تجھے سچائی کے لیے جینا چاہیے کیونکہ تُو خدا پر ایمان رکھتا ہے
عام مسئلہ جو تمام لوگوں کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ وہ سچائی کو تو سمجھتے ہیں لیکن اس پر عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں، اور دوسری طرف، کیونکہ ان کی فہم و فراست بہت ناکافی ہے؛ وہ روزمرہ کی زندگی کی بہت سی مشکلات دیکھنے سے بھی قاصر ہیں کہ وہ کیا ہیں، اور یہ نہیں جانتے کہ صحیح طریقے سے عمل کیسے کیا جائے۔ چونکہ لوگوں کے عملی تجربات بہت اتھلے اور سطحی ہوتے ہیں، ان کی صلاحیت بہت ناقص ہوتی ہے، اور سچائی کو سمجھنے کی گنجائش بہت محدود ہوتی ہے، اس لیے ان کے پاس اپنی روزمرہ کی زندگی میں درپیش مشکلات کو حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ وہ صرف زبانی کلامی خدا پر یقین رکھتے ہیں، اور خدا کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں لانے سے قاصر ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا خدا ہے، زندگی زندگی ہے، اور یوں لگتا ہے گویا لوگوں کا اپنی زندگیوں میں خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب یہی سوچتے ہیں۔ خدا پر اس طرح ایمان رکھنے سے، لوگوں کو حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہوگا اور خدا انہیں کامل نہیں بنائے گا۔ دراصل، ایسا نہیں ہے کہ خدا کے کلام کو مکمل اظہار نہیں ملا ہے، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ لوگوں میں اس کا کلام قبول کرنے کی صلاحیت بہت ناکافی ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ تقریباً کوئی بھی خدا کے اصل ارادوں کے مطابق کام نہیں کرتا؛ بلکہ خدا پر اس کا ایمان اس کے اپنے ارادوں، ماضی میں اس کے مذہبی تصورات اور کام کرنے کے اس کے اپنے انداز کے مطابق ہے۔ ایسے بہت کم لوگ ہیں جو خدا کا کلام قبول کرنے کے بعد تبدیلی سے گزرتے ہیں اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی بجائے، وہ اپنے غلط عقائد پر قائم رہتے ہیں۔ جب لوگ خدا پر ایمان لانا شروع کرتے ہیں، تو وہ مذہب کے روایتی اصولوں کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں، اور وہ مکمل طور پر اپنے فلسفہ حیات کی بنیاد پر زندگی بسر کرتے اور دوسروں سے تعامل کرتے ہیں۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ہر دس لوگوں میں سے نو کا معاملہ ہے۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو خدا پر ایمان لانے کے بعد کوئی دوسرا منصوبہ بناتے ہوں اور ایک نیا بہتر اغاز کرتے ہوں۔ نوع انسانی خدا کا کلام سچ ماننے، یا اسے سچ مان کر اس پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
مثال کے طور پر، یسوع پر ایمان کو لے لو۔ چاہے کسی نے ابھی ابھی ایمان لانا شروع کیا ہے یا بہت لمبے عرصے سے ایمان کا حامل ہے، سب نے صرف اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا اور ان کے پاس جو کچھ بھی ہنر تھا اس کا مظاہرہ کیا۔ لوگوں نے محض یہ تین الفاظ "خدا پر ایمان" اپنی معمول کی زندگیوں میں شامل کیے ہیں، اور اپنے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے، اور خدا پر ان کا ایمان ذرا سا بھی نہیں بڑھ سکا ہے۔ ان کی جستجو نہ تو گرم تھی اور نہ ہی سرد۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے ایمان سے دست بردار ہو جائیں گے، لیکن انہوں نے اپنا سب کچھ خدا کے لیے وقف بھی نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی بھی خدا سے حقیقی محبت نہیں کی تھی اور نہ ہی اس کی اطاعت کی۔ خدا پر ان کا ایمان اصلی اور نقلی کی آمیزش تھا، وہ ایک آنکھ کھلی اور ایک آنکھ بند کر کے اس کے پاس جاتے تھے، اور اپنے عقیدے پر عمل کرنے میں مخلص نہیں تھے۔ اسی الجھن کی حالت میں انہوں نے زندگی بسر کی اور یونہی الجھن کے عالم میں مر گئے۔ اس سب کا کیا فائدہ؟ آج عملی خدا پر یقین کرنے کے لیے، تجھے صحیح راستے پر قدم رکھنا ہوگا۔ اگر تُو خدا پر یقین رکھتا ہے تو تجھے نہ صرف اس کا فضل حاصل کرنا چاہیے بلکہ خدا سے محبت کرنا اور خدا کو جاننا بھی چاہیے۔ اس کی دی گئی آگہی کے ذریعے، اپنی انفرادی تلاش کے ذریعے، تُو اس کا کلام کھا اور پی سکتا ہے، خُدا کی حقیقی سمجھ بوجھ پیدا کر سکتا ہے، اور خُدا کی حقیقی محبت حاصل کر سکتا ہے جو تیرے دل کی گہرائیوں سے پھوٹتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جب خدا کے لیے تیری محبت سب سے زیادہ حقیقی ہو اور کوئی بھی خدا کے لیے تیری محبت کو برباد نہ کر سکے یا راہ میں حائل نہ ہو سکے، تو اس وقت خدا پر ایمان کے معاملے میں تُو صحیح راستے پر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تُو خدا کا ہے کیونکہ تیرا دل پہلے ہی خدا کے قبضے میں ہے اور کوئی اور چیز تجھ پر قبضہ نہیں کر سکتی ہے۔ اپنے تجربے کے ذریعے، اپنی ادا کردہ قیمت کے ذریعے، اور خدا کے کام کے ذریعے، تُو خدا کے لیے بن بلائی محبت پیدا کرنے کے قابل ہو جائے گا – اور جب تُو ایسا کرے گا، تو تُو شیطان کے اثر سے آزاد ہو جائے گا اور خدا کے کلام کی روشنی میں زندگی گزارے گا۔ جب تُو اندھیرے کے اثر سے آزاد ہو جائے گا تب ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ تجھے خدا حاصل ہو گیا ہے۔ خدا پر تیرے ایمان میں، تجھے یہی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے۔ تم میں سے کسی کو بھی موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ تم خدا کے کام کے بارے میں مذبذب نہیں ہو سکتے اور نہ ہی تم اسے غیر سنجیدگی سے لے سکتے ہو۔ تمھیں ہر حال میں اور ہر وقت خدا کے بارے میں سوچنا چاہیے اور ہر کام اسی کی خاطر کرنا چاہیے۔ اور جب بھی تم کچھ بولو یا عمل کرو تو خدا کے گھر کا مفاد مقدم رکھو۔ صرف اسی طرح تم خدا کی مرضی کے مطابق ہو سکتے ہو۔
خدا پر لوگوں کے ایمان میں، ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ خدا پر صرف زبانی یقین رکھتے ہیں، اور خدا ان کی روزمرہ کی زندگی سے بالکل غائب ہے۔ درحقیقت تمام لوگ، خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، لیکن خدا ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں ہوتا۔ لوگ خدا سے بہت دعائیں مانگتے ہیں، لیکن ان کے دلوں میں خدا کے لیے جگہ بہت کم ہوتی ہے، اس لیے خدا انہیں بار بار آزماتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ لوگ خالص نہیں ہیں اور خدا کے پاس ان کو آزمانے کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے، تاکہ وہ بار بار کی ان آزمائشوں سے شرمندہ ہوں اور خود کو پہچان سکیں۔ اگر ایسا نہ ہو، تو نوع انسانی بڑے فرشتے کی اولاد میں تبدیل ہو جائے گی، اور مزید سے مزید تر بدعنوان ہو جائے گی۔ خدا پر اپنے ایمان کے عمل میں، ہر شخص خدا کے پاک کرنے کے مسلسل عمل کے تحت اپنے بہت سے ذاتی ارادے اور مقاصد ترک کر دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو، تو خدا کے پاس کسی کو استعمال کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا، اور لوگوں میں وہ کام کرنے کا بھی طریقہ نہیں ہو گا جو اسے کرنا چاہیے۔ خدا سب سے پہلے لوگوں کو پاک کرتا ہے، اور اس عمل کے ذریعے، وہ خود کو جان سکتے ہیں اور خدا انھیں بدل سکتا ہے۔ صرف اسی صورت مہں خدا اُن میں اپنی زندگی کا کام کرتا ہے، اور صرف اِسی طرح اُن کے دل مکمل طور پر خدا کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ اور اسی لیے میں کہتا ہوں، خدا پر یقین اتنا آسان نہیں ہے جتنا لوگ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خدا اسے سمجھتا ہے، اگر تیرے پاس صرف علم ہے لیکن تیرے پاس اس کا کلام بطور حیات نہیں ہے، اور اگر تُو صرف اپنے علم تک محدود ہے لیکن سچائی پر عمل نہیں کر سکتا یا خدا کے کلام کے مطابق زندگی بسر نہیں کر سکتا، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تیرے پاس خدا سے محبت کرنے والا دل نہیں ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ تیرا دل خدا سے تعلق نہیں رکھتا۔ کوئی بھی خدا پر ایمان لا کر اسے جان سکتا ہے: یہ آخری مقصد ہے، اور انسان کی جستجو کا ہدف ہے۔ تجھے خدا کے کلام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ تیرے عمل میں ثمر خیز ہو۔ اگر تیرے پاس صرف نظریاتی علم ہے تو خدا پر تیرے ایمان کا نتیجہ صفر ہوگا۔ صرف اس صورت میں کہ جب تُو اس کے کلام پر عمل کرے اور اس کے کلام کے مطابق زندگی بسر کرے، تیرا ایمان مکمل اور خدا کی مرضی کے مطابق سمجھا جائے گا۔ اس راستے پر بہت سے لوگ بہت زیادہ علم کی باتیں کر سکتے ہیں لیکن اپنی موت کے وقت ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں اور وہ اپنے آپ سے نفرت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی رائگاں گزار دی یہاں تک کہ بوڑھے ہو گئے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ وہ محض عقائد کو سمجھتے ہیں، لیکن سچائی پر عمل نہیں کر سکتے یا خدا کی گواہی نہیں دے سکتے؛ اس کی بجائے، وہ انتہائی مصروفیت کے عالم میں صرف اِدھر اُدھر دوڑتے ہیں، اور آخرکار صرف موت کی دہلیز پر ہی یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس سچی گواہی کی کمی ہے، اور یہ کہ وہ خدا کو بالکل نہیں جانتے۔ تو کیا اب بہت دیر نہیں ہو چکی ہے؟ تُو آج کے دن سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتا اور اس سچائی کی پیروی کیوں نہیں کرتا جس سے تُو محبت کرتا ہے؟ کل تک کا انتظار کیوں؟ اگر تُو زندگی میں سچائی کے لیے تکلیف نہیں اٹھاتا یا اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو کیا یہ ممکن ہے کہ تُو اپنی موت کے وقت پچھتاوا محسوس کرنا چاہتا ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر خدا پر ایمان کیوں؟ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں اگر لوگ ذرا سی بھی کوشش کریں تو سچائی پر عمل کر کے خدا کو راضی کر سکتے ہیں۔ لوگوں کے خدا کی خاطر کام نہ کر سکنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ہمیشہ سے شیاطین کا قبضہ ہے، اور وہ اپنے جسم کی خاطر مسلسل بھاگتے رہتے ہیں، اور آخر میں ان کے پاس اسے دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے لوگ مسلسل پریشانیوں اور مشکلات میں مبتلا رہتے ہیں۔ کیا یہ شیطان کا عذاب نہیں ہے؟ کیا یہ جسم کی بدعنوانی نہیں ہے؟ تجھے زبانی باتیں کر کے خدا کو بے وقوف بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ، تجھے لازماً ٹھوس اقدام کرنے ہوں گے۔ اپنے آپ کو دھوکا نہ دے – اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ اپنے جسم کی خاطر زندہ رہ کر اور نفع اور شہرت کے لیے جدوجہد کر کے تُو کیا حاصل کر سکتا ہے؟