فتح کے کام کی اندرونی حقیقت (4)

کامل بنائے جانے کا کیا مطلب ہے؟ فتح کیے جانے کا کیا مطلب ہے؟ لوگوں کو فتح کرنے کے لیے کس معیار کو پورا کرنا ضروری ہے؟ اور ان کے کامل بنائے جانے کے لیے کس معیار کو پورا کرنا ضروری ہے؟ فتح کرنا اور کامل بنایا جانا، دونوں کا مقصد انسان کو مکمل کرنا ہے تاکہ وہ اپنی اصلی صورت میں بحال ہو جائے اور اپنے بدعنوان مزاج اور شیطان کے اثر سے آزاد ہوجائے۔ انسان پر کام کرنے کے عمل سے یہ فتح جلد آتی ہے؛ بے شک، یہ کام کا پہلا مرحلہ ہے۔ کامل کرنا دوسرا مرحلہ ہے اور یہ اختتامی کام ہے۔ ہر انسان کو فتح ہونے کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ اگر نہیں، تو اس کے پاس خدا کو جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ اس بات سے واقف ہو گا کہ خدا ہے، جس کا مطلب ہے کہ، اس کے لیے خدا کو تسلیم کرنا ناممکن ہوگا۔ اور اگر لوگ خدا کو تسلیم نہ کریں تو خدا کی طرف سے ان کا مکمل کیا جانا بھی ناممکن ہے کیونکہ تو اس تکمیل کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اگر تو خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتا ہے تو پھر تو اسے جان کیسے سکتا ہے؟ تو اس کے لیے کوشش کیسے کر سکتا ہے؟ تو اس کی گواہی دینے کے قابل نہیں ہو گا، اور اس کو مطمئن کرنے کے لیے تیرے پاس ایمان کا ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ لہٰذا، جو کوئی مکمل کیا جانا چاہتا ہے تو اس کے لیے پہلا لازمی مرحلہ فتح ہونے کے کام سے گزرنا ہوگا۔ یہ پہلی شرط ہے۔ لیکن فتح کرنا اور کامل بنانا، دونوں لوگوں میں کام کرنے اور ان کو بدلنے کے لیے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک، انسان کو سنبھالنے کے کام کا حصہ ہے۔ کسی کو مکمل کرنے کے لیے دونوں مرحلوں کی ضرورت ہے، اور ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سچ ہے کہ "فتح ہونا" بہت اچھا نہیں لگتا، لیکن حقیقت میں، کسی کو فتح کرنے کا عمل اسے بدلنے کا عمل ہے۔ ایک بار جب تو فتح ہو جائے گا تو اگرچہ تیرا بدعنوان مزاج پوری طرح سے ختم نہیں ہو گا لیکن تجھے اس کا علم ہو جائے گا۔ فتح کے کام سے تجھے اپنی پست انسانیت کے ساتھ ساتھ خود اپنی نافرمانیوں کا بھی پتہ چل جائے گا۔ اگرچہ تو فتح کے کام کے مختصر عرصے میں ان چیزوں کو ترک یا تبدیل کرنے سے قاصر ہو گا، لیکن تجھے ان کا علم ہو جائے گا، اور یہ تیرے کامل ہونے کے عمل کی بنیاد رکھے گا۔ اس طرح، فتح کرنا اور کامل بنانا، دونوں کام لوگوں کو بدلنے کے لیے کیے جاتے ہیں، انھیں ان کے بدعنوان شیطانی مزاج سے نجات دلانے کے لیے، تاکہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کے حوالے کر سکیں۔ فتح ہونا لوگوں کے مزاج کو بدلنے کا محض پہلا مرحلہ ہے، اسی طرح لوگوں کے اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کے حوالے کرنے کا پہلا قدم ہے، اور یہ کامل بنائے جانے کے مرحلے سے کمتر ہے۔ ایک مفتوحہ شخص کی زندگی کا مزاج ایک کامل بنائے گئے شخص کے مقابلے میں بہت کم تبدیل ہوتا ہے۔ فتح ہونا اور کامل بنایا جانا تصوراتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں کیونکہ یہ کام کے مختلف مراحل ہیں اور اس لیے کہ وہ لوگوں کو مختلف معیارات پر رکھتے ہیں؛ فتح کیا جانا لوگوں کو کمتر معیار پر رکھتا ہے، جب کہ کامل بنائے جانے کا عمل انھیں اعلیٰ درجے پر رکھتا ہے۔ کامل لوگ راستباز ہیں، مقدس بنائے گئے لوگ ہیں؛ وہ انسانیت کے انتظام کے کام کی حتمی شکل ہیں، یا آخری مصنوعات ہیں۔ اگرچہ وہ کامل انسان نہیں ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جو بامعنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مفتوحہ لوگ، اس دوران، صرف باتوں میں خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں؛ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا مجسم ہوا ہے، اور یہ کہ کلام جسم میں ظاہر ہوا ہے، اور یہ کہ خدا فیصلے اور سزا کا کام کرنے کے لیے زمین پر آیا ہے۔ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کا فیصلہ اور سزا، اور اس کا مارنا اور تزکیہ، یہ سب انسان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں کسی حد تک انسانی مشابہت کا آغاز کیا ہے۔ وہ زندگی کے بارے میں کچھ بصیرت رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ ان کے لیے دھندلی رہتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ صرف ابھی انسانیت کے حامل ہونے لگے ہیں۔ مفتوح ہونے کے اثرات ایسے ہوتے ہیں۔ جب لوگ کامل بنائے جانے کی راہ پر قدم رکھتے ہیں تو ان کے پرانے مزاج تبدیل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کی زندگیاں پھلتی پھولتی رہتی ہیں، اور وہ آہستہ آہستہ سچائی میں مزید گہرائی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ دنیا اور ان تمام لوگوں سے نفرت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں جو سچ کی پیروی نہیں کرتے۔ وہ خاص طور پر اپنے آپ سے نفرت کرتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ، وہ خود کو واضح طور پر جانتے ہیں۔ وہ سچائی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے تیار ہیں اور وہ سچائی کی پیروی کو اپنا مقصد بناتے ہیں۔ وہ اپنے دماغ سے پیدا ہونے والے خیالات کے تحت رہنے کو تیار نہیں ہیں، اور وہ انسان کے خود کو راستباز سمجھنے، تکبر اور خود پسندی کے لیے نفرت محسوس کرتے ہیں۔ وہ معقولیت کے مضبوط احساس کے ساتھ بات کرتے ہیں، معاملات کو سمجھداری اور حکمت کے ساتھ سنبھالتے ہیں، اور خدا کے وفادار اور فرمانبردار ہیں۔ اگر وہ سزا اور فیصلے کی مثال کا تجربہ کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف غیر فعال یا کمزور نہیں ہوتے ہیں، بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس سزا اور فیصلے کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا کی سزا اور فیصلے کے بغیر نہیں رہ سکتے، اور یہ کہ یہ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ امن اور خوشی اور بھوک مٹانے کے لیے روٹی کی تلاش کے لیے کسی عقیدے کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔ نہ ہی وہ عارضی جسمانی لذتوں کی کوشش کرتے ہیں۔ کامل بنائے جانے والوں پر یہی اثر ہوتا ہے۔ لوگ فتح ہونے کے بعد، یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک خدا ہے، لیکن یہ اقرار ان میں محدود طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ جسم میں ظاہر ہونے والے کلام کا اصل مطلب کیا ہے؟ تجسیم کا کیا مطلب ہے؟ مجسم خدا نے کیا کیا ہے؟ اس کے کام کا مقصد اور اہمیت کیا ہے؟ اس کے بہت سے کاموں کا عملی تجربہ کرنے کے بعد، جسم میں اس کے اعمال کا تجربہ کرنے کے بعد، تجھے کیا حاصل ہوا ہے؟ ان تمام باتوں کو سمجھنے کے بعد ہی تو مفتوحہ شخص بنے گا۔ اگر تو صرف یہ کہتا ہے کہ تو تسلیم کرتا ہے کہ خدا ہے، لیکن جو تجھے ترک کرنا چاہیے اسے ترک ہی نہیں کرتا ہے، اور ان جسمانی لذتوں کو چھوڑنے میں ناکام رہتا ہے جو تجھے چھوڑ دینی چاہییں، بلکہ اس کی بجائے جسمانی آسائشوں کا آرزومند رہتا ہے جیسا کہ تو ہمیشہ رہا ہے، اور اگر تو بھائیوں اور بہنوں کے خلاف کسی قسم کے تعصب کو چھوڑنے سے قاصر ہے اور بہت سے سادہ اعمال کو انجام دینے کی کوئی قیمت ادا نہیں کرتا ہے، تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تجھے ابھی فتح کیا جانا باقی ہے۔ اس صورت میں، یہاں تک کہ اگر تو بہت کچھ بھی سمجھتا ہے تو یہ سب بے کار ہو گا۔ فتح ہونے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے کچھ ابتدائی تبدیلیاں اور ابتدائی داخلہ حاصل کیا ہے۔ خدا کے فیصلے اور سزا کا تجربہ لوگوں کو خدا کے بارے میں ابتدائی معلومات اور سچائی کی ابتدائی سمجھ دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تو مزید گہری، مزید تفصیلی سچائیوں کی حقیقت میں پوری طرح سے داخل ہونے سے قاصر ہو، لیکن تو اپنی حقیقی زندگی میں بہت سی ابتدائی سچائیوں کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو سکتا ہے، جیسے کہ تیرے جسمانی عیش یا تیری ذاتی حیثیت۔ یہ سب فتح ہونے کے عمل کے دوران لوگوں میں حاصل ہونے والا اثر ہے۔ مزاج میں تبدیلی بھی فتح ہونے والوں میں دیکھی جا سکتی ہے؛ مثال کے طور پر، وہ جس طرح سے لباس پہنتے ہیں اور اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، اور جس طرح وہ رہتے ہیں – یہ سب بدل سکتے ہیں۔ خدا پر اعتقاد کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بدل جاتا ہے، وہ اپنی کوشش کے مقاصد کے بارے میں واضح ہیں، اور ان کی خواہشات زیادہ بلند ہیں۔ فتح ہونے کے کام کے دوران ان کی زندگی کے مزاج میں اس طرح کی تبدیلیاں بھی آتی ہیں۔ تبدیلیاں آتی ہیں، لیکن وہ کم گہری، ابتدائی، اور ان لوگوں کے مزاج اور کوشش کے اہداف میں تبدیلیوں سے بہت کمتر ہیں جو کامل بنائے جا چکے ہیں۔ اگر فتح ہونے کے دوران، کسی شخص کے مزاج میں بالکل کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، اور وہ کوئی سچائی حاصل نہیں کرتا ہے، تو یہ شخص کوڑا کرکٹ، اور بالکل بیکار ہے! جن لوگوں کو فتح نہیں کیا گیا ہے انھیں کامل نہیں بنایا جا سکتا! اگر کوئی شخص صرف فتح ہونا چاہتا ہے، تو وہ مکمل طور پر کامل نہیں ہو سکتا، چاہے فتح کے کام کے دوران اس کے مزاج میں کچھ خاص تبدیلیاں ہی کیوں نہ آئیں۔ وہ اپنی حاصل کردہ ابتدائی سچائیوں کو بھی کھو دے گا۔ فتح ہونے والوں اور کامل بنائے جانے والوں کے مزاج کی تبدیلی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ لیکن فتح کیا جانا تبدیلی کا پہلا مرحلہ ہے؛ یہ بنیاد ہے۔ اس ابتدائی تبدیلی کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان درحقیقت خدا کو بالکل نہیں جانتا، کیونکہ یہ علم فیصلے سے آتا ہے، اور ایسا فیصلہ فتح کے کام کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس طرح، وہ تمام جو کامل بنائے گئے ہیں سب کو پہلے فتح کیا جانا چاہیے؛ اگر نہیں، تو ان کے کامل بنائے جانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

تو کہتا ہے کہ تو مجسم خدا کو تسلیم کرتا ہے، اور یہ کہ تو کلام کی جسم میں ظاہری شکل کو تسلیم کرتا ہے، پھر بھی تو اس کی پیٹھ پیچھے کچھ کام کرتا ہے، ایسی چیزیں جو اس کے تقاضے کے خلاف ہیں، اور تجھے اپنے دل میں اس کا کوئی خوف نہیں ہے۔ کیا یہ خدا کو تسلیم کرنا ہے؟ تو اُس کی باتوں کو تسلیم کرتا ہے، لیکن تو اُس پر عمل نہیں کرتا جس پر تو کر سکتا ہے، اور نہ ہی تو اُس کے طریقے پر قائم رہتا ہے۔ کیا یہ خدا کو تسلیم کرنا ہے؟ اور اگرچہ تو اسے تسلیم کرتا ہے، لیکن اس کی جانب تیری ذہنی عادت کبھی بھی احترام کی نہیں رہی بلکہ صرف احتیاط کی ہے۔ اگر تو نے اس کے کام کو دیکھا ہے اور اس کا اعتراف کیا ہے اور یہ جانتا ہے کہ وہ خدا ہے، اس کے باوجود تو بے جوش و خروش اور مکمل طور پر تبدیل ہوئے بغیر رہتا ہے، تو تو ایسا شخص ہے جو ابھی تک فتح نہیں ہوا ہے۔ وہ جو فتح ہو چکے ہیں، انھیں اپنی ہر ممکن کوشش لازمی کرنی چاہیے اور اگرچہ وہ اعلیٰ سچائیوں میں داخل ہونے کے قابل نہ ہوں اور یہ سچائیاں ان سے ماوراء ہو سکتی ہیں لیکن ایسے لوگ اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دل میں آمادہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس چیز کو قبول کر سکتے ہیں اس کی حدود ہیں، جس پر وہ عمل کر سکتے ہیں اس کی حدود اور سرحدیں ہیں۔ تاہم، انھیں کم از کم وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو وہ کر سکتے ہیں، اور اگر تو اسے حاصل کر سکتا ہے تو یہ ایک ایسا اثر ہے جو فتح کے کام کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ فرض کر کہ تو کہتا ہے، "یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ اتنے الفاظ بیان کر سکتا ہے جو انسان نہیں کر سکتا، اگر وہ خدا نہیں ہے تو کون ہے؟" ایسی سوچ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تو خدا کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر تو خدا کو تسلیم کرتا ہے، تو تجھے اپنے حقیقی اعمال سے اس کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر تو کیلسیا کی قیادت کرتا ہے اور پھر بھی راستبازی پر عمل نہیں کرتا، اگر تو پیسے اور دولت کی خواہش رکھتا ہے، اور کلیسا کے پیسوں کو ہمیشہ اپنے لیے استعمال کرتا ہے، تو کیا یہ اس بات کا اعتراف کرنا ہے کہ خدا ہے؟ خدا قادر مطلق ہے، اور وہ احترام کے لائق ہے۔ اگر تو واقعی یہ تسلیم کرتا ہے کہ ایک خدا ہے تو پھر تو خوفزدہ کیسے نہیں ہوسکتا؟ اگر تو اس طرح کے قابلِ نفرت کاموں کے ارتکاب کے قابل ہے تو کیا تو واقعی اسے تسلیم کرتا ہے؟ کیا یہ خدا ہے جس پر تو ایمان رکھتا ہے؟ تو جس پر ایمان رکھتا ہے وہ ایک مبہم خدا ہے؛ اس لیے تو ڈرتا نہیں ہے! وہ لوگ جو خدا کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرتے ہیں اور جانتے ہیں، وہ سب اس سے ڈرتے ہیں اور ہر وہ کام کرنے سے ڈرتے ہیں جو اس کی مخالفت کرتا ہے یا جو ان کے ضمیر کے خلاف ہوتا ہے۔ وہ خاص طور پر کچھ بھی ایسا کرنے سے ڈرتے ہیں جو وہ جانتے ہیں کہ خدا کی مرضی کے خلاف ہے۔ صرف اسی کو خدا کے وجود کا اعتراف کرنا سمجھا جا سکتا ہے۔ جب تیرے والدین تجھے خدا پر یقین کرنے سے روکنے کی کوشش کریں تو تجھے کیا کرنا چاہیے؟ جب تیرا بے ایمان شوہر تیرے ساتھ اچھا ہے تو تجھے خدا سے کیسے پیار کرنا چاہیے؟ اور جب بھائی اور بہن تجھ سے نفرت کریں تو تجھے خدا سے کیسے پیار کرنا چاہیے؟ اگر تو اسے تسلیم کرتا ہے، تو تو ان معاملات میں مناسب طریقے سے عمل کرے گا اور حقیقت کے مطابق زندگی گزارے گا۔ اگر تو ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہتا ہے لیکن صرف یہ کہتا ہے کہ تو خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے، تو تو صرف ایک باتیں بنانے والا ہے! تو کہتا ہے کہ تو اس پر ایمان رکھتا ہے اور اسے تسلیم کرتا ہے، لیکن تو اسے کس طرح تسلیم کرتا ہے؟ تو اس پر کس طرح ایمان رکھتا ہے؟ کیا تو اس سے ڈرتا ہے؟ کیا تو اس کا احترام کرتا ہے؟ کیا تو اُس سے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا ہے؟ جب تو پریشان ہوتا ہے اور ایسا کوئی نہیں ہوتا جس پر تو بھروسہ کر سکے، تو تجھے خدا کی محبت کا احساس ہوتا ہے، لیکن بعد میں تو اسے بالکل بھول جاتا ہے۔ یہ خدا سے محبت کرنا نہیں ہے، اور نہ ہی خدا پر ایمان رکھنا ہے! آخر، خدا کی خواہش کیا ہے کہ انسان کیا حاصل کرے؟ وہ تمام حالتیں جن کا میں نے ذکر کیا، جیسے کہ تیرا اپنی ہی اہمیت سے بہت متاثر ہونا، یہ محسوس کرنا کہ تو نئی چیزوں کو جلد جان اور سمجھ لیتا ہے، دوسروں کو قابو کرنا، دوسروں کو حقیر سمجھنا، لوگوں کو ان کی شکل سے پرکھنا، معصوم لوگوں کو دھونس دینا، چرچ کے پیسوں کا لالچ، اور اسی طرح مزید – صرف اس وقت جب یہ تمام بدعنوان شیطانی مزاج، تھوڑا تھوڑا کر کے، تجھ سے ہٹا دیے جائیں گے تو تیرا مفتوح ہونا ظاہر ہوگا۔

تم لوگوں پر فتح کرنے کا جو کام کیا گیا ہے وہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے: ایک لحاظ سے، اس کام کا مقصد لوگوں کے ایک گروہ کو کامل کرنا ہے، جس کا مطلب انھیں کامل بنانا ہے، تاکہ وہ غالب آنے والوں کا ایک گروہ بن جائیں – کامل کیے جانے والے لوگوں کے پہلے گروہ کے طور پر، یعنی وہ موسم کے پہلے پھل ہیں۔ ایک اور لحاظ سے، یہ اس لیے ہے کہ تخلیق کردہ مخلوقات کو خدا کی محبت سے لطف اندوز ہونے دیا جائے، خدا کی مکمل اور عظیم ترین نجات حاصل کرنے دی جائے، انسان کو نہ صرف رحم اور شفقت سے لطف اندوز ہونے دیا جائے، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سزا اور فیصلے کا تجربہ کرایا جائے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر اب تک، خدا نے اپنے کام میں جو کچھ کیا ہے وہ محبت ہے، انسان کے لیے کسی نفرت کے بغیر۔ یہاں تک کہ تو نے جو سزا اور فیصلہ دیکھا ہے وہ بھی محبت ہے، ایک زیادہ سچی اور زیادہ حقیقی محبت، ایک ایسی محبت جو لوگوں کی انسانی زندگی کے صحیح راستے کی جانب راہنمائی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور لحاظ سے، یہ شیطان کے سامنے گواہی دینا ہے۔ اور اس کے مزید علاوہ ایک اور لحاظ سے، یہ مستقبل کی خوشخبری کے کام کو پھیلانے کی بنیاد رکھنا ہے۔ اس نے جو بھی کام کیا ہے اس کا مقصد لوگوں کو انسانی زندگی کی صحیح راہ پر گامزن کرنا ہے، تاکہ وہ عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکیں، کیونکہ لوگ نہیں جانتے کہ کیسے جینا ہے، اور اس راہنمائی کے بغیر، تو صرف کھوکھلی زندگی بسر کرے گا؛ تیری زندگی قدر یا معنی سے محروم ہو جائے گی، اور تو ایک عام انسان ہونے کے لیے بالکل نااہل ہو جائے گا۔ یہ انسان کو فتح کرنے کی سب سے گہری اہمیت ہے۔ تم سب موآب کی اولاد ہو؛ جب تم میں فتح کا کام ہوتا ہے تو یہ بڑی نجات ہے۔ تم سب گناہ اور بے حیائی کی سرزمین میں رہتے ہو، اور تم سب بے حیا اور گناہ گار ہو۔ آج تم خدا کی طرف دیکھنے کے بالکل قابل نہیں ہو، لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ تمہیں سزا اور فیصلہ ملا ہے، تمہیں واقعی گہری نجات ملی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خدا کی عظیم ترین محبت ملی ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، خدا واقعی تم محبت کرنے والا ہے۔ اس کا کوئی برا ارادہ نہیں ہے۔ یہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے ہے کہ وہ تمہارا فیصلہ کرتا ہے، تاکہ تم اپنے آپ کو جانچو اور یہ زبردست نجات حاصل کرو۔ یہ سب کچھ انسان کو مکمل بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ آغاز سے اختتام تک، خُدا انسان کو بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتا رہا ہے، اور اُن لوگوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا ہے جنھیں اُس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ آج، وہ تمہارے درمیان کام کرنے کے لیے آیا ہے؛ کیا یہ سب سے زیادہ نجات نہیں ہے؟ اگر وہ تم سے نفرت کرتا، تو کیا پھر بھی وہ خود ذاتی طور پر تمہاری راہنمائی کے لیے اتنا بڑا کام کرتا؟ وہ ایسا کیوں برداشت کرے؟ خدا تم سے نفرت نہیں کرتا اور نہ ہی تمہارے بارے میں کوئی برا ارادہ رکھتا ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کی محبت سب سے سچی محبت ہے۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ چونکہ لوگ نافرمان ہیں، اس لیے اس نے انھیں فیصلے کے ذریعے بچانا ہے؛ اگر ایسا نہ ہو تو ان کو بچانا ناممکن ہو جائے گا۔ چونکہ تم نہیں جانتے کہ کیسے جینا ہے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ زندگی کیسے بسر کرنی ہے، اور چونکہ تم اس بے حیائی اور گناہ کی سرزمین میں رہتے ہو اور خود بھی بے حیا اور غلیظ شیطان ہو، اس لیے وہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم اس سے بھی زیادہ پست ہو جاﺆ، وہ تمہیں اس غلیظ سرزمین میں رہتے ہوئے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتا جیسے کہ تم ابھی رہ رہے ہو، اپنی مرضی سے شیطان سے پامال ہوتے ہوئے، اور وہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تمہیں پاتال میں گرنے دے۔ وہ صرف لوگوں کے اس گروہ کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور تمہیں اچھی طرح سے بچانا چاہتا ہے۔ تم پر فتح کا کام کرنے کا یہ بنیادی مقصد ہے – یہ صرف نجات کے لیے ہے۔ اگر تو یہ نہیں دیکھ سکتا ہے کہ تجھ پر جو کچھ کیا گیا ہے وہ محبت اور نجات ہے، اگر تیرا خیال ہے کہ یہ صرف ایک طریقہ ہے، انسان کو اذیت دینے کا ایک طریقہ، اور ایک ناقابل اعتماد چیز، تو تو بھی درد اور مشکل میں مبتلا ہونے کے لیے واپس اپنی دنیا میں پلٹ کر جا سکتا ہے! اگر تو اس دھارے میں شامل ہونے کے لیے، اور اس فیصلے اور اس بے پناہ نجات سے لطف اندوز ہونے کے لیے، ان تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے، وہ نعمتیں جو انسانی دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی ہیں، اور اس محبت سے لطف اندوز ہونے کے لیے آمادہ ہے، تو پھر اچھا بن: فتح کے کام کو قبول کرنے کے لیے اس دھارے میں رہ تاکہ تجھے کامل بنایا جا سکے۔ آج، خدا کے فیصلے کی وجہ سے تجھے تھوڑا سا درد اور تزکیے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن اس تکلیف کو سہنے کی ایک قدر اور مقصد ہے۔ اگرچہ لوگ خُدا کی سزا اور فیصلے کے ذریعے تزکیہ حاصل کرتے ہیں اور بے رحمی کے ساتھ بے نقاب ہوتے ہیں – جس کا مقصد اُن کے گناہوں کی سزا دینا، اُن کے جسم کو سزا دینا ہے – ان میں سے کسی بھی کام کا مقصد ان کے جسم کو تباہی کی سزا دینا نہیں ہے۔ کلام کے ذریعے ہونے والے شدید انکشافات سب تیری صحیح راستے کی جانب راہنمائی کرنے کے لیے ہیں۔ تم نے ذاتی طور پر اس کام کا بہت زیادہ تجربہ کیا ہے اور واضح طور پر، اس نے تمہیں کسی برے راستے پر نہیں ڈالا! یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تو عمومی انسانیت کی زندگی بسر کرے، اور یہ سب تیری عمومی انسانیت کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خدا کے کام کا ہر قدم تیری ضروریات پر، تیری کمزوریوں کے مطابق، اور تیری اصل حیثیت پر مبنی ہے، اور تم پر کوئی ناقابل برداشت بوجھ نہیں ڈالا جاتا ہے۔ یہ بات آج تجھ پر واضح نہیں ہے، اور تجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں تجھ پر سختی کر رہا ہوں، اور درحقیقت تو ہمیشہ یقین رکھتا ہے کہ میری ہر روز تجھے سزا دینے، فیصلہ کرنے اور ملامت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں تجھ سے نفرت کرتا ہوں۔ لیکن اگرچہ تو جس حالت میں مبتلا ہوتا ہے وہ سزا اور فیصلہ ہے، لیکن یہ دراصل تیرے لیے محبت ہے، اور یہ سب سے بڑی حفاظت ہے۔ اگر تو اس کام کے گہرے معنی کو نہیں سمجھ سکتا، تو تیرے لیے عملی تجربہ جاری رکھنا ناممکن ہوگا۔ اس نجات سے تجھے سکون ملنا چاہیے۔ اپنے ہوش میں آنے سے انکار نہ کر۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد، فتح کے کام کی اہمیت تجھ پر واضح ہو جائے گی، اور تجھے اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے!

سابقہ: فتح کے کام کی اندرونی حقیقت (3)

اگلا: استعداد بڑھانا خدا کی طرف سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp