جو لوگ سیکھتے نہیں اور جاہل رہتے ہیں، کیا وہ چوپائے نہیں ہیں؟
جب تُو آج کی راہ پر چلتا ہے، سب سے موزوں قسم کی جستجو کیاہے؟ تیری جستجو میں، تُو کس قسم کے شخص کے طور پر اپنے آپ کو دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ جاننا تیرے لیے ضروری ہے کہ آج تجھ پر جو بھی گزر رہی ہے اس سے تجھے کیسے رجوع کرنا چاہیے، خواہ وہ آزمائشیں ہوں یا مشکلات، یا بے رحمانہ سزا اور لعنت۔ ان سب چیزوں کا سامنا کرتے ہوئے، تجھے ہر معاملے میں ان پر غور کرنا چاہیے۔ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟ میں یہ اس لیے کہتا ہوں کہ آج جو چیزیں تجھ پر پڑ رہی ہیں وہ آخر کار مختصر مدت کی آزمائشیں ہیں جو بار بار ہوتی ہیں؛ شاید جہاں تک تیرا تعلق ہے، وہ خاص طور پر روح نڈھال کردینے والی ہیں، اور اس لیے تُو چیزوں کو ان کے فطری راستے پر جانے دیتا ہے، اور ترقی کی جستجو میں انہیں ایک قیمتی اثاثہ نہیں سمجھتا۔ تُو کتنا عاقبت نا اندیش ہے! یہاں تک کہ تُو اس قیمتی اثاثے کے بارے میں ایسا سوچتا ہے جیسے یہ تیری آنکھوں کے سامنے تیرتا ہوا بادل ہے، اور تُو ان سخت ضربوں کی قدر نہیں کرتا جو بار بار برستی ہیں – ضربیں جو مختصر ہیں اور جو تجھے کم وزنی لگتی ہیں – بلکہ ان پر لاتعلقی والی سردنظر ڈال، انہیں دل پر نہ لے، اور انھیں محض ایک اتفاقی ضرب سمجھ۔ تُو بہت مغرور ہے! ان وحشیانہ حملوں کی طرف، طوفانوں سے مشابہ حملے، جو بار بار آتے ہیں، تُو صرف بے توجہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ حتیٰ کہ تُو کبھی کبھی ایک سرد مسکراہٹ دے کر مکمل بے حسی کا اظہار کر دیتا ہے – کیونکہ تُو نے ایک بار بھی اپنے آپ سے نہیں سوچا کہ تُو ایسی ”بدقسمتی“ کیوں جھیلتا رہتا ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں انسان کے ساتھ سراسر ناانصافی کروں؟ کیا میں تجھ میں نقص تلاش کرنا اپنا فریضہ بناسکتا ہوں؟ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ تیری ذہنیت کے ساتھ مسائل اتنے سنگین نہ ہوں جتنے میں نے بیان کیے ہیں، تُو نے اپنی بیرونی طمانیت کے ذریعے، طویل عرصے سے اپنی اندرونی دنیا کی ایک کامل تصویر تخلیق کی ہے۔ مجھے تجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تیرے دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی واحد چیز غیر مہذبانہ لعنت ملامت اور اداسی کے مدھم نشانات ہیں جو دوسروں کے لیے بمشکل قابل فہم ہیں۔ چونکہ تجھے اس طرح کی آزمائشوں کا سامنا کرنا اتنا ناانصافی محسوس ہوتا ہے، تُو لعنت بھیجتا ہے؛ اور چونکہ یہ آزمائشیں تجھے دنیا کی ویرانی کا احساس دلاتی ہیں، تُواداسی سے بھر جاتا ہے۔ تُو ان متواتر ضربوں اور ان کی تربیت کو بہترین تحفظ کے طور پر دیکھنے کے بجائے انھیں آسمان کی پیدا کردہ خارج از عقل پریشانیوں کے طور پر دیکھتا ہے، یا پھر تجھ سے لیے جانے والے مناسب بدلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ تُو کتنا جاہل ہے! تُو اچھے وقتوں کو بے رحمی سےاندھیرے میں قید رکھتا ہے۔ بار بار، تُو حیرت انگیز آزمائشوں اور تربیت کے اعمال کو اپنے دشمنوں کے حملوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ تُو نہیں جانتا کہ اپنے ماحول میں کیسے ڈھلنا ہے، تُوایسا کرنے کی کوشش کرنے کے لیے تو اور بھی کم آمادہ ہے، کیوں کہ تُو اس متواتر، اور تیری دانست میں، ظالمانہ سزا سے کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تُو جستجو کرنے یا دریافت کرنے کے لئے یا تو کوئی کوشش نہیں کرتا، اوریا محض اپنے مقدر سے ہار مان لیتا ہے کہ وہ تجھے جہاں چاہے لے جائے۔ جنھیں تُو سزا دینے وحشیانہ اقدامات سمجھتا ہے، نہ تو تیرا دل بدل سکے ہیں اور نہ ہی وہ تیرے دل پر قابو پا سکے ہیں، بلکہ وہ تیرے دل میں چھرا گھونپتے ہیں۔ تجھے یہ ”ظالمانہ سزا“ اس زندگی میں صرف ایک دشمن لگتی ہےاور تُو نے کچھ حاصل نہیں کیا۔ تجھ میں زعم راست بازی بہت زیادہ ہے! تجھے شاذ و نادر ہی یقین ہوتا ہے کہ تجھے اپنے پاجی پن کی وجہ سے ایسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بجائے، تُو اپنے آپ کو بدقسمت سمجھتا ہے، اس کے علاوہ یہ کہتا ہے کہ میں ہمیشہ تجھ میں عیب تلاش کرتا ہوں۔ اور اب جب کہ چیزیں یہاں تک پہنچ چکی ہیں، تُو واقعی میں اس کے بارے میں کتنا جانتا ہے کہ میں کیا کہتا اورکیا کرتا ہوں؟ یہ مت سوچ کہ تُو قدرتی طور پر پیدا ہونے والی معجزاتی ہستی ہے، آسمانوں سے قدرے نیچے لیکن زمین سے لامحدود بلندتر۔ تُوکسی اور سے زیادہ ذہین نہیں ہے – اور، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات بہت ہی پیاری ہے کہ تُو زمین پر موجود ان لوگوں میں سے کسی کے مقابلے میں کتنا بیوقوف ہے جن کے پاس عقل ہے، کیونکہ تُو اپنے بارے میں بہت زیادہ سوچتا ہے، اور کبھی بھی احساس کمتری کا شکار نہیں تھا، گویا تُو میرے اعمال کے ذریعے سب سے چھوٹی تفصیل تک دیکھ سکتا ہے۔ درحقیقت، تُو وہ شخص ہے جس کے پاس بنیادی طور پر عقل کی کمی ہے، کیونکہ تجھے اندازہ نہیں ہے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں، اور تُو اس سےاور بھی کم واقف ہے کہ میں اب کیا کر رہا ہوں۔ اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ تُو زمین پر محنت کرنے والے بوڑھے کسان کے برابر بھی نہیں ہے، ایک ایسا کسان جو انسانی زندگی کے بارے میں ہلکا سا بھی ادراک نہیں رکھتا اور پھر بھی زمین کاشت کرتے ہوئے اپنا سارا بھروسا آسمان کی نعمتوں پر رکھتا ہے۔ تُو اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کے لیے ایک سیکنڈ بھی نہیں نکالتا، تجھے شہرت کا کچھ پتا نہیں ہے، اور پھر بھی پاس اپنا علم کم ہے۔ تُو کتنا ”اس سب سے اوپر“ ہے! تم بانکے چھیل چھبیلو اور تم طرح دار نوجوان دوشیزاؤ: میں سچ مچ، تمھارے لیے فکر مند ہوں: تم اس سے بھی بڑے طوفانوں کے حملے کا مقابلہ کیسے کر پاؤ گے؟ یہ چھیل چھبیلے اس حالت سے قطعاً بے پروا ہیں جس میں وہ خود کو پاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک معمولی بات ہے، اور اس لیے وہ اس کے بارے میں ذرا بھی نہیں سوچتے، نہ منفی محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں۔ اس کے بجائے، وہ پہلے کی طرح، گلیوں میں اپنے مداحوں کو خوش کرتے ہوئے گھومتے رہتے ہیں۔ یہ ”قابلِ غور لوگ“ جو نہیں سیکھتے اور جاہل رہتے ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ زمین پر میں ان سے ایسی باتیں کیوں کہوں گا۔ ان کے چہرے ناراضگی سے بھرے ہوئے ہیں، وہ صرف اپنا سرسری سا معائنہ کرتے ہیں، اور بعد میں اپنے برے طریقے تبدیل کیے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔ ایک بار جب وہ مجھے چھوڑ دیتے ہیں، وہ دوبارہ دنیا میں دوڑنا شروع کر دیتے ہیں، غرور کرتے اور نئے سرے سے دھوکا دیتے ہیں۔ تیرے چہرے کے تاثرات کتنی جلدی بدل جاتے ہیں۔ تو، ایک بار پھر، تُو مجھے اس طرح دھوکا دینے کی کوشش کر رہا ہے – تُو کتنا دیدہ دلیر ہے! وہ نازک کم سن دوشیزائیں تو اور بھی مضحکہ خیز ہیں۔ میرے تاکیدی بیانات سن کر، اور وہ جس مشکل میں ہیں اسے دیکھ کر، ان کے چہروں پر بے دریغ آنسو بہہ رہے ہیں، ان کے جسم آگے پیچھے بل کھارہے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک منظر بنا رہے ہیں – کتنا گھناؤنا! اپنے قدکاٹھ کا احساس کرتے ہوئے، وہ اپنے بستروں پر دھڑام سے گرپڑ تے ہیں اور وہیں لیٹے رہ جاتے ہیں، بغیر رکے روتے ہوئے، گویا وہ اپنی آخری سانسیں بھر رہے ہیں۔ اور جب یہ کلام انھیں ان کا بچکانہ پن اور پست حیثیت دکھا دے تو پھر وہ منفیت میں اس قدر دب جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے نور چھن جاتا ہے اور وہ نہ مجھ سے شکایت کرتے ہیں اور نہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں، وہ اپنی حالت ِ جمود میں بالکل بے حرکت ہو جاتے ہیں اور اسی طرح سیکھنے میں ناکام رہتے ہیں اور جاہل رہتے ہیں۔ مجھے چھوڑنے کے بعد، وہ ”شہزادی سلور بیل“ کی طرح ہنستے اور کھیلتے ہیں۔ وہ کتنے کمزور اور خود سے محبت کی کمی کا شکار ہیں! تم سب، بنی نوع انسان کے عیب دار ٹھکرائے ہوئے – آپ میں انسانیت کی کتنی کمی ہے! تم نہیں جانتے کہ اپنے آپ سے کیسے محبت کرنی ہے، یا اپنے آپ کی حفاظت کیسے کرنی ہے، تمھیں کوئی عقل نہیں ہے، تم سچے راستے کی جستجو نہیں کرتے ہیں، تم حقیقی روشنی سے محبت نہیں کرتے، اور اس سے بھی بڑھ کر، تم نہیں جانتے کہ اپنے آپ کو کیسے عزیز رکھنا ہے۔ جہاں تک میری طرف سے تمھیں بار بار دی گئی تعلیمات کا تعلق ہے، تم نے عرصہ دراز سے انھیں اپنے ذہن کے عقبی حصے میں ڈال رکھا ہے، حتی ٰ کہ اس حد تک کہ تم ان کے ساتھ فارغ لمحات بہلانے کے لیے کھلونوں کی طرح برتاؤ کرتے ہو۔ ان سب کو تم ہمیشہ اپنے ذاتی ”تعویذ گنڈے“ کی روشنی میں دیکھتے ہو۔ جب شیطان کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے، تو تُو دعا کرتا ہے۔ منفی ہونے پر، تُو گہری نیند میں ڈوب جاتا ہے۔ جب تُو خوش ہوتا ہے، تو تُو بے تحاشا دوڑتا ہے۔ جب میں تجھے سرزنش کرتا ہوں تو تُو جھک جاتا ہے اور پیشانی رگڑتا ہے۔ اور پھر جیسے ہی تُو میری بارگاہ سے نکلتا ہے، تُو خبیثانہ خوشی سے ہنستا ہے۔ تجھے لگتا ہے کہ تُو سب سے بالاتر ہے، مگر تجھے کبھی نہیں لگتا کہ تُو سب سے خود پسند ہے، اور تُو سدا کا بڑبولا، عشرت طلب اور بیان سے باہرگھمنڈی ہے۔ ایسے ” نوجوان حضرات“، ”نوجوان دوشیزائیں“، عالی مرتبت حضرات“، اور“عالی مرتبت خواتین“، جو نہیں سیکھتے اور جاہل رہتے ہیں، میرے کلام کو ایک بیش قدر خزانہ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ میں تجھ سے ایک بار پھر پوچھتا ہوں: تُو نے اتنے طویل عرصے میں میرے کلام اور میرے کام سے کیا سیکھا ہے؟ یہی ناں کہ تُو نے اپنی فریب کاری میں زیادہ مہارت حاصل کرلی ہے؟ یا اپنے جسم میں زیادہ تصنع؟ یا میرے تئیں تیرے رویے میں زیادہ بے ادبی؟ میں تجھے سیدھا بتادیتا ہوں: یہ وہ سب کام ہے جو میں نے کیا ہے جس نےتجھے، جس میں چوہے جیسی ہمت ہوا کرتی تھی، مزید بہادر بنا دیا ہے۔ تُو مجھ سے جو ہیبت محسوس کرتا ہے، وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ میں بہت مہربان ہوں، اور میں نے کبھی بھی تشدد کے ذریعے تیرے جسم پر پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔ شاید، جیسا کہ تُو دیکھتا ہے، میں صر ف سخت کلامی کر رہا ہوں – لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں تجھے مسکراتا ہوا چہرہ دکھاتا ہوں، اور میں تیرے منہ پر کبھی بھی تجھے لعنت ملامت نہیں کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں تیری کمزوریاں ہمیشہ معاف کرتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ تُو میرے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہے جیسے سانپ نے مہربان کسان کے ساتھ کیا تھا۔ میں نسلِ انسانی کی مشاہداتی طاقتوں میں انتہائی مہارت اورفراست کی کس طرح تعریف کرتا ہوں! میں تجھے ایک سچ بتاتا ہوں: آج اس سے بہت کم فرق پڑتا ہے کہ تُو احترام بھرے دل کا مالک ہے یا نہیں۔ میں اس کے بارے میں نہ تو پریشان ہوں اور نہ ہی فکر مند۔ لیکن میں تجھے یہ بھی بتانا چاہوں گا: تجھے، اس ”باصلاحیت شخص“کو، جو سیکھتا نہیں ہے اور جاہل رہتا ہے، آخر کار تیری خود ستائشی، معمولی سی مکاری زوال سے دوچا رکردے گی – تُو ہی وہ ہو گا جو تکلیف برداشت کرے گا اور سزا پائے گا۔ میں اتنا احمق نہیں ہوں گا کہ تیرے ساتھ چلوں جیسا کہ تُو دوزخ میں عذاب بھگت رہا ہوگا، کیونکہ میں تیری ہی قسم کا نہیں ہوں۔ یہ مت بھول کہ تُو ایک ایسی مخلوق ہے جس پر میری طرف سے لعنت کی گئی ہے اور پھر بھی میری طرف سے سکھایا گیا اور نجات بھی دی گئی ہے، اور تجھ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے میں تجھ سے جدا ہونے سے ہچکچاؤں۔ میں جس بھی وقت اپنا کام کرتا ہوں، میں کبھی بھی کسی شخص، واقعہ یا شے سے مجبور نہیں ہوتا۔ بنی نوع انسان کے بارے میں میرا رویہ اور میرا نقطہ نظر ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے۔ میں تیرے ساتھ اس لیے خاص طور پر اچھا رویہ نہیں رکھتا کہ تُو میری انتظامیہ کا ایک جزو ہے، اور کسی دیگر انسان سے زیادہ خاص ہونے سے بہت دور ہے۔ میری تجھے نصیحت یہ ہے کہ تجھے ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ تُو خدا کی مخلوق سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ تُو اپنا وجود میرے ساتھ بانٹ سکتا ہے، لیکن تجھے اپنی شناخت کا علم ہونا چاہیے۔ اپنے بارے میں بہت زیادہ مت سوچ۔ اگر میں تیری سرزنش نہ کروں یا تجھ سے نہ نمٹوں بلکہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ خیر مقدم کروں تو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ تُو بھی میری ہی قسم کا ہے۔ تُو – تجھے اپنے آپ کو سچ کی پیروی کرنے والے کے طور پر جاننا چاہیے، نہ کہ خود بطور سچائی! تجھے میرے کلام کے مطابق تبدیلی کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ تُو اس سے فرار نہیں ہوسکتا۔ میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ اس قیمتی وقت کے دوران، جب تیرے پاس یہ نادر موقع ہے، کچھ سیکھنے کی کوشش کر۔ مجھے بیوقوف نہ بنا؛ مجھے دھوکا دینے کی کوشش کرنے کے لیے تجھے چاپلوسی کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تُو میری جستجو کرتا ہے، تو یہ مکمل طور پر میری خاطر نہیں، بلکہ تیرے اپنے لیے ہوتا ہے!