کیا مکمل انجیل خدا کی الہام کردہ ہے؟
1998میں میرا کزن یانگ مجھے خداوند یسوع کی انجیل میں شریک کرنے آیا۔ وہ میرے لیے انجیل کا نسخہ لے کر آیا، اور مجھے بتایا کہ پوری انجیل خدا کی الہام کردہ ہے، اوریہ کہ اس کے اندر موجود ہر چیز خدا کا کلام ہے، اور یہ کہ اس کے اندر خدا کی بادشاہی اور ابدی زندگی کا راستہ موجود ہے۔ یہ سن کر کہ میں ابدی زندگی فوری طور پر حاصل کر سکتا ہوں میرے تجسس میں اضافہ ہو گیا، اور اس کے بعد، جب بھی مجھے وقت ملا میں نے انجیل پڑھی۔ مجھے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ خداوند یسوع انسانیت کا نجات دہندہ ہے اور میں نے اسے قبول کر لیا۔ چونکہ میں خدا کو پانے کا آرزو مند تھا، اس لیے بعد میں، میں ایک ساتھی کارکن بن گیا اور کلیسا کے لیے مسیحیت کی تعلیم اور وعظ کا کام شروع کر دیا۔ مجھے پختہ یقین تھا کہ انجیل میرے ایمان کی بنیاد اور راہنما ہے۔
چند برسوں میں، چرچ خشک ہو گیا اور روح القدس کے کام کو محسوس کرنا روزافزوں مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ زیادہ تر اہل ایمان غیر فعال اور کمزور تھے، ان کا ایمان ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور بہت سے لادین دنیا میں واپس بھی آ گئے تھے۔ ان سب باتوں کا سامنا کرنے سے مجھے بے چینی اور بے بسی کا احساس ہونے لگا اور میرے دل میں کمزوری پیدا ہو گئی۔ کیا خداوند ہمیں چھوڑ سکتا تھا؟ لیکن ہر مرتبہ میں نے سوچا جیسا کہ خداوند نے کہا تھا، "جو آخِر تک برداشت کرے گا وُہی نجات پائے گا" (متّی 10: 22)۔ میں نے خداوند پر بھروسا کیا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرے گا جو اس کے پیچھے سچے دل سے چلتے ہیں اور میں اپنے آپ کو خداوند کے لیے خرچ کرتا رہا۔ میں اکثر دل میں دعا کرتا تھا اور خداوند سے سوال کرتا تھا کہ ہمارے ایمان کو مضبوط کر۔ اسی وقت مشرقی آسمانی بجلی نامی کلیسا نمودار ہوا۔ انھوں نے گواہی دی کہ خداوند پہلے ہی واپس آ چکا ہے، سچائیوں کا اظہار کر رہا ہے اور آخری ایام میں فیصلے کا کام انجام دے رہا ہے۔ خداوند کے پیروکار بہت سے بھائی اور بہنیں مشرقی آسمانی بجلی کو اختیار کر گئے میں نے انھیں تبادلہ خیال کرتے سنا کہ انجیل میں خدا اور انسان دونوں کے الفاظ موجود ہیں اور میں اسے قبول نہیں کر سکتا تھا۔ انجیل واضح طور پر پر یہ بیان کرتی ہے کہ "ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے" (۲-تِیمُتھِیُس 3: 16)۔ انجیل میں ہر چیز خدا کا کلام ہے، پادری اور بزرگ ہر وقت یہ کہتے ہیں۔ تو کیا مشرقی آسمانی بجلی کی طرف سے جو کہا جاتا ہے وہ انجیل سے متضاد اور خداوند کے ساتھ غداری نہیں؟ اس کی وجہ سے، میں مشرقی آسمانی بجلی کے بہت زیادہ خلاف تھا۔ اس کے بعد سے ہماری زیادہ تر ملاقاتوں میں مشرقی آسمانی بجلی سے بچنے اور اسے روکنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جاتا، اور یہ کہ کلیسا کو اپنا ریوڑ کھونے سے کیسے بچایا جائے۔ مشرقی آسمانی بجلی کے لوگوں کو ہماری بھیڑیں چوری کرنے سے روکنے کے لیے، میں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے کہا: انجیل مکمل طور پر خدا کی الہام کردہ ہے اور اس میں تمام الفاظ خدا کے ہیں۔ اگر ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم انجیل سے الگ نہیں ہو سکتے۔ ایسا کرنا کفر ہوگا۔ ایسا کرکے میں نے امید لگائی کہ میں انھیں آخری ایام میں قادر مطلق خدا کے کام کے بارے تحقیق کرنے سے روکوں گے، لیکن وہ قادر مطلق خدا کو قبول کرتے رہے۔
ایک بار کلیسیا کے اجتماع کے بعد گھر واپس آنے پر میں نے اپنی بیوی کو آٹا گوندھتے دیکھا، اور اس کے پاس ایک ساٹھ سالہ عورت بیٹھی تھی، جس نے ہاتھوں میں ایک کتاب پکڑ رکھی تھی اور وہ اس کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی تھی۔ میں نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ وہ قادر مطلق خدا پر ایمان رکھتی ہے اور میرے چہرے کا تآثرتاریک ہو گیا اور میں نے کہا، "تم انجیل کا انکار کرتی ہو اور اسے ترک کر چکی ہو، اور پھر بھی تم خدا پر ایمان کا دعویٰ کرتی ہو؟ یہاں سے نکل جاؤ!" عمر رسیدہ بہن نے تحمل سے مجھ سے کہا، "بھائی، برہم نہ ہوں۔ اند ھا دھند نتا ئج اخذ مت کریں۔ ہم بھی انجیل پڑھتے تھے اور یہ آیت مانتے تھے، 'ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے' (۲-تِیمُتھِیُس 3: 16)، جس کا مطلب ہے کہ انجیل کے تمام الفاظ خدا کے الفاظ ہیں۔ بعد میں ہی ہمیں احساس ہوا کہ یہ تشریح غلط ہے۔" "آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟" میں نے حقارت سے پوچھا۔ بہن نے کہا، "بطور مثال لوقا کی انجیل کہتی ہے: 'چُونکہ بُہتوں نے اِس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمِیان واقِع ہُوئِیں اُن کو ترتِیب وار بیان کریں۔ جَیسا کہ اُنہوں نے جو شرُوع سے خُود دیکھنے والے اور کلام کے خادِم تھے اُن کو ہم تک پُہنچایا' (لُوقا 1: 1-2)۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوقا کی انجیل لوقا نے اپنے تجربات سے لکھی تھی؟ لوقا نے فقط کچھ حقائق لکھے ہیں جو اس نے اس وقت دیکھے اور سنے تھے۔ یہ انسان کی لکھی ہوئی کتاب ہے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب خدا کا کلام ہے؟ جو چیزیں خدا کی جانب سے الہام کردہ ہیں انھیں انسان کے تجربہ کرنے یا انسانی خیالات کے ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں واضح طور پر مختلف ہیں۔" مجھے بہن کی باتوں سے کچھ تعجب ہوا: خدا کے الہام کردہ الفاظ میں واقعی فرق ہے اور وہ لوگ جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں اس کی بنیاد پر لکھتے ہیں۔ میں اس کی باتوں میں کوئی نقص نہ ڈھونڈ سکا۔ میں نے ایک سانس لی اور آنکھ کے گوشے سے بہن کی قابلیت کا تخمینہ لگایا، یہ سوچتے ہوئے: "وہ بوڑھی ہے اور کوئی خاص اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نظر نہیں آتی، پھر بھی اسے اس طرح کی بصیرت حاصل ہے۔ ناقابل یقین!" ایک لمحے کے لیے میں اس کی باتوں کا جواب نہیں سوچ سکا، اور میرا چہرہ سرخ ہو گیا۔ میں پریشان تھا کہ اگر میں اس کی بات سنتا رہا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا، لہٰذا میں کھانسا اور کہا: "بہت ہو چکا، ہمارے عقائد مختلف ہیں۔ یہاں دوبارہ مت آنا۔" یہ کہہ کر، میں نے اس بہن کو دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ اس کی آنکھوں میں حقیقی تاثر اور سردیوں کی ہوا میں اس کی کمزور جسامت دیکھ کر، مجھے اپنے دل میں ایک تیز چھرا لگتا محسوس ہوا اور میں نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا احساس تھا۔ لیکن مجھے یاد آیا کہ انجیل کے تمام الفاظ خدا کی طرف سے کیسے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی اورچیز، خدا پر ایمان نہیں ہے۔ وہ جو وعظ کرتے ہیں وہ انجیل سے ماورا ہے، پھر بھی وہ بھیڑیں چوری کرنے کے لیے ہمارے کلیسا آئے۔ میں ان کا وعظ نہیں سن سکتا اور مجھے لازماً اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔ اس کے بعد، میں اپنی سوچ اور اقدامات سے بدستور مطمئن تھا اور ریوڑ کی "حفاظت" میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کے باوجود جب بھی میں نے قادر مطلق خدا کے کلیسا سے کسی کو دیکھا تو مجھے گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ ان کا تبادلہ خیال منطقی تھا اور اس کی تردید کرنا مشکل تھا۔ سخت گیر رویہ اختیار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا، اور ایک ایسی حکمت عملی کے نفاذ کی ضرورت تھی کہ ان کی بات نہ سنی جائے، ان کی کتابیں نہ پڑھی جائیں یا ان سے رابطہ نہ رکھا جائے۔
اس سے پہلے کہ میں یہ جان پاتا، یہ 2004 کے خزاں کا اوائل تھا۔ میرے کزن، یانگ نے مجھے فون کیا کہ اسے کسی ضروری کام کے لیے میری ضرورت ہے۔ میں جلدی سے گیا، اور میرے کزن نے برادر وانگ کو مجھ سے متعارف کرایا۔ اس نے کہا کہ برادر وانگ ایک واعظ تھے اور انھوں نے ہمیں خداوند کے بارے میں ہمارے فہم پر بات چیت کرنے کو کہا۔ میں واقعی خوش تھا، اور آداب کہنے کے بعد، میرے کزن نے مجھے ایک انجیل دی اور دو موٹی گتے کی جلد والی کتابیں نکالیں۔ میں نے دیکھا، اور سرورق پر درج تھا: کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ مشرقی آسمانی بجلی کی کتابیں تھیں! میں اپنے قدموں پراچھلا اور کہا: "یانگ، کیا تم نے مشرقی آسمانی بجلی قبول کر لی ہے؟" میرے کزن نے ہنستے ہوئے کہا: "یہ درست ہے۔ میں نے آج آپ کو یہاں بلایا کیونکہ میں آپ کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا چاہتا تھا۔ مجھے امید ہے کہ آپ آخری ایام میں قادر مطلق خدا کے کام پر ایک نظر ڈالیں گے۔" اس موقع پر، مجھے یاد آیا کہ کس طرح پادریوں اور بزرگوں نے ہمیشہ یہ کہا تھا انجیل مکمل طور پر خدا کی جانب سے الہام کردہ ہے اور خدا کے تمام الفاظ اس میں ہیں۔ مشرقی آسمانی بجلی کی تعلیمات انجیل سے آگے نکل گئیں، وہ خداوند کی تعلیمات سے ہٹ گئے۔ کسی بھی صورت میں ہمیں ان کی بات نہیں سننی چاہیے۔ ہمارا بہترین جوابی اقدام ان سے بچنا تھا۔ لہذا میں نے اس بارے میں ایک بہانہ بنایا کہ مجھے گھر میں ایک اہم کام ہے۔ میرے کزن نے ہموار لہجے میں کہا، "جب بھی آپ کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو قادر مطلق خدا پر ایمان رکھتا ہے تو آپ کیوں بھاگ جاتے ہیں؟ اگر آپ سچائی جانتے ہیں تو آپ کو یہ خوف کیوں ہے کہ آپ گمراہ کردیے جائیں گے؟ چونکہ آپ یہاں ہیں، کیوں نہ اپنا دل پرسکون کریں اور تھوڑی سی جستجو کریں؟" میں اپنی نشست پر واپس آنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا، لیکن میرے ذہن میں ہلچل مچی ہوئی تھی: آج مجھے اس صورت حال سے کیسے نمٹنا چاہیے؟ میں نے اپنے دل میں خاموشی سے خداوند سے دعا کی: "اوہ، خداوند! میں یہ صورت حال آپ کو سونپتا ہوں۔ براہ کرم میری حفاظت کریں اور میری راہنمائی کریں۔" پھر، میرے کزن نے کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے اٹھائی اور قادر مطلق خدا کے کلام کا ایک اقتباس پڑھا۔ "میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا پر ایمان کے راستے پر احتیاط سے چلو۔ فوراً نتیجے پر نہ پہنچ جایا کرو؛ مزید یہ کہ خدا پر اپنے ایمان میں لاپروا اور بے فکر نہ رہو۔ تمھیں یہ جان لینا چاہیے کہ کم از کم خدا پر ایمان رکھنے والوں کو عاجز اور تعظیم کرنے والا ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جنھوں نے سچ سن لیا اور پھر بھی اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں وہ بے وقوف اور جاہل ہیں۔ وہ جو سچ سن چکے ہیں اور پھر بھی لاپروائی سے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں یا اس کی مذمت کرتے ہیں، وہ تکبر میں مبتلا ہیں۔ یسوع پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی فرد دوسروں پر لعنت بھیجنے یا مذمت کرنے کا اہل نہیں ہے۔ تم سب کو عقل مند اور سچائی قبول کرنے والا بننا چاہیے۔ غالباً، سچائی کا راستہ سن کر اور زندگی کے الفاظ پڑھ کر تجھے یقین ہے کہ ان 10،000 الفاظ میں سے صرف ایک لفظ تیرےاعتقادات اور انجیل مقدس کے مطابق ہے، اور پھر تجھے ان 10،000 الفاظ میں اس کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔ میں اب بھی تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ عاجزی اختیار کر، زیادہ پُراعتماد نہ بن، اور اپنی بہت زیادہ ستائش نہ کیا کر۔ اپنے دل میں خدا کے لیے اس قدر معمولی تعظیم رکھنے سے بھی تجھے زیادہ روشنی حاصل ہو گی۔ اگر تُوان الفاظ کا بغور جائزہ لے اور متواتر ان پر غور کرتا رہے، تو تُوسمجھ جائے گا کہ یہ سچ ہیں یا نہیں، اور ان کا تعلق زندگی سے ہے یا نہیں" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ جب تک تُو یسوع کا روحانی جسم دیکھے گا، خدا دوبارہ زمین و آسمان بنا چکا ہو گا)۔ میں وہاں بظاہر ساکت بیٹھا تھا، لیکن حقیقت میں کتاب کے الفاظ نے ایک تاثر قائم کیا تھا۔ یہ تمام مطالبات خداوند یسوع کے الفاظ کے مطابق تھے۔ خداوند نے کہا، "مُبارک ہیں وہ جو دِل کے غرِیب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے" (متّی 5: 3)۔ جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں ان میں عاجزی اور جستجو کا رویہ ہونا چاہیے۔ میں نے مشرقی آسمانی بجلی کی مذمت کی اور بغیر کسی جستجو یا تفتیش کے اندھا دھند فیصلہ کیا۔ میں واقعی متکبر اور بزعم خود راست باز تھا۔ میں نے اپنے کو مجرم محسوس کیا، اور اپنے آپ میں سوچا: "ان الفاظ میں کچھ خاص ہے، یہ خداوند کی تعلیمات سے ملتے جلتے ہیں۔ کیا یہ الفاظ واقعی واپس لوٹے ہوئے خداوند کے الفاظ ہو سکتے ہیں؟" میں نے ان تمام اوقات کے بارے میں بھی سوچا جب میں نے قادر مطلق خدا کے کلیسا کے لوگوں سے بات چیت کی تھی۔ وہ باوقار اور راست باز تھے، انھوں نے محبت بھرے انداز میں انجیل پھیلائی، وہ صبر کرنے والے تھے، اور سوالات کے بارے میں ان کی وضاحتیں خاص طور پر انتہائی مستحکم اور قائل کرنے والی تھیں۔ وہ روح القدس کے کام کے بغیر خود یہ کیسے حاصل کر سکتے تھے؟ اس سے پتہ چلا کہ قادر مطلق خدا کا طریقہ یقینا خاص تھا۔ اگر قادر مطلق خدا واقعی واپس لوٹا ہوا خداوند یسوع تھا اور میں نے نہ کوئی تلاش کی اور نہ ہی تفتیش کی، تو کیا میں خداوند کا خیرمقدم کرنے کا موقع کھو نہیں رہا اور نتیجتاً اس کی طرف سے بالآخرمسترد قرار نہیں دیا جاؤں گا؟ میں نے سوچا: "مجھے ضدی پن چھوڑ دینا چاہیے۔ میں آج اس بات کی جستجو کیوں نہیں کرتا کہ خداوند واقعی آئے ہیں یا نہیں؟ پھر میں وضاحت حاصل کر چکا ہوں گا۔" میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا، پھر ثابت قدمی سے کہا: "آپ نے جو الفاظ پڑھے وہ یقینا اچھے تھے اور بہت خاص تھے۔ لیکن میں نہیں سمجھ سکا۔ انجیل مسیحیت کا بنیادی اصول ہے۔ دو ہزار سال سے زائد عرصے سے مذہبی دنیا کا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ انجیل مکمل طور پر خدا کا الہام ہے، اور یہ کہ انجیل میں درج ہر چیز خدا کا کلام ہے، اور انجیل اس لیے ہی خداوند کی نمائندگی کرتی ہے۔ میں نے اپنے عیسائی ہونے کے تمام سالوں میں اسے سچ مانا، لیکن اب آپ کہتے ہیں کہ انجیل میں خدا اور انسان دونوں کے الفاظ موجود ہیں۔ کیا یہ انجیل سے تضاد نہیں ہے؟ یہ خداوند کا انکار ہے، اس سے منہ موڑنا، مکروہ کفر ہے!" برادر وانگ نے تحمل سے کہا: "کیا یہ کہنا کہ انجیل مکمل طور پر خدا کی جانب سے الہام کردہ ہے حقیقت سے میل کھاتا ہے؟ ہمارے پاس خداوند کی طرف سے ثبوت کے طور پر کون سے الفاظ ہیں؟" اس سوال نے مجھے گنگ کردیا۔ یہ درست ہے۔ یہ الفاظ پال نے بولے تھے نہ کہ خداوند یسوع نے۔ اس کے بعد برادر وانگ نے کہا: "خداوند یسوع نے کبھی نہیں کہا کہ انجیل مکمل طور پر خدا کا الہام ہے، اور روح القدس نے بھی اس کی گواہی نہیں دی۔ پال نے جو کچھ کہا وہ صرف انجیل کے بارے میں اس کے اپنے فہم کی نمائندگی کرتا ہے اور خدا کی قطعاً نمائندگی نہیں کرتا۔" میں گنگ تھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ پھر، برادر وانگ نے پوچھا: "پال نے کہا 'ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے' (۲-تِیمُتھِیُس 3: 16)۔ جب وہ 'کتاب مقدس،' کہتا ہے تو کیا وہ اصل میں پوری انجیل، یا اس کے صرف ایک حصے کا حوالہ دے رہا ہوتا ہے؟" میں نے اپنے ذہن میں سوچا، "اس کا مطلب یقینا پوری انجیل تھا۔" برادر وانگ نے مزید کہا: "دراصل پال نے خداوند کے آنے کے 60 سال بعد 2 تیمتھیس لکھے تھے، اور اس وقت، جدید عہد نامہ ابھی مرتب نہیں کیا گیا تھا، صرف قدیم عہد نامہ تھا۔ خداوند کے آنے کے 90 سال سے کچھ زائد عرصے کے بعد یوحنا نے وہ مکاشفے لکھے جو اس نے پطمس کے جزیرے پر کشف کیے تھے، جو بعد میں کتابِ وحی بن گئی۔ خداوند کے آنے کے 300 سال بعد نیقیہ میں ایک نشست میں، مختلف ممالک کے مذہبی راہنماؤں نے چار انجیلوں کا انتخاب کیا۔ اور شاگردوں کے خطوں کی ایک بڑی تعداد میں سے کچھ خطوط، اور یوحنا کی کتابِ وحی کے ساتھ، عہد نامہ جدید میں ان کو مرتب کیا۔ اس کے بعد انھوں نے پرانے اور نئے عہد نامے کو ایک کتاب میں جوڑ دیا، جو کہ پورا قدیم اور جدید عہد نامہ ہے جو ہم آج پڑھتے ہیں۔ عہد نامہ جدید 300عیسوی کے بعد مرتب ہوا، اور پال نے 60 عیسوی کے بعد 2 تیمتھیس لکھے۔ جو عہد نامہ جدید کے مرتب ہونے سے 200 سال سے زیادہ پہلے کی بات ہے۔ اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب پال نے کہا کہ 'ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے،' وہ جس کتاب مقدس کا ذکر کر رہا تھا اس میں عہد نامہ جدید شامل نہیں تھا۔" یہ سننے کے بعد، میں سر ہلائے اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکا: "اگر پال جس کتاب مقدس کی بات کر رہا تھا، اس میں عہد نامہ جدید شامل نہیں تھا تو اس کا لازمی مطلب عہد نامہ قدیم ہونا چاہیے۔" برادر وانگ نے کہا: "جی ہاں، تاہم قدیم عہد نامہ بھی مکمل طور پر خدا کی جانب سے الہام کردہ نہیں تھا۔ جب ہم قادر مطلق خدا کے الفاظ پڑھیں گے تو یہ واضح ہو جائے گا۔"
قادر مطلق خدا کہتا ہے، "تجھے لازمی معلوم ہونا چاہیے کہ بائبل میں کتنے حصے شامل ہیں؛ قدیم عہد نامے میں پیدائش، خروج۔۔۔، اور پیشن گوئی کی کتابیں بھی ہیں جو نبیوں نے لکھی ہیں۔ آخر میں، پرانا عہد نامہ ملاکی کی کتاب کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ ۔۔۔ پیشین گوئی کی یہ کتابیں بائبل کی دوسری کتابوں سے بالکل مختلف تھیں؛ یہ وہ الفاظ تھے جو اُن لوگوں کی طرف سے کہے یا لکھے گئے تھے جنہیں پیشین گوئی کی روح عطا کی گئی تھی – اُن لوگوں کے ذریعے جنہوں نے یہوواہ کی طرف سے تصورات یا آواز حاصل کی تھی۔ پیشین گوئی کی کتابوں کے علاوہ، قدیم عہد نامہ میں باقی سب کچھ ان محفوظ یادداشتوں سے بنا ہے جو یہوواہ کے کام ختم کرنے کے بعد لوگوں نے تیار کی تھیں۔ یہ کتابیں یہوواہ کی طرف سے اٹھائے گئے نبیوں کی طرف سے بیان کی گئی پیشین گوئی کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں، بالکل اسی طرح جیسے پیدائش اور خروج کا یسعیاہ کی کتاب اور دانیال کی کتاب سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ پیشین گوئیاں کام مکمل ہونے سے پہلے کی گئی تھیں؛ دوسری کتابیں، اس دوران، کام ختم ہونے کے بعد لکھی گئی تھیں، جو وہ کام تھا کہ لوگ جس کے قابل تھے" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ بائبل کے متعلق (1))۔ "انجیل میں موجود ہر چیز خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کہے گئے الفاظ کا ریکارڈ نہیں ہے۔ انجیل صرف خدا کے کام کے پچھلے دو مراحل کو دستاویز کرتی ہے، جس میں سے ایک حصہ انبیاء کی پیشین گوئی کا ریکارڈ ہے، اور ایک حصہ تجربات اور علم کا ہے جو ان لوگوں نے لکھا ہے جنہیں خدا نے تمام ادوار میں استعمال کیا۔ انسانی تجربات انسانی آراء اور علم سے داغدار ہوتے ہیں اوریہ ایسی چیز ہے جو ناگزیر ہے۔ انجیل کی بہت سی کتابوں میں انسانی تصورات، انسانی تعصبات اور انسانوں کی مہمل فہم موجود ہے۔ یقیناً، زیادہ تر الفاظ روح القدس کی روحانی بصیرت اور غیبی ہدایات کا نتیجہ ہیں، اور وہ درست فہم ہیں – پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سچائی کا مکمل طور پر درست اظہار ہیں۔ بعض چیزوں پر ان کے خیالات ذاتی تجربے سے حاصل کردہ علم، یا روح القدس کی روحانی بصیرت سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ انبیاء کو پیشین گوئیوں کی ہدایات خدا کی طرف سے ذاتی طور پردی گئی تھیں: یسعیاہ، دانیال، عزرا، یرمیاہ اور حزقیل کی پیشین گوئیاں روح القدس کی براہ راست ہدایت سے آئی تھیں؛ یہ لوگ اصحابِ بصیرت تھے، انہیں نبوت کی روح ملی تھی، اور یہ سب عہد نامہ قدیم کے نبی تھے۔ قانون کے دور میں، ان لوگوں نے، جنہوں نے یہوواہ کا الہام حاصل کیا تھا، بہت سی پیشین گوئیاں کیں، جن کی ہدایات براہِ راست یہوواہ کی طرف سے دی گئی تھیں" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ بائبل کے متعلق (3))۔ اس کے بعد برادر وانگ نے بیان جاری رکھا: "قادر مطلق خدا کے الفاظ بہت واضح ہیں۔ نبیوں کی پیشین گو ئیاں روح القدس کی جانب سے ذاتی طور پر تعلیم دی گئی تھیں، اور نبیوں کی طرف سے پہنچائی گئی تھیں۔ یہ خدا کے الفاظ ہیں، اور خدا کا بالکل اصل مقصد بیان کرتے ہیں۔ خدا کی جانب سے الہام کردہ الفاظ کی انجیل میں ہمیشہ واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے؛ مثلا یسعیاہ کے شروع میں یہ کہا گیا ہے کہ، 'یسعیاہ بِن آمُوص کی رویا' (یسعیاہ 1: 1)۔ یرمیاہ کی ابتدا میں کہا گیا ہے، 'جِس پر خُداوند کا کلام' (یرمِیاہ 1: 2)۔ لوگوں کو صرف اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کون سے الفاظ خدا کی جانب سے الہام کردہ ہیں۔ نبیوں کی کتابوں کے علاوہ باقی انجیل خدا کے کام کا مشاہدہ کرنے کے بعد لوگوں کے لکھے ہوئے اپنے بیانات ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر یادوں کے ریکارڈ ہیں، اور یہ تجربات اور الفاظ سب لوگوں کے ہیں، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خدا کے الفاظ ہیں، لہذا ان میں انسانی معنوں کی ملاوٹ سے بچنا مشکل ہے۔ جیسے کہ 2 سموئیل 24:1 میں کس طرح کہتا ہے، 'اِس کے بعد خُداوند کا غُصّہ اِسرائیلؔ پر پِھر بھڑکا اور اُس نے داؤُد کے دِل کو اُن کے خِلاف یہ کہہ کر اُبھارا کہ جا کر اِسرائیلؔ اور یہُوداؔہ کو گِن۔' اس کے باوجود، 1 تاریخ 21:1 کہتی ہے: 'اور شَیطان نے اِسرائیلؔ کے خِلاف اُٹھ کر داؤُد کو اُبھارا کہ اِسرائیلؔ کا شُمار کرے۔' یہ دونوں آیات اس وقت کی درج کردہ ہیں جب داؤد نے اسرائیل کو شمار کیا تھا۔ ایک جگہ یہ کہا گیا ہے کہ یہوواہ خدا نے داؤد کو اسرائیل کو شمار کرنے کے لیے بھیجا تھا، اور دوسرے میں یہ کہتا ہے کہ یہ شیطان تھا جس نے داؤد کو بھیجا تھا۔ اگر یہ خدا کی جانب سے الہام کردہ ہے تو اتنا بڑا تضاد کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر پورا قدیم عہد نامہ خدا کی جانب سے الہام کردہ تھا تو، کیا خدا نے ایک ہی واقعے کی کہانی کو الہام کرتے وقت کوئی غلطی کی ہوگی؟" برادر وانگ کی باتیں سننے کے بعد میرا ذہن نمایاں طور پر کھل گیا تھا، اور میرے ضدی ذہنی دفاع ریزہ ریزہ ہونے لگے۔ میں نے کہا: "اگر عہد نامہ قدیم مکمل طور پر خدا کی جانب سے الہام کردہ نہیں ہے، تو پھر ہم عہد نامہ جدید کو بھی مکمل طور پر خدا کا کلام نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ یہ سب رسولوں کے مندرجات پر مشتمل ہے۔" برادر وانگ نے خوشی سے کہا: "خدا کا شکر ہے کہ تمھارا فہم درست ہے۔ درحقیقت عہد نامہ جدید میں صرف خداوند یسوع کے الفاظ اور وحی میں موجود پیشین گوئی ہی خدا کے الفاظ ہیں۔ باقی شاگردوں، فریسیوں، عام لوگوں، سپاہیوں اور شیطان کے الفاظ ہیں۔ کیا یہ کہنا بے معنی نہیں ہے کہ انجیل میں ہر چیز خدا کا کلام ہے؟ کیا یہ توہین نہیں ہے؟"
اس کے بعد برادر وانگ نے مجھے قادر مطلق خدا کے کلام کا ایک اور اقتباس پڑھ کر سنایا۔ "آج، لوگ مانتے ہیں کہ انجیل خدا ہے، اور یہ کہ خدا انجیل ہے۔ تو، کیا وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ انجیل کے تمام الفاظ صرف وہی الفاظ تھے جو خدا نے کہے تھے، اور یہ کہ وہ سب خدا کی طرف سے کہے گئے تھے۔ جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگرچہ قدیم اور نئے عہد نامے کی تمام چھیاسٹھ کتابیں لوگوں نے لکھی تھیں، لیکن ان سب کوخدا کی طرف سے الہام ہوا تھا، اور روح القدس کے اقوال کا ریکارڈ دیا گیا تھا۔ یہ انسان کی غلط فہمی ہے، اور یہ حقائق سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتی۔ درحقیقت، پیشین گوئیوں کی کتابوں کے علاوہ، عہد نامہ قدیم کا بیشتر حصہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔ نئے عہد نامے کے کچھ خطوط لوگوں کے تجربات کی وجہ سے ہیں، اور کچھ روح القدس کی روحانی بصیرت کی وجہ سے ہیں؛ پال کے خطوط، مثال کے طور پر، ایک آدمی کے کام سے پیدا ہوئے، وہ سب روح القدس کی روحانی بصیرت کا نتیجہ تھے، اور وہ کلیساؤں کے لیے لکھے گئے تھے، اور کلیساؤں کے بھائیوں اور بہنوں کے لیے ترغیب اور حوصلہ افزائی کے الفاظ تھے۔ وہ روح القدس کے کہے گئے الفاظ نہیں تھے – پال روح القدس کی طرف سے بات نہیں کر سکتا تھا، اور نہ ہی وہ ایک نبی تھا، اس نے وہ خواب بہت کم دیکھے تھے جو یوحنا نے دیکھے تھے۔ اُس کے خطوط افیوسس، فلاڈیلفیا، گلیشیا کے کلیساؤں اور دیگر کلیساؤں کے لیے لکھے گئے تھے۔ ۔۔۔ اگر لوگ پال کی طرح کے خطوط یا الفاظ کو روح القدس کے الفاظ کے طور پر دیکھتے ہیں، اور انہیں خدا کے طور پر پوجتے ہیں، تو پھر صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بہت زیادہ ناقابل امتیاز ہیں۔ مزید سختی سے بولیں تو کیا یہ کھلی گستاخی نہیں ہے؟ ایک آدمی خدا کی طرف سے کیسے بات کر سکتا ہے؟ اور لوگ اُس کے خطوط کے ریکارڈ اور اُس کے کہے گئے الفاظ کے سامنے کیسے جھک سکتے ہیں گویا کہ وہ کوئی مقدس کتاب یا آسمانی کتاب ہے؟ کیا خُدا کے الفاظ اتفاقاً ایک آدمی کے ذریعے کہے جا سکتے ہیں؟ ایک آدمی خدا کی طرف سے کیسے بات کر سکتا تھا؟" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ بائبل کے متعلق (3))۔ میں جتنا زیادہ سنتا گیا اتنا ہی سمجھتا گیا۔ میں نے افسوس کیا: "اس سے پہلے، میں اس سیاق و سباق کو نہیں سمجھ سکا جس میں پال نے یہ الفاظ کہے تھے۔ میں نے سوچا کہ انجیل مکمل طور پر خدا کا الہام ہے، اور اس کے الفاظ سب خدا کے ہیں، اور یہ کہ انجیل پر یقین کرنا خدا پر ایمان لانا تھا۔ یہ تشریح بہت بے تکی تھی! میں نے انجیل میں لوگوں کے الفاظ کو خدا کے الفاظ کے طور پر لینے پر اصرار کیا اور میں نے ان کو اپنے ایمان کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔ کیا یہ خداوند کے راہ سے جدا نہیں ہو جاتا؟"
پھر برادر وانگ نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ انجیل فقط خدا کے کام کا ایک ثبوت ہے، اور یہ کہ یہ ایک تاریخی کتاب ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ قانون اور فضل کے ادوار میں خدا کے کام کا اندراج ہے۔ اسے خدا کے درجے پر کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ چنانچہ خداوند یسوع نے فریسیوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا: "تُم کِتابِ مُقدّس میں ڈُھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زِندگی تُمہیں مِلتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔ پِھر بھی تُم زِندگی پانے کے لِئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے" (یُوحنّا 5: 39-40)۔ جی ہاں، انجیل صرف خدا کا ایک ثبوت ہے، یہ ابدی زندگی نہیں رکھتی ہے۔ صرف خدا ہی لوگوں کو ابدی زندگی دے سکتا ہے! مجھے یاد ہے کہ میرے کزن نے بھی بات چیت کی تھی کہ انجیل پڑھنے کے ذریعے، ہم قانون اور فضل کے ادوار میں خدا کے کام کو سمجھتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز خدا نے بنائی تھی، خدا نے انسانیت کی راہنمائی کے لیے قانون کیسے نافذ کیا، اور ہم زمین پر کیسے رہیں اور کس طرح خدا کی عبادت کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ گناہ کیا ہے، اور کس طرح کے لوگوں پر خدا برکت اور لعنت کرتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اپنے گناہوں کا اقرار کیسے کریں اور خداوند سے توبہ کیسے کریں، کیسےعاجز، متحمل، معاف کرنے والا بنا جائے اور کیسے اپنی صلیب اٹھا کر خداوند کی پیروی کی جائے۔ ہم خداوند یسوع کی لامتناہی ہمدردی اور اپنے لئے محبت کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور سمجھ لو کہ یہ صرف خداوند یسوع پر ایمان لانے کے ذریعے اس کے سامنے آنے سے ممکن ہے، کہ ہم خدا کے وافر فضل اور سچائی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ لیکن آخری ایام میں خدا کن سچائیوں کا اظہار کرتا ہے، اور خدا انسان کی بدعنوانی کا فیصلہ اور اسے پاک کیسے کرے گا اور ہمارے گناہ کی جڑ کا حل کیسے کرے گا، ہمیں ذرا سا بھی خیال نہیں ہے کیونکہ یہ سچائیاں انجیل میں درج نہیں تھیں۔ خداوند یسوع کے نجات کےعمل کی بنیاد پر، آخری ایام کے قادر مطلق خدا نے فیصلے کا کام کا آغاز کیا ہے خدا کے گھر سے ابتداء کرتے ہوئے نوع انسانی کو پاک کرنے کے سلسلے میں تمام سچائی کا اظہار کیا ہے، اور بدعنوان نوع انسانی کے شیطانی مزاج اور فطرت کو ظاہر کیا ہے، تاکہ ہماری بدعنوانی پاک ہو جائے اور ہم ایسے لوگ بن جائیں جو خدا سے محبت کرتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں، اور ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ خدا کا مزاج مقدس اور راست باز ہے اور یہ تجاوز کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ الفاظ ابدی زندگی کا حقیقی طریقہ ہیں اور وہ خداوند یسوع پیشین گوئی کو پوری طرح مکمل کرتے ہیں۔ "مُجھے تُم سے اَور بھی بُہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تُم کو تمام سچّائی کی راہ دِکھائے گا" (یُوحنّا 16: 12-13)۔ یہ کتاب کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے، کیا وحی میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ روح القدس تمام کلیساؤں سے بات کرتی ہے۔ یہ میمنے کی طرف سے کھولا گیا طومار ہے۔ قادر مطلق خدا کے کلام کو پڑھنے کے ذریعے مذہبی دنیا سے خدا پر سچا ایمان لانے والوں نے خدا کی آواز کو پہچان لیا ہے اور قادر مطلق خدا کی طرف رجوع کیا ہے اور میمنے کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔
یہ کہنے کے بعد وانگ بھائی نے قادر مطلق خدا کے الفاظ کا ایک اور اقتباس پڑھا۔ "آخری دور کا مسیح زندگی لائے گا اور سچائی کا دیرپا اور جاوداں راستہ لائے گا۔ یہ وہ سچا راستہ ہے جس سے بشر زندگی حاصل کرتا ہے اور یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے بشر خدا کو جانے گا اور اس سے توثیق پائے گا۔ اگر تُوآخری دور کے مسیح کے فراہم کردہ زندگی کے راستے کی جستجو نہیں کرتا تو تجھے کبھی یسوع کی تائید حاصل نہیں ہو سکے گی اور تُو آسمانوں کی باد شاہی کے دروازے سے داخل ہونے کا کبھی اہل نہیں ہو پائے گا، کیونکہ تُو صرف ایک کٹھ پتلی اور تاریخ کا قیدی رہے گا۔ جو لوگ ضابطوں، حروف، اور تاریخ کے طوق میں جکڑے جاتے ہیں، وہ کبھی زندگی حاصل نہ کر پائیں گے اور اور نہ ہی دائمی زندگی کا راستہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ان کے پاس صرف وہ گدلا پانی ہے جو ہزاروں سال سے رکا ہوا ہے، نہ کہ زندگی کا وہ پانی جو تخت سے بہتا ہے۔ وہ جن تک زندگی کا پانی نہیں پہنچتا، وہ ہمیشہ لاشیں، شیطان کے کھلونے اور دوزخ کے بیٹے رہیں گے۔ پھر وہ خدا کو کیسے دیکھ سکیں گے؟ اگر تُو صرف ماضی سے جڑے رہنے کی کوشش کرتاہے، صرف جامد رہ کر چیزوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور جمود تبدیل کرنے اور تاریخ کو ترک کرنے کی کوشش نہیں کرتا، تو کیا تُو ہمیشہ خدا کے خلاف نہیں رہے گا؟ خدا کے کام کے مراحل بہت پھیلے ہوئے اور زبردست ہیں، جیسے لہریں اور گرجتی بجلی – پھر بھی تُو بس بیٹھ کر کاہلی سے تباہی کا انتظار کرتا ہے، اپنی حماقت تھام کر کچھ نہیں کر رہا۔ اس طرح، تُو کچھ ایسا کیسا بن سکتا ہے جو برّے کے نقش قدم پر چلے؟ تُو جس خدا کو خدا کے طور پر دیکھتا ہے، اس کا جواز کیسے پیش کرے گا جوہمیشہ نیا اورکبھی پرانا نہیں ہوتا؟ اورتیری خستہ حال کتابوں کے الفاظ تجھے نئے دور میں کیسے لے کر جا سکتے ہیں؟ وہ خدا کے کاموں کے نقش قدم کی جستجو کی طرف تیری راہنمائی کیسے کر سکتے ہیں؟ اور وہ تجھے جنت میں کیسے لے کر جائیں گے؟ تیرے ہاتھوں میں جو لغوی الفاظ ہیں، وہ عارضی سکون تو فراہم کر سکتے ہیں، لیکن زندگی کا راستہ فراہم کرنے والی سچائیاں فراہم نہیں کر سکتے۔ تُو جو صحیفے پڑھتا ہے وہ صرف تیری زبان کو تقویت دے سکتے ہیں اور وہ فلسفے کے الفاظ نہیں ہیں جو تجھے انسانی زندگی کے متعلق جاننے میں مدد دے سکیں، نہ ہی وہ راستے جو تجھے کمال کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ تضادات تجھے غور و فکر کی بنیاد فراہم نہیں کرتے؟ کیا یہ تجھے اندر موجود رازوں کا ادراک نہیں دیتا؟ کیا تُو اپنے طور پر خدا سے ملنے کے لیے جنت میں جانے کے قابل ہے؟ خدا کی آمد کے بغیر، کیا تُو خدا کے ساتھ خاندان والی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے اپنے آپ کو جنت میں لے جا سکتا ہے؟ کیا تُو اب بھی محو خواب ہے؟ پھر میری تجویز ہے کہ تُو خواب دیکھنا چھوڑ دے اور دیکھ کہ اب کون کام کر رہا ہے – دیکھ کہ آخری دورمیں بشر کو بچانے کا کام کون کر رہا ہے۔ اگر تُو ایسا نہیں کرتا تو تُوکبھی سچائی تک نہیں پہنچ سکتا اور کبھی زندگی حاصل نہیں کر سکتا" (کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام۔ صرف آخری ایام کا مسیح ہی بشر کو ابدی زندگی کا راستہ دے سکتا ہے)۔ یہ الفاظ سننے کے بعد میں مکمل طور پر ہل گیا۔ اگر میں اپنے مذہبی نظریات سے چمٹا رہا تو آخر میں ہی وہ ہوں گا جو کھو گیا۔ میں نے سوچا کہ میں نے اپنے مسیحیت کے برسوں کے دوران انجیل کا کتنا علم اکٹھا کیا تھا، پھر بھی مجھے بمشکل سچائی یا خدا کا فہم تھا۔ اس کے برعکس، میں تیزی سے متکبر ہوتا جا رہا تھا۔ خداوند لوٹ آیا تھا لیکن میں نے نہ صرف یہ کہ تحقیق نہیں کی تھی، بلکہ یہاں تک کہ میں نے انجیل کے کلام کا استعمال قادر مطلق خدا کے ظہور اور کام کی مذمت کے لئے کیا۔ میں بالکل فریسیوں کی طرح تھا جنھوں نے خدا کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ میں واقعی اندھا تھا اور خدا کو نہیں جانتا تھا! میں نہ صرف اپنے تصورات سے چمٹا رہا، بلکہ یہاں تک کہ میں نے دوسروں کو تفتیش سے روکنے کے لئے اپنے دماغ تک کو خراب کر دیا۔ کیا اس سے خدا کے کام میں خلل نہیں پڑ رہا تھا؟ اگر دوسرے لوگ خداوند کا خیرمقدم نہیں کر سکتے تھے یا اس کے نئے کی پیروی نہیں کر سکتے تھے تو وہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے موقع کو گنوا بیٹھے ہوتے۔ میں ایک برا شخص تھا جس نے دوسروں کو جہنم میں گھسیٹ لیا اور خدا کی مزاحمت کی! میں نے ایسی برائی کی تھی، پھر بھی خدا نے میرے ساتھ ہمدردی اور فضل کا مظاہرہ کیا۔ اے خدا مجھے اس کی آواز سننے دیجیے اور اس کے ظہور کا مشاہدہ کرنے دیجیے۔ خدا کی محبت کتنی سچی ہے! اس کے بعد ہم نے انجیل پر مباحثہ جاری رکھا۔ ہم نے اس بارے میں بھی بات کی کہ فضل کے دور میں کلیسا کیوں ویران ہو گیا، خدا کس طرح کام کے تین مراحل اور اس سے زیادہ کے ذریعے نوع انسانی کو بچاتا ہے۔
بعد کے آنے والے وقت میں، میں نے قادر مطلق خدا کی بہت سی باتیں پڑھیں اور قبول کیا آخری ایام میں قادر مطلق خدا کا کام۔ خدا کا شکر ہے!
خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