خلاصی کے دور کے کام کے پیچھے اصل کہانی

میرا پورا انتظامی منصوبہ، چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ تین مراحل یا تین ادوار پر مشتمل ہے: ابتدائی شریعت کا دور؛ فضل کا دور(جو کہ خلاصی کا دور بھی ہے) اور آخری زمانے کا بادشاہی کا دور۔ ان تینوں ادوار میں میرا کام ہر زمانے کی نوعیت کے مطابق مواد کے اعتبار سے مختلف ہے، لیکن ہر مرحلے پر یہ کام انسان کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے – یا زیادہ واضح طور پر کہا جائے تو ان چالوں کے مطابق کیا جاتا ہے جو شیطان اس جنگ میں استعمال کرتا ہے، جو میں اس کے خلاف شروع کرتا ہوں۔ میرے کام کا مقصد شیطان کو شکست دینا، اپنی حکمت اور مطلق قدرت ظاہر کرنا، شیطان کی تمام چالیں بے نقاب کرنا اور اس طرح پوری نسل انسانی کو بچانا ہے جو شیطان کے زیر تسلط رہتی ہے۔ یہ اپنی حکمت اور مطلق قدرت ظاہر کرنا اور شیطان کی ناقابل برداشت وحشت انگیزی ظاہر کرنا ہے؛ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ یہ مخلوقات کو اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کا موقع دینا، یہ جاننے کا موقع دینا ہے کہ میں ہر چیز کا حاکم ہوں، واضح طور پر یہ دیکھنا ہے کہ شیطان انسانیت کا دشمن ہے، ذلیل و شریر ہے اور انھیں کامل یقین کے ساتھ یہ بتانا ہے کہ خیر و شر، سچ اور جھوٹ، تقدس اور غلاظت کے درمیان فرق کیا ہے، نیز یہ کہ عظیم کیا ہے اور حقیر کیا ہے۔ اس طرح جاہل انسان مجھ پر یہ گواہی دینے کے قابل ہو جائے گا کہ میں انسانیت کو بدعنوان کرنے والا نہیں ہوں، اور صرف میں – خالق – ہی انسانیت کو بچا سکتا ہوں اور لوگوں کو وہ چیزیں عطا کر سکتا ہوں جس سے وہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور وہ جان لیں گے کہ میں ہر چیز کا حاکم ہوں اور شیطان صرف ان مخلوقات میں سے ایک ہے جنھیں میں نے پیدا کیا اور جو بعد میں میرے خلاف ہو گیا۔ میں نے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ تین مراحل میں تقسیم کیا ہے اور میں اس طرح کام کرتا ہوں تاکہ مخلوقات میری گواہی دینے کے قابل بن سکیں اور میری مرضی سمجھ سکیں نیز یہ جان لیں کہ میں ہی سچ ہوں۔ یوں اپنے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے ابتدائی کام کے دوران، میں نے شریعت کا کام انجام دیا، یہ وہ کام تھا جس میں یہوواہ نے لوگوں کی راہنمائی کی۔ یسوع فضل کے زمانے کے تمام کاموں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسے جسم سے مجسم کیا گیا، اور صلیب پر میخوں سے جڑا گیا نیز اس نے فضل کا زمانہ بھی شروع کیا۔ خلاصی کا کام مکمل کرنے، شریعت کا دور ختم کرنے اور فضل کا دور شروع کرنے کے لیے اسے مصلوب کیا گیا تھا، اور اسی لیے اسے "عظیم سالار"، "گناہ کا کفارہ " اور " خلاصی دہندہ" کہا گیا۔ نتیجتاً، اصولی طور پر یکساں ہونے کے باوجود، مواد کے لحاظ سے یسوع کا کام یہوواہ کے کام سے مختلف تھا۔ یہوواہ نے زمین پر خدا کے کام کے لیے بنیاد – اصل مقام – کا قیام کرتے ہوئے، اور قوانین و احکام جاری کرتے ہوئے، شریعت کے دور کا آغاز کیا۔ یہ اس کی طرف سے انجام دیے گئے دو کام ہیں، اور یہ شریعت کے دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یسوع کی طرف سے فضل کے دور میں کیا گیا کام قوانین جاری کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کی تعمیل تھا، اس طرح فضل کے دور کا آغاز اور شریعت کے دور کا اختتام ہوا جو دو ہزار برسوں پر محیط تھا۔ وہ پیش رو تھا، جو فضل کے دور کے آغاز کے لیے آیا تھا، پھر بھی اس کا بنیادی کام خلاصی ہے۔ اور اس طرح اس کا کام بھی دوہرا تھا: ایک نئے دور کا آغاز، اور اپنے مصلوب ہونے کے ذریعے خلاصی کا کام مکمل کرنا، جس کے بعد وہ چلا گیا۔ اور اس کے بعد شریعت کے دور کا خاتمہ اور فضل کے دور کا آغاز ہوا۔

یسوع نے جو کام کیا وہ اس دور میں انسانوں کی ضرورتوں کے مطابق تھا۔ اس کا کام انسانیت کی خلاصی، انھیں ان کے گناہوں کے لیے معاف کرنا تھا، اور یوں اس کا مزاج پوری طرح سے عاجزی، صبر، محبت، تقویٰ، تحمل، رحم اور شفقت کا تھا۔ وہ انسانیت کے لیے بے شمارفضل و کرم، اور وہ تمام چیزیں لایا جن سے لوگوں کے لطف اندوز ہونے کا امکان تھا، اس نے انھیں لطف اندوز ہونے کے لیے جو چیزیں دیں وہ: امن اور خوشی، اس کی رواداری اور محبت، اس کی رحم دلی اور شفقت ہیں۔ اس وقت، لوگوں کے سامنے لطف اندوز ہونے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں – ان کے دلوں میں امن اور سلامتی کا احساس، ان کی روحوں کے اندر خوداعتمادی کا احساس، اور یسوع نجات دہندہ پر ان کا انحصار – یہ سب کچھ اس دور تک تھا جس میں انھوں نے زندگی گزاری۔ فضل کے دور میں، انسان پہلے ہی شیطان کے ہاتھوں بدعنوان ہو چکا تھا، اور اس لیے پوری انسانیت کی خلاصی کے لیے فضل کی کثرت، لامحدود صبر و تحمل، اور اس سے بھی بڑھ کر، اس کے اثر کے لیے ایک ایسی قربانی کی ضرورت تھی جو انسانیت کے گناہوں کا کفارہ دینے کے لیے کافی ہو۔ جو کچھ انسانیت نے فضل کے دور میں دیکھا وہ انسانیت کے گناہوں کے کفارے کے لیے محض میری قربانی تھی: یسوع۔ وہ صرف اتنا جانتے تھے کہ خُدا مہربان اور رحم دل ہو سکتا ہے، اور جو اُنھوں نے دیکھا وہ صرف یسوع کی مہربانی اور شفقت تھی اس کی تمام تر وجہ یہ تھی کہ وہ فضل کے دور میں پیدا ہوئے تھے۔ اور اس لیے، اس سے پہلے کہ وہ خلاصی پا سکتے، ان کے فائدے کے لیے بہت قسم کے فضل تھے جو یسوع کے عطا کردہ تھے، انھیں ان سے استفادہ کرنا تھا۔ اس طرح، وہ فضل سے لطف اندوز ہونے کے ذریعے اپنے گناہوں کی معافی پا سکتے تھے، اور یسوع کے صبرو تحمل سے لطف اندوز ہونے کے ذریعے خلاصی کا موقع بھی حاصل کر سکتے تھے۔ صرف یسوع کے صبر و تحمل کے ذریعے ہی انھیں معافی حاصل کرنے اور یسوع کے عطا کردہ فضل کی کثرت سے لطف اندوز ہونے کا حق حاصل ہوا تھا۔ بالکل جیسا کہ یسوع نے کہا: میں نیکو کاروں کو نہیں بلکہ گناہ گاروں کو خلاصی دلانے آیا ہوں، تاکہ گناہ گاروں کے گناہ معاف ہو سکیں۔ جب وہ انسانی جسم بن گیا، تو اگر یسوع عدالت کرنے والا، لعنت کرنے والا، اور انسان کے جرائم کے لیے عدم برداشت والامزاج لے کر آتا، تو انسان کو کبھی خلاصی کا موقع ہی نہ ملتا، اور وہ ہمیشہ کے لیے گناہ گار ہی رہتا۔ اگر یہ ایسا ہوتا، تو شریعت کے دور میں چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ رک جاتا، اور شریعت کا دور مزید چھ ہزار سال لمبا ہو جاتا۔ انسان کے گناہوں کی تعداد زیادہ اور نوعیت زیادہ سنگین ہوتی، اور انسانیت کی تخلیق بے وقعت ہو جاتی۔ انسان صرف شریعت کے تحت یہوواہ کی اطاعت کرتے، لیکن ان کے گناہ پہلے تخلیق کیے گئے انسانوں کے مقابلے میں تجاوز کر جاتے۔ یسوع نے رحمت و شفقت عطا کر کے جس قدر بنی نوع انسان سے محبت کی، انھیں ان کے گناہوں کی معافی دی، نوع انسانی یسوع کے ذریعے خلاصی پانے کی اسی قدر حق دار تھی، وہ کھویا ہوا برّہ کہلانے کا حق دار تھی جس کے لیے یسوع نے بھاری قیمت ادا کی تھی۔ شیطان اس کام میں مداخلت نہیں کر سکا، کیونکہ یسوع نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جیسا سلوک ایک پیار کرنے والی ماں اپنی چھاتی سے لگے بچے کے ساتھ کرتی ہے۔ وہ ان پر غصہ نہیں ہوا یا ان کی تحقیر نہیں کی، بلکہ انھیں آرام پہنچایا، وہ ان کے درمیان غضب ناک نہیں ہوا، بلکہ ان کے گناہوں سے درگزر کیا اور ان کی حماقتوں اور جہالت سے چشم پوشی کر کے کہا، "دوسروں کو ستر بار سات مرتبہ معاف کرو۔" اس طرح اس کے دل کے ذریعے دوسروں کے دل بدلے، اور صرف اسی طرح اس کی رحم دلی سے لوگوں کو اپنے گناہوں کی معافی ملی۔

اگرچہ یسوع اپنے مجسم ہونے میں جذبات سے بالکل عاری تھا، لیکن اس نے ہمیشہ اپنے حواریوں کو تسکین بخشی، انھیں سامانِ ضرورت فراہم کیا، ان کی مدد کی اور ان کی حمایت کی۔ اُس نے خواہ جتنا بھی کام کیا ہو، یا اُس نے جتنی بھی تکالیف برداشت کی ہوں، اُس نےکبھی بھی لوگوں سے ان کی استطاعت سے زیادہ مطالبات نہیں کیے، بلکہ ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا اور ان کے گناہ نظر انداز کیے، کچھ اس طرح کہ فضل کے دور میں لوگ اُسے پیار سے "قابلِ محبت نجات دہندہ یسوع" کہتے تھے۔ اُس وقت کے لوگوں کے لیے – تمام لوگوں کے لیے – یسوع کے پاس جو تھا اور جو وہ خود تھا، وہ رحم اور شفقت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس نے کبھی لوگوں کے گناہ یاد نہیں رکھے، اور اس کا ان لوگوں کے ساتھ سلوک کبھی بھی ان کے گناہوں پر مبنی نہیں رہا۔ چونکہ وہ ایک الگ دور تھا، اس نے اکثر لوگوں کو وافر غذا عطا کی تاکہ وہ پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ اس نے اپنے تمام پیروکاروں کے ساتھ فضل کا سلوک روا رکھا، بیماروں کو شفا دی، بدروحوں کو نکال باہر کیا، مردے زندہ کیے۔ تاکہ لوگوں کا اس پر یقین ہو اور وہ دیکھیں کہ اُس نے جو بھی کیا وہ مکمل توجہ اور خلوص سے کیا، ایک سڑتی ہوئی لاش زندہ کرنے کے لیے وہ اس حد تک گیا، اور انھیں دکھایا کہ اس کے ہاتھوں مردے میں بھی جان آ سکتی ہے۔ اس طرح اس نے خاموشی سے برداشت کیا اور ان کے درمیان اپنا خلاصی کا کام انجام دیا۔ یہاں تک کہ جب اسے صلیب پر میخوں سے جڑا گیا، تو یسوع نے اس سے قبل ہی بنی نوع انسان کے گناہ اپنے سر لے لیے تھے اور بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ بن گیا تھا۔ مصلوب ہونے سے پہلے بھی، اس نے بنی نوع انسان کو خلاصی دینے کے لیے صلیب کا راستہ کھول دیا تھا۔ بالآخر، صلیب کی خاطر اپنی قربانی دیتے ہوئے وہ صلیب پر میخوں سے جڑا ہوا تھا، اور اس نے اپنی تمام تر رحمت، شفقت اور تقدس بنی نوع انسان کو عطا کیا۔ انسانیت کے لیے وہ ہمیشہ برد بار تھا، کبھی انتقام نہ لینے والا، ان کے گناہ معاف کرنے والا، توبہ کرنے کی تلقین کرنے والا اور انھیں صبر، تحمل اور محبت کا درس دینے والا۔ اپنے نقش قدم پر چلنے اور صلیب کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنے کی تعلیم دینے والا۔ بھائیوں اور بہنوں کے لیے اس کی محبت مریم کے لیے اس کی محبت سے زیادہ تھی۔ بیماروں کو شفا دینے اور شیاطین کو نکال باہر کرنے جیسے کام، جو اس نے اپنے اصول کےطور پر کیے، وہ تمام کام اس کی طرف سےنجات کے لیے تھے۔ وہ چاہے جہاں بھی گیا، اس نے ان تمام لوگوں کے ساتھ فضل کا برتاؤ کیا جنھوں نے اس کی پیروی کی۔ اس نے غریب کو امیر کیا، لنگڑے کو پیروں پر چلایا، نابینا کو بینائی دی، اور بہرے کو سماعت۔ یہاں تک کہ اس نے غریبوں، بے سہاروں، گناہ گاروں کو بھی اپنے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھنے کی دعوت دی، ان سے کبھی کنارہ کشی اختیار نہیں کی بلکہ ہمیشہ صبر سے کام لیا، اور یہاں تک کہا: جب سو بھیڑوں میں سے کسی چرواہے کی ایک بھیڑ کھو جاتی ہے، تو وہ ایک کو ڈھونڈنے کے لیے ننانوے کو چھوڑ دیتا ہے، اور اسے تلاش کر لینے پر اسے بہت خوشی ہوتی ہے۔ اس نے اپنے پیروکاروں سے اسی طرح پیار کیا جیسے ایک بھیڑ اپنے برّوں سے کرتی ہے۔ ہر چند کہ وہ بیوقوف اور جاہل تھے، اور اس کی نظر میں گناہ گار تھے، اور مزید یہ کہ معاشرے کے حقیر ترین اراکین تھے، اس نے ان گناہ گاروں کو – جنھیں دوسرے لوگ حقیر سمجھتے تھے – اپنی آنکھ کا تارا سمجھا۔ چونکہ وہ انھیں عزیز رکھتا تھا، اِس لیے اُس نے اُن کے لیے اپنی جان قربان کر دی، اسی طرح جیسے کوئی برّہ قربان گاہ میں پیش کیا گیا ہو۔ وہ ان کے درمیان اس طرح گیا، جیسے ان کا خادم ہو، اس نے انھیں اسے استعمال کرنے، اسے ذبح کرنے کا موقع دینے کے لیے غیر مشروط پر خود کو ان کے سپرد کردیا۔ وہ اپنے پیروکاروں کے لیے قابل محبت نجات دہندہ یسوع تھا، لیکن فریسیوں کے لیے، جو اونچے مقام سے لوگوں پر تقریر جھاڑا کرتے تھے، اس نے رحم اور شفقت نہیں دکھائی، بلکہ نفرت اور ناراضی کا اظہار کیا۔ اس نے فریسیوں کے درمیان زیادہ کام نہیں کیا، صرف کبھی کبھار انھیں تلقین اور سرزنش کرتا تھا؛ وہ ان کے درمیان خلاصی کا کام کرنے نہیں گیا، اور نہ ہی اس نے انھیں نشانیاں اور معجزے دکھائے۔ اس نے اپنے پیروکاروں کو اپنی تمام تر رحمتیں اور شفقتیں عطا کیں، آخر تک ان گناہ گاروں کے لیے برداشت کیا، جب اسے صلیب پر میخوں سے جڑا گیا، اس نے تمام بنی نوع کی مکمل خلاصی تک تمام تر تحقیر برداشت کی۔ یہ اس کے کام کا حاصل جمع تھا۔

یسوع کی طرف سے خلاصی کے بغیر، نوع انسانی ہمیشہ کے لیے گناہ میں رہتی۔ گناہ کی پیداوار، شیاطین کی اولاد بن جاتی۔ یہ سلسلہ جاری رہنے سے پوری دنیا وہ زمین بن جاتی جہاں شیطان کا بسیرا ہے تاہم خلاصی کے کام کے لیے، بنی نوع انسان کی خاطر رحم اور شفقت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے؛ صرف اس طرح ہی نوع انسانی کو معافی مل سکتی ہے اور وہ بالآخر خدا کی طرف سے مکمل اور حاصل کیے جانے کا حق حاصل کر سکتی ہے۔ کام کے اس مرحلے کے بغیر، چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ اگر یسوع کو مصلوب نہ کیا گیا ہوتا، اگر اس نے صرف بیماروں کو شفا دی ہوتی اور بدروحوں سے نجات دلائی ہوتی تو لوگوں کو ان کے گناہوں سے مکمل طور پر معافی نہیں مل سکتی تھی۔ ساڑھے تین سال یسوع نے زمین پر اپنا کام کرنے میں صرف کیے، اس نے اپنے خلاصی کے کام کا صرف نصف حصہ مکمل کیا؛ پھر، جب صلیب پر اسے میخوں سے جڑ دیا گیا اور جب اس نے گنہگار جسم کی مشابہت اختیار کر لی، اور جب اسے بدی کے حوالے کر دیا گیا، تو اس نے مصلوب ہونے کا کام مکمل کیا اور بنی نوع انسان کی تقدیر کا مالک بنا۔ جب وہ شیطان کے ہتھے چڑھا تبھی اس نے بنی نوع انسان کو خلاصی دلائی۔ ساڑھے تینتیس سال تک اس نے زمین پر تکلیفیں برداشت کیں، اس کا مذاق اڑایا گیا، بہتان لگایا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا، یہاں تک کہ اس کے پاس سر رکھنے کی جگہ نہیں تھی، آرام کرنے کی جگہ نہیں تھی، اور بعد میں اسے اس کے پورے وجود کے ساتھ مصلوب کر دیا گیا۔ ایک مقدس اور معصوم جسم – صلیب پر میخوں سے جڑ دیا گیا۔ اس نے ہر قسم کی مصیبت برداشت کی۔ جو لوگ اقتدار میں تھے انہوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کوڑے مارے اور سپاہیوں نے اس کے منہ پر تھوکا؛ پھر بھی وہ خاموش رہا اور آخر تک برداشت کرتا رہا، غیر مشروط طور پر موت کے منہ میں چلا گیا، جس کے بعد اس نے پوری انسانیت کو خلاصی دی۔ تب اسے آرام کرنے کی اجازت ملی۔ یسوع نے جو کام کیا وہ صرف فضل کے دور کی نمائندگی کرتا ہے؛ یہ شریعت کے دور کی نمائندگی نہیں کرتا، اور نہ ہی یہ آخری دور کے کام کا متبادل ہے۔ یہ فضل کے زمانے میں یسوع کے کام کا نچوڑ ہے، دوسرا دور جس سے نوع انسانی گزری ہے – خلاصی کا دور ہے۔

سابقہ: شریعت کے دور میں کام

اگلا: تجھے علم ہونا چاہیے کہ پوری نوع انسانی نے کیسے آج کے دن تک کی ترقی کی ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp