فتح کے کام کی اندرونی حقیقت (3)
فتح کے کام کا مطلوبہ اثر، سب سے بڑھ کر، یہ ہے کہ انسان کا جسم مزید سرکشی نہ کرے؛ یعنی انسان کا دماغ خدا کے بارے میں ایک نیا علم حاصل کرے، انسان کا دل خدا کی پوری طرح اطاعت کرے اور انسان خدا کا ہو جانے کے لئے شدید خواہش کرے۔ جب ان کی کیفیت یا جسم میں تبدیلی آتی ہے تو لوگ مفتوح ہونے کے طور پر شمار نہیں ہوتے ہیں؛ جب انسان کی سوچ، انسان کا شعور، اور انسان کا احساس بدل جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تیرا پورا ذہنی رویہ بدل جاتا ہے – یہ تب ہوگا جب تجھے خدا فتح کر چکا ہو گا۔ جب تو نے فرمانبرداری کا عزم کر لیا ہے اور ایک نئی ذہنیت کو اپنا لیا ہے، جب تو اپنے کوئی تصورات یا ارادے مزید خدا کے کلام اور کام کے سامنے نہیں لاتا ہے، اور جب تیرا دماغ عام طور پر سوچ سکتا ہے – جس کا مطلب ہے، جب تو پورے دل سے خدا کے لیے جدوجہد کر سکتا ہے – پھر تو ایسا شخص بن جاتا ہے جو مکمل طور پر مفتوح ہوتا ہے۔ مذہب میں، بہت سے لوگ اپنی پوری زندگی میں بہت زیادہ تکلیفیں اٹھاتے ہیں: وہ اپنے جسموں کو قابو میں رکھتے ہیں اور اپنی تکالیف کو برداشت کرتے ہیں، حتیٰ کہ بالکل موت کی دہلیز پر بھی وہ تکلیف سہتے اور سختی جھیلتے رہتے ہیں! کچھ اپنی موت کے دن کی صبح کو بھی روزے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ساری زندگی وہ خود کو اچھے کھانے اور لباس سے محروم رکھتے ہیں، صرف مصائب پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ وہ اپنے جسم کو قابو کرنے اور اپنے جسم کو ترک کرنے کے قابل ہیں۔ مصائب کو برداشت کرنے کے لیے ان کا حوصلہ قابل تعریف ہے۔ لیکن ان کی سوچ، ان کے تصورات، ان کے ذہنی رویے اور درحقیقت ان کی سابقہ فطرت کے متعلق ذرہ برابر اقدام بھی نہیں کیا گیا۔ ان کو اپنے بارے میں کسی قسم کا بھی صحیح علم نہیں ہے۔ خدا کے بارے میں ان کی ذہنی شبیہ مبہم خدا کی ایک روایتی شبیہ ہے۔ خُدا کے لیے تکلیف اٹھانے کا اُن کا عزم اُن کے ذوق و شوق اور اُن کی انسانیت کے اچھے کردار کی وجہ سے آتا ہے۔ اگرچہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ نہ تو اسے سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کی مرضی کو جانتے ہیں۔ وہ صرف کام کرتے ہیں اور خدا کے لیے آنکھیں بند کر کے دکھ سہتے ہیں۔ وہ فہم کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دیتے، وہ اس بات کی بہت کم پرواہ کرتے ہیں کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ ان کی خدمت دراصل خدا کی مرضی کو پورا کرتی ہے، اور ان کا یہ جاننے کا امکان تو اور بھی بہت کم ہے کہ خدا کا علم حاصل کیسے حاصل کیا جائے۔ وہ جس خدا کی خدمت کرتے ہیں، وہ اپنی موروثی شکل میں خدا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا خدا ہے جس کا انھوں نے تصور کیا ہے، ایک ایسا خدا جس کے بارے میں انھوں نے صرف سنا ہے، یا جس کے بارے میں انھوں نے صرف تحریر کردہ روایتی قصے کہانیوں میں پڑھا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے زرخیز تخیلات اور تقویٰ کا استعمال کرتے ہوئے خدا کے لیے تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور خدا کے اس کام کو انجام دیتے ہیں جو خدا کرنا چاہتا ہے۔ ان کی خدمت بہت مبہم ہے، اس طرح کہ عملی طور پر ان میں سے کوئی بھی صحیح طریقے سے خدا کی مرضی کے مطابق خدمت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی خوشی سے دکھ سہیں، خدمت کے بارے میں ان کا اصل نقطہ نظر اور خدا کے بارے میں ان کی ذہنی شبیہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے کیونکہ وہ خدا کے فیصلے، سزا، تطہیر اور کامل بنائے جانے کے عمل سے نہیں گزرے ہیں، اور نہ ہی کسی نے سچائی کو استعمال کرتے ہوئے ان کی راہنمائی کی ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ یسوع نجات دہندہ پر یقین رکھتے ہیں تو ان میں سے کسی نے بھی نجات دہندہ کو کبھی نہیں دیکھا ہے۔ وہ اُس کے بارے میں صرف روایتی قصے کہانیوں اور افواہوں کے ذریعے جانتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، ان کی خدمت، آنکھیں بند کر کے بے ترتیب انداز میں خدمت کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جیسے کہ ایک نابینا آدمی اپنے باپ کی خدمت کرتا ہے۔ آخر ایسی خدمت سے کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ اور کون اسے منظور کرے گا؟ شروع سے آخر تک، ان کی خدمت پوری طرح ایسے ہی رہتی ہے۔ وہ صرف انسانوں کے بنائے ہوئے اسباق حاصل کرتے ہیں اور اپنی خدمت کی بنیاد صرف اپنے فطری پن اور اپنی ترجیحات پر رکھتے ہیں۔ اس سے کیا اجر مل سکتا ہے؟ یہاں تک کہ پطرس بھی، جس نے یسوع کو دیکھا، نہیں جانتا تھا کہ خدا کی مرضی کے مطابق خدمت کیسے کی جائے؛ اسے یہ بات آخر کار بڑھاپے میں ہی معلوم ہوئی۔ اس سے ان نابینا لوگوں کے بارے میں کیا علم ہوتا ہے جن کے ساتھ معمولی سا اقدام بھی نہیں کیا گیا یا جن کی تراش خراش نہیں کی گئی اور جن کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا؟ کیا آج تم میں سے بہت سے لوگوں کی خدمت ان نابینا لوگوں کی طرح نہیں ہے؟ وہ تمام لوگ جنہوں نے فیصلہ وصول نہیں کیا، جن کی تراش خراش نہیں ہوئی اور جن کے ساتھ اقدام نہیں کیا گیا، اور جو تبدیل نہیں ہوئے – کیا وہ سب نامکمل مفتوح نہیں ہیں؟ ایسے لوگوں کا کیا فائدہ ہے؟ اگر تیری سوچ، تیری زندگی کے بارے میں تیرا علم، اور تیرا خدا کے بارے میں علم تجھ میں کوئی نئی تبدیلی ظاہر نہیں کرتا ہے اور تجھے واقعی کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے، تو تو خدمت کرنے سے کبھی کوئی قابل ذکر چیز حاصل نہیں کر پائے گا! بصیرت اور خدا کے کام کے بارے میں ایک نئے علم کے بغیر، تو مفتوح نہیں ہوا ہے۔ خدا کی پیروی کرنے کا تیرا طریقہ تو پھر ان لوگوں جیسا ہو گا جو تکلیف اٹھاتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں: اس کی اہمیت بہت کم ہے! یہ بالکل اس لیے ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس میں بہت کم گواہی ہے، اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ان کی خدمت بےکار ہے! اپنی ساری زندگی میں، وہ لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں اور قید میں وقت گزارتے ہیں؛ وہ ہمیشہ گریز کرنے والے، محبت کرنے والے ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنی تکالیف برداشت کرنے والے ہیں، دنیا کی طرف سے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور انہیں مسترد کیا جاتا ہے، وہ ہر مشکل کو جھیلتے ہیں، اور اگرچہ وہ آخری حد تک فرمانبردار ہیں، پھر بھی وہ فتح نہیں ہوئے ہیں، اور مفتوح ہونے کی کوئی گواہی نہیں دے سکتے ہیں۔ انھوں نے بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ خدا کو بالکل نہیں جانتے۔ ان کی پرانی سوچ، پرانے تصورات، مذہبی طریقوں، انسان کے بنائے ہوئے علم اور انسانی نظریات میں سے کسی کے متعلق بھی اقدام نہیں کیا گیا۔ ان میں نئے علم کا معمولی سا اشارہ بھی نہیں ہے۔ خدا کے بارے میں ان کے علم کا ذرا سا حصہ بھی سچ یا درست نہیں ہے۔ انھوں نے خدا کی مرضی کو غلط سمجھا ہے۔ کیا اس سے خدا کی خدمت ہوتی ہے؟ ماضی میں خدا کے بارے میں جو کچھ بھی تیرا علم تھا، اگر آج بھی وہی رہتا ہے اور چاہے خدا کچھ بھی کرے، تو خدا کے بارے میں اپنے علم کو اپنے تصورات اور نظریات پر قائم کرنا جاری رکھتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تیرے پاس خدا کے بارے میں کوئی نیا، حقیقی علم نہیں ہے اور اگر تو خدا کی حقیقی شبیہ اور مزاج کو جاننے میں ناکام رہتا ہے، اگر تیرا خدا کے بارے میں علم ابھی تک جاگیردارانہ، توہم پرستانہ سوچ کے تحت ہے اور ابھی بھی انسانی تخیل اور تصورات سے ہی پیدا ہوتا ہے، تو پھر تو مفتوح نہیں ہوا ہے۔ اب میں جو بھی بہت سا کلام تجھ سے کہتا ہوں اس کا مقصد تجھے بتانا ہے، تاکہ یہ علم تیری راہنمائی ایک نئے، درست علم کی طرف کرے؛ اس کا مقصد تیرے اندر موجود پرانے تصورات اور پرانے علم کو بھی ختم کرنا ہے، تاکہ تو نیا علم حاصل کر سکے۔ اگر تو واقعی میرے کلام کو کھاتا اور پیتا ہے تو تیرے علم میں کافی تبدیلی آئے گی۔ تیرا نقطہ نظر یکسر بدل جائے گا، بشرطیکہ تو اطاعت بھرے دل کے ساتھ خدا کا کلام کھاتا اور پیتا رہے۔ تیری پرانی ذہنیت آہستہ آہستہ بدل جائے گی، بشرطیکہ تو بار بار دی جانے والی سزاﺆں کو قبول کرنے کے قابل ہو۔ اگر تیری پرانی ذہنیت مکمل طور پر نئی سے تبدیل ہوتی ہے تو تیرے طور طریقے بھی اسی کے مطابق بدلیں گے۔ اس طرح، تیری خدمت زیادہ بامعنی اور نتیجہ خیز ہوتی چلی جائے گی، اور خدا کی مرضی پوری کرنے کے زیادہ قابل ہو گی۔ اگر تو اپنی زندگی، انسانی زندگی کے بارے میں اپنے علم، اور خدا کے بارے میں اپنے بہت سے تصورات کو تبدیل کر سکتا ہے تو تیرا فطری پن آہستہ آہستہ کم ہو جائے گا۔ یہی، اور اس سے کم کچھ بھی نہیں، یہ اثر ہوتا ہے جب خدا لوگوں کو فتح کرتا ہے، یہ وہ تبدیلی ہے جو لوگوں میں آتی ہے۔ اگر تو خدا پر اپنے ایمان میں، جو کچھ جانتا ہے وہ بس اپنے جسم کو قابو کرنا اور برداشت کرنا اور مصائب سہنا ہے، اور تجھے یہ علم نہیں ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط، اور اس بات کا علم تو اور بھی نہیں ہے کہ یہ کس کی خاطر کیا جاتا ہے، تو پھر ایسا عمل تبدیلی کی طرف کیسے لے جا سکتا ہے؟
یہ سمجھ لو کہ میں تم سے جو تقاضا کرتا ہوں وہ اس لیے نہیں ہے کہ تم اپنے جسم کو غلامی میں رکھو یا تم اپنے دماغ کو من مانے خیالات سوچنے سے روکو۔ یہ نہ تو کام کا مقصد ہے اور نہ ہی وہ کام ہے جو ابھی فوراً کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی فوراً، تمہیں مثبت طور پر علم ہونا چاہیے تاکہ تم خود کو بدل سکو۔ سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو خدا کے کلام سے آراستہ کرو، یعنی اپنے آپ کو حال کی سچائی اور بصیرت سے پوری طرح آراستہ کرو، اور پھر آگے بڑھو اور ان پر عمل کرو۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں تمہیں اس سے زیادہ روشنی کو تلاش کرنے اور حاصل کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں۔ فی الحال، تمہارے پاس اس کی حیثیت نہیں ہے۔ تم سے جو مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ تم خدا کا کلام کھانے اور پینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرو۔ تمہیں خدا کے کام کو سمجھنا چاہیے اور اپنی فطرت، اپنا جوہر، اور اپنی اس پرانی زندگی کو جاننا چاہیے۔ خاص طور پر، تمہیں ان ماضی کے غلط اور نامعقول طریقوں اور ان انسانی اعمال کو جاننے کی ضرورت ہے جن میں تم مصروف تھے۔ تبدیل ہونے کے لیے، تمہیں اپنی سوچ کی تبدیلی سے شروع کرنا چاہیے۔ پہلے، اپنی پرانی سوچ کو نئی سے بدلو، اور اپنی نئی سوچ کو اپنے الفاظ اور اعمال اور اپنی زندگی کو قابو کرنے دو۔ آج تم میں سے ہر ایک سے یہی تقاضا کیا جاتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے عمل نہ کرو اور نہ ہی اندھی پیروی کرو۔ تمہارے پاس ایک بنیاد اور ہدف ہونا چاہیے۔ اپنے آپ کو بےوقوف نہ بناﺆ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارا خدا پر ایمان آخر کس لیے ہے، اس سے کیا حاصل کرنا چاہیے، اور تمہیں ابھی فوراً کس چیز میں داخل ہونا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ تمہیں یہ سب معلوم ہو۔
تمہیں اس وقت جس چیز میں داخل ہونا چاہئے وہ اپنی زندگی کو بلند کرنا اور اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ اس کے علاوہ، تمہیں اپنے ماضی سے اس پرانے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے، اپنی سوچ کو تبدیل کرنے، اور اپنے تصورات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تمہاری پوری زندگی کو تجدید کی ضرورت ہے۔ جب خدا کے اعمال کے بارے میں تیرا علم بدل جائے گا، جب تجھے خدا کی ہر بات کی سچائی کا ایک نیا علم ہو گا، اور جب تیرے اندرونی علم کی سطح بلند ہو جائے گی، تو تیری زندگی میں بہتری آئے گی۔ وہ تمام چیزیں جو لوگ اب کرتے اور کہتے ہیں عملی ہیں۔ یہ عقائد نہیں ہیں بلکہ وہ چیزیں ہیں جن کی لوگوں کو اپنی زندگی کے لیے ضرورت ہوتی ہے اور جو ان کے پاس ہونی چاہییں۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو فتح کے کام کے دوران لوگوں میں آتی ہے، یہ وہ تبدیلی ہے جس کا عملی تجربہ لوگوں کو کرنا چاہیے، اور یہ وہ اثر ہے جو ان کے مفتوح ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ جب تو نے اپنی سوچ کو تبدیل کر لیا، ایک نیا ذہنی رویہ اختیار کر لیا، اپنے تصورات اور ارادوں اور اپنے ماضی کے منطقی استدلال کو الٹ دیا، اپنے اندر گہری جڑ پکڑی ہوئی چیزوں کو رد کر دیا، اور خدا پر ایمان کا ایک نیا علم حاصل کر لیا، تو تیری گواہیوں کا رتبہ بلند ہو جائے گا، اورتیرا پورا وجود صحیح معنوں میں تبدیل ہو چکا ہو گا۔ یہ سب سے زیادہ عملی، سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ، اور سب سے بنیادی چیزیں ہیں – وہ چیزیں جنہیں لوگ ماضی میں نہیں سمجھ سکتے تھے، اور وہ چیزیں جن کے ساتھ وہ مشغول ہونے کے قابل نہیں تھے۔ وہ روح کا حقیقی کام ہیں۔ ماضی میں تو انجیل کو آخر کس طرح سمجھتا تھا؟ اس کا آج کے ساتھ موازنہ کر اور تجھے معلوم ہو جائے گا۔ ماضی میں تو نے موسیٰ، پطرس، پولس، یا ان تمام انجیلی بیانات اور نقطہ نظر کو ذہنی طور پر بلند کیا، اور انھیں اعلیٰ و ارفع سمجھا۔ اب، اگر تجھ سے انجیل کو اعلیٰ و ارفع سمجھنے کو کہا جائے، تو کیا تو ایسا کرے گا؟ تو دیکھے گا کہ انجیل میں انسان کے لکھے ہوئے بہت سے مندرجات موجود ہیں، اور یہ کہ انجیل صرف انسان کا خدا کے کام کے دو مراحل کا حساب ہے۔ یہ ایک تاریخ کی کتاب ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے بارے میں تیرا علم بدل گیا ہے؟ اگر تو آج متّی کی انجیل میں دیے گئے یسوع کے نسب نامے کو دیکھے تو تو کہے گا، "یسوع کا نسب نامہ؟ بکواس! یہ یوسف کا نسب نامہ ہے، یسوع کا نہیں۔ یسوع اور یوسف کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔" جب تو انجیل کو اب دیکھتا ہے، تو اس کے بارے میں تیرا علم مختلف ہے، یعنی ترا نقطہ نظر بدل گیا ہے، اور تو مذہب کے بڑے علماء کے مقابلے میں اس میں علم کی ایک اعلیٰ سطح لاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس نسب نامے میں کوئی چیز ہے تو تو جواب دے گا، "اس میں کیا ہے؟ چلو، وضاحت کرو۔ یسوع اور یوسف کا آپس میں تعلق ہی نہیں ہے۔ کیا تو یہ نہیں جانتا؟ کیا یسوع کا نسب نامہ ہو سکتا ہے؟ یسوع کے آباؤ اجداد کیسے ہو سکتے ہیں؟ وہ انسان کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جسم مریم سے پیدا ہوا تھا؛ اس کی روح خدا کی روح ہے، انسان کی روح نہیں ہے۔ یسوع خدا کا پیارا بیٹا ہے، تو کیا اس کا نسب نامہ ہو سکتا ہے؟ زمین پر رہتے ہوئے وہ بنی نوع انسان کا فرد نہیں تھا تو اس کا نسب نامہ کیسے ہو سکتا ہے؟" جب تو شجرہ نسب کا تجزیہ کرے گا اور اندرونی حقیقت کو واضح طور پر بیان کرے گا تو جو کچھ تو سمجھ چکا ہے اس کا اشتراک کرے گا، تو وہ شخص خاموش ہو کر رہ جائے گا۔ کچھ لوگ انجیل کا حوالہ دیں گے اور تجھ سے پوچھیں گے، "یسوع کا نسب نامہ تھا۔ کیا تیرے آج کے خدا کا نسب نامہ ہے؟" اس کے بعد تو انہیں اپنے علم کے بارے میں بتائے گا، جو سب سے زیادہ حقیقی ہے، اور اس طرح تیرے علم کا اثر ہو گا۔ حقیقت میں، یسوع یوسف کا رشتے دار نہیں تھا، ابراہام کا تو بالکل بھی نہیں؛ وہ صرف اسرائیل میں پیدا ہوا تھا۔ خدا، تاہم، اسرائیلی یا بنی اسرائیل کی اولاد نہیں ہے۔ اسرائیل میں پیدا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے۔ یہ صرف اس کے کام کی خاطر تھا کہ اس نے مجسم ہونے کا کام انجام دیا۔ خدا پوری کائنات میں تمام مخلوقات کا خدا ہے۔ اس نے صرف پہلے اسرائیل میں اپنے کام کا ایک مرحلہ انجام دیا، جس کے بعد اس نے غیر قوموں کے درمیان کام کرنا شروع کیا۔ تاہم، لوگ یسوع کو بنی اسرائیل کا خدا سمجھتے تھے، اور اس کے علاوہ اس کا شمار بنی اسرائیل اور داؤد کی اولاد میں کرتے تھے۔ انجیل کہتی ہے کہ ایام کے آخر میں، یہوواہ کا نام غیر قوموں میں عظیم ہو گا، یعنی خُدا آخری ایام میں غیر قوموں کے درمیان کام کرے گا۔ اور یہ کہ خدا کی تجسیم یہودیہ میں ہوئی اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خدا صرف یہودیوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ یہ کام کی ضرورت تھی؛ ایسا نہیں ہے کہ خدا صرف اسرائیل میں ہی مجسم ہو سکتا تھا (کیونکہ بنی اسرائیل اس کے چنے ہوئے لوگ تھے)۔ کیا غیر قوموں میں بھی خدا کے چنے ہوئے لوگ نہیں پائے جاتے؟ جب یسوع نے یہودیہ میں کام ختم کیا تو یہ کام غیر یہودی قوموں تک پھیل گیا۔ (اسرائیلیوں نے اسرائیل کے علاوہ تمام قوموں کو "غیر قومیں" کہا) حقیقت میں، ان غیر یہودی قوموں میں بھی خدا کے چنے ہوئے لوگ تھے؛ بس صرف اتنا تھا کہ اس وقت تک وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ لوگوں نے اسرائیل پر اتنا زور دیا کیونکہ کام کے پہلے دو مراحل اسرائیل میں ہوئے تھے جبکہ غیر قوموں میں کوئی کام نہیں کیا جا رہا تھا۔ غیر قوموں کے درمیان کام آج ہی شروع ہو رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اسے قبول کرنا اتنا مشکل لگتا ہے۔ اگر تو اس سب کو واضح طور پر سمجھ سکتا ہے، اگر تو اس کو صحیح طریقے سے تسلیم کرنے اور اس پر غور کرنے کے قابل ہے تو تجھے آج اور ماضی کے خدا کا درست علم ہو جائے گا، اور یہ نیا علم پوری تاریخ میں تمام برگزیدہ بندوں کے پاس خدا کے بارے میں علم سے زیادہ بلند ہوگا۔ اگر تو آج کے کام کا عملی تجربہ کرتا ہے اور آج خدا کا ذاتی کلام سنتا ہے، پھر بھی خدا کے مکمل ہونے کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا ہے، اور تیری کوشش اسی طرح رہتی ہے جیسے کہ ہمیشہ تھی اور کسی نئی چیز سے تبدیل نہیں ہوتی ہے، خاص طور پر اگر تو فتح کے اس سب کام کا عملی تجربہ کرتا ہے، پھر بھی تجھ میں آخرکار کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ہے، تو کیا تیرا ایمان ان لوگوں جیسا نہیں ہے جو صرف اپنی بھوک مٹانے کے لیے روٹی تلاش کرتے ہیں؟ اس صورت میں فتح کے کام کا تجھ پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ تو کیا تو ان لوگوں میں سے نہیں بنے گا جو رد کیے جانے والے ہیں؟
جب فتح کا تمام کام ختم ہو جائے گا تو یہ بہت ضروری ہے کہ تم سب سمجھو کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات کا خدا ہے۔ اس نے صرف بنی اسرائیل کو ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کو پیدا کیا ہے۔ اگر تو کہتا ہے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے یا یہ کہ خدا کا اسرائیل سے باہر کسی قوم میں مجسم ہونا ناممکن ہے، تو پھر فتح کے کام کے دوران تو نے ابھی تک کوئی علم حاصل ہی نہیں کیا ہے، اور تو یہ بالکل بھی تسلیم نہیں کرتا ہے کہ خدا تیرا خدا ہے؛ تو صرف یہ تسلیم کرتا ہے کہ خدا اسرائیل سے چین منتقل ہوا ہے اور اسے تیرا خدا بننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اگر تو اب بھی چیزوں کو اسی طرح دیکھتا ہے، تو تجھ میں میرا کام بے ثمر رہا ہے، اور تجھے میری کہی ہوئی ایک بھی بات سمجھ نہیں آئی ہے۔ اگر، بالآخر، تو میرے لیے ایک اور نسب نامہ لکھتا ہے جیسا کہ متّی نے کیا تھا، میرے لیے مناسب آباؤ اجداد کا پتہ لگاتے ہوئے، میرے صحیح مورث کو تلاش کرتے ہوئے – اس طرح کہ خدا کے پاس اپنی دو تجسیموں کے لیے دو نسب نامے ہوں – تو کیا یہ دنیا کا سب سے بڑا مذاق نہیں ہوگا؟ کیا تو، یہ "نیک نیت شخص" جس نے میرے نسب نامے کو تلاش کیا، خدا کو تقسیم کرنے والا نہیں بن گیا ہے؟ کیا تو اس گناہ کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ فتح کے اس تمام کام کے بعد، اگر تو اب بھی یہ نہیں مانتا کہ خدا تمام مخلوقات کا خدا ہے، اگر تو اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے، تو کیا تو ایک ایسا شخص نہیں ہے جو کھلم کھلا خدا کی مزاحمت کرتا ہے؟ آج تجھے فتح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تو یہ تسلیم کرے کہ خدا تیرا خدا ہے اور دوسروں کا بھی خدا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ان سب کا خدا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں، اور وہ سب مخلوقات کا خدا ہے۔ وہ بنی اسرائیل کا خدا ہے اور مصر کے لوگوں کا خدا ہے۔ وہ انگریزوں کا خدا ہے اور امریکیوں کا خدا ہے۔ وہ صرف آدم اور حوا کا ہی خدا نہیں ہے بلکہ ان کی تمام اولادوں کا بھی خدا ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا خدا ہے۔ تمام خاندان، خواہ وہ اسرائیلی ہوں یا غیر یہودی قوم، سب ایک خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ نہ صرف اس نے اسرائیل میں کئی ہزار سال تک کام کیا تھا اور ایک بار یہودیہ میں پیدا ہوا تھا، بلکہ آج وہ چین میں نازل ہوا ہے، اس جگہ جہاں عظیم سرخ اژدہا کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اگر یہودیہ میں پیدا ہونا اسے یہودیوں کا بادشاہ بناتا ہے تو کیا آج اس کا تم سب کے درمیان نازل ہونا اسے تم سب کا خدا نہیں بناتا؟ اس نے بنی اسرائیل کی قیادت کی اور یہودیہ میں پیدا ہوا، اور وہ غیر یہودی قوموں میں بھی پیدا ہو چکا ہے۔ کیا اس کا تمام کام پوری نوع انسانی کے لیے نہیں کیا گیا ہے جو اس نے تخلیق کی ہے؟ کیا وہ بنی اسرائیل سے سو گنا محبت کرتا ہے اور غیر یہودی قوموں سے ہزار گنا نفرت کرتا ہے؟ کیا یہ تمہارا تصور نہیں ہے؟ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ خدا کبھی تمہارا خدا نہیں تھا، بلکہ صرف یہ ہے کہ تم اسے تسلیم نہیں کرتے ہو؛ ایسا نہیں ہے کہ خدا تمہارا خدا بننے کو تیار نہیں ہے، بلکہ صرف یہ ہے کہ تم اسے مسترد کر دیتے ہو۔ مخلوقات میں سے کون ہے جو خدا کے قابو میں نہیں ہے؟ آج تمہیں فتح کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ تم یہ تسلیم کرو کہ تمہارے خدا کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں ہے؟ اگر تم اب بھی اس بات پر برقرار رہتے ہو کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے، اور اب بھی اس پر برقرار رہتے ہو کہ اسرائیل میں داﺆد کا گھرانہ خدا کی پیدائش کا منبع ہے، اور اسرائیل کے علاوہ کوئی بھی قوم خدا کو "پیدا کرنے" کی اہل نہیں ہے، اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کسی غیر یہودی قوم کا خاندان ذاتی طور پر یہوواہ کے کام کو قبول کرنے کے قابل ہو – اگر تو اب بھی اسی طرح سوچتا ہے، تو کیا یہ تجھے ایک ضدی مزاحمت کرنے والا نہیں بناتا؟ ہمیشہ اسرائیل سے غیر معمولی لگاﺆ نہ رکھو۔ خدا آج یہاں تمہارے درمیان ہے۔ نہ ہی تمہیں آسمان کی طرف دیکھتے رہنا چاہیے۔ اپنے خدا کے لیے حسرت سے آسمان میں دیکھنا بند کر دو! خدا تمہارے درمیان آ چکا ہے تو وہ آسمان پر کیسے ہو سکتا ہے؟ تو نے خدا پر بہت طویل عرصے سے ایمان نہیں رکھا ہے، پھر بھی تو اس کے بارے میں بہت زیادہ تصورات رکھتا ہے، یہاں تک کہ تو ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے کی ہمت نہیں کرتا کہ بنی اسرائیل کا خدا تمہیں اپنی موجودگی کا شرف عطا کرے گا۔ اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ تم کتنی ناقابل برداشت حد تک غلیظ ہو، تمہارے لیے یہ سوچنے کی ہمت کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے کہ تم خدا کو ذاتی ظاہری شکل میں کیسے دیکھ سکتے ہو۔ نہ ہی تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ خدا کس طرح ذاتی طور پر غیر قوموں کی سرزمین میں نازل ہو سکتا ہے۔ اسے کوہ سینا یا زیتون کے پہاڑ پر نازل ہو کر بنی اسرائیل پر ظاہر ہونا چاہیے۔ کیا غیر قومیں (یعنی اسرائیل سے باہر کے لوگ) تمام اس کی نفرت کی چیزیں نہیں ہیں؟ وہ ذاتی طور پر ان کے درمیان کیسے کام کر سکتا ہے؟ یہ سب گہری جڑیں پکڑے ہوئے تصورات ہیں جو تم نے کئی سالوں میں تیار کیے ہیں۔ آج تمہیں فتح کرنے کا مقصد تمہارے ان تصورات کو توڑنا ہے۔ اس طرح تم اپنے درمیان خدا کا ذاتی ظہور دیکھتے ہو – کوہ سینا یا زیتون کے پہاڑ پر نہیں، بلکہ ان لوگوں کے درمیان جن کی اس نے پہلے کبھی راہنمائی نہیں کی۔ جب خدا نے اسرائیل میں اپنے کام کے دو مراحل کو انجام دیا، اسرائیلی اور تمام غیر یہودی قومیں یکساں طور پر اس خیال کو ذہن میں رکھتی ہیں کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کو تخلیق کیا ہے، لیکن اس کی مرضی صرف اسرائیلیوں کا خدا بننا ہے، غیر یہودی قوموں کا خدا نہیں۔ اسرائیلی مندرجہ ذیل باتوں پر یقین رکھتے ہیں: خدا صرف ہمارا خدا ہو سکتا ہے، تم غیر یہودی قوموں کا خدا نہیں، اور چونکہ تم یہوواہ کی تعظیم نہیں کرتے ہو، اس لئے یہوواہ – ہمارا خدا – تم سے نفرت کرتا ہے۔ وہ یہودی لوگ مندرجہ ذیل باتوں پر بھی یقین رکھتے ہیں: خُداوند یسوع نے ہم یہودی لوگوں کی شبیہ اختیار کی اور وہ ایک ایسا خدا ہے جو یہودی لوگوں کا نشان رکھتا ہے۔ یہ ہمارے درمیان ہے کہ خدا کام کرتا ہے۔ خدا کی شبیہ اور ہماری صورت ایک جیسی ہے۔ ہماری شبیہ خدا کی شبیہ سے ملتی جلتی ہے۔ خداوند یسوع ہم یہودیوں کا بادشاہ ہے؛ غیر یہودی قومیں ایسی عظیم نجات حاصل کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ خداوند یسوع ہم یہودیوں کے لیے گناہ کا کفارہ ہے۔ یہ صرف کام کے ان دو مراحل کی بنیاد پر تھا کہ بنی اسرائیل اور یہودی لوگوں نے ان تمام تصورات کو تشکیل دیا۔ وہ متکبرانہ انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا ان کے لیے ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ خدا غیر یہودی قوموں کا بھی خدا ہے۔ اس طرح خدا غیر یہودی قوموں کے دلوں میں ایک خلا بن گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کسی نے اس بات پر یقین کر لیا ہے کہ خدا غیر یہودی قوموں کا خدا نہیں بننا چاہتا ہے اور وہ صرف اسرائیلیوں کو ہی پسند کرتا ہے – اپنے چنے ہوئے لوگوں کو – اور یہودی لوگ، خاص طور پر ان پیروکاروں کو جنھوں نے اس کی پیروی کی۔ کیا تو نہیں جانتا کہ جو کام یہوواہ اور یسوع نے کیا وہ تمام بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ہے؟ کیا تو اب تسلیم کرتا ہے کہ خدا تم سب کا بھی خدا ہے جو اسرائیل سے باہر پیدا ہوئے ہیں؟ کیا خدا آج تمہارے درمیان نہیں ہے؟ یہ خواب نہیں ہو سکتا، کیا ہو سکتا ہے؟ کیا تم اس حقیقت کو قبول نہیں کرتے ہو؟ تم اس پر یقین کرنے یا اس کے بارے میں سوچنے کی ہمت ہی نہیں کرتے۔ اس سے قطع نظر کہ تم اسے کس طرح دیکھتے ہو، کیا خدا یہاں تمہارے درمیان نہیں ہے؟ کیا تم اب بھی ان الفاظ پر یقین کرنے سے ڈرتے ہو؟ اس دن سے، کیا تمام مفتوحہ لوگ اور وہ سب جو خدا کے پیروکار بننا چاہتے ہیں، خدا کے چنے ہوئے لوگ نہیں ہیں؟ کیا تم سب، جو آج پیروی کرتے ہو، اسرائیل سے باہر کے منتخب لوگ نہیں ہو؟ کیا تمہاری حیثیت بنی اسرائیل جیسی نہیں ہے؟ کیا یہ سب کچھ وہ نہیں ہے جسے تمہیں پہچاننا چاہئے؟ کیا یہ تمہیں فتح کرنے کے کام کا مقصد نہیں ہے؟ چونکہ تم خدا کو دیکھ سکتے ہو، وہ ہمیشہ کے لیے، شروع سے لے کر اور مستقبل تک تمہارا خدا رہے گا۔ وہ تمہیں نہیں چھوڑے گا، جب تک کہ تم سب اس کی پیروی کرنے اور اس کی وفادار، فرمانبردار مخلوق بننے کے لیے تیار ہو۔
اس سے قطع نظر کہ لوگ خدا سے محبت کرنے کی کتنی خواہش رکھتے ہیں، وہ آج تک اس کی پیروی میں عام طور پر فرمانبردار رہے ہیں۔ اور آخر تک، جب تک کام کا یہ مرحلہ ختم نہیں ہو جاتا، وہ مکمل طور پر توبہ نہیں کریں گے؟ یہ تب ہی ہو گا جب لوگ حقیقی معنوں میں فتح کر لیے جائیں گے۔ اس وقت تو وہ صرف فتح ہونے کے عمل میں ہیں۔ جس لمحے کام ختم ہو جائے گا، وہ مکمل طور پر فتح ہو جائیں گے، لیکن فی الحال ایسا معاملہ نہیں ہے! یہاں تک کہ اگر سب قائل ہیں تو پھر بھی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پر فتح ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت لوگوں نے حقیقی واقعات نہیں بلکہ صرف الفاظ ہی دیکھے ہیں، اور چاہے وہ کتنا ہی گہرا یقین کیوں نہ رکھتے ہوں، وہ بے یقینی کا شکار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا صرف اس آخری حقیقتی واقعہ کے ساتھ ہی ہے کہ کلام کے حقیقت بننے سے، لوگوں کو مکمل طور پر فتح کیا جائے گا۔ ابھی، یہ لوگ فتح ہو رہے ہیں کیونکہ وہ بہت سے اسرار سنتے ہیں جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں سنے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کے اندر، وہ ابھی تک دیکھ رہے ہیں اور کچھ حقیقی واقعات کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ خدا کے ہر لفظ کو حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھ سکیں۔ صرف تب ہی وہ پوری طرح قائل ہوں گے۔ صرف اس صورت میں جب، آخر میں، سب نے ان حقیقی سچائیوں کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ لیا ہو گا، اور ان حقائق نے انہیں یقین دلا دیا ہو گا، تو وہ اپنے دلوں، اپنی باتوں اور اپنی آنکھوں سے قائل ہونے کا اظہار کریں گے، اور اپنے دل کی گہرائیوں سے پوری طرح سے قائل ہو جائیں گے۔ انسان کی فطرت ایسی ہی ہے: تمہیں الفاظ کو حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے، تمہیں کچھ حقائق پر مبنی واقعات کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے اور کچھ لوگوں پر نازل ہونے والی تباہی کو دیکھنے کی ضرورت ہے، اور پھر تم اندرونی طور پر پوری طرح سے قائل ہو جاﺆ گے۔ یہودیوں کی طرح تم نشانیوں اور معجزات کو دیکھنے میں مشغول ہو۔ اس کے باوجود تم یہ دیکھنے میں مسلسل ناکام رہتے ہو کہ نشانیاں اور معجزات موجود ہیں اور وہ حقیقتیں رونما ہو رہے ہیں جن کا مقصد تمہاری آنکھیں زیادہ کھولنا ہے۔ خواہ کوئی آسمان سے نازل ہو رہا ہو، یا بادلوں کا کوئی ستون تم سے باتیں کر رہا ہو، یا تم میں سے کسی ایک پر میرا دافع بلیات کا عمل کرنا ہو، یا میری آواز تمہارے درمیان گرج کی طرح بلند ہو رہی ہو، تم ہمیشہ سے اس قسم کے واقعے کو دیکھنا چاہتے تھے اور ہمیشہ دیکھنا چاہو گے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا پر ایمان لانے کے لیے، تمہاری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ تم خدا کو آتے ہوئے دیکھو اور وہ تمہیں ذاتی طور پر کوئی نشانی دکھائے۔ تب تم مطمئن ہو جاﺆ گے۔ تم لوگوں کو فتح کرنے کے لیے مجھے زمین و آسمان کی تخلیق جیسا کام کرنا ہے اور پھر اس کے علاوہ کوئی نشانی بھی دکھانی ہے۔ پھر، تمہارے دلوں کو مکمل طور پر فتح کیا جائے گا۔