موآب کی اولاد کو بچانے کی اہمیت
ان دو تین سالوں کے کام میں، تمھاری عدالت کرنے کے کام سے جو کچھ حاصل کیا جانا چاہیے تھا وہ بنیادی طور پر حاصل کرلیا گیا ہے۔ بیشتر لوگوں نے اپنے مستقبل کے کچھ امکانات اور تقدیر کو چھوڑ دیا ہے۔ تاہم، جب یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ تم موآب کی اولاد ہو تو تم میں سے بہت سے لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے – تمھارے نقوش مسخ ہو جاتے ہیں، تمھارے منہ ٹیڑھے جاتے ہیں اور تمھاری آنکھیں جم جاتی ہیں۔ تم یقین نہیں کر سکتے کہ تم موآب کی اولاد ہو۔ لعنت کیے جانے کے بعد موآب کو اس سرزمین پر جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اس کی نسل آج تک اس کی پیڑھی میں چلی آ رہی ہے اور تم سب اس کی اولاد ہو۔ میں کچھ نہیں کر سکتا – تجھے کس نے کہا تھا کہ تُو موآب کے گھر میں پیدا ہو؟ مجھے تجھ پر ترس آتا ہے اور تیرے لیے ایسا نہیں چاہتا، لیکن اس حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ تُو موآب کی نسل سے ہے اور میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تُو داؤد کی اولاد ہے۔ چاہے تُو کسی کی نسل سے ہو، پھر بھی تُو ایک مخلوق ہے، اگرچہ تُو ایک نچلے درجے کی مخلوق ہے، ایک کمتر پیدائش کی مخلوق۔ تمام مخلوقات کو لازماً خدا کے سب کام کا تجربہ کرنا چاہیے؛ وہ سب اس کی فتح کی ہوئی اشیاء ہیں، اور ان سب کو اس کے راستباز مزاج کو دیکھنا چاہیے اور اس کی حکمت اور قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ آج تُو موآب کی نسل سے ہے اور تجھے اس عدالت اور سزا کو قبول کرنا ہوگا؛ اگر تُو موآب کی اولاد نہ ہوتا تو کیا تجھے بھی اس عدالت اور سزا کو قبول کرنے کی ضرورت نہ ہوتی؟ اسے سمجھو! دراصل آج موآب کی اولاد پر کام کرنا سب سے بڑھ کر قابل قدر اور اہم ہے۔ چونکہ کام تم پر کیا جاتا ہے، لہٰذا اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اگر یہ کام ہام کی اولاد پر کیے جاتے تو یہ کوئی خاص بات نہ ہوتی کیونکہ موآب کے برعکس وہ کم تر نسل کے نہیں ہیں۔ نوح کے دوسرے بیٹے ہام کی اولاد پر صرف لعنت کی جاتی ہے – وہ بدکاری سے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ محض پست حیثیت کے ہیں کیونکہ نوح نے ان پر خادموں کے خادم ہونے کی لعنت کی تھی۔ ان کی حیثیت پست ہے، لیکن ان کی اصل قدر و قیمت کم نہیں تھی۔ موآب کی بات کریں تو لوگ جانتے ہیں کہ اس کی اصل حیثیت کم تھی کیونکہ وہ بدکاری سے پیدا ہوا تھا۔ اگرچہ لوط کا مقام بہت بلند تھا، موآب لوط اور اس کی بیٹی کی نسل میں سے تھا۔ لوط کو راستباز کہا گیا تھا لیکن موآب پر پھر بھی لعنت کی گئی تھی۔ موآب کی قدر و قیمت کم تھی اور اس کی حیثیت کم تھی۔ اور اگر اس پر لعنت نہ بھی کی جاتی تو بھی وہ سراپا نجاست ہوتا اور اسی لیے وہ ہام سے مختلف تھا۔ اس نے یہوواہ کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کی بجائے یہوواہ کی مزاحمت اور اس کے خلاف بغاوت کی اور اس طرح وہ تاریک ترین مقامات میں گرگیا۔ اب موآب کی اولاد پر کام کرنے کا مطلب ان لوگوں کو بچانا ہے جو سب سے تاریک اندھیرے میں گرچکے ہیں۔ اگرچہ ان پر لعنت کی گئی تھی، لیکن خدا ان سے عظمت حاصل کرنے کو تیار ہے، کیونکہ وہ سب سے پہلے وہ لوگ تھے جن کے دل خدا سے خالی تھے؛ صرف خدا سے خالی دل والے لوگوں کو خدا کی اطاعت اور محبت کرنے والا بنانا ہی حقیقی فتح ہے، اور اس طرح کے کام کا پھل سب سے زیادہ قابل قدر اور قائل کرنے والا ہے۔ صرف یہی عظمت حاصل کرنا ہے – یہ وہ عظمت ہے جو خدا آخری ایام میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ یہ لوگ کم حیثیت ہیں، لیکن اب وہ اتنی بڑی نجات حاصل کرنے کے قابل بن گئے ہیں، یہ واقعی خدا کی طرف سے بلند کیا جانا ہے۔ یہ کام بہت بامعنی ہے، اور یہ عدالت کے ذریعے ہی ہے کہ وہ ان لوگوں کو حاصل کرتا ہے۔ اس کا ارادہ ان لوگوں کو سزا دینا نہیں بلکہ انھیں بچانا ہے۔ اگر آخری ایام میں وہ اب بھی اسرائیل میں فتح کا کام کر رہا ہوتا تو یہ بیکار ہوتا؛ اگر یہ بارآور بھی ہوتا تو اس کی نہ کوئی قدر ہوتی اور نہ ہی کوئی بڑی اہمیت ہوتی اور نہ ہی وہ تمام عظمت حاصل کر پاتا۔ وہ تم پر کام کر رہا ہے، ان لوگوں پر جو تاریک ترین مقامات میں گرچکے ہیں، جو سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ کوئی خدا ہے اور وہ کبھی نہیں جانتے کہ خدا ہے۔ ان مخلوقات کو شیطان نے اس قدر بدعنوان کر دیا ہے کہ وہ خدا کو بھول گئے ہیں۔ وہ شیطان کے ہاتھوں اندھے ہو چکے ہیں اور بالکل نہیں جانتے کہ آسمان میں ایک خدا بھی ہے۔ تم سب اپنے دلوں میں بتوں اور شیطان کی پوجا کرتے ہو – کیا تم لوگوں میں سب پست ترین اور سب سے پسماندہ نہیں ہو؟ تم جسمانی لحاظ سے پست ترین ہو، بغیر کسی ذاتی آزادی کے، اور تمھیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تم اس معاشرے کی پست ترین سطح کے لوگ بھی ہو، جن کے پاس ایمان رکھنے تک کی آزادی بھی نہیں ہے۔ یہاں تمھارے اوپر کام کرنے کی اہمیت پائی جاتی ہے۔ تم، جو موآب کی اولاد ہو مگر آج کام کرنے کا مقصد تمھاری تذلیل کرنا نہیں بلکہ اس کام کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ تمھارے لیے، یہ ایک بہت بڑا عروج ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس شعور اور بصیرت ہو تو وہ کہے گا: ”کہ میں موآب کی نسل سے ہوں اور آج خدا کی طرف سے اتنا بڑا عروج یا اتنی بڑی نعمتیں حاصل کرنے کے لائق نہیں ہوں۔ میں جو کچھ بھی کرتا اور کہتا ہوں، اور اپنے مقام اور قدر کے لحاظ سے، میں خدا کی جانب سے ایسی عظیم نعمتوں کا بالکل بھی مستحق نہیں ہوں۔ بنی اسرائیل خدا سے بہت محبت رکھتے ہیں، اور جس فضل سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں وہ انھیں اس کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے، لیکن ان کا مقام ہم سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ ابراہام یہوواہ کا بہت عقیدت مند تھا، اور پطرس یسوع کا بہت معتقد تھا – ان کی عقیدت ہم سے سو گنا زیادہ تھی۔ اپنے اعمال کی بنیاد پر، ہم خدا کے فضل سے لطف اندوز ہونے کے بالکل مستحق نہیں ہیں“۔ چین میں ان لوگوں کی خدمت کو خدا کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مکمل ابتری کی حالت ہے؛ اب جو تم خدا کے فضل سے لطف اندوز ہو رہے ہو، یہ فقط خدا کا دیا گیا عروج ہے! تم نے کب خدا کے کام کی جستجو کی ہے؟ تم نے خدا کے لیے اپنی جان کب قربان کی ہے؟ تم نے اپنے خاندان، والدین اور بچوں کو کب بخوشی چھوڑا ہے؟ تم میں سے کسی نے بھی کوئی بڑی قیمت ادا نہیں کی ہے! اگر روح القدس تمھیں باہر نہ لے کر آتا تو تم میں سے کتنے لوگ اپنا سب کچھ قربان کر سکتے تھے؟ تم نے آج تک صرف طاقت اور دباؤ کے تحت پیروی کی ہے۔ تمھاری عقیدت کہاں ہے؟ تمھاری اطاعت کہاں ہے؟ تمھارے اعمال کی بنیاد پر، تمھیں تو بہت پہلے تباہ کر دینا چاہیے تھا – تم سب پوری طرح مٹا دیے جاتے۔ ایسی عظیم نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے تمھیں کیا اہل بناتا ہے؟ تم تو بالکل بھی اہل نہیں ہو! تم میں سے کس نے اپنا راستہ خود بنایا ہے؟ تم میں سے کس نے خود سچا راستہ تلاش کیا ہے؟ تم سبھی سست، پیٹو آرام طلب بد بخت ہو! کیا تم سمجھتے ہو کہ تم عظیم ہو؟ تمھارے پاس شیخی بھگارنے کی کون سی چیز ہے؟ یہاں تک کہ یہ نظر انداز کرتے ہوئے بھی کہ تم موآب کی اولاد ہو، کیا تمھاری فطرت یا تمھاری جائے پیدائش کوئی اعلیٰ قسم کی ہے؟ یہاں تک کہ اس بات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ تم اس کی اولاد ہو، کیا تم سب شروع سے لے کر آخر تک موآب کی اولاد نہیں ہو؟ کیا حقائق کی سچائی کو بدلا جا سکتا ہے؟ کیا اب تمھاری فطرت کو بے نقاب کرنا حقائق کی سچائی کو غلط طریقے سے پیش کرتا ہے؟ اپنی غلامی، اپنی زندگیوں اور اپنے کرداروں کو دیکھو – کیا تم نہیں جانتے کہ تم بنی نوع انسان میں نچلے درجے میں بھی سب سے نیچے ہو؟ تمھارے پاس شیخی بھگارنے کے لیے ہے کیا؟ معاشرے میں اپنی حیثیت کو دیکھو۔ کیا تم اس کی پست ترین سطح پر نہیں ہو؟ کیا تمھیں لگتا ہے کہ میں نے غلط بیانی کی ہے؟ ابراہیم نے اسحاق کو پیش کیا – تم نے کیا پیش کیا؟ ایوب نے سب کچھ پیش کیا – تم نے کیا پیش کیا ہے؟ بہت سے لوگوں نے سچے راستے کی تلاش میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، اپنے سروں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اپنا خون بہایا ہے۔ کیا تم نے یہ قیمت ادا کی ہے؟ مقابلتاً تم اس طرح کے عظیم فضل سے لطف اندوز ہونے کے قطعاً اہل نہیں ہو۔ کیا آج تمھیں یہ کہنا غلط لگتا ہے کہ تم موآب کی اولاد ہو؟ اپنے آپ کو بہت اونچا مت سمجھو۔ تمھارے پاس شیخی بھگارنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اتنی بڑی نجات، اتنا بڑا فضل تمھیں آزادانہ دیا جاتا ہے۔ تم نے کچھ بھی قربان نہیں کیا ہے، پھر بھی تم آزادانہ طور پر فضل سے لطف اندوز ہوتے ہو۔ کیا تمھیں شرم نہیں آتی؟ کیا یہ سچا طریقہ ہے جس کی تم نے خود سے تلاش کی اور اسے پا لیا؟ کیا یہ روح القدس نہیں تھا جس نے تمھیں اسے قبول کرنے پر مجبور کیا؟ تمھارے دل کبھی بھی تلاش کرنے والے نہیں رہے، چہ جائیکہ ایسے دل جو سچائی کی تلاش کرتے اور ترستے ہیں۔ تم تو فقط بیٹھے رہے اور اس سے لطف اندوز ہوتے رہے ہو؛ تم نے کم سے کم کوشش کیے بغیر اس سچائی کو حاصل کیا ہے۔ تمھیں شکایت کرنے کا کیا حق ہے؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم سب سے زیادہ قدر و قیمت کے حامل ہو؟ ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنا خون بہایا، تمھیں کس چیز کی شکایت ہے؟ اب تمھیں تباہ کرنا صحیح اور فطری ہو گا! تمھارے پاس اطاعت اور پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ تم بس اس کے اہل نہیں ہو! تم میں سے بیشتر لوگوں کو بلایا گیا لیکن اگر تمھارا ماحول تمھیں مجبور نہ کرتا یا تمھیں نہ بلایا جاتا تو تم باہر آنے کے لیے بالکل آمادہ نہ ہوتے۔ کون اس طرح کی دستبرداری قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ کون جسمانی لذتوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہے؟ تم سب وہ لوگ ہو جو لالچ کے تحت آسائش میں مزے اڑاتے ہو اور پرتعیش زندگی کی جستجو کرتے ہو! تم نے اتنی بڑی نعمتیں حاصل کی ہیں – تمھیں اس کے علاوہ اور کیا کہنا ہے؟ تمھیں کیا شکایات ہیں؟ تمھیں آسمان کی سب سے بڑی نعمتوں اور سب سے بڑے فضل سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے، اور وہ کام جو زمین پر پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا آج تم پر آشکار کیا گیا ہے۔ کیا یہ نعمت نہیں ہے؟ آج تمھیں اس لیے سزا دی جا رہی ہے کہ تم نے خدا کی مخالفت کی ہے اور اس کے خلاف بغاوت کی ہے۔ اس عذاب کی وجہ سے تم نے خدا کی رحمت اور محبت کو دیکھا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر تم نے اس کی راستبازی اور تقدس کو دیکھا ہے۔ اس عذاب کی وجہ سے اور بنی نوع انسان ک نجاست کی وجہ سے، تم نے خدا کی عظیم طاقت کو دیکھا ہے، اور تم نے اس کے تقدس اور عظمت کو دیکھا ہے۔ کیا یہ سب سے نایاب حقیقت نہیں ہے؟ کیا یہ بامعنی زندگی نہیں ہے؟ خدا جو کام کرتا ہے وہ معنی سے بھرا ہوا ہے! لہٰذا تمھارا مقام جتنا کم ہوگا اتنا ہی یہ ثابت ہو گا کہ تمھیں خدا کی طرف سے بلند کیا گیا ہے اور مزید آج تم پر اس کے کام کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ فقط ایک انمول خزانہ ہے، جو کہیں اور نہیں مل سکتا! کئی ادوار میں، کسی نے بھی اتنی بڑی نجات کا لطف نہیں اٹھایا ہے۔ اس حقیقت سے کہ تمھارا مقام پست ہے، ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی نجات کتنی عظیم ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا انسانوں کے ساتھ وفاشعار ہے – وہ بچاتا ہے، وہ تباہ نہیں کرتا ہے۔
چینی لوگ کبھی بھی خدا پر ایمان نہیں لائے۔ انہوں نے کبھی یہوواہ کی خدمت نہیں کی اور نہ ہی کبھی یسوع کی خدمت کی ہے۔ وہ صرف تعظیمی سجدہ کرتے ہیں، لوبان، چینی بت کا کاغذ جلاتے ہیں، اور مہاتما بدھ کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ فقط بتوں کی پوجا کرتے ہیں – وہ سب انتہائی باغی ہیں۔ لہٰذا لوگوں کا مرتبہ جتنا کم ہوتا ہے، اتنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا تم سے جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ بس عظمت ہی ہے۔ بعض لوگ اپنے نکتہ نظر سے کہہ سکتے ہیں: ”خدا، تو کیا کام کرتا ہے؟ تو اتنا بلند مرتبہ خدا، اتنا مقدس خدا ہو کر ایک گندے ملک میں آتے ہو؟ کیا تُو خود کو اتنا ادنیٰ گردانتا ہے؟ ہم اتنے گندے ہیں، لیکن پھر بھی تُو ہمارا ساتھ دینے کو تیار ہے؟ کیا تُو ہمارے درمیان رہنے کو تیار ہے؟ ہم بہت پست حالت میں ہیں، لیکن تو ہمیں کامل کرنے کے لیے تیار ہے؟ اور تو ہمیں مثالوں اور نمونوں کے طور پر استعمال کرے گا؟“ میں کہتا ہوں: تُو میری مرضی نہیں سمجھتا۔ تو وہ کام نہیں سمجھتا جو میں کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی تُو میرا مزاج سمجھتا ہے۔ میں جو کام کرنے جا رہا ہوں اس کی اہمیت تیری سمجھنے کی صلاحیت سے ماوراء ہے۔ کیا میرا کام تیرے انسانی تصورات کے مطابق ہو سکتا ہے؟ انسانی تصورات کے مطابق، مجھے ایک شائستہ ملک میں پیدا ہونا پڑے گا تاکہ یہ ظاہر کر سکوں کہ میں اعلیٰ مرتبے کا حامل ہوں، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں بہت قابل قدر ہوں، اپنا وقار، تقدس اور عظمت ظاہر کرنے کے لیے۔ اگر میں کسی ایسی جگہ پیدا ہوا ہوتا جہاں مجھے تسلیم کیا جاتا، ایک اشرافیہ گھرانے میں، اور اگر میں اعلیٰ حیثیت اور مقام کا حامل ہوتا، تو میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا جاتا۔ اس سے میرے کام کو کوئی فائدہ نہ ہوتا، اور کیا اس طرح کی عظیم نجات پھر بھی ظاہر ہوسکتی تھی؟ جو لوگ مجھے دیکھتے ہیں وہ میری اطاعت کریں گے اور وہ نجاست سے آلودہ نہیں ہوں گے۔ مجھے کسی ایسی جگہ پر پیدا ہونا چاہیے تھا۔ تم اسی پر یقین رکھتے ہو۔ لیکن اس کے بارے میں سوچو: کیا خدا زمین پر لطف اندوز ہونے کے لیے آیا تھا، یا کام کرنے کے لیے؟ اگر میں اس طرح کی سہل، آرام دہ جگہ پر کام کرتا، تو کیا میں اپنی پوری عظمت حاصل کر سکتا تھا؟ کیا میں اپنی ساری مخلوق فتح کر سکوں گا؟ جب خدا زمین پر آیا، تو وہ دنیا کا نہیں تھا، اور وہ دنیا سے لطف اندوز ہونے کے لیے جسم نہیں بنا تھا۔ وہ جگہ جہاں کام کرنا اس کا مزاج ظاہر کرے گا اور سب سے زیادہ بامعنی خیز ہو گا، وہ وہی جگہ ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ چاہے وہ مقدس ہو یا غلیظ زمین، اور چاہے وہ کہیں بھی کام کرے، وہ مقدس ہے۔ دنیا کی ہر چیز اس نے پیدا کی تھی، اگرچہ یہ سب شیطان کے ذریعہ خراب کر دی گئی ہے۔ تاہم، تمام چیزیں اب بھی اس کی ملکیت ہیں۔ یہ سب اس کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ ایک گندے ملک میں آتا ہے اور وہاں کام کرتا ہے تاکہ اپنا تقدس ظاہر کر سکے۔ وہ یہ صرف اپنے کام کی خاطر کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس غلیظ سرزمین کے لوگوں کو بچانے کے لیے ایسا کام کرنے میں بہت ذلت برداشت کرتا ہے۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کی خاطر گواہی دی جا سکے۔ اس طرح کا کام لوگوں کو خدا کی راستبازی دکھاتا ہے، اور یہ خدا کی بالادستی بہتر طور پر ظاہر کرتا ہے۔ اس کی عظمت اور راستبازی کا اظہار کمترلوگوں کے ایک ایسے گروہ کی نجات میں ہوتا ہے جنھیں دوسرے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ غلیظ زمین میں پیدا ہونے سے یہ بالکل بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کم مرتبہ ہے؛ یہ صرف تمام مخلوق کو اس کی عظمت اور بنی نوع انسان کے لیے اس کی سچی محبت ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جتنا زیادہ وہ ایسا کرتا ہے، اتنا ہی اس سے اس کی خالص محبت، انسان کے لیے اس کی بے عیب محبت ظاہر ہوتی ہے۔ خدا مقدس اور راستباز ہے۔ اگرچہ وہ ایک غلیظ سرزمین میں پیدا ہوا تھا، اور اگرچہ وہ ان لوگوں کے ساتھ رہتا ہے جو غلاظت سے بھرے ہوئے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے یسوع فضل کے دور میں گنہگاروں کے ساتھ رہتا تھا، کیا اس کا ہر کام پوری بنی نوع انسان کی بقا کی خاطر نہیں کیا جاتا ہے؟ کیا یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ بنی نوع انسان عظیم نجات حاصل کر سکے؟ دو ہزار سال پہلے، وہ کئی سالوں تک گنہگاروں کے ساتھ رہا۔ یہ خلاصی کی خاطر تھا۔ آج، وہ گندے، گھٹیا لوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ رہ رہا ہے۔ یہ نجات کی خاطر ہے۔ کیا اس کا سارا کام تم انسانوں کے لیے نہیں ہے؟ اگر وہ بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے نہیں ہوتا، تو وہ ایک چرنی میں پیدا ہونے کے بعد اتنے سالوں تک گنہگاروں کے ساتھ کیوں رہتا اور تکلیف اٹھاتا؟ اور اگر نوع انسانی کو بچانے کے لیے نہیں، تو وہ دوسری بار جسم میں واپس کیوں آئے گا، اس ملک میں کیوں پیدا ہو گا جہاں شیطان اکٹھے ہوتے ہیں، اور ان لوگوں کے ساتھ کیوں رہے گا جو شیطان کے ہاتھوں بری طرح خراب ہو چکے ہیں؟ کیا خدا قول کا پکا نہیں ہے؟ اس کے کام کا کون سا حصہ بنی نوع انسان کے لیے نہیں ہے؟ کون سا حصہ تمھاری تقدیر کے لیے نہیں تھا؟ خدا مقدس ہے – یہ ناقابل تغیر ہے! وہ غلاظت سے آلودہ نہیں ہے، اگرچہ وہ ایک غلیظ سرزمین میں آیا ہے۔ اس سب کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ خدا کی بنی نوع انسان کے لیے محبت انتہائی بے لوث ہے اور جو تکلیف اور ذلت وہ برداشت کرتا ہے وہ بہت بڑی ہے! کیا تم نہیں جانتے کہ جتنی بھی تذلیل وہ برداشت کرتا ہے وہ سب تمھارے اور تمھاری تقدیر کے لیے ہے؟ عظیم لوگوں یا امیر اور طاقت ور خاندانوں کے بیٹوں کو بچانے کے بجائے، وہ خاص طور پر ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے جو کم حیثیت ہیں اور جنھیں حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا یہ سب اس کا تقدس نہیں ہے؟ کیا یہ سب اس کی راستبازی نہیں ہے؟ تمام بنی نوع انسان کی بقا کی خاطر، وہ ترجیحاً ایک غلیظ سرزمین میں پیدا ہونا پسند کرے گا اور ہر ذلت برداشت کرے گا۔ خدا بہت حقیقی ہے – وہ کوئی غلط کام نہیں کرتا ہے۔ کیا کام کا ہر مرحلہ اس طرح کے عملی انداز میں نہیں کیا جاتا ہے؟ اگرچہ سب لوگ اسے بدنام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ گنہگاروں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھتا ہے، حالانکہ سب لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ غلاظت کے بیٹوں کے ساتھ رہتا ہے، کہ وہ پست ترین لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، پھر بھی وہ اپنے تئیں بے لوث طور پر دیتا ہے، اور اس طرح وہ اب بھی نوع انسانی میں مسترد کیا گیا ہے۔ کیا جو اذیت وہ برداشت کرتا ہے وہ تمھارے عذاب سے زیادہ نہیں ہے؟ کیا وہ کام اس قیمت سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے ادا کی ہے؟ تم غلاظت کے ملک میں پیدا ہوئے تھے، پھر بھی تم نے خدا کا تقدس حاصل کیا ہے۔ تم ایک ایسی سرزمین میں پیدا ہوئے تھے جہاں شیطان جمع ہوتے ہیں، پھر بھی تمھیں بہت بڑا تحفظ ملا ہے۔ تمھارے پاس کیا انتخاب ہے؟ تمھیں کیا شکایات ہیں؟ کیا اس نے جو مصائب جھیلے ہیں وہ ان مصائب سے بڑھ کر نہیں جو تم نے برداشت کیے ہیں؟ وہ زمین پر آیا ہے اور کبھی بھی وہ انسانی دنیا کی خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہوا ہے۔ وہ ایسی چیزوں سے نفرت کرتا ہے۔ خدا زمین پر اس لیے نہیں آیا کہ انسان مادی چیزوں کے ساتھ اس کا برتاؤ کرے اور نہ ہی وہ انسان کے کھانوں، کپڑوں اور زیورات سے لطف اندوز ہونے کے لیے آیا ہے۔ وہ ان چیزوں پر دھیان نہیں دیتا۔ وہ انسان کے لیے اذیت اٹھانے کے لیے زمین پر آیا تھا، نہ کہ زمینی آسائشوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے۔ وہ اذیت اٹھانے، کام کرنے اور اپنا انتظامی منصوبہ مکمل کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس نے رہنے کے لیے کوئی اچھی جگہ، کسی سفارت خانے یا نفیس ہوٹل کا انتخاب نہیں کیا اور نہ ہی اس کے پاس اس کے حکم کا انتظار کرنے والے رہنے کے لیے کوئی اچھی جگہ بہت سارے خادم ہیں۔ جو کچھ تم نے دیکھا ہے اس کی بنیاد پر کیا تم نہیں جانتے کہ وہ کام کرنے آیا ہے یا لطف اندوز ہونے کے لیے؟ کیا تمھاری آنکھیں نہیں دیکھتیں؟ اس نے تمھیں کتنا دیا ہے؟ اگر وہ کسی آرام دہ جگہ پر پیدا ہوا ہوتا تو کیا وہ عظمت حاصل کر پاتا؟ کیا وہ کام کرنے کے قابل ہوتا؟ کیا اس کے ایسا کرنے کی کوئی اہمیت ہوتی؟ کیا وہ بنی نوع انسان کو مکمل طور پر تسخیر کرپاتا؟ کیا وہ لوگوں کو غلاظت کی سرزمین سے نجات دلاپاتا؟ لوگ اپنے تصورات کے مطابق پوچھتے ہیں: ”جبکہ خدا مقدس ہے، تو وہ ہماری اس غلیظ جگہ پر کیوں پیدا ہوا ہے؟ تُو ہم گندے انسانوں سے گھن کھاتا اور نفرت کرتا ہے؛ تُو ہماری مزاحمت اور بغاوت سے شدید نفرت کرتا ہے تو پھر تُو ہمارے ساتھ کیوں رہتا ہے؟ تُو اعلیٰ ترین خدا ہے۔ تُو کہیں بھی پیدا ہو سکتا تھا، تو تجھے اس غلیظ سرزمین میں کیوں پیدا ہونا پڑا؟ تُو ہر روز ہمیں سزا دیتا ہے اور ہماری عدالت کرتا ہے اور تُو واضح طور پر جانتا ہے کہ ہم موآب کی اولاد ہیں تو پھر بھی تُو ہمارے درمیان کیوں رہتا پے؟ تُوم موآب کی اولاد کے گھرانے میں کیوں پیدا ہوا؟ تُو نے ایسا کیوں کیا؟“ تمھارے اس طرح کے خیالات میں شعور کا مکمل فقدان ہے! صرف ایسے کام سے ہی لوگوں کو اس کی عظمت، اس کی عاجزی اور پوشیدگی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے کام کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے، اور اس نے اپنے کام کی خاطر تمام مصائب برداشت کیے ہیں۔ وہ بنی نوع انسان کی خاطر کام کرتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر، شیطان کو زیر کرنے کے لیے، تاکہ تمام مخلوق اس کی حاکمیت کے تابع ہو جائے۔ صرف یہ ایک بامعنی، قابل قدر کام ہے۔ اگر یعقوب کی اولاد چین میں اس زمین کے ٹکڑے پر پیدا ہوئی ہوتی اور وہ سب تم میں سے ہوتے تو تم میں کیے گئے کام کی کیا اہمیت ہوتی؟ شیطان کیا کہے گا؟ شیطان کہے گا کہ: ”وہ پہلے بھی تجھ سے ڈرتے تھے، انھوں نے شروع سے ہی تیری اطاعت کی ہے اور ان کی تیرے ساتھ غداری کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ وہ بنی نوع انسان میں سب سے تاریک، سب سے پست یا سب سے پسماندہ نہیں ہیں۔“ اگر یہ کام واقعی اس طرح کیا جاتا، تو اس سے کون قائل ہوتا؟ پوری کائنات میں چینی لوگ سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ وہ کمتر پیدا ہوتے ہیں، کم دیانت داری کے ساتھ۔ وہ کند ذہن اور بے حس ہوتے ہیں، اور وہ بے ہودہ اور زوال پزیر ہیں۔ وہ شیطانی مزاج میں لتھڑے، گندے اور بدکار ہوتے ہیں۔ تم ان تمام شیطانی مزاجوں کے حامل ہوتے ہو۔ ایک بار جب یہ کام مکمل ہو جائے گا تو لوگ ان بدعنوان رویوں کو پرے پھینک دیں گے اور مکمل طور پر اطاعت کے قابل ہو جائیں گے اور کامل کر دیے جائیں گے۔ مخلوق کے اندر کام کے صرف ایسے نتائج ہی گواہی ہیں! کیا تُو سمجھتا ہے کہ گواہی کیا ہوتی ہے؟ اصل میں گواہی کیسے دی جانی چاہیے؟ اس طرح کے کام نے تمھیں توجہ بھٹکانے والے بننے کے ساتھ ساتھ خدمت کرنے والی اشیاء بھی بنا دیا ہے؛ اس سے بھی بڑھ کر؛ اس نے تمھیں نجات کی اشیاء بنا دیا ہے۔ آج تم خدا کے لوگ ہو۔ بعد میں تم مثالیں اور نمونے ہو گے۔ اس کام میں، تم مختلف قسم کے کردار ادا کرتے ہو، اور، آخر میں، تم نجات کے اہداف ہو گے۔ بہت سے لوگ اس کی وجہ سے منفی ہیں؛ کیا وہ بالکل اندھے نہیں ہیں؟ تجھے کچھ بھی واضح نظر نہیں آتا ہے! صرف تجھے اس طرح بلایا جانا تجھے مغلوب کر دیتا ہے؟ کیا تُو سمجھتا ہے کہ خدا کا راستباز مزاج کیا ہے؟ کیا تُو سمجھتا ہے کہ خدا کی نجات کیا ہے؟ کیا تُو سمجھتا ہے کہ خدا کی محبت کیا ہے؟ تجھ میں کوئی صداقت نہیں ہے! جب تیرا اچھی طرح سے حوالہ دیا جائے، تو تُو خوش ہو جاتا ہے۔ جب تیرا بری طرح سے حوالہ دیا جاتا ہے، تو تُو ناراض ہو جاتا اور پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ تُو ہے کیا؟ تُو سچے طریقے کی پیروی نہیں کر رہا ہے! فوری طور پر جستجو کرنا بند کر دے – یہ شرم ناک ہے! کیا یہ شرم کی علامت نہیں ہے کہ معمولی سی چیز تجھ پر غالب ہو جاتی ہے؟
بہتر ہوتا کہ تُو خود اپنے بارے میں تھوڑا سا جاننا سیکھ لیتا۔ اپنے آپ کو بہت اونچا مت سمجھ، اور آسمان پر جانے کا خواب مت دیکھ – صرف فرض شناسی سے زمین پر فتح کیے جانے کی جستجو کر۔ ان غیر حقیقی خوابوں کے بارے میں مت سوچ جو موجود نہیں ہیں! اگر کوئی اس طرح کی بات کہے تو یہ پُر عزم اور مضبوط ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے شخص کے الفاظ ہیں: ”اگرچہ میں موآب کی اولاد ہوں، لیکن میں خدا کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں اپنے بوڑھے جد امجد سے منہ موڑ لوں گا! اس نے مجھے جنم دیا اور مجھے روند ڈالا، اور میں اب تک اندھیرے میں رہ رہا تھا۔ آج، خدا نے مجھے رہا کر دیا ہے، اور میں نے آخر کار آسمانی سورج دیکھا ہے۔ خدا کی طرف سے بے نقاب ہونے کے ذریعے، میں نے آخر کار دیکھا ہے کہ میں موآب کی نسل سے ہوں۔ اس سے پہلے، میری آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے تھے، اور میں نہیں جانتا تھا کہ خدا نے اتنا سارا کام کیا ہے، کیونکہ مجھے اس بوڑھے شیطان نے اندھا کر دیا تھا۔ میں اس سے منہ موڑ لوں گا اور اس کی اچھی طرح تذلیل کروں گا!“ تو، کیا تمھارے پاس ایسا عزم ہے؟ اس حقیقت کے باوجود کہ تم میں سے ہر ایک انسان کی طرح نظر آتا ہے، تم کسی سے بھی بڑی تیزی سے الگ ہو جاتے ہو، اور تم اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس ہو۔ جیسے ہی یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ تم موآب کی اولاد ہو تو تم منہ بسور لیتے ہو۔ کیا یہ سؤر کا مزاج نہیں ہے؟ تم بیکار ہو۔ تم شہرت اور خوش بختی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دو گے! ہو سکتا ہے کہ تم موآب کی اولاد نہ بننا چاہو، لیکن کیا تم وہی نہیں ہو؟ میں آج کہہ رہا ہوں کہ تُو وہی ہے اور تجھے اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ میں حقائق کے خلاف بات نہیں کرتا۔ کچھ لوگ اس کی وجہ سے منفی ہوتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں منفی ہونے کی کون سی بات ہے؟ کیا تُو بھی بڑے لال اژدھے کا بچہ نہیں ہے؟ کیا یہ کہنا ناانصافی ہے کہ تُو موآب کی اولاد میں سے ہے؟ ایک نظر ڈال کہ تُو اندر اور باہر کیسے زندگی گزار رہا ہے تیرے سر سے لے کر پیروں تک، کچھ بھی قابل تعریف نہیں ہے۔ بدکاری، غلاظت، اندھا پن، مزاحمت، سرکشی – کیا یہ سب تیرے مزاج کے حصے نہیں ہیں؟ تُو ہمیشہ ایسی بدکاری کی سرزمین میں رہتا ہے جس میں تُوم کسی برائی سے باز نہیں رہتا۔ تُو سوچتا ہے کہ تُو حیرت انگیز طور پر مقدس ہے۔ وہ کرتوت دیکھ جو تُو نے کیے ہیں، اور پھر بھی تُو اپنے سے بہت خوش ہے۔ تم نے ایسا کیا کیا ہے جو قابل ستائش ہے؟ تم درندوں کی طرح ہو۔ تمھارے اندر کوئی انسانیت نہیں ہے! تم جانوروں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہو اور برے اور بدکاری کے خیالات کے درمیان بستے ہو۔ تم لوگوں کے پاس کتنی کمی ہے؟ تم اس بات سے اتفاق کرتے ہو کہ تم بڑے لال اژدھے کی اولاد ہو، اور تم خدمت کرنے کے لیے تیار ہو، لیکن بعد میں، جب یہ کہا جاتا ہے کہ تُو موآب کی اولاد ہے، تو تُو منفی ہو جاتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے؟ یہ اسی طرح ہے جیسے کہ تُو اپنی ماں اور باپ سے پیدا ہوا ہے – چاہے وہ کتنے ہی خوف ناک کیوں نہ ہوں، تُو ان سے ہی پیدا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اگر تجھے کوئی گود لینے والی ماں مل جائے اور تُو اپنا گھر چھوڑ دے تو بھی کیا تُو اپنے اصل والدین کی اولاد نہیں ہے؟ کیا یہ حقیقت بدلی جا سکتی ہے؟ کیا میں نے تجھے بلا وجہ موآب کی اولاد قرار دیا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں: ”کیا تُو مجھے کچھ اور نہیں کہہ سکتاہے؟“ میں کہتا ہوں: اگر میں تجھے ایک توجہ بھٹکانے والا کہوں تو کیسا رہے گا؟ وہ توجہ بھٹکانے والے بننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ تو، تم کیا بننے کے لیے تیار ہیں؟ توجہ بھٹکانے، خدمت کرنے والے – کیا یہ وہی نہیں ہے جو تم ہو؟ تو تُو اور کیا منتخب کرے گا؟ کیا تُو بڑے لال اژدھے کے ملک میں پیدا ہونے والا شخص نہیں ہے؟ چاہے تُو کسی طرح بھی کہے کہ تو داؤد کی اولاد ہے، لیکن یہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے تُو خود اپنے لیے منتخب کرتا ہے؟ کیا تُو اپنے لیے کوئی بھی خوبصورت نام جو تجھے پسند ہو منتخب کرسکتا ہے؟ کیا اس بڑے لال اژدہے کے بچے، جن کا ذکر کیا گیا تھا، وہ بدعنوان لوگ تم ہی نہیں ہو؟ جہاں تک خدمت کرنے والوں کا تعلق ہے تو کیا وہ بھی تم بدعنوان کیے گئے لوگ نہیں ہو؟ فتح کیے جانے کی مثالیں اور نمونے جن کا ذکر کیا گیا تھا، کیا وہ بھی تم لوگ نہیں ہو؟ کیا تم سے کامل ہونے کا راستہ بیان نہیں کیا گیا ہے؟ جن لوگوں کو سزا دی جاتی ہے اور ان کی عدالت کی جاتی ہے وہ تم ہی لوگ ہو؛ کیا جو بعد میں کامل کیے جائیں گے کیا وہ تم میں سے چند نہیں ہوں گے؟ کیا یہ نام اب بھی اہمیت رکھتا ہے؟ تم اتنے بے شعور ہو؛ کیا تم ایسی معمولی سی چیز بھی واضح طور پر نہیں دیکھ سکتے؟ تُو نہیں جانتا کہ کون کس کی نسل سے ہے، لیکن یہ مجھ پر واضح ہے اور میں تمھیں بتا رہا ہوں۔ آج اسے سمجھنے کے قابل ہونا ٹھیک ہے۔ ہمیشہ اتنا کمتر محسوس نہ کرو۔ جتنا زیادہ تُو منفی ہو گا اور پیچھے ہٹ جائے گا اتنا ہی اس سے ثابت ہو گا کہ تُو شیطان کی اولاد ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جب تم انھیں حمدیہ گیت سناتے ہو تو کہتے ہیں: ”کیا موآب کی اولاد حمدیہ گیت سن سکتی ہے؟ میں تو نہیں، میں اس کا اہل نہیں ہوں!“ اگر تم ان سے گواتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ: ”اگر موآب کی اولاد گائے تو کیا خدا سننے کو تیار ہے؟ خدا مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ میں خدا کے سامنے جانے میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اس کے لیے گواہی نہیں دے سکتا۔ میں تو بس نہیں گاؤں گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا اسے سن کر ناراض ہو جائے۔“ کیا اس سے نمٹنے کا یہ ایک منفی طریقہ نہیں ہے؟ ایک مخلوق کی حیثیت سے تُو ایک ایسی زمین میں پیدا ہوا ہے جو بدکاری کی سرزمین ہے اور تم ایک بڑے لال اژدہے کے بچے ہو جو موآب کی نسل سے ہے۔ تجھے اپنے بوڑھے جد امجد سے منہ موڑنا چاہیے اور پرانے شیطان سے منہ موڑ لینا چاہیے۔ ایسا کرنے والا ہی صرف وہ ہے جو خدا کو واقعی چاہتا ہے۔
ابتداء میں جب میں نے تمھیں خدا کے لوگوں کا مقام دیا تو تم دوسروں کی نسبت زیادہ خوشی کے ساتھ اچھلنے کودنے لگے۔ لیکن جیسے ہی میں نے کہا کہ تم موآب کی اولاد ہو، تو تم کیسے تھے؟ تم سب ٹوٹ کر بکھر گئے! تمھارا مرتبہ کہاں ہے؟ تمھارا حیثیت کا تصور بہت مضبوط ہے! زیادہ تر لوگ اپنے تئیں اوپر نہیں اٹھا سکتے۔ کچھ کاروبار کرنے کے لیے جاتے ہیں، اور کچھ کام پر جاتے ہیں۔ جیسے ہی میں کہتا ہوں کہ تم موآب کی اولاد ہو، تو تم سب بھاگنا چاہتے ہو۔ کیا یہ وہ گواہی ہے جو تم خدا کے لیے دیتے ہو جس کے بارے میں تم سارا دن چیختے رہتے ہو؟ کیا شیطان کو اس طرح قائل کیا جائے گا؟ کیا یہ شرمندگی کی علامت نہیں ہے؟ تمھیں اپنے پاس رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟ تم سب کوڑا کرکٹ ہو! تم نے کس قسم کی تکلیف برداشت کی ہے کہ تمھیں اتنی زیادتی محسوس ہوتی ہے؟ تم سوچتے ہو کہ ایک بار جب خدا نے تمھیں کسی حد تک اذیت دی تو وہ خوش ہو جائے گا، گویا وہ تمھاری مذمت کرنے کے ارادہ سے آیا تھا، اور تمھاری مذمت کرنے اور تباہ کرنے کے بعد، اس کا کام پورا ہو جائے گا۔ کیا میں نے یہی کہا ہے؟ کیا تم اپنے اندھے پن کی وجہ سے ایسا نہیں سوچتے؟ کیا تم خود اچھا کام کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہو یا یہ کہ میں تمھیں اپنے ارادے کے تحت سزا دیتا ہوں؟ میں نے ایسا کبھی نہیں کیا – یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا تم نے خود سوچا تھا۔ میں کبھی بھی اس طرح کام نہیں کرتا اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ اگر میں واقعی تمھیں تباہ کرنا چاہتا تو کیا مجھے ایسی مشکل سے گزرنے کی ضرورت ہوگی؟ اگر میں واقعی تمھیں تباہ کرنا چاہتا ہوں تو کیا مجھے تم سے اتنی سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہو گی؟ میری مرضی یہ ہے کہ: جب میں نے تمھیں بچا لیا، تو یہی وہ وقت ہو گا جب میں آرام کر سکوں گا۔ ایک شخص جتنا پست درجے کا ہو گا، اتنا ہی وہ میری نجات کا ہدف ہے۔ تم جتنی زیادہ سرگرمی سے داخل ہونے کے قابل ہو گے، اتنا ہی میں خوش ہوں گا۔ جتنا زیادہ تم ٹوٹ کر بکھرتے ہو، میں اتنا ہی پریشان ہوتا ہوں۔ تم ہمیشہ رعونت کے ساتھ اٹھنا اور تخت سنبھالنا چاہتے ہو – میں تمھیں بتاتا ہوں کہ یہ تمھیں غلاظت سے بچانے کا راستہ نہیں ہے۔ تخت پر بیٹھنے کا خواب تمھیں کامل نہیں کر سکتا؛ یہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ تُو موآب کی اولاد ہے اور تُو ناخوش ہے۔ تُو کہتا ہے ”اگر تُو مجھے اتھاہ گڑھے میں گرنے دے گا تو میں نہ تیری گواہی دوں گا اور نہ تیرے لیے تکلیف برداشت کروں گا۔“ کیا تیرا ایسا کرنا میری مخالفت میں نہیں ہو گا؟ کیا ایسا کرنے سے تجھے فائدہ ہو گا؟ میں نے تجھے بہت فضل دیا ہے۔ کیا تُو بھول گیا ہے؟ تم نے خدا کا دل کو دھتکار دیا ہے اور اس کی تذلیل کی ہے، جو ایک محبت کرنے والی ماں کی طرح ہے؛ تمھارے لیے اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ اگر تُو میرے لیے گواہی نہیں دے گا تو میں تجھے مجبور نہیں کروں گا – لیکن تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تُو آخرکار تباہی کا نشانہ بنے گا۔ اگر میں تجھ میں گواہی حاصل نہیں کر سکتا تو میں دوسرے لوگوں میں اسے حاصل کروں گا۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن آخر میں، تُو اس پر پچھتائے گا، اور اس وقت، تُو بہت عرصے پہلے تاریکی میں گر چکا ہو گا۔ پھر تجھے کون بچا پائے گا؟ یہ مت سوچ کہ تیرے بغیر کام نہیں کیا جا سکتا – تیرے ہونے کا مطلب کچھ زیادہ پاس ہونا نہیں ہے، اور تیرے پاس نہ ہونے کا مطلب کچھ زیادہمحرومی نہیں ہے۔ اپنے آپ کو بہت زیادہ عزت کی نگاہ سے نہ دیکھ۔ اگر تُو میری پیروی کرنے کو تیار نہیں ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تُو سرکش ہے اور تیرے میں کوئی چیز پسندیدہ نہیں ہے۔ اگر تُو خوش کلام ہے تو کیا یہ صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ تُونے خود کو اس کلام سے آراستہ کیا ہے جو میں اپنے کام کے ذریعے لایا ہوں؟ تیرے اندر کیا چیز قابل ستائش ہے؟ اپنے تخیل کو اپنے ساتھ مت بھاگنے دو! اگر میں تم سے، جو موآب کی اولاد ہو، عظمت حاصل نہ کر سکوں تو میں اپنے کام کے لیے موآب کی اولاد میں سے ایک دوسرے اور تیسرے گروہ کو اس وقت تک منتخب کروں گا جب تک کہ میں عظمت حاصل نہ کر لوں۔ اگر تُو میرے لیے گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو دفع ہو جا! میں تجھے مجبور نہیں کروں گا! یہ مت سوچو کہ میں تمھارے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ چین کی اس سرزمین میں میرے کام کے لیے مناسب اشیاء تلاش کرنا آسان ہے۔ اس ملک میں اور کچھ نہیں مل سکتا – گندے، بدعنوان لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، اور میرا کام کہیں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اتنا تکبر نہ کر! چاہے تُو کتنا ہی متکبر ہو، کیا تُو پھر بھی بدکاری سے پیدا ہونے والا بچہ نہیں ہے؟ اپنی قدر و قیمت دیکھ – تیرے پاس اور کیا انتخاب ہے؟ صرف تجھے زندہ رہنے کی اجازت دینا ایک بہت بڑی سربلندی ہے، تو تُو اب بھی کس چیز پر تکبر کر سکتا ہے؟ اگر میرے کام کا مقصد یہ دور ختم کرنا نہ ہوتا تو کیا بہت عرصہ قبل ہی تُو قدرتی اور انسان ساختہ آفات کے بیچ گر نہ چکا ہوتا؟ کیا تُو اب بھی اتنے آرام سے رہ سکتا ہے؟ تُو اب بھی اس معاملے پر مسلسل بحث کرتا رہتا ہے۔ جب سے میں نے کہا ہے کہ تُو موآب کی نسل سے ہے، تُو ہر وقت منہ بسورے رہا ہے۔ تُو خود کوتعلیم نہیں دیتا، تُو خدا کا کلام نہیں پڑھتا، اور تُو اِس یا اُس شخص کو ایک نظر برداشت نہیں کر سکتے۔ جب تُو دوسرے لوگوں کو تعلیم یافتہ ہوتے دیکھتا ہے تو تُو خلل ڈالتا اور حوصلہ شکنی کی باتیں کرتا ہے۔ تجھ میں ڈھٹائی کافی ہے! تُو کہتا ہے: ”موآب کی اولاد کیا تعلیم حاصل کر سکتی تھی؟ مجھے کوئی پروا نہیں۔“ کیا کوئی جانور یہی نہیں کہے گا؟ آیا تیرا شمار انسان کے طور پربھی ہوتا ہے؟ میں نے اتنا کچھ کہا ہے، لیکن اس سے تجھے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ کیا میں نے یہ سب کام بیکار کیا ہے؟ کیا میں نے یہ سب کلام بے معنی کہا ہے؟ حتیٰ کہ ایک کتا بھی اپنی دم ہلا لے گا۔ ایسا شخص کتے جتنا بھی اچھا نہیں ہے! کیا تُو انسان کہلانے کے لائق ہے؟ جب میں موآب کی اولاد کے بارے میں بات کرتا ہوں تو کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے تئیں گھٹیا دکھاتے ہیں۔ وہ پہلے کے مقابلے میں مختلف لباس پہنتے ہیں اور اتنے پھوہڑ ہوتے ہیں کہ انسانوں کی طرح نظر نہیں آتے اور کہتے ہیں: ”میں موآب کی اولاد ہوں۔ میں اچھا نہیں ہوں۔ کوئی نعمت حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ کیا موآب کی اولاد کامل ہو سکتی ہے؟“ جیسے ہی میں نے موآب کی اولاد کے بارے میں بات کی، زیادہ تر لوگوں کی امید جاتی رہی۔ وہ کہتے ہیں: ”خدا کہتا ہے کہ ہم موآب کی اولاد ہیں – اس کا کیا مطلب ہے؟ اس نے جو لہجہ اختیار کیا ہے اسے دیکھو – یہ ناقابل تنسیخ ہے! اُس کے کلام میں کوئی محبت نہیں ہے۔ کیا ہم تباہی کے اہداف نہیں ہیں؟“ کیا تُو بھول گیا ہے کہ پہلے کیا کہا گیا تھا؟ ”موآب کی اولاد“ والی اصطلاح وہ واحد چیز ہے جو اب تجھے یاد ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے الفاظ ایک اثر حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن وہ حقائق کی سچائی بھی آشکار کرتے ہیں۔ بیشتر لوگ اس پر یقین نہیں کرتے۔ تُو میرے لیے اس طرح کی تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تُو موت سے ڈرتا ہے اور ہمیشہ فرار ہونا چاہتا ہے۔ اگر تُو جانا چاہتا ہے تو میں تجھے رہنے پر مجبور نہیں کروں گا، لیکن میں تجھے یہ واضح طور پر بتاؤں گا: پوری زندگی بیکار نہ گزارو، اور وہ باتیں مت بھولنا جو میں تجھے ماضی میں بتائی ہیں۔ ایک مخلوق کی حیثیت سے، تجھے ایک مخلوق کا فرض ادا کرنا چاہیے۔ اپنے ضمیر کے خلاف کام نہ کر؛ تجھے جو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ خود کو تخلیق کے خداوند کے لیے وقف کر دے۔ موآب کی اولاد بھی مخلوق ہے، بس فرق یہ ہے کہ وہ توجہ بھٹکانے والے ہیں، اور ان پر لعنت کی گئی ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو تُو پھر بھی ایک مخلوق ہے۔ اگر تو یہ کہے تو، تُو اس سے زیادہ دور نہیں ہے: ”اگرچہ میں موآب کی اولاد ہوں، میں خدا کے فضل سے اتنا لطف اندوز ہوا ہوں کہ میرے پاس کچھ ضمیر ہونا چاہیے۔ میں صرف اس کا اعتراف کروں گا لیکن اس پر تکیہ نہیں کروں گا۔ یہاں تک کہ اگر میں اس دھارے کے اندر تکلیف اٹھاتا ہوں تو میں آخر تک تکلیف اٹھاؤں گا، اور اگر میں موآب کی اولاد ہوں تو پھر ایسا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں پھر بھی آخر تک اس کی پیروی کروں گا!“ تجھے لازماً آخر تک پیروی کرنی ہوگی۔ اگر تُو بھاگ جاتا ہے، تو تیرے پاس واقعی کوئی امکان نہیں ہوگا – تُو نے تباہی کے راستے پر قدم رکھ دیا ہو گا۔
تمھارے اپنی اصل سمجھنے میں ہی اچھائی ہے، اور تمھارے حقیقت پر مبنی سچائی سمجھنے سے کام کو فائدہ ہوتا ہے۔ ایسا کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ فتح کے کام کا ایک حصہ ہے، اور یہ کام کا ایک ضروری مرحلہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کام کا مقصد لوگوں کی روحوں کو بیدار کرنا، ان کے ضمیر کا احساس بیدار کرنا اور انھیں یہ عظیم نجات حاصل کرنے کا موقع دینا ہے۔ اگر کسی کے پاس ضمیر ہے، تو جب وہ دیکھے کہ وہ پست مقام پر ہے تو اسے خدا کا زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ انھیں لازماً اس کا کلام اپنے ہاتھوں میں پکڑنا چاہیے، وہ فضل مضبوطی سے پکڑیں جو اس نے انھیں دیا ہے، اور یہاں تک کہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہیے اور کہنا چاہیے: ”ہمارا مقام پست ہے اور ہم نے دنیا میں کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔ کوئی بھی ہم حقیر لوگوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ ہمارے گھر کے ماحول میں ہمیں ستایا جاتا ہے، ہمارے شوہر ہمیں دھتکارتے ہیں، ہماری بیویاں ہمیں برا بھلا کہتی ہیں، ہمارے بچے ہمیں حقارت سے دیکھتے ہیں، اور جب ہم بوڑھے ہوتے ہیں تو ہماری بہوئیں بھی ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتی ہیں۔ ہم نے در حقیقت کوئی کم تعداد میں اذیتیں برداشت نہیں کی ہیں، اور اب ہم خدا کی عظیم محبت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، یہ کتنی بڑی خوش بختی ہے! اگر خدا نے ہمیں نہ بچایا ہوتا تو ہم انسانی مصائب کیسے واضح طور پر دیکھ سکتے تھے؟ کیا ہم اب بھی اس گناہ میں ذلیل نہ ہو رہے ہوتے؟ کیا یہ خدا کی طرف سے ہمارا بلند کیا جانا نہیں ہے؟ میں سب سے نچلے درجے کے لوگوں میں سے ایک ہوں، اور خدا نے مجھے بہت اوپر اٹھایا ہے۔ یہاں تک کہ اگر میں تباہ ہو بھی جاؤں، تب بھی مجھے لازماً اس کی محبت کا بدلہ چُکانا چاہیے۔ خدا ہمارے بارے میں بہت اونچی سوچ رکھتا ہے اور وہ ہم سے، ایسے گھٹیا لوگوں سے، آمنے سامنے بات کرتا ہے۔ وہ مجھے سکھانے کے لیے میرا ہاتھ پکڑتا ہے۔ اپنے منہ سے وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے۔ وہ میرے ساتھ رہتا ہے اور میرے ساتھ ہی اذیت اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ مجھے سزا دیتا ہے – تو میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ کیا سزا بھی خدا کی طرف سے بلند کیا جانا ہے؟ مجھے سزا دی گئی ہے پھر بھی میں اس کی راستبازی دیکھ سکتا ہوں۔ میں بے ضمیر نہیں ہو سکتا – مجھے لازماً خدا کی محبت کا بدلہ چُکانا ہوگا۔ میں اب خدا کے خلاف مزید بغاوت نہیں کر سکتا“۔ خدا کا مقام اور اس کا مرتبہ لوگوں جیسا نہیں ہے – اس کا دکھ ایک جیسا ہے، اور اس کا کھانا اور لباس ایک جیسا ہے، لیکن تمام لوگ اس کا احترام کرتے ہیں، اور صرف یہی فرق ہے۔ کیا وہ جن باقی سب کچھ سے لطف اندوز ہوتا ہے، وہ انسان کی طرح نہیں ہے؟ تو پھر تمھیں کیا حق حاصل ہے کہ تم خدا سے درخواست کرو کہ وہ تیرے ساتھ ایک خاص طرح کا برتاؤ کرے؟ خدا نے اتنے بڑے مصائب برداشت کیے ہیں اور اتنا بڑا کام کیا ہے، اور تم – چیونٹیوں سے نیچے، کیڑوں سے نیچے ہو کر – آج اتنے بلند کر دیے گئے ہو۔ اگر تم خدا کی محبت کا بدلہ نہیں چکا سکتے، تو تیرا ضمیر کہاں ہے؟ کچھ لوگ اپنے دل سے کہتے ہیں: ”جب بھی میں خدا کو چھوڑنے کے بارے میں سوچتا ہوں، میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں اور میرے ضمیر پر چوٹ پڑتی ہے۔ میں خدا کا مقروض ہوں۔ میں یہ نہیں کر سکتا۔ میں اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر سکتا۔ اگر مجھے مرنا بھی پڑے اور مر کر اس کے کام کو عظمت دینی پڑے، تو میں حد سے زیادہ مطمئن ہوں گا۔ ورنہ، اگر میں زندہ بھی رہوں، تب بھی مجھے کوئی سکون محسوس نہیں ہوگا“۔ یہ کلام سنو – وہ اس فرض کو بیان کرتا ہے جو ایک مخلوق کو پورا کرنا چاہیے۔ اگر کسی شخص کے اندر ہمیشہ یہ بصیرت ہو تو وہ اندر سے واضح اور پر سکون ہو جائے گا؛ وہ ان چیزوں کے بارے میں پریقین ہو جائے گا۔ تو کہے گا: ”خدا مجھے نقصان نہیں پہنچا رہا ہے، اور وہ جان بوجھ کر مجھ پر نہیں ہنس رہا اور نہ ہی میری تذلیل کر رہا ہے۔ اگرچہ وہ کسی حد تک سختی سے بات کرتا ہے اور یہ دل پر لگتی ہے، لیکن یہ میرے اپنے لیے ہے۔ اگرچہ وہ بہت سختی سے بولتا ہے، پھر بھی وہ مجھے بچا رہا ہے، اور وہ پھر بھی میری کمزوریوں پر رعایت برت رہا ہے۔ وہ مجھے سزا دینے کے لیے حقائق کا استعمال نہیں کر رہا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ خدا نجات ہے۔“ اگر تیرے پاس واقعی یہ تصور ہے، تو تیرے فرار ہونے کا امکان نہیں ہوگا۔ تیرا ضمیر تجھے جانے نہیں دے گا، اور اس کی مذمت تجھے بتائے گی کہ تجھے خدا کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ تُو اس تمام فضل کے بارے میں سوچتا ہے جو تُو نے حاصل کیا ہے۔ تُو نے میرا بہت سا کلام سنا ہے – کیا تُو بے مقصد اسے سن سکتا تھا؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون بھاگ جاتا ہے، تُو ایسا نہیں کر سکتا۔ دوسرے لوگ ایمان نہیں لاتے، لیکن تجھے ضرور ایمان لانا چاہیے۔ دوسرے لوگ خدا کو چھوڑ دیتے ہیں، لیکن تجھے لازماً خدا کو سربلند کرنا اور اس کی گواہی دینی چاہیے۔ دوسرے لوگ خدا کو بدنام کرتے ہیں، لیکن تُو ایسا نہیں کر سکتا۔ خدا چاہے تیرے لیے کتنا ہی بے رحم کیوں نہ ہو، پھر بھی تجھے لازماً اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ تجھے اس کی محبت کا بدلہ دینا چاہیے، اور تیرے پاس ضمیر ہونا چاہیے، کیونکہ خدا معصوم ہے۔ وہ پہلے ہی آسمان سے زمین پر آ کر لوگوں کے درمیان کام کرنے کے لیے بہت ذلت برداشت کر چکا ہے۔ وہ ذرا سی بھی غلاظت کے بغیر مقدس ہے۔ غلاظت کی سرزمین پر آ کر اس نے کتنی ذلت برداشت کی ہے؟ وہ تمھاری خاطر تم پر کام کرتا ہے۔ اگر تُو اس کے ساتھ ضمیر کے بغیر برتاؤ کرے گا تو اس سے بہتر ہو گا کہ تو جلدی مر جائے!
فی الحال، زیادہ تر لوگ بصیرت کے اس پہلو سے محروم ہیں؛ وہ یہ کام بالکل سمجھ نہیں سکتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ آخر کار خدا اس کے کیا حاصل کرنے کا مقصد رکھتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے بارے میں جو بھٹکے ہوئے ہیں – ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی بھول بھلیوں میں داخل ہو گئے ہوں اور چند موڑوں کے بعد اپنا راستہ کھو بیٹھے ہوں۔ اگر تُو ان پر خدا کے انتظامی منصوبے کا مقصد واضح کر دے گا، تو وہ اس میں نہیں بھٹکیں گے۔ بہت سے لوگ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں، اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا کا کام لوگوں کو اذیت دینا ہے۔ وہ اس کے کام کی حکمت اور حیرت انگیزی نہیں سمجھتے ہیں، اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا کام اس کی عظیم طاقت ظاہر کرنا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر، بنی نوع انسان بچانا ہے۔ وہ یہ سب کچھ نہیں دیکھتے۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ آیا ان کے پاس کوئی امکانات ہیں، کیا وہ آسمان میں داخل ہو سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں: ”خدا کا کام ہمیشہ اتنا گول چوراہے جیسا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں براہ راست تیری حکمت دیکھنے کا موقع دے گا۔ تجھے ہمیں اس طرح اذیت نہیں دینی چاہیے۔ ہمارے اندر قابلیت کی بہت کمی ہے، اور ہم تیری مرضی نہیں سمجھتے۔ بہت اچھا ہوگا اگر تُو براہ راست بات اور عمل کرے۔ تم چاہتے ہو کہ ہم اندازہ لگائیں، لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ بہت اچھا ہوگا اگر تُو جلدی کرے اور ہمیں اپنی عظمت دیکھنے کی اجازت دے۔ چیزوں کو اس طرح کے گول چوراہے والے انداز میں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟“ اب تم میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ ضمیر ہے۔ زیادہ ضمیر رکھو۔ اپنی آنکھیں پوری کھولیں، یہ دیکھنے کے لیے کہ واقعی اس کام کے مراحل کون سر انجام دے رہا ہے۔ فوراً نتائج اخذ نہ کریں۔ اب تو نے اس طرز زندگی کے سطحی پہلو کے بارے میں کچھ بہتر طور پر سمجھ لیا ہے جس کا تجھے تجربہ کرنا چاہیے۔ اب بھی تمھیں بہت زیادہ سچائی کا تجربہ کرنا ہے، اور جب وہ دن آئے گا کہ تو اسے مکمل طور پر سمجھ سکے گا، تو تُو اس طرح بات نہیں کرے گا، اور نہ ہی تُو شکایت کرے گا۔ نہ ہی تُو چیزوں کی وضاحت کرنے میں اتنی جلدی کرے گا۔ تُو کہے گا: ”خدا بہت حکمت والا ہے، خدا بہت مقدس ہے، خدا بہت طاقت ور ہے!“