استعداد بڑھانا خدا کی طرف سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہے

لوگوں کی استعداد بڑھانے سے مراد یہ ہے کہ تمہیں اپنی قوت فہم میں بہتری درکار ہے تاکہ تم خدا کا کلام سمجھ سکو اور جان سکو کہ اس پر عمل کیسے کیا جائے۔ یہ سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ اگر تم لوگ میری بات کو سمجھے بغیر میری پیروی کرو گے تو کیا تمہارا ایمان گڈمڈ نہیں ہو گا؟ چاہے میں کتنے ہی الفاظ کہہ دوں، اگر وہ تمہاری دسترس سے باہر ہیں، چاہے میں کچھ بھی کہوں، اگر تم اسے بالکل نہیں سمجھ سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں کی استعداد بہت پست ہے۔ قوت فہم کے بغیر، تم لوگ میری کہی ہوئی کوئی بھی بات نہیں سمجھ سکتے، جو کہ مطلوبہ اثر حاصل کرنے کو بہت مشکل بنا دیتا ہے؛ بہت کچھ ہے جو میں تم لوگوں سے براہ راست نہیں کہہ سکتا، اور مطلوبہ اثر حاصل نہیں ہو سکتا، یوں اضافی کام کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ کیوں کہ تم لوگوں کی قوت فہم، تمہاری چیزوں کو دیکھنے کی قابلیت، اورجن معیارات کے مطابق تم زندگی گزارتے ہو، بہت ناقص ہیں، تم لوگوں پر استعداد بڑھانے کا کام ہونا لازمی ہے۔ یہ ناگزیر ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں۔ صرف اسی طریقے سے کچھ اثر حاصل کیا جا سکتا ہے، ورنہ وہ تمام باتیں جو میں کہوں گا، وہ لا حاصل ہیں۔ اور کیا تم سب پھر تاریخ میں گنہگار نہیں گردانے جاؤ گے؟ کیا تم لوگ زمین کی غلاظت نہیں بن جاؤ گے؟ کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ تم لوگوں میں کون سا کام کیا جا رہا ہے اور تم سے کیا مطلوب ہے، تم لوگوں کو اپنی استعداد کا علم ہونا چاہیے۔ وہ قطعاً میرے مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔ اور کیا یہ میرے کام میں تاخیر پیدا نہیں کرتا؟ تمہاری موجودہ استعداد پر اور موجودہ کردار کی حالت کی بنیاد پر، تم میں سے ایک بھی گواہی دینے کے لیے موزوں نہیں ہے، نہ ہی تم میں سے کوئی میرے مستقبل کے کام کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے کے قابل ہے۔ کیا تم لوگ انتہائی شرمندگی محسوس نہیں کرتے؟ اگر تم ایسے ہی چلتے رہے، تو میری مرضی کی تکمیل کیسے کرو گے؟ تمہیں اپنی زندگی بھرپور جینی چاہیے۔ وقت کو بیکار نہ گزرنے دو – ایسا کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہیں کن چیزوں سے آراستہ رہنا چاہیے۔ اپنے آپ کو ہر فن مولا مت سمجھو—تم نے تو ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے! اگر تم انسانیت کے کم ازکم عام احساس کے حامل بھی نہیں، تو پھر مزید کیا کہنے کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ کیا یہ سب بیکار نہیں؟ جہاں تک مجھے مطلوب انسانیت اور استعداد کا تعلق ہے، تم میں سے ایک بھی مکمل طور پر اہل نہیں۔ استعمال کے لیے کوئی موزوں شخص تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔ تم لوگ خود میرے لیے اس سے بھی بڑے کام کرنے ، اور تمہیں میری طرف سے اس سے بھی بھاری ذمہ داریاں سونپے جانے کا کے اہل سمجھتے ہو ؛ دراصل تم لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ تمہاری نظروں کے سامنے جو کئی اسباق ہیں ان میں داخل کیسے ہونا ہے – تو بھلا تم مزید گہری سچائیوں میں کیسے داخل ہو سکتے ہو؟ تمہارا داخلہ کثیر السطحی طور پر اور درجہ بہ درجہ ہونا چاہیے۔ اس میں افراتفری نہیں ہونی چاہیے – اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ سب سے کم گہرائی سے داخل ہونا شروع کرو: یہ کلام سطر بہ سطر پڑھو جب تک تمہیں فہم اور وضاحت نہ حاصل ہو جائے۔ جب تم خدا کے کلام کو پڑھو، تو یوں نہیں کہ محض سرسری طور پر اس سے گزر جاؤ، کہ جیسے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار سرپٹ دوڑتے ہوئے پھولوں کی خوبصورتی کو سراہتے ہوئے بس جنبش حرکت میں مگن چلے جاؤ۔ اپنی معلومات میں اضافے کے لیے تم باقاعدہ طور پر کچھ حوالہ جاتی کتب کا مطالعہ کر سکتے ہو (جیسے کہ قواعد یا شوکت الفاظ پر مبنی کتب)۔ ان کتابوں کا مطالعہ نہ کرو جو رومانوی داستانیں ہوں، عظیم اشخاص کی سوانح حیات ہوں یا معاشرتی علوم پر مبنی ہوں؛ یہ قطعاً کسی فائدے کی نہیں، اور صرف نقصان ہی پہنچا سکتی ہیں۔ آپ کو ایسی ہر چیز پر عبور حاصل کرنا اور سمجھنا ضروری ہے جس میں آپ کو داخل ہونا ہو۔لوگوں کی استعداد بہتر بنانے کا مقصد انہیں ان کے اپنے جوہر، شناخت، مرتبے اور قدر کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ تمہیں سمجھنا چاہیے کہ لوگوں کے لیے خدا پر ایمان میں سچائی کی جستجو کیوں ضروری ہے اور آیا لوگوں کے لیے یہ قابل قبول ہے کہ وہ اپنی استعداد بہتر نہ بنائیں۔ یہ ضروری ہے کہ تم خود کو تعلیم سے آراستہ رکھو؛ تم ہرگز اسے پھینک نہیں دینا۔ تمہارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لوگوں کی استعداد بڑھانا کیوں لازمی ہے، اسے کیسے بڑھایا جائے، اور کونسے پہلوؤں سے داخل ہونا چاہیے۔ تمہیں لازماً سمجھنا چاہیے کہ معمول کی انسانیت کی زندگی گزارنے کی اہمیت کیا ہے، یہ کام کرنا کیوں لازمی ہے، اور انسان کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مثلاً تعلیم یافتہ بننے کے لیے، تم لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ کونسے پہلوؤں کا مطالعہ کیا جائے، اور کیسے کوئی ان میں داخل ہو سکتا ہے۔ تم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیم یافتہ بننے کا مقصد کیا ہے۔ کیا یہ نہیں کہ خدا کا کلام سمجھا جائے اور سچائی میں داخل ہوا جائے؟ آج تمام گرجا گھروں میں کس چیز کا غلبہ ہے؟ لوگوں کا خود کو تعلیم یافتہ بنانا انہیں خدا کے کلام کا لطف بھلا دینے کا سبب بن رہا ہے، اور وہ سارا دن کچھ نہیں کرتے، سوائے تعلیم حاصل کرنے کے۔ اگر تمہیں ان سے مطلوب ہو کہ وہ عام انسانیت جیسی زندگی گزاریں، تو وہ صرف اپنے گھر کی صفائی، کھانا پکانے یا برتن خریدنے میں دھیان لگائیں گے۔ ان کی سوچ کا واحد مرکز صرف یہی چیزیں ہوں گی؛ وہ تو گرجا گھر کی ایک معمول کی زندگی گزارنے کے طریقے سے بھی بے خبر ہوں گے۔ اگر تم خود کو موجودہ حالات میں پاتے ہو، تو تم اپنی عملی زندگی میں اپنے عمل میں گمراہ ہو گئے ہو۔ تو پھر تمہیں روحانی زندگی میں داخل ہونے کے لئے کیوں کہا جاتا ہے؟ محض ان چیزوں کا سیکھنا تمہیں اس قابل نہیں چھوڑے گا کہ تم اسے حاصل کرو جو تم سے مطلوب ہے۔زندگی میں داخل ہونا اب بھی سب سے اہم ہے؛ اس کام کو کرنے کی وجہ، اس دوران، لوگوں کو اپنے تجربات میں پیش آنے والی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ اپنی استعداد بڑھانے سے تمہیں انسانی فطرت اور انسان کے جوہر کا علم حاصل ہوتا ہے، جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی روحانی زندگی میں بڑھوتری آئے اور ان کا مزاج تبدیل ہو۔ شاید تمہیں پہننے اوڑھنے کا اور اچھا نظر آنے کا سلیقہ آتا ہو، تم شاید صاحب بصیرت اور ہوشیار بھی ہو، اس کے باوجود آخر کار جب وہ دن آتا ہے کہ تمہیں کام پر جانا ہے، تم نہیں جا پاتے۔ اسی طرح تمہیں اس بات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ اپنی استعداد بڑھانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ مقصد تمہیں تبدیل کرنا ہے؛ تمہاری استعداد میں بہتری اضافی ہے۔ اگر تمہاری استعدادبہتر نہیں بنائی جاتی تو کام نہیں بنے گا اور اگر تمہارا مزاج تبدیل نہیں کیا گیا، تو یہ اس سے بھی بدتر ہوگا۔ ان میں سے کوئی بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ معمول کی انسانیت کا حامل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تم نے شاندار گواہی دے دی ہے—تم سے جو مطلوب ہے وہ اتنا سادہ نہیں۔

صرف اس وقت، جبکہ لوگوں کی استعداد اس حد تک بڑھائی جاچکی ہو کہ وہ معمول کی انسانیت کے ساتھ لوگوں کے طرز زندگی کا فہم حاصل کر لیں اور زندگی میں داخل بھی ہو چکے ہوں – تب ہی ان میں قابل ذکر تبدیلیاں اور گواہیاں ہوں گی۔ جب تمہارے لیے گواہی دینے کا دن آئے، تو تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنی انسانی زندگی میں تبدیلیوں اور خدا کے علم کا بھی کا بھی ذکر کرو، جو تم میں ہے۔ صرف ان دو پہلوؤں کا مجموعہ ہی تمہاری سچی گواہی اور تمہاری حاصل کھیتی ہے۔ یہ کافی نہیں کہ تمہاری انسانیت اوپری طور پر تبدیل ہو جائے مگر تمہیں اندر سے کوئی سمجھ نہ ہو، نہ ہی یہ کافی ہے کہ تم اندر سے تو فہم حاصل کرلو لیکن بالآخر عام انسانوں کی سی زندگی گزارنے کو نظرانداز کر دو۔ تم پر جو آج کام کیا گیا ہے وہ دکھاوے کے لیے نہیں، بلکہ تمہیں تبدیل کرنے کے لیے ہے۔ تمہیں صرف خود کو تبدیل کرنے پر دھیان دینا ہے۔تمھاری روزمرہ زندگی میں لکھنے اور سننے کے علاوہ کچھ نہ ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں؛ تمہارا ہر پہلو میں داخل ہونا ضروری ہے۔ تمہیں ایک درویش جیسی عام زندگی گزارنی چاہیے۔ بہت سی بہنیں، نوجوان خواتین جیسا، اور برادر حضرات اشرافیہ یا اہم شخصیات جیسا لباس زیب تن کرتے ہیں، وہ درویشوں کے آداب سے بالکل عاری ہوتا ہے کسی شخص کی استعداد بہتر بنانے کے لیے یہ ایک چیز ہے – اسے اتفاقاً حاصل کیا جا تا ہے۔ خدا کا کلام کھانا اور پینا ایک اور بات ہے – یہی چیز کلیدی ہے۔ اگر تمہاری صلاحیت بڑھائی گئی تھی لیکن استعمال میں نہ لانے کے سبب وہ بیکار گئی، کیونکہ تم نے خدا کا کلام کھا، پی کر ہضم نہیں کیا تو کیا تم نے سیکھنے کی محنت ضائع نہیں کر دی ؟ دونوں پہلوؤں کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا کا علم درمیان میں کیوں لائیں جب ذکر اس کا ہو رہا ہے جو تم سے مطلوب ہے۔ کیا کام نتائج لانے کے لیے نہیں ہونا چاہیے؟ کیا یہ کام کی سے حاصل ہونے والے نتائج کی بدولت نہیں ہے؟ تمہارے فتح کر لیے جانے کے بعد، تمہیں اپنے تجربات سے گواہی دینے کے قابل ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تمہارا ظاہر معمول کی انسانیت جیسا ہو، مگر انجام یوں ہو کہ تم اپنے تجربات کو الفاظ میں نہ ڈھال سکو۔ معمول کی روحانی زندگی ہونے کے ساتھ ہی، تمہیں معمول کی انسانیت بھی حاصل کرنی چاہیے، جس کے کئی پہلو اتفاقی طور پر ہی سیکھنے میں آئیں گے۔ تمہارے خیال میں فرش پر جھاڑو لگانے کے لیے کوئی خاص مشق درکار ہے؟ ایک گھنٹا اس مشق میں صرف کرنا کہ کھاتے ہوئے چوپ اسٹک (چینی کانٹے) کو کیسے پکڑنا ہے، اس سے بھی بدتر ہے۔ معمول کی انسانیت میں کون سے پہلو شامل ہیں؟ بصیرت ، احساس، ضمیر اور کردار۔ اگر تم ان میں سے ہر ایک پہلو میں معمول حاصل کر لیتے ہو، تو تمہاری انسانیت برابری کےمقام پر آجائے گی۔ تم میں ایک عام انسان کی مشابہت ہونی چاہیے، تمہیں خدا کو ماننے والے جیسا لگنا چاہیے۔ تمہیں بہت زیادہ حاصل کرنے یا سفارت کاری میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں، تمہیں صرف ایک عام انسان بننا ہے، ایک عام شخص کی قوت ادراک کے ساتھ، چیزوں کی اصلیت دیکھنے کے قابل ہونا ہے، اور کم از کم ایک عام انسان کی طرح نظر آنا ہے۔ یہ کافی ہو گا۔ تم سے آج جو بھی مطلوب ہے وہ تمہاری اہلیت کی حدود کے اندر ہے؛ یہ ہتھیلی پہ سرسوں جمانے جیسا ناممکن نہیں۔ کوئی غیر ضروری الفاظ یا غیر ضروری کام تمہارے اوپر نہیں کیا جائے گا۔ تمہاری زندگی میں آشکار یا ظاہر ہونے والی تمام تربدنمائی سے چھٹکارا حاصل کرنا لازمی ہے۔ تم لوگوں کو شیطان نے فاسد کر دیا ہے اور اس کے زہر سے لبالب بھرے ہوئے ہو۔ تم سے جو کچھ مانگا گیا ہے وہ بس یہ ہے کہ اس فاسد شیطانی مزاج سے چھٹکارا حاصل کرلو۔ تم سے یہ نہیں مانگا جا رہا کہ تم کوئی اعلیٰ درجے کی شخصیت یا کوئی مشہور یا عظیم شخص بن جاؤ۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم لوگوں پر جو کام کیا جاتا ہے، وہ تم میں جو مضمر ہے، اسے خاطر میں لاتے ہوئے ہی کیا جاتا ہے۔ جو میں لوگوں سے مانگتا ہوں، وہ حدود کے اندر متعین ہے۔ یوں نہیں چلے گا کہ تم دانشوروں کے لہجے میں بات کرو اور ان کے راستے پر عمل کرو؛ تم یہ کر نہیں سکو گے۔ تم لوگوں کی صلاحیت کے مطابق، تمہیں کم از کم اس قابل ہونا چاہیے کہ دانش مندی اور سلیقے سے بات کر سکو اور چیزوں کو واضح اور قابل فہم انداز میں سمجھا سکو۔ مطلوبہ لوازمات کو پورا کرنے کے لیے یہ کافی ہے—تم کم از کم بصیرت اور احساس ہی حاصل کر لو تو بھی قابل قبول ہے۔ اس وقت جو سب سے اہم نکتہ ہے، وہ یہ ہے کہ اپنا فاسد شیطانی مزاج رد کرو۔ تم لازماً اس بدنمائی کو ترک کرو جو تم میں ظاہر ہوتی ہے—اگر تم ان کو ترک نہیں کرتے، تو تم اعلیٰ ترین احساس اور اعلیٰ ترین بصیرت کے بارے میں کیسے بات کر سکتے ہو؟ بدلے ہوئے دور کو دیکھتے ہوئے، بہت سے لوگ عاجزی اور صبر سے بالکل عاری ہیں اور شاید ان میں محبت اور درویشوں والے آداب بھی نہ موجود ہوں۔ کتنے نامعقول ہیں ایسے لوگ ! کیا ان میں رتی برابر بھی معمول کی انسانیت ہے؟ کیا ان کے پاس کوئی قابل ذکر گواہی ہے؟ وہ بالکل ہی بصیرت اور احساس کے بغیر ہیں۔ بیشک، لوگوں کے طرز عمل کے کچھ پہلو، جو گمراہ کن اور غلط ہیں، ان کی تصحیح کی ضرورت ہے؛ مثلاً ان کی سابقہ بے لچک روحانی زندگیاں اور ان کی احساس سے عاری، بے ڈھنگی صورت – ان سب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ تم عیاش یا شہوت پرست بن جاؤ، اور جو جی چاہے کہنے لگو۔ تمہیں بیہودہ گفتگو ہرگز نہیں کرنی چاہیے—ایک عام انسان کی طرز گفتگو اور برتاؤ سے مراد یہ ہے کہ جب بولو تو تمہاری گفتگو میں ربط ہو، "ہاں" اس وقت کہو جب اس سے مراد "ہاں" ہو، اور "نہ" اس وقت کہو جب اس سے مراد "نہ" ہو۔ حقائق پر مبنی اور مناسب طریقے سے بات کرو۔ دھوکا نہیں دو، جھوٹ نہیں بولو۔ وہ حدود سمجھنا ضروری ہیں ،جہاں تک ایک عام فرد مزاج کی تبدیلی کے حوالے سے پہنچ سکتا ہے ۔ اگر نہیں، تو تم حقیقت میں داخل نہیں ہو سکو گے۔

سابقہ: فتح کے کام کی اندرونی حقیقت (4)

اگلا: موآب کی اولاد کو بچانے کی اہمیت

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp