خطائیں انسان کو جہنم میں لے جائیں گی
میں نے تمہیں کئی مرتبہ تنبیہ کی ہے اور تمہیں بہت سی سچائیاں عطا کی ہیں جن کا مقصد تم پر غالب آنا تھا۔ اب تک، تم سب ماضی کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ بہتر محسوس کرتے ہو، ان بہت سے اصولوں کو سمجھ چکے ہو کہ ایک شخص کو کیسا ہونا چاہیے، اور تمہارے پاس اتنی عقل آ گئی ہے جو وفادار لوگوں کے پاس ہونی چاہیے۔ یہ سب وہ فصل ہے جو تم نے کئی سالوں کے دوران کاٹی ہے۔ میں تمہاری کامیابیوں سے انکار نہیں کرتا، لیکن مجھے یہ بھی صاف صاف کہنا ہے کہ میں ان بے شمار نافرمانیوں اور بغاوتوں کا بھی انکار نہیں کرتا جو تم نے ان سالوں میں میرے خلاف کی ہیں، کیونکہ تم میں سے ایک بھی درویش نہیں ہے۔ تم بغیر کسی استثناء کے وہ لوگ ہو جن کو شیطان نے بگاڑ دیا ہے؛ تم مسیح کے دشمن ہو۔ آج تک تمہاری خلاف ورزیاں اور نافرمانیاں اتنی زیادہ رہی ہیں کہ ناقابلِ شمار ہیں، اس لیے یہ بات شاید ہی عجیب سمجھی جائے کہ میں ہمیشہ تمہیں برا بھلا کہتا ہوں۔ میں اس طرح تمہارے ساتھ مل کر رہنا نہیں چاہتا – لیکن تمہارے مستقبل کی خاطر، تمہاری منزلوں کی خاطر، یہاں اور اب، ایک بار پھر، میں تمہیں تنگ کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم میری حوصلہ افزائی کرو گے اور مزید یہ کہ تم میری ہر بات پر یقین کرنے اور میرے کلام کے گہرے مضمرات کا اندازہ لگانے کے قابل ہو جاﺆ گے۔ میری باتوں میں شک نہ کرنا، اور میرے کلام کو اپنی چاہت کے مطابق اٹھانے اور اپنی مرضی سے ایک طرف پھینک دینے کی تو بات رہنے ہی دو؛ یہ میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔ میرے کلام پر تنقید نہ کرو، اور انہیں غیر اہم سمجھنا بھی نہیں یا یہ کہنا کہ میں تمہیں ہمیشہ لبھاتا رہتا ہوں یا، اس سے بھی بدتر یہ کہ میں نے جو کچھ تمہیں بتایا ہے وہ غلط ہے۔ یہ چیزیں مجھے بھی ناقابل برداشت لگتی ہیں۔ چونکہ تم میرے ساتھ اور جو کچھ میں کہتا ہوں اس کے ساتھ اتنے شکوک و شبہات والا برتاؤ کرتے ہو، کہ میرے الفاظ کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے اور مجھے نظر انداز کرتے ہو، میں تم میں سے ہر ایک کو پوری سنجیدگی سے کہتا ہوں: میں جو کہتا ہوں اسے فلسفے سے مت جوڑو۔ میرے کلام کو جعلسازوں کے جھوٹ سے مت جوڑو۔ چہ جائیکہ تم میرے کلام کا جواب حقارت کے ساتھ دو۔ جو میں تمہیں اب بتا رہا ہوں، شاید مستقبل میں کوئی بھی تمہیں یہ نہیں بتا سکے گا، یا کوئی تم سے اتنی فیاضی سے بات نہیں کر سکے گا، یا اس بات کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ ان نکات پر اتنے صبر کے ساتھ تمہاری راہنمائی کرے۔ تم آنے والے دنوں کو، اچھے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے، یا اونچی آواز میں سسکیاں لیتے ہوئے یا درد سے کراہنے میں گزارو گے، یا تم اندھیری راتوں میں بغیر کسی شمہ بھر سچائی یا زندگی کی فراہمی کے، یا صرف ناامیدی سے انتظار کرتے ہوئے، یا اتنے تلخ رنج میں گزارو گے کہ تم سب استدلال کھو بیٹھو گے۔۔۔۔ عملی طور پرتم میں سے کوئی بھی ان امکانات سے نہیں بچ سکتا۔ کیونکہ تم میں سے کوئی بھی ایسی نشست پر نہیں ہے جہاں سے تم حقیقی معنوں میں خدا کی عبادت کرو، بلکہ اپنے آپ کو بدکاری اور برائی کی دنیا میں غرق کر دیتے ہو، اور بہت سی ایسی چیزیں تمہارے عقائد میں، تمہارے جذبوں، روحوں اور جسموں میں گھل مل جاتی ہیں، جن کا زندگی اور سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو حقیقت میں ان کی مخالف ہیں۔ اس لیے میں تمہارے لیے جو امید رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ تمہیں روشنی کی راہ پر لایا جا سکتا ہے۔ میری واحد امید یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو سنبھالنے، اپنا خیال رکھنے کے قابل بن سکتے ہو، اور یہ کہ تم اپنے رویے اور خطاؤں کو بے حسی سے دیکھتے ہوئے اپنی منزل کی اہمیت پر اتنا زور نہیں دیتے ہو۔
جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سب ایک طویل عرصے سے، پوری شدت سے ایک خوبصورت منزل کی امید کر رہے ہیں، اور خدا کے تمام ماننے والے امید کرتے ہیں کہ اچانک ان کے پاس خوش قسمتی آجائے گی۔ وہ سب امید کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ انہیں علم ہو، وہ خود کو جنت میں کسی نہ کسی جگہ پر سکون سے بیٹھے ہوئے پائیں گے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے خوش کن خیالات سے کبھی یہ نہیں جان سکے ہیں کہ کیا وہ آسمان سے نازل ہونے والی ایسی اچھی قسمت حاصل کرنے یا وہاں کسی نشست پر بیٹھنے کے اہل بھی ہیں۔ تم فی الحال، اپنے بارے میں اچھی طرح جانتے ہو، پھر بھی تم آخری ایام کی آفات سے، اور قادر مطلق کے ہاتھ سے جب وہ بدکاروں کو سزا دیتا ہے، بچنے کی ابھی بھی امید رکھتے ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے سہانے خواب دیکھنا اور اپنی پسند کی چیزوں کی خواہش کرنا ان تمام لوگوں کی مشترکہ خصوصیت ہے جن کو کسی اکیلے فرد کی طرف سے کسی اچھوتے ذہین خیال نے نہیں بلکہ شیطان نے بگاڑ دیا ہے۔ اس کے باوجود، میں اب بھی تمہاری ان فضول خواہشات کو ختم کرنا چاہتا ہوں، اور ساتھ ہی تمہارے برکتوں کے حصول کے شوق کو بھی ختم کرنا چاہتا ہوں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ تمہاری خطائیں بے شمار ہیں، اور یہ کہ تمہاری سرکشی کی حقیقت مسلسل بڑھ رہی ہے، یہ چیزیں تمہارے مستقبل کے خوبصورت نقشوں کے ساتھ کیسے مطابقت رکھ سکتی ہیں؟ اگر تو اپنی مرضی سے بغیر کسی رکاوٹ کے غلطیاں کرنا چاہتا ہے، اس کے باوجود تُو پھر اسی وقت یہ بھی چاہتا ہے کہ تیرے خواب پورے ہوں، تو میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی مدہوشی جاری رکھ اور کبھی بیدار نہ ہو – کیونکہ تیرا خواب ایک کھوکھلا خواب ہے اور راستباز خدا کی موجودگی میں، وہ تیرے لیے کسی استثناء سے کام نہیں لے گا۔ اگر تو بس یہ چاہتا ہے کہ تیرے خواب پورے ہوں، تو کبھی خواب نہ دیکھ؛ بلکہ، ہمیشہ سچ اور حقائق کا سامنا کر۔ یہ واحد راستہ ہے جس سے تجھے بچایا جا سکتا ہے۔ ٹھوس لفظوں میں اس طریقہ کار کے کیا مراحل ہیں؟
پہلے، اپنی تمام خطاؤں پر ایک نظر ڈال، اور اپنے کسی بھی ایسے طرز عمل اور خیالات کا جائزہ لے جو سچائی کے مطابق نہیں ہیں۔
یہ ایک ایسا کام ہے جو تو آسانی سے کر سکتا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ تمام ذہین لوگ یہ کرنے کے قابل ہیں۔ تاہم، وہ لوگ جو کبھی نہیں جانتے کہ خطا اور سچائی سے کیا مراد ہے، وہ مستثنیٰ ہیں، کیونکہ بنیادی سطح پر، وہ ذہین لوگ نہیں ہیں۔ میں ان لوگوں سے بات کر رہا ہوں جو خدا کی طرف سے خوشنودی کے حامل ہیں، دیانتدار ہیں، جنہوں نے کسی بھی انتظامی حکم کی سنگین خلاف ورزی نہیں کی ہے، اور جو آسانی سے اپنی خطاؤں کو پہچان سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک چیز جو میں تم سے چاہتا ہوں جسے پورا کرنا آسان ہے، لیکن یہ واحد چیز نہیں ہے جو میں تم سے چاہتا ہوں۔ اس بات سے قطع نظر، میں امید کرتا ہوں کہ تم اس تقاضے پر اکیلے میں نہیں ہنسو گے، اور خاص طور پر یہ کہ تم اسے حقیر نہیں سمجھو گے اور نہ ہی اسے غیر اہم سمجھو گے۔ تمہیں اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، اور اسے مسترد نہیں کرنا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ تجھے اپنی خطاؤں اور نافرمانیوں کے لیے ان سے متعلقہ سچائی تلاش کرنی چاہیے اور پھر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ان سچائیوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے بعد، اپنے فاسقانہ اعمال اور نافرمانی کے خیالات اور اعمال کو سچائی پر عمل سے بدل دینا چاہیے۔
تیسرے، تمہیں ایک ایماندار شخص ہونا چاہیے، نہ کہ وہ شخص جو ہمیشہ چالاک اور مسلسل دھوکے باز ہو۔ (یہاں میں تمہیں دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ ایماندار شخص بنو)۔
اگر تو ان تینوں چیزوں کو پورا کر سکتا ہے، تو پھر تُو خوش نصیبوں میں سے ایک ہے – ایک ایسا شخص جس کے خواب پورے ہوتے ہیں اور جسے خوش نصیبی ملتی ہے۔ شاید تم ان تینوں ناخوشگوار تقاضوں کو سنجیدگی سے لو گے، یا شاید تم ان کو غیر ذمہ دارانہ انداز میں لو گے۔ جیسے بھی ہو، میرا مقصد تمہارے خوابوں کو پورا کرنا اور تمہارے نظریات کو عملی جامہ پہنانا ہے، نہ کہ تمہارا مذاق اڑانا یا تمہیں بیوقوف بنانا۔
میرے مطالبات سادہ ہو سکتے ہیں، لیکن جو میں تمہیں بتا رہا ہوں وہ اتنا آسان نہیں ہے جیسے کہ ایک جمع ایک دو ہوتا ہے۔ اگر تم صرف یہ کرتے ہو کہ اس کے بارے میں سرسری انداز میں بات کرتے ہو، یا کھوکھلے، اونچی آواز والے بیانات پر بھٹکتے پھرتے ہو، تو تمہارے نقشے اور تمہاری خواہشات ہمیشہ ایک خالی صفحہ ہی رہیں گی۔ مجھے تم میں سے ان لوگوں کے لیے ترس کا احساس نہیں ہو گا جو اتنے سالوں سے دکھ سہتے ہیں اور اتنی محنت کرتے ہیں، پھر بھی ان کے پاس اس کے لیے دکھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اس کے برعکس، جنہوں نے میرے مطالبات کو پورا نہیں کیا، میں ان لوگوں کے ساتھ سزا کا سلوک کروں گا، جزا کا نہیں، کسی ہمدردی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تم تصور کر سکتے ہو کہ اتنے سالوں سے پیروکار رہنے کے بعد، قطع نظر اس کے کہ تم نے جو بھی سخت محنت کی ہے، اور تمہیں خدا کے گھر میں صرف ایک خدمت گزار ہونے کی وجہ سے چاول کا ایک پیالہ دیا جانا چاہیے۔ میں یہ کہوں گا کہ تمہاری اکثریت اسی طرح سوچتی ہے، کیونکہ تم نے ہمیشہ اس اصول پر عمل کیا ہے کہ چیزوں سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے اور اس طرح نہیں کہ تم سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لیے میں اب تمہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ بتا رہا ہوں: مجھے اس کی پروا نہیں ہے کہ تمہاری محنت کتنی قابلِ تعریف ہے، تمہاری قابلیت کتنی متاثر کن ہے، تم کتنی توجہ سے پیروی کرتے ہو، تم کتنے نامور ہو، یا تم نے اپنا رویہ کتنا بہتر کیا ہے؛ جب تک تم میرے مطالبات کو پورا نہیں کرتے، تم میری توصیف کبھی بھی حاصل نہیں کر پاؤ گے۔ اپنے ان تمام خیالات اور حساب کتاب کو جلد از جلد ختم کر دو، اور میرے تقاضوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دو؛ ورنہ میں اپنے کام کو ختم کرنے کے لیے سب کو راکھ کر دوں گا اور، بدترین طور پر یہ ہو گا کہ میں اپنے سالوں کے کام اور مصائب کو ضائع کر دوں گا، کیونکہ میں اپنے دشمنوں اور ان لوگوں کو اپنی بادشاہی میں نہیں لا سکتا یا میں انہیں اگلے دور میں نہیں لے جا سکتا جو برائی کا تعفن پھیلاتے ہیں اور شیطان کی صورت رکھتے ہیں۔
مجھے بہت امیدیں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم اپنے آپ کو صحیح اور اچھے طریقے سے چلا سکتے ہو، اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے ادا کر سکتے ہو، سچائی اور انسانیت کے حامل ہو سکتے ہو، ایسے لوگ بن سکتے ہو جو اپنا سب کچھ اور یہاں تک کہ اپنی جان بھی خدا کے لیے قربان کر دیں اور اسی طرح مزید۔ یہ تمام امیدیں تمہاری نااہلیت اور تمہاری بدعنوانی اور نافرمانی سے پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے تمہارے ساتھ جو گفتگو کی ہے اگر اس میں سے کوئی بھی تمہاری توجہ مبذول کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، تو اس بات کا امکان ہے کہ اب میں صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ مزید کچھ نہ کہوں۔ تاہم، تم سمجھتے ہو کہ اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ ایسا اکثر نہیں ہوتا کہ میں آرام کروں، لہٰذا اگر میں نہ بولوں تو میں لوگوں کے دیکھنے کے لیے کچھ ایسا کروں گا۔ میں کسی کی زبان کو سڑا سکتا ہوں، یا کسی کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مار سکتا ہوں، یا لوگوں کے اعصاب میں معذوریاں پیدا کر سکتا ہوں اور بہت سے طریقوں سے ایسا کر سکتا ہوں کہ وہ گھناؤنے نظر آئیں۔ تب پھر، میں لوگوں کو ان اذیتوں کو برداشت کرنے پر مجبور کر سکتا ہوں جو میں نے خاص طور پر ان کے لیے تیار کی ہیں۔ اس طرح میں مسرور، بہت خوش، اور بہت زیادہ مسرت محسوس کروں گا۔ یہ ہمیشہ کہا گیا ہے کہ "اچھائی کا بدلہ اچھائی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے دیا جاتا ہے"، تو اب ایسا کیوں نہیں؟ اگر تو میری مخالفت کرنا چاہتا ہے اور میرے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا چاہتا ہے تو میں تیرا منہ سڑا دوں گا اور یہ بات مجھے بے انتہا خوش کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرکار، تو نے جو کچھ کیا ہے وہ سچ نہیں ہے، اس کا زندگی سے کوئی تعلق تو بالکل بھی نہیں ہے، جب کہ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں وہ سچ ہے؛ میرے تمام اعمال میرے کام کے اصولوں اور ان انتظامی احکام کے مطابق ہیں جو میں نے مرتب کیے ہیں۔ اس لیے میں تم میں سے ہر ایک کو نصیحت کرتا ہوں کہ کچھ نیکی جمع کرو، اتنی برائیاں کرنا چھوڑ دو، اور اپنے فارغ وقت میں میرے مطالبات پر توجہ دو۔ تب میں خوشی محسوس کروں گا۔ اگر تم سچائی کے لئے اس کوشش کا ہزارواں حصہ بھی ڈالتے (یا عطیہ) کرتے جو تم جسم کے لیے کرتے ہو، تو پھر میں کہتا ہوں کہ تو اکثر اوقات خطائیں نہیں کرے گا اور تیرا منہ سڑا ہوا نہیں ہو گا۔ کیا یہ ظاہر نہیں ہے؟
تو جتنی زیادہ خطائیں کرے گا، تجھے اچھی منزل حاصل کرنے کے اتنے ہی کم مواقع ملیں گے۔ اس کے برعکس، تو جتنی کم خطائیں کرے گا، خدا کی طرف سے تیری تعریف کیے جانے کے اتنے ہی بہتر امکانات ہوں گے۔ اگر تیری خطائیں اس حد تک بڑھ جائیں کہ میرے لیے تجھے معاف کرنا ناممکن ہو، تو تُو معافی کے اپنے امکانات کو بالکل ضائع کر چکا ہو گا۔ اس طرح، تیری منزل اوپر نہیں بلکہ نیچے ہو گی۔ اگر تو مجھ پر یقین نہیں کرتا، تو ہمت کر اور غلط کام کر، اور دیکھ کہ اس سے تجھے کیا ملتا ہے۔ اگر تو ایک ایسا شخص ہے جس کا سچائی پر عمل بہت پختہ ہے، تو پھر یقیناً تجھے اپنی خطاؤں کی معافی کا موقع ملے گا، اور تو تھوڑی اور کم مرتبہ نافرمانی کرے گا۔ اگر تو ایسا شخص ہے جو سچ پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے، تو پھر یقیناً خدا کے نزدیک تیری خطاؤں کی تعداد بڑھتی جائے گی اور تو زیادہ بار نافرمانی کرے گا، یہاں تک کہ تو حد کو پہنچ جائے گا، جو کہ تیری مکمل تباہی کا وقت ہو گا۔ یہ تب ہو گا جب تیرا برکت حاصل کرنے کا خوشگوار خواب برباد ہو جائے گا۔ اپنے گناہوں کو کسی نادان یا بے وقوف کی محض غلطی نہ سمجھ؛ اس عذر کا استعمال نہ کر کہ تو نے سچائی پر عمل نہیں کیا، کیونکہ تیری کمزور صلاحیت نے ایسا کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔ مزید برآں، اپنے خطاؤں کو محض کسی ایسے شخص کا فعل نہ سمجھ جو اس سے بہتر نہیں جانتا تھا۔ اگر تو اپنے آپ کو معاف کرنے اور خود اپنے ساتھ سخاوت سے پیش آنے میں اچھا ہے؛ تو میں کہتا ہوں کہ تو ایک بزدل ہے جو کبھی سچ کو حاصل نہیں کر سکے گا اور نہ ہی تیری خطائیں کبھی تجھَے پریشان کرنا ختم کریں گے؛ وہ تجھے ہمیشہ سچ کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روکیں گی اور تجھے ہمیشہ کے لیے شیطان کا وفادار ساتھی بنا دیں گے۔ تجھے اب بھی میرا یہ مشورہ ہے: اپنی پوشیدہ خطاؤں کو محسوس کرنے میں ناکام رہتے ہوئے صرف اپنی منزل پر توجہ نہ دے؛ خطاؤں کو سنجیدگی سے لے، اور اپنی منزل کی فکر میں ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہ کر۔