القاب اور شناخت سے متعلق
اگر تم خدا کے استعمال کے قابل ہونا چاہتے ہو، تو تمہیں خدا کے کام کو جاننا ضروری ہے، جو اس نے پہلے کیا تھا (نئے اور پرانے عہد نامے میں) اور، اس کے علاوہ، تیرے لیے اس کا آج کا کام جاننا ضروری ہے؛ یہ ایسے کہنا ہے کہ، تیرے لیے 6،000 سالوں میں انجام دیے گیے خدا کے کام کے تین مراحل جاننا ضروری ہے۔ اگر تجھے خوش خبری پھیلانے کے لیے کہا جاتا ہے، تو تُو خدا کا کام جانے بغیر ایسا کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔ کوئی تجھ سے پوچھ سکتا ہے کہ تمہارے خدا نے انجیل، پرانے عہد نامے اور یسوع کے کام اور اس وقت کے الفاظ کے بارے میں کیا کہا ہے۔ اگر تُو انجیل کی اندرونی کہانی کے بارے میں بات نہیں کر سکتا ہے، تو وہ قائل نہیں ہوں گے۔ اس وقت، یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ پرانے عہد نامے کے بارے میں زیادہ تر باتیں کیں۔ وہ جو کچھ بھی پڑھتے تھے وہ پرانے عہد نامے سے تھا، نیا عہد نامہ یسوع کے مصلوب ہونے کے کئی عشروں بعد ہی لکھا گیا تھا۔ خوش خبری پھیلانے کے لیے، تمھیں خاص طور پر انجیل کی اندرونی سچائی اور اسرائیل میں خدا کا کام سمجھنا چاہیے، جو یہوواہ کے ذریعہ کیا گیا کام ہے اور تمہیں یسوع کا کیا گیا کام بھی سمجھنا ہوگا۔ یہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں تمام لوگ سب سے زیادہ فکر مند ہیں اور کام کے ان دو مراحل کی اندرونی کہانی وہی ہے جو انہوں نے نہیں سنی ہے۔ خوشخبری پھیلاتے وقت، پہلے روح القدس کے آج کے کام کی بات ایک طرف رکھیے۔ کام کا یہ مرحلہ ان کی دسترس سے باہر ہے، کیونکہ جس چیز کی تم پیروی کرتے ہو وہ سب سے بلند ہے یعنی خدا کا علم اور روح القدس کے کام کا علم اور ان دونوں چیزوں سے بڑھ کر کوئی چیز بلند مرتبہ نہیں ہے۔ اگر تم سب سے پہلے اس کے بارے میں بات کرو جو بلند ہے، تو یہ ان کے لیے بہت زیادہ ہو گا، کیونکہ کسی نے بھی روح القدس کی طرف سے اس طرح کے کام کا تجربہ نہیں کیا ہے؛ اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور انسان کے لیے اسے قبول کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کے تجربات ماضی کی پرانی چیزیں ہیں، جن میں روح القدس کی طرف سے کبھی کبھار کیا گیا کام شامل ہے۔ جو کچھ وہ تجربہ کرتے ہیں وہ آج روح القدس کا کام نہیں ہے، یا خدا کی آج کی مرضی نہیں ہے۔ وہ اب بھی، کسی نئی روشنی اور نئی چیزیں کے بغیر پرانے طریقوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔
یسوع کے دور میں، روح القدس نے بنیادی طور پر یسوع میں اپنا کام کیا، جبکہ جو لوگ ہیکل میں کاہن کے لبادے پہن کر یہوواہ کی خدمت کرتے تھے، انہوں نے غیر متزلزل وفاداری کے ساتھ ایسا کیا۔ ان کے پاس روح القدس کا کام بھی تھا، لیکن وہ خدا کی موجودہ مرضی سمجھنے سے قاصر تھے اور پرانے طریقوں کے مطابق صرف یہوواہ کے وفادار رہے اور نئی رہنمائی سے محروم تھے۔ یسوع آیا اور نیا کام لایا، پھر بھی جو لوگ ہیکل میں خدمت کرتے تھے ان کے پاس نئی رہنمائی نہیں تھی اور نہ ہی ان کے پاس نیا کام تھا۔ ہیکل میں خدمت کرتے ہوئے، وہ صرف پرانے طریقے قائم رکھ سکتے تھے اور ہیکل کو چھوڑے بغیر، وہ کسی بھی نئے داخلے کے قابل نہیں تھے۔ نیا کام یسوع کے ذریعے لایا گیا تھا اور یسوع اپنا کام کرنے کے لیے ہیکل کے اندر نہیں گیا تھا۔ اس نے صرف ہیکل کے باہر اپنا کام کیا، کیونکہ خدا کے کام کا دائرہ کار بہت پہلے ہی بدل چکا تھا۔ وہ ہیکل کے اندر کام نہیں کرتا تھا اور جب انسان وہاں خدا کی خدمت کرتا تھا تو اس نے صرف چیزیں جوں کی توں رکھنے کے لیے کام کیا تھا اور کوئی نیا کام سامنے نہیں لا سکا تھا۔ اسی طرح، مذہبی لوگ آج بھی انجیل کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر تُو ان تک خوش خبری پھیلاتا ہے تو وہ تجھ پرانجیل کے الفاظ کی جزوی تفصیلات کی بارش کر دیں گے اور وہ بہت سے ثبوت تلاش کریں گے، جس سے تُو ہکا بکا اور گنگ ہو کر رہ جائے گا۔ پھر وہ تجھ پر ایک ٹھپا لگا دیں گے اور تجھے اپنے ایمان میں بیوقوف سمجھیں گے۔ وہ کہیں گے، "تُو انجیل کو بھی نہیں جانتا، جو خدا کا کلام ہے، تو تُو کیسے کہہ سکتا ہے کہ تُو خدا پر ایمان رکھتا ہے؟" پھر وہ تجھ پر حقارت کی نگاہ ڈالیں گے اور یہ بھی کہیں گے، "چونکہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو وہ خدا ہے تو وہ تمھیں پرانے اور نئے عہد نامے کے بارے میں سب کچھ کیوں نہیں بتاتا؟ چونکہ وہ اسرائیل سے مشرق کی طرف اپنا جلال لے کر آیا ہے، تو وہ اسرائیل میں کیے گئے کام کو کیوں نہیں جانتا؟ وہ یسوع کا کام کیوں نہیں جانتا؟ اگر تم نہیں جانتے ہو، تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمھیں یہ نہیں بتایا گیا ہے؛ چونکہ وہ یسوع کی دوسری تجسیم ہے، تو وہ یہ چیزیں کیسے نہیں جانتا؟ یسوع، یہوواہ کے کیے ہوئے کام جانتا تھا؛ وہ کیسے نہیں جان سکتا تھا؟" جب وقت آئے گا تو وہ سب تجھ سے ایسے سوالات پوچھیں گے۔ ان کے سروں میں اس طرح کی چیزیں بھری ہوئی ہیں؛ تو وہ کیسے نہیں پوچھ سکتے تھے؟ تم میں سے جو لوگ اس دھارے میں ہیں وہ انجیل پر توجہ نہیں دیتے، کیونکہ تم نے آج خدا کی طرف سے کیے گیے مرحلہ وار کام سے اپنے آپ کو باخبر رکھا ہے، تم نے اپنی آنکھوں سے اس مرحلہ وار کیے گئے کام کا مشاہدہ کیا ہے اور تم نے واضح طور پر کام کے تین مراحل کو دیکھا ہے اور اس وجہ سے تمہیں انجیل کو چھوڑنا پڑا ہے اور اس کا مطالعہ کرنا بند کرنا پڑا ہے۔ لیکن وہ اس کا مطالعہ نہیں کر سکتے، کیونکہ انہیں مرحلہ وار کیے گئے اس کام کا کوئی علم نہیں ہے۔ کچھ لوگ پوچھیں گے، "مجسم خدا اور ماضی کے نبیوں اور رسولوں کے کاموں میں کیا فرق ہے؟ داؤد کو بھی خداوند کہا جاتا تھا اور یسوع کو بھی؛ اگرچہ انہوں نے جو کام کیا وہ مختلف تھا، لیکن انہیں ایک ہی چیز کہا جاتا تھا۔ مجھے بتائیں، ان کی شناخت ایک جیسی کیوں نہیں تھی؟ یوحنا نے جو کچھ دیکھا وہ ایک رُویا تھا، جو روح القدس کی طرف سے بھی آیا تھا اور وہ ان الفاظ کو کہنے کے قابل تھا جو روح القدس نے کہنے کا ارادہ کیا تھا۔ یوحنا کی شناخت یسوع کی شناخت سے مختلف کیوں تھی؟" یسوع کے کہے ہوئے الفاظ مکمل طور پر خدا کی نمائندگی کرنے کے قابل تھے اور وہ مکمل طور پر خدا کے کام کی نمائندگی کرتے تھے۔ یوحنا نے جو کچھ دیکھا وہ ایک رُویا تھا اور وہ خدا کے کام کی مکمل نمائندگی کرنے کے قابل نہیں تھا۔ ایسا کیوں ہے کہ یوحنا، پطرس اور پولس نے بہت سے الفاظ کہے، جیسا کہ یسوع نے کیا تھا اور پھر بھی ان کی شناخت یسوع جیسی نہیں تھی؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کام کیا وہ مختلف تھا۔ یسوع خدا کی روح کی نمائندگی کرتا تھا اور خدا کی روح براہ راست کام کر رہی تھی۔ اس نے نئے دور کا وہ کام کیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ اس نے ایک نیا راستہ کھولا، اس نے یہوواہ کی نمائندگی کی اور اس نے خود خدا کی نمائندگی کی، جبکہ پطرس، پولس اور داؤد کے ساتھ، قطع نظر اس کے کہ انہیں کیا کہا جاتا تھا، وہ صرف خدا کی ایک مخلوق کی شناخت کی نمائندگی کرتے تھے اور یسوع یا یہوواہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ پس اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہوں نے کتنا ہی کام کیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انہوں نے کتنے ہی عظیم معجزے انجام دیے ہیں اس کے باوجود وہ محض خدا کی مخلوق تھے اور خدا کی روح کی نمائندگی کرنے کے قابل نہیں تھے۔ انہوں نے خدا کے نام پر کام کیا یا خدا کی طرف سے بھیجے جانے کے بعد کام کیا؛ مزید برآں، انہوں نے یسوع یا یہوواہ کے ذریعہ شروع ہونے والے ادوار میں کام کیا اور انہوں نے کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ آخر کار وہ محض خدا کی مخلوق تھے۔ پرانے عہد نامے میں، بہت سے نبیوں نے پیشگوئیاں کیں، یا پیشگوئیوں کی کتابیں لکھیں۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ خدا ہیں، لیکن جیسے ہی یسوع نے کام کرنا شروع کیا، خدا کی روح نے اس کی خدا کے طور پر گواہی دی۔ ایسا کیوں ہے؟ اس موقع پر تجھے پہلے سے ہی معلوم ہونا چاہیے! اس سے پہلے رسولوں اور نبیوں نے کئی طرح کے خطوط لکھے اور بہت سی پیشگوئیاں کیں۔ بعد میں، لوگوں نے ان میں سے کچھ انجیل میں ڈالنے کے لیے منتخب کیں اور کچھ کھو گئیں۔ چونکہ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ بولی جانے والی ہر بات روح القدس کی طرف سے آئی ہے، لہذا اس میں سے کچھ کو اچھا اور کچھ کو برا کیوں سمجھا جاتا ہے؟ اور کیوں کچھ کو منتخب کیا گیا تھا اور دوسروں کو نہیں؟ اگر وہ واقعی روح القدس کے کہے گئے الفاظ تھے تو کیا لوگوں کے لیے ضروری ہوتا کہ وہ ان میں سے انتخاب کریں؟ یسوع کے کہے ہوئے الفاظ اور اس نے جو کام کیا اس کا احوال چار انجیلوں میں سے ہر ایک میں کیوں مختلف ہے؟ کیا یہ ان لوگوں کا قصور نہیں ہے جنہوں نے انہیں تحریر کیا؟ کچھ لوگ پوچھیں گے، "چونکہ پولس اور نئے عہد نامے کے دوسرے مصنفین کی طرف سے لکھے گیے خطوط اور وہ کام جو انہوں نے کیے جزوی طور پر انسان کی مرضی سے تشکیل پائے تھے اور ان میں انسانی تصورات سے ملاوٹ کی گئی تھی، تو کیا ان الفاظ میں انسانی میل موجود نہیں ہے جو تُو (خدا) آج کہتا ہے؟ کیا ان میں واقعی انسان کے کوئی تصورات شامل نہیں ہیں؟" خدا کے کیے گئے کام کا یہ مرحلہ پولس اور بہت سے رسولوں اور نبیوں کے کیے گئے کام سے بالکل مختلف ہے۔ نہ صرف شناخت میں فرق ہے، بلکہ خاص طور پر اس کام میں بھی فرق ہے جو انجام دیا گیا تھا۔ پولس کے ضرب کھانے اور خداوند کے سامنے گرنے کے بعد، روح القدس نے کام کرنے کے لیے اس کی رہنمائی کی اور وہ، وہ بن گیا جو کہ بھیجا گیا تھا۔ اس لیے اس نے کلیساؤں کو خطوط لکھے اور یہ سب خطوط یسوع کی تعلیمات کے مطابق تھے۔ پولس کو خداوند نے خداوند یسوع کے نام پر کام کرنے کے لیے بھیجا تھا، لیکن جب خدا خود آیا تو اس نے کسی نام سے کام نہیں کیا اور اپنے کام میں خدا کی روح کے سوا کسی کی نمائندگی نہیں کی۔ خدا اپنا کام براہ راست کرنے کے لیے آیا تھا: وہ انسان کی طرف سے کامل نہیں کیا گیا تھا اور اس کا کام کسی بھی آدمی کی تعلیمات پر عمل میں نہیں کیا گیا تھا۔ کام کے اس مرحلے میں خدا اپنے ذاتی تجربات کے بارے میں بات کرتے ہوئے رہنمائی نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کے بجائے اپنا کام براہ راست انجام دیتا ہے، اس کے مطابق جو اس کے پاس ہے۔ مثال کے طور پر، خدمت کرنے والوں کی آزمائش، سزا کا وقت، موت کی آزمائش، خدا سے محبت کرنے کا وقت۔۔۔۔ یہ وہ سب کام ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا اور یہ وہ کام ہے جو انسان کے تجربات کے بجائے موجودہ دور کا ہے۔ ان الفاظ میں جو میں نے کہے ہیں، انسان کے تجربات کون سے ہیں؟ کیا وہ سب براہ راست روح کی طرف سے نہیں آتے ہیں اور کیا وہ روح کی طرف سے جاری نہیں کیے گیے ہیں؟ بات صرف اتنی ہے کہ تیری صلاحیت اتنی ناقص ہے کہ تُو اس کے اندر سچائی دیکھنے سے قاصر ہے! زندگی کا عملی طریقہ جس کی میں بات کر رہا ہوں وہ راستے کی رہنمائی کرنا ہے اور اس سے پہلے کبھی کسی نے یہ بات نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی نے کبھی اس راستے کا تجربہ کیا ہے، یا اس حقیقت سے واقف ہوا ہے۔ میرے یہ الفاظ کہنے سے پہلے، کسی نے بھی یہ الفاظ کبھی نہیں کہے تھے۔ کسی نے بھی اس طرح کے تجربات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی تھی اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس طرح کی تفصیلات بیان کی تھیں اور اس کے علاوہ، کسی نے بھی یہ چیزیں ظاہر کرنے کے لیے اس طرح کی حالتوں کی نشاندہی نہیں کی تھی۔ آج جس راستے کی میں رہنمائی کر رہا ہوں اس کی رہنمائی کبھی کسی نے نہیں کی تھی اور اگر اس کی رہنمائی انسان کرتا تو یہ کوئی نیا طریقہ نہ ہوتا۔ مثال کے طور پر پولس اور پطرس کو ہی لے لیں۔ یسوع کے راستے کی رہنمائی کرنے سے پہلے ان کے اپنے ذاتی تجربات نہیں تھے۔ یسوع کے راستے کی رہنمائی کرنے کے بعد ہی انہوں نے یسوع کے کہے ہوئے الفاظ اور اس کی طرف سے رہنمائی کیے جانے والے راستے کا تجربہ کیا؛ اس سے انہوں نے بہت سے تجربات حاصل کیے اور انہوں نے خطوط لکھے۔ اور اس طرح، انسان کے تجربات خدا کے کام کے جیسے نہیں ہیں اور خدا کا کام انسان کے تصورات اور تجربات کے بیان کردہ علم کے مطابق نہیں ہے۔ میں نے بار بار کہا ہے کہ آج میں ایک نئی راہ پر گامزن ہوں اور نیا کام کر رہا ہوں اور میرا کام اور کلمات یوحنا اور دوسرے تمام نبیوں سے مختلف ہیں۔ میں کبھی بھی پہلے تجربات حاصل کر کے بعد میں تم سے ان کے بارے میں بات نہیں کرتا ہوں – ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا تمہیں بہت پہلے ہی تاخیر نہ ہو چکی ہوتی؟ ماضی میں، جس علم کے بارے میں بہت سے لوگ بات کرتے تھے وہ بھی بلند تھا، لیکن ان کے تمام الفاظ صرف نام نہاد روحانی شخصیات کی بنیاد پر بولے جاتے تھے۔ انہوں نے طریقے کی رہنمائی نہیں کی بلکہ تجربات سے اور جو کچھ انہوں نے دیکھا تھا اس سے اور اپنے علم سے کیا۔ ان میں سے کچھ ان کے نظریات میں سے تھے اور کچھ اس تجربے پر مشتمل تھے جس کا انہوں نے خلاصہ کیا تھا۔ آج، میرے کام کی نوعیت ان سے بالکل مختلف ہے۔ میں نے دوسروں کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرنے کا تجربہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی میں نے دوسروں کے ذریعے کامل ہونے کو قبول کیا ہے۔ مزید برآں، میں نے جو کچھ بھی کہا اور رفاقت کی ہے وہ کسی اور کے جیسی نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور نے کبھی ایسا کہا ہے۔ آج، اس بات سے قطع نظر کہ تم کون ہو، تمہارا کام اس کلام کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جو میں بولتا ہوں۔ ان کلمات اور کام کے بغیر، کون ان چیزوں کا تجربہ کرنے کے قابل ہو گا (خدام کی آزمائش، سزا کا وقت۔۔۔) اور کون اس طرح کے علم کے بارے میں بات کرنے کے قابل ہو گا؟ کیا تم واقعی یہ دیکھنے کے قابل نہیں ہو؟ کام کے مرحلے سے قطع نظر، جوںہی میرے الفاظ بولے جاتے ہیں، تم میرے الفاظ کے مطابق رفاقت کرنا شروع کر دیتے ہو اور ان کے مطابق کام کرتے ہو اور یہ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کے بارے میں تم میں سے کسی نے سوچا ہو۔ اتنی دور تک پہنچنے کے بعد، کیا تُو اس طرح کے واضح اور سادہ سوال کو دیکھنے کے قابل نہیں ہے؟ یہ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جسے کسی نے سوچا ہو اور نہ ہی اس کی بنیاد کسی روحانی شخصیت پر رکھی گئی ہے۔ یہ ایک نیا راستہ ہے اور یہاں تک کہ یسوع کی طرف سے ایک بار بولے گئے بہت سے الفاظ بھی اس پر اب لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ میں جو بات کر رہا ہوں وہ ایک نیا دور کھولنے کا کام ہے اور یہ وہ کام ہے جو یکتا ہے؛ جو کام میں کرتا ہوں اور جو الفاظ میں بولتا ہوں، وہ سب نئے ہیں۔ کیا یہ آج کا نیا کام نہیں ہے؟ یسوع کا کام بھی ایسا ہی تھا۔ اس کا کام بھی ہیکل کے لوگوں سے مختلف تھا اور اسی طرح یہ فریسیوں کے کام سے بھی مختلف تھا اور نہ ہی اس میں اسرائیل کے تمام لوگوں کے کیے گیے کام سے کوئی مماثلت تھی۔ اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد، لوگ فیصلہ نہیں کر سکے تھے: "کیا یہ واقعی خدا کی طرف سے کیا گیا تھا؟" یسوع نے یہوواہ کے قانون پر عمل نہیں کیا؛ جب وہ انسان کو تعلیم دینے آیا تو اس نے جو کچھ کہا وہ پرانے عہد نامے کے قدیم مقدسین اور نبیوں کی باتوں سے نیا اور مختلف تھا اور اس کی وجہ سے لوگ غیر یقینی کی کیفیت میں رہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان سے نمٹنا بہت مشکل بنا دیتی ہے۔ کام کا یہ نیا مرحلہ قبول کرنے سے پہلے، تم میں سے اکثریت جس راستے پر چل رہی تھی وہ ان روحانی شخصیات کی بنیاد پر عمل کرنا اور داخل ہونا تھا۔ لیکن آج، میں جو کام کرتا ہوں وہ بہت مختلف ہے اور اس وجہ سے تم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہو کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تم پہلے کس راستے پر چلتے تھے اور نہ ہی مجھے اس بات میں کوئی دلچسپی ہے کہ تُو نے کس کا "کھانا" کھایا ہے، یا تُو نے کسے اپنا "باپ" بنا لیا ہے۔ چونکہ میں آ گیا ہوں اور انسان کی رہنمائی کے لیے نیا کام لایا ہوں، اس لیے میری پیروی کرنے والے تمام لوگوں کو میری باتوں کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ چاہے تُو کتنے ہی طاقتور "خاندان" سے تعلق رکھتا ہو، تجھے لازماً میری پیروی کرنی چاہیے، تجھے اپنی سابقہ روش کے مطابق باکل عمل نہیں کرنا چاہیے، تیرے "رضاعی باپ" کوسبک دوش ہوجانا چاہیے اور تجھے اپنے خدا کے سامنے اپنا جائز حصہ لینے کے لیے آنا چاہیے۔ تیرا سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے اور تجھے اپنے رضاعی باپ پر بہت زیادہ اندھا اعتقاد نہیں کرنا چاہیے؛ وہ تجھے مکمل طور پر قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ آج کا کام یکتا ہے۔ آج میں جو کچھ بھی کہتا ہوں وہ ظاہر ہے کہ ماضی کی بنیاد پر نہیں ہے؛ یہ ایک نئی شروعات ہے اور اگر تُو یہ کہے کہ یہ انسان کے ہاتھ سے پیدا ہوئی ہے تو پھر تُو ایسا اندھا ہے جسے بچایا نہیں جا سکتا!
یسعیاہ، حزقیل، موسیٰ، داؤد، ابراہیم اور دانیال بنی اسرائیل کے برگزیدہ لوگوں میں رہنما یا نبی تھے۔ انہیں خدا کیوں نہیں کہا گیا؟ روح القدس نے ان کی گواہی کیوں نہیں دی؟ جیسے ہی اس نے اپنا کام اور کلام کہنا شروع کیا تو روح القدس نے یسوع کی گواہی کیوں دی؟ اور روح القدس نے دوسروں کے لیے گواہی کیوں نہیں دی؟ وہ آدمی، جو جسم والے تھے، سب کو "خداوند" کہا جاتا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ انہیں کیا کہا جاتا تھا، ان کا کام ان کے وجود اور جوہر کی نمائندگی کرتا ہے اور ان کا وجود اور جوہر ان کی شناخت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا جوہر ان کے القاب سے تعلق نہیں رکھتا ہے؛ اس کی نمائندگی اس بات سے ہوتی ہے کہ انہوں نے کیا اظہار کیا اور زندگی کیسے گزاری۔ پرانے عہد نامے میں، خداوند کہلانے میں کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی اور کسی شخص کو کسی بھی طرح سے بلایا جا سکتا تھا، لیکن اس کا جوہر اور موروثی شناخت ناقابل تغیر تھی۔ ان جھوٹے مسیحوں، جھوٹے نبیوں اور دھوکا بازوں میں کیا وہ بھی نہیں ہیں جنہیں "خدا" کہا جاتا ہے؟ اور وہ خدا کیوں نہیں ہیں؟ کیونکہ وہ خدا کا کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر وہ انسان ہیں۔ لوگوں کے ساتھ دھوکےباز ہیں، خدا نہیں اور اس وجہ سے ان کے پاس خدا کی شناخت نہیں ہے۔ کیا داؤد بھی بارہ قبیلوں میں خداوند نہیں کہلاتا تھا؟ یسوع کو بھی خداوند کہا جاتا تھا؛ صرف یسوع کو ہی مجسم خدا کیوں کہا جاتا تھا؟ کیا یرمیاہ کو بھی ابن آدم نہیں کہا جاتا تھا؟ اور کیا یسوع ابن آدم کے طور پر نہیں جانا جاتا تھا؟ یسوع خدا کی طرف سے مصلوب کیوں کیا گیا؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کا جوہر مختلف تھا؟ کیا یہ اس لیے نہیں کہ جو کام اس نے کیا وہ مختلف تھا؟ کیا لقب سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ اگرچہ یسوع کو بھی ابن آدم کہا جاتا تھا، لیکن وہ خدا کی پہلی تجسیم تھا، وہ اقتدار سنبھالنے اور خلاصی کا کام پورا کرنے آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یسوع کی شناخت اور جوہر ان دوسروں سے مختلف تھے اگرچہ انھیں بھی ابن آدم کہا جاتا تھا۔ آج تم میں سے کون یہ کہنے کی جرات کرتا ہے کہ روح القدس کے استعمال کیے جانے والوں کے کہے ہوئے تمام الفاظ روح القدس کی طرف سے آئے ہیں؟ کیا کسی کو ایسی باتیں کہنے کی ہمت ہے؟ اگر تُو ایسی باتیں کرتا ہے تو عزرا کی پیشگوئی کی کتاب کیوں رد کر دی گئی تھی اور ان قدیم مقدسین اور نبیوں کی کتابوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیوں کیا گیا؟ اگر وہ سب روح القدس کی طرف سے آئے تھے، تو پھر تم اس طرح کے من موجی انتخاب کرنے کی جرات کیوں کرتے ہو؟ کیا تُو روح القدس کا کام منتخب کرنے کا اہل ہے؟ اسرائیل کی بہت سی کہانیاں بھی مسترد کر دی گئیں۔ اور اگر تمہیں یقین ہے کہ ماضی کی یہ تمام تحریریں روح القدس کی طرف سے آئی ہیں تو پھر کچھ کتابوں کو کیوں رد کر دیا گیا؟ اگر وہ سب روح القدس سے آئی تھیں، تو ان سب کو رکھا جانا چاہیے تھا اور انہیں کلیساؤں کے بھائیوں اور بہنوں کو پڑھنے کے لیے بھیجا جانا چاہیے تھا۔ انہیں انسانی مرضی سے منتخب یا مسترد نہیں کیا جانا چاہیے تھا؛ ایسا کرنا غلط ہے۔ یہ کہنا کہ پولس اور یوحنا کے تجربات ان کی ذاتی بصیرت کے ساتھ مل گئے تھے، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے تجربات اور علم شیطان کی طرف سے آئے تھے، بلکہ صرف یہ کہ ان کے پاس ایسی چیزیں تھیں جو ان کے ذاتی تجربات اور بصیرت سے آئیں۔ ان کا علم ان کے اس وقت کے حقیقی تجربات کے پس منظر کے مطابق تھا اور کون اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ یہ سب روح القدس کی طرف سے آیا ہے؟ اگر چاروں اناجیل روح القدس کی طرف سے آئی ہیں، تو پھر ایسا کیوں ہے کہ متی، مرقس، لوقا اور یوحنا میں سے ہر ایک نے یسوع کے کام کے بارے میں کچھ مختلف کہا؟ اگر تم اس پر یقین نہیں کرتے، تو انجیل میں بیان کردہ واقعات دیکھو کہ کس طرح پطرس نے تین بار خداوند کا انکار کیا: وہ سب مختلف ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں۔ بہت سے لوگ جو جاہل ہیں کہتے ہیں، "مجسم خدا بھی ایک انسان ہے، تو کیا وہ الفاظ جو وہ بولتا ہے مکمل طور پر روح القدس سے آئے ہوئے ہو سکتے ہیں؟ اگر پولس اور یوحنا کے الفاظ انسانی مرضی کے ساتھ ملائے گئے تھے، تو کیا وہ الفاظ جو وہ بولتا ہے وہ واقعی انسانی مرضی کے ساتھ ملے ہوئے نہیں ہیں؟" جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ اندھے اور جاہل ہوتے ہیں! غور سے چاروں اناجیل کا مطالعہ کریں۔ ان میں یسوع کے کاموں اور اس کے الفاظ کے بارے میں کیا نوشتہ ہے، وہ پڑھیں۔ ہر وضاحت بالکل مختلف ہے اور ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اگر ان کتابوں کے مصنفین نے جو کچھ لکھا تھا، وہ سب روح القدس کی طرف سے آیا تھا، تو پھر یہ سب ایک جیسا اور یکساں ہونا چاہیے۔ تو پھر اختلافات کیوں ہیں؟ کیا انسان انتہائی احمق نہیں ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھ سکتا؟ اگر تجھے خدا کی گواہی دینے کو کہا جائے تو تُو کس قسم کی گواہی دے سکتا ہے؟ کیا خدا کو جاننے کا ایسا طریقہ اس کی گواہی دے سکتا ہے؟ اگر دوسرے لوگ تجھ سے پوچھیں "اگر یوحنا اور لوقا کے نوشتوں کو انسانی مرضی کے ساتھ ملایا گیا تھا، تو کیا تمہارے خدا کی طرف سے کہے گیے الفاظ انسانی مرضی کے ساتھ ملے ہوئے نہیں ہیں؟" کیا تُو واضح جواب دے سکے گا؟ لوقا اور متی نے یسوع کی باتیں سننے اور یسوع کا کام دیکھنے کے بعد اپنے اپنے علم کے مطابق بات کی، یادداشت کے انداز میں یسوع کے کیے گئے کام کے کچھ حقائق بیان کیے۔ کیا تُو یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کا علم مکمل طور پر روح القدس نے ظاہر کیا تھا؟ انجیل سے باہر، بہت سی روحانی شخصیات تھیں جو ان سے زیادہ علم رکھتی تھیں، تو پھر ان کے الفاظ کو بعد کی نسلوں نے کیوں نہیں اپنایا؟ کیا وہ بھی روح القدس کی جانب سے استعمال نہیں ہوئے تھے؟ جان لو کہ آج کے کام میں، میں یسوع کے کام کی بنیاد پر اپنی بصیرت کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی میں یسوع کے کام کے پس منظر کے مقابل اپنے علم کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ یسوع نے اس وقت کیا کام کیا تھا؟ اور آج میں کیا کام کر رہا ہوں؟ میں جو کچھ کرتا ہوں اور کہتا ہوں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ آج میں جس راستے پر چل رہا ہوں یہ پہلے کبھی نہیں چلا گیا، اس پر ماضی کے ادوار اور نسلوں کے لوگوں میں سے کبھی کوئی نہیں چلا تھا۔ آج، یہ شروع کیا گیا ہے اور کیا یہ روح کا کام نہیں ہے؟ اگرچہ یہ روح القدس کا کام تھا، پھر بھی ماضی کے رہنماؤں نے اپنا کام دوسروں کی بنیاد پر انجام دیا؛ تاہم، خدا کا خود کا کام مختلف ہے۔ یسوع کے کام کا مرحلہ یہی تھا: اس نے ایک نیا راستہ کھولا۔ جب وہ آیا تو اس نے آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کی اور کہا کہ انسان کو توبہ کرنی اور اعتراف کرنا چاہیے۔ یسوع کے اپنا کام مکمل کرنے کے بعد پطرس اور پولس اور دوسروں نے یسوع کا کام آگے بڑھانا شروع کیا۔ یسوع کے صلیب پر میخوں سے جڑے جانے اور آسمان پر اٹھا لیے جانے کے بعد، وہ روح کی طرف سے صلیب کا طریقہ پھیلانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اگرچہ پولس کے الفاظ بلند مرتبہ تھے، لیکن وہ بھی اس بنیاد پر مبنی تھے جو یسوع نے کہا تھا، جیسے صبر، محبت، تکلیف، سر ڈھانپنا، بپتسمہ، یا دیگر نظریات جن پر عمل کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ سب کچھ یسوع کے کلام کی بنیاد پر کہا گیا تھا۔ وہ ایک نیا راستہ کھولنے کے قابل نہیں تھے، کیونکہ وہ سب خدا کی طرف سے استعمال کیے جانے والے انسان تھے۔
اس وقت یسوع کے کلمات اور کام نظریے کے مطابق نہیں تھے اور اس نے پرانے عہد نامے کے قانون کے کام کے مطابق اپنا کام انجام نہیں دیا۔ یہ اس کام کے مطابق انجام دیا گیا تھا جو فضل کے دور میں کیا جانا چاہیے۔ اس نے اس کام کے مطابق، جو وہ آگے لایا تھا، اپنے منصوبے کے مطابق اور اپنی ذمہ داری کے مطابق محنت کی۔ اس نے پرانے عہد نامے کے قانون کے مطابق کام نہیں کیا۔ اس نے جو کچھ بھی کیا وہ پرانے عہد نامے کے قانون کے مطابق نہیں تھا اور وہ نبیوں کی باتیں پوری کرنے کے لیے کام کرنے نہیں آیا تھا۔ خدا کے کام کا ہر مرحلہ واضح طور پر قدیم نبیوں کی پیشن گوئیاں پوری کرنے کے لیے انجام نہیں دیا گیا تھا اور وہ کسی نظریے پر عمل کرنے یا جان بوجھ کر قدیم نبیوں کی پیشن گوئیاں حقیقت بنانے کے لیے نہیں آیا تھا۔ پھر بھی اس کے اعمال نے قدیم نبیوں کی پیشن گوئیوں میں خلل نہیں ڈالا اور نہ ہی انہوں نے اس کام میں خلل ڈالا جو اس نے پہلے کیا تھا۔ اس کے کام کا نمایاں نکتہ یہ تھا کہ وہ کسی بھی نظریے پر عمل نہ کرے، بلکہ وہ کام کرے جو اسے خود کرنا چاہیے۔ وہ ایک نبی یا پیغیمبر نہیں تھا، بلکہ ایک عمل کرنے والا تھا، جو اصل میں وہ کام کرنے کے لیے آیا تھا جو اسے کرنا تھا اور وہ اپنے نئے عہد کو شروع کرنے اور اپنے نئے کام کو انجام دینے کے لیے آیا تھا۔ بے شک، جب یسوع اپنا کام کرنے کے لیے آیا، تو اس نے پرانے عہد نامے میں قدیم نبیوں کے کہے ہوئے بہت سے الفاظ کو بھی پورا کیا۔ اسی طرح آج کے کام نے بھی عہد نامہ قدیم کے قدیم نبیوں کی پیشین گوئیوں کو پورا کیا ہے۔ یہ صرف اتنا ہے کہ میں اس "پرانی تقویم" کو مقدم نہیں رکھتا ہوں، بس اتنا ہی ہے۔ کیونکہ اور بھی کام ہے جو مجھے لازماً کرنا ہے اور بھی الفاظ ہیں جو مجھے تم سے کہنے ہیں اور یہ کام اور یہ کلام انجیل کے اقتباسات کی وضاحت کرنے سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ اُس جیسے کام کی تمھارے لیے کوئی بڑی اہمیت یا قدر نہیں ہے۔ اور یہ تمھاری مدد، یا تمھیں تبدیل نہیں کر سکتا۔ میں انجیل کے کسی اقتباس کو پورا کرنے کی خاطر نیا کام کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ اگر خدا صرف انجیل کے قدیم پیغمبروں کے الفاظ پورے کرنے کے لیے زمین پر آیا ہے، تو پھر کون بڑا ہے، مجسم خدا یا وہ قدیم پیغمبر؟ آخرکار، آیا انبیا خدا کے ذمہ دار ہیں یا خدا انبیا کا ذمہ دار ہے؟ آپ ان الفاظ کی وضاحت کیسے کرتے ہیں؟
شروع میں، جب یسوع نے ابھی باضابطہ طور پر اپنا مذہبی فریضہ انجام دینا تھا، ان شاگردوں کی طرح جو اس کی پیروی کرتے تھے، کبھی کبھی وہ بھی اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور مناجات گاتا تھا، حمد کرتا تھا اور ہیکل میں پرانا عہد نامہ پڑھتا تھا۔ بپتسمہ لینے اور اٹھنے کے بعد، روح باضابطہ طور پر اس پر اتری اور کام کرنا شروع کر دیا، اس کی شناخت اور وہ فریضہ ظاہر کیا جو اسے انجام دینا تھا۔ اس سے پہلے، کوئی بھی اس کی شناخت نہیں جانتا تھا اور مریم کے علاوہ، یوحنا بھی نہیں جانتا تھا۔ یسوع 29 کا تھا جب اسے بپتسمہ دیا گیا۔ اس کا بپتسمہ مکمل ہونے کے بعد آسمان کھل گیے اور یہ آواز آئی: "یہ میرا پیارا بیٹا ہے، جس سے میں خوش ہوں۔" ایک بار جب یسوع کو بپتسمہ دے دیا گیا، تو روح القدس نے اس طرح اس کی گواہی دینا شروع کر دی۔ 29 سال کی عمر میں بپتسمہ لینے سے پہلے، اس نے ایک عام شخص کی زندگی بسر کی تھی، اس نے کھانا کھایا جب اسے کھانا چاہیے تھا، حسب معمول سوتا اور کپڑے پہنتا تھا۔ اور اس کا کچھ بھی دوسروں سے مختلف نہیں تھا، اگرچہ یقیناً، یہ صرف انسان کی جسمانی آنکھوں کے لیے تھا۔ بعض اوقات وہ بھی کمزور ہوتا تھا اور بعض اوقات وہ بھی چیزیں نہیں سمجھ سکتا تھا، جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے: اس کی ذہانت اس کی عمر کے ساتھ پروان چڑھی۔ یہ الفاظ محض یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک عام اور معمول کی انسانیت کا حامل تھا اور یہ کہ وہ دوسرے عام لوگوں سے خاص طور پر مختلف نہیں تھا۔ وہ بھی ایک عام شخص کے طور پر بڑا ہوا تھا اور اس میں کچھ خاص نہیں تھا۔ پھر بھی وہ خدا کی نگہداشت اور حفاظت میں تھا۔ بپتسمہ لینے کے بعد، وہ بہکایا جانے لگا، جس کے بعد اس نے اپنی مذہبی خدمت انجام دینا اور کام کرنا شروع کیا اور طاقت، حکمت اور اختیار کا حامل بن گیا۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روح القدس نے اس کے بپتسمہ سے پہلے اس میں کام نہیں کیا تھا، یا وہ اس کے اندر نہیں تھا۔ اس کے بپتسمہ لینے سے پہلے بھی روح القدس اس کے اندر رہتا تھا لیکن اس نے باضابطہ طور پر کام کرنا شروع نہیں کیا تھا، کیونکہ جب خدا اپنا کام کرتا ہے تو اس کی حدود ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ، عام لوگوں کے بڑھنے کا ایک عمومی عمل ہوتا ہے۔ روح القدس ہمیشہ سے اس کے اندر رہتا تھا۔ جب یسوع پیدا ہوا، تو وہ دوسروں سے مختلف تھا اور ایک صبح کا ستارہ نمودار ہوا؛ اس کی پیدائش سے پہلے، ایک فرشتہ خواب میں یوسف کے سامنے ظاہر ہوا اور اسے بتایا کہ مریم ایک نر بچے کو جنم دینے والی ہے اور یہ کہ اس بچے کا حمل روح القدس کے وسیلہ سے ٹھہرا ہے۔ یسوع کے بپتسمہ لینے کے بعد، روح القدس نے اپنا کام شروع کیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ روح القدس صرف یسوع پر اترا تھا۔ یہ کہاوت کہ روح القدس ایک فاختہ کی طرح اس پر اترا، اس کے مذہبی فریضے کے باضابطہ آغاز کے حوالے سے ہے۔ خدا کی روح اس کے اندر پہلے بھی تھی، لیکن اس نے ابھی تک کام کرنا شروع نہیں کیا تھا، کیونکہ ابھی وقت نہیں آیا تھا اور روح نے جلدبازی میں کام کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ روح نے بپتسمہ کے وسیلہ سے اس کی گواہی دی۔ جب وہ پانی سے اٹھا، تو روح نے باضابطہ طور پر اس میں کام کرنا شروع کر دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجسم خدا کے جسم نے اپنی مذہبی ذمہ داری کو پورا کرنا شروع کر دیا تھا اور خلاصی کا کام کرنا شروع کر دیا تھا، یعنی فضل کا دور باضابطہ طور پر شروع ہو گیا تھا۔ اور اس طرح، خدا کے کام کے لیے ایک وقت ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا کام کرتا ہے۔ اس کے بپتسمہ کے بعد، یسوع میں کوئی خاص تبدیلیاں نہیں آئیں۔ وہ اب بھی اپنے اصل جسم میں تھا۔ بس صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنا کام شروع کیا اور اپنی شناخت ظاہر کی اور وہ اختیار اور طاقت سے مالا مال تھا۔ اس لحاظ سے وہ پہلے سے مختلف تھا۔ اس کی شناخت مختلف تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت میں ایک اہم تبدیلی آئی تھی؛ یہ روح القدس کی گواہی تھی اور یہ وہ کام نہیں تھا جو انسان نے کیا تھا۔ شروع میں، لوگ نہیں جانتے تھے اور وہ صرف اس وقت تھوڑا سا جان پائے جب روح القدس نے اس طرح سے یسوع کی گواہی دی۔ اگر یسوع نے روح القدس کی جانب سے دی گئی اپنی گواہی سے پہلے عظیم کام کیا ہوتا، لیکن خود خدا کی گواہی کے بغیر، تو اس سے قطع نظر کہ اس کا کام کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہوتا، لوگ اس کی شناخت کے بارے میں کبھی نہیں جان پاتے، کیونکہ انسانی آنکھ اسے دیکھنے کے قابل نہ ہوتی۔ روح القدس کی گواہی کے مرحلے کے بغیر، کوئی بھی اسے مجسم خدا کے طور پر تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اگر، روح القدس کے اس کی گواہی دینے کے بعد، یسوع نے بغیر کسی فرق کے اسی طرح کام کرنا جاری رکھا ہوتا، تو اس کا یہ اثر نہیں ہوتا اور اس میں بنیادی طور پر روح القدس کا کام بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ روح القدس کے گواہی دینے کے بعد، روح القدس کو اپنے تئیں ظاہر کرنا تھا، تاکہ تُو واضح طور پر دیکھ سکے کہ وہ خدا تھا اور اس کے اندر خدا کی روح موجود تھی؛ خدا کی گواہی غلط نہیں تھی اور یہ ثابت کر سکتی تھی کہ اس کی گواہی صحیح تھی۔ اگر روح القدس کی گواہی سے پہلے اور بعد میں اس کا کام ایک جیسا ہوتا، تو پھر اس کی مجسم مذہبی ذمہ داری اور روح القدس کے کام پر زور نہ دیا جاتا اور اس طرح انسان روح القدس کا کام پہچاننے سے قاصر رہتا، کیونکہ اس میں کوئی واضح فرق نہیں ہوتا۔ گواہی دینے کے بعد، روح القدس کو اس گواہی کو برقرار رکھنا تھا اور اس طرح اسے یسوع میں اپنی حکمت اور اختیار کو ظاہر کرنا پڑا، جو ماضی کے زمانے سے مختلف تھا۔ یقینا، یہ بپتسمہ کا اثر نہیں تھا – بپتسمہ صرف ایک تقریب ہے - یہ صرف اتنا ہے کہ بپتسمہ یہ ظاہر کرنے کا طریقہ تھا کہ یہ اس کا مذہبی ذمہ داری انجام دینے کا وقت تھا۔ اس طرح کا کام خدا کی عظیم طاقت واضح کرنے، روح القدس کی گواہی واضح کرنے کے لیے تھا اور یہ کہ روح القدس آخر تک اس گواہی کی ذمہ داری لے گا۔ اپنی ذمہ داری انجام دینے سے پہلے، یسوع نے واعظوں کو بھی سنا، منادی کی اور مختلف جگہوں پر انجیل کی خوش خبری کو پھیلایا۔ اس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا کیونکہ ابھی اس کے لیے اپنی ذمہ داری انجام دینے کا وقت نہیں آیا تھا اور اس لیے بھی کہ خدا خود عاجزی کے ساتھ جسم میں چھپا ہوا تھا اور صحیح وقت آنے تک اس نے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اس نے بپتسمہ سے پہلے دو وجوہات کی بنا پر کام نہیں کیا تھا: ایک، کیونکہ روح القدس باضابطہ طور پر کام کرنے کے لیے اس پر نہیں اترا تھا (یعنی، روح القدس نے یسوع کو اس طرح کے کام کرنے کی طاقت اور اختیار نہیں دیا تھا) اور یہاں تک کہ اگر وہ اپنی شناخت کو جانتا بھی ہوتا، تو یسوع وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتا جو اس کا بعد میں کرنے کا ارادہ تھا اور اسے بپتسمہ کے دن تک انتظار کرنا پڑتا۔ یہ خدا کا وقت تھا اور کوئی بھی اس کی خلاف ورزی کرنے کے قابل نہیں تھا، یہاں تک کہ خود یسوع بھی؛ یسوع خود اپنے کام میں خلل نہیں ڈال سکتا تھا۔ بے شک، یہ خدا کی عاجزی تھی اور خدا کے کام کا قانون بھی تھا؛ اگر خدا کی روح کام نہیں کرتی تو کوئی بھی اس کا کام نہیں کر سکتا تھا۔ دوسرے، بپتسمہ لینے سے پہلے، وہ صرف ایک بہت ہی عام اور سادہ آدمی تھا اور دوسرے عام اور معمول کے لوگوں سے مختلف نہیں تھا؛ یہ اس بات کا ایک پہلو ہے کہ کس طرح مجسم خدا مافوق الفطرت نہیں تھا۔ مجسم خدا نے خدا کی روح کے انتظامات کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس نے ایک منظم طریقے سے کام کیا اور اس نے بہت عمومی طور پر کام کیا۔ بپتسمہ لینے کے بعد ہی اس کے کام میں اختیار اور طاقت آئی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ وہ مجسم خدا تھا، لیکن اس نے کوئی مافوق الفطرت کام نہیں کیا اور وہ دوسرے عام لوگوں ہی کی طرح پلا بڑھا۔ اگر یسوع کو پہلے ہی اپنی شناخت معلوم ہوتی، اپنے بپتسمہ سے پہلے ہی پور زمین میں عظیم کام کیا ہوتا اور اپنے تئیں غیر معمولی ظاہر کرتے ہوئے عام لوگوں سے مختلف ہوتا، تو پھر نہ صرف یوحنا کے لیے اپنا کام کرنا ناممکن ہوتا، بلکہ خدا کے لیے اپنے کام کا اگلا مرحلہ شروع کرنے کا کوئی راستہ بھی نہ ہوتا۔ اس لیے اس سے یہ ثابت ہوتا کہ جو کچھ خدا نے کیا وہ غلط ہو گیا تھا اور انسان کے لیے، یہ ظاہر ہوتا کہ خدا کی روح اور مجسم خدا کا جسم ایک ہی ماخذ سے نہیں آئے تھے۔ لہذا، انجیل میں درج یسوع کا کام، وہ کام ہے جو بپتسمہ لینے کے بعد انجام دیا گیا تھا، وہ کام جو تین سالوں کے دوران کیا گیا تھا۔ بپتسمہ لینے سے پہلے اس نے کیا کیا تھا، انجیل اس کا ذکر نہیں کرتی کیونکہ اس نے بپتسمہ لینے سے پہلے یہ کام نہیں کیا تھا۔ وہ محض ایک عام آدمی تھا اور ایک عام آدمی کی نمائندگی کرتا تھا؛ اپنی ذمہ داری کی انجام دہی شروع کرنے سے پہلے، یسوع عام لوگوں سے مختلف نہیں تھا اور دوسروں کو اس میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ صرف 29 سال تک پہنچنے کے بعد ہی یسوع کو معلوم ہوا کہ وہ خدا کے کام کا ایک مرحلہ مکمل کرنے آیا ہے؛ اس سے پہلے، وہ خود یہ نہیں جانتا تھا، کیونکہ خدا کی طرف سے کیا گیا کام مافوق الفطرت نہیں تھا۔ جب وہ بارہ سال کی عمر میں عبادت خانہ میں ایک اجتماع میں شریک ہوا، تو مریم اسے تلاش کر رہی تھی اور اس نے صرف ایک جملہ کہا، جیسے کوئی بھی دوسرا بچہ کہتا: "ماں! کیا تُو نہیں جانتی کہ مجھے اپنے باپ کی مرضی کو لازماً ہر چیز پر فوقیت دینی چاہیے؟" بے شک، چونکہ اس کا حمل روح القدس کے وسیلے سے ہوا تھا، تو کیا یسوع کسی طرح سے خاص نہیں ہو سکتا تھا؟ لیکن اس کی خصوصیت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ مافوق الفطرت تھا، بلکہ صرف یہ تھا کہ وہ خدا سے کسی بھی دوسرے چھوٹے بچے سے زیادہ محبت کرتا تھا۔ اگرچہ وہ ظاہری طور پر انسان تھا، لیکن اس کا جوہر اب بھی خاص تھا اور دوسروں سے مختلف تھا۔ بپتسمہ لینے کے بعد ہی، تاہم، اس نے واقعی روح القدس کو اپنے اندر کام کرتے ہوئے محسوس کیا، محسوس کیا کہ وہ خود خدا ہے۔ صرف 33 سال کی عمر تک پہنچنے پر ہی اس نے واقعی محسوس کیا کہ روح القدس اس کے وسیلہ سے تصلیب کا کام انجام دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 32 سال کی عمر میں، وہ کچھ اندرونی سچائیاں جان گیا تھا، جیسا کہ متی کی انجیل میں لکھا ہے: "اور شمعون پطرس نے جواب دیا اور کہا، تُو مسیح ہے، زندہ خدا کا بیٹا ہے" (متّی 16: 16)۔ اور "اس وقت سے یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ دکھانا شروع کیا کہ کس طرح اسے ضرور یروشلیم جانا ہے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی بہت سی باتیں برداشت کرنی ہیں اور قتل کیا جانا ہے اور تیسرے دن دوبارہ جی اٹھنا ہے" (متّی 16: 21)۔ وہ پہلے سے نہیں جانتا تھا کہ اسے کیا کام کرنا ہے، لیکن ایک خاص وقت پر۔ وہ مکمل طور پر نہیں جانتا تھا کہ جیسے ہی وہ پیدا ہوا تھا؛ روح القدس نے آہستہ آہستہ اس میں کام کیا اور اس کام کے کرنے کا ایک طریقہ کار تھا۔ اگر شروع میں ہی وہ جانتا کہ وہ خدا اور مسیح اور مجسم ابن آدم ہے، کہ اسے تصلیب کا کام پورا کرنا ہے تو پھر اس نے پہلے کام کیوں نہیں کیا؟ اپنے شاگردوں کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں بتانے کے بعد ہی یسوع کو افسوس کیوں محسوس ہوا اور اس کے لیے خلوص دل سے دعا کیوں کی؟ یوحنا نے اس کے لیے راستہ کیوں کھولا اور ان بہت سی چیزوں کوسمجھنے سے پہلے، جنہیں وہ سمجھنے کے لیے آیا تھا، اسے بپتسمہ کیوں دیا؟ اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جسم میں مجسم خدا کا کام تھا اور اس کے لیے اسے سمجھنے اور حاصل کرنے کا ایک طریقہ کار تھا، کیونکہ وہ مجسم خدا کا جسم تھا، جس کا کام روح کی طرف سے براہ راست کیے جانے والے کام سے مختلف تھا۔
خدا کے کام کا ہر مرحلہ ایک ہی دھارے کی پیروی کرتا ہے اور اسی طرح خدا کے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے میں، دنیا کی بنیاد سے لے کر آج تک، ہر مرحلہ، اپنے پچھلے کی قریب سے پیروی کرتا آیا ہے۔ اگر راہ ہموار کرنے والا کوئی نہ ہوتا تو اس کے بعد آنے والا کوئی نہ ہوتا۔ چونکہ اس کے بعد آنے والے لوگ ہیں، اس لیے راہ ہموار کرنے والے بھی ہیں۔ اس طرح کام کو مرحلہ وار، نیچے منتقل کر دیا ہے۔ ایک مرحلہ دوسرے کی پیروی کرتا ہے اور کسی کے راستہ کھولے بغیر، کام شروع کرنا ناممکن ہو گا اور خدا کے پاس اپنا کام آگے بڑھانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہو گا۔ کوئی بھی مرحلہ دوسرے سے متصادم نہیں ہے اور ہر ایک، ایک سلسلہ بنانے کے لیے ترتیب میں دوسرے کی پیروی کرتا ہے؛ یہ سب ایک ہی روح کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر کہ کوئی راستہ کھولتا ہے یا کسی دوسرے کا کام کرتا ہے، اس سے ان کی شناخت کا تعین نہیں ہوتا ہے۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے؟ یوحنا نے راستہ کھولا اور یسوع نے اپنا کام انجام دیا، تو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع کی شناخت یوحنا سے کم تر ہے؟ یہوواہ نے یسوع کے سامنے اپنا کام انجام دیا، تو کیا تُو یہ کہ سکتا ہے کہ یہوواہ یسوع سے بڑا ہے؟ چاہے انہوں نے راہ ہموار کی یا دوسروں کا کام آگے بڑھایا یہ اہم نہیں ہے؛ جو چیز سب سے اہم ہے، وہ ان کے کام کا جوہر ہے اور وہ شناخت جس کی یہ نمائندگی کرتی ہے۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے؟ چونکہ خدا نے انسانوں کے درمیان کام کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس لیے اسے ان لوگوں کو اوپر اٹھانا تھا جو راہ ہموار کرنے کا کام کر سکتے تھے۔ جب یوحنا نے ابھی منادی کرنا شروع ہی کی تھی تو اس نے کہا، "تم خداوند کی راہ تیار کرو اور اس کی راہیں سیدھی کرو۔" "تم توبہ کرو: کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب ہے۔" اس نے شروع سے ہی اس طرح بات کی اور وہ یہ الفاظ کہنے کے قابل کیوں تھا؟ جس ترتیب سے یہ الفاظ کہے گئے تھے، یہ یوحنا تھا جس نے سب سے پہلے آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری سنائی اور اس کے بعد یسوع نے کہا۔ انسان کے تصورات کے مطابق، یہ یوحنا تھا جس نے نیا راستہ کھولا اور یقیناً یوحنا یسوع سے بڑا تھا۔ لیکن یوحنا نے یہ نہیں کہا کہ وہ مسیح ہے اور خُدا نے اُس کے بارے میں خُدا کا پیارا بیٹا ہونے کی گواہی نہیں دی، بلکہ اُسے محض راستہ کھولنے اور خُداوند کے لیے راستہ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے یسوع کے لیے راہ ہموار کی، لیکن وہ یسوع کی طرف سے کام نہیں کر سکتا تھا۔ انسان کا تمام کام بھی روح القدس کی طرف سے سنبھالا گیا تھا۔
پرانے عہد نامےکے دور میں، یہوواہ ہی تھا جس نے راستے کی رہنمائی کی اور یہوواہ کا کام پرانے عہد نامے کے پورے دور اور اسرائیل میں کیے گئے تمام کاموں کی نمائندگی کرتا تھا۔ موسیٰ نے صرف زمین پر یہ کام برقرار رکھا اور اس کی محنت انسان کی طرف سے فراہم کردہ تعاون سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت یہوواہ ہی تھا جس نے موسیٰ کو پکارتے ہوئے بات کی اور موسیٰ کو بنی اسرائیل کے درمیان اٹھایا اور انہیں بیابان اور آگے کنعان کی طرف لے گیا۔ یہ کام خود موسیٰ کا نہیں تھا، بلکہ وہ کام تھا جس کی ذاتی طور پر یہوواہ کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی اور اس لیے موسیٰ کو خدا نہیں کہا جا سکتا۔ موسیٰ نے بھی قانون نافذ کیا، لیکن یہ قانون ذاتی طور پر یہوواہ کے وسیلہ سے طے کیا گیا تھا۔ یہ صرف اتنا تھا کہ اس نے موسیٰ سے اس کا اظہار کرایا۔ یسوع نے بھی احکام دیے اور اس نے پرانے عہد نامہ کا قانون ختم کر دیا اور نئے دور کے لیے احکام مقرر کیے۔ یسوع خود خدا کیوں ہے؟ کیونکہ ایک فرق ہے۔ اس وقت، موسیٰ کی طرف سے کیا گیا کام کسی دور کی نمائندگی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اس نے ایک نیا راستہ کھولا تھا۔ اسے یہوواہ کی طرف سے آگے کی جانب ہدایت کی گئی تھی اور اسے محض خدا کی طرف سے استعمال کیا گیا تھا۔ جب یسوع آیا تو یوحنا نے راہ ہموار کرنے کا اقدام کیا اور آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری کو پھیلانا شروع کر دیا (روح القدس نے اس کا آغاز کیا تھا)۔ جب یسوع آیا تو اس نے براہ راست اپنا کام خود کیا، لیکن اس کے اور موسیٰ کے کام میں بہت فرق تھا۔ یسعیاہ نے بھی بہت سی پیشن گوئیاں کی تھیں، پھر بھی وہ خود خدا کیوں نہیں تھا؟ یسوع نے اتنی پیشن گوئیاں نہیں کیں، پھر بھی وہ خود خدا کیوں تھا؟ کوئی بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا کہ اس وقت یسوع کا سارا کام روح القدس کی طرف سے آیا تھا اور نہ ہی انہوں نے یہ کہنے کی جرات کی کہ یہ سب انسان کی مرضی سے آیا ہے، یا یہ کہ یہ مکمل طور پر خود خدا کا کام تھا۔ انسان کے پاس ایسی چیزوں کا تجزیہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یسعیاہ نے ایسا کام کیا اور اس طرح کی پیشن گوئیاں کیں اور وہ سب روح القدس کی طرف سے آئی تھیں؛ وہ خود یسعیاہ کی طرف سے براہ راست نہیں آئی تھیں، بلکہ یہوواہ کی طرف سے مکاشفے تھے۔ یسوع نے بہت زیادہ کام نہیں کیا اور نہ ہی بہت سے الفاظ کہے اور نہ ہی اس نے بہت سی پیشن گوئیاں کیں۔ انسان کے لیے، اس کی منادی خاص طور پر پُرشکوہ نہیں لگ رہی تھی، پھر بھی وہ خود خدا تھا اور یہ انسان کی طرف سے ناقابل وضاحت ہے۔ کوئی بھی یوحنا یا یسعیاہ یا داؤد پر ایمان نہیں لایا اور نہ ہی کسی نے انہیں خدا یا داؤد کو خدا یا یوحنا کو خدا کہا ہے۔ کسی نے بھی کبھی اس طرح کی بات نہیں کی ہے اور صرف یسوع کو ہی کبھی مسیح کہا گیا ہے۔ یہ درجہ بندی خدا کی گواہی، اس نے جو کام کیا اور اس کی ذمہ داری کے مطابق کی گئی ہے۔ جہاں تک انجیل کے عظیم لوگوں ابراہیم، داؤد، یشوع، دانیال، یسعیاہ، یوحنا اور یسوع کا تعلق ہے تو ان کے کیے گئے کام سے تُو بتا سکتا ہے کہ کون خود خدا ہے اور کس قسم کے لوگ نبی ہیں اور کون سے رسول ہیں۔ جو خدا کی طرف سے استعمال کیا گیا تھا اور جو خود خدا تھا، اس کا فرق اور تعین ان کے کیے گئے کام کے جوہر اور قسم کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ اگر تو فرق بتانے سے قاصر ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تو نہیں جانتا کہ خدا پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے۔ یسوع خدا ہے کیونکہ اس نے اتنے سارے الفاظ کہے اور اتنا سارا کام کیا، خاص طور پر اس کا بہت سے معجزات کا مظاہرہ کرنا۔ اسی طرح یوحنا نے بھی بہت کام کیا اور موسیٰ کی طرح بہت سی باتیں کہیں؛ وہ خدا کیوں نہیں کہلاتے تھے؟ آدم کو براہ راست خدا نے پیدا کیا تھا؛ اسے صرف مخلوق کہے جانے کی بجائے خدا کیوں نہیں کہا گیا؟ اگر کوئی تجھ سے کہے کہ "آج خدا نے بہت کام کیا ہے اور بہت سا کلام کیا ہے؛ وہ خود خدا ہے۔ پھر چونکہ موسیٰ نے بہت سی باتیں کہی تھیں اس لیے وہ بھی خود خدا ہی رہا ہو گا!" تجھے ان سے جواب میں پوچھنا چاہیے کہ، "اس وقت خدا نے خود خدا ہونے کی یسوع کی گواہی کیوں دی اور یوحنا کی کیوں نہیں؟ کیا یوحنا یسوع سے پہلے نہیں آیا تھا؟ کس سا کام عظیم تھا، یوحنا یا یسوع کا؟ انسان کے لیے، یوحنا کا کام یسوع سے بڑا دکھائی دیتا ہے، لیکن روح القدس نے یسوع کی گواہی کیوں دی اور یوحنا کی کیوں نہیں؟" آج بھی یہی چیز ہو رہی ہے! اس وقت، جب موسیٰ بنی اسرائیل کی قیادت کر رہا تھا، یہوواہ نے بادلوں کے بیچ میں سے اس سے بات کی۔ موسیٰ نے براہ راست بات نہیں کی، بلکہ اس کے بجائے اسے براہ راست یہوواہ کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی۔ یہ اسرائیل کا پرانے عہد نامے کا کام تھا۔ موسیٰ کے اندر نہ تو روح تھی اور نہ ہی خدا کا وجود۔ یہ کام وہ نہیں کر سکتا تھا اور اس وجہ سے اس کے کیے گئے کام اور یسوع کے کیے گئے کام کے مابین ایک بہت بڑا فرق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کام کیا وہ مختلف تھا! چاہے کوئی شخص خدا کی طرف سےاستعمال کیا جاتا ہے، یا وہ نبی، رسول، یا خود خدا ہے، اس کا اندازہ اس کے کام کی نوعیت سے لگایا جا سکتا ہے اور اس سے تیرے شکوک و شبہات ختم ہوجائیں گے۔ انجیل میں لکھا ہے کہ صرف میمنہ ہی سات سر بمہر کھول سکتا ہے۔ ادوار کے دوران، ان عظیم شخصیات کے بیچ صحیفوں کے بہت سے انکشافات ہوئے ہیں اور کیا تُو یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ سب میمنے ہیں؟ کیا تُو یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی تمام وضاحتیں خدا کی طرف سے آتی ہیں؟ وہ محض نمائش کرنے والے ہیں۔ ان کے پاس میمنے کی شناخت نہیں ہے۔ وہ سات سر بمہر کھولنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ سچ ہے کہ "صرف میمنہ ہی سات سر بمہر کھول سکتا ہے،" لیکن وہ صرف سات سر بمہر کھولنے کے لیے نہیں آتا ہے؛ یہ کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ اتفاقی طور پر کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے کام کے بارے میں بالکل واضح ہے؛ کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحائف کی تفسیر میں زیادہ وقت صرف کرے؟ کیا چھ ہزار سال کے کام میں "میمنے کا صحائف کی تشریح کا دور" شامل کیا جانا چاہیے؟ وہ نیا کام کرنے آتا ہے، لیکن لوگوں کو چھ ہزار سال کے کام کی سچائی سمجھنے کے قابل بناتے ہوئے، وہ ماضی کے کام کے بارے میں کچھ انکشافات بھی فراہم کرتا ہے۔ انجیل کے کئی سارے اقتباسات کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ یہ آج کا کام ہے جو کلیدی ہے، جو اہم ہے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ خدا خاص طور پر سات مہریں توڑنے کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ نجات کا کام کرنے کے لیے آیا ہے۔
تم صرف یہ جانتے ہو کہ یسوع آخری زمانے میں نازل ہو گا، لیکن وہ کیسے نازل ہو گا؟ تم جیسے گنہگار کی طرح، جسے حال ہی میں چھٹکارا دیا گیا ہے اور جس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، یا جسے خدا کی طرف سے کامل نہیں کیا گیا ہے، کیا تو خدا کی منشاء کے مطابق ہو سکتا ہے؟ تیرے لیے جو کہ تو ابھی وہی پہلے والا ہی شخص ہے، یہ درست ہے کہ تجھے یسوع نے بچایا ہے اور یہ کہ تجھے خدا کی نجات کی وجہ سے گنہگار نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تو گنہگار اور نجس نہیں ہے۔ اگر تجھے تبدیل نہیں کیا گیا ہے تو پھر تم مقدس کیسے ہو سکتے ہو؟ اندر سے تو غلاظت سے بھرا، خودغرض اور ذلیل ہے، پھر بھی تو یسوع کے ساتھ نازل ہونا چاہتا ہے – تمہیں اتنا خوش قسمت ہونا چاہیے! تو نے خدا پر اپنے اعتقاد میں ایک مرحلہ کھو دیا ہے: تمہیں محض خلاصی ملی ہے،مگر تمھیں تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔ خدا کی منشاء کے مطابق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خدا بذات خود ضرور تجھے تبدیل اور پاک کرے؛ اگر تجھے صرف خلاصی مرحمت کی جاتی ہے، تو تم تقدس حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو گے۔ اس طرح تُو خدا کی نفیس نعمتوں میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہو سکے گا، کیونکہ تو نے خدا کے انسان کے انتظام کام کا ایک مرحلہ کھو دیا ہے، جو کہ تبدیل اور مکمل ہونے کا کلیدی مرحلہ ہے۔ تُو ایک گنہگار شخص ہے، جسے ابھی خلاصی دی گئی ہے، اس لیے تو براہ راست خدا کی وراثت پانے کے قابل نہیں ہے۔
کام کے اس نئے مرحلے کے آغاز کے بغیر، کون جانتا ہے کہ تم مبشرین، منادی کرنے والے، وضاحت کرنے والے اور نام نہاد عظیم روحانی لوگ کس حد تک جاؤ گے! کام کے اس نئے مرحلے کے آغاز کے بغیر، تم جس چیز کی بات کرتے ہو وہ متروک ہو جائے گی! یہ یا تو اٹھ کر تخت پر براجمان ہونے کے بارے میں ہے، یا بادشاہ بننے کے مرتبے کی تیاری کے بارے میں ہے؛ یا تو خود اپنا انکار کر کے یا اپنا جسم محکوم کر کے؛ یا تو صبر کر کے یا ہر چیز سے سبق سیکھ کر؛ عاجزی یا محبت کے ذریعے۔ کیا یہ وہی پرانی دھن گنگنانے جیسا نہیں ہے؟ یہ صرف ایک ہی چیز کو ایک مختلف نام سے پکارنے کا معاملہ ہے! یا تو اپنا سر ڈھانپنا اور روٹی توڑنا، یا ہاتھ پھیلانا اور دعا کرنا اور بیماروں کو شفا دینا اور بدروحوں کو نکالنا۔ کیا کوئی نیا کام ہو سکتا ہے؟ کیا ترقی کا کوئی امکان ہو سکتا ہے؟ اگر تو اسی طریقے پر چلتا رہے گا تو تُو نظریے کی اندھی تقلید، یا ضابطے کی پاسداری کرے گا۔ تم اپنے کام کو اتنا اعلیٰ مانتے ہو، لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ یہ سب کچھ قدیم زمانے کے ان "بوڑھوں" نے پہنچایا اور سکھایا تھا؟ کیا وہ سب کچھ جو تم کہتے ہو، ان بوڑھوں کے آخری الفاظ نہیں ہیں؟ کیا یہ وہ چیز نہیں ہے جو ان بزرگوں نے اپنی وفات سے پہلے عائد کی تھی؟ کیا تُو سمجھتا ہے کہ تمہارے اعمال پچھلی نسلوں کے رسولوں اور نبیوں سے بڑھ کر ہیں اور حتیٰ کہ ہر چیز سے بھی بڑھ کر ہیں؟ کام کے اس مرحلے کے آغاز نے بادشاہ بننے اور تخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے والے گواہ لی کے کام کے بارے میں تمہاری تعظیم کو ختم کر دیا ہے اور اس نے تمہارے تکبر اور اکڑفوں کو روک لگا دی ہے، تاکہ تم کام کے اس مرحلے میں مداخلت کرنے سے قاصر رہو۔ کام کے اس مرحلے کے بغیر، تم سب سے زیادہ گہرائی میں ڈوب جاؤ گے یہاں تک کہ تم ناقابل خلاصی نہیں ہو جاتے۔ تمہارے اندر بہت کچھ پرانا ہے! خوش قسمتی سے، آج کا کام تمہیں واپس لے آیا ہے؛ بصورت دیگر، کون جانتا ہے کہ تم کون سی سمت اختیار کرو گے! چونکہ خدا ایک ایسا خدا ہے جو ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا، تو تُو نئی چیزوں کی تلاش کیوں نہیں کرتا؟ تم ہمیشہ پرانی چیزوں سے ہی کیوں چمٹے رہتے ہو؟ اور اس لیے، آج روح القدس کا کام جاننا انتہائی اہمیت کا حامل ہے!