تمھیں حیثیت کی برکتیں ایک طرف رکھنی چاہییں اور انسان کی نجات کے لیے خدا کی مرضی سمجھنی چاہیے
انسانی نقطہ نظر سے، موآب کی اولاد کو کامل کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان کے اندر کامل ہونے کی قابلیت ہے۔ دوسری طرف، داؤد کی اولاد یقیناً پُرامید ہے اور اسے واقعی کامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی موآب کی نسل سے ہے تو اسے کامل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود، تم ابھی تک اپنے درمیان ہونے والے کام کی اہمیت سے واقف نہیں ہو؛ اس مرحلے میں، تم اب بھی اپنے دلوں میں مستقبل کے امکانات رکھتے ہو اور ان سے دستبردار ہونے سے نفرت کرتے ہو۔ کسی کو پروا نہیں ہے کہ خدا نے آج تم جیسے سب سے نا اہل گروہ پر کام کرنے کا انتخاب کیوں کیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس نے اس کام میں غلطی کی ہو؟ کیا یہ عمل ایک لمحاتی صرفِ نظر ہے؟ خدا، جو ہمیشہ سے جانتا ہے کہ تم موآب کی اولاد ہو، ٹھیک تمھارے درمیان کام کرنے کیوں اترا؟ کیا تمہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا؟ کیا خدا اپنا کام کرتے وقت کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچتا؟ کیا وہ رعب جمانے کے انداز سے برتاؤ کرتا ہے؟ کیا وہ شروع سے نہیں جانتا تھا کہ تم موآب کی اولاد ہو؟ کیا تم ان چیزوں پر غور کرنا نہیں جانتے؟ تمھارے تصورات کہاں چلے گئے ہیں؟ کیا تمھاری صحت مند سوچ بےآہنگ ہو گئی ہے؟ کہاں گئی تمھاری ہوشیاری اور عقل؟ کیا تمہارا طرزعمل اتنا اعلیٰ ظرف ہے کہ تم اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتے ہو؟ تمھارے دماغ تمھارے مستقبل کے امکانات اور اپنی تقدیر جیسی چیزوں کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں لیکن جب کسی اور چیز کی بات آتی ہے تو وہ بے حس، کم عقل اور بالکل جاہل ہو جاتے ہیں۔ تم آخر کس چیز پر یقین رکھتے ہو؟ اپنے مستقبل کے امکانات پر؟ یا خدا پر؟ کیا تو جس چیز پر یقین رکھتا ہے وہ تیری خوبصورت منزل نہیں ہے؟ کیا یہ تیرے مستقبل کے امکانات نہیں ہیں؟ اب تو زندگی کا راستہ کتنا سمجھتا ہے؟ تو کتنا کچھ حاصل کر چکا ہے؟ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ اب موآب کی اولاد پر جو کام کیا جا رہا ہے وہ تم لوگوں کو ذلیل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ تمھاری بدصورتی کو قصداً بے نقاب کرنے کے لیے کیا گیا ہے؟ کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے تاکہ تم سزا قبول کرو اور پھر تمھیں آگ کی جھیل میں اچھال پھینکا جائے؟ میں نے کبھی نہیں کہا کہ تمھارے پاس مستقبل کا کوئی امکان نہیں ہے، اور یہ تو بالکل نہیں کہا کہ تمھیں تباہی یا دائمی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا میں نے سرِ عام ایسی باتوں کا اعلان کیا ہے؟ تُو کہتا ہے کہ تُو امید سے محروم ہے، لیکن کیا یہ نتیجہ تُو نے خود سے نہیں نکالا ہے؟ کیا یہ تیری ذہنیت کا اثر نہیں؟ کیا تیرے اپنے نتائج کی کوئی اہمیت ہے؟ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ تُو برکت یافتہ نہیں ہے تو یقیناً تباہی تیرا مقدر ہو گی اور اگر میں یہ کہتا ہوں کہ تُو برکت یافتہ ہے، تو تجھے یقینی طور پر تباہ نہیں کیا جائے گا۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ تُو موآب کی اولاد میں سے ہے؛ میں نے یہ نہیں کہا کہ تُو تباہ ہو جائے گا۔ بات صرف اتنی ہے کہ موآب کی اولاد پر لعنت کی گئی ہے اور وہ بدعنوان انسانوں کی نسل سے ہے۔ گناہ کا ذکر پہلے ہو چکا ہے؛ کیا تم سب گناہ گار نہیں ہو؟ کیا شیطان تمام گناہ گاروں کو بدعنوان نہیں کرچکا ہے؟ کیا تمام گناہ گار خدا کی نافرمانی اور اس کے خلاف بغاوت نہیں کر تے ہیں؟ کیا خدا کی نافرمانی کرنے والے ملعون نہیں ہیں؟ کیا تمام گناہ گاروں کو لازماً برباد نہیں ہو جانا چاہیے؟ اس صورت میں گوشت اور خون کے لوگوں میں سے کسے بچایا جا سکتا ہے؟ تم آج تک کیسے زندہ بچے رہ گئے؟ تم منفی ہو گئے ہو کیونکہ تم موآب کی اولاد ہو؛ کیا تمہارا شمار بھی گناہ گار انسانوں میں نہیں ہوتا؟ تم آج تک کیسے باقی رہے ہو؟ جب کامل ہونے کا ذکر ہوتا ہے تو تم خوش ہو جاتے ہو۔ یہ سننے کے بعد کہ تمھیں بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا، تم محسوس کرتے ہو کہ تم اس سے اور زیادہ برکت یافتہ ہو جاؤ گے۔ تم سوچتے ہو کہ تم مصیبت سے نکلنے کے بعد غالب آنے والے بن سکتے ہو اور یہ کہ یہ خدا کی عظیم برکت ہے اور تم پر اس کا عظیم فضل ہے۔ موآب کا ذکر کرتے ہی تمھارے درمیان ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ بالغ اور بچے یکساں طور پر ناقابل بیان اداسی محسوس کرتے ہیں اور تمھارے دلوں میں بالکل خوشی نہیں ہوتی اور تم اپنے پیدا ہونے پر افسوس کرتے ہو۔ تم موآب کی اولاد پر کیے جانے والے کام کے اس مرحلے کی اہمیت نہیں سمجھتے؛ تم صرف اعلیٰ عہدوں کے لیے کوشش کرنا جانتے ہو اور جب بھی تمھیں احساس ہوتا ہے کہ کوئی امید نہیں ہے، تو تم پیچھے کھسک جاتے ہو۔ کامل ہونے اور مستقبل کی منزل کا ذکر کرنے پر تمھیں خوشی محسوس ہوتی ہے؛ تم برکتیں پانے اور ایک اچھی منزل حاصل کرنے کے لیے خدا پر ایمان رکھتے ہو۔ کچھ لوگ اب اپنی حیثیت کی وجہ سے تشویش محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ وہ کم وقعت اور پست حیثیت کے حامل ہیں، اس لیے وہ کامل کیے جانے کی جستجو کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ پہلے کامل ہونے کے بارے میں بات کی گئی، پھر موآب کی اولاد کا ذکر کیا گیا، لہٰذا لوگوں نے پہلے ذکر کیے گئے کامل ہونے کے راستے کی نفی کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع سے آخر تک، تم نے کبھی اس کام کی اہمیت نہیں جانی اور نہ ہی تم کو اس کی اہمیت کی پروا ہے۔ تم اس قدر پست حیثیت ہو کہ تم ذرا سا بھی خلل برداشت نہیں کر سکتے۔ جب تم دیکھتے ہو کہ تمھاری حیثیت بہت پست ہے، تو تم منفی ہو جاتے ہو اور تم جستجو جاری رکھنے کا اعتماد کھو دیتے ہو۔ لوگ محض فضل حاصل کرنے اور امن و سکون سے لطف اندوز ہونے کو ایمان کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ برکتوں کی تلاش کو خدا پر اپنے ایمان کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ بہت کم لوگ خدا کی معرفت حاصل کرنے یا اپنے مزاج میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے عقیدے میں، لوگ کوشش کرتے ہیں کہ خدا انھیں ایک مناسب منزل اور وہ تمام برکتیں عطا کرے جن کی انھیں ضرورت ہے، وہ انھیں اپنا خادم بنا لے، ان کے ساتھ پرامن اور دوستانہ تعلق قائم کر لے تاکہ، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کب، لیکن ان کے درمیان کبھی بھی کوئی تنازعہ نہ ہو۔ یعنی خدا پر ان کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ان کی تمام ضروریات پوری کرنے کا عہد کرے اور جو کچھ وہ دعائیں مانگتے ہیں انھیں عطا کرے، ان الفاظ کے مطابق جو انھوں نے انجیل میں پڑھے ہیں: "میں تمھاری تمام دعائیں سنوں گا۔" وہ خُدا سے توقع کرتے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں جانچے گا اور نہ ہی کسی سے نمٹے گا، کیونکہ وہ ہمیشہ مہربان نجات دہندہ یسوع رہا ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھتا ہے۔ لوگ اس طرح خدا پر ایمان رکھتے ہیں: وہ بے شرمی سے خدا سے مطالبہ کرتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ وہ باغی ہوں یا فرماں بردار، وہ بس آنکھیں بند کر کے انھیں سب کچھ عطا کر دے گا۔ وہ صرف خدا سے مسلسل "قرض وصول کرتے ہیں "اس یقین کے ساتھ کہ وہ بغیر کسی مزاحمت کے ان کا "حساب چُکائے" اور مزید برآں انھیں دگنا عطا کرے؛ وہ سوچتے ہیں کہ خدا نے ان سے کچھ حاصل کیا ہو یا نہ کیا ہو، صرف وہی خدا کو چالاکی سے استعمال کر سکتے ہیں اور وہ لوگوں کو جبراً منظم نہیں کر سکتا، کجا یہ کہ جب چاہے لوگوں پر، ان کی اجازت کے بغیر اپنی حکمت اور راست باز مزاج ظاہر کرے، جو برسوں سے چھپا ہوا ہے۔ وہ بس خُدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ خُدا انھیں معاف کر دے گا، اور یہ کہ وہ ایسا کرتے کرتے تنگ نہیں آئے گا اور یہ کہ ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ وہ صرف خدا کو حکم دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ صرف ان کی اطاعت کرے گا، کیونکہ یہ انجیل میں درج ہے کہ خدا انسانوں سے خدمت کروانے نہیں آیا، بلکہ ان کی خدمت کرنے کے لیے آیا ہے اور یہ کہ وہ ان کا خادم بننے کے لیے یہاں موجود ہے۔ کیا تمھارا ہمیشہ سے یہی یقین نہیں رہا ہے؟ جب تم خُدا سے کچھ حاصل نہیں کر پاتے، تو تم بھاگ نکلنا چاہتے ہو؛ جب تم کوئی چیز سمجھ نہیں پاتے، تو تم اس قدر غضب ناک ہو جاتے ہو اور اس حد تک چلے جاتے ہو کہ اس سے ہر قسم کی بدکلامی کرنے لگتے ہو۔ تم بذات خود خدا کو اپنی حکمت اور کمال کا مکمل اظہار کرنے کی اجازت نہیں دو گے۔ اس کی بجائے، تم صرف عارضی راحت اور آرام سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو۔ اب تک، خدا پر تمھارے ایمان میں تمھارا طرزعمل محض ان ہی پرانے نظریات پر مشتمل ہے۔ اگر خدا تمھیں تھوڑا سا جاہ و جلال دکھائے تو تم ناخوش ہو جاتے ہو۔ کیا تم اب دیکھتے ہو کہ تمھاری حیثیت کس قدر ہے؟ یہ مت فرض کرو کہ تم سب خدا کے وفادار ہو، جب کہ حقیقت میں تمھارے پرانے نظریات ہی تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ جب تجھ پر کوئی افتاد نہیں پڑتی تو، تُو سمجھتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اور خدا سے تیری محبت ایک اعلی مقام پر پہنچ جاتی ہے۔ جب تیرے ساتھ کوئی معمولی واقعہ پیش آتا ہے تو تُو پاتال میں گر جاتا ہے۔ کیا یہی خدا کا وفادار ہونا ہے؟
اگر فتح کے کام کا آخری مرحلہ اسرائیل میں شروع ہونا ہوتا تو فتح کا یہ کام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کام تب ہی سب سے اہم ہے جب یہ چین میں کیا جائے اور جب یہ تم لوگوں پر کیا جائے۔ تم ادنیٰ ترین لوگ ہو، سب سے کم حیثیت لوگ؛ تم اس معاشرے میں سب سے نچلے درجے پر ہو اور تم وہ ہو جنھوں نے شروع میں خدا کو سب سے کم قبول کیا تھا۔ تم وہ لوگ ہو جو خدا سے سب سے زیادہ دور بھٹک چکے ہو اور جنھیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کیونکہ کام کا یہ مرحلہ صرف فتوحات کے لیے ہے تو کیا یہ تمھارے لیے زیادہ مناسب نہ ہوگا کہ تمھیں مستقبل میں گواہی دینے کے لیے منتخب کر لیا جائے؟ اگر فتح کے کام کا پہلا مرحلہ تم لوگوں پر انجام نہیں دیا گیا تو فتح کا اگلا کام آگے بڑھانا مشکل ہو جائے گا، کیونکہ فتح کا اگلا کام آج کیے جانے والے اس کام کی حقیقت کی بنیاد پر نتائج پیدا کرے گا۔ فتح کا موجودہ کام فتح کے مجموعی کام کا صرف آغاز ہے۔ تم وہ پہلا دستہ ہو جسے فتح کیا جائے گا؛ تم اس تمام بنی نوع انسان کے نمائندے ہو جسے فتح کیا جائے گا۔ جو لوگ حقیقی معنوں میں علم رکھتے ہیں وہ دیکھیں گے کہ وہ تمام کام جو خُدا آج کرتا ہے عظیم ہے اور یہ کہ وہ نہ صرف لوگوں کو اُن کی سرکشی کو جاننے کا موقع دیتا ہے بلکہ اُن کی حیثیت بھی ظاہر کرتا ہے۔ اس کے کلام کا مقصد اور مفہوم نہ تو لوگوں کی حوصلہ شکنی ہے اور نہ ہی انھیں گرانا ہے۔ یہ ان کے لیے ہے تاکہ خدا کے کلام کے ذریعے آگہی اور نجات حاصل کریں؛ یہ اس کے کلام کے ذریعے ان کی روحوں کو بیدار کرنے کے لیے ہے۔ دنیا کی تخلیق کے بعد سے، انسان نے شیطان کے زیر تسلط زندگی گزاری ہے، وہ نہ تو جانتا ہے اور نہ ہی مانتا ہے کہ کوئی خدا ہے۔ یہ کہ ان لوگوں کو خدا کی عظیم نجات میں شامل کیا جا سکتا ہے اور خدا کے ذریعے بڑے پیمانے پر ان کی پرورش کی جا سکتی ہے، یہ دراصل خدا کی محبت کا مظہر ہے؛ وہ تمام لوگ جو واقعی سمجھتے ہیں وہ اس پر یقین کریں گے۔ ان کا کیا ہو گا جن کے پاس ایسا علم نہیں ہے؟ وہ کہیں گے، "آہ، خدا کہتا ہے کہ ہم موآب کی اولاد ہیں؛ یہ بات اس نے اپنے کلام میں کہی ہے۔ کیا ہم اب بھی اچھا نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں؟ ہم موآب کی اولاد ہیں اور ہم نے ماضی میں اس کی مزاحمت کی ہے۔ خدا ہماری مذمت کرنے آچکا ہے؛ کیا تُو نہیں دیکھتا کہ اس نے آغاز سے ہی کیسے ہمیشہ ہماری جانچ کی ہے؟ چونکہ ہم نے خدا کی مخالفت کی ہے، اس لیے ہماری تادیب اسی طرح کی جانی چاہیے۔" کیا یہ الفاظ درست ہیں؟ آج خدا تمھاری جانچ کرتا ہے، تمہاری تادیب کرتا ہے، تمھاری مذمت کرتا ہے لیکن تجھے لازماً جاننا چاہیے کہ تیری مذمت کا مقصد یہ ہے کہ تُو خود کو جان لے۔ وہ مذمت کرتا ہے، لعنت کرتا ہے، جانچ کرتا ہے اور تادیب کرتا ہے تاکہ ممکن ہے کہ تُو خود کو جان لے، تاکہ ممکن ہے کہ تیرا مزاج بدل جائے، مزید یہ کہ ممکن ہے کہ تجھے اپنی وقعت معلوم ہو جائے اور تو دیکھ سکے کہ خدا کے تمام افعال راست بازی پر مبنی ہیں اور اس کے مزاج اور اس کے کام کے تقاضوں کے مطابق ہیں اور یہ کہ وہ انسان کی نجات کے لیے اپنے منصوبے کے مطابق کام کرتا ہے اور یہ کہ وہ راستباز خدا ہے جو انسان سے محبت کرتا ہے، اسے بچاتا ہے، اس کی جانچ کرتا ہے اور اس کی تادیب کرتا ہے۔ اگر تجھے صرف یہ علم ہے کہ تُو کم حیثیت ہے اور یہ کہ تُو بدعنوان اور نافرمان ہے لیکن تو یہ نہیں جانتا کہ خدا آج تیری کی جانے والی اس جانچ اور تادیب کے ذریعے اپنی نجات ظاہر کرنا چاہتا ہے تو پھر تیرے پاس عملی تجربہ حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور تیرے آگے بڑھتے رہنے کے قابل ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ خدا ہلاک یا تباہ کرنے نہیں آیا، بلکہ فیصلہ کرنے، لعنت بھیجنے، تادیب کرنے اور بچانے کے لیے آیا ہے۔ جب تک کہ اس کا 6،000 سالہ انتظامی منصوبہ مکمل نہیں ہو جاتا – اس سے پہلے کہ وہ انسان کے ہر قسم کے نتائج ظاہر کرے – زمین پر خدا کا کام نجات کے لیے ہو گا؛ اُس کا مقصد خالصتاً ان لوگوں کو پوری طرح کامل بنانا ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں – مکمل طور پر– اور انھیں اپنے تسلط کے تحت لانا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا لوگوں کو کیسے بچاتا ہے، یہ سب کچھ انھیں ان کی پرانی شیطانی فطرت سے علیحدہ کرنے کے ذریعے کیا جاتا ہے؛ یعنی وہ انھیں زندگی کی جستجو کرنے پر لگا کر بچاتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے پاس خدا کی نجات قبول کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا۔ نجات خود خدا کا کام ہے اور زندگی کی جستجو ایک ایسا کام ہے جو انسان کو نجات حاصل کرنے کے لیے کرنا چاہیے۔ انسان کی نظر میں نجات خدا کی محبت ہے اور خدا کی محبت، تادیب، فیصلہ اور لعنتیں نہیں ہو سکتیں۔ نجات کو محبت، رحم دلی، اور اس کے علاوہ، تسکین کے الفاظ کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف سے عطا کی گئی بے پناہ برکتوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب خدا انسان کو بچاتا ہے تو وہ اپنی نعمتوں اور فضل سے انھیں تحریک دے کر ایسا کرتا ہے، تاکہ وہ اپنا دل خدا کو دے سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا انسان کو چھُونا ہی انسان کو بچانا ہے۔ اس قسم کی نجات ایک معاہدے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جب خدا اسے سو گنا عطا کرے گا تب ہی انسان خدا کے نام پر سر تسلیم خم کرے گا اور اس کے لیے اچھا کام کرنے اور اس کے جاہ و جلال کے لیے کوشش کرے گا۔ بنی نوع انسان کے لیے خدا کا ارادہ ایسا نہیں ہے۔ خدا بدعنوان بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے زمین پر کام کرنے آیا ہے۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ اگر کوئی جھوٹ ہوتا تو یقیناً وہ ذاتی طور پر اپنا کام کرنے نہ آتا۔ ماضی میں، اس کی نجات کے ذرائع میں انتہائی محبت اور رحم دلی کا اظہار شامل تھا، اس طرح کہ اس نے تمام بنی نوع انسان کے بدلے اپنا سب کچھ شیطان کو دے دیا۔ حال ماضی کی طرح نہیں ہے: آج جو نجات تمھیں دی گئی ہے وہ آخری ایام کے وقت واقع ہوتی ہے، ہر ایک کی اس کی قسم کے مطابق درجہ بندی کرتے ہوئے؛ تمہاری نجات کا ذریعہ محبت یا رحم دلی نہیں ہے، بلکہ سزا اور عدالت ہے، تاکہ انسان زیادہ جامع طور پر نجات پائے۔ لہٰذا، تمہیں صرف تادیب، فیصلے، اور بے رحمی سے پٹائی ہی ملتی ہے لیکن یہ جان لو: اس بے رحمانہ پٹائی میں معمولی سی بھی سزا نہیں ہے۔ میرے الفاظ خواہ کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، جو کچھ تمھارے اوپر نازل ہوتا ہے وہ صرف چند الفاظ ہیں، جو تمھیں مکمل طور پر بےرحمانہ لگ سکتے ہیں، اور خواہ میں کتنے ہی غصے میں کیوں نہ ہوں، تم پر جو برستے ہیں وہ بہرحال تعلیم دینے والے الفاظ ہیں، اور میرا مقصد تمھیں تکلیف دینا یا مارنا نہیں ہے۔ کیا یہ سب حقیقت نہیں ہے؟ جان لو کہ آج کل، خواہ یہ راست بازانہ جانچ ہو یا بے رحمانہ تزکیہ اور تادیب، یہ سب نجات کے لیے ہے۔ قطع نظر اس کے کہ آج ہر ایک کی درجہ بندی اس کی قسم کے مطابق کی گئی ہے یا انسانوں کے زمرے عیاں کر دیے گئے ہیں، خدا کے تمام کلام اور کام کا مقصد ان لوگوں کو بچانا ہے جو خدا سے سچی محبت کرتے ہیں۔ راستبازانہ جانچ انسان کو پاک کرنے کے لیے ہے اور بے رحمانہ تزکیہ اس کو صاف کرنے کے لیے ہے؛ پاک کرنے اور نجات دلانے کے لیے سخت الفاظ یا تادیب دونوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح آج کا نجات کا طریقہ ماضی سے مختلف ہے۔ آج، تمھیں راست باز جانچ کے ذریعے نجات دی گئی ہے اور یہ تم میں سے ہر ایک کی اس کی قسم کے مطابق درجہ بندی کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ مزید برآں، بے رحمانہ تادیب تمھارے لیے انتہائی نجات کا کام کرتی ہے اور اس طرح کی تادیب اور جانچ کے سامنے تمہارے پاس کہنے کے لیے کیا ہے؟ کیا تم نے شروع سے آخر تک ہمیشہ نجات کا لطف نہیں اٹھایا ہے؟ تم نے مجسم خدا کو دیکھا ہے اور اس کی قدرت کاملہ اور حکمت کا ادراک کیا ہے؛ اس کے علاوہ تم نے بار بار مارے پیٹے جانے اور قابو کیے جانے کا بھی تجربہ کیا ہے۔ تاہم، کیا تمھیں عظیم فضل بھی نہیں ملا ہے؟ کیا تمھاری برکتیں کسی بھی اور سے زیادہ نہیں ہیں؟ تمھاری نعمتیں اس شان و شوکت اور خزانوں سے بھی زیادہ ہیں جو سلیمان کو حاصل تھے! اس کے بارے میں سوچو: اگر میرے آنے کا مقصد تمھیں بچانے کی بجائے تمھاری مذمت کرنا اور سزا دینا ہوتا تو کیا تم اتنا عرصہ وجود برقرار رکھ پاتے؟ کیا تم گوشت اور خون کے گناہ گار وجود آج تک زندہ رہ سکتے تھے؟ اگر میرا مقصد صرف تمھیں سزا دینا ہوتا، تو میں جسم کیوں بنتا اور اس طرح کے ایک عظیم منصوبے کا آغاز کیوں کرتا؟ کیا تم فانی انسانوں کو محض ایک لفظ کہہ کر سزا نہیں دی جا سکتی؟ کیا قصداً تمھاری مذمت کرنے کے بعد بھی مجھے تمھیں تباہ کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا تمھیں اب بھی میری باتوں پر یقین نہیں آتا؟ کیا میں صرف محبت اور رحم دلی کے ذریعے کسی انسان کو بچا سکتا ہوں؟ یا کیا میں انسان کو بچانے کے لیے صرف تصلیب کا استعمال کر سکتا ہوں؟ کیا میرا راست باز مزاج انسان کو مکمل فرمانبردار بنانے کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہے؟ کیا وہ انسان کو مکمل طور پر بچانے کی زیادہ صلاحیت نہیں رکھتا ہے؟
اگرچہ میرے الفاظ سخت ہوسکتے ہیں، لیکن وہ سب انسان کی نجات کے لیے کہے گئے ہیں، کیونکہ میں صرف کلام کہہ رہا ہوں اور انسان کے جسم کو سزا نہیں دے رہا ہوں۔ یہ الفاظ انسان کے روشنی میں رہنے کا سبب بنتے ہیں، یہ جاننے کا کہ روشنی موجود ہے، یہ جاننے کا کہ روشنی قیمتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ جاننے کا باعث بنتے ہیں کہ یہ الفاظ ان کے لیے کتنے فائدہ مند ہیں نیز یہ جاننے کا بھی کہ خدا نجات ہے۔ اگرچہ میں نے تادیب اور جانچ کا بہت سا کلام کہا ہے لیکن وہ جس کی نمائندگی کرتا ہے وہ تم پر یقیناً نہیں کیا گیا ہے۔ میں اپنا کام کرنے اور اپنی بات کہنے آیا ہوں اور اگرچہ ممکن ہے میرا کلام سخت ہو لیکن وہ تمھاری بدعنوانی اور تمھاری سرکشی کی جانچ کے لیے کہا گیا ہے۔ میرے ایسا کرنے کا مقصد انسان کو شیطان کے تسلط سے بچانا ہے۔ میں انسان کو بچانے کے لیے اپنا کلام استعمال کر رہا ہوں۔ میرا مقصد اپنے کلام سے انسان کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔ میرے کام میں نتائج حاصل کرنے کے لیے میرا کلام سخت ہے۔ صرف ایسے ہی کام سے انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے اور اپنے باغیانہ مزاج سے دور ہو سکتا ہے۔ کلام کے کام کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ لوگ سچائی کو سمجھنے کے بعد اس پر عمل کریں، اپنے مزاج میں تبدیلی لائیں اور انھیں خود اپنے اور خدا کے کام کی معرفت حاصل کرنے کا موقع ملے۔ صرف کلام کے ذریعے کام کرنے سے ہی خدا اور انسان کے درمیان رابطہ ممکن ہو سکتا ہے اور صرف کلام ہی حقیقت کو بیان کر سکتا ہے۔ اس طرح کام کرنا انسان کو فتح کرنے کا بہترین ذریعہ ہے؛ کلام کے بیان کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو سچائی اور خدا کے کام کی واضح سمجھ بوجھ دے سکے۔ اس طرح، اپنے کام کے آخری مرحلے میں، خُدا انسان سے بات کرتا ہے تاکہ اُس کے لیے وہ تمام سچائیاں اور اسرار منکشف کر دے جو وہ ابھی تک نہیں سمجھ پایا اور اُسے خُدا سے سچا راستہ اور زندگی حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح اپنی مرضی پورا کرتا ہے۔ انسان پر خدا کے کام کا مقصد اسے خدا کی مرضی پوری کرنے کے قابل بنانا ہے اور ایسا اسے نجات دلانے کے لیے کیا گیا ہے۔ لہٰذا، انسان کی نجات کے وقت کے دوران، وہ اسے سزا دینے کا کام نہیں کرتا۔ انسان کو نجات دیتے ہوئے، خدا برے کو سزا یا نیک کو جزا نہیں دیتا ہے اور نہ ہی وہ مختلف اقسام کے لوگوں کی منزلوں کا انکشاف کرتا ہے۔ بلکہ اپنے کام کا آخری مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ہی وہ برے کو سزا اور نیک کو جزا دینے کا کام کرے گا اور تب ہی وہ مختلف اقسام کے لوگوں کے انجام کا انکشاف کرے گا۔ سزا پانے والے وہ لوگ ہوں گے جو حقیقت میں نجات پانے سے قاصر ہیں، جبکہ نجات پانے والے وہ ہوں گے جو انسان کی نجات کے دوران خدا کی نجات حاصل کر چکے ہیں۔ جب خدا کا نجات کا کام ہو رہا ہوتا ہے، تو ہر وہ شخص جسے بچایا جا سکتا ہے، جہاں تک ممکن ہے اسے بچایا جائے گا اور ان میں سے کسی کو بھی ترک نہیں کیا جائے گا، کیونکہ خدا کے کام کا مقصد انسان کو بچانا ہے۔ وہ تمام لوگ جو خدا کی طرف سے انسان کی نجات کے وقت، اپنے مزاج میں تبدیلی لانے سے قاصر ہیں اور وہ تمام لوگ جو مکمل طور پر خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے قاصر ہیں – سزا کے مستحق افراد ہوں گے۔ کام کا یہ مرحلہ – کلام کا کام – لوگوں کے لیے وہ تمام راستے اور اسرار کھول دے گا جو وہ نہیں سمجھتے، تاکہ وہ خدا کی مرضی اور خدا کے ان سے تقاضے سمجھ سکیں اور تاکہ وہ خدا کے کلام پر عمل کرنے اور اپنے مزاج میں تبدیلیاں حاصل کرنے کے لیے خدا کی لازمی شرائط پوری کر سکیں اور اپنے مزاج میں تبدیلیاں حاصل کرسکیں۔ خدا اپنا کام کرنے کے لیے صرف کلام استعمال کرتا ہے اور لوگوں کو تھوڑا سا سرکش ہونے پر سزا نہیں دیتا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اب نجات کے کام کا وقت ہے۔ اگر کسی سرکشی کرنے والے کو سزا دی جاتی تو کسی کو بھی بچنے کا موقع نہ ملتا؛ سب کو سزا دی جاتی اور پاتال میں ڈال دیا جاتا۔ ان الفاظ کا مقصد، جو انسان کی جانچ کرتے ہیں، انھیں خود کو جاننے اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا موقع دینا ہے؛ اس طرح کی جانچ کے ساتھ انھیں سزا دینا نہیں ہے۔ کلام کے کام کے دوران، بہت سے لوگ اپنی سرکشی اور نافرمانی کے ساتھ ساتھ مجسم خدا کے لیے اپنی نافرمانی بھی ظاہر کریں گے۔ بہر حال، اس کے نتیجے میں وہ ان تمام لوگوں کو سزا نہیں دے گا، بلکہ اس کی بجائے وہ صرف ان لوگوں کو نکال باہر کرے گا جو بنیادی طور پر بدعنوان ہیں اور جنھیں بچایا نہیں جا سکتا۔ وہ ان کا گوشت شیطان کو دے گا اور، چند صورتوں میں، ان کا گوشت تلف کر دے گا۔ باقی رہ جانے والے پیروی جاری رکھیں گے اور ان کے ساتھ نمٹا جانا اور ان کی تراش خراش جاری رہے گی، اگر پیروی کے دوران، یہ لوگ اب بھی نمٹے جانے اور تراش خراش کیے جانے کو قبول کرنے سے قاصر ہیں اور مزید سے مزید تر زوال میں گر رہے ہیں تو وہ اپنے لیے نجات کا موقع گنوا چکے ہوں گے۔ ہر وہ شخص جس نے خُدا کے کلام سے مسخر ہونے کے لیے سر تسلیم خم کیا ہے، اُس کے پاس نجات کا کافی موقع ہوگا؛ خدا کے ذریعے ان لوگوں میں سے ہر ایک کی نجات اُس کی طرف سے انتہائی مہربانی کا اظہار ہو گی۔ بالفاظ دیگر، ان کے ساتھ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ جب تک لوگ غلط راستے سے واپس مڑ سکتے ہیں اور جب تک وہ توبہ کر سکتے ہیں، خدا انھیں اپنی نجات حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرے گا۔ جب انسان خُدا کے خلاف پہلی بار سرکشی کرتے ہیں تو وہ انھیں ہلاک کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ بلکہ، وہ انھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اگر کسی کے پاس واقعی نجات کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو خدا اسے نکال باہر کرے گا۔ بعض لوگوں کو سزا دینے میں خدا کی سست روی کا سبب یہ ہے کہ وہ ہر اس شخص کو بچانا چاہتا ہے جسے بچایا جا سکتا ہے۔ وہ صرف کلام سے لوگوں کے ساتھ انصاف کرتا ہے، انھیں آگہی عطا کرتا ہے اور ان کی راہنمائی کرتا ہے، اور انھیں ہلاک کرنے کے لیے چھڑی کا استعمال نہیں کرتا۔ انسانوں کو نجات دلانے کے لیے الفاظ کا استعمال کام کے آخری مرحلے کا مقصد اور اہمیت ہے۔