شریعت کے دور میں کام
یہوواہ نے بنی اسرائیل پر جو کام کیا اس نے بنی نوع انسان کے درمیان خدا کی اصل زمینی جگہ قائم کی، جو ایک مقدس جگہ بھی تھی جہاں وہ موجود تھا۔ اس نے اپنا کام اسرائیلی قوم تک محدود رکھا۔ پہلے، اس نے اسرائیل سے باہر کام نہیں کیا، بلکہ اس کی بجائے، اس نے اپنے کام کا دائرہ کار محدود کرنے کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جو اسے مناسب لگے۔ اسرائیل وہ جگہ ہے جہاں خدا نے آدم اور حوا پیدا کیے، اور اس جگہ کی مٹی سے یہوواہ نے انسان بنایا؛ یہ جگہ زمین پر اس کے کام کی بنیاد بن گئی۔ بنی اسرائیل، جو نوح کی اولاد تھے اور آدم کی اولاد بھی، زمین پر یہوواہ کے کام کی انسانی بنیاد تھے۔
اس وقت، اسرائیل میں یہوواہ کے کام کی اہمیت، مقصد اور اقدامات پوری زمین پر، اسرائیل کو اپنا مرکز بنا کر، اپنا کام شروع کرنا تھا، جو بتدریج غیر قوموں میں پھیل گیا۔ یہ وہ اصول ہے جس کے مطابق وہ پوری کائنات میں کام کرتا ہے- ایک نمونہ قائم کرنا اور پھر اسے اس وقت تک پھیلانا جب تک کہ کائنات کے تمام لوگوں کو اس کی خوش خبری نہ مل جائے۔ اولین بنی اسرائیل نوح کی اولاد تھی۔ یہ لوگ صرف یہوواہ کی سانس سے نوازے گئے تھے، اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال کی کافی سمجھ بوجھ رکھتے تھے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہوواہ کس قسم کا خدا ہے، یا انسان کے لیے اس کی مرضی کیا ہے، ان کے اس بات کو سمجھنے کا امکان تو اور بھی کم تھا کہ انھیں تمام مخلوق کے خداوند کی تعظیم کیسے کرنی ہے۔ جہاں تک یہ جاننے کی بات ہے کہ کیا اطاعت کرنے کے لیے قواعد اور قوانین[ا] موجود تھے یا کوئی ایسا فرض تھا جو مخلوقات کو خالق کے لیے انجام دینا تھا، آدم کی اولاد ان چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ وہ صرف اتنا جانتے تھے کہ شوہر کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پسینہ بہانا چاہیے اور محنت کرنی چاہیے، اور بیوی کو اپنے شوہر کے تابع ہونا چاہیے اور انسانوں کی نسل قائم رکھنی چاہیے جسے یہوواہ نے بنایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ایسے لوگ، جن کے پاس صرف یہوواہ کی سانس اور اس کی زندگی تھی، وہ کچھ نہیں جانتے تھے کہ خدا کے قوانین پر کیسے عمل کیا جائے یا تمام مخلوقات کے خداوند کو کیسے راضی کیا جائے۔ وہ بہت کم سمجھ رکھتے تھے۔ اور اگرچہ ان کے دلوں میں کوئی کجی یا فریب نہیں تھا اور ان کے درمیان حسد اور جھگڑا شاذ و نادر ہی پیدا ہوا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ تمام مخلوقات کے مالک یہوواہ کے بارے میں کوئی علم یا شعور نہیں رکھتے تھے۔ انسان کے یہ آباؤاجداد صرف یہوواہ کی چیزیں کھانا اور یہوواہ کی چیزوں سے لطف اندوز ہونا جانتے تھے، لیکن وہ یہوواہ کی تعظیم کرنا نہیں جانتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہوواہ وہی ہے جس کی انھیں گھٹنوں کے بل عبادت کرنا چاہیے۔ تو وہ اس کی مخلوق کیسے کہلائے جا سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا، تو کیا یہ الفاظ، "یہوواہ تمام مخلوقات کا خداوند ہے" اور "اُس نے انسان کو پیدا کیا تاکہ انسان اُسے ظاہر کرے، اُس کی تمجید کرے اور اُس کی نمائندگی کرے" کے الفاظ رائیگاں نہیں چلے جاتے؟ وہ لوگ جو یہوواہ کی تعظیم نہیں کرتے تھے وہ کیسے اُس کے جاہ و جلال کے گواہ بن سکتے ہیں؟ وہ کیسے اس کے جاہ و جلال کا مظہر بن سکتے ہیں؟ کیا پھر یہوواہ کے الفاظ "میں نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا" شیطان رزیل کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں بن جائیں گے؟ کیا پھر یہ الفاظ یہوواہ کی تخلیق انسان کے لیے ذلت کا نشان نہیں بنیں گے؟ کام کا یہ مرحلہ مکمل کرنے کے لیے، یہوواہ نے، بنی نوع انسان کو تخلیق کرنے کے بعد، آدم سے لے کر نوح تک انھیں ہدایت یا راہنمائی نہیں کی۔ بلکہ، یہ تب تک نہیں ہوا تھا جب تک سیلاب نے دنیا تباہ نہیں کر دی، اس کے بعد اس نے باضابطہ طور پر بنی اسرائیل کی راہنمائی شروع کر دی، جو کہ نوح کی اولاد تھے اور آدم کی بھی۔ اسرائیل میں اس کے کام اور کلام نے اسرائیل کے تمام لوگوں کو راہنمائی فراہم کی جب انہوں نے اپنی پوری زندگی اسرائیل کی سرزمین میں گزاری، اس طرح بنی نوع انسان کو دکھایا کہ یہوواہ صرف انسان میں سانس پھونکنے کے قابل ہی نہیں تھا، تاکہ اسے اس کی طرف سے زندگی مل جائے اور وہ اپنی طرف سے زندگی حاصل کر سکے اور خاک سے ایک تخلیق شدہ انسان نکلے، بلکہ وہ بنی نوع انسان کو جلا کر خاکستر بھی کر سکتا ہے، اور بنی نوع انسان پر لعنت بھیج سکتا ہے، اور اپنی چھڑی بنی نوع انسان پر حکومت کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ لہٰذا انھوں نے بھی دیکھا کہ یہوواہ زمین پر انسان کی زندگی کی راہنمائی کر سکتا ہے، اور شب و روز کے اوقات کے مطابق بنی نوع انسان کے درمیان کام اور کلام کر سکتا ہے۔ اُس نے جو کام کیا وہ صرف اِس لیے تھا کہ اُس کی مخلوق جان لے کہ انسان اُس کی منتخب شدہ مٹی سے وجود میں آیا ہے اور مزید برآں یہ کہ انسان اس کی طرف سے بنایا گیا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ اس نے سب سے پہلے اسرائیل میں اپنا کام کیا تاکہ دوسرے لوگ اور قومیں (جو حقیقت میں اسرائیل سے الگ نہیں تھیں، بلکہ بنی اسرائیل سے نکلی ہوئی شاخیں تھیں، اور آدم اور حوا کی نسل سے تھیں) اسرائیل سے یہوواہ کی خوشخبری حاصل کر سکیں، تاکہ کائنات میں تمام مخلوقات یہوواہ کی تعظیم کر سکیں اور اسے عظیم مانیں۔ اگر یہوواہ نے اسرائیل میں اپنا کام شروع نہ کیا ہوتا، بلکہ اس کی بجائے، بنی نوع انسان پیدا کرنے کے بعد، انھیں زمین پر بے پروا زندگی گزارنے دیتا، تو اس صورت میں، انسان کی طبعی فطرت کی وجہ سے (فطرت کا مطلب ہے کہ انسان ان چیزوں کو کبھی نہیں جان سکتا جو وہ نہیں دیکھ سکتا، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ نہیں جان سکے گا کہ یہ یہوواہ ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو بنایا، چہ جائیکہ اس نے ایسا کیوں کیا)، وہ کبھی نہیں جان سکے گا کہ یہ یہوواہ ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو بنایا یا یہ کہ وہ تمام مخلوقات کا خداوند ہے۔ اگر یہوواہ نے انسان کو پیدا کیا ہوتا اور اسے زمین پر نازل کیا ہوتا، اور ایک مدت کے لیے انسانوں کی راہنمائی کرنے کے لیے رہنے کی بجائے بس اپنے ہاتھ جھاڑ کر چلا گیا ہوتا، تو تمام نوع انسانی عدم وجود کی طرف واپس پلٹ ہو چکی ہوتی۔ یہاں تک کہ آسمان اور زمین اور اس کی تخلیق شدہ تمام بے شمار چیزیں، اور تمام بنی نوع انسان، عدم وجود کی طرف واپس پلٹ چکے ہوتے اور علاوہ ازیں وہ شیطان کے ہاتھوں پامال ہو جاتے۔ اس طرح یہوواہ کی یہ خواہش کہ "زمین پر، یعنی، اُس کی تخلیق کے درمیان، اُس کے پاس کھڑے ہونے کی جگہ، ایک مقدس جگہ ہونی چاہیے" پاش پاش ہوجاتی۔ اور اس طرح، نوع انسانی تخلیق کرنے کے بعد، کہ وہ ان کے درمیان رہ کر ان کی زندگیوں میں ان کی راہنمائی کر سکے، اور ان کے درمیان ان سے بات کر سکے- یہ سب کچھ اس کی خواہش پوری کرنے اور اس کے منصوبے کو حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اس نے اسرائیل میں جو کام کیا اس کا مقصد صرف اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا تھا جو اس نے اپنی تمام چیزوں کی تخلیق سے پہلے بنایا تھا، اور اس لیے بنی اسرائیل میں اس کا سب سے پہلے کام کرنا اور اس کی تمام چیزوں کی تخلیق ایک دوسرے سے متصادم نہیں تھی، بلکہ دونوں اس کے نظم و نسق، اُس کے کام، اور اُس کے جاہ و جلال کی خاطر انجام دیے گئے تھے اور اُس کی تخلیقِ انسانی کے معنی میں گہرائی لانے کے لیے کیے گئے تھے۔ اس نے نوح کے بعد دو ہزار سال تک زمین پر بنی نوع انسان کی زندگی کی راہنمائی کی، جس کے دوران اس نے بنی نوع انسان کو یہ سمجھنا سکھایا کہ تمام مخلوقات کے مالک یہوواہ کی تعظیم کیسے کی جائے، اپنی زندگی کیسے چلائی جائے، اور زندگی کیسے گزاری جائے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ، یہوواہ کے گواہ کے طور پر وہ کیسے کام کریں، کیسے اس کی فرمانبرداری کریں، اور کیسے اس کی تعظیم کریں، یہاں تک کہ موسیقی کے ساتھ کیسے اس کی تعریف کریں جیسے کہ داؤد اور اس کے کاہنوں نے کی تھی۔
دو ہزار سال سے پہلے جس کے دوران یہوواہ نے اپنا کام کیا، انسان کچھ نہیں جانتا تھا، اور تقریباً تمام نوع انسانی پستی میں گر چکی تھی، یہاں تک کہ، سیلاب کے ذریعے دنیا کی تباہی سے قبل، وہ بدکاری اور بدعنوانی کی اس گہرائی تک پہنچ چکی تھی جس میں ان کے دل مکمل طور پر یہوواہ سے خالی تھے، اور اس کے راستے کے تقاضوں کے بہت غیرمطابق تھے۔ انہوں نے وہ کام کبھی نہیں سمجھا جو یہوواہ کرنے جا رہا تھا؛ ان کے پاس عقل کی کمی تھی، اور ان کے پاس علم تو اس سے بھی کم تھا، اور سانس لینے والی مشینوں کی طرح، انسان، خدا، دنیا، زندگی وغیرہ سے مکمل طور پر بے خبر تھے۔ زمین پر، وہ سانپ کی طرح گمراہی کی بہت سی ترغیبوں میں لگے ہوئے تھے، اور بہت سے ایسے کلمات ادا کیے تھے جو یہوواہ کے لیے ناگوار تھے، لیکن چونکہ وہ نادان تھے، اس لیے یہوواہ نے انھیں سزا نہیں دی یا ان کی تادیب نہیں کی۔ سیلاب کے بعد، جب نوح 601 سال کا تھا، یہوواہ رسمی طور پر نوح پر ظاہر ہوا اور اُس کی اور اُس کے خاندان کی راہنمائی کی، نیز پرندوں اور درندوں کی راہنمائی کی جو نوح اور اس کی اولاد کے ساتھ سیلاب سے بچ گئے تھے، شریعت کے دور کے اختتام تک، جو کُل 2،500 سال تک جاری رہا۔ وہ اسرائیل میں کام کر رہا تھا، یعنی رسمی طور پر، کل 2،000 سال تک، اور اسرائیل میں اور اس سے باہر 500 سال تک بیک وقت کام کرتا رہا، جو کہ مل کر 2،500 سال بنتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران، اس نے بنی اسرائیل کو ہدایت کی کہ یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے، وہ ایک ہیکل بنائیں، کاہنوں والے لبادے پہنیں، اور صبح کے وقت ہیکل میں پابرہنہ چلیں، ایسا نہ ہو کہ ان کے جوتے ہیکل کو گندہ کر دیں اور ہیکل کے اوپر سے ان پر آگ برسے اور انھیں جلا کر مار ڈالے۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور یہوواہ کے منصوبوں کے تابع ہو گئے۔ انھوں نے ہیکل میں یہوواہ سے دُعا کی، اور یہوواہ کا مکاشفہ حاصل کرنے کے بعد، یعنی، یہوواہ کے کلام کرنے کے بعد، انھوں نے لوگوں کی راہنمائی کی اور انھیں سکھایا کہ انھیں یہوواہ - اپنے خدا – کی تعظیم کیسے کرنی چاہیے۔ اور یہوواہ نے اُن سے کہا کہ وہ ایک ہیکل اور ایک قربان گاہ بنائیں، اور یہوواہ کی طرف سے مقرر کردہ وقت پر، یعنی عیدِ فصح پر، وہ نوزائیدہ بچھڑے اور میمنے یہوواہ کی خدمت کے لیے قربان گاہ پر چڑھانے کے لیے تیار کریں، تاکہ وہ اپنے نفس پر قابو پا سکیں اور ان کے دلوں میں یہوواہ کی تعظیم پیدا ہو۔ اس قانون پر ان کی تعمیل یہوواہ کے لیے اُن کی وفاداری کا پیمانہ بن گئی۔ یہوواہ نے ان کے لیے سبت کا دن بھی مقرر کیا، جو اس کی تخلیق کا ساتواں دن تھا۔ سبت کے اگلے دن، اُس نے پہلا دن یہوواہ کی حمد و ثنا بیان کرنے، اُسے قربانیوں کا نذرانہ کرنے اور اُس کے لیے موسیقی بجانے والا دن بنایا۔ اس دن، یہوواہ نے تمام کاہنوں کو بلایا کہ وہ قربان گاہ پر لوگوں کے کھانے کے لیے قربانیاں تقسیم کریں، تاکہ وہ یہوواہ کی قربان گاہ پر قربانیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اور یہوواہ نے کہا کہ وہ فضل یافتہ ہیں، کہ انہوں نے ایک حصہ اس کے ساتھ بانٹا، اور یہ کہ وہ اس کے چنے ہوئے لوگ تھے (جو بنی اسرائیل کے ساتھ یہوواہ کا عہد تھا)۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک، اسرائیل کے لوگ کہتے ہیں کہ یہوواہ صرف ان کا خدا ہے، غیر یہودی قوموں کا خدا نہیں۔
شریعت کے دور میں، یہوواہ نے موسیٰ کے لیے بہت سے احکامات جاری کیے تاکہ وہ بنی اسرائیل تک پہنچا سکے جو اس کی پیروی میں مصر سے نکلے تھے۔ یہ احکام یہوواہ نے بنی اسرائیل کو دیے تھے اور ان کا مصریوں سے کوئی تعلق نہیں تھا؛ ان احکام کا مقصد بنی اسرائیل کو پابند کرنا تھا، اور اس نے احکام کا استعمال ان سے مطالبات کے لیے کیا۔ آیا انھوں نے سبت کا دن منایا، آیا انھوں نے اپنے والدین کا احترام کیا، آیا انھوں نے بتوں کی پوجا کی اور ایسے ہی دیگر کام – یہ وہ اصول تھے جن کے ذریعے ان کے گنہگار یا راست باز ہونے کی عدالت کی گئی۔ ان میں، بعض ایسے تھے جنھیں یہوواہ نے آگ سے مارا، بعض کو سنگسار کیا گیا، اور بعض نے یہوواہ کی برکتیں سمیٹیں، اور یہ اس بات کے مطابق طے کیا گیا کہ آیا وہ ان احکام کی تعمیل کرتے ہیں یا نہیں۔ سبت نہ منانے والوں کو سنگسار کر کے مار دیا گیا۔ جن کاہنوں نے سبت کا دن نہیں منایا انھیں یہوواہ کی آگ نے جلا دیا۔ والدین کی عزت نہ کرنے والوں کو بھی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان سب کا حکم یہوواہ نے دیا تھا۔ یہوواہ نے اپنے احکام اور قوانین قائم کیے تاکہ، جیسا کہ اس نے ان کی زندگیوں میں راہنمائی کی تھی، لوگ اس کا کلام سنیں اور اس پر عمل کریں اور اس کے خلاف بغاوت نہ کریں۔ اس نے ان قوانین کو نوزائیدہ نسل انسانی کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا، یہ اس کے مستقبل کے کام کی بنیاد رکھنے کے لیے بہتر تھا۔ اور یوں، یہوواہ کے کام کی بنیاد پر، پہلے دور کو شریعت کا دور کہا گیا۔ حالانکہ یہوواہ نے بہت کلام کہا اور بہت کام کیا، اس نے لوگوں کی صرف مثبت راہنمائی کی، ان جاہل لوگوں کو سکھایا کہ انسان کیسے بننا ہے، کیسے جینا ہے، یہوواہ کے راستے کو کیسے سمجھنا ہے۔ زیادہ تر حصے کے لیے، اس نے جو کام کیا وہ لوگوں کو اس کے راستے پر چلانا اور اس کے قوانین کی پیروی کروانا تھا۔ یہ کام ان لوگوں پر کیا گیا تھا جو کسی حد تک کم بدعنوان تھے۔ یہ کام اس حد تک نہیں بڑھا کہ ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی یا زندگی میں کوئی ترقی رونما ہوتی۔ وہ محض لوگوں کو پابند اور قابو کرنے کے لیے قوانین کے استعمال سے متعلق فکرمند تھا۔ اُس وقت بنی اسرائیل کے لیے، یہوواہ محض ہیکل میں ایک خدا تھا، آسمانوں میں موجود ایک خدا۔ وہ بادل کا ستون تھا، آگ کا ستون تھا۔ یہوواہ کو ان لوگوں سے جو کچھ مطلوب تھا وہ یہ تھا کہ اس کے احکام و قوانین کی پیروی کریں – کوئی انھیں اصول بھی کہہ سکتا ہے- کیونکہ یہوواہ نے جو کچھ کیا اس کا مقصد انھیں تبدیل کرنا نہیں تھا، بلکہ انھیں مزید وہ چیزیں عطا کرنا تھا جو انسان کے پاس ہونی چاہییں اور انھیں اپنے منہ سے ہدایت دینا تھا کیونکہ، پیدا ہونے کے بعد، انسان کے پاس وہ کچھ نہیں تھا جو اس کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ لہٰذا، یہوواہ نے لوگوں کو وہ چیزیں دیں جو زمین پر زندگیاں گزارنے کے لیے ان کے پاس ہونی چاہیے تھیں، اور اس کی وجہ سے وہ اپنے آباؤ اجداد آدم اور حوا سے آگے نکل گئے، کیونکہ جو کچھ یہوواہ نے انھیں دیا تھا وہ اس سے بڑھ کر تھا جو اس نے آغاز میں آدم اور حوا کو دیا تھا۔ اس سے قطع نظر، یہوواہ نے اسرائیل میں جو کام کیا وہ صرف بنی نوع انسان کی راہنمائی اور انسان کو اپنے خالق کی پہچان کروانے کے لیے تھا۔ اس نے انھیں فتح یا تبدیل نہیں کیا، بلکہ صرف ان کی راہنمائی کی۔ یہ شریعت کے دور میں یہوواہ کے کام کا مجموعہ ہے۔ یہ سرزمین اسرائیل میں اس کے کام کا پس منظر، سچی کہانی، اور نچوڑ ہے، اور اُس کے چھ ہزار سالہ کام کا آغاز – بنی نوع انسان کو یہوواہ کے دستِ اختیار میں رکھنا – ہے۔ اس میں سے اس کے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے میں مزید کام پیدا ہوا۔
حاشیہ:
ا۔ اصل متن میں یہ فقرہ نہیں ہے کہ "اطاعت کرنے کے لیے۔"