خدا کا مزاج سمجھنا بہت اہم ہے

ایسے بہت سے امور ہیں جن کی انجام دہی کی میں تم سے امید کرتا ہوں، تاہم تمھارے تمام اعمال، تمھاری زندگی سے متعلق ہر چیز میرا مطالبہ پورا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، لہٰذا میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ میں تم سے اپنی مرضی کی وضاحت کے لیے سیدھا موضوع پر آؤں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ تمھاری فہم ناقص ہے اور ٹھیک اسی طرح تمھاری قدرشناسی بھی ناقص ہے، تم میرے مزاج اور جوہر سے تقریباً بالکل ناواقف ہو – لہٰذا فوری بات یہ ہے کہ میں تمھیں ان کے بارے میں آگاہ کروں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم پہلے کتنا سمجھ چکے ہو، اور اس سے بھی قطع نظر کہ آیا تم یہ مسائل سمجھنا چاہتے ہو یا نہیں، بہرحال تمھیں تفصیل سے یہ امور سمجھانا مجھ پر لازم ہے۔ تم ان مسائل سے مکمل طور پر اجنبی نہیں ہو، تاہم تم لوگ ان کے اندر موجود مفہوم سے زیادہ آشنا نہیں ہو، تمھارے اندر زیادہ فہم و فراست نہیں ہے۔ تم میں سے بہت سے لوگ ان کے متعلق صرف ایک مبہم سی، جزوی اور نامکمل سمجھ رکھتے ہیں۔ سچائی پر بہتر طریقے سے عمل کرنے کے لیے – میرے کلام پر بہتر طریقے سے عمل کرنے کے لیے - میرا خیال ہے یہ وہ مسائل ہیں جن سے تمھیں لازماً سب سے پہلے آگاہ ہونا چاہیے۔ اگر نہیں تو تمھارا ایمان مبہم، منافقانہ اور مذہبی پھندوں سے بھرا رہے گا۔ اگر تُو خدا کا مزاج نہیں سمجھتا تو تیرے لیے وہ کام کرنا ناممکن ہو جائے گا جو تجھے اس کے لیے کرنا چاہیے۔ اگر تُو خدا کا مزاج نہیں جانتا تو تیرے لیے اس کی تعظیم اور خوف رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس کی بجائے، صرف لاپروائی، نیم دلی اور حیلہ سازی ہو گی، اور اس کے علاوہ، ایسی گستاخی ہو گی جس کا کفارہ ممکن نہیں۔ اگرچہ خدا کا مزاج سمجھنا واقعی بہت اہم ہے، اور خدا کا جوہر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن کسی نے بھی ان مسائل کا اچھی طرح سے جائزہ نہیں لیا یا تحقیق نہیں کی۔ دیکھنے کی واضح بات یہ ہے کہ تم نے میرے جاری کردہ انتظامی احکام مسترد کر دیے ہیں۔ اگر تم خدا کا مزاج نہیں سمجھتے، تو غالب امکان یہ ہے کہ تم اس کا مزاج برہم کرو گے۔ خدا کا مزاج برہم کرنا خود اس کے غضب کو مشتعل کرنے کے مترادف ہے، اس صورت میں تیرےاعمال کا حتمی نتیجہ انتظامی احکام کی خلاف ورزی کی شکل میں برآمد ہوگا۔ اب تجھے یہ احساس ہونا چاہیے کہ جب تُو خدا کا جوہر جان لے گا تو تُو اس کا مزاج بھی سمجھ جائے گا اور جب تُو اس کا مزاج سمجھ جائے گا تو تجھے انتظامی احکام بھی سمجھ میں آ جائیں گے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ انتظامی احکام میں شامل زیادہ تر باتیں خدا کا مزاج چھُوتی ہیں، لیکن انتظامی احکام میں اس کا پورا مزاج ظاہر نہیں ہوتا، لہٰذا، تمھیں اپنی خدا کے مزاج کی سمجھ پروان چڑھانے کے لیے ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا۔

میں آج کسی عام گفتگو کی طرح تم سے کلام نہیں کر رہا ہوں، لہٰذا تمھارے لیے مناسب ہے کہ تم میرے الفاظ غور سے سنو اور اس کے علاوہ، ان پر گہرائی سے غور کرو۔ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ تم نے میرے کہے ہوئے الفاظ پر بہت کم کوشش کی ہے۔ تم خدا کے مزاج پر غور کرنے کے تو اس سے بھی کم خواہاں ہو؛ شاذ و نادر ہی کوئی اس کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ تمھارا ایمان پُرشکوہ الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ابھی تک، تم میں سے کسی ایک نے بھی اپنی سب سے اہم کمزوری دور کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ میں نے تمھارے لیے اتنی تکالیف برداشت کیں پھر بھی تم نے مجھے مایوس کر دیا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ تمھیں خدا کی کوئی پروا نہیں ہے اور تمھاری زندگی سچائی سے عاری ہے۔ ایسے لوگ مقدسین کیسے سمجھے جا سکتے ہیں؟ آسمانی قانون ایسی چیز برداشت نہیں کرے گا! چونکہ تمھیں اس کی بہت کم سمجھ ہے، اس لیے میرے پاس سانسوں میں مزید توسیع کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

خدا کا مزاج ایک ایسا موضوع ہے جو ہر کسی کو بہت ہی تجریدی معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے بھی، مزید برآں، یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے قبول کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہے، کیونکہ اس کا مزاج انسان کی شخصیت سے مختلف ہے۔ خدا کے بھی خوشی، غصہ، غم اور مسرت کے اپنے جذبات ہیں، لیکن یہ جذبات انسان کے جذبات سے مختلف ہیں۔ خدا جو ہے، سو وہ ہے اور جو اس کے پاس ہے، سو ہے۔ جو کچھ وہ بیان اور منکشف کرتا ہے وہ اس کی ذات اور اس کی شناخت کا اظہار ہے۔ وہ جو ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے، نیز اس کا جوہر اور شناخت، یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں کوئی انسان بدل نہیں سکتا۔ اس کا مزاج بنی نوع انسان کے لیے اس کی محبت، بنی نوع انسان کی تسکین، بنی نوع انسان کی نفرت، اور اس سے بھی زیادہ بنی نوع انسان کی مکمل تفہیم کا احاطہ کرتا ہے۔ تاہم، انسان کی شخصیت رجائیت پسند، خوش طبع یا بے حس ہو سکتی ہے۔ خدا کا مزاج تمام اشیا، تمام جانداروں، اور اس طرح تمام مخلوق کے حاکم کا ہے۔ اس کا مزاج شرف، طاقت، شرافت، عظمت اور سب سے بڑھ کر حاکمیت کا اظہار ہے۔ اس کا مزاج اختیار کی علامت ہے، ان تمام چیزوں کی علامت ہے جو راست باز ہیں، ان تمام اشیا کی علامت ہے جو خوبصورت اور اچھی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر، یہ خود اس کی علامت ہے جس پر ظلمت یا اور کوئی دشمن طاقت غلبہ نہیں پا سکتی اور نہ ہی اس پر حملہ کر سکتی ہے، ساتھ ہی یہ خدا کی علامت ہے جو ناراض نہیں ہو سکتا (اور نہ ہی وہ ناراض کیا جانا برداشت کرے گا)۔ اس کا مزاج اعلیٰ ترین طاقت کی علامت ہے۔ کوئی بھی فرد یا افراد اس کے کام یا اس کے مزاج میں خلل نہیں ڈال سکتے۔ لیکن خدا کے برعکس انسان کی شخصیت حیوان پر انسان کی معمولی برتری کی علامت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ انسان کے پاس بذات خود کوئی اختیار، کوئی آزادی، اور نفس سے ماورا ہونے کی کوئی اہلیت نہیں ہے، لیکن وہ اپنی ذات میں ایسا ہے جو ہر طرح کے لوگوں، واقعات اور اشیا کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ خدا کی خوشی، راست بازی اور روشنی کے وجود اور ظہور کی وجہ سے ہے، ظلمت اور بدی کی تباہی کی وجہ سے ہے۔ وہ بنی نوع انسان کے لیے روشنی اور بہتر زندگی لانے میں خوشی محسوس کرتا ہے؛ اس کی خوشی راست بازی والی خوشی ہے، تمام مثبت چیزوں کی موجودگی کی علامت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر بابرکت ہونے کی علامت ہے۔ خدا کا غضب اس نقصان کی وجہ سے ہے جو ناانصافی کے وجود اور مداخلت سے اس کی نوع انسانی کو پہنچتا ہے، بدی اور ظلمت کے وجود کی وجہ سے ہے، کہ حقیقت کو نکال باہر کرنے والی اشیا کے وجود کی وجہ سے ہے، اور اس سے بھی زیادہ، ان اشیا کے وجود کی وجہ سے ہے جو اچھی اور خوبصورت چیز کی مخالفت کرتی ہیں۔ اس کا غصہ اس بات کی علامت ہے کہ تمام منفی چیزیں اب موجود نہیں ہیں اور اس سے بھی کہیں زیادہ یہ اس کے تقدس کی علامت ہے۔ اس کا دکھ نوع انسانی کی وجہ سے ہے، جس سے وہ امیدیں رکھتا ہے لیکن جو ظلمت میں غرق ہو گئی ہے، کیونکہ جو کام وہ انسان پر کرتا ہے وہ اس کی امیدوں پر پورا نہیں اترتا، اور اس لیے کہ جس بنی نوع انسان سے وہ محبت کرتا ہے وہ سب روشنی میں نہیں رہ سکتے۔ وہ معصوم بنی نوع انسان کے لیے، ایمان دار لیکن جاہل انسان کے لیے، اور اس انسان کے لیے جو اچھا ہے لیکن اپنے نظریات سے محروم ہے، کے لیے غم محسوس کرتا ہے۔ اس کا غم اس کی نیکی اور اس کی رحمت کی علامت ہے، حسن اور مہربانی کی علامت ہے۔ اسے یقیناً اپنے دشمنوں کو شکست دینے اور انسان کی نیک نیتی حاصل کرنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اور اس سے بھی کہیں زیادہ، یہ تمام دشمن قوتوں کے خاتمے اور تباہی سے پیدا ہوتی ہے، اور اس لیے کہ بنی نوع انسان کو ایک اچھی اور پرامن زندگی ملتی ہے۔ خدا کی خوشی انسان کی خوشی کے برعکس ہے؛ بلکہ، یہ اچھے ثمرات جمع کر لینے کا احساس ہے، شادمانی سے بھی زیادہ بڑا احساس۔ اس کی خوشی آج کے بعد سے بنی نوع انسان کے مصائب سے آزاد ہونے کی علامت ہے، اور بنی نوع انسان کے روشنی کی دنیا میں داخل ہونے کی علامت ہے۔ دوسری طرف، بنی نوع انسان کے تمام جذبات راستبازی، روشنی، یا جو کچھ خوبصورت ہے، اس کے لیے نہیں، بلکہ اس کے اپنے مفادات کی خاطر پیدا ہوتے ہیں، اور آسمان کی طرف سے عطا کردہ فضل کے لیے تو بالکل بھی نہیں ہوتے۔ بنی نوع انسان کے جذبات خود غرضانہ ہیں اور ان کا تعلق ظلمت کی دنیا سے ہے۔ خدا کے منصوبے کے لیے تو درکنار، وہ اس کی مرضی کی خاطر موجود نہیں ہوتے، اس لیے کبھی بھی ایک ہی سانس میں انسان اور خدا کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔ خدا تا ابد سب سے اعلیٰ اور ہمیشہ کے لیے قابل احترام ہے، جب کہ انسان ہمیشہ کے لیے رذیل، ہمیشہ کے لیے بے وقعت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تا ابد قربانیاں دیتا ہے اور خود کو بنی نوع انسان کے لیے وقف کرتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس انسان، ہمیشہ صرف اپنے بارے میں سوچتا اور کوشش کرتا ہے۔ خدا انسانوں کی بقا کے لیے مستقل تکلیفیں اٹھاتا ہے، اور انسان کبھی بھی روشنی یا راستبازی کے لیے کوئی تعاون نہیں کرتا۔ اگر انسان ایک وقت کے لیے بھی کوشش کرے تو ایک ضرب برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ انسان ہمیشہ صرف اپنے لیے کوشش کرتا ہے دوسروں کے لیے نہیں۔ انسان ہمیشہ سے خود غرض رہا ہے جبکہ خدا ہمیشہ کے لیے بے لوث ہے۔ خدا ہر اس شے کا منبع ہے جو منصفانہ، اچھی اور خوبصورت ہے، جب کہ انسان وہ ہے جو ہر بدصورتی اور برائی کو ظاہر کرتا ہے۔ خدا اپنی راست بازی اور خوبصورتی کا جوہر کبھی نہیں بدلے گا، جب کہ انسان کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت میں، راستبازی میں خیانت کرنے اور خدا سے دور بھٹکنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

میرے ہر جملے میں خدا کا مزاج مضمر ہے۔ تم میرے الفاظ پر اچھی طرح سے غور کرو گے، اور یقیناً تمھیں اس سے بہت فائدہ حاصل ہو گا۔ خدا کا جوہر سمجھنا بہت مشکل ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ تم سب کو کم از کم خدا کے مزاج کے بارے میں کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہے۔ پس مجھے امید ہے کہ تمھارے پاس مجھے دکھانے کے لیے ایسی بہت سی چیزیں ہوں گی جو تم نے کی ہیں اور جو خدا کا مزاج برہم نہیں کرتیں۔ تب مجھے اطمینان ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر ہر وقت خدا کو اپنے دل میں رکھ۔ جب تُو کوئی کام کرے تو اس کے کلام کے مطابق کر۔ ہر چیز میں اُس کے ارادوں کی جستجو کر، اور ایسے کام سے پرہیز کر جو خدا کی بے توقیری اور بے عزتی کرتا ہو۔ اس سے بھی کم، تیرے لیے مناسب نہیں کہ تُو اپنے دل میں مستقبل کا خلا پُر کرنے کے لیے خدا کو اپنے لاشعور میں رکھے۔ اگر تُو ایسا کرتا ہے تو تُو خدا کا مزاج برہم کرے گا۔ ایک بار پھر، فرض کر لے کہ تُو نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی خدا کے خلاف توہین آمیز کلمات استعمال نہیں کیے یا شکایتیں نہیں کیں، اور ایک بار پھر، یہ فرض کر لے کہ اس نے تجھے جو فریضہ سونپا ہے، تُو اس کی مکمل ادائیگی پر قادر ہے اور یہ بھی کہ تُو زندگی بھر اس کے تمام کلام کے تابع بھی رہا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر تُو نے اس کے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کرنے سے خود کو بچا لیا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر تُو نے کبھی یہ کہا ہے، "میں کیوں نہیں سوچتا کہ وہ خدا ہے؟" "میں سمجھتا ہوں کہ یہ الفاظ روح القدس کی آگہی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں،" "میری رائے میں، ضروری نہیں کہ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ سب درست ہو" "خدا کی انسانیت مجھ سے اعلیٰ نہیں ہے،" "خدا کا کلام سرے سے قابلِ یقین ہی نہیں ہے"، یا اس طرح کے دیگر فیصلہ صادر کرنے والے فقرے ادا کیے ہیں تو میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر لے اور کثرت سے توبہ کر۔ بصورت دیگر، تجھے کبھی معافی کا موقع نہیں ملے گا، کیونکہ تُو کسی انسان کو نہیں بلکہ خود خدا کو ناراض کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تُو سوچ رہا ہو کہ تُو ایک انسان کے بارے میں بدگمان رائے قائم کر رہا ہے، لیکن خدا کی روح اس طرح نہیں سوچتی۔ تیرا اس کے جسم کی توہین کرنا خود اس کی اپنی توہین کرنے کے برابر ہے۔ ایسا کر کے کیا تُو نے خدا کا مزاج برہم نہیں کیا ہے؟ تجھے یاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی خُدا کی روح کرتی ہے وہ اُس کے جسم کی حالت میں کام کرنے کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے اور وہ یہ کام بحسن و خوبی انجام دیتی ہے۔ اگر تُو اسے نظر انداز کرتا ہے تو میں کہوں گا کہ تُو ان لوگوں میں سے ہے جو خدا پر ایمان لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ تُو نے خدا کا غضب بھڑکایا ہے، اس لیے وہ تجھے سبق سکھانے کے لیے قرار واقعی سزا کا استعمال کرے گا۔

خدا کا جوہر جاننا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے تجھے لازماً اس کا مزاج سمجھنا ہو گا۔ اس طرح تُو رفتہ رفتہ اور لاعلمی میں خدا کی ذات کو جان لے گا۔ جب تجھے یہ معرفت حاصل ہو جائے گی تو تُو دیکھے گا کہ تُو ایک بلند تر اور مزید خوبصورت کیفیت میں داخل ہو چکا ہے۔ آخر میں، تجھے اپنی مکروہ روح پر شرمندگی محسوس ہوگی، اور، علاوہ ازیں، تو یہ محسوس کرے گا کہ اپنی شرمندگی سے چھپنے کے لیے تیرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔اس وقت تُو اپنے طرز عمل سے خدا کے مزاج کو کم سے کم تر برہم کرے گا، تیرا دل خدا سے قریب تر ہوتا جائے گا اور تیرے دل میں خدا کے لیے محبت بتدریج بڑھتی جائے گی۔ یہ بنی نوع انسان کے ایک خوبصورت حالت میں داخل ہونے کی علامت ہے۔ لیکن ابھی تک، تم یہ حاصل نہیں کر سکے۔ جیسا کہ تم سب اپنی تقدیر کی خاطر دوڑتے پھرتے ہو، کیا خدا کی ذات جاننے کی کوشش میں بھی کسی کو دلچسپی ہے؟ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو تم نادانستہ طور پر انتظامی احکام کی خلاف ورزی کرو گے، کیونکہ تم خدا کا مزاج بہت کم سمجھتے ہو۔ تو کیا یہ سب کچھ کر کے تم خدا کے مزاج کے خلاف اپنے جرائم کی بنیاد نہیں ڈال رہے ہو؟ میں تم سے یہ کہہ رہا ہوں کہ خدا کا مزاج سمجھنا میرے کام سے الگ نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر تم اکثر انتظامی احکام کی خلاف ورزی کرتے رہو گے تو تم میں سے کون سزا سے بچ سکے گا؟ تو کیا میرا کام مکمل طور پر رائیگاں نہیں چلا جائے گا؟ اس لیے، میں اب بھی یہ تاکید کروں گا کہ، اپنے طرزعمل کی جانچ پڑتال کے علاوہ، تم جو اقدامات کرتے ہو ان میں محتاط رہو۔ یہ زیادہ بڑا مطالبہ ہے جو میں تم سے کرتا ہوں، اور میں امید کرتا ہوں کہ تم سب اس پر احتیاط سے غور کرو گے اور دل سے اس کا احترام کرو گے۔ اگر کوئی دن ایسا آئے جب تمھارے اعمال مجھے شدید غصے میں مبتلا کریں تو اس کے نتائج پر غور کرنا تنہا تمھارا کام ہے اور تمھاری جگہ سزا کاٹنے والا کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔

سابقہ: خطائیں انسان کو جہنم میں لے جائیں گی

اگلا: زمین پر خدا کو کیسے جانا جائے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp