زمین پر خدا کو کیسے جانا جائے
تم سب چاہتے ہو کہ خدا کے حضور تمہیں نوازا جائے اور خدا کی طرف سے تم پر احسان کیا جائے؛ ہر کوئی جب خدا پر ایمان لانا شروع کر دیتا ہے تو وہ ایسی چیزوں کی امید کرتا ہے، کیونکہ ہر کسی کو اعلیٰ چیزوں کی جستجو کا خبط ہے اور کوئی دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ لوگ اسی طرح کے ہیں۔ عین اسی وجہ سے تم میں سے بہت سے لوگ آسمانی خدا کی خوشامد کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں، پھر بھی دراصل خدا کے ساتھ تمہاری وفاداری اور اخلاص تمہاری اپنے آپ سے وفاداری اور اخلاص سے کہیں کم ہے۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ کیونکہ میں خدا کے ساتھ تمہاری وفاداری بالکل تسلیم نہیں کرتا اور، اس کے علاوہ کیوں کہ میں اس خدا کے وجود سے انکار کرتا ہوں جو تمہارے دلوں میں بستا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس خدا کی تم عبادت کرتے ہو، وہ مبہم خدا جس کی تم تعریف کرتے ہو، قطعاً وجود نہیں رکھتا۔ میں یہ بات اتنی قطعیت سے اس وجہ سے کہہ سکتا ہوں کہ تم سچے خدا سے بہت دور ہو۔ تمہاری وفاداری کی وجہ تمہارے دلوں کے اندر والا بت ہے؛ جہاں تک میرا تعلق ہے، اس دوران میں جس خدا کو تم بڑا دیکھتے ہو اور نہ چھوٹا، تم اسے محض لفظی طور پر تسلیم کرتے ہو۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ تم خدا سے دور ہو تو میرا مطلب ہے کہ تم سچے خدا سے دور ہو جبکہ مبہم خدا بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔ جب میں کہتا ہوں کہ "عظیم نہیں"، تو یہ اس بات کے حوالے سے ہے کہ جس خدا پر تم آج کے دن یقین رکھتے ہو وہ محض ایک ایسا فرد ہے جس میں بڑی صلاحیتیں نہیں ہیں، وہ شخص جو زیادہ عالی مرتبہ نہیں ہے۔ اور جب میں "چھوٹا نہیں" کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ شخص ہوا کو طلب نہیں کر سکتا اور بارش کو حکم نہیں دے سکتا لیکن اس کے باوجود وہ خدا کی روحِ کو ایسا کام کرنے کی دعوت دینے پر قادر ہے جو آسمانوں اور زمین کو ہلا دیتا ہے اور لوگوں کو مکمل طور مبہوت کر دیتا ہے۔ بظاہر تم سب زمین پر اس مسیح کے بہت ہی فرمانبردار نظر آتے ہو پھر بھی خلاصہ یہ ہے کہ تم اس پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ ہی تم اس سے محبت کرتے ہو۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس پر تم واقعی یقین رکھتے ہو وہ تمہارے اپنے احساسات کا مبہم خدا ہے اور وہ جس سے تم سچی محبت کرتے ہو وہی خدا ہے جس کے لیے تم رات اور دن تڑپتے ہو، پھر بھی تم نے اسے ذاتی طور پر کبھی نہیں دیکھا۔ اس مسیح کی طرف تمہارا ایمان صرف جزوی ہے اور تمہاری محبت کچھ بھی نہیں ہے۔ ایمان کا مطلب یقین اور اعتماد ہے؛ محبت کا مطلب یہ ہے کسی کی دل میں تعظیم اور تحسین، کبھی جدا نہ ہونے والی ہو۔ پھر بھی آج کے مسیح پر تمہارا ایمان اور محبت اس سے کم تر ہے۔ جب ایمان کی بات آتی ہے تو تم اس پر کیسے ایمان رکھتے ہو؟ جب محبت کی بات آتی ہے تو تم کس طرح اس سے محبت کرتے ہو؟ تمہیں تو اس کے مزاج کی سرے سے کوئی سمجھ ہی نہیں ہے، پھر بھی تم اس کے جوہر سے کم واقف ہو، تو تم اس پر کیسے ایمان رکھتے ہو؟ اس پر تمہارے ایمان کی حقیقت کہاں ہے؟ تم اس سے کیسے محبت کرتے ہو؟ اس سے تمہاری محبت کی حقیقت کہاں ہے؟
