نئے دور کے احکام
خدا کے کام کا تجربہ کرتے ہوئے، تمھیں لازماً خدا کے کلام کو غور سے پڑھنا چاہیے اور تمھیں اپنے آپ کو سچائی سے آراستہ کرنا چاہیے لیکن جو کچھ تم کرنا چاہتے ہو یا جس طرح کرنا چاہتے ہو اس کے بارے میں تمھاری پر خلوص مناجات یا دعا کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور بے شک یہ چیزیں بے کار ہیں۔ اس کے باوجود اس وقت تمہیں یہ مسائل درپیش ہیں کہ تم نہیں جانتے کہ تم کیسے خدا کے کام کا عملی تجربہ کر سکتے ہو اور یہ کہ تم میں بہت زیادہ جمود ہے۔ تم بہت سے عقیدوں سے واقف ہو لیکن تم حقیقت سے بہت دور ہو۔ کیا یہ غلطی کی علامت نہیں ہے؟ تم میں، اس گروہ میں، بہت غلطی دکھائی دیتی ہے۔ آج تم "خدمت گاروں" جیسی آزمائشوں کو حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور تم خدا کے کلام سے متعلق دیگر آزمائشوں اور تزکیے کا تصور کرنے یا انھیں حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہو۔ تمھیں لازماً ان بہت سی چیزوں کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو بہت سے ایسے فرائض کی پابندی کرنی چاہیے جو انھیں انجام دینے چاہییں۔ لوگوں کو اسی پر عمل کرنا چاہیے اور یہی وہ کام ہے جو انھیں لازماً انجام دینا چاہیے۔ روح القدس کو وہ کام کرنے دو جو کہ لازماً روح القدس کو ہی کرنے چاہییں؛ انسان اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ انسان کو اس پر قائم رہنا چاہیے کہ جو انسان کو کرنا چاہیے، جس کا روح القدس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے جو انسان کو کرنا چاہیے اور اسے ایک حکم کے طور پر قائم رہنا چاہیے، بالکل عہد نامہ قدیم میں شریعت کی پاسداری کی طرح۔ اگرچہ اب شریعت کا دور نہیں ہے لیکن ابھی بھی بہت سے الفاظ ہیں جن پر عمل کرنا چاہیے جو شریعت کے دور میں بولے گئے الفاظ کی طرح ہیں۔ ان الفاظ پر عمل محض روح القدس کے چھونے پر بھروسہ کر کے نہیں کیا جاتا بلکہ یہ ایسی چیز ہیں جن پر انسان کو ضرور عمل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر:
تم عملی خدا کے کام کے بارے میں فیصلہ نہیں کرو گے۔
تم اس شخص کی مخالفت نہیں کرو گے جس کی گواہی خدا نے دی ہے۔
خدا کے سامنے تم اپنا مقام قائم رکھو گے اور بدکار نہیں بنو گے۔
تمھیں تقریر میں اعتدال پسند ہونا چاہیے اور تمھارے قول و فعل کو اس انسان کے انتظامات پر لازمی طور پر عمل کرنا چاہیے جس کی خدا نے گواہی دی ہے۔
تمھیں خدا کی گواہی کا احترام کرنا چاہیے۔ تم خدا کے کام اور اس کی زبان سے ادا ہونے والے کلام کو نظر انداز نہیں کرو گے۔
تم خدا کی باتوں کے لہجے اور مقاصد کی نقالی نہیں کرو گے۔
خارجی طور پر تم کوئی ایسا کام نہیں کرو گے جس سے اس انسان کی کھلی مخالفت ہو جس کی گواہی خدا نے دی ہے۔
یہ وہ چیزیں ہیں جن پر ہر شخص کو عمل کرنا چاہیے۔ ہر دور میں خدا بہت سے اصولوں کی وضاحت کرتا ہے جو قوانین کے مترادف ہیں اور ان پر انسان کو عمل کرنا ہے۔ اس کے ذریعے وہ انسان کے مزاج کو محدود کرتا اور اس کے اخلاص کا کھوج لگاتا ہے۔ مثال کے طور پر عہد نامہ قدیم کے الفاظ "تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عِزّت کر" پر غور کرو۔ یہ الفاظ آج لاگو نہیں ہوتے؛ اس وقت انھوں نے محض انسان کے بعض خارجی رجحانات کو محدود کیا اور انھیں خدا پر انسان کے ایمان کے خلوص کا مظاہرہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور یہ ان لوگوں کی نشانی تھے جو خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ اگرچہ اب بادشاہی کا دور ہے لیکن ابھی بھی بہت سے اصول ہیں جن پر انسان کو لازماً عمل کرنا چاہیے۔ ماضی کے قواعد لاگو نہیں ہوتے اور آج انسان کے لیے اس پر عمل کرنے کے لیے اور بھی بہت سے مناسب طریقے موجود ہیں اور جو ضروری ہیں۔ ان میں روح القدس کا عمل شامل نہیں ہے اور یہ کام لازماً انسان کو کرنا چاہیے۔
فضل کے دور میں شریعت کے دور کے بہت سے طریقوں کو مسترد کر دیا گیا تھا کیونکہ یہ قوانین اس وقت کام کے لیے خاص طور پر موثر نہیں تھے۔ ان کو ترک کرنے کے بعد بہت سے ایسے طریقے وضع کیے گئے جو اس دور کے لیے موزوں تھے اور جو آج کے بہت سے اصول بن چکے ہیں۔ آج کے خدا کے آنے پر ان اصولوں کو ختم کر دیا گیا اور مزید اس چیز کی ضرورت نہیں تھی کہ ان پر عمل کیا جائے، اور بہت سے ایسے طریقے وضع کیے گئے جو آج کے کام کے لیے موزوں ہیں۔ آج یہ طریقے اصول نہیں ہیں بلکہ اس کی بجائے ان کا مقصد ان اثرات کو حاصل کرنا ہے؛ وہ آج کے لیے موزوں ہیں – کل، شاید وہ اصول بن جائیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تجھے اس پر عمل کرنا چاہیے جو آج کے کام کے لیے نتیجہ خیز ہے۔ کل پر کوئی توجہ نہ دے: آج جو کچھ کیا جاتا ہے وہ آج کی خاطر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب کل آئے تو بہتر طریقے موجود ہوں گے جن پر تجھے عمل کرنے کی ضرورت ہو گی لیکن اس پر زیادہ توجہ نہ دے بلکہ اس پر قائم رہ جس پر آج عمل کیا جائے تاکہ خدا کی مخالفت سے بچا جا سکے۔ آج پابندی کرنے کے لیے انسان کے لیے مندرجہ ذیل سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے:
تجھے اس خدا کی چاپلوسی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو تیری آنکھوں کے سامنے موجود ہے یا اس سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہیے۔
تو اپنے سامنے موجود خدا کے حضور غلیظ یا متکبرانہ بات نہیں کرے گا۔
تو اپنی آنکھوں کے سامنے والے خدا کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے چکنے چپڑے الفاظ اور خوبصورت تقریروں سے دھوکا نہیں دے گا۔
تو خدا کے سامنے بے ادبی سے کام نہیں لے گا۔ تو اس کی اطاعت کرے گا جو خدا کی زبان سے ادا ہوتا ہے اور اس کے کلام کی مزاحمت، مخالفت یا اس پر جھگڑا نہیں کرے گا۔
تو خدا کی زبان سے ادا ہونے والے کلام کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق نہیں کرے گا۔ تجھے اپنی زبان کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے خبیثوں کی دھوکا دہی کی چالوں سے بچ سکے۔
تجھے اپنے قدموں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ خدا کی طرف سے تو اپنے لیے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی سے بچ سکے۔ اگر تو حد سے تجاوز کرے گا تو اس سے تو خدا کے مقام پر کھڑا ہو جائے گا اور ایسے الفاظ بولے گا جو تکبر اور شان و شوکت کے ساتھ ہوں گے اور اسی طرح تو خدا کی نفرت کے قابل بن جائے گا۔
تو لاپرواہی سے خدا کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ نہیں پھیلائے گا تاکہ کیہں ایسا نہ ہو کہ دوسرے تیرا مذاق اڑائیں اور بری روحیں تجھے بیوقوف بنا دیں۔
تو آج کے خدا کے تمام کام کی اطاعت کرے گا۔ اگر تو اسے نہ بھی سمجھے تو پھر بھی تو اس پر اپنی رائے نہیں دے گا؛ تو جو کر سکتا ہے وہ فقط تلاش اور رفاقت ہے۔
کوئی شخص خدا کے اصل مقام سے تجاوز نہیں کرے گا۔ تو انسان کی حیثیت سے آج کے خدا کی خدمت سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ تو انسان کی حیثیت سے آج کے خدا کو نہیں سکھا سکتا – ایسا کرنا گمراہی ہے؛
کوئی بھی اس شخص کی جگہ کھڑا نہیں ہو سکتا جس کی گواہی خدا نے دی ہے؛ اپنے الفاظ، اعمال اور اندرونی خیالات میں تُو ایک انسان کی حیثیت میں کھڑا ہے۔ اس کی پابندی کرنی ہے، یہ انسان کی ذمہ داری ہے اور کوئی اسے تبدیل نہیں کرسکتا؛ ایسی کوشش کرنا انتظامی احکامات کی خلاف ورزی ہو گی۔ سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے۔
خدا نے جو طویل عرصہ بولنے اور اظہار کرنے میں گزارا ہے اس کی وجہ سے انسان خدا کے کلام کو پڑھنا اور یاد کرنا اپنا بنیادی کام سمجھتا ہے۔ کوئی بھی عمل کرنے پر توجہ نہیں دیتا اور یہاں تک کہ جس کی تمھیں پابندی کرنی چاہیے وہ بھی تم نہیں کرتے۔ اس سے تمھاری خدمت میں بہت سی مشکلات اور مسائل آئے ہیں۔ اگر خدا کی باتوں پر عمل کرنے سے پہلے تو نے اس بات پر عمل نہیں کیا جس پر تجھے قائم رہنا چاہیے تھا تو تُو ان لوگوں میں سے ہے جن سے خدا نے نفرت کی ہے اور جنھیں اس نے مسترد کر دیا ہے۔ ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے تمھیں مستحکم اور پرخلوص ہونا چاہیے۔ تمیں ان کو زنجیریں نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان کی احکام کی طرح پابندی کرنی چاہیے۔ آج تمھیں اپنے طور پر اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ کیا اثرات حاصل کرنے ہیں؛ مختصراً یہ کہ روح القدس اسی طرح کام کرتی ہے اور جو کوئی جرم کرتا ہے اسے اس کی سزا لازماً ملنی چاہیے۔ روح القدس جذبات سے خالی ہے اور تیرے جیسے لوگوں کی موجودہ فہم سے بے پروا ہے۔ اگر تو آج خدا کو ناراض کرے گا تو وہ تجھے سزا دے گا۔ اگر تو اسے اس کے دائرہ اختیار میں برہم کرے گا تو وہ تجھے نہیں چھوڑے گا۔ اسے اس بات کی پروا نہیں ہے کہ تو یسوع کے الفاظ کی پابندی کرنے میں کتنا سنجیدہ ہے۔ اگر تو خدا کے آج کے احکام کی خلاف ورزی کرے گا، تو وہ تجھے سزا دے گا اور تجھے موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ تیرا ان کی پابندی نہ کرنا کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ تجھے لازمی پابندی کرنی چاہیے، چاہے اس کا مطلب تھوڑا سا درد اٹھانا ہی ہو! اس سے قطع نظر کہ کون سا مذہب، شعبہ، قوم یا فرقہ ہے، مستقبل میں ان سب کو ان طریقوں پر لازماً عمل کرنا چاہیے۔ کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے اور کوئی بھی نہیں بخشا جائے گا! کیونکہ یہ وہی ہیں جو آج روح القدس کرے گی اور کوئی ان کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اگرچہ وہ کوئی بڑی چیز نہیں ہیں لیکن انھیں ہر شخص کو کرنا چاہیے اور یہ انسان کے لیے یسوع کے مقرر کردہ احکامات ہیں جسے دوبارہ زندہ کیا گیا تھا اور جو آسمان پر چلا گیا تھا۔ کیا "راستہ ۔۔۔ (7)" یہ نہیں کہتا کہ یسوع کی یہ تشریح کہ چاہے تم نیک ہو یا گناہگار، یہ آج خدا کے بارے میں تمھارے رویے کے مطابق ہے؟ کوئی بھی اس نکتے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ شریعت کے دور میں نسل در نسل فریسی خدا پر ایمان رکھتے تھے لیکن فضل کے دور کی آمد پر وہ یسوع کو نہیں جانتے تھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ پس ایسا تھا کہ انھوں نے جو کچھ بھی کیا اس کا حاصل کچھ نہیں تھا اور سب بے کار تھا اور خدا نے ان کے اعمال کو قبول نہیں کیا تھا۔ اگر تو اس کے ذریعے ادراک کر سکتا ہے، تو تُو آسانی سے گناہ نہیں کرے گا۔ بہت سے لوگوں نے شاید خدا کے خلاف خود کو جانچا ہوا ہے۔ خدا کی مخالفت کرنے کا ذائقہ کیسا ہے؟ کیا یہ تلخ ہے یا میٹھا؟ تجھے یہ سمجھنا چاہیے؛ یہ دکھاوا نہ کر کہ تو نہیں جانتا۔ شاید کچھ لوگ اپنے دلوں میں بے یقین رہتے ہیں۔ پھر بھی میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ تو اسے آزما اور دیکھ – دیکھ کہ اس کا ذائقہ کیسا ہے۔ یہ بہت سے لوگوں کو ہمیشہ اس بارے میں شک کرنے سے بچائے گا۔ بہت سے لوگ خدا کا کلام پڑھتے ہیں لیکن اپنے دلوں میں خفیہ طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کی اس طرح مخالفت کرنے کے بعد، کیا تجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ تیرے دل میں چاقو گھونپ کر مروڑ دیا گیا ہے؟ اگر یہ خاندانی عدم ہم آہنگی نہیں ہے تو یہ جسمانی تکلیف ہے یا بیٹوں اور بیٹیوں کی مصیبتیں ہیں۔ اگرچہ تیرا بدن موت سے بچ گیا ہے لیکن خدا کا ہاتھ تجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ کیا تجھے لگتا ہے کہ یہ اتنا آسان ہو سکتا ہے؟ خاص طور پر، جو لوگ خدا کے قریب ہیں ان کے لیے تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ وہ اس پر توجہ مرکوز کریں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، تو اسے بھول جائے گا اور اس کا احساس کیے بغیر تو لالچ میں ڈوب جائے گا اور ہر چیز سے غافل ہو جائے گا اور یہ تیرے گناہ کرنے کا آغاز ہو گا۔ کیا یہ تجھے معمولی لگتا ہے؟ اگر تو یہ کام اچھی طرح کر سکتا ہے تو تیرے پاس کامل بنائے جانے کا موقع ہے – کہ تو خدا کے سامنے آ کر اس کی اپنی زبانی اس کی ہدایت حاصل کر۔ اگر تو بے پروا ہے تو پھر تیرے لیے مشکل ہو گی اور تو خدا کی نافرمانی کرے گا، تیرے قول و فعل غیر اخلاقی ہو جائیں گے اور جلد یا بدیر تو بڑی آندھیوں اور زبردست لہروں میں بہہ جائے گا۔ تم میں سے ہر ایک کو ان احکامات کو تحریر کر لینا چاہیے۔ اگر تو ان کی خلاف ورزی کرے گا تو اگرچہ جس شخص کی خدا نے گواہی دی ہے وہ تجھے برا نہیں کہے گا لیکن خدا کی روح تیرے ساتھ معاملہ ادھورا رکھے گی اور وہ تجھے نہیں بخشے گی۔ کیا تو اپنے جرم کے نتائج برداشت کر سکتا ہے؟ اس طرح، چاہے خدا کچھ بھی کہے، تجھے اس کے الفاظ کو عملی جامہ پہنانا چاہیے اور ہر طرح کے وسائل کے ساتھ ان کی لازماً پابندی کرنی چاہیے۔ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے!