بادشاہی کا دور کلام کا دور ہے

بادشاہی کے زمانے میں، خدا نئے دور میں پیشوائی کے لیے، اپنے اعمال کے ذرائع میں تبدیلی، اور پورے زمانے کا کام کرنے کے لیے کلام استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کے ذریعے خدا کلام کے زمانے میں کام کرتا ہے۔ وہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے بات کرنے کے لیے گوشت پوست کا جسم بن گیا ہے، تاکہ انسان حقیقی معنوں میں خدا کا دیدار کر سکے، وہ بدن کی شکل میں کلام ہے، تاکہ انسان اس کی دانش اور شان کا مشاہدہ کر سکے۔ ایسا کام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ انسان کو تسخیر کرنے، انسان کو کامل کرنے اور انسان کو باہر نکال دینے کے مقاصد بہتر طریقے سے حاصل کیے جا سکیں، جو کہ کلام کے دور کے کام میں کلام کے استعمال کا درست مفہوم ہے۔ اس کلام کے ذریعے، لوگ خدا کا کام، خدا کا مزاج، انسان کا مادّہ، اور انسان کو کس چیز میں داخل ہونا چاہیے، جان لیتے ہیں۔ کلام کے ذریعے، کلام کے زمانے میں خدا جو کام کرنا چاہتا ہے وہ مکمل طور پر بارآور کردیا جاتا ہے۔ اس کلام کے ذریعے لوگوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے، باہر نکال دیا جاتا ہے اور آزمایا جاتا ہے۔ لوگوں نے خدا کا کلام دیکھا ہے ہیں، یہ کلام سنا ہے، اور اس کلام کا وجود پہچانا ہے۔ نتیجے کے طور پر، وہ خدا کے وجود پر، خدا کی قدرت اور حکمت کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے خدا کی محبت اور انسان کو بچانے کی خواہش پر یقین کرنے لگے ہیں۔ لفظ "کلام" سادہ اور عام ہو سکتا ہے، لیکن مجسم خدا کے منہ سے نکلا کلام کائنات جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، وہ لوگوں کے دل بدل دیتا ہے، ان کے تصورات اور پرانے مزاج بدل دیتا ہے، اور پوری دنیا جس طرح نظر آتی تھی، اسے بدل دیتا ہے۔ زمانوں میں، صرف آج کے خدا نے اس طرح کام کیا ہے، اور صرف وہی اس طرح بولتا ہے اور انسان کو اسی طرح بچانے آتا ہے۔ اب کے بعد، انسان خدا کے کلام کی راہنمائی میں زندگی گزارتا ہے، اس کی نگہبانی کی جاتی ہے اور اسے خدا کا کلام فراہم کیا جاتا ہے۔ لوگ خدا کے کلام کی دنیا میں رہتے ہیں، خدا کے کلا م کی لعنتوں اور برکتوں کے مابین، اور حتیٰ کہ مزید لوگ ایسے ہیں جو اس کے کلام کی عدالت اور سزا کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ یہ کلام اور اس کا کام سب انسان کی نجات کے لیے، خدا کی منشا پوری کرنے کے لیے، اور پرانی تخلیق کی دنیا کی اصل شکل بدلنے کے لیے ہیں۔ خدا نے دنیا کو کلام کے ذریعے تخلیق کیا، وہ کلام کے استعمال سے پوری کائنات میں لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے، اور وہ کلام کے استعمال سے انھیں تسخیر کرتا اور بچاتا ہے۔ آخرکار، وہ پرانی دنیا ختم کرنے کے لیے کلام کا استعمال کرے گا، اس طرح اس کے انتظامی منصوبے کی مکمل تکمیل ہو گی۔ بادشاہی کے پورے دور کے دوران خدا اپنے کام انجام دینے اور کام کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کلام کا استعمال کرتا ہے۔ وہ عجائبات بروئے کار نہیں لاتا اور نہ ہی معجزات کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ صرف کلام کے ذریعے اپنا کام کرتا ہے۔ اس کلام کی وجہ سے انسان کی پرورش اور اسے سامان کی فراہمی ہوتی ہے اور علم اور حقیقی تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ کلام کے دور میں، انسان کو غیر معمولی برکت دی گئی ہے۔ اسے کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوتی اور صرف خدا کے کلام کی فراخ فراہمی سے لطف اندوز ہوتا ہے؛ آنکھیں بند کر کے تلاش کرنے یا اندھا دھند آگے بڑھنے کی ضرورت کے بغیر، اپنے گوشہ راحت سے، وہ خدا کا ظہور دیکھتا ہے، اسے منہ سے بولتے ہوئے سنتا ہے، جو وہ فراہم کرتا ہے، اسے وصول کرتا ہے، اور اسے ذاتی طور پر اپنا کام کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ماضی کے لوگ لطف اندوز ہونے سے قاصر تھے اور یہ وہ برکتیں ہیں جو وہ کبھی نہیں پاسکتے تھے۔

خدا نے انسان کو کامل بنانے کا عزم کیا ہے، اور قطع نظر اس کے کہ وہ کس نقطہ نظر سے بات کرتا ہے، یہ سب لوگوں کو کامل بنانے کی خاطر ہے۔ روح کے نقطہ نظر سے بولے جانے والے کلمات لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہیں۔ ان کے پاس عمل کرنے کا راستہ تلاش کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، کیونکہ ان کی سمجھنے کی صلاحیت محدود ہے۔ خدا کا کام مختلف اثرات حاصل کرتا ہے، اور کام کے لیے اٹھائے ہر قدم میں اس کا اپنا مقصد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ضروری ہے کہ وہ مختلف نقطہ نظر سے بات کرے، کیونکہ صرف ایسا کرنے ہی سے وہ انسان کو کامل بنا سکتا ہے۔ اگر وہ صرف روح کے نقطہ نظر سے اپنی آواز بلند کرے تو خدا کے کام کایہ مرحلہ مکمل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ تُو اس کے لہجے سے دیکھ سکتا ہے کہ وہ لوگوں کے اس گروہ کو کامل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ تو جو کامل بنائے جانے کی خواہش رکھتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لیے پہلا مرحلہ کیا ہونا چاہیے؟ سب سے بڑھ کر، تمھیں خدا کے کام کا لازماً علم ہونا چاہیے۔ آج، خدا کے کام میں ایک نیا طریقہ شروع ہوا ہے؛ دور بدل گیا ہے، خدا کے کام کرنے کا طریقہ بھی بدل گیا ہے، اور خدا کے بولنے کا طریقہ مختلف ہے۔ آج نہ صرف اس کے کام کا طریقہ بدل گیا ہے بلکہ دور بھی بدل گیا ہے۔ اب بادشاہی کا دور ہے۔ یہ خدا سے محبت کرنے کا دور بھی ہے۔ یہ ہزار سالہ بادشاہی کے دور کا پیش خیمہ ہے – جو کہ کلام کا دور بھی ہے، اور جس میں خدا انسان کو کامل کرنے کے لیے گفتگو کے بہت سے ذرائع استعمال کرتا ہے، اور انسان کی فراہمی کے لیے مختلف نقطہ نظر سے بات کرتا ہے۔ ہزار سالہ بادشاہی کے دور میں داخل ہونے پر، خدا انسان کو کامل بنانے کے لیے کلام کا استعمال شروع کر دے گا، انسان کو زندگی کی حقیقت میں داخل ہونے کی اجازت دے گا اور صحیح راستے پر اس کی راہنمائی کرے گا۔ خدا کے کام کے بہت سے مراحل کا تجربہ کرنے کے بعد، انسان نے دیکھا ہے کہ خدا کا کام تبدیل نہیں ہوتا، بلکہ بغیر کسی وقفے کے ارتقا پذیر اور گہرا ہو رہا ہے۔ لوگوں کے اتنے عرصے تک اس کا تجربہ کرنے کے بعد، کام بار بار گھومتا رہا، بار بار بدلتا رہا۔ یہ چاہے جتنا بھی بدل جائے، یہ انسانیت کو نجات دلانے کے خدا کے مقصد سے کبھی انحراف نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ دس ہزار تبدیلیوں کے باوجود، یہ اپنے اصل مقصد سے کبھی نہیں بھٹکتا۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کے کام کا طریقہ کیسے بدل جائے، یہ کام کبھی بھی سچائی یا زندگی سے نہیں ہٹتا ہے۔ اس طریقہ کار میں تبدیلی، جس کے ذریعے کام کیا جاتا ہے، صرف کام کی شکل میں تبدیلی، اور اس نقطہ نظر میں تبدیلی ہوتی ہے، جس سے خدا بولتا ہے۔ خدا کے کام کے مرکزی مقصد میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ خدا کے لہجے اور اس کے کام کے طریقہ کار میں تبدیلیاں اثر حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ آواز کے لہجے میں تبدیلی کا مطلب کام کے پس پردہ مقصد یا اصول میں تبدیلی نہیں ہے۔ لوگ بنیادی طور پر زندگی کی جستجو کے لیے خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر تُو خدا پر ایمان رکھتا ہے، پھر بھی زندگی کی جستجو نہیں کرتا یا سچائی یا خدا کی معرفت تلاش نہیں کرتا تو یہ خدا پر ایمان نہیں ہے! اور کیا اب بھی بادشاہ بننے کے لیے بادشاہی میں داخلے کی کوشش حقیقت پسندانہ ہے؟ زندگی کی جستجو کے ذریعے خدا کی سچی محبت کا حصول – صرف یہی حقیقت ہے؛ سچائی کی جستجو اور عمل – یہ سب حقیقت ہیں۔ خدا کا کلام پڑھنا، اور اس کلام کا عملی تجربہ کرتے ہوئے، تم حقیقی تجربے کے درمیان خدا کا علم سمجھو گے، اور صحیح معنوں میں جستجو کرنے کا یہی مطلب ہے۔

اب بادشاہی کا دور ہے۔ تیرے اس نئے دور میں داخل ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا تُو خدا کے کلام کی حقیقت میں داخل ہوچکا ہے یا نہیں، اور اس بات پر کہ آیا اس کا کلام تیری زندگی کی سچائی بن چکا ہے یا نہیں۔ خدا کا کلام ہر شخص کےعلم میں لایا جاتا ہے تاکہ، آخر میں، تمام لوگ خدا کے کلام کی دنیا میں رہیں گے، اور اس کا کلام ہر شخص کو آگہی بخشے گا اور اندر سے روشن کرے گا۔ اگر اس وقت کے دوران تُو خدا کا کلام پڑھنے میں غفلت برتتا ہے ,اور اس کے کلام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تیری حالت غلط ہے۔ اگر تُو کلام کے دور میں داخل ہونے سے قاصر ہے تو روح القدس تجھ میں کام نہیں کرتی؛ اگر تُو اس دور میں داخل ہو چکا ہے تو وہ اپنا کام کرے گی۔ کلام کے دور کے آغاز میں تُو روح القدس کا کام حاصل کرنے کے لیے کیا کرسکتا ہے؟ اس دور میں اور تیرے درمیان خدا درج ذیل حقیقت پوری کرے گا: کہ ہر شخص خدا کے کلام پر عمل کرے گا، سچائی کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو گا، اور خدا سے خلوص دل سے محبت کرے گا؛ کہ تمام لوگ خدا کے کلام کو بنیاد اور اپنی حقیقت کے طور پر استعمال کریں گے، اور خدا کی تعظیم کرنے والے دل ہوں گے؛ اور یہ کہ خدا کے کلام پر عمل کر کے انسان خدا کے ساتھ مل کر بادشاہی کے اختیار کا استعمال کرے گا۔ یہ کام خدا ہی کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ کیا تُوخدا کا کلام پڑھے بغیر رہ سکتا ہے؟ آج، بہت سے ایسے ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس کاکلام پڑھے بغیر ایک یا دو دن بھی نہیں رہ سکتے۔ ان کو ہر روز اس کا کلام پڑھنا ہو گا، اور اگر وقت اجازت نہیں دیتا تو اسے سننا کافی ہوگا۔ یہ وہ احساس ہے جو روح القدس لوگوں کو دیتی ہے، اور یہ وہ راستہ ہے جس سے وہ انھیں متحرک کرنا شروع کرتی ہے۔ یعنی، وہ لوگوں پر کلام کے ذریعے حکومت کرتی ہے تاکہ وہ خدا کے کلام کی حقیقت میں داخل ہو سکیں۔ اگر صرف ایک دن خدا کا کلام کھائے پیے بغیر رہنے سے، تجھے تاریکی اور پیاس محسوس ہو، اور تُو اسے برداشت نہ کر سکے، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجھے روح القدس کی طرف سے تحریک ملی ہے اوریہ کہ اس نے تجھ سے منہ نہیں پھیرا ہے۔ پس تُواس دھارے میں ہے۔ تاہم اگر ایک یا دو دن خدا کا کلام کھائے پیے بغیر رہنے سے تجھے کچھ محسوس نہ ہو، اگر تجھے کوئی پیاس نہیں لگتی اور تجھے کوئی تحریک نہیں ہوتی تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روح القدس نے تجھ سے منہ پھیر لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پھر، تیرے اندر کی حالت میں کچھ خرابی ہے؛ تُو کلام کے دور میں داخل نہیں ہوا ہے اور تُو ان میں سے ایک ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ خدا لوگوں پر حکومت کرنے کے لیے کلام کااستعمال کرتا ہے؛ اگر تُو خدا کا کلام کھائے اور پیے تو تجھے اچھا محسوس ہوتا ہے، اور اگر تُو ایسا محسوس نہیں کرتا تو تیرے پاس پیروی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ خدا کا کلام لوگوں کی غذا، اور وہ قوت بن جاتا ہے جو انھیں چلاتی ہے۔ انجیل مقدس کہتی ہے کہ "آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نِکلتی ہے۔" آج، خدا وہ کام پایہ تکمیل تک پہنچائے گا، اور وہ تم میں یہ حقیقت پوری کرے گا۔ یہ کیسے ہے کہ ماضی میں لوگ خدا کا کلام پڑھے بغیر کئی دن گزار سکتے تھے اور پھر بھی معمول کے مطابق کھانے پینے اور کام کرنے کے قابل ہوتے تھے، لیکن آج ایسا نہیں ہے؟ اس دور میں، خدا سب پر حکومت کرنے کے لیے بنیادی طور پر کلام کا استعمال کرتا ہے۔ خدا کے کلام کے ذریعے، انسان کو جانچا اور کامل کیا جاتا ہے، پھر آخر کار بادشاہی میں لے جایا جاتا ہے۔ صرف خدا کا کلام ہی انسان کو زندگی فراہم کر سکتا ہے، اور صرف خدا کا کلام ہی انسان کو روشنی اور عمل کے لیے راستہ دے سکتا ہے، خاص طور پر بادشاہی کے دور میں۔ جب تک تُو خدا کے کلام کی حقیقت سے نہیں بھٹکتا، ہر روز اس کا کلام کھاتا اور پیتا رہتا ہے، خدا تجھے کامل بنا سکتا ہے۔

زندگی کی جستجو ایسی چیز نہیں ہے جسے جلدبازی سے کیا جا سکے؛ زندگی کی بڑھوتری محض ایک یا دو دن میں نہیں ہوتی۔ خدا کا کام عام اور عملی ہے، اور ایک ایسا عمل ہے جس سے یہ لازمی طور پر گزرتا ہے۔ مجسم یسوع کو تصلیب کا کام مکمل کرنے میں ساڑھے تیس سال لگ گئے۔ تو انسان کو پاک کرنے اور اس کی زندگی تبدیل کرنے کے کام کا کیا ہوگا، جو انتہائی مشکل کام ہے؟ ایک ایسا عام آدمی بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے جو خدا کو آشکار کرے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ہے جو عظیم سرخ اژدہے کی قوم میں پیدا ہوئے ہیں، جو کمزور استعداد کے حامل ہیں اور انھیں خدا کے کلام اور کام کی طویل مدت درکار ہے۔ لہٰذا نتائج دیکھنے کے لیے بے صبری نہ کرو۔ تجھے خدا کا کلام کھانے اور پینے میں مستعد ہونا چاہیے، اور خدا کے کلام پر زیادہ محنت کرنا چاہیے۔ جب تُو اس کا کلام پڑھنا ختم کر لیتا ہے، تو تجھے خدا کے کلام میں علم، بصیرت، فراست، اور حکمت میں بڑھتے ہوئے انھیں حقیقی عملی جامہ پہنانے کے لازماً قابل ہونا چاہیے۔ اس کے ذریعے، تجھے احساس بھی نہ ہوگا اور تُو بدل جائے گا۔ اگر تُو خدا کا کلام کھانے اور پینے، پڑھنے، جاننے، تجربہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کا اصول بنا سکتا ہے تو، تُو اس کا احساس ہوئے بغیر باشعور ہو جائے گا۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ خدا کا کلام پڑھ کر بھی عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ تجھے کیا جلدی ہے؟ جب تُو ایک خاص حیثیت تک پہنچ جائے گا، تو تُو اس کے کلام پر عمل کے قابل ہو جائے گا۔ کیا چار یا پانچ سال کا بچہ یہ کہے گا کہ وہ اپنے والدین کی معاونت یا عزت کرنے سے قاصر ہے؟ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تیرا موجودہ حیثیت کتنی بڑی ہے۔ تُو جو عمل کر نے کے قابل ہے، وہ عمل کر، اور خدا کے انتظام میں خلل ڈالنے والا بننے سے بچ۔ بس خدا کا کلام کھااور پی، اور اب سے اسے اپنے اصول کے طور پر لے۔ فی الحال، اس بارے میں فکر نہ کر کہ آیا خدا تجھے مکمل بنا سکتا ہے یا نہیں۔ ابھی اس میں نہ پڑ۔ اور جیسے ہی تیرے پاس خدا کا کلام آئے بس اسے کھا اور پی، اور خدا یقینی طور پر تجھے مکمل کرے گا۔ تاہم، ایک اصول ہے جس کے تحت تجھے اس کا کلام کھانا اور پینا چاہیے۔ آنکھیں بند کر کے ایسا نہ کر۔ خدا کا کلام کھانے اور پینے میں، ایک طرف خدا کے اس کلام کی جستجو کر جو تجھے معلوم ہونا چاہیے – یعنی وہ جو بصائر سے متعلق ہو – اور دوسری طرف اس کی جستجو کر جس پر تجھے درحقیقت عمل کرنا چاہیے۔ یعنی جس میں تجھے داخل ہونا چاہیے۔ ایک پہلو کا تعلق علم سے ہے اور دوسرے کا داخلے سے۔ ایک بار جب تُو دونوں کو سمجھ لے گا – جب تُو یہ سمجھ لے گا کہ تجھے کیا جاننا چاہیے اور تجھے کیا عمل کرنا چاہیے – تو تب تُو جان جائے گا کہ خدا کا کلام کیسے کھانا اور پینا ہے۔

آگے بڑھتے ہوئے، خدا کے کلام کے بارے میں بات کرنا تیرے بولنے کا اصول ہونا چاہیے۔ عام طور پر، جب تمھارا اجتماع ہوتا ہے، تمھیں خدا کے کلام کے بارے میں رفاقت میں مشغول ہونا چاہیے، خدا کا کلام اپنی بات چیت کے مواد کے طور پر لے کر، اس بارے میں بات کرنا کہ اس کلام کے بارے میں تم کیا جانتے ہو، تم انھیں کس طرح عملی طور پر لاگو کرتے ہو، اور روح القدس کیسے کام کرتی ہے۔ جب تک تُو خدا کے کلام کی رفاقت کرے گا، روح القدس تجھے روشن کرے گی۔ خدا کے کلام کی دنیا حاصل کرنے کے لیے انسان کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر تُو اس میں داخل نہیں ہوتا، تو خدا کے پاس کام کا کوئی راستہ نہیں ہو گا، اور اگر تُو اپنا منہ بند رکھے گا اور اس کے کلام کے بارے میں بات نہیں کرے گا تو اس کے پاس تجھے روشن کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ تجھے جب بھی کوئی اور مصروفیت نہ ہو، خدا کے کلام کے بارے میں بات کر، اور فضول گپ شپ میں مشغول نہ ہو! اپنی زندگی خدا کے کلام سے بھر جانے دے – صرف تب ہی تُو مخلص ایمان رکھنے والا بنے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تیری رفاقت سطحی ہے۔ اتھلے پن کے بغیر کوئی گہرائی نہیں ہو سکتی۔ ایک طریقہ کار ہونا ضروری ہے۔ تو اپنی تربیت کی بدولت، اپنے اوپر روح القدس کی روشنی اور خدا کے کلام کو کھانے اور پینے کے موثر طریقے کو سمجھے گا، کچھ عرصہ تحقیق کے بعد تُو خدا کے کلام کی حقیقت میں داخل ہو جائے گا۔ صرف اسی صورت میں کہ جب تُو تعاون کرنے کے لیے پرعزم ہوگا، تو تُو روح القدس کا کام حاصل کرنے کے قابل ہوگا۔

خدا کا کلام کھانے اور پینے کے اصولوں میں سے ایک کا تعلق علم سے ہے اور دوسرے کا داخلے سے۔ تجھے کون سا کلام جاننے کی ضرورت ہے؟ تجھے وہ کلام جاننا چاہیے جس کا تعلق بصائر سے ہے (جیسے، اس سے متعلق کہ خدا کا کام اب کس دور میں داخل ہوا ہے، خدا اب کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، مجسم ہونا کیا ہے، وغیرہ؛ یہ سب بصائر سے متعلق ہے)۔ اس راستے کا کیا مطلب ہے جس میں انسان کو داخل ہونا چاہیے؟ اس سے مراد خدا کا کلام ہے جس پر انسان کو عمل کرنا اور اس میں داخل ہونا چاہیے۔ مندرجہ بالا خدا کا کلام کھانے اورپینے کے دو پہلو ہیں۔ اب سے خدا کا کلام اسی طرح کھا اور پی۔ اگرتجھے بصائر کے بارے میں اس کے کلام کی واضح تفہیم ہے تو پھر تجھے ہر وقت پڑھتے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ داخل ہونے پر زیادہ سے زیادہ کلام کھانے اور پینے کی بنیادی اہمیت ہے، جیسے کہ اپنا دل خدا کی طرف کیسے موڑنا ہے، خدا کے سامنے اپنادل کیسے پرسکون رکھنا ہے، اور جسم کیسے ترک کرنا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر تجھے عمل کرنا چاہیے۔ خدا کا کلام کھانے پینے کا طریقہ جانے بغیر حقیقی رفاقت ناممکن ہے۔ ایک بار جب تُو اس کا کلام کھانے پینے کا طریقہ جان لے گا، جب تُو سمجھ لے گا کہ کلید کیا ہے، تو رفاقت آزاد ہو جائے گی، اور جو بھی مسئلہ اٹھایا جائے گا، تُو رفاقت کرنے اور حقیقت سمجھنے کے قابل ہو جائے گا۔ اگر، خدا کے کلام کی رفاقت کرتے وقت، تیرے پاس کوئی حقیقت نہیں ہے، تو پھر تو یہ نہیں سمجھا ہے کہ کلید کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تُو خدا کا کلام کھانا پینا نہیں جانتا۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو خدا کا کلام پڑھنا تھکا دینے والا لگے، جو کہ معمول کی حالت نہیں ہے۔ جومعمول کی بات ہے، وہ یہ ہے خدا کا کلام پڑھتے ہوئے کبھی نہ تھکنا، ہمیشہ اس کا پیاسا رہنا، اور خدا کا کلام ہمیشہ اچھا لگنا۔ جو حقیقتاً داخل ہوا ہے وہ خدا کے کلام کو ایسے کھاتا پیتا ہے۔ جب تجھے محسوس ہو کہ خدا کا کلام انتہائی عملی ہے اور بالکل وہی ہے جس میں انسان کو داخل ہونا چاہیے؛ جب تُومحسوس کرتا ہے کہ اس کا کلام انسان کے لیے بہت مددگار اور فائدہ مند ہے، اور وہ انسان کی زندگی کی رسد ہے – تو یہی وہ روح القدس ہے جوتجھے یہ احساس دیتی ہے، اور یہ روح القدس ہی ہے جو تجھے تحریک دیتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روح القدس تجھ میں کام کر رہی ہے اور خدا نے تجھ سے منہ نہیں پھیرا ہے۔ بعض لوگ یہ دیکھ کر کہ خدا ہمیشہ بولتا رہتا ہے، اس کے کلام سے اکتا جاتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ وہ اسے پڑھیں یا نہ پڑھیں، اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہوگا، جو کہ ایک عام حالت نہیں ہے اور۔ ان کے پاس ایسا دل نہیں ہے جو حقیقت میں داخلے کا پیاسا ہو، ایسے لوگوں میں کامل کیے جانے کی پیاس ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اسے اہمیت دیتے ہیں۔ جب تجھے معلوم ہو کہ تُو خدا کے کلام کی پیاس نہیں رکھتا، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تُو کسی عام حالت میں نہیں ہے۔ ماضی میں خدا نے تجھ سے منہ پھیر لیا تھا یا نہیں، اس کا تعین اس بات سے کیا جا سکتا تھا کہ تُو اندر سے پُر سکون تھا یا نہیں اور آیا تُو نے لطف اندوزی کا تجربہ کیا تھا یا نہیں۔ اب کلید یہ ہے کہ آیا تُو خدا کے کلام کا پیاسا ہے، آیا اس کا کلام تیری حقیقت ہے، اور آیا تُو وفادار ہے، اور آیا تُو خدا کے لیے وہ سب کچھ کرنے کے قابل ہے جو تیرے بس میں ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کا فیصلہ خدا کے کلام کی حقیقت سے ہوتا ہے۔ خدا اپنا کلام تمام انسانوں کی طرف بھیجتا ہے۔ اگر تُو اسے پڑھنا چاہتا ہے تو وہ تجھے آگہی سے نوازے گا، لیکن اگر تُو نہیں چاہتا تو وہ نہیں نوازے گا۔ خدا ان لوگوں کو آگہی سے نوازتا ہے جو راست بازی کے بھوکے پیاسے ہیں اور انھیں آگہی عطا کرتا ہے جو اس کی جستجو کرتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ خدا نے انھیں اس کا کلام پڑھنے کے بعد بھی آگہی عطا نہیں کی۔ لیکن تُو نے یہ کلام کس انداز میں پڑھا؟ اگر تُو اس کا کلام اس طرح پڑھتا ہے جس طرح گھوڑے پر سوار آدمی پھولوں کو دیکھتا ہے، اور حقیقت کو کوئی اہمیت نہیں دی، تو خدا تجھے کیسے آگہی عطا کر سکتا ہے؟ جو شخص خدا کے کلام کی قدر نہیں کرتا وہ خدا کی طرف سے کیسے کامل بنایا جا سکتا ہے؟ اگر تُو خدا کے کلام کی قدر نہیں کرتا تو تجھ میں نہ تو سچائی ہوگی اور نہ ہی حقیقت۔ اگر تُو اس کے کلام کی قدر کرتا ہے تو تُو سچائی کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوگا، صرف تب ہی تو حقیقت کا حامل ہو گے۔ پس تُو ہر وقت خدا کا کلام کھا اور پی، خواہ تُو مصروف ہو یا نہ ہو، چاہے حالات خراب ہوں یا نہ ہوں، اور خواہ تیری آزمائش کی جا رہی ہو یا نہیں۔ مجموعی طور پر، خدا کا کلام انسان کے وجود کی بنیاد ہے۔ کوئی بھی اس کے کلام سے منہ نہیں موڑ سکتا، بلکہ اس کا کلام لازماً کھانا چاہیے جیسے وہ دن میں تین کھانے کھاتے ہیں۔ کیا خدا کی طرف سے کامل بنایا جانا اور حاصل کیا جانا اتنا آسان ہو سکتا ہے؟ خواہ تُو اس وقت سمجھے یا نہ سمجھے اور خواہ تجھے خدا کے کام کی بصیرت ہو یا نہ ہو، تُو لازماً خدا کا کلام زیادہ سے زیادہ کھا اور پی۔ یہ ایک فعال انداز میں داخل ہونا ہے۔ خدا کا کلام پڑھنے کے بعد، جس میں تُو داخل ہو سکے اس پر عمل میں جلدی کر، اور جو تُو نہیں کر سکتا، اسے اس لمحے کے لیے ایک طرف رکھ دے۔ ہو سکتا ہے کہ خدا کا بہت سا کلام ایسا ہو جو تُو شروع میں سمجھ نہ سکے، لیکن دو یا تین ماہ کے بعد، شاید ایک سال تک، تُو سمجھ جائے گا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا لوگوں کو ایک یا دو دن میں کامل نہیں بنا سکتا۔ زیادہ تر وقت، جب تُو اس کا کلام پڑھتا ہے، تو تُو اسے فوری طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ ہو سکتا ہے اُس وقت، وہ محض متن سے زیادہ کچھ نہ لگ رہا ہو؛ اسے سمجھنے سے پہلے تجھے کچھ وقت کے لیے اس کا تجربہ کرنا ہوگا۔ خدا نے بہت کچھ کہا ہے، تجھے اس کا کلام کھانے اور پینے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، اور پھر، تجھے اس کا ادراک ہوئے بغیر، تُو سمجھ جائے گا، اور تجھے اس کا ادراک ہوئے بغیر، روح القدس تجھے آگہی عطا کرے گی۔ جب روح القدس انسان کو آگہی بخشتی ہے، تو یہ اکثر انسان کے شعور کے بغیر ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تجھے آگہی اور ہدایت سے نوازتی ہے جب تجھے پیاس اور جستجو ہو۔ وہ اصول جس کے ذریعے روح القدس کام کرتی ہے وہ خدا کے اس کلام کے گرد مرکوز ہے جو تُو کھاتا اور پیتا ہے۔ وہ تمام لوگ جو خدا کے کلام کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور ہمیشہ اس کے کلام کے بارے میں مختلف رویہ رکھتے ہیں – اپنی الجھی ہوئی سوچ میں، احساس سے عاری کہ وہ اس کا کلام پڑھتے ہیں یا نہیں – یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقت کے مالک نہیں ہیں۔ ایسے شخص میں نہ تو روح القدس کا کام دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی آگہی۔ اس طرح کے لوگ بغیر کسی کوشش کے ترقی کرتے ہیں، بغیر کسی حقیقی قابلیت کے دکھاوا کرتے ہیں، مسٹر نانگوو کی تمثیلی کہانی کی طرح۔[ا]

تیری حقیقت کے طور پر خدا کے کلام کے بغیر، تیری کوئی حقیقی حیثیت نہیں ہے۔ جب آزمائے جانے کا وقت آئے گا تو تُو یقیناً گر جائے گا اور پھر تیری اصلی حیثیت منکشف ہو جائے گی۔ لیکن جو لوگ باقاعدگی سے حقیقت میں داخل ہونے کی جستجو کرتے ہیں، وہ جب آزمائشوں سے دوچار ہوتے ہیں، تو خدا کے کام کا مقصد سمجھ لیتے ہیں۔ جس کے پاس ضمیر ہو، اور جو خدا کا پیاسا ہو، اسے چاہیے کہ خدا کو اس کی محبت کا بدلہ دینے کے لیے عملی اقدام کرے۔ جو لوگ حقیقت سے عاری ہوتے ہیں وہ معمولی مسائل کے مقابل بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتے۔ حقیقی حیثیت والے اور بغیر حیثیت کے لوگوں میں یہی فرق ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ اگرچہ وہ دونوں ہی خدا کا کلام کھاتے پیتے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے ہیں، جبکہ کچھ بھاگ جاتے ہیں؟ واضح فرق یہ ہے کہ بعض میں حقیقی حیثیت کا فقدان ہے۔ ان کے پاس خدا کا کلام نہیں ہے جو ان کی حقیقت کے طور پر کام کرے، اور اس کا کلام ان کے اندر جڑ نہیں پکڑتا۔ جیسے ہی ان کی آزمائش کی جاتی ہے، وہ اپنے راستے کے اختتام پر پہنچ جاتے ہیں۔ تو پھر، ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ آزمائشوں کے درمیان ثابت قدم رہنے کے قابل ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سچائی سمجھتے ہیں اور ایک بصیرت رکھتے ہیں، اور وہ خدا کی مرضی اور اس کے تقاضے سمجھتے ہیں، اور اس طرح وہ آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کے قابل ہیں۔ یہ حقیقی حیثیت ہے، اور یہ بھی، زندگی ہے۔ کچھ لوگ خدا کا کلام پڑھتے بھی ہیں، لیکن اس پر عمل نہیں کرتے، اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ جو لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے وہ عمل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ جن کے پاس خدا کا کلام اپنی حقیقت کے طور پر کام نہیں کرتا وہ حقیقی حیثیت کے بغیر ہوتے ہیں اور ایسے لوگ آزمائشوں میں ثابت قدم نہیں رہ سکتے۔

اور جب خدا کا کلام سامنے آئے تو تجھے اسے فوراً قبول کرنا اور کھانا پینا چاہیے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ تُو کتنا سمجھتا ہے، وہ ایک نقطہ نظر جس پر تجھے مضبوطی سے قائم رہنا ہے، یہ ہے کہ تُو اس کا کلام کھا اور پی، اسے جان لے اور اس پر عمل کر۔ یہ ایک ایسا کام ہے جسے انجام دینے کی اہلیت تجھ میں ہونی چاہیے۔ اس بات کی پرواہ نہ کر کہ تیری حیثیت کتنی بڑی ہو سکتی ہے۔ صرف اس کا کلام کھانے اور پینے پر توجہ رکھ۔ انسان کو اسی میں تعاون کرنا چاہیے۔ تیری روحانی زندگی بنیادی طور پر خدا کا کلام کھانے پینے اور اس پر عمل کرنے کی حقیقت میں داخل ہونے کی کوشش کرنا ہے۔ کسی اور چیز پر توجہ مرکوز کرنا تیرا کام نہیں ہے۔ کلیسیا کے راہنماؤں کو اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی کرنے کے قابل ہونا چاہیے تاکہ وہ جانیں کہ خدا کا کلام کیسے کھانا اور پینا ہے۔ یہ کلیساا کے ہر ایک راہنما کی ذمہ داری ہے۔ خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھے، سب کو چاہیے کہ خدا کا کلام کھانے پینے کو بڑی اہمیت کا حامل سمجھیں اور اس کا کلام اپنے دلوں میں رکھیں۔ اس حقیقت میں داخل ہونے کا مطلب بادشاہی کے دور میں داخل ہونا ہے۔ آج، زیادہ تر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خدا کا کلام کھائے پیے بغیر نہیں رہ سکتے، اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ وقت سے قطع نظر اس کا کلام تازہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ صحیح راستے پر گامزن ہونے لگے ہیں۔ خدا اپنے کام کرنے اور انسان کے لیے مہیا کرنے کے لیے کلام استعمال کرتا ہے۔ جب ہر کوئی خدا کے کلام کے لیے تڑپتا اور پیاسا ہوتا ہے تو انسانیت اس کے کلام کی دنیا میں داخل ہو جائے گی۔

خدا نے بہت زیادہ باتیں کی ہیں۔ تُو کتنا جان سکا ہے؟ تُو اس میں کتنا داخل ہوا ہے؟ اگر کلیسیا کے کسی راہنما نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی خدا کے کلام کی حقیقت کی طرف راہنمائی نہیں کی ہے، تو انھوں نے اپنے فرض میں غفلت برتی ہو گی، اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہوں گے! تیری سمجھ خواہ گہری ہو یا سطحی، تیری سمجھ کی سطح چاہے کتنی بھی ہو، تجھے لازماً علم ہونا چاہیے کہ اس کا کلام کیسے کھانا اور پینا ہے، تجھے اس کے کلام پر بہت توجہ دینی چاہیے، اور اسے کھانے پینے کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنا چاہیے۔ خدا نے بہت کچھ کہا ہے، اگر تُو اس کا کلام نہ کھائے اور پیے، نہ اس کی جستجو کی کوشش کرے اور نہ اس کے کلام پر عمل کرے، تو اسے خدا پر ایمان لانے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ چونکہ تُو خدا پر ایمان رکھتا ہے، تو تجھے اس کا کلام لازماً کھانا اور پینا چاہیے، اس کے کلام کا تجربہ کرنا چاہیے، اور اس کے کلام پر عمل کرنا چاہیے، صرف یہی خدا پر ایمان کہلا سکتا ہے! اگر تُو اپنے منہ سے کہتا ہے کہ تُو خدا پر ایمان رکھتا ہے اور پھر بھی تُو اس کے کسی بھی کلام پر عمل کرنے یا کوئی حقیقت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے تو اسے خدا پر ایمان لانا نہیں کہا جاتا۔ بلکہ یہ "بھوک مٹانے کے لیے روٹی کی تلاش" ہے۔ معمولی سی بھی حقیقت کا حامل ہوئے بغیر، صرف معمولی گواہیوں، فضول باتوں اور سطحی معاملات کے بارے میں بات کرنا: یہ خدا پر ایمان رکھنا نہیں ہے، اور تُو نے خدا پر ایمان لانے کا صحیح طریقہ نہیں سمجھا ہے۔ تیرے لیے خدا کا کلام جتنا زیادہ ممکن ہو، کھانا پینا کیوں ضروری ہے؟ اگر تُو اُس کا کلام نہیں کھاتا پیتا بلکہ صرف آسمان پر بلند ہونے کی جستجو میں ہے، تو کیا یہ خدا پر ایمان ہے؟ خدا پر یقین رکھنے والے کو پہلا قدم کیا اٹھانا چاہیے؟ خدا انسان کو کس راستے سے کامل کرتا ہے؟ کیا تُو خدا کا کلام کھائے پیے بغیر کامل ہو سکتا ہے؟ کیا تجھے اپنی حقیقت کے طور پر خدمت کرنے کے لیے خدا کے کلام کے بغیر بادشاہی کا فرد سمجھا جا سکتا ہے؟ خدا پر ایمان کا اصل مطلب کیا ہے؟ خدا پر ایمان رکھنے والوں کو، کم از کم، باہر سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے؛ خدا کے کلام کا حامل ہونا سب سے اہم ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو، تُو کبھی بھی اس کے کلام سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ خدا کی معرفت اور اس کے ارادے پورا کرنا سب اسی کے کلام سے حاصل ہوتا ہے۔ مستقبل میں ہر قوم، فرقہ، مذہب اور طبقہ خدا کے کلام کے ذریعے فتح کیا جائے گا۔ خدا براہ راست کلام کرے گا، اور تمام لوگ خدا کا کلام اپنے ہاتھوں میں تھام لیں گے، اور اسی کے ذریعے انسان کی تکمیل ہو گی۔ اندر اور باہر، خدا کا کلام ہر جگہ پھیلا ہوا ہے: انسان اپنے منہ سے خدا کا کلام سنائیں گے، خدا کے کلام کے مطابق عمل کریں گے، اور خدا کا کلام اپنے اندر رکھیں گے، اندر اور باہر دونوں طرح سے خدا کے کلام میں شرابور رہیں گے۔ اسی طرح انسان کامل ہو گا۔ جو لوگ خدا کے ارادے پورے کرتے ہیں اور اس کی گواہی دینے پر قادر ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کا کلام اپنی حقیقت کے طور پر رکھتے ہیں۔

کلام کے دور میں داخل ہونا – ہزار سالہ بادشاہی کا دور – وہ کام ہے جو آج کیا جا رہا ہے۔ اب سے، خدا کے کلام کے بارے میں رفاقت کی مشق کر۔ صرف کھانے پینے کے ساتھ ساتھ خدا کے کلام کا عملی تجربہ کرنے سے ہی تُو خدا کا کلام زندہ رکھنے کے قابل ہو گا۔ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے تجھے لازماً کچھ عملی تجربہ پیدا کرنا ہو گا۔ اگر تُو خدا کے کلام کی حقیقت زندہ نہیں رکھ سکتا تو کوئی بھی قائل نہیں ہو گا! وہ سب لوگ جو خدا کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں خدا کے کلام کی حقیقت کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ اگر تُو یہ حقیقت پیدا نہیں کر سکتا اور خدا کی گواہی نہیں دے سکتا تواس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روح القدس نے تجھ میں کام نہیں کیا ہے، اور یہ کہ تجھے کامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ہے خدا کے کلام کی اہمیت۔ کیا تُو خدا کے کلام کی پیاس رکھنے والا دل رکھتا ہے؟ جو لوگ خدا کے کلام کے پیاسے ہیں وہ سچائی کے پیاسے ہیں، اور صرف ایسے لوگ ہی خدا کی طرف سے برکت پاتے ہیں۔ مستقبل میں، بہت سا مزید کلام ہے جو خدا تمام مذاہب اور تمام فرقوں سے کہے گا۔ سب سے پہلے وہ تمھیں کامل بنانے کے لیے بولتااور آواز بلند کرتا ہے پھر غیر قوموں کو فتح کرنے کے لیے بولتا اور اپنی آواز بلند کرتا ہے۔ اس کے کلام کے ذریعے، سب کو خلوص سے اور مکمل طور پر قائل کیا جائے گا۔ خدا کے کلام اور اس کے الہامات کے ذریعے انسان کے مزاج کی بدعنوانی کم ہو جاتی ہے، وہ انسان کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور اس کے مزاج کی سرکشی کم ہو جاتی ہے۔ یہ کلام انسان پر اختیار کے ساتھ کام کرتا ہے اور خدا کی روشنی میں انسان کو فتح کرتا ہے۔ خدا موجودہ دور میں جو کام انجام دیتا ہے، اور ساتھ ہی اس کے کام کے اہم موڑ، سب کچھ اس کے کلام میں مل سکتا ہے۔ اگر تُو اس کا کلام نہیں پڑھتا تو تُو کچھ بھی نہیں سمجھے گا۔ تُو خود اس کا کلام کھانے اور پینے کے ذریعے، اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ رفاقت کرنے اور انھیں اپنے حقیقی تجربات میں شریک کرنے کے ذریعے، خدا کے کلام کا مکمل علم حاصل کرے گا۔ تب ہی تُو واقعی ان کی حقیقت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہو گا۔

حاشیہ:

ا۔ اصل متن میں "کی تمثیلی کہانی" شامل نہیں ہے۔

سابقہ: جو خدا کی سچے دل سے اطاعت کرتے ہیں، خدا یقیناً انھیں اپنا بنالے گا

اگلا: سب کچھ خدا کے کلام سے حاصل ہوتا ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp