نجات پانے والا شخص وہ ہے جو سچ پر عمل کےلیے رضامند ہو
خطبات میں اکثر کلیسا کی مناسب زندگی گذارنے کی ضرورت کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے کہ کلیسا کی زندگی میں ابھی تک بہتری نہیں آئی اور ابھی تک وہی پرانی چیز کیوں برقرار ہے؟ کیا ایک نوے برس کے آدمی کے لیے عام سی بات ہوسکتی ہے کہ وہ گذرے ہوئے دور کے بادشاہ کے طور پر زندگی گذارے؟ اگرچہ جو ذائقہ دار چیزیں آج کے لوگ کھاتے اور پیتے ہیں وہ وہ گذشتہ دور میں بہت کم چکھی گئی تھیں، کلیسا کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ یہ سب نئی بوتل میں پرانی شراب ڈالنے جیسا رہا ہے۔ پھر خدا کےاتنا کچھ کہنے کا کیا فائدہ ہوا؟ بہت سے مقامات پر کلیساؤں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اگرچہ میں نے کلیسا کی زندگی کا تجربہ نہیں کیا مگر میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ میرے دل پر آشکار ہے۔ کلیسا میں ہونے والے اجتماعات کو میں پوری طرح جانتا ہوں۔ ان میں زیادہ بہتری نہیں آئی اور اس کی مثال اُسی کہاوت جیسی ہے؛ نئی بوتلوں میں پُرانی شراب ڈالنا۔ کچھ بھی نہیں بدلا! جب کوئی انہیں ہانک رہاا ہو تو لوگ آگ کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں اور جب ان کی مدد کے لیے کوئی نہ ہو تو برف کی سل بن جاتے ہیں۔ اکثریت عملی چیزوں پر بات نہیں کرسکتی اور قائدین تو کم یاب ہوگئے ہیں۔ خطبات اگرچہ بلند پایہ ہیں مگرشاذونادر ہی کوئی اندر داخل ہوپایا ہے۔ چند لوگ خدا کا کلام دل سے لگاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں یہ کلام سنتے ہی نم ہوجاتی ہیں مگر وہ اسے ایک طرف رکھتے ہی خوش اور پیٹھ پھیرتے ہی رُوکھے اور بے نُور ہوجاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو تم لوگ خدا کے الفاظ کو دل سے ہی نہیں لگاتے اور تم آج اُس کے کلام کو خزانے کے طور پر بھی نہیں دیکھتے۔ اُس کا کلام پڑھ کر ا تم بس بے چین ہوجاتے ہو اور اسے زبانی یاد کرتے وقت تم میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے، جب خدا کے کلام پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو یہ کنوئیں کے پمپ کی ہتھی کو گھوڑے کی دُم کے بال سے موڑنے کے مترادف ہوتا ہے۔ خواہ جتنی بھی کوشش کرلو، تم خاطرخواہ توانائی جمع نہیں کرسکتے۔ خُدا کا کلام پڑھتے وقت ا تم ہمیشہ توانائی سے معمور ہوتے ہو مگر جب اس پر عمل کا وقت آتا ہے تو غافل ہوجاتے ہو۔ دراصل یہ الفاظ مشقت سے ادا کرنے اور صبر سے دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کا خُدا کا کلام بس سننا مگر عمل نہ کرنا خُدا کے کام کی راہ میں رُکاوٹ بن گیا ہے۔ میں یہ سامنے نہیں لاسکتا، میں اس پر بات نہیں کرسکتا۔ میں ایسا کرنے پر مجبور ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں انسانی کمزوریاں بے نقاب کرکے خوشی محسوس کرتا ہوں۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ ا تم لوگوں کا عمل کرنا لگ بھگ کافی ہے—کہ جب الہامات عروج پر ہوتے ہیں تو تم میں نفوذ کی صلاحیت بھی بلند ہوتی ہے۔ کیا یہ اتنی سادہ سی بات ہے؟ ا تم ان بنیادوں کا کبھی مشاہدہ نہیں کرتے جن پر آخر کارا تمہارے تجربات کی تعمیر ہوتی ہے! اس لمحے تمہارے اجتماعات کو کلیسا کی مناسب زندگی ہرگز نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی کم از کم یہ ایک مناسب روحانی زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔۔ یہ محض ان لوگوں کے گروہ کا اجتماع ہے جو گپ شپ اور گانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیدھی بات کی جائے تو اس میں کوئی زیادہ حقیقت نہیں ہے۔ واضح بات یہ ہے کہ اگر ا تم سچ پر عمل نہیں کرتے تو پھر حقیقت کہاں ہے؟ کیا یہ کہنا محض شیخی نہیں کہ تم حقیقت کے حامل ہو؟ جو ہمیشہ کام سرانجام دیتے ہیں وہ خود پسند اور متکبر ہوتے ہیں، وہ جو اطاعت کرتے ہیں وہ کسی تربیت کے موقع کے بغیر خاموش اور اپنےسر جھکائے رکھتے ہیں۔ جو لوگ کام کرتے ہیں وہ بولنے کے سوا کچھ نہیں کرتے، وہ بلند بانگ تقاریر کرتے چلے جاتے ہیں اور پیروکار بس انہیں سنتے ہیں۔ اس سے کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آتی؛ یہ سب ماضی کے طریقے ہیں! آج ا تمہارا سرِ تسلیم خم کرنے کے قابل ہونا، اپنی خوشی سےمداخلت اور عمل کی ہمت نہ کرنے کی وجہ خُدا کے انتظامی احکامات کی آمد ہے۔ یہ وہ تبدیلی نہیں جو تم میں اتمہارے تجربے کی بنا پر واقع ہوئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم آج کچھ ایسے کام کرنے کی مزید ہمت ہی نہیں رکھتے جو انتظامی احکامات کی خلاف ورزی سمجھے جاتے ہوں کیونکہ خُدا کے کلام کا کام واضح تاثیر رکھتا ہے اور یہ لوگوں کو تسخیر کرچکا ہے۔ مجھے کسی سے پوچھنے دیں: تمہاری آج تک کی کامیابیوں میں ا تمہاری محنت کے پسینے کا کس حد تک ہاتھ ہے؟ اس میں سے کتنا کچھ خُدا کی طرف سے براہ راست تمہیں بتانے سے واقع ہوا ہے؟ تم اس سوال کا کیا جواب دو گے؟ کیا تم ہکا بکا اور گنگ ہوجا ؤ گے؟ ایسا کیوں ہے کہ دوسرے لوگ اپنے کئی حقیقی تجربات کے بارے میں بتانے اور تمہیں رزق فراہم کرنے کے قابل ہیں، جبکہ ا تم بس وہ کھاتے ہو جو دُوسروں نے پکایا ہو؟ کیا ا تم شرمندہ نہیں ہوتے؟ تم حقائق کی تلاش کے لیے امتحان لے سکتے ہیں، ان لوگوں کا مشاہدہ کرکے جو نسبتاً اچھے ہیں: تمہیں کس قدر سچائی کا ادراک ہوتا ہے؟ تم اس پر کتنا عمل کرتے ہو؟ ا تم کس سے زیادہ پیار کرتے ہو، خود سے یا خُدا سے؟ کیا ا تم اکثر دیتے زیادہ ہو یا وصول زیادہ کرتے ہو؟ کتنے مواقع پرجب تمہاری نیت خراب تھی اور ا تم نے پُرانی اصلیت کو خیر باد کہہ کر خُدا کی منشا پوری کی ہے؟ بس یہ چند سوالات کئی لوگوں کو مخمصے میں ڈال دیں گے کیونکہ لوگ اپنی بُری نیت کو جانتے ہوئے بھی غلط راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ اپنے جسم کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے۔ زیادہ تر لوگ گناہ کو اپنے اند ربے مہار دوڑتا پھرنے کا موقع اور ان کے ہرعمل کے دوران انہیں ہدایت دیتے رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ وہ اپنے گناہوں پر غالب نہیں آسکتے اور وہ گناہوں کی زندگی گذارتے چلے جاتے ہیں۔ اس مرحلے پر پہنچ کر کون نہیں جانتا کہ ان سے کتنے بُرے اعمال سرزد ہوئے ہیں؟ اگر تم یہ کہتے ہوکہ تم نہیں جانتے، تو تم سفید جھوٹ بول رہے ہو۔ سچ پچھو تو یہ سب تمھاری پرانی ذات ترک کرنے سے عدم رغبت ہے۔ بار بار اتنے سارے پچھتاوے بھرے "دل کے الفاظ" استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے جو اپنی قدر کھوچکے ہیں۔ کیا اس سے تمہیں زندگی میں پھلنے پھولنے میں مدد ملتی ہےں؟ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خود شناسی ا تمہارا ہر وقت کا کام ہے۔ میں لوگوں کو ان کی اطاعت اور خدا کے کلام پر عمل کے ذریعے کامل بناتا ہوں۔ اگر تم خدا کا کلام بھی ویسے ہی پہن لیتے ہو جیسے تم لباس پہنتے ہو کہ ا تم ہوشیار اور صاحب طرز دکھائی دو تو کیا خود کو اور دُوسروں کو دھوکا نہیں دے رہے ؟ اگر تمہارے پاس بات کرنے کے لیے بہت مگر عمل کے لیے کچھ نہیں ہے تو آپ کو کیا حاصل ہوگا؟
کئی لوگ تھوڑا بہت عمل کے بارے میں اور ذاتی تاثرات کے بارے میں بات کرسکتے ہیں لیکن اس میں سے زیادہ تر دوسروں کے الفاظ سے حاصل ہونے والی روشنی ہے۔ اس میں ان کے اپنے عمل سے حاصل ہونے والا کچھ بھی شامل نہیں، اور نہ ہی اس میں وہ شامل ہے جو وہ اپنے تجربات سے دیکھتے ہیں۔ میں پہلے ہی اس مسئلے کے ہر پہلوپر بات کرچکا ہوں؛ یہ مت سوچو کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ ا تم محض کاغذی شیر ہو لیکن شیطان کو تسخیرکرنے، فاتحانہ شہادتیں رکھنے اور خُدا کی شان زندہ کرنے کی بات کرتے ہو۔ یہ سب احمقانہ باتیں ہیں۔ کیا تم سوچتے ہو کہ خُدا نے آج جو بھی کہا وہ اس لیے کہا کہ تم اس کی تعریف کرسکو؟ تمہارا منہ اپنی پُرانی ذات ترک اور سچ پر عمل کرنے کی باتیں کرتا ہے مگر آپ کے ہاتھ کچھ اور کرتوت کررہے ہیں، آپ کا دل کوئی اور منصوبے بنارہا ہے—کیسے انسان ہو ا تم؟ اتمہارا دل اور ہاتھ ایک ہی اور یکساں کیوں نہیں ہیں؟ اتنی زیادہ تبلیغ کھوکھلے الفاظ میں بدل چکی ہے۔ کیا یہ دل توڑنے والی بات نہیں ہے؟ اگر تم خدا کے کلام پر عمل کرنے کے قابل نہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تم اس طریقے میں داخل ہوئے جس پر روح القدس کام کرتی ہے، اور ابھی ا تم تک اس کی رہنمائی نہیں پہنچی۔ اگر ا تم کہتے ہو کہ ا تم صرف خُدا کا کلام سمجھ سکتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرسکتے تو ا تم ایک ایسے شخص ہو جسے سچائی سے کوئی محبت نہیں۔ خُدا ایسے انسان کو بچانے نہیں آتا۔ جب گناہ گاروں کو بچانے، غریبوں کو بچانے اور ان تمام لاچارلوگوں کو بچانے کے یسوع مصلوب کیے گئے تو انہیں سخت اذیت برداشت کر نی پڑی ے۔ ان کی مصلوبیت نے گناہوں کے فدیے کا کام کیا۔ اگر ا تم خُدا کے کلام پر عمل نہیں کرسکتے تو تمہیں جتنی جلدی ہوسکے یہاں سے روانہ ہوجانا چاہیے اور ایک مفت خورے کی طرح خُدا کے گھر میں ٹکے نہیں رہنا۔ بہت سےلوگوں کو خود کو ان اعمال سے روکنامشکل لگتا ہے نہیں پاتے جو خُدا کے خلاف کھلی سرکشی ہیں۔ کیا وہ لوگ موت کو دعوت نہیں دے رہے؟ یہ لوگ خُدا کی سلطنت میں داخل ہونے کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟ کیا یہ خُدا کا چہرہ دیکھنے کی جُرات کر پائیں گے؟ خُدا کی عطا کردہ خوراک کھانا اور خُدا کے خلاف بداعمالیاں کرنا، بغض، کینہ رکھنا اور چالیں چلنا جبکہ خُدا نے تمہیں اجازت دے رکھی ہے کہ ا تم اس کے عطا کردہ انعامات سے لطف اٹھاؤ۔ کیا یہ نعمتیں وصول کرتے ہوئے تمہیں ہاتھ جلتےمحسوس نہیں ہوتے ؟ کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ تمہارے چہرے لال ہورہے ہیں؟ خُدا کے خلاف کوئی عمل کرکے اور "سرکشی اختیار کرنے" کے منصوبوں پر عمل درآمد کے بعد، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟ اگر تمہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا، تو تم آکسی مستقبل کی بات کیسے کرسکتے ہو؟ ا بہت پہلے ہی سے تمہارا کوئی مستقبل نہیں تھا تو تم اب بھی کوئی بڑی توقعات کیسے رکھ سکتے ہو؟ اگر شرمناک بات کرنے کے بعدتمہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا اور تمہارے دل میں کوئی آگاہی نہیں ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ خُدا ا پہلے ہی تمہیں دھتکار چکا ہے؟ بے تحاشا اور بے قابو انداز میں بولنا اور عمل کرنا ا تمہاری فطرت بن چکا ہے؛ اس صورت میں خدا تمہیں کامل کیسے بناسکتا ہے؟ کیا تم دنیا بھر میں چلنے پھرنے کے قابل ہو گے ؟ تم سے کون قائل ہو گا؟ جو تمہاری حقیقت سے آشنا ہوں گےوہ تم سے دُور ہو جائیں گے۔ کیا کیا یہ خدا کی سزا نہیں ہے؟ مجموعی طور پر، اگر صرف باتیں ہیں اور کوئی عمل نہیں تو ا کوئی بڑھوتری نہیں ہوگی۔ اگرچہ ہوسکتا ہے کہ تمہاری گفتگو کے دوران روح القدس تم پر اپنا کام کررہی ہو، لیکن اگر تم عمل نہیں کرتے تو روح القدس کام چھوڑ دے گی۔ اگر تم اسی طرح چلتے رہے تو مستقبل اور اپنا سب کچھ خُدا کے سپرد کرنے کی بات کیسے ہوگی؟ تم اپنا سب کچھ خُدا کے سپر د کرنے کی بات تو کرسکتے ہو مگر تم نے خُدا کو اپنا سچا پیار نہیں دیا۔ اُسے تم سے صرف زُبانی عقیدت ملتی ہے۔ اُسے ا تمہاری جانب سے سچائی پر عمل کی نیت نہیں ملی۔ کیا یہ تمہارا اصل قد و قامت ہوسکتا ہے؟ اگر تم ایسے ہی چلتے رہے تو خُدا تمہیں کامل انسان کب بنائے گا؟ کیا تم اپنے ا تاریک اور اُداس مستقبل پر پریشانی محسوس نہیں کرتے؟ کیا تمہیں احساس نہیں ہوتا کہ خُدا تم میں امید کھوبیٹھاہے ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ خُدا زیادہ تعداد میں اور زیادہ نئے انسانوں کو کامل بنانا چاہتا ہے؟ کیا پُرانی چیزیں اپنا آپ باقی رکھ سکتی ہیں؟ آج تم خدا کے کلام پر توجہ نہیں دے رہے: کیا تم آنے والے کل کا انتظار کررہے ہو؟