بہت سے لوگوں نے آج تک بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میری پیروی کی ہے۔ تو کیا تمہیں بھی پچھلے کئی سالوں میں بہت تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تم میں سے ہر ایک کا پیدائشی کردار اور عادات میں نے انتہائی صراحت کے ساتھ سمجھی ہیں؛ تم میں سے ہر ایک کے ساتھ تعامل کرنا بے حد دشوار رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اگرچہ میں نے تمہارے بارے میں بہت کچھ سمجھ لیا ہے لیکن تم میرے بارے میں کچھ نہیں سمجھتے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ تم الجھن کے ایک لمحے کے دوران کسی کی چال کا شکار ہو گئے ہو۔ بے شک تم میرے مزاج کی کوئی بات نہیں سمجھتے، تم میرے ذہن میں جو کچھ ہے اس کا اندازہ بہت کم لگا سکتے ہو۔ آج میرے بارے میں تمہاری غلط فہمیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور مجھ پر تمہارا ایمان بدستور ایک الجھا ہوا ایمان ہے۔ یہ کہنے کی بجائے کہ تم مجھ پر ایمان رکھتے ہو، یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ تم سب خوشامد کرنے کی کوشش اور میری چمچہ گیری کر رہے ہو۔ تمہارے مقاصد بہت سادہ ہیں: میں اس کی پیروی کروں گا جو مجھے نواز سکتا ہے اور میں اس پر ایمان لاؤں گا جو مجھے بڑی آفات سے بچائے گا، چاہے وہ خدا ہو یا کوئی اور مخصوص خدا۔ مجھے اس میں سے کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ تم میں ایسے بہت سے لوگ ہیں اور یہ حالت بہت سنجیدہ ہے۔ اگر ایک دن یہ امتحان ہوتا کہ تم میں سے کتنے لوگوں کا مسیح پر اس کے جوہر کی بصیرت کی وجہ سے ایمان تھا تو مجھے ڈر ہے کہ تم میں سے ایک بھی میرے لیے تسلی بخش نہ ہو گا۔ پس تم میں سے ہر ایک کے لیے اس سوال پر غور کرنا تکلیف نہیں دے گا: جس خدا پر تم ایمان رکھتے ہو وہ مجھ سے بہت مختلف ہے اور ایسا ہونے کی وجہ سے پھر خدا پر تمہارے ایمان کا نچوڑ کیا ہے؟ تم جتنا زیادہ اپنے نام نہاد خدا پر ایمان رکھتے ہو تم مجھ سے مزید بھٹکتے رہو گے تو پھر اس مسئلے کا نچوڑ کیا ہے؟ یہ یقینی ہے کہ تم میں سے کسی نے بھی اس طرح کے سوال پر کبھی غور نہیں کیا ہے، لیکن کیا اس کی سنگینی تمہیں محسوس ہوئی ہے؟ کیا تم نے اس طرح سے ایمان کو جاری رکھنے کے نتائج پر غور کیا ہے؟
آج تمہیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور تم میں سے کوئی بھی مسائل حل کرنے میں مہارت نہیں رکھتا۔ اگر یہ صورتحال جاری رہے تو ہار صرف تم ہی لوگوں کا مقدر بنے گی۔ میں مسائل شناخت کرنے میں تمہاری مدد کروں گا، لیکن انہیں حل کرنا تم پر منحصر ہے۔
میں ان لوگوں سے مسرور ہوتا ہوں جو دوسروں کے بارے میں مشکوک نہیں ہیں اور میں ان لوگوں کو پسند کرتا ہوں جو آسانی سے سچائی قبول کرتے ہیں۔ میں ان دو قسم کے لوگوں کا بڑا احترام کرتا ہوں کیونکہ میری نظر میں وہ ایمان دار لوگ ہیں۔ اگر تم فریبی ہو تو تم سب لوگوں اور معاملات کے بارے میں محتاط اور شک کرنے والے ہو گے اور اس طرح مجھ پر تمہارا ایمان شک کی بنیاد پر قائم ہو گا۔ میں اس طرح کا ایمان کبھی تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ سچے ایمان کی کمی کی وجہ سے، تم سچی محبت سے اور بھی زیادہ محروم ہو۔ اور اگر تم خدا پر شک کرنے اور اس کے بارے میں اپنی مرضی سے قیاس کرنے کے ذمہ دار ہو تو تم بلا شبہ سب لوگوں میں سب سے زیادہ فریبی ہو گے۔ تم قیاس کرتے ہو کہ کیا خدا انسان کی طرح ہو سکتا ہے: ناقابل معافی گناہ گار، معمولی کردار کا، غیر جانبداری اور دلیل سے عاری، انصاف کے احساس سے مبرا، شیطانی ہتھکنڈوں کا عادی، مکار اور دھوکے باز، برائی اور تاریکی سے خوش ہونے والا، وغیرہ۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اس طرح کے خیالات رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خدا کے بارے میں ذرا سی بھی معلومات نہیں ہیں؟ اس طرح کا ایمان گناہ سے کسی طرح کم نہیں ہے! یہاں تک کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ مجھے خوش کرتے ہیں وہ بالکل خوشامد کرنے والے اور چاپلوسی کرنے والے ہیں اور جو لوگ اس طرح کی مہارتوں سے محروم ہیں وہ خدا کے گھر میں ناپسندیدہ ہوں گے اور وہاں وہ اپنا مقام کھو دیں گے۔ کیا یہ واحد علم ہے جو تم نے ان تمام سالوں میں حاصل کیا ہے؟ کیا تم نے یہی حاصل کیا ہے؟ اور میرے متعلق تمہارا علم ان غلط فہمیوں پر ہی نہیں رکتا، اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ تم خدا کی روح کی بے ادبی اور عرش کی توہین کرتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ تمہارے جیسا ایمان صرف تمہیں مجھ سے مزید بھٹکانے اور میرے خلاف زیادہ مخالف بنانے کا سبب بنے گا۔ کام کے کئی سالوں کے دوران، تم نے بہت سی سچائیاں دیکھی ہیں، لیکن کیا تم جانتے ہو کہ میرے کانوں نے کیا سنا ہے؟ تم میں سے کتنے لوگ سچائی قبول کرنے کو تیار ہیں؟ تم سب سمجھتے ہو کہ تم سچائی کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو، اور تم میں سے کتنے لوگوں نے واقعی سچائی کی وجہ سے مصائب جھیلے ہیں؟ تمہارے دلوں میں بے انصافی کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کی وجہ سے تم یہ سوچتے ہو کہ ہر کوئی، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اتنا ہی دھوکے باز اور بدعنوان ہے – یہاں تک کہ تم یہ بھی سمجھتے ہو کہ مجسم خدا ایک عام فرد کی طرح، مہربان دل یا ہمدردانہ محبت کے بغیر ہوسکتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، تمہارا خیال ہے کہ ایک نیک کردار اور ایک رحمدل، اور مہربان فطرت صرف آسمانی خدا کے اندر ہی موجود ہے۔ تمہارا خیال ہے کہ ایسا کوئی بزرگ وجود ہی نہیں رکھتا، اور زمین پر صرف اندھیرا اور برائی کا راج ہے، جب کہ خدا، جس کو لوگ بھلائی اور خوبصورتی کے لیے اپنی خواہشات سونپتے ہیں، ایک افسانوی شخصیت ہے جو ان کی طرف سے تراشی گئی ہے۔ تمہارے ذہنوں میں آسمانی خدا بہت محترم، نیک اور عظیم، عبادت اور ستائش کے لائق ہے؛ جبکہ زمینی خدا، آسمانی خدا کا متبادل اور ایک آلہ ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ یہ خدا آسمانی خدا کے برابر نہیں ہو سکتا، اتنا کم تر ہے کہ اس کا ذکر، ایک ہی سانس میں، اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ جب خدا کی عظمت اور توقیر کی بات آتی ہے تو یہ چیزیں آسمانی خدا کی شان سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن جب انسان کی فطرت اور بدعنوانی کی بات آتی ہے تو یہ وہ خصوصیات ہیں جن میں زمینی خدا کا ایک حصہ ہے۔ آسمانی خدا دائماً عالی مرتبہ ہے جبکہ زمینی خدا ہمیشہ کے لیے غیر اہم، کمزور اور نااہل ہے۔ آسمانی خدا جذبات سے نہیں بلکہ صرف راستبازی سے منسوب کیا جاتا ہے، جبکہ زمینی خدا صرف خود غرضی کے مقاصد رکھتا ہے اور بغیر کسی انصاف یا دلیل کے ہے۔ آسمانی خدا میں ٹیڑھے پن کا شائبہ تک نہیں ہے اور وہ ہمیشہ سے وفادار ہے جبکہ زمینی خدا کا ہمیشہ ایک بد دیانت پہلو ہوتا ہے۔ آسمانی خدا انسان سے بے حد محبت کرتا ہے جبکہ زمینی خدا انسان کی نامناسب دیکھ بھال کا مظاہرہ کرتا ہے، یہاں تک کہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ یہ غلط علم طویل عرصے سے تمہارے دلوں کے اندر رکھا گیا ہے اور مستقبل میں بھی اسے دوام بخشا جا سکتا ہے۔ تم مسیح کے تمام اعمال گمراہوں کے نقطہ نظر سے سمجھتے ہو اور اس کے تمام کاموں کے ساتھ ساتھ اس کی شناخت اور جوہر کا مکارانہ نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہو۔ تم نے ایک سنگین غلطی کی ہے اور وہ کیا ہے جو تم سے پہلے آنے والوں نے کبھی نہیں کیا ہے۔ یعنی تم صرف بلند آسمانی خدا کی خدمت کرو جس کے سر پر تاج ہے اور اس خدا کی طرف کبھی حاضری نہ دو جسے تم اتنا غیر اہم سمجھتے ہو کہ جیسے وہ تمہیں نظر ہی نہیں آتا ہے۔ کیا یہ تمہارا گناہ نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کی فطرت کے خلاف تمھارے جرم کی عمدہ مثال نہیں ہے؟ تم آسمانی خدا کی عبادت کرتے ہو۔ تم بلند و بالا تصاویر کو پسند کرتے ہو اور اپنی فصاحت و بلاغت کی بدولت ممتاز حیثیت اختیار کرنے والے افراد کی عزت کرتے ہو۔ تم بخوشی اس خدا کے احکامات پر عمل کرتے ہو، جو تمہارے ہاتھوں کو دولت سے بھر دیتا ہے اور اس خدا سے التجائیں کرتے ہو جو تمہاری ہر خواہش پوری کر سکتا ہے۔ تم صرف اُس خدا کی عبادت نہیں کرتے ہو جو بلند و بالا نہیں ہے؛ تمہیں صرف اس خدا کے ساتھ وابستہ ہونے سے نفرت ہے جسے کوئی بھی انسان بلند مرتبے والا نہیں سمجھ سکتا۔ تم صرف اس خدا کی خدمت کرنے کو تیار نہیں ہو جس نے تمہیں کبھی ایک پیسہ بھی نہیں دیا اور یہ صرف وہی بدصورت خدا ہے جو تمہیں اپنے لیے تڑپانے سے قاصر ہے۔ یہ خدا تمھیں اپنے آفاق کو وسیع کرنے کے قابل نہیں بنا سکتا، ایسا محسوس کرنے کے قابل کہ جیسے تمہیں کوئی خزانہ مل گیا ہو، چہ جائیکہ وہ تمہاری ہر خواہش پورا کرے۔ تو پھر تم اس کی پیروی کیوں کرتے ہو؟ کیا تم نے اس طرح کے سوالات پر غور کیا ہے؟ جو کچھ تم کرتے ہو وہ محض اس مسیح کو ناراض نہیں کرتا بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے، کہ اس سے آسمانی خدا ناراض ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا پر تمہارے ایمان کا مقصد نہیں ہے!
تم خدا سے شدید خواہش رکھتے ہو کہ وہ تمہارے اندر خوشی بھر دے، پھر بھی تم خدا سے بہت دور ہو۔ یہاں کیا معاملہ ہے؟ تم صرف اس کی باتوں کو قبول کرتے ہو، لیکن اس کے سلوک یا اس کی تراش خراش کو نہیں، اس سے کہیں کم تم اس کے ہر انتظام کو قبول کرنے کے قابل ہو، تاکہ تم اس پر مکمل اعتماد کرسکو۔ تو پھر یہاں کیا معاملہ ہے؟ آخری تجزیے میں، تمہارا ایمان انڈے کا ایک خالی خول ہے، جو کبھی چوزہ پیدا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ تمہارے ایمان نے تمہیں سچائی سے ہمکنار کیا ہے اور نہ ہی تمہیں زندگی دی ہے بلکہ اس کی بجائے تمہیں رزق اور امید کا ایک خیالی احساس دیا ہے۔ رزق اور امید کا یہ احساس ہی خدا پر ایمان لانے کا تمہارا مقصد ہے، نہ کہ سچائی اور زندگی۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ خدا پر تمہارے ایمان لانے کا مقصد غلامی اور بے شرمی کے ذریعے خدا کی چاپلوسی کرنے کے سوا کچھ اور نہیں رہا ہے اور اسے کسی طرح بھی سچا ایمان نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح کے ایمان سے ایک چوزہ کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں، اس طرح کا ایمان کیا کامیابی حاصل کر سکتا ہے؟ خدا پر تمہارے ایمان کا مقصد یہ ہے کہ اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔ کیا یہ خدا کے مزاج کے خلاف تمہارے جرم کی مزید ایک حقیقت نہیں ہے؟ تم آسمانی خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہو اور زمین پر خدا کے وجود کا انکار کرتے ہو پھر بھی میں تمہارے خیالات کو نہیں مانتا؛ میں صرف ان لوگوں کی تعریف کرتا ہوں جو اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے رکھتے ہیں اور زمینی خدا کی خدمت کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کی کبھی نہیں جو اس مسیح کو تسلیم نہیں کرتے جو زمین پر ہے۔ ایسے لوگ آسمان میں خدا کے کتنے ہی وفادار کیوں نہ ہوں، آخر میں وہ میرے ہاتھ سے نہیں بچیں گے جو شریروں کو سزا دیتا ہے۔ یہ لوگ شریر ہیں اور یہ وہ برے لوگ ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں اور انہوں نے مسیح کی کبھی خوشی سے اطاعت نہیں کی۔ یقیناً ان میں وہ تمام لوگ بھی شامل ہیں جنھیں علم نہیں ہے اور مزید یہ کہ وہ مسیح کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جب تک تم آسمانی خدا کے وفادار ہو، تم مسیح کے ساتھ جو چاہو کر سکتے ہو؟ غلط! تمہاری مسیح سے ناواقفیت، آسمانی خدا سے تمہاری ناواقفیت ہے۔ تم آسمانی خدا کے ساتھ کتنے ہی وفادار کیوں نہ ہو، یہ محض خالی خولی بات اور دکھاوا ہے کیونکہ زمینی خدا نہ صرف انسان کے سچائی اور زیادہ گہرا علم حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ اس سے زیادہ انسان کی مذمت اور اس کے بعد بدکرداروں کو سزا دینے کے حقائق کو گرفت میں لینے کے لیے سرگرم ہے۔ کیا تم یہاں کے مفید اور نقصان دہ نتائج سمجھ چکے ہو؟ کیا تم نے ان کا تجربہ کر لیا ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ جلد ہی کسی دن تم یہ سچائی سمجھ لو: خدا کو جاننے کے لیے تجھے نہ صرف آسمانی خدا کو بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ زمین پر موجود خدا کو بھی جاننا چاہیے۔ اپنی ترجیحات کو مت الجھا یا ثانوی کو اصل پر فوقیت حاصل کرنے کی اجازت نہ دے۔ صرف اسی طرح تو صحیح معنوں میں خدا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر سکتا ہے، خدا کے قریب ہو سکتا ہے اور اپنے دل کو اس کے قریب لا سکتا ہے۔ اگر تو کئی سالوں سے ایمان رکھتا ہے اور مجھ سے طویل عرصے سے وابستہ ہے، پھر بھی مجھ سے دور رہتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ضرور ایسا ہوگا کہ تو اکثر خدا کا مزاج برہم کرے گا، اور تیرے انجام کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہو گا۔ اگر میرے ساتھ کئی سالوں کی وابستگی نہ صرف تجھے انسانیت اور سچائی کے حامل شخص میں تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ مزید برآں، تیری فطرت میں تیرے برے خصائل کو بھی گہرائی تک شامل کر دیا ہے اور تیرا تکبر نہ صرف پہلے سے دگنا ہو گیا ہے بلکہ میرے بارے میں تیری غلط فہمیاں بھی کئی گنا بڑھ گئی ہیں، جیسے کہ تو مجھے اپنا چھوٹا سا مددگار سمجھنے لگا ہے، تو پھر میں کہتا ہوں کہ تیری بیماری اب فقط جلد کی گہرائی تک ہی نہیں رہی ہے بلکہ تیری ہڈیوں تک رسائی حاصل کر چکی ہے۔ باقی جو بچتا ہے وہ یہ ہے کہ تو اپنے جنازے کے انتظامات ہونے کا انتظار کر۔ تو اب تجھے مجھے منت سماجت کر کے اپنا خدا بنانے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ تو نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جو موت کا مستحق ہے اور ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔ اگر میں تجھ پر رحم کر بھی سکوں تو بھی آسمانی خدا تیری جان لینے پر اصرار کرے گا کیونکہ خدا کے مزاج کے خلاف تیرا جرم کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے۔ جب وہ وقت آئے تو مجھ پر یہ الزام نہ لگانا کہ میں نے تجھے پہلے نہیں بتایا تھا۔ یہ سب کچھ اس پر لوٹ آتا ہے: جب تو مسیح – زمینی خدا - کو ایک عام شخص سمجھتے ہوئے، اس کے ساتھ وابستہ ہو جائے گا، یعنی جب تو یہ مانے گا کہ یہ خدا ایک فرد کے سوا کچھ نہیں ہے، تو پھر اس وقت تو ہلاک ہو جائے گا۔ تم سب کو میری صرف یہی سرزنش ہے۔