تجھے علم ہونا چاہیے کہ پوری نوع انسانی نے کیسے آج کے دن تک کی ترقی کی ہے

مختلف ادوار کے آنے اور جانے کے دوران، چھ ہزار سالوں میں کیا گیا پورا کام، بتدریج تبدیل ہوا ہے۔ اس کام میں تبدیلیاں دنیا کی مجموعی صورتحال اور نوع انسانی کے مجموعی ترقیاتی رجحانات پر مبنی ہیں؛ نظم و نسق کا کام صرف بتدریج اس کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔ اس سب کی منصوبہ بندی تخلیق کے آغاز سے نہیں کی گئی تھی۔ دنیا کی تخلیق سے پہلے، یا اس کے فوراً بعد، یہوواہ نے ابھی تک کام کے پہلے مرحلے، قانون؛ کام کے دوسرے مرحلے، فضل؛ یا کام کا تیسرے مرحلے، فتح؛ جس میں وہ سب سے پہلے موآب کی اولاد میں سے کچھ کے ساتھ آغاز کرے گا اور اس کے ذریعے پوری کائنات فتح کرے گا، کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ دنیا کو پیدا کرنے کے بعد اس نے یہ کلام کبھی نہیں کہا اور نہ ہی موآب کے بعد کبھی یہ کلام کہا؛ بلاشبہ لوط سے پہلے، اس نے یہ کلام کبھی نہیں کہا تھا۔ خدا کا سارا کام خود بخود ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اس کے پورے چھ ہزار سالہ انتظامی کام نے ترقی کی ہے؛ اس نے دنیا کو تخلیق کرنے سے پہلے کسی بھی طرح سے اس طرح کا منصوبہ "نوع انسانی کی ترقی کے لیے مختصر نقشے" کی شکل میں مرتب نہیں کیا تھا۔ خدا کے کام میں، وہ براہ راست ظاہر کرتا ہے کہ وہ کیا ہے؛ وہ کوئی منصوبہ تیار کرنے کے لیے اپنا دماغ نہیں کھپاتا ہے۔ بے شک، بہت سے نبیوں نے بہت سی پیشین گوئیاں کی ہیں، لیکن یہ اب بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ خدا کا کام ہمیشہ عین منصوبہ بندی کے مطابق رہا ہے؛ وہ پیشین گوئیاں اس وقت خدا کے کام کے مطابق کی گئی تھیں۔ وہ جو بھی کام کرتا ہے وہ سب سے زیادہ حقیقی کام ہے۔ وہ اسے ہر دور کی ترقی کے مطابق انجام دیتا ہے، اور اس کی بنیاد اس بات پر رکھتا ہے کہ چیزیں کس طرح بدلتی ہیں۔ اس کے نزدیک کام کرنا دوا کا بیماری کے لیے موزوں ہونے کے مترادف ہے؛ اپنے کام کو کرتے ہوئے، وہ مشاہدہ کرتا ہے، اور اپنے مشاہدات کے مطابق اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ اپنے کام کے ہر مرحلے میں، خدا اپنی وافر حکمت اور صلاحیت کا اظہار کرنے کی استعداد رکھتا ہے؛ وہ کسی خاص زمانے کے کام کے مطابق اپنی بے پناہ حکمت اور اختیار کا مظاہرہ کرتا ہے، اور ان تمام لوگوں کو، جو اس دور کے دوران اس کی جانب سے واپس لائے گئے ہیں، اپنا پورا مزاج دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ ہر دور میں جو کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے مطابق لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، اور جو بھی کام اسے کرنا چاہیے وہ کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد اس بات پر ہوتی ہے کہ شیطان نے انھیں کس درجے تک بدعنوان بنایا ہے۔ یہ اس طرح ہے، کہ جب یہوواہ نے ابتدا میں آدم اور حوا کو پیدا کیا تھا، تو اس نے ایسا انھیں زمین پر خدا کا اظہار کرنے کے قابل بنانے کے لیے کیا تھا اور تاکہ وہ مخلوق کے درمیان خدا کی گواہی دے سکیں۔ تاہم، حوا نے سانپ کی طرف سے بہکائے جانے کے بعد گناہ کیا، اور آدم نے بھی ایسا ہی کیا؛ باغ میں ان دونوں نے نیکی اور بدی کی پہچان کے درخت کا پھل کھایا۔ اس طرح، یہوواہ کو ان پر اضافی کام کرنا پڑا۔ ان کی برہنگی دیکھ کر، اس نے ان کے جسم جانوروں کی کھالوں سے بنے ہوئے کپڑوں سے ڈھانپ دیے۔ اس کے بعد اس نے آدم سے کہا "چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات پر کان دھرے اور اس درخت سے پھل کھایا ہے جس کا میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ تُو اس میں سے کچھ نہ کھا: تیری وجہ سے زمین پر لعنت کی جائے گی۔۔۔ یہاں تک کہ تُو زمین پر لوٹ آئے۔ اس لیے کہ تُو اس میں سے نکالا گیا ہے: کیونکہ تُو مٹی ہے اور مٹی کی طرف لوٹ کر آئے گا"۔ اس عورت سے اس نے کہا، "میں تیری تکلیف اور تیرا حمل بہت بڑھا دوں گا؛ تُو تکلیف میں بچے پیدا کرے گی۔ اور تیری خواہش تیرے شوہر کے لیے ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔" اس کے بعد سے، اس نے انھیں عدن کے باغ سے نکال دیا اور انھیں اس سے باہر رہنے پر مجبور کیا، بالکل اسی طرح جیسے جدید انسان اب زمین پر رہتا ہے۔ جب خدا نے شروع میں انسان کو پیدا کیا تو یہ اس کا منصوبہ نہیں تھا کہ انسان پیدا ہونے کے بعد سانپ کی طرف سے بہکایا جائے اور پھر انسان اور سانپ پر لعنت کی جائے۔ اس کے پاس اصل میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ یہ تو بس چیزیں اس طرح سے وقوع پذیر ہو گئیں، جنھوں نے اسے اپنی مخلوق کے درمیان کرنے کے لیے نیا کام دیا۔ یہوواہ کے زمین پر آدم اور حوا کے درمیان یہ کام انجام دینے کے بعد، نوع انسانی کئی ہزار سال تک ترقی کرتی رہی، یہاں تک کہ "یہوواہ نے دیکھا کہ زمین میں انسان کی بداعمالی بہت زیادہ ہے، اور یہ کہ اس کے دل کے خیالات کا ہر تصور صرف مسلسل برا تھا۔ اور اس پر یہوواہ کو پچھتاوا ہوا کہ اس نے انسان کو زمین پر پیدا کیا ہے، اور اس کا دل غمگین ہوا۔۔۔ لیکن نوح کو یہوواہ کی آنکھوں میں فضل ملا۔" اس وقت یہوواہ کے پاس کرنے کے لیے اور بھی نئے کام تھے، کیوں کہ جس نوع انسانی کو اس نے پیدا کیا تھا، وہ سانپ کی طرف سے بہکائے جانے کے بعد بہت زیادہ گناہ گار ہو گئی تھی۔ یہ حالات دیکھتے ہوئے، تمام نوع انسانی میں سے، یہوواہ نے نوح کے خاندان کو بچانے کے لیے منتخب کیا، اور پھر اس نے سیلاب کے ساتھ دنیا کو تباہ کرنے کا اپنا کام انجام دیا۔ نوع انسانی آج تک اسی طرح ترقی کرتی رہی ہے، مزید سے مزید تر بدعنوان ہوتی جا رہی ہے، اور جب وقت آئے گا کہ انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ جائے گی، تو اس کا مطلب نوع انسانی کا خاتمہ ہو گا۔ شروع سے لے کر دنیا کے اختتام تک اس کے کام کی اندرونی سچائی ہمیشہ سے قائم رہی ہے اور ہمیشہ اسی طرح رہے گی۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جیسے لوگوں کی ان کی قسم کے مطابق درجہ بندی کی جائے گی؛ یہ اس طرح کے معاملے سے بہت دور ہے کہ ہر شخص کو شروع میں ہی ایک خاص زمرے سے تعلق رکھنے کے لیے اس کی تقدیر پہلے سے ہی مقرر کر دی جاتی ہے؛ بلکہ، ہر ایک کی بتدریج ترقی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ آخر میں، جو کوئی بھی مکمل نجات نہیں پا سکتا وہ اپنے "آباؤ اجداد" کو واپس کر دیا جائے گا۔ نوع انسانی میں خدا کا کوئی بھی کام دنیا کی تخلیق پر پہلے سے ہی تیار نہیں کیا گیا تھا؛ بلکہ، یہ چیزوں کی ترقی ہے جس نے خدا کو نوع انسانی کے درمیان قدم بہ قدم اور زیادہ حقیقت پسندانہ اور عملی انداز میں اپنا کام انجام دینے کا موقع دیا ہے۔ مثال کے طور پر، یہوواہ خدا نے سانپ کو عورت کو بہکانے کے لیے پیدا نہیں کیا تھا؛ یہ اس کا مخصوص منصوبہ نہیں تھا، اور نہ ہی یہ کوئی ایسی چیز تھی جسے اس نے جان بوجھ کر پہلے سے طے کر رکھا تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک غیر متوقع واقعہ تھا۔ پس اسی وجہ سے یہوواہ نے آدم اور حوا کو عدن کے باغ سے نکال دیا اور قسم کھائی کہ وہ دوبارہ کبھی انسان پیدا نہیں کرے گا۔ تاہم، لوگ صرف اسی بنیاد پر خدا کی حکمت دریافت کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا: "میں شیطان کی سازشوں کی بنیاد پر اپنی حکمت استعمال کرتا ہوں۔" نوع انسانی چاہے کتنی ہی بدعنوان ہو یا سانپ انھیں کس طرح سے بہکاتا ہے، یہوواہ کے پاس اب بھی اپنی حکمت ہے؛ اسی طرح، جب سے اس نے دنیا کو پیدا کیا ہے، وہ نئے کام میں مصروف ہے، اور اس کام کا کوئی بھی مرحلہ کبھی دہرایا نہیں گیا ہے۔ شیطان نے اپنی سازشیں مسلسل حرکت میں رکھی ہیں، نوع انسانی کو شیطان کی طرف سے مسلسل بدعنوان بنایا گیا ہے، اور یہوواہ خدا نے متواتر اپنا دانش مندانہ کام انجام دیا ہے۔ جب سے دنیا تخلیق ہوئی ہے، وہ کبھی ناکام نہیں ہوا ہے، اور نہ ہی اس نے کبھی کام کرنا ترک کیا ہے۔ شیطان کی طرف سے انسانوں کو بدعنوان بنانے کے بعد، اس نے ان کے درمیان اسے شکست دینے کے لیے کام کرنا جاری رکھا ہے، اس دشمن کے ساتھ جو ان کی بدعنوانی کا منبع تھا۔ یہ جنگ شروع سے ہی جاری ہے اور دنیا کے اختتام تک جاری رہے گی۔ یہ سب کام کرتے ہوئے، یہوواہ خدا نے نہ صرف انسانوں کو، جو شیطان کی طرف سے بدعنوان بنائے چکے ہیں، اس کی عظیم نجات حاصل کرنے کی اجازت دی ہے، بلکہ انھیں اپنی حکمت، قدرتِ کاملہ اور اختیار دیکھنے کی بھی اجازت دی ہے۔ مزید برآں، آخر میں، وہ انھیں اپنا راست باز مزاج دیکھنے کی اجازت دے گا – خبیثوں کو سزا دینا اور اچھوں کو صلہ دینا۔ اس نے آج تک شیطان سے جنگ کی ہے اور اسے کبھی شکست نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک دانش مند خدا ہے، اور وہ شیطان کی سازشوں کی بنیاد پر اپنی حکمت کا استعمال کرتا ہے۔ پس خدا نہ صرف آسمان کی ہر چیز اپنے اختیار کے تابع کر لیتا ہے بلکہ وہ زمین کی ہر چیز بھی اپنے قدموں کے نیچے رکھتا ہے اور وہ خاص طور پر ان خبیثوں کو سزا دیتا ہے، جو نوع انسانی پر حملہ آور ہوتے اور اسے ہراساں کرتے ہیں۔ اس سارے کام کے نتائج اس کی حکمت کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔ اس نے نوع انسانی کے وجود سے پہلے اپنی حکمت کبھی ظاہر نہیں کی تھی، کیونکہ آسمان پر، زمین پر، یا پوری کائنات میں کہیں بھی اس کا کوئی دشمن نہیں تھا، اور فطرت میں کسی شے پر حملہ آور ہونے والی کوئی تاریک طاقتیں نہیں تھیں۔ جب بڑے فرشتے نے اسے دھوکا دیا تو اس نے زمین پر نوع انسانی پیدا کی، اور یہ نوع انسانی کی وجہ سے ہی تھا کہ اس نے باضابطہ طور پر شیطان، بڑے فرشتے کے ساتھ اپنی ہزاروں سالہ طویل جنگ کا آغاز کیا، ایک ایسی جنگ جو ہر آئندہ مرحلے کے ساتھ شدت اختیار کرتی جاتی ہے۔ ان مراحل میں سے ہر ایک میں اس کی قدرت کاملہ اور حکمت موجود ہے۔ صرف اس کے بعد ہی آسمان اور زمین کی ہر چیز نے خدا کی حکمت، قدرتِ کاملہ، اور خاص طور پر، خدا کی حقیقت کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ آج بھی اسی حقیقت پسندانہ انداز میں اپنا کام انجام دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، جب وہ اپنا کام انجام دیتا ہے، تو وہ اپنی حکمت اور قدرتِ کاملہ بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ خدا کی قدرتِ کاملہ کی وضاحت کیسے کی جائے، اور مزید برآں، خدا کی حقیقت کی ایک حتمی وضاحت کا مشاہدہ کرنے کے لیے، وہ تمھیں اپنے کام کے ہر مرحلے کی اندرونی سچائی کو دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔

یسوع کے ساتھ یہوداہ کی بے وفائی کے بارے میں، کچھ لوگ سوچتے ہیں: کیا یہ دنیا کی تخلیق سے پہلے ہی سے طے شدہ نہیں تھا؟ دراصل، روح القدس نے وقت کی حقیقت کی بنیاد پر اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ بس یوں ہوا کہ یہوداہ کے نام سے کوئی ایسا شخص تھا جو ہمیشہ پیسوں کا غبن کرتا رہتا تھا، اس لیے اس شخص کو یہ کردار ادا کرنے اور اسی طرح خدمت کرنے کے لیے چنا گیا تھا۔ یہ مقامی وسائل کے استعمال کی ایک حقیقی مثال تھی۔ یسوع پہلے تو اس سے بے خبر تھا۔ اسے بعد میں اس کے بارے میں معلوم ہوا، جب یہوداہ بے نقاب ہو چکا تھا۔ اگر کوئی اور یہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا تو یہوداہ کی بجائے وہ شخص یہ کردار ادا کرتا۔ وہ جو پہلے سے مقدر کیا جا چکا تھا، حقیقت میں، روح القدس نے اس لمحے وہی کیا تھا۔ روح القدس کا کام ہمیشہ خودبخود ہو جاتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت اپنے کام کی منصوبہ بندی کر سکتی ہے، اور کسی بھی وقت اسے انجام دے سکتی ہے۔ میں ہمیشہ یہ کیوں کہتا ہوں کہ روح القدس کا کام حقیقت پسندانہ ہوتا ہے، اور یہ کہ یہ ہمیشہ نیا ہوتا ہے، کبھی پرانا نہیں ہوتا، اور ہمیشہ اعلیٰ درجے کا تازہ ہوتا ہے؟ جب دنیا بنائی گئی تو اس کے کام کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی؛ یہ بالکل ایسا نہیں ہے جیسا کہ ہوا تھا! کام کا ہر مرحلہ اپنے متعلقہ وقت کے حساب سے مناسب اثر حاصل کرتا ہے، اور مرحلے ایک دوسرے میں دخل نہیں دیتے۔ اکثر اوقات، تیرے ذہن میں جو منصوبے ہو سکتے ہیں وہ روح القدس کے تازہ ترین کام کے مقابلے میں بالکل بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس کا کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا انسانی عقل اسے سمجھتی ہے، اور نہ ہی یہ اتنا پیچیدہ ہے جتنا انسان تصور کرتا ہے – یہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ پر لوگوں کو ان کی ضروریات کے مطابق فراہم کرنے پر مشتمل ہے۔ انسان کے جوہر کے بارے میں کوئی بھی اس سے زیادہ واضح نہیں ہے، اور یہ عین اسی وجہ سے ہے کہ کوئی بھی چیز لوگوں کی حقیقت پسندانہ ضروریات کے ساتھ ساتھ اس کے کرنے والے کام کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا، انسانی نقطہ نظر سے، ایسا لگتا ہے کہ اس کے کام کی کئی ہزار سال پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ جیسا کہ وہ اب تمہارے درمیان کام کرتا ہے، تو ہر وقت کام کرتے ہوئے اور بولتے ہوئے جب وہ ان حالتوں کو دیکھتا ہے جن میں تم ہو، تو اس کے پاس ہر قسم کی حالت کا سامنا کرنے پر کہنے کے لیے بالکل صحیح الفاظ ہوتے ہیں، وہ ایسے الفاظ بولتا ہے جو بالکل وہی ہوتے ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے کام کا پہلا قدم ہی دیکھو: سزا کا وقت۔ اس کے بعد، خدا نے اپنا کام لوگوں کے آشکار ہونے، ان کی سرکشی، ان سے پیدا ہونے والی مثبت حالتوں اور منفی حالتوں کے ساتھ ساتھ سب سے نچلی سطح جس تک لوگ گر سکتے تھے، کی بنیاد پر اس وقت انجام دیا جب وہ منفی حالتیں ایک خاص مقام پر پہنچ گئیں؛ اور اس نے اپنے کام سے بہت بہتر نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ان چیزوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ یعنی وہ کسی بھی وقت لوگوں کی موجودہ حالت کی بنیاد پر ان کے درمیان کام برقرار رکھتا ہے۔ وہ اپنے کام کا ہر مرحلہ لوگوں کی اصل حالتوں کے مطابق انجام دیتا ہے۔ ساری مخلوق اسی کے ہاتھوں میں ہے؛ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ انھیں جانتا ہی نہ ہو؟ خدا کام کا اگلا مرحلہ انجام دیتا ہے جو کسی بھی وقت اور کہیں بھی، لوگوں کی حالتوں کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی طرح سے اس کام کی منصوبہ بندی ہزاروں سال پہلے نہیں کی گئی تھی۔ یہ ایک انسانی تصور ہے! وہ اپنے کام کے اثرات کا مشاہدہ کرتے ہوئے کام کرتا ہے، اور اس کا کام مستقل طور پر گہرا ہوتا ہے اور ترقی کرتا ہے؛ ہر بار، اپنے کام کے نتائج کا مشاہدہ کرنے کے بعد، وہ اپنے کام کا اگلا مرحلہ لاگو کرتا ہے۔ وہ بتدریج منتقلی کے لیے اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے اپنا نیا کام ظاہر کرنے کے لیے بہت سی چیزوں کا استعمال کرتا ہے۔ کام کرنے کا یہ طریقہ لوگوں کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، کیونکہ خدا لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ اس طرح وہ آسمان سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ اسی طرح، مجسم خدا بھی اپنا کام اسی انداز میں کرتا ہے، حقیقی حالات کے مطابق انسانوں کے درمیان انتظامات اور کام کرتے ہوئے۔ دنیا کی تخلیق سے پہلے اس کے کسی بھی کام کا انتظام نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی اس کی پہلے سے بہت احتیاط سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ دنیا کے وجود میں آنے کے دو ہزار سال بعد، یہوواہ نے دیکھا کہ نوع انسانی اتنی بدعنوان ہو گئی ہے کہ اس نے یسعیاہ نبی کے منہ سے پیشین گوئی کی کہ قانون کا دور ختم ہونے کے بعد، یہوواہ فضل کے دور میں نوع انسانی کو خلاصی دلانے کا اپنا کام انجام دے گا۔ یہ یقیناً یہوواہ کا منصوبہ تھا، لیکن یہ منصوبہ بھی ان حالات کے مطابق بنایا گیا تھا جن کا وہ اس وقت مشاہدہ کر رہا تھا؛ اس نے آدم کو پیدا کرنے کے فوراً بعد اس کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ یسعیاہ نے محض ایک پیشین گوئی کی تھی، لیکن یہوواہ نے قانون کے دور میں اس کام کے لیے پیشگی تیاری نہیں کی تھی؛ بلکہ، اس نے فضل کے دور کے آغاز میں اسے متحرک کیا، جب پیغام بر یوسف کے خواب میں ظاہر ہوا تاکہ اسے اس پیغام سے آگہی دے کہ خدا جسم بن جائے گا، اور اس کے بعد ہی اس کے مجسم ہونے کا کام شروع ہوا۔ جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں، خدا نے دنیا پیدا کرنے کے فوراً بعد اپنے مجسم ہونے کے کام کی تیاری نہیں کی تھی؛ اس کا فیصلہ صرف اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ نوع انسانی کس حد تک ترقی کر چکی ہے اور شیطان کے خلاف اس کی جنگ کی حیثیت کیا ہے۔

جب خدا جسم بن جاتا ہے تو اس کی روح انسان پر اترتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، خدا کی روح اپنے آپ کو ایک مادی جسم پہنا لیتی ہے۔ وہ زمین پر اپنا کام کرنے کے لیے آتا ہے نہ کہ اپنے ساتھ کچھ مخصوص محدود مراحل لانے کے لیے؛ اس کا کام بالکل لامحدود ہے۔ روح القدس جو کام جسم میں کرتی ہے وہ اب بھی اس کے کام کے نتائج سے طے ہوتا ہے، اور وہ اس طرح کی چیزیں وقت کے اس دورانیے کا تعین کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے جس کے لیے وہ جسم میں رہتے ہوئے کام کرے گی۔ روح القدس براہ راست اپنے کام کا ہر مرحلہ ظاہر کرتی ہے، اپنے کام کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی ہے؛ یہ کام اتنا مافوق الفطرت نہیں ہے کہ انسانی تخیل کی حدود بڑھا دے۔ یہ آسمانوں اور زمین اور ہر چیز کو پیدا کرنے میں یہوواہ کے کام کی طرح ہے۔ اس نے منصوبہ بندی کی اور بیک وقت کام کیا۔ اس نے روشنی کو اندھیرے سے الگ کر دیا، اور صبح اور شام وجود میں آئے - اس میں ایک دن لگا۔ دوسرے دن اس نے آسمان پیدا کیا اور اس میں بھی ایک دن لگا۔ پھر اس نے زمین اور سمندروں اور ان تمام مخلوقات کو پیدا کیا جنھوں نے انھیں آباد کیا، جس کے لیے ایک اور دن کی ضرورت تھی۔ یہ سلسلہ چھٹے دن تک جاری رہا، جب خدا نے انسان کو تخلیق کیا اور اسے زمین کی تمام چیزوں کا انتظام کرنے دیا۔ لہٰذا، ساتویں دن، جب اس نے تمام چیزوں کو پیدا کرنے کا کام ختم کر لیا، تو اس نے آرام کیا۔ خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے ایک مقدس دن کے طور پر نامزد کیا۔ اس نے اس مقدس دن کو قائم کرنے کا فیصلہ صرف اس وقت کیا جب وہ پہلے ہی ان تمام چیزوں کو پیدا کر چکا تھا، انھیں پیدا کرنے سے پہلے نہیں۔ یہ کام بھی خود بخود انجام دیا گیا تھا؛ تمام چیزوں کو پیدا کرنے سے پہلے، اس نے چھ دنوں میں دنیا کو پیدا کرنے اور پھر ساتویں دن آرام کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا؛ اس طرح یہ ہرگز حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی اور نہ ہی اس کی یہ منصوبہ بندی تھی۔ اس نے کبھی بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہر چیز کی تخلیق چھٹے دن مکمل ہو جائے گی اور وہ ساتویں دن آرام کرے گا۔ بلکہ، اس نے اس کے مطابق پیدا کیا جو اس وقت اسے اچھا لگا۔ ایک بار جب اس نے تخلیق کا سارا کام مکمل کیا، تو یہ پہلے ہی چھٹا دن ہو چکا تھا۔ اگر وہ پانچویں دن ہر چیز کی تخلیق مکمل کرتا تو وہ چھٹے دن کو ایک مقدس دن کے طور پر مقرر کر دیتا۔ تاہم، اس نے حقیقت میں چھٹے دن ہر چیز کی تخلیق کا کام ختم کر لیا، اور اس طرح ساتواں دن ایک مقدس دن بن گیا، جو کہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ لہٰذا اس کا موجودہ کام اسی انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔ وہ بولتا ہے اور تمہارے حالات کے مطابق تمہاری ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ یعنی روح لوگوں کے حالات کے مطابق بولتی اور کام کرتی ہے۔ وہ ہر چیز پر نظر رکھتا ہے اور کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کام کرتا ہے۔ جو کچھ میں کرتا ہوں یا کہ جو کچھ میں تم پر عائد کرتا ہوں اور تمھیں عطا کرتا ہوں، بلا استثنا یہ وہ ہے جس کی تمھیں ضرورت ہے۔ پس میرا کوئی بھی کام حقیقت سے الگ نہیں ہے۔ یہ سب حقیقی ہے، کیونکہ تم سب جانتے ہو کہ "خدا کی روح سب پر نظر رکھتی ہے۔" اگر یہ سب کچھ وقت سے پہلے طے کر لیا جاتا تو کیا یہ بہت زیادہ طے شدہ اور بے لچک نہ ہوتا؟ تُو سوچتا ہے کہ خدا نے پورے چھ ہزار سال تک منصوبہ بندی کی اور پھر نوع انسانی کا سرکش، مزاحم، ٹیڑھا اور دھوکے باز ہونا، اور جسم کی بدعنوانی کا حامل ہونا، شیطانی مزاج، آنکھوں کی ہوس، اور انفرادی لذتوں میں گھرنا پہلے سے مقدر کر دیا تھا۔ ان میں سے کچھ بھی خدا کی طرف سے پہلے سے مقدر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ یہ سب شیطان کی بدعنوانی کے نتیجے میں ہوا تھا۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں، "کیا شیطان بھی خدا کی گرفت میں نہیں تھا؟ خدا نے پہلے سے مقدر کر دیا تھا کہ شیطان انسان کو اسی طرح بدعنوان بنائے گا، اور اس کے بعد، خدا نے انسان کے درمیان اپنا کام انجام دیا۔ "کیا خدا واقعی یہ پہلے سے مقدر کرے گا کہ شیطان نے نوع انسانی کو بدعنوان بنانا ہے؟ خدا تو صرف نوع انسانی کو معمول کی زندگی گزارنے کا موقع دینے کے لیے بہت بے چین ہے، تو کیا وہ واقعی ان کی زندگیوں میں مداخلت کرے گا؟ اگر ایسا ہے تو کیا پھر شیطان کو شکست دینا اور نوع انسانی کو بچانا ایک بے کار کوشش نہیں ہو گی؟ نوع انسانی کی سرکشی کو کیسے پہلے سے مقدر کیا جا سکتا تھا؟ یہ ایک ایسی چیز ہے جو شیطان کی مداخلت کی وجہ سے ہوئی ہے، تو یہ خدا کی طرف سے پہلے سے مقدر کیسے ہو سکتی ہے؟ خدا کی گرفت کے اندر موجود جس شیطان کا تم تصور کرتے ہو وہ خدا کی گرفت میں موجود اس شیطان سے بالکل مختلف ہے جس کے بارے میں، میں بات کرتا ہوں۔ تمہارے بیانات کے مطابق "خدا قادر مطلق ہے اور شیطان اس کے ہاتھوں میں ہے،" شیطان کبھی بھی اس کے ساتھ دغا نہیں کر سکتا۔ کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ خدا قادر مطلق ہے؟ تمہارا علم بہت تجریدی ہے، اور حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا؛ انسان خدا کے خیالات کبھی نہیں سمجھ سکتا، اور نہ ہی انسان کبھی اس کی حکمت سمجھ سکتا ہے! خدا قادر مطلق ہے۔ یہ بالکل بھی جھوٹ نہیں ہے۔ بڑے فرشتے نے خدا کو دھوکا دیا کیونکہ خدا نے ابتدائی طور پر اسے اختیار کا ایک حصہ دیا تھا۔ یقینا، یہ ایک غیر متوقع واقعہ تھا، بالکل اسی طرح جب حوا سانپ کے بہکاوے کا شکار ہو گئی تھی۔ تاہم، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ شیطان کس طرح اپنی دغا بازی کرتا ہے، پھر بھی وہ قادر مطلق خدا جتنی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ جیسا کہ تم نے کہا ہے کہ شیطان محض طاقتور ہے؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کیا کرتا ہے، خدا کی حاکمیت ہمیشہ اسے شکست دے گی۔ یہ اس قول کے پیچھے حقیقی معنی ہیں، "خدا قادر مطلق ہے، اور شیطان اس کے ہاتھوں میں ہے۔" لہٰذا شیطان سے جنگ میں ایک وقت میں ایک قدم ہی اٹھانا چاہیے۔ مزید برآں، خدا اپنے کام کی منصوبہ بندی شیطان کی چالبازیوں کے جواب میں کرتا ہے – یعنی، وہ نوع انسانی کے لیے نجات لاتا ہے اور اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمت کو اس انداز میں ظاہر کرتا ہے جو اس دور کے مطابق ہو۔ اسی طرح، آخری ایام کا کام ابتدائی طور پر، فضل کے دور سے قبل، پہلے سے مقدر نہیں کیا گیا تھا، مقدر اس طرح منظم انداز میں مقرر نہیں کیے جاتے: سب سے پہلے، انسان کا بیرونی مزاج تبدیل کرنا۔ دوسرا، انسان کو اس کی سزا اور آزمائشوں سے گزارنا؛ تیسرا، انسان کو موت کی آزمائش سے گزارنا؛ چوتھا، انسان کو خدا سے محبت کرنے کے وقت کا عملی تجربہ کرانا اور ایک مخلوق کے عزم کا اظہار کرانا؛ پانچواں، انسان کو خدا کی مرضی دیکھنے اور اسے مکمل طور پر جاننے کا موقع دینا، اور آخر میں انسان کی تکمیل کرنا۔ اس نے فضل کے دور میں ان تمام چیزوں کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ بلکہ اس نے موجودہ دور میں ان کی منصوبہ بندی شروع کی۔ شیطان کام کر رہا ہے، جیسے کہ خدا کر رہا ہے۔ شیطان اپنے بدعنوان مزاج کا اظہار کرتا ہے، جبکہ خدا سیدھی بات کرتا ہے اور کچھ ضروری چیزیں آشکار کرتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو آج کیا جا رہا ہے، اور یہ کام کرنے کا وہی اصول ہے جو بہت پہلے دنیا کی تخلیق کے بعد استعمال کیا گیا تھا۔

خدا نے پہلے آدم اور حوا پیدا کیے، اور اس نے ایک سانپ بھی پیدا کیا۔ تمام چیزوں میں یہ سانپ سب سے زیادہ زہریلا تھا۔ اس کے جسم میں زہر موجود تھا جسے شیطان نے اپنا فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا۔ یہ سانپ ہی تھا جس نے حوا کو گناہ کرنے کے لیے بہکایا تھا۔ حوا کے بعد آدم نے گناہ کیا، اور اس کے بعد وہ دونوں اچھے اور برے کے درمیان تمیز کرنے کے قابل ہو گئے۔ اگر یہوواہ جانتا تھا کہ سانپ حوا کو بہکائے گا اور حوا آدم کو بہکائے گی تو پھر اس نے ان سب کو ایک باغ کے اندر کیوں رکھا؟ اگر وہ ان چیزوں کی پیشین گوئی کرنے کے قابل تھا، تو پھر اس نے ایک سانپ کیوں پیدا کیا اور اسے عدن کے باغ میں کیوں رکھا؟ عدن کے باغ میں نیکی اور بدی کے علم کے درخت کا پھل کیوں تھا؟ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پھل کھائیں؟ جب یہوواہ آیا تو نہ آدم اور نہ ہی حوا نے اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت کی، اور تبھی یہوواہ کو معلوم ہوا کہ انہوں نے نیکی اور بدی کے علم کے درخت کا پھل کھا لیا ہے اور سانپ کی چالوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ آخر میں، اس نے سانپ پر لعنت کی، اور اس نے آدم اور حوا پر بھی لعنت کی۔ جب ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھایا تو یہوواہ کو بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔ نوع انسانی اس حد تک بدعنوان ہوگئی کہ گناہ اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر اتنی آزاد ہو گئی کہ جو کچھ بھی انہوں نے اپنے دلوں میں رکھا تھا وہ برائی اور ناراستبازی تھی؛ یہ سب گندگی تھی۔ اس لیے یہوواہ نے انسانیت کو پیدا کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے بعد، اس نے سیلاب کے ذریعے دنیا تباہ کرنے کا اپنا کام انجام دیا، جس میں نوح اور اس کے بیٹے بچ گئے۔ کچھ چیزیں اصل میں اتنی ترقی یافتہ اور مافوق الفطرت نہیں ہوتیں جتنی کہ لوگ تصور کرسکتے ہیں۔ کچھ لوگ پوچھتے ہیں، "جب خدا جانتا تھا کہ بڑا فرشتہ اس کے ساتھ دغا کرے گا، تو اس نے اسے کیوں پیدا کیا؟" یہ حقائق ہیں: زمین کے وجود سے پہلے، بڑا فرشتہ آسمان کے فرشتوں میں سب سے بڑا تھا۔ آسمان کے تمام فرشتوں پر اسے اختیار حاصل تھا۔ یہ وہ اختیار تھا جو خدا نے اسے عطا کیا تھا۔ خدا کے استثنا کے ساتھ، یہ آسمان کے فرشتوں میں سب سے بڑا تھا۔ بعد میں، خدا کی طرف سے نوع انسانی کو پیدا کرنے کے بعد، نیچے زمین پر بڑے فرشتے نے خدا کے خلاف اس سے بھی بڑی غداری کی۔ میں کہتا ہوں کہ اس نے خدا کو دھوکا دیا کیونکہ وہ نوع انسانی کو اپنے قابو میں کرنا چاہتا تھا اور خدا کے اختیار سے تجاوز کرنا چاہتا تھا۔ یہ بڑا فرشتہ ہی تھا جس نے حوا کو گناہ کے لیے بہکایا تھا، اور اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ وہ زمین پر اپنی بادشاہی قائم کرنا چاہتا تھا اور انسانوں کو خدا سے پیٹھ پھیرنے اور اس کی بجائے بڑے فرشتے کی اطاعت کرنے پر مجبور کرنا چاہتا تھا۔ بڑے فرشتے نے دیکھا کہ اتنی بہت سی چیزیں اس کی اطاعت کر سکتی ہیں- فرشتے کر سکتے ہیں، جیسا کہ زمین پر لوگ کر سکتے ہیں۔ پرندے اور حیوانات، درخت، جنگل، پہاڑ، دریا اور زمین کی ہر چیز انسانوں - یعنی آدم اور حوا - کی نگرانی میں تھی جبکہ آدم اور حوا بڑے فرشتے کی اطاعت کرتے تھے۔ لہٰذا بڑا فرشتہ خدا کے اختیار سے تجاوز کرنے اور خدا کے ساتھ دغا کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس کے بعد، اس نے بہت سے فرشتوں کو خدا کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا، جو بعد میں مختلف قسم کی ناپاک روحیں بن گئے۔ کیا آج تک نوع انسانی کی ترقی بڑے فرشتے کی بدعنوانی کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے؟ انسانوں کی آج جو حالت ہے، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ بڑے فرشتے نے خدا کو دغا دیا اور نوع انسانی کو بدعنوان کیا۔ یہ مرحلہ وار کام اتنا تجریدی اور آسان نہیں ہے جتنا لوگ تصور کر سکتے ہیں۔ شیطان نے ایک وجہ سے دغا کیا، لیکن پھر بھی لوگ اس طرح کی سادہ سی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ خدا جس نے آسمان اور زمین اور ہر چیز کو تخلیق کیا تو پھر اس نے شیطان کو بھی کیوں تخلیق کیا؟ چونکہ خدا شیطان سے بہت نفرت کرتا ہے، اور شیطان اس کا دشمن ہے، تو اس نے شیطان کیوں پیدا کیا؟ کیا شیطان کو پیدا کر کے اس نے دشمن پیدا نہیں کیا؟ خدا نے اصل میں دشمن پیدا نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس نے ایک فرشتہ پیدا کیا تھا اور بعد میں اس فرشتے نے اسے دغا دیا۔ اس کا مرتبہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس نے خدا کے ساتھ دغا کرنا چاہا۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک اتفاق تھا، لیکن یہ ناگزیر بھی تھا۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ایک شخص ایک خاص مقام پر پکی عمر کو پہنچنے کے بعد لامحالہ مر جائے گا؛ چیزیں ابھی ترقی کر کے اس مرحلے پر پہنچی ہیں۔ بعض فضول احمق کہتے ہیں کہ "جب شیطان تیرا دشمن ہے تو تُو نے اسے کیوں پیدا کیا؟ کیا تُو نہیں جانتا تھا کہ بڑا فرشتہ تجھ سے دغا کرے گا؟ کیا تو ازل سے ابد تک نہیں دیکھ سکتا؟ کیا تو بڑے فرشتے کی فطرت نہیں جانتا تھا؟ جب کہ تُو واضح طور پر جانتا تھا کہ یہ تجھ سے دغا کرے گا تو تُو نے اسے بڑا فرشتہ کیوں بنا دیا؟ اس نے نہ صرف تجھ سے دغا کیا بلکہ اس نے بہت سے دوسرے فرشتوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور نوع انسانی کو بدعنوان کرنے کے لیے فانی دنیا میں اترا، اب تک تُو اپنا چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ مکمل کرنے سے قاصر رہا ہے۔" کیا یہ الفاظ درست ہیں؟ جب تُو اس طرح سوچتا ہے، تو کیا تُو اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ مصیبت میں نہیں ڈال رہا ہے؟ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں، "اگر شیطان نے آج تک نوع انسانی کو بد عنوان نہ کیا ہوتا، تو خدا اس طرح نوع انسانی کو نجات نہ دیتا۔ اس طرح، خدا کی حکمت اور قدرتِ کاملہ پوشیدہ رہتی۔ اس کی حکمت کہاں سے آشکار ہوتی؟ پس خدا نے شیطان کے لیے ایک نسل انسانی پیدا کی تاکہ وہ بعد میں اپنی قدرتِ کاملہ ظاہر کر سکے – ورنہ انسان خدا کی حکمت کیسے دریافت کر سکتا تھا؟ اگر انسان خدا کی مخالفت نہیں کرتا یا اس کے خلاف بغاوت نہیں کرتا تو خدا کے اعمال کا آشکار ہونا غیر ضروری ہوتا۔ اگر ساری مخلوق اس کی عبادت کرے اور اس کے تابع ہو جائے تو خدا کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہو گا۔" یہ حقیقت سے اور بھی زیادہ دور ہے، کیونکہ خدا کے بارے میں کوئی چیز گندی نہیں ہے، لہٰذا وہ گندگی پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ اب اپنے اعمال صرف اس لیے ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے دشمن کو شکست دے، ان انسانوں کو بچا سکے جنھیں اس نے تخلیق کیا ہے، اور ان شیطانی ارواح اور شیطان کو شکست دینے کے لیے، جو خدا سے نفرت کرتے ہیں، دغا دیتے ہیں، اور مزاحمت کرتے ہیں، اور جو بہت شروع میں اس کے زیر تسلط تھے اور اس سے تعلق رکھتے تھے۔ خدا ان شیطانی ارواح کو شکست دینا چاہتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے، ہر چیز پر اپنی قدرتِ کاملہ ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ نوع انسانی اور زمین کی ہر چیز اب شیطان اور خبیثوں کے زیر تسلط ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ وہ اپنے اعمال ہر چیز پر ظاہر کرے تاکہ لوگ اسے پہچانیں اور اس طرح شیطان کو شکست دی جا سکےاور اس کے دشمنوں کا مکمل طور پر صفایا ہو سکے۔ اس کے اعمال آشکار کرنے کے ذریعے اس کام کا مکمل پن حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کی ساری مخلوق شیطان کے زیر تسلط ہے، اسی لیے خدا چاہتا ہے کہ وہ ان پر اپنی قدرتِ کاملہ آشکار کرے اور اس طرح شیطان کو شکست دے۔ اگر شیطان نہ ہوتا تو اسے اپنے اعمال آشکار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر شیطان کی ہراسانی نہ ہوتی تو خدا نوع انسانی تخلیق کرتا اور عدن کے باغ میں رہنے کے لیے ان کی راہنمائی کرتا۔ شیطان کی دغا بازی سے پہلے، خدا نے کبھی بھی اپنے تمام اعمال فرشتوں یا بڑے فرشتے پر کیوں ظاہر نہیں کیے؟ اگر ابتدا میں تمام فرشتے اور بڑا فرشتہ خدا کو پہچان لیتے اور اس کے تابع ہو جاتے تو خدا بے معنی کام انجام نہ دیتا۔ شیطان اور شیطانی ارواح کے وجود کی وجہ سے، انسانوں نے بھی خدا کی مخالفت کی ہے، اور باغیانہ مزاج سے بھرے ہوئے ہیں۔ پس خدا اپنے اعمال ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ شیطان کے ساتھ جنگ کرنا چاہتا ہے، اس لیے اسے شکست دینے کے لیے اسے اپنی حاکمیت اور اپنے تمام اعمال استعمال کرنے چاہییں۔ اس طرح، نجات کا وہ کام جو وہ انسانوں کے درمیان انجام دیتا ہے، انھیں اس کی حکمت اور قدرتِ کاملہ دیکھنے کا موقع دے گا۔ آج خدا جو کام کر رہا ہے وہ بامعنی ہے، اور کسی بھی طرح سے اس سے مشابہت نہیں رکھتا جس کی طرف کچھ لوگ اشارہ کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں، "کیا وہ کام جو تُو کرتا ہے وہ متصادم نہیں ہے؟ کیا کام کا تسلسل محض اپنے لیے مصیبت پیدا کرنے کی ایک مشق نہیں ہے؟ تُو نے شیطان کو پیدا کیا اور پھر اسے دغا دینے اور اپنی مخالفت کرنے کی اجازت دی۔ تُو نے انسانوں کو پیدا کیا اور پھر انھیں شیطان کے حوالے کر دیا جس کی وجہ سے آدم اور حوا کو بہکایا گیا۔ چونکہ تُو نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا ہے تو پھر تُو نوع انسانی سے نفرت کیوں کرتا ہے؟ تُو شیطان سے نفرت کیوں کرتا ہے؟ کیا یہ سب تیرا اپنا کیا دھرا نہیں ہے؟ اس میں تیرے نفرت کرنے کے لیے کیا ہے؟" بہت سے مضحکہ خیز لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ خدا سے محبت کرنا چاہتے ہیں، لیکن اندر سے، وہ خدا کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ یہ کیسا تضاد ہے! تُو سچائی نہیں سمجھتا، تیرے پاس بہت سے مافوق الفطرت خیالات ہیں، اور تُو یہاں تک دعویٰ کرتا ہے کہ خدا نے غلطی کی ہے – تُو کتنا مضحکہ خیز ہے! یہ تُو ہی ہے جو سچ کے ساتھ جھگڑ رہا ہے؛ ایسا نہیں ہے کہ خدا نے کوئی غلطی کی ہے! بعض لوگ بار بار یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ" تُو ہی تھا جس نے شیطان کو پیدا کیا اور تو نے ہی شیطان کو انسانوں کے درمیان اتارا اور انھیں اس کے حوالے کر دیا۔ ایک بار جب انسان نے شیطانی مزاج اختیار کر لیا تو تُو نے انھیں معاف نہیں کیا؛ بلکہ اس کے برعکس تُو نے ان سے ایک حد تک نفرت کی۔ پہلے پہل تُو نے ان سے ایک خاص حد تک محبت کی لیکن اب تُو ان سے نفرت کرتا ہے۔ یہ تُو ہی ہے جس نے نوع انسانی سے نفرت کی ہے، پھر بھی تُو ہی وہ ہے جس نے نوع انسانی سے محبت کی ہے۔ یہاں اصل میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟" اس سے قطع نظر کہ تم اسے کس طرح دیکھتے ہو، آسمان میں ایسا ہی ہوا ہے؛ یہ وہ طریقہ تھا جس سے بڑے فرشتے نے خدا کو دغا دیا اور نوع انسانی کو بدعنوان کر دیا، اور انسانوں نے آج تک اسی طرح سے ہی جاری رکھا ہوا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ تم اسے کس طرح بیان کرتے ہو، یہ پوری کہانی ہے۔ تاہم، تمھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج خدا جو کام کر رہا ہے اس کے پیچھے سارا مقصد تمھیں بچانا اور شیطان کو شکست دینا ہے۔

چونکہ فرشتے خاص طور پر نازک تھے اور ان کے پاس بات کرنے کی صلاحیت نہیں تھی لہٰذا جیسے ہی انھیں اختیار دیا گیا وہ مغرور ہو گئے۔ یہ خاص طور پر اس بڑے فرشتے کے بارے میں سچ تھا، جس کی حیثیت کسی بھی دوسرے فرشتے سے زیادہ تھی۔ فرشتوں کے درمیان ایک بادشاہ، اس نے ان میں سے لاکھوں کی قیادت کی، اور یہوواہ کے تحت، اس کا اختیار دوسرے فرشتوں میں سے کسی سے بھی زیادہ تھا۔ وہ یہ سب کچھ کرنا چاہتا تھا، اور دنیا کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے انسانوں کے درمیان فرشتوں کی قیادت کرنا چاہتا تھا۔ خدا نے کہا کہ وہی ہے جو کائنات کا مختار ہے؛ لیکن بڑے فرشتے نے دعویٰ کیا کہ کائنات کا مختار وہ ہے – اس کے بعد، بڑے فرشتے نے خدا کو دغا دیا۔ خدا نے آسمان میں ایک اور دنیا پیدا کی تھی، اور بڑا فرشتہ اس دنیا کو قابو کرنا چاہتا تھا اور فانی دنیا میں بھی اترنا چاہتا تھا۔ کیا خدا اسے ایسا کرنے کی اجازت دے سکتا تھا؟ اس طرح، اس نے بڑے فرشتے کو ضرب لگائی اور اسے فضا میں پھینک دیا۔ جب سے اس نے انسانوں کو بدعنوان کیا ہے، خدا نے انھیں بچانے کے لیے بڑے فرشتے کے ساتھ جنگ کی ہے۔ اس نے یہ چھ ہزار سال اسے شکست دینے کے لیے استعمال کیے ہیں۔ ایک قادر مطلق خدا کے بارے میں تمہارا تصور اس کام سے مطابقت نہیں رکھتا جو خدا اس وقت انجام دے رہا ہے۔ یہ بالکل ناقابل عمل ہے، اور ایک بہت بڑا مغالطہ ہے! دراصل، یہ صرف بڑے فرشتے کی دغا بازی کے بعد ہی تھا کہ خدا نے اسے اپنا دشمن قرار دیا۔ یہ صرف اس کی دغا بازی کی وجہ سے تھا کہ بڑے فرشتے نے عالمِ فانی میں آنے کے بعد نوع انسانی کو روند ڈالا، اور یہی وجہ ہے کہ نوع انسانی نے اس مقام تک ترقی کی ہے۔ ایسا ہونے کے بعد، خدا نے شیطان سے عہد کیا، "میں تجھے شکست دوں گا اور ان تمام انسانوں کو نجات دوں گا جنھیں میں نے پیدا کیا ہے۔" شیطان نے پہلے قائل ہوئے بغیر جواب دیا، "تُو میرے ساتھ سچ مچ کیا کر سکتا ہے؟ کیا تُو واقعی مجھے ضرب لگا کر نیچے فضا میں پھینک سکتا ہے؟ کیا تُو واقعی مجھے شکست دے سکتا ہے؟" جب خدا نے اسے فضا میں پھینک دیا تو اس نے پھر بڑے فرشتے کی طرف مزید توجہ نہیں دی، اور بعد میں شیطان کی لگاتار خلل اندازیوں کے باوجود نوع انسانی کو بچانے کا اور اپنا کام انجام دینا شروع کر دیا۔ شیطان کچھ نہ کچھ کرنے کے قابل تھا، لیکن یہ سب ان طاقتوں کی بدولت تھا جو خدا نے پہلے اسے دی تھیں۔ وہ انھیں اپنے ساتھ فضا میں لے آیا، اور انھیں آج تک برقرار رکھا ہے۔ جب خدا بڑے فرشتے کوضرب لگا کر فضا میں پھینک رہا تھا تو اس نے اپنا اختیار واپس نہیں لیا، اور اس طرح شیطان نوع انسانی کو بدعنوان کرتا رہا۔ خدا نے آسمان پر رہتے ہوئے اپنے اعمال آشکار نہیں کیے؛ تاہم، زمین پیدا کرنے سے پہلے، اس نے اپنی بنائی گئی دنیا کے لوگوں کو اپنے آسمانی اعمال دیکھنے کی اجازت دی، اس طرح آسمان کے اوپر ان لوگوں کی راہنمائی کی۔ اس نے انھیں حکمت اور ذہانت دی اور اس دنیا میں رہنے کے لیے ان لوگوں کی راہنمائی کی۔ قدرتی طور پر، تم میں سے کسی نے بھی اس بارے میں اس سے پہلے کبھی نہیں سنا ہے۔ بعد میں، خدا کی طرف سے انسانوں کی تخلیق کے بعد، بڑے فرشتے نے انھیں بدعنوان کرنا شروع کر دیا؛ زمین پر، پوری نوع انسانی افراتفری کا شکار ہو گئی۔ اس کے بعد ہی خدا نے شیطان کے خلاف اپنی جنگ کا آغاز کیا، اور تب ہی انسانوں نے اس کے اعمال دیکھنا شروع کیے۔ شروع میں اس طرح کے اعمال نوع انسانی سے چھپائے گئے تھے۔ نیچے فضا میں اتارے جانے کے بعد، شیطان اپنا کام کرنے لگا اور خدا اپنا کام کرتا رہا، یعنی شیطان کے خلاف مسلسل جنگ کرتا رہا، عین آخری ایام تک۔ اب وہ وقت ہے جب شیطان کو تباہ کر دینا چاہیے۔ ابتدا میں خدا نے اسے اختیار دیا اور بعد میں اس نے اسے ضرب لگا کر نیچے فضا میں پھینک دیا، پھر بھی وہ سرکشی پر قائم رہا۔ اس کے بعد، اس نے نوع انسانی کو زمین پر بدعنوان کر دیا، لیکن خدا وہاں نوع انسانی کا انتظام کر رہا تھا۔ خدا شیطان کو شکست دینے کے لیے اپنا انسانوں کا انتظام استعمال کرتا ہے۔ لوگوں کو بدعنوان کر کے شیطان ان کی قسمت خاتمے پر لاتا ہے اور خدا کے کام میں خلل ڈالتا ہے۔ دوسری طرف، خدا کا کام نوع انسانی کی نجات ہے۔ خدا جو کام کرتا ہے اس کا کون سا مرحلہ نوع انسانی کو بچانے کے لیے نہیں ہے؟ کون سا مرحلہ لوگوں کو پاک صاف کرنے کے لیے، اور انھیں راستبازی سے عمل کرنے اور ان لوگوں کی شبیہ کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لیے نہیں ہے جن سے محبت کی جا سکتی ہے؟ لیکن شیطان ایسا نہیں کرتا۔ یہ نوع انسانی کو بدعنوان کرتا ہے۔ یہ مسلسل پوری کائنات میں نوع انسانی کو بدعنوان کرنے کا اپنا کام انجام دیتا ہے۔ بے شک، خدا بھی اپنا کام کرتا ہے، شیطان کی طرف کوئی توجہ دیے بغیر۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شیطان کے پاس کتنا اختیار ہے، وہ اختیار اب بھی خدا کی طرف سے اسے دیا گیا تھا؛ خدا نے اصل میں اسے اپنا تمام اختیار نہیں دیا تھا، اور اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شیطان کیا کرتا ہے، یہ کبھی بھی خدا سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور ہمیشہ خدا کی گرفت میں ہی رہے گا۔ خدا نے آسمان پر رہتے ہوئے اپنا کوئی بھی عمل آشکار نہیں کیا۔ اس نے صرف شیطان کو اختیار کا ایک چھوٹا سا حصہ دیا اور اسے دوسرے فرشتوں پر قابو پانے کی اجازت دی۔ لہٰذا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شیطان کیا کرتا ہے، وہ خدا کے اختیار سے تجاوز نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ اختیار جو خدا نے اصل میں اسے عطا کیا ہے وہ محدود ہے۔ جیسے ہی خدا کام کرتا ہے، شیطان خلل ڈالتا ہے۔ آخری ایام میں، اس کی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی؛ اسی طرح، خدا کا کام بھی ختم ہو جائے گا، اور جس طرح کے انسانوں کی خدا تکمیل کرنا چاہتا ہے وہ مکمل ہو جائے گا۔ خدا لوگوں کو مثبت ہدایت دیتا ہے؛ اس کی زندگی آب حیات، بےپایاں اور لامحدود ہے۔ شیطان نے انسان کو ایک خاص حد تک بدعنوان کر دیا ہے؛ آخر میں، زندگی کا آب حیات انسان کو مکمل کرے گا، اور شیطان کے لیے مداخلت کرنا اور اپنا کام انجام دینا ناممکن ہو جائے گا۔ اس طرح، خدا ان لوگوں کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ ابھی بھی، شیطان یہ قبول کرنے سے انکار کرتا ہے؛ یہ مسلسل اپنے آپ کو خدا کے خلاف کھڑا کرتا ہے، لیکن وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ خدا نے کہا ہے، "میں شیطان کی تمام تاریک قوتوں اور تمام تاریک اثرات پر فتح حاصل کروں گا۔" یہ وہی کام ہے جو جسم میں کیا جانا ہے، اور یہی جسم بننے کو اہم بناتا ہے: یعنی، آخری ایام میں شیطان کو شکست دینے کے کام کا مرحلہ مکمل کرنا، اور شیطان سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں ختم کرنا۔ شیطان پر خدا کی فتح ناگزیر ہے! دراصل شیطان بہت پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے۔ جب بڑے سرخ اثدہے کے پورے ملک میں خوش خبری پھیلنا شروع ہوئی – یعنی جب مجسم خدا نے اپنا کام شروع کیا اور جب یہ کام حرکت میں آیا – تو شیطان کو مکمل طور پر شکست ہوئی کیونکہ مجسم ہونے کا مقصد ہی شیطان کو شکست دینا تھا۔ جیسے ہی شیطان نے دیکھا کہ خدا ایک بار پھر جسم بن گیا ہے اور اپنا کام انجام دینے لگا ہے، جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی تھی، تو وہ یہ کام دیکھ کر سخت حیران ہوا، اور اس نے مزید کوئی شرارت کرنے کی ہمت نہیں کی۔ سب سے پہلے شیطان نے سوچا کہ وہ بھی بہت سی حکمتوں سے مالا مال ہے، اور اس نے خدا کے کام میں خلل ڈالا اور ہراسانی کی؛ تاہم، اس نے یہ توقع نہیں کی تھی کہ خدا ایک بار پھر جسم بن جائے گا، یا یہ کہ اپنے کام میں، خدا شیطان کی سرکشی کو نوع انسانی کے لیے مکاشفے اور عدالت کے طور پر استعمال کرے گا، اور اس طرح انسانوں کو فتح کرے گا اور شیطان کو شکست دے گا - خدا شیطان سے زیادہ حکمت والا ہے اور اس کا کام اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لہٰذا، جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے، "میں جو کام کرتا ہوں وہ شیطان کی چالبازیوں کے جواب میں انجام دیا جاتا ہے؛ آخر میں، میں اپنی قدرتِ کاملہ اور شیطان کی ناتوانی ظاہر کروں گا۔" خدا اپنا کام سب سے آگے کرے گا، جبکہ شیطان پیچھے پیچھے رہے گا، یہاں تک کہ، آخر میں، یہ حتمی طور پر تباہ ہو جائے گا - وہ یہ بھی نہیں جانتا ہو گا کہ اسے کس نے نشانہ بنایا ہے! اسے سچائی کا احساس صرف اس وقت ہو گا جب اسے پہلے ہی توڑا اور کچلا جا چکا ہو گا، اور اس وقت تک، یہ پہلے ہی آگ کی جھیل میں جل کر خاک ہو چکا ہو گا۔ کیا اسے پھر بھی مکمل طور پر یقین نہیں آئے گا؟ کیونکہ اس کے بعد شیطان کے پاس استعمال کرنے کے لیے مزید منصوبے نہیں ہوں گے!

یہ وہ مرحلہ وار، حقیقت پسندانہ کام ہے جو اکثر خدا کے دل کو انسانیت کے لیے غم سے دوچار کرتا ہے۔ لہٰذا شیطان کے ساتھ اس کی جنگ چھ ہزار سال تک جاری رہی ہے، اور خدا نے کہا ہے، "میں نوع انسانی کو دوبارہ کبھی تخلیق نہیں کروں گا، اور نہ ہی میں دوبارہ فرشتوں کو اختیار دوں گا۔" اس کے بعد سے جب فرشتے زمین پر کام کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے محض کچھ کام کرنے کے لیے خدا کی پیروی کی؛ اس نے پھر کبھی انھیں کوئی اختیار نہیں دیا۔ جن فرشتوں کو بنی اسرائیل نے دیکھا تھا انہوں نے اپنا کام کیسے انجام دیا؟ انہوں نے خوابوں میں اپنے آپ کو ظاہر کیا اور یہوواہ کے الفاظ پہنچائے۔ جب یسوع مصلوب ہونے کے تین دن بعد جی اٹھا تو یہ فرشتے ہی تھے جنہوں نے بڑا پتھر ایک طرف دھکیل دیا۔ خدا کی روح نے یہ کام ذاتی طور پر نہیں کیا۔ اس طرح کا کام صرف فرشتے کرتے تھے۔ انہوں نے معاون کردار ادا کیا، لیکن ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا، کیونکہ خدا انھیں دوبارہ کبھی کوئی اختیار نہیں دے گا۔ کچھ عرصے تک کام کرنے کے بعد، جن لوگوں کو خدا نے زمین پر استعمال کیا، انہوں نے خدا کا مقام سنبھال لیا اور کہا، "میں کائنات سے آگے نکلنا چاہتا ہوں! میں تیسرے آسمان پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں! ہم خود مختار اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں!" وہ کئی دنوں کے کام کے بعد مغرور ہو گئے؛ وہ چاہتے تھے کہ زمین پر حاکمیت حاصل کریں، تاکہ ایک اور قوم قائم کریں، ہر چیز اپنے قدموں تلے رکھیں، اور تیسرے آسمان پر کھڑے ہو جائیں۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ تُو محض ایک انسان ہے جسے خدا نے استعمال کیا ہے؟ تُو تیسرے آسمان پر کیسے چڑھ سکتا ہے؟ خدا کام کرنے کے لیے زمین پر آتا ہے، خاموشی سے اور شور کے بغیر، اور پھر چپکے سے اپنا کام مکمل کرنے کے بعد چلا جاتا ہے۔ وہ کبھی انسانوں کی طرح چیختا چلاتا نہیں ہے، بلکہ اپنا کام انجام دینے میں عملی رویہ رکھتا ہے۔ اور نہ ہی وہ کبھی کسی کلیسیا میں داخل ہوتا ہے اور پکارتا ہے، "میں تم سب کو مٹا دوں گا! میں تم پر لعنت کروں گا اور تمھیں سزا دوں گا۔" وہ صرف اپنا کام خود کرتا رہتا ہے، اور ختم ہونے کے بعد چلا جاتا ہے۔ وہ مذہبی پادری جو بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور شیطانی ارواح نکالتے ہیں، منبر سے دوسروں سے خطاب کرتے ہیں، لمبی لمبی اور پُرتصنع تقریریں کرتے ہیں، اور غیر حقیقی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، یہ سب بنیادی طور پر مغرور ہیں! وہ صرف بڑے فرشتے کی اولاد ہیں!

آج کے دن تک کا اپنے چھ ہزار سال کا کام انجام دینے کے بعد، خدا نے پہلے ہی اپنے بہت سے اعمال ظاہر کر دیے ہیں، جن کا بنیادی مقصد شیطان کو شکست دینا اور تمام نوع انسانی کے لیے نجات لانا ہے۔ وہ آسمان کی ہر چیز، زمین کی ہر چیز، سمندروں کے اندر کی ہر چیز، اور زمین پر خدا کی تخلیق کی گئی ہر آخری چیز کو اپنی قدرتِ کاملہ دیکھنے اور اپنے تمام اعمال کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے اس موقع کا استعمال کر رہا ہے۔ وہ شیطان کو شکست دینے کے موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال انسانوں پر ظاہر کرے، اور انھیں اس کی تعریف کرنے اور اس کی شیطان کو شکست دینے میں اس کی حکمت سربلند کرنے کے قابل بنائے۔ زمین پر، آسمان میں اور سمندروں کے اندر ہر چیز خدا کی شان بیان کرتی ہے، اس کی قدرتِ کاملہ کی تعریف کرتی ہے، اس کے ہر ایک عمل کی تعریف کرتی ہے، اور اس کا مقدس نام پکارتی ہے۔ یہ اس کی طرف سے شیطان کی شکست کا ثبوت ہے۔ یہ اس کے شیطان کو کچل ڈالنے کا ثبوت ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ نوع انسانی کے لیے اس کی نجات کا ثبوت ہے۔ خدا کی ساری مخلوق اس کی عظمت بیان کرتی ہے، اپنے دشمن کو شکست دینے اور فاتحانہ طور پر واپس آنے پر اس کی ستائش کرتی ہے، اور عظیم فاتح بادشاہ کے طور پر اس کی حمد کرتی ہے۔ اس کا مقصد صرف شیطان کو شکست دینا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا کام چھ ہزار سال سے جاری ہے۔ وہ نوع انسانی بچانے کے لیے شیطان کی شکست کو استعمال کرتا ہے۔ وہ شیطان کی شکست کو اپنے تمام اعمال اور اپنا تمام جلال ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ آسمان پر پیغمبران، زمین پر انسان، اور زمین پر تمام مخلوقات خالق کے جلال کو دیکھیں گی۔ یہ وہ کام ہے جو وہ کرتا ہے۔ آسمان اور زمین پر اس کی تمام مخلوقات اس کے جلال کی گواہی دیں گی، اور وہ شیطان کو مکمل طور پر شکست دینے کے بعد فاتحانہ طور پر واپس آئے گا، اور نوع انسانی کو اپنی تعریف کرنے کی اجازت دے گا، اس طرح اسے اپنے کام میں دوہری فتح حاصل ہو گی۔ آخر میں، اس کی طرف سے تمام نوع انسانی فتح کی جائے گی، اور وہ ہر اس شخص کو مٹا دے گا جو مزاحمت یا بغاوت کرتا ہے؛ دوسرے لفظوں میں، وہ ان تمام لوگوں کو مٹا دے گا جو شیطان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تُو اس وقت خدا کے بہت سے اعمال کا مشاہدہ کر رہا ہے، پھر بھی تُو مزاحمت کرتا ہے، سرکشی کرتا ہے، اور اطاعت نہیں کرتا۔ تُو اپنے اندر بہت سی چیزیں رکھتا ہے اور جو دل چاہے کرتا ہے۔ تُو اپنی خواہشات اور ترجیحات کی پیروی کرتا ہے۔ یہ سب سرکشی اور مزاحمت ہے۔ جسم اور اپنی خواہشات کی خاطر اور اپنی پسند، دنیا اور شیطان کی خاطر بھی خدا پر کوئی ایمان لانا گندگی ہے؛ یہ فطرت میں مزاحمت اور سرکشی ہے۔ آج کل ایمان کی مختلف قسمیں ہیں: کچھ لوگ آفت سے پناہ مانگتے ہیں، اور دیگر برکات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ کچھ رازوں کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں، جبکہ کچھ اب بھی دولت کی تلاش میں ہیں۔ یہ سب مزاحمت کی شکلیں ہیں اور یہ سب گستاخی ہے! یہ کہنا کہ کوئی مزاحمت کرتا ہے یا بغاوت کرتا ہے - کیا یہ اس طرح کے طرز عمل کا حوالہ نہیں دیتا ہے؟ بہت سے لوگ ان دنوں بڑبڑاتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں، شکایت کرتے ہیں، یا قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں جو خبیث کرتے ہیں۔ وہ انسانی مزاحمت اور سرکشی کی مثالیں ہیں۔ ایسے لوگ شیطان کے زیر اثر اور قبضے میں ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں خدا حاصل کرتا ہے، یہ وہ ہیں جو مکمل طور پر اس کے تابع ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان کے ہاتھوں بدعنوان ہو چکے تھے لیکن خدا کے موجودہ کام کی بدولت انھیں بچایا اور فتح کیا جاچکا ہے، جنہوں نے مصیبتیں برداشت کی ہیں، اور جنھیں بالآخر خدا کی طرف سے مکمل طور پر حاصل کر لیا گیا ہے، جو اب شیطان کے تسلط میں نہیں رہتے، جو غیر راستبازی سے آزاد ہو چکے ہیں، اور جو پاکیزگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے تیار ہیں – بے شک وہ سب سے پاک لوگ ہیں۔ اگر تیرے موجودہ اعمال خدا کے تقاضوں کے ایک حصے کے مطابق بھی نہیں ہیں، تو تجھے باہر نکال دیا جائے گا۔ یہ ناقابل تردید ہے۔ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ اب کیا ہوتا ہے۔ اگرچہ تیرے بارے میں پہلے سے طے اور منتخب کر لیا گیا ہے، لیکن آج بھی تیرے اعمال تیرے انجام کا تعین کریں گے۔ اگر تُو اب قائم نہیں رہ سکتا، تو تجھے نکال دیا جائے گا۔ اگر تُو اب بھی قائم نہیں رہ سکتا ہے تو تُو بعد میں کیسے قائم رہ پائے گا؟ اتنا بڑا معجزہ تیرے سامنے آچکا ہے، پھر بھی تُو ایمان نہیں لاتا۔ پس تُو بعد میں خدا پر کیسے ایمان لائے گا، جب کہ وہ اپنا کام مکمل کر چکا ہو گا اور وہ پھر ایسا کام نہیں کرے گا؟ اس وقت تک، تیرے لیے اس کی پیروی کرنا اور بھی ناممکن ہو جائے گا! بعد میں، خدا تیرے رویے، مجسم خدا کے کام کے بارے میں تیرے علم، اور تیرے تجربے پر انحصار کرے گا کہ آیا تو گناہ گار ہے یا راستباز ہے، یا اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا تجھے کامل کیا گیا ہے یا نکال دیا گیا ہے' تجھے اب واضح طور پر دیکھنا ہو گا۔ روح القدس اسی طرح کام کرتی ہے: وہ تیرے آج کے طرز عمل کے مطابق تیرے انجام کا تعین کرتی ہے۔ آج کے الفاظ کون بولتا ہے؟ آج کا کام کون کرتا ہے؟ کون فیصلہ کرتا ہے کہ آج تجھے نکال دیا جائے گا؟ کون تجھے کامل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے؟ کیا یہ کام میں خود نہیں کرتا ہوں؟ میں وہ ہوں جو یہ کلام بولتا ہوں؛ میں وہ ہوں جو اس طرح کا کام انجام دیتا ہوں۔ لوگوں کو کوسنا، سزا دینا اور ان کی عدالت میرے کام کا حصہ ہیں۔ آخر میں یہ بھی مجھ پر منحصر ہو گا کہ میں تجھے نکال باہر کروں۔ یہ سب چیزیں میرا کام ہیں! تجھے کامل بنانا میرا کام ہے اور تجھے نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دینا بھی میرا کام ہے۔ یہ وہ سب کام ہیں جو میں کرتا ہوں۔ تیرا انجام یہوواہ نے پہلے سے طے نہیں کیا تھا؛ یہ آج کے خدا کی طرف سے طے کیا جا رہا ہے۔ اس کا تعین ابھی کیا جا رہا ہے؛ بہت پہلے دنیا کی تخلیق سے قبل اس کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔ بعض احمق لوگ کہتے ہیں، "شاید تیری آنکھوں میں کوئی خرابی ہے اور تُو مجھے اس طرح نہیں دیکھتا جس طرح تجھے دیکھنا چاہیے تھا۔ آخر میں، تُو دیکھے گا کہ روح کیا ظاہر کرتی ہے!" یسوع نے اصل میں یہوداہ کو اپنے شاگرد کے طور پر چنا تھا۔ لوگ پوچھتے ہیں: "وہ کس طرح ایک ایسے شاگرد کا انتخاب کر سکتا ہے جو اس کے ساتھ دغا کرے؟" پہلے، یہوداہ کا یسوع کو دغا دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا؛ یہ بس بعد میں ہو گیا۔ اس وقت، یسوع نے یہوداہ کو بہت مثبت انداز میں دیکھا تھا۔ اس نے وہ شخص اپنی پیروی کرنے پر لگایا تھا، اور اسے ان کے مالی معاملات کی ذمہ داری دی تھی۔ اگر یسوع کو معلوم ہوتا کہ یہوداہ مالی غبن کرے گا، تو وہ اسے ایسے معاملات کا نگران کبھی نہ بناتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یسوع اصل میں نہیں جانتا تھا کہ یہ شخص بد دیانت اور دھوکے باز تھا، یا یہ کہ وہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دھوکا دے گا۔ بعد میں، جب یہوداہ کچھ عرصے سے یسوع کی پیروی کر رہا تھا، تو یسوع نے اسے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی چاپلوسی کرتے اور خدا کی چاپلوسی کرتے ہوئے دیکھا۔ لوگوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ یہوداہ کو رقم کے تھیلے سے رقم لینے کی عادت تھی، اور پھر انہوں نے یسوع کو اس کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد ہی یسوع کو ہر اس چیز کا علم ہوا جو ہو رہی تھا۔ کیونکہ یسوع کو تصلیب کا کام انجام دینا تھا اور اسے کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو اسے دغا دے، اور چونکہ یہوداہ یہ کردار ادا کرنے کے لیے صحیح قسم کا شخص تھا، یسوع نے کہا، "ہم میں سے ایک ایسا ہو گا جو مجھے دغا دے گا۔ ابن آدم مصلوب ہونے کے لیے اس دغابازی کا استعمال کرے گا اور تین دن کے بعد دوبارہ جی اٹھے گا۔" اس وقت، یسوع نے اصل میں یہوداہ کو منتخب نہیں کیا تھا کہ وہ اسے دھوکا دے سکے۔ اس کے برعکس، اس نے امید کی تھی کہ یہوداہ ایک وفادار شاگرد ہو گا۔ غیر متوقع طور پر، یہوداہ خداوند کو دھوکا دینے والا ایک شخص نکلا، اس لیے یسوع نے یہوداہ کو منتخب کر کے اس کام کے لیے اس صورت حال کو استعمال کیا۔ اگر یسوع کے بارہ شاگردوں میں سے تمام وفادار ہوتے اور یہوداہ جیسا کوئی بھی ان کے درمیان نہ ہوتا، تو یسوع کو دھوکہ دینے والا شخص بالآخر کوئی ایسا شخص ہوتا جو شاگردوں میں سے نہیں ہوتا۔ تاہم، اس وقت، یہ صرف اتنا ہوا کہ شاگردوں میں سے ایک تھا جو رشوت لینے سے لطف اندوز ہوتا تھا: یہوداہ۔ اس لیے یسوع نے اس آدمی کو اپنا کام پورا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ کتنا آسان تھا! یسوع نے اپنے کام کے آغاز میں اس کا پہلے سے تعین نہیں کیا تھا۔ اس نے یہ فیصلہ صرف اس وقت کیا جب چیزیں ایک خاص حد تک تیار ہو گئیں۔ یہ یسوع کا فیصلہ تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خود خدا کی روح کا فیصلہ تھا۔ اور یہ روح القدس کا کام تھا جو اس وقت انجام دیا گیا تھا۔ جب یسوع نے یہوداہ کو چنا تھا، تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہوداہ اسے دغا دے گا۔ وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ وہ شخص یہوداہ اسکریوتی تھا۔ آج تیرے انجام کا تعین بھی تیری اطاعت کی سطح اور تیری زندگی کی نمو کی سطح کے مطابق ہوتا ہے، نہ کہ کسی انسانی تصور کے مطابق کہ تیرا انجام دنیا کی تخلیق پر پہلے سے ہی مقدر تھا۔ تجھے ان چیزوں کا واضح ادراک کرنا چاہیے۔ اس میں سے کوئی بھی کام اس طرح سے نہیں کیا جاتا ہے جس طرح سے تُو اس کا تصور کرتا ہے۔

سابقہ: خلاصی کے دور کے کام کے پیچھے اصل کہانی

اگلا: القاب اور شناخت سے متعلق

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp