ہی ہم خدا کے ہاں معزز ہو سکتے ہیں۔ ہم صرف اسی صورت میں آسمان کی بادشاہت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ محبت اور مہربانی کا برتاؤ شروع کر دیا۔ اگر کوئی شخص میرا دل دکھاتا تو میں خداوند سے دعا کرتی کہ وہ اس شخص کو معاف کرنے میں میری مدد فرمائے۔ وہ ایک بار ایسا کرتا یا دو بار مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اس پر ثابت قدم نہ رہ سکی۔ بعض اوقات میں آپے سے باہر ہو جاتی اور انھیں کسی چھوٹی بات پر سنا دیتی۔ جس کے بعد میں خود کو قصوروار سمجھتی۔ بار بار گناہ کرنے اور توبہ کی بدولت میں احساس گناہ سے باہر نہ نکل سکی۔ پھر جب خداوند آئے گا تو کیا مجھے بادشاہت میں لے جایا جائے گا؟ میں نے اپنے پادری سے بات کی کہ گناہ کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اقرار کرو، توبہ کرو، خوب دعائیں مانگو اور انجیل کو زیادہ سے زیادہ پڑھو، اور صبر و تحمل سے کام لو۔ اس نے جب بھی مجھ سے یہ بات کہی، کوئی صحیح راستہ بتائے بغیر کہی، جس سے مجھے مایوسی ہوئی۔ میرے ذہن میں خدا کے الفاظ آئے، ”اِس لِئے تُم مُقدّس ہونا کیونکہ مَیں قُدُّوس ہُوں(احبار 11: 45)۔ اور عبرانیوں میں اس نے فرمایا، ”پاکیزگی کے بغیر کوئی انسان خداوند کو نہیں دیکھے گا(عِبرانیوں 12: 14)۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے جیسے لوگ جو ہمیشہ گناہ کرتے ہیں اور پھر توبہ کرتے ہیں اور خداوند کے کلام پر عمل کے قابل نہیں کبھی آسمان کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ میری مایوسی دن بدن بڑھتی گئی۔ بعد ازاں میں نے دیکھا کہ کلیسیا حسد اور لڑائی کی آماجگاہ ہے۔ وہ بلند مرتبے کے لیے لڑتے، ایک منادی نے ایک پرانے منادی کی انجیل کو اجتماع کے دوران زمین پر پٹخ دیا اور اسے باہر نکال دیا۔ کچھ لوگ تو کلیسیا میں کاروبار کر رہے تھے۔ میرے ذہن میں خداوند یسوع کے الفاظ آئے: ”لِکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر کہلائے گا مگر تُم اُسے ڈاکُوؤں کی کھوہ بناتے ہو(متّی 21: 13)۔ اس طرح کی کلیسیا میں روح القدس کا کام بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ چوروں کا گڑھ نہیں تھا؟ مجھے لگا کہ ان مذہبی اجتماعات سے استحکام نہیں حاصل کیا جاسکتا اور میرے گناہ کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ مجھے کسی ایسے کلیسیا کی تلاش تھی جس میں روح القدس کا کام ہو رہا ہو۔ میری بڑی بہن مجھے چند دوسری کلیسیاؤں میں لے گئی، لیکن ان سب کی بھی یہی حالت تھی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ گناہ سے کیسے بچا جائے کوئی بھی مجھے درست راہ کی نشاندہی نہ کر سکا۔ سب نے یہی کہا کہ خداوند یسوع پہلے ہی ہمیں معاف کرچکا ہے – ہمیں صرف دعا کرنے اور توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنا آپ کھوکھلا محسوس ہوا۔ میں اب مزید اجتماعات میں حاضر نہیں ہونا چاہتی تھی۔ ایک دن اچانک مجھے ایک خیال آیا: شاید خدا یہاں آس پاس کے کلیسیاؤں میں کام نہیں کر رہا؟ جب کوریا کا پادری آیا وہ متقی دکھائی دیتا تھا – وہ کلیسیاؤں کی دیکھ بھال کے لیے چین آرہا تھا۔ اس میں بے پناہ ایمان تھا۔ کیا خدا کوریا کی کلیسیاؤں میں کام کر رہا تھا؟ میں وہاں کوئی ایسی کلیسیا تلاش کروں گی جو روح القدس کا کام کرتی ہو۔

سنہ 2007ء میں میں اور میری بڑی بہن اپنے اہل خانہ کو لے کر کوریا چلے گئے۔ اس نے مجھے ایک کلیسیا کے بارے میں بتایا جہاں بہت سے چینی اجتماعات میں شریک ہوتے تھے۔ کلیسیا کے ممبران چینی لوگوں کی ملازمت تلاش کرنے میں مدد کرتے، جس سے ہمیں بھی روزگار میسر آیا۔ اس کلیسیا کے ممبران واقعی محبت کرنے والے تھے، لہذا میں وہاں اجتماعات میں شریک ہوتی – شاید روح القدس کا کام انہی لوگوں میں تھا۔ اجتماع کے دوران پادری نے کہا ”چین کے اپنے حالیہ سفر میں، میں نے سنا کہ خدا واپس آ چکا ہے، وہ نمودار ہوچکا ہے اور چین میں کام کر رہا ہے اور اسے قادر مطلق خدا کہا جاتا ہے۔ لیکن چین ایک پسماندہ ملک ہے۔ اس کے رہائشی غیر مہذب ہیں۔ خدا بہت عظیم ہے وہ وہاں کیسے نمودار ہو کر کام کر سکتا ہے؟ بہت سے لوگ مشرقی نور کی منادی کر رہے ہیں۔ ان کی بات مت سنو۔ آپ جیسے کم نمو کے حامل لوگ جب ایک بار شامل ہوجاتے ہیں تو پھر کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔“ میں نے جب اس کی یہ بات سنی تو میں پوری طرح متفق ہوگئی۔ چین کی بہت سی کلیسیاؤں میں روح القدس کے کام کا فقدان ہے۔ وہاں کی حکومت اہل ایمان پر ظلم کرتی ہے اور چینی عوام بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ کیا خدا چین میں نمودار ہو سکتا ہے اور کام کر سکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے۔

جلد ہی، مجھے لگا کہ جب پادری فصاحت کے ساتھ منادی کرتا ہے اس کے بعد وہ کیا کرتا ہے وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ وہ خداوند کے راستے پر عمل نہیں کر رہا تھا۔ میں انتہائی دل برداشتہ ہوئی۔ جب میں نے پادری سے پوچھا کہ گناہوں سے کیسے چھٹکارا پایا جائے تو اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ”ہر شخص خطاکار ہے، گناہ کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ خداوند کے سامنے توبہ کرو، تمھیں معاف کر دیا جائے گا۔ اور چونکہ تم توبہ پر آمادہ دکھائی دیتی ہو تو خداوند پہلے ہیں تمھارے گناہوں کو معاف کر چکا ہے۔“ مجھے پادری کی بات پسند نہ آئی۔ وہ بھی وہی بات کیوں کہہ رہا تھا جو چینی پادریوں نے کہی تھی؟ گناہ ایک لمحے میں ختم نہیں ہو سکتا۔ کم از کم کچھ تو تبدیلی ضرور ہونی چاہیے۔ اگر ہم کچھ تبدیلی نہیں لاتے تو اعتراف کرنے کی زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس طرح تو ہم بے ایمانوں جیسے ہی نہیں ہوں گے؟ پھر ایمان لانے کا کیا مطلب ہوا؟ مجھے بار بار مایوسی ہوئی لیکن میں ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ خداوند مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا، ایک دن تو مجھے ایسی کلیسیا ملے گی جو روح القدس کا کام کرتی ہو۔ اس کے بعد میں نے اس مسئلے پر بہت سوچ بچار کی۔ سڑکوں پر چلتے ہوئے، میں مسیحی کلیسیاؤں میں لگےصلیبوں کو تلاش کرتی، اور اگرمجھے کسی واعظ کے بارے میں مثبت باتیں سننے کو ملتیں میں ہوا، بارش اوربرف یا برفانی تہ سے گزرتے ہوئے امید کی کرن لیے اسے سننے اور اپنی الجھن دور کرنے کی خواہش لیے پہنچ جاتی۔ میں نے کوریا کے 40 سے زائد کلیسیاؤں کو دیکھا مجھے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملا جس کے پاس روح القدس کا کام ہو۔ کوئی بھی پادری میرا مسئلہ حل نہ کر سکا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ میری راتوں کی نیند اڑ گئی۔ میں نے دل ہی دل میں دعا مانگی ”اے خداوند، آپ زمین پر کہاں ہو سکتے ہو؟ کیا آپ نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے؟“ ان سالوں میں، میں نے اپنے دل پر ایک بہت بڑا بوجھ محسوس کیا – میں افسردہ اور درد میں مبتلا تھی۔

اسی درد اور مایوسی کے عالم میں جون 2015 میں، میری بڑی بہن میرے گھر آئی اور خوشی کے عالم میں مجھے بتایا، ”میرے پاس بہت اچھی خبر ہے! خداوند بہت پہلے ہی واپس آ چکا ہے۔ وہ نمودار ہوچکا ہے اور چین میں کام کر رہا ہے، بہت سارے سچ کا اظہار کر چکا ہے۔ بشارت اب کوریا پہنچ چکی ہے۔“ میں نے سوچا، ”کیا خدا چین میں کام کر رہا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟“ میں نے ہٹ دھرمی سے کہا، ”ایک پادری نے ہمیں 2009 میں بتایا تھا کہ چین میں خدا کے کام کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی، کیونکہ چین ایک پسماندہ ملک ہے اور وہاں کے لوگ غیر تہذیب یافتہ ہیں۔ خدا قابل احترام اور عظیم ہے – وہ چین میں کیونکر کام کرے گا؟“ پھر میں برتن دھونے چلی گئی۔ اس نے ایک کتاب نکالی اور تحمل سے کہا، ”یہ کتاب، ’برہ کی جانب سے کھولا گیا طومار‘، ہے جس میں آخری ایام میں خدا کے بیان کردہ الفاظ شامل ہیں۔ میں آپ کو اس میں سے کچھ پڑھ کر سناتی ہوں۔“

قادر مطلق خدا کہتا ہے، ”جب یسوع بنی نوع انسان کی دنیا میں آیا تو وہ فضل کے دور میں داخل ہوا اور اس نے شریعت کے دور کا خاتمہ کیا۔ آخری ایام کے دوران، خدا ایک بار پھر مجسم ہو گیا، اور اس مجسم ہونے کے ساتھ اس نے فضل کے دور کو ختم کیا اور بادشاہی کے دور کا آغاز کیا۔ وہ تمام لوگ جو خدا کا دوسری بار مجسم ہونا قبول کرنے کے قابل ہیں وہ بادشاہی کے دور میں لے جائے جائیں گے، اور مزید برآں وہ ذاتی طور پر خدا کی راہنمائی قبول کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اگرچہ یسوع نے انسانوں کے درمیان بہت زیادہ کام کیا، مگراس نے صرف تمام بنی نوع انسان کی خلاصی مکمل کی اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اس نے انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں دلایا۔ انسان کو شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچانے کے لیے نہ صرف یسوع کو گناہ کا کفارہ بننے اور انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خدا انسان کو اس کے شیطانی بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے اس سے بھی بڑا کام کرے۔ اور اس طرح، اب جب کہ انسان کو اس کے گناہوں سے معافی مل گئی ہے تو خدا انسان کو نئے دورمیں لے جانے کے لیے جسم میں واپس آیا ہے اور اس نے سزا اور عدالت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کام نے انسان کو ایک بلند تر عالم میں پہنچا دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کے تسلط کے تابع ہوں گے وہ اعلیٰ سچائی سے لطف اندوز ہوں گے اور عظیم نعمتیں حاصل کریں گے۔ ان کو واقعی روشنی میں رہنا چاہیے، اور سچائی، راستہ اور زندگی حاصل کرنی چاہیے۔

اگر لوگ فضل کے دور میں پھنسے رہیں گے تو خدا کا جبلی مزاج جاننا تو درکنار، وہ کبھی بھی اپنے بدعنوان مزاج سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔ اگر لوگ ہمیشہ فضل کی فروانی کے درمیان رہتے ہیں، لیکن ان کے پاس زندگی کا وہ طریقہ نہیں ہے جو انہیں خدا کو جاننے یا اس کو راضی کرنے میں معاون ہو، تو وہ خدا پر اپنے یقین میں کبھی بھی اسے حقیقی معنوں میں حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اس قسم کا عقیدہ واقعتاً قابل رحم ہے۔ جب تُو اس کتاب کا مطالعہ مکمل کر لے گا، جب تُو بادشاہی کے دور میں مجسم خدا کے کام کے ہر مرحلے کا تجربہ کر لے گا، تو تُو محسوس کرے گا کہ تیری برسوں کی خواہشیں بالآخر پوری ہو گئی ہیں۔ تُو محسوس کرے گا کہ اب حقیقی معنوں میں تُو نے خدا کو روبرو دیکھا ہے؛ صرف اب تُو نے اس کا چہرہ دیکھا ہے، اس کی ذاتی باتیں سنی ہیں، اس کے کام کی حکمت کی تعریف کی ہے، اور واقعی محسوس کیا ہے کہ وہ کتنا حقیقی اور قادر مطلق ہے۔ تُو محسوس کرے گا کہ تُو نے بہت سی ایسی چیزیں حاصل کی ہیں جو ماضی میں لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں اور نہ ہی ان کے پاس تھیں۔ اس وقت، تجھے واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ خدا پر ایمان لانا کیا ہے، اور خدا کی مرضی کے مطابق ہونا کیا ہے۔ بلاشبہ، اگر تُو ماضی کے نظریات سے چمٹا رہے گا، اور خدا کے دوسری مرتبہ مجسم ہونے کی حقیقت کو رد یا اس سے انکار کرے گا، تو تُو خالی ہاتھ رہے گا، کچھ حاصل نہیں کر پائے گا، اور بالآخر تجھے خدا کی مخالفت کرنے کا مجرم قرار دے دیا جائے گا۔ جو لوگ سچائی ماننے اور خدا کے کام کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے اہل ہیں انہیں دوسرے مجسم خدا – قادر مطلق، کے نام کے تحت طلب کیا جائے گا۔ وہ خدا کی ذاتی راہنمائی قبول کرنے، زیادہ اور بلندتر سچائیاں نیز حقیقی زندگی حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔ یہ لوگ ایسے رُویا کا مشاہدہ کریں گے جسے ماضی کے لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا: ’مَیں نے اُس آواز دینے والے کو دیکھنے کے لیے مُنہ پھیرا جِس نے مُجھ سے کہا تھا اور پِھر کر سونے کے سات چراغ دان دیکھے۔ اور اُن چراغ دانوں کے بیچ میں آدمؔ زاد سا ایک شخص دیکھا جو پاؤں تک کا جامہ پہنے اور سونے کا سِینہ بند سِینہ پر باندھے ہُوئے تھا۔ اُس کا سر اور بال سفید اُون بلکہ برف کی مانِند سفید تھے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شُعلہ کی مانِند تِھیں۔ اور اُس کے پاؤں اُس خالِص پِیتل کے سے تھے جو بھٹّی میں تپایا گیا ہو اور اُس کی آواز زور کے پانی کی سی تھی۔ اور اُس کے دہنے ہاتھ میں سات سِتارے تھے اور اُس کے مُنہ میں سے ایک دو دھاری تیز تلوار نِکلتی تھی اور اُس کا چِہرہ اَیسا چمکتا تھا جَیسے تیزی کے وقت آفتاب‘ (مُکاشفہ 1: 12-16)۔ یہ رُویا خدا کے مکمل مزاج کا اظہار ہے، اور اس کے مکمل مزاج کا اظہار خدا کی موجودہ تجسیم میں اس کے کام کا اظہار بھی ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔ یہ سن کر میں ششدر رہ گئی۔ اس سے کتاب وحی کے اسرار و رموز ہویدا ہوئے۔ یہ اس قدر مستند تھی – کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتی۔ میں نے اس اختیار کے بارے میں سوچا جس کے ساتھ خداوند یسوع نے بات کی تھی جب وہ کام کرنے کے لیے آیا اور حیران ہوئی کہ کیا یہ واقعی خدا کا کلام ہے۔ فوراً ہی میری روح کو سرور ملا اور میں نے بغور سننا شروع کر دیا۔ خاص طور پر جب میری بہن نے وحی کی کچھ پیشگوئیاں پڑھیں، میں سوچ رہی تھی کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کی کوئی بھی شخص تشریح کر سکے۔ یہ وحی ہمیں بتاتی ہے کہ ”دیکھ۔ یہُوداؔہ کے قبِیلہ کا وہ بَبر جو داؤُد کی اصل ہے اُس کِتاب اور اُس کی ساتوں مُہروں کو کھولنے کے لِئے غالِب آیا(مُکاشفہ 5: 5)۔ صرف اور صرف برہ، خدا ہی ان رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔ کیا یہ خدا کا کلام ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ چین میں نمودار ہوا ہے اور کام کر رہا ہے؟ کیا مجھے اس کتاب میں اس بات کا جواب مل سکتا ہے جو مجھے کئی سالوں سے پریشان کر رہی تھی؟ میں اس بارے میں بہت متجسس تھی۔ تبھی میری بہن نے یہ پڑھا: ”وہ مکاشفہ کے ان الفاظ کی تکمیل بھی ہیں: ’جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتی ہے۔‘ یہ الفاظ بادشاہی کے دور میں خدا کے شروع کردہ کام کے ابتدائی مرحلے کی نمائندگی کرتے ہیں(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ دیباچہ)۔ اس سے میری دلچسپی اور بڑھ گئی – کیا کتاب وحی میں یہ پیشگوئی موجود نہیں تھی؟ کیا وحی میں بتلائی گئی پیشن گوئیاں پوری ہوئیں؟ کیا یہ خدا کا کلام ہے؟ میں اسے مکمل پڑھنا چاہتی تھی میں نے اپنی بہن سے کہا کہ اسے میرے پاس چھوڑ دو۔ جب اس نے مجھے کتاب دی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میں اسے کھولنے کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن میرے کچھ خدشات تھے۔ کیا یہ کتاب واقعی کتاب مقدس سے مطابقت رکھتی ہے؟ میں نے انجیل اور اس کتاب دونوں کو ساتھ ساتھ بستر پر رکھ کر ان کا موازنہ کیا۔ کتاب میں میں نے یہ اقتباس پڑھا۔ ”جب میں نئے آسمان اور زمین میں داخل ہوتا ہوں، فقط اس وقت اپنے جلال کا دوسرا حصہ لیتا ہوں اور اسے پہلے کنعان کی سرزمین پر ظاہر کرتا ہوں، نتیجتاً روشنی کی کرن چمکتی ہے تاکہ وہ پوری دنیا کوروشن کردے۔ جو کہ رات کی سیاہ تاریکی میں دھنسی ہوئی ہوگی، تاکہ پوری دنیا روشنی میں آسکے، پھر پوری دنیا سے انسان روشنی کی قوت سے طاقت حاصل کرنے کے لیے آ سکیں، تاکہ میرا جلال بڑھنے کا موقع مل سکے اور وہ ہر قوم کے سامنے ازسر نو ظاہر ہوسکے، اورتاکہ پوری انسانیت سمجھ سکے کہ میں بہت پہلے انسانی دنیا میں آچکا ہوں اور بہت پہلے اپنا جلال اسرائیل سے مشرق لے آیا ہوں۔ کیونکہ میرا جلال مشرق سے چمکتا ہے جسے فضل کے زمانے سے آج کے زمانے تک لایا گیا ہے۔ لیکن یہ اسرائیل تھا جہاں سے میں نکلا اور وہاں سے مشرق میں آیا۔ صرف جب مشرق کی روشنی بتدریج سفید ہو جائے گی تو دنیا بھرمیں پھیلی تاریکی روشنی میں بدلنا شروع ہو جائے گی، صرف تب ہی انسان یہ جانیں گے کہ میں بہت پہلے اسرائیل سے جا چکا ہوں اور مشرق میں دوبارہ ابھر رہا ہوں۔ ایک مرتبہ اسرائیل میں نازل ہونے اور بعدازاں وہاں سے روانہ ہونے کے بعد میں دوبارہ اسرائیل میں جنم نہیں لے سکتا ہوں کیونکہ میرا کام پوری کائنات کی راہنمائی کرتا ہے۔ مزید یہ کہ میری آسمانی بجلی مشرق سے براہ راست مغرب تک کوندے گی۔ اس لیے میں مشرق میں اترا ہوں اور کنعان کو مشرق کے لوگوں کی جانب لایا ہوں۔ میں سارے کرہ ارض سے لوگ سرزمین ِ کنعان کی جانب لاؤں گا، تاکہ میں پوری کائنات پر قابو پانے کے لیے کنعان کی سرزمین سے اپنے مزید کلمات جاری کر سکوں۔ اس وقت کنعان کے سوا پوری زمین پر کہیں روشنی نہیں ہے اور تمام انسان بھوک اور ٹھنڈ کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہیں۔ میں نے اپنا جلال اسرائیل کو دیا اور پھر اسے چھین لیا۔ یوں میں بنی اسرائیل اور پوری انسانیت کو مشرق کی جانب لایا۔ میں سب کو روشنی میں لایا ہوں تاکہ یہ سب اس سے دوبارہ متحد ہو سکیں، اس سے ہم آہنگ ہو سکیں اور انھیں اس کی تلاش نہ کرنی پڑے۔ میں ان سب کو، جو تلاش کر رہے ہیں، دوبارہ روشنی اور وہ جلال دیکھنے کا موقع دوں گا جو میں اسرائیل میں رکھتا تھا۔ میں انہیں یہ دیکھنے دوں گا کہ میں بہت پہلے ایک سفید بادل پر بنی نوع انسان کے درمیان اتر آیا ہوں، انہیں بے شمار سفیدبادلوں، پھلوں کو ان کےبے تحاشا گچھوں میں دیکھنے کا موقع دوں گا، اور اس سے بھی بڑھ کرانہیں اسرائیل کا یہوواہ خدا دیکھنے کا موقع دوں گا۔ میں انھیں یہودیوں کے استاد اور قابل اشتیاق مسیحا اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پورے وجود کے دیدار کا موقع دوں گا جسے ہر زمانے کے بادشاہوں نے بہت ستایا ہے۔ میں پوری کائنات پر کام کروں گا اور میں عظیم کام انجام دوں گا، جس سےآخری ایام میں انسانوں پر میرا پورا جلال اور اعمال ظاہر ہو جائیں گے۔ میں ان لوگوں کو اپنے مکمل جلالی چہرے کا دیدار کراؤں گا، انھیں، جنھوں نےمیرے سفید بادل پر آنے کا برسوں طویل انتظار کیا ہے، بنی اسرائیل کو، جو میرے دوبارہ ظاہر ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، اور پوری انسانیت کو جو مجھے ستاتی ہے، تاکہ سب جان جائیں کہ میں نے بہت پہلے اپنا جلال واپس لے لیا تھا اور اسے مشرق میں لے آیا ہوں اور اب یہ مزید یہودیہ میں نہیں ہے۔ کیونکہ آخری ایام پہلے ہی آن پہنچے ہیں!(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ سات گرج دار آوازیں – نبوت کر رہی ہیں کہ بادشاہی کی خُوشخبری پوری کائنات میں پھیل جائے گی)۔ پھر میں نے اس کا موازنہ انجیل کی ایک پیشگوئی سے کیا: ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا(متّی 24: 27)۔ یہ خداوند یسوع کے کلام سے مطابقت رکھتا تھا – یہ مکمل طور پر انجیل سے ملتا تھا۔ خدا کے سوا کون ہے جو ان رازوں سے پردہ اٹھا سکے؟ ان الفاظ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا – میں جتنا زیادہ پڑھتی دل کرتا اور زیادہ پڑھتی جاؤں۔ مجھے لگا کہ اس کتاب میں مجھے اپنے دل کی الجھن کا جواب مل جائے گا۔

اس کے بعد میں نے ایک اور اقتباس پڑھا۔ ”چونکہ ہم خدا کے قدموں کے نشانات تلاش کر رہے ہیں، تو یہ ہمیں خدا کی منشا، خدا کے کلام، اس کے اقوال کی تلاش کا پابند بناتا ہے – کیونکہ جہاں کہیں بھی خدا کے نئے کلمات بولے جاتے ہیں، خدا کی آواز وہاں ہوتی ہے، اور جہاں خدا کے قدموں کے نشانات ہوتے ہیں، خدا کے کام وہیں ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں خدا کا اظہار ہوتا ہے، وہاں خدا ظاہر ہوتا ہے اور جہاں خدا ظاہر ہوتا ہے وہیں سچائی، راستہ اور زندگی موجود ہوتی ہے۔ خدا کے قدموں کے نشانات کی تلاش میں، تم نے یہ الفاظ نظر انداز کیے ہیں کہ ’خدا ہی سچائی، راستہ اور زندگی ہے۔‘ اس طرح بہت سے لوگ جب سچائی حاصل کر لیتے ہیں، تو وہ پھر بھی یہ یقین نہیں کرتے کہ انہیں خدا کے قدموں کے نشانات مل گئے ہیں، اور وہ خدا کا ظہور کم ہی تسلیم کرتے ہیں۔ کتنی سنگین غلطی ہے! خدا کے ظہور کی انسانی اصولوں کے ساتھ موافقت نہیں پیدا کی جا سکتی، خدا انسانی حکم پر کم ہی ظاہر ہوسکتا ہے۔ خدا جب اپنا کام کرتا ہے تو وہ اپنا انتخاب اور اپنے منصوبے خود بروئے کار لاتا ہے؛ مزید برآں، اس کے اپنے مقاصد اور اپنے طریقے ہیں۔ وہ جو بھی کام کرتا ہے، اسے انسان کے ساتھ مشورہ کرنے اور اس کی نصیحت کی ضرورت نہیں ہوتی، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنے کام کے بارے میں مطلع کرے۔ مزید برآں، یہ خدا کا مزاج ہے جسے ہر ایک کو پہچاننا چاہیے، اگر تم خدا کے ظہور کی گواہی دینا چاہتے ہو، اس کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہو، تو پھر تمہیں پہلے اپنے تصورات ترک کرنا ہوں گے۔ تمہیں یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہیے کہ خدا یہ کرے یا وہ کرے، کجا یہ کہ تمہارا اسے اپنی مرضی کی حدود میں یا اپنے نظریات کی حدود میں رکھنا۔ اس کی بجائے، تمہیں اپنے آپ سے یہ تقاضا کرنا چاہیے کہ تمہیں خدا کے قدموں کے نشانات کیسے تلاش کرنے چاہییں، تمہیں خدا کا ظہور کیسے قبول کرنا چاہیے، اور تمھیں خدا کے نئے کام کے سامنے کیسے سر تسلیم خم کرنا چاہیے: انسان کو یہی کرنا چاہیے۔ چونکہ انسان سچائی نہیں ہے اور نہ ہی سچائی کا حامل ہے، اسے جستجو کرنی چاہیے، قبول کرنا چاہیے اور اطاعت کرنی چاہیے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ ضمیمہ 1: خدا کے ظہور نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے)۔ میں نے یہ اقتباس لگاتار دو بار پڑھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ جب خدا کی آواز مل سکتی ہے تو اس کے قدموں کے نشانات بھی مل سکتے ہیں۔ یہ وہی مقام ہے جہاں خدا نے ظاہر ہونا ہے۔ کیا یہ واقعی خدا کا کلام ہے؟ خدا کے سوا کوئی بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ یہ وہی ہے جو وہ لوگ قادر مطلق خدا کی کلیسیا میں پڑھتے ہیں، پس ممکن ہے خدا اسی کلیسیا میں کام کر رہا ہے۔ میں بہت خوش ہوئی اور پڑھنا جاری رکھا۔

بعد میں مجھے یہ اقتباس ملا۔ ”آج، خدا اپنا کام کرنے کے لیے دنیا میں واپس آیا ہے۔ اس کا پہلا پڑاؤ آمرانہ حکمرانی کی مثال: چین ہے، الحاد کا مضبوط گڑھ۔ خدا نے اپنی حکمت اور قدرت سے لوگوں کا ایک گروہ حاصل کیا ہے۔ اس عرصے میں، چین کی حکمران جماعت نے ہر طرح سے اس کا تعاقب کیا ہے اور اسے بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے اپنے سر کو آرام سے ٹکانے کی جگہ نہیں ملی، اسے پناہ گاہ نہیں مل سکی۔ اس کے باوجود، خُدا اب بھی وہ کام جاری رکھے ہوئے ہے جو وہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے: وہ اپنی آواز بلند کرتا ہے اور خوش خبری پھیلاتا ہے۔ خدا کی قدرت کاملہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ خدا نے چین میں، جو ایک ایسا ملک ہے جو خدا کو دشمن مانتا ہے، کبھی اپنا کام بند نہیں کیا۔ اس کی بجائے، مزید لوگوں نے اس کا کام اور کلام قبول کیا ہے، کیونکہ خدا نوع انسانی کے ہر ایک فرد کو جہاں تک ہو سکے بچاتا ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ ضمیمہ 2: خدا تمام نوع انسانی کی تقدیر پر اختیار رکھتا ہے)۔ لیکن جب میں نے یہ حصہ پڑھا، ”آج، خدا اپنا کام کرنے کے لیے دنیا میں واپس آیا ہے۔ اس کا پہلا پڑاؤ آمرانہ حکمرانی کی مثال: چین ہے،“ میں فوری طور پر مایوس ہوئی اور رک گئی۔ ان دو جملوں پر نظریں جمائے میں یہی سوچتی رہی، ”خدا چین میں ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ شاید مجھے اسے نہیں پڑھنا چاہیے – اگر میں گمراہ ہوگئی تو کیا ہوگا؟“ لیکن پھر میں نے سوچا یہ الفاظ خدا کی آواز لگ رہے ہیں۔ اگر میں نے اس پر غور نہ کیا اور خداوند واقعی واپس آ چکا ہے تو کیا میں اپنا موقع گنوا نہ بیٹھوں گی؟ میں خود کو ناقابل یقین حد تک شکستہ محسوس کر رہی تھی اور حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکی: خدا چین میں کیونکر نمودار ہوگا اور کیونکر کام کرے گا؟ میں نے اس کا موازنہ انجیل سے کیا اور خداوند یسوع نے جو کچھ کہا وہ پڑھا: ”کیونکہ جَیسے بِجلی پُورب سے کَوند کر پچّھم تک دِکھائی دیتی ہے وَیسے ہی اِبنِ آدمؔ کا آنا ہو گا(متّی 24: 27)۔ کیا ”مشرق“ سے مراد چین ہے؟ لیکن چین انتہائی پسماندہ ملک ہے، جس میں لادینیت کا دور دورہ ہے۔ کیا خدا چین میں نمودار ہو سکتا ہے اور کام کر سکتا ہے؟ اس کتاب میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ میں پھر بھی تذبذب کا شکار تھی – کیا میں اسے پڑھتی رہوں یا چھوڑ دوں؟ پھر میں نے سوچا کہ میں نے ان تمام سالوں میں اپنی تلاش میں کس قدر جدوجہد کی ہے۔ لہٰذا جب تک امید کی ایک بھی کرن موجود ہے، میں ہمت نہیں ہار سکتی۔ لہذا میں نے تحقیقات کے لیے قادر مطلق خدا کی کلیسیا جانے کا فیصلہ کیا۔

اگلے روز، میں قادر مطلق خدا کی کلیسیا گئی۔ ایک بھائی آدھا وعظ کر چکا تھا، اور بالکل وہی کچھ بتا رہا تھا جو میں سوچ رہی تھی کہ – گناہ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ وہ قادر مطلق خدا کا کلام پڑھ رہا تھا۔ ”فضل کے دور میں ہاتھ رکھنے اور دعا کی وجہ سے بدروحوں کو انسان سے نکال دیا گیا تھا، لیکن بدعنوان مزاج پھر بھی انسان میں موجود رہا۔ انسان اپنی بیماری سے صحت یاب کر دیا گیا تھا اور اس کے گناہ معاف کر دیے گئے تھے، مگر یہ کام ابھی کیا جانا باقی تھا کہ انسان اپنے اندر کے بدعنوان شیطانی مزاج پر کیسے قابو پائے۔ انسان صرف اپنے ایمان کی بدولت بچایا گیا تھا اور اس کے گناہ معاف کر دیے گئے تھے، مگر انسان کی گناہ گار فطرت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور اب بھی اس کے اندر موجود ہے۔ انسان کے گناہوں کو مجسم خُدا کی وساطت سے معاف کر دیا گیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ انسان کے اندر اب گناہ باقی نہیں رہا۔ گناہ کے کفارے کے ذریعے انسان کے گناہ معاف کیے جا سکتے ہیں، لیکن انسان کو مزید گناہ کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے، اور اس کی گناہ گار فطرت کو کس طرح مکمل طور پر ختم کر کے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ انسان کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا تھا، اور یہ خدا کے مصلوب ہونے کے عمل کی وجہ سے ہوا ہے، لیکن انسان اپنے سابقہ شیطانی مزاج میں زندگی بسر کرتا رہا۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، انسان کو اس کے بدعنوان شیطانی مزاج سے مکمل طور پر بچانا چاہیے، تاکہ اس کی گناہ گار فطرت مکمل طور پر ختم ہو جائے، دوبارہ کبھی پروان نہ چڑھے، اس طرح انسان کے مزاج کو تبدیلی کے قابل بنائے۔ اس کے لیے انسان کو زندگی میں ترقی کا راستہ سمجھنے، زندگی کا طریقہ سمجھنے اور اپنا مزاج بدلنے کا راستہ سمجھنے کی ضرورت ہو گی۔ علاوہ ازیں، انسان کو اس راستے کے مطابق عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہو گی، تاکہ اس کا مزاج بتدریج بدل جائے اور وہ روشنی کی چمک کے نیچے زندگی گزار سکے، تاکہ اس کا ہر عمل خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ تاکہ وہ اپنے بدعنوان شیطانی مزاج سے جان چھڑا سکے، اور تاکہ وہ شیطان کی ظلمت کے اثر سے آزاد ہو سکے، اور یوں گناہ سے مکمل طور پر دور ہو سکے۔ تب ہی انسان کو مکمل نجات ملے گی(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کی تجسیم کا راز (4))۔

اس نے رفاقت کی، ”ہم قادر مطلق خدا کے کلام سے دیکھ سکتے ہیں کہ فضل کے دور میں، خدا نے صرف نجات کا کام کیا۔ خداوند یسوع نے بادشاہت کی بشارت کو عام کیا اور لوگوں کو اقبال جرم کرنے اور توبہ کرنے کا کہا۔ اس نے بیماروں کو شفا بخشی، بدروحوں کو نکال باہر کیا اور لوگوں کے گناہوں کو معاف کر دیا۔ اس نے انسانیت پر لامحدود فضل بھی کیا۔ آخر کار، اسے تمام انسانوں کے گناہوں کے بدلے مصلوب کیا گیا۔ اس کے بعد سے، ہم گناہ معاف ہونے اور خدا کے فضل و مہربانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ہمیں صرف دعا اور اعتراف جرم کرنا ہے۔ فضل کے دور میں یہ خداوند یسوع کا کام تھا۔ تو کیا خداوند یسوع کی نجات کی تکمیل کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی نجات کا کام مکمل ہوچکا؟ بالکل بھی نہیں۔ نجات کے کام کے سبب فقط ہمارے گناہ معاف ہوئے، لیکن ہمارے گناہ اور ہماری گنہگار فطرت کی جڑ یں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ ہم اب بھی مسلسل گناہ کرنے سے نہیں رک سکتے۔ ہم مغرور ہیں، دکھاوا کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں۔ بعض اوقات ہم میں حسد اور نفرت جیسی چیزیں محسوس کرتے ہیں۔ ہم دن بھر حالتِ گناہ میں رہتے ہیں اور رات کو اعتراف کرتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو گناہوں سے نہیں بچا سکے۔ عبرانیوں 12: 14 میں ارشاد ہے ’پاکیزگی کے بغیر کوئی انسان خداوند کو نہیں دیکھے گا۔‘ خدا مقدس اور راستباز ہے۔ ہم اس قدر گندے اور گناہگار کیسے ہیں، کیا ہم آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق ہیں؟ قادر مطلق خدا آخری ایام میں آیا ہے سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے اور فیصلے کا کام مکمل کر رہا ہے، ہماری گنہگار جبلت کو ختم کرنے کےلیے، تاکہ ہم گناہ کے بندھنوں اور سختیوں کو مکمل طور پر مٹانے والے بن جائیں اور پاک ہو جائیں، اور تاکہ ہمیں خدا کی بادشاہت میں پہنچا دیا جائے یہ خداوند یسوع کی پیشن گوئیوں کو یوں پورا کرتا ہے: ’مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا(یُوحنّا 16: 12-13)۔ ’مَیں دُنیا کو مُجرِم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہُوں۔ جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبُول نہیں کرتا اُس کا ایک مُجرِم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام مَیں نے کِیا ہے آخِری دِن وُہی اُسے مُجرِم ٹھہرائے گا(یُوحنّا 12: 47-48)۔ آخری ایام میں قادر مطلق خدا نے لاکھوں الفاظ کہے ہیں، انسانیت کی پاکی اور مکمل نجات کے لیے تمام ضروری سچائیوں کو آشکار کیا ہے وہ ہمارے تمام خدا مخالف بدعنوان مزاجوں اور ہماری شیطانی جبلت کو پرکھتا ہے اور اسے طشت از بام کرتا ہے۔ ہمارے گناہوں اور خدا کے مقابل مزاحمت کی جڑ کو مکمل طور پر آشکارا کرتا ہے۔ وہ ہمیں گناہوں سے چھٹکارا پانے اور نجاتِ خدا کے حصول کی راہ دکھلاتا ہے۔ اپنی بدعنوانی کی حقیقت کو دیکھنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا کے فیصلے اور تادیب کو قبول کریں، ہم صرف اسی صورت میں اپنے کیے پر پچھتا سکتے ہیں، اپنے آپ سے نفرت کر سکتے ہیں اور خدا سے توبہ کر سکتے ہیں، جب ہم بد عنوانی سے آزاد اور پاک رہ سکیں۔ آخری ایام میں خدا کے فیصلے کا کام ہی ہمارے خالص ہونے، خلاصی اور آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کا واحد راستہ ہے۔“

اس بھائی کی بات سن کر میری آگہی میں اضافہ ہوا گویا میرے کندھوں سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند یسوع نے نجات کا کام کیا گناہ کے کفارے کے ذریعے انسانوں کے تمام گناہوں کو بخش دیا گیا لیکن ان میں گناہ کی جبلت ابھی باقی ہے۔ آخری ایام میں خدا کے فیصلے کے کام کو قبول کرنا ہی گناہوں سے چھٹکارے کا واحد راستہ ہے، گناہوں کے بندھن اور رکاوٹوں سے بچنے کے لیے پاکی اختیار کرو، اور خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے قابل بن سکو۔ صرف خدا ہی اپنے انتظامی کام کے اسرار کو ظاہر کر سکتا ہے، اور صرف خدا ہی انسان کو مکمل طور پر پاک کر سکتا اور بچا سکتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ یہی خدا کا کام ہے – میں انتہائی پرجوش تھی۔

اگلے دن قادر مطلق خدا کی کلیسیا کی ایک بہن نے مجھے خدا کے کلام کا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا۔ ”آخری ایام کا مسیح انسان کو سکھانے، انسان کا مادّہ منکشف کرنے، اور انسان کے قول و فعل پرکھنے کے لیے مختلف قسم کی سچائیوں کا استعمال کرے گا۔ یہ الفاظ مختلف سچائیوں پر مشتمل ہیں، جیسا کہ انسان کا فرض کیا ہے، انسان کو خدا کی اطاعت کیسے کرنی چاہیے، انسان کو خدا کا وفادار کیسے ہونا چاہیے، انسان کو معمول کی انسانیت والی زندگی کیسے گزارنی چاہیے نیز خدا کی حکمت اور مزاج وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ انسان کے مادے اور اس کے بدعنوان مزاج پر مبنی ہیں۔ خاص طور پر وہ الفاظ جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسان خدا کو کیسے ٹھکراتا ہے، اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ انسان شیطان کا مجسم کیسے ہے اور خدا کے خلاف ایک دشمن قوت ہے۔ اپنا عدالت کا کام انجام دینے میں، خدا صرف چند الفاظ سے انسان کی فطرت واضح نہیں کرتا؛ وہ اسے بے نقاب کرتا ہے، اس سے نمٹتا ہے، اور طویل مدت کے لیے اس کی تراش خراش کرتا ہے۔ منکشف کرنے، نمٹنے اور تراش خراش کے ان تمام مختلف طریقوں کو عام الفاظ سے نہیں بدلا جا سکتا، بلکہ صرف سچائی ہی اس کا متبادل ہے جس سے انسان بالکل عاری ہے۔ صرف یہ طریقے ہی عدالت کہے جا سکتے ہیں؛ صرف اس قسم کے فیصلوں کے ذریعے ہی انسان کو محکوم اور خدا کے بارے میں مکمل طور پر قائل کیا جا سکتا ہے اور خدا کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا کام جو چیز لاتا ہے وہ انسان کا خدا کی حقیقی معرفت اور اپنی سرکشی کی سچائی حاصل ہونا ہے۔ عدالت کا کام انسان کو خدا کی مرضی، خدا کے کام کے مقصد، اور ان رازوں کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جو اس کے لیے ناقابلِ ادراک ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو اپنے بدعنوان جوہر اور اس بدعنوانی کی جڑوں، نیز انسان کی بدصورتی پہچاننے کے قابل بناتا ہے۔ یہ تمام اثرات عدالت کے کام سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ اس کام کا جوہر دراصل سچائی، راہ اور خدا کی زندگی کو ان تمام لوگوں کے لیے کھولنے کا کام ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ مسیح عدالت کا کام سچائی کے ساتھ کرتا ہے)۔ اسے پڑھنے کے بعد، اس نے میرے ساتھ رفاقت اور گواہی کا اشتراک کیا جس سے مزید وضاحت ہوئی۔ آخری ایام میں، خدا سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے اور انسان کی گنہگار فطرت کا علاج کرکے جانچ کا کام کر رہا ہے۔ اگر ہم خدا کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے، تو چاہے ہم اپنی پوری زندگی دین کی پیروی میں گزار دیں، ہم گناہوں سے نہ ہی بچ سکتے اور نہ ہی پاک ہو سکتے ہیں۔ خدا کی رحمت اور فضل کی بدولت مجھے آخر کار گناہ سے پاک ہونے کا راستہ مل گیا۔ میں اس قدر خوش تھی کہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ پائی۔ میں نے پچھلے آٹھ سالوں میں سوچا کہ میں کس طرح ان گنت، بڑے اور چھوٹے، کلیسیاؤں میں گھومتی رہی تاکہ گناہ سے چھٹکارا پا کر آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونے کا راستہ تلاش کر سکوں۔ لیکن ہر بار میں ایک امید کے ساتھ داخل ہوتی اور مایوس ہو کر لوٹتی۔ یہ خدا کا فضل ہی تھا جس نے مجھے اس کی آواز سننے اور اس کی ظاہری شکل دیکھنے کی توفیق بخشی۔ میں ناقابل یقین حد تک با سعادت تھی! مجھے لگا جیسے ایک گمشدہ بچہ برسوں بھٹکنے کے بعد آخر کار اپنی ماں کے پاس لوٹ آیا ہو۔ میں نا قابل بیان احساس خوشی اور اطمینان سے معمور ہو گئی۔

تاہم، مجھے ابھی بھی ایک ایسی الجھن تھی جو حل نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اس بہن سے پوچھا، ”چینی لوگ انتہائی غیر تہذیب یافتہ اور خدا کے منکر ہیں۔ خدا آخری ایام میں وہاں کیسے آ سکتا ہے اور کام کر سکتا ہے؟“ اس نے مجھے قادر مطلق خدا کا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا۔ ”یہوواہ کا کام دنیا کی تخلیق تھی، یہ ابتدا تھی؛ کام کا یہ مرحلہ کام کا آخر ہے، اور یہ اختتام ہے۔ شروع میں، خدا کا کام اسرائیل کے منتخب کردہ لوگوں کے درمیان کیا گیا تھا، اور یہ تمام مقامات میں سے مقدس ترین مقام پر ایک نئے بہت اہم دور کا آغاز تھا۔ دنیا کا فیصلہ کرنے اور دور کو ختم کرنے کے لیے کام کا آخری مرحلہ تمام ممالک میں سب سے زیادہ ناپاک ملک میں کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں، خدا کا کام تمام مقامات میں سے روشن ترین مقام پر کیا گیا تھا، اور آخری مرحلہ تمام مقامات میں سے تاریک ترین مقام پر کیا گیا ہے، اور اس تاریکی کو باہر نکال دیا جائے گا، روشنی کو آگے لایا جائے گا، اور تمام لوگ فتح کر لیے جائیں گے۔ جب سب مقامات سے زیادہ اس ناپاک اور تاریک ترین مقام کے لوگ فتح کر لیے جائیں گے، اور پوری آبادی تسلیم کر لے گی کہ ایک خدا موجود ہے، جو کہ حقیقی خدا ہے، اور ہر شخص پوری طرح قائل ہو جائے گا، تب اس حقیقت کو پوری کائنات میں فتح کے کام کو انجام دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ کام کا یہ مرحلہ علامتی ہے: ایک بار جب اس دور کا کام ختم ہو جائے گا تو چھ ہزار سالہ انتظام کا کام مکمل طور پر اختتام پذیر ہو جائے گا۔ ایک بار جب تمام مقامات میں سے تاریک ترین مقام پر رہنے والے لوگ فتح کر لیے جائیں گے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پھر ہر جگہ ایسا ہی ہو گا۔ اس طرح، صرف چین میں ہی فتح کا کام ایک بامعنی علامت ہے۔ چین تاریکی کی تمام قوتوں کی مجسم شکل ہے، اور چین کے لوگ ان تمام لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو گوشت پوست کے ہیں، شیطان کے ہیں، اور گوشت اور خون کے ہیں۔ یہ چینی لوگ ہیں جنھیں عظیم سرخ اژدہے نے سب سے زیادہ بدعنوان بنا دیا ہے، جو خدا کے سخت ترین مخالف ہیں، جن کی انسانیت سب سے زیادہ بُری اور ناپاک ہے، اور اسی وجہ سے وہ تمام بدعنوان انسانیت کا نمونہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے ممالک میں قطعاً کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ انسان کے تصورات ایک جیسے ہیں اور ان ممالک کے لوگ اگرچہ اچھی صلاحیت کے مالک ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہ خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو یہ لازمی ایسا ہی ہے جیسے وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ۔۔۔ ایسا ہے کہ چین کے لوگوں میں بدعنوانی، ناپاکی، ناراستی، مخالفت اور سرکشی اپنی تمام مختلف شکلوں میں مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے اور نمایاں ہے۔ ایک طرف وہ کمزور صلاحیت کے مالک ہیں اور دوسری طرف ان کی زندگی اور ذہنیت پسماندہ ہے، اور ان کی عادات، سماجی ماحول، پیدائشی خاندان – سب غریب اور پسماندہ ہیں۔ ان کی حیثیت بھی پست ہے۔ اس جگہ کا کام علامتی ہے اور اس آزمائشی کام کو مکمل طور پر انجام دینے کے بعد خدا کا اگلا کام بہت آسان ہو جائے گا۔ اگر کام کا یہ مرحلہ مکمل کیا جا سکتا ہے تو اس کے بعد کا کام بغیر کہے ہو جائے گا۔ ایک بار کام کا یہ مرحلہ مکمل ہو جائے تو عظیم کامیابی مکمل طور پر حاصل ہو جائے گی، اور پوری کائنات میں فتح کا کام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ درحقیقت، ایک بار تمہارے درمیان کام کامیاب ہو گیا تو یہ پوری کائنات میں کامیابی کے مترادف ہو گا۔ یہ اس بات کی اہمیت ہے کہ کیوں میں نے تمہیں ایک مثال اور نمونے کے طور پر پیش کیا ہے(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ خدا کے کام کی بصیرت (2))۔ پھر اس نے رفاقت کی، ”خدا کے الفاظ بہت واضح ہیں خدا کا آخری ایام میں چین میں ظاہر ہونا اور کام کرنا انتہائی معنی خیز ہے۔ اب خدا کا کام جانچ اور پاکی ہے۔ وہ انسان کی خدا مخالف، شیطانی فطرت اور ہمارے مختلف بدعنوان مزاجوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ ہمیں اپنا راستباز، عالیشان اور غضبناک مزاج دکھا رہا ہے تاکہ وہ کسی مخالفت کو برداشت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ایک مثال قائم کرنے کے لیے انتہائی بدعنوان اور منکرین خدا لوگوں کا انتخاب کرنا پڑا۔ ایسے لوگوں میں کام کرنا انسانیت میں ہر طرح کی بدعنوانی کو آشکارا کرنے کا واحد ذریعہ ہے اور جس سے اس کے تقدس اور راستبازی کا بہتر مظاہرہ ہوگا۔ یوں وہ اپنی جانچ کے کام کے بہترین نتائج حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین عظیم سرخ ڈریگن کی آماجگاہ ہے۔ عظیم سرخ ڈریگن شیطان کا مجسم ہے – یہ وہ لوگ ہیں جنھیں شیطان نے سب سے زیادہ بدعنوان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین دنیا میں برائی کا محور ہے اور چینی سب سے زیادہ بدعنوان لوگ ہیں۔ وہ حد سے زیادہ خدا کے منکر ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں اور بدترین انسانیت کے حامل ہیں۔ چینی بدعنوان انسانیت کی علامت ہیں۔ خدا کا چین میں ظاہر ہونا، کام کرنا اور سچائی کا اظہار کرنا، چینی عوام کی پوری بدعنوانی اور سرکشی کو بے نقاب کرتا ہے انسانوں کو بہتر طور پر فتح کیا جاسکتا ہے۔ اس میں زیادہ مؤثر طریقے سے اس بات کی حقیقت اور سچائی دکھائی جا سکتی ہے کہ شیطان نے انسان کو کتنی گہرائی سے بدعنوان کیا ہے۔ اس کے علاوہ گندے ترین، بدعنوان ترین اور خدا دشمن ملک میں کام کر کے، چین کے سب سے زیادہ غیر مہذب، انتہائی بدعنوان لوگوں کو فتح کرکے، خالص کرکے اور تبدیل کرکے، دوسرے ممالک کے لوگوں کو آسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔ خدا کا اس طرح کام کرنے سے تمام انسانوں کو خدا کی عظیم طاقت کو دیکھنے اور مکمل طور پر قائل ہونے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اس سے خدا کے اختیار اور طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی حکمت اور قدرت کا بھی پتہ چلتا ہے۔“

اس کے بعد، اس نے خدا کا مزید کلام پڑھا۔ ”چینی لوگ کبھی بھی خدا پر ایمان نہیں لائے۔ انہوں نے کبھی یہوواہ کی خدمت نہیں کی اور نہ ہی کبھی یسوع کی خدمت کی ہے۔ وہ صرف تعظیمی سجدہ کرتے ہیں، لوبان، چینی بت کا کاغذ جلاتے ہیں، اور مہاتما بدھ کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ فقط بتوں کی پوجا کرتے ہیں – وہ سب انتہائی باغی ہیں۔ لہٰذا لوگوں کا مرتبہ جتنا کم ہوتا ہے، اتنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا تم سے جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ بس عظمت ہی ہے۔ ۔۔۔ انسانی تصورات کے مطابق، مجھے ایک شائستہ ملک میں پیدا ہونا پڑے گا تاکہ یہ ظاہر کر سکوں کہ میں اعلیٰ مرتبے کا حامل ہوں، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں بہت قابل قدر ہوں، اپنا وقار، تقدس اور عظمت ظاہر کرنے کے لیے۔ اگر میں کسی ایسی جگہ پیدا ہوا ہوتا جہاں مجھے تسلیم کیا جاتا، ایک اشرافیہ گھرانے میں، اور اگر میں اعلیٰ حیثیت اور مقام کا حامل ہوتا، تو میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا جاتا۔ اس سے میرے کام کو کوئی فائدہ نہ ہوتا، اور کیا اس طرح کی عظیم نجات پھر بھی ظاہر ہوسکتی تھی؟ جو لوگ مجھے دیکھتے ہیں وہ میری اطاعت کریں گے اور وہ نجاست سے آلودہ نہیں ہوں گے۔ مجھے کسی ایسی جگہ پر پیدا ہونا چاہیے تھا۔ تم اسی پر یقین رکھتے ہو۔ لیکن اس کے بارے میں سوچو: کیا خدا زمین پر لطف اندوز ہونے کے لیے آیا تھا، یا کام کرنے کے لیے؟ اگر میں اس طرح کی سہل، آرام دہ جگہ پر کام کرتا، تو کیا میں اپنی پوری عظمت حاصل کر سکتا تھا؟ کیا میں اپنی ساری مخلوق فتح کر سکوں گا؟ جب خدا زمین پر آیا، تو وہ دنیا کا نہیں تھا، اور وہ دنیا سے لطف اندوز ہونے کے لیے جسم نہیں بنا تھا۔ وہ جگہ جہاں کام کرنا اس کا مزاج ظاہر کرے گا اور سب سے زیادہ بامعنی خیز ہو گا، وہ وہی جگہ ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ چاہے وہ مقدس ہو یا غلیظ زمین، اور چاہے وہ کہیں بھی کام کرے، وہ مقدس ہے۔ دنیا کی ہر چیز اس نے پیدا کی تھی، اگرچہ یہ سب شیطان کے ذریعہ خراب کر دی گئی ہے۔ تاہم، تمام چیزیں اب بھی اس کی ملکیت ہیں۔ یہ سب اس کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ ایک گندے ملک میں آتا ہے اور وہاں کام کرتا ہے تاکہ اپنا تقدس ظاہر کر سکے۔ وہ یہ صرف اپنے کام کی خاطر کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس غلیظ سرزمین کے لوگوں کو بچانے کے لیے ایسا کام کرنے میں بہت ذلت برداشت کرتا ہے۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کی خاطر گواہی دی جا سکے۔ اس طرح کا کام لوگوں کو خدا کی راستبازی دکھاتا ہے، اور یہ خدا کی بالادستی بہتر طور پر ظاہر کرتا ہے۔ اس کی عظمت اور راستبازی کا اظہار کمترلوگوں کے ایک ایسے گروہ کی نجات میں ہوتا ہے جنھیں دوسرے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ غلیظ زمین میں پیدا ہونے سے یہ بالکل بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کم مرتبہ ہے؛ یہ صرف تمام مخلوق کو اس کی عظمت اور بنی نوع انسان کے لیے اس کی سچی محبت ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جتنا زیادہ وہ ایسا کرتا ہے، اتنا ہی اس سے اس کی خالص محبت، انسان کے لیے اس کی بے عیب محبت ظاہر ہوتی ہے۔ خدا مقدس اور راستباز ہے۔ اگرچہ وہ ایک غلیظ سرزمین میں پیدا ہوا تھا، اور اگرچہ وہ ان لوگوں کے ساتھ رہتا ہے جو غلاظت سے بھرے ہوئے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے یسوع فضل کے دور میں گنہگاروں کے ساتھ رہتا تھا، کیا اس کا ہر کام پوری بنی نوع انسان کی بقا کی خاطر نہیں کیا جاتا ہے؟ کیا یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ بنی نوع انسان عظیم نجات حاصل کر سکے؟ دو ہزار سال پہلے، وہ کئی سالوں تک گنہگاروں کے ساتھ رہا۔ یہ خلاصی کی خاطر تھا۔ آج، وہ گندے، گھٹیا لوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ رہ رہا ہے۔ یہ نجات کی خاطر ہے۔ کیا اس کا سارا کام تم انسانوں کے لیے نہیں ہے؟ اگر وہ بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے نہیں ہوتا، تو وہ ایک چرنی میں پیدا ہونے کے بعد اتنے سالوں تک گنہگاروں کے ساتھ کیوں رہتا اور تکلیف اٹھاتا؟ اور اگر نوع انسانی کو بچانے کے لیے نہیں، تو وہ دوسری بار جسم میں واپس کیوں آئے گا، اس ملک میں کیوں پیدا ہو گا جہاں شیطان اکٹھے ہوتے ہیں، اور ان لوگوں کے ساتھ کیوں رہے گا جو شیطان کے ہاتھوں بری طرح خراب ہو چکے ہیں؟ کیا خدا قول کا پکا نہیں ہے؟ اس کے کام کا کون سا حصہ بنی نوع انسان کے لیے نہیں ہے؟ کون سا حصہ تمھاری تقدیر کے لیے نہیں تھا؟ خدا مقدس ہے – یہ ناقابل تغیر ہے! وہ غلاظت سے آلودہ نہیں ہے، اگرچہ وہ ایک غلیظ سرزمین میں آیا ہے۔ اس سب کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ خدا کی بنی نوع انسان کے لیے محبت انتہائی بے لوث ہے اور جو تکلیف اور ذلت وہ برداشت کرتا ہے وہ بہت بڑی ہے!(کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ موآب کی اولاد کو بچانے کی اہمیت)۔

پھر اس نے رفاقت کی: ”خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ خدا كا آخری ایام میں جسم ہونا، چین میں ظاہر ہونا اور کام کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ چینی وہ لوگ ہیں جو خدا کی سب سے زیادہ مخالف اور اس سے نفرت کرنے والے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ صلاحیت اور انسانیت کا فقدان ہے، لیکن خدا وہاں انسانی شکل میں ظاہر ہو كر کام کرنے کے لیے چین آیا، تاکہ ناقابل یقین برداشت، صبر اور سچائی کا اظہار کر سکے۔ خدا نے گندے اور بدعنوان ترین لوگوں کو بچانے کے لیے بے پناہ خفت برداشت کی۔ اس سے مزید پتہ چلتا ہے کہ خدا کس قدر مہربان اور پوشیدہ ہے، اور ہمیں اپنا تقدس، راستبازی اور انسانیت کے لیے اپنی بے لوث اور سچی محبت دکھاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ خدا مخلوق کا رب ہے۔ وہ کسی بھی ملک میں، کسی بھی قوم میں اپنا کام کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس ملک میں ظاہر ہوتا ہے اور کس میں کام کرتا ہے، اس کا کام پوری انسانیت کے لیے ہے – جو پوری انسانیت کو بچانے کے لیے ہے۔ آخری ایام میں قادر مطلق خدا نمودار ہوچکا ہے اور چین میں کام کر رہا ہے اور سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے۔ اس نے پہلے ہی غالب آنے والوں کا ایک گروہ بنا لیا ہے، اور اب اس کی بشارت پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ قادر مطلق خدا کا کام اور الفاظ ایک عظیم روشنی کی مانند ہیں جو مشرق سے لے کر مغرب تک ہر سو چمک رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ خدا کی آواز سن رہے ہیں، قادر مطلق خدا کی طہارت اور نجات کو قبول کرتے ہوئے ریوڑوں کی صورت میں خدا کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے تصورات اور تخیلات کی پیروی کریں یہ سوچیں کہ چونکہ خدا کے کام کے پچھلے دو مراحل اسرائیل میں تھے، وہ بنی اسرائیل کا خدا ہے اور چین میں نمودار ہو کر کام نہیں کرسکتا۔ تو کیا یہ اسے محدود نہیں کر رہا؟ خدا نے کہا، ’قَوموں میں میرے نام کی تمجِید ہو گی(ملاکی 1: 11)۔ تو پھر یہ کیسے پورا ہوگا؟ آخری ایام میں، خدا جسم بن کر چین میں کام کر رہا ہے، جہاں لادینیت عروج پر ہے، مکمل طور پرانسانی تصورات کو توڑتا ہے۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا ہی نہیں، بلکہ وہ غیر یہودیوں کا بھی خدا ہے۔ وہ تمام انسانیت کا خدا ہے، کسی ایک ملک یا ایک قوم کے لیے نہیں۔ چین میں خدا کا مجسم ہونا، وہاں ظاہر ہونا اور کام کرنا، ناقابل یقین حد تک معنی خیز ہے!“

اس کی رفاقت سن کر مجھے واقعی شرمندگی محسوس ہوئی۔ میں خدا کے کام کو نہیں سمجھی تھی، بلکہ پادریوں کا ساتھ دے کر خدا کو محدود کیا یہ سوچتے ہوئے کہ وہ ممکنہ طور پر چین میں کام نہیں کر سکتا۔ میں کس قدر ہٹ دھرم اور بے خبر تھی! اس کے بارے سوچنا ہی وحشتناک ہے۔ شکر ہے خدا نے فضل کیا، میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے اس کی آواز سنی اور آخری ایام میں اس کے کام کو قبول کیا۔ ورنہ میں ابھی تک اپنے تصورات کی بنیاد پر خدا کو محدود، اس کی ظاہری شکل اور کام کی مذمت کر رہی ہوتی، اور مجھے اس کی نجات کے حصول کی کوئی امید نہ ہوتی۔ میں خدا کی نجات ملنے پر اپنے دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ میرا ذاتی طور پر تجربہ کیا جو خداوند یسوع نے فرمایا: ”اور جو ڈُھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا(متّی 7: 8)۔ یہ کلام کس قدر حقیقی ہے اور خدا ایمان دار ہے۔ جب تک ہم جستجو کریں خدا ہماری راہنمائی کرے گا اور ہمیں آگہی دے گا۔ قادر مطلق خدا کا بہت بہت شکریہ!

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

آخر کار میں نے خدا کی آواز سنی

جب میں جوان تھا تو میرے پاس بہت سی مختلف ملازمتیں تھیں۔ میں وینزویلا کے شہر سوکری کی ریاستی حکومت کا پے رول سپروائزر تھا۔ مجھے پے رول کے...

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp