جو خدا کی سچے دل سے اطاعت کرتے ہیں، خدا یقیناً انھیں اپنا بنالے گا

روح القدس کا کام روز بہ روز تبدیل ہوتا ہے۔ یہ ہر قدم کے ساتھ بلند تر ہوتا ہے، آنے والے کل کا مکاشفہ آج کے مقابلے میں زیادہ بلند ہوتا ہے، قدم بہ قدم مزید عروج پاتا ہے۔ خدا ایسے ہی کام سے انسان کو کامل کرتا ہے۔ اگر لوگ رفتار برقرار نہ رکھ سکیں تو انھیں کسی بھی وقت نکال باہر کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ اطاعت شعار دل نہیں رکھتے تو وہ آخر تک پیروی کے قابل نہیں ہوں گے۔ سابقہ زمانہ گزر چکا ہے: یہ نیا زمانہ ہے۔ اور لازم ہے کہ نئے زمانے میں نیا کام کیا جائے۔ بالخصوص آخری دور میں، جب لوگ کامل ہوتے ہیں، خدا نئے کام، زیادہ تیزی سے انجام دے گا، لہٰذا لوگوں کو اپنے دلوں میں اطاعت کے بغیر خدا کے نقش قدم پر چلنا مشکل لگے گا۔ خدا ضابطوں کا پابند نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اپنے کام کا کوئی بھی مرحلہ اٹل گردانتا ہے۔ اس کے بجائے، وہ جو بھی کام کرتا ہے وہ ہمیشہ زیادہ نیا اور ہمیشہ زیادہ بلند ہوتا ہے۔ ہر مرحلے کے ساتھ، اس کا کام زیادہ سے زیادہ عملی اور انسان کی حقیقی ضروریات کے مزید مطابق ہوتا چلا جاتا ہے۔ لوگ اس طرح کے کام کا تجربہ ہونے کے بعد ہی اپنے مزاج میں حتمی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ انسان کازندگی کا علم ہمیشہ مزید بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے اور اسی طرح، خدا کا کام بھی ہمیشہ مزید بلند درجوں پر پہنچ جاتا ہے۔ صرف اسی طرح انسان کامل بنایا جا سکتا ہے اور وہ خدا کے استعمال کے قابل بن جاتا ہے۔ خدا اس طرح ایک طرف انسان کے تصورات کا مقابلہ کرنے اور اسے تبدیل کرنے اور دوسری طرف انسان کو ایک بلند تر اور زیادہ حقیقت پسندانہ حالت میں، خدا پر ایمان کے اعلی تر ین عالم میں لے جانے کے لیے کام کرتا ہے تاکہ آخر کار، خدا کی منشا پوری کی جاسکے۔ نافرمان فطرت کے وہ تمام لوگ جو دیدہ دلیری سے مخالفت کرتے ہیں خدا کے تیزی سے اور (زور وشور سے) آگے بڑھنے والے کام کے اس مرحلے سے نکال باہر کیے جائیں گے۔ صرف وہی لوگ جو خوشی سے اطاعت کرتے ہیں اور جو خوشی سے انکساری اختیار کرتے ہیں وہ منزل مقصود تک ترقی کر سکتے ہیں۔ اس قسم کے کام میں، تم سب کو اطاعت گزاری اور اپنے تصورات ایک طرف رکھنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے کہ کس طرح سرتسلیم خم کرنا ہے اور اپنے خیالات کو کیسے ایک طرف رکھنا ہے۔ تم کو ہر قدم احتیاط سے اٹھانا چاہیے۔ اگر تم لاپروا ہو تو تم یقیناً ان میں سے ایک ہوجاؤ گے جنھیں روح القدس کی طرف سے دھتکار دیا جاتا ہے، وہ جو خدا کے کام میں خلل ڈالتا ہے۔ کام کے اس مرحلے سے گزرنے سے پہلے انسان کے پرانے اصول و ضوابط اتنے بے شمار تھے کہ وہ ان میں بہ گیا اور نتیجتاً وہ مغرور ہو گیا اور خود کو بھول گیا۔ یہی تمام رکاوٹیں انسان کو خدا کا نیا کام قبول کرنے سے روکتی ہیں؛ وہ خدا کی بابت انسان کے علم کی دشمن ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ خطرناک ہے کہ ان کے دلوں میں نہ اطاعت ہو اور نہ ہی سچ کی تڑپ۔ اگر توصرف آسان کام اور کلام کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور اس سے زیادہ گہری کوئی بھی چیز قبول کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، تو تُو ان میں سے ایک ہے جو پرانے طریقوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور روح القدس کے کام کے ساتھ رفتار برقرارنہیں رکھ سکتے۔ خدا کی طرف سے وقتاً فوقتاً کیے جانے والے کاموں میں فرق ہوتا ہے۔ اگر تُو ایک مرحلے میں خدا کے کام سے بہت زیادہ اطاعت گزاری کرتا ہے لیکن اگلے مرحلے میں اس کے کام کے متعلق تیری اطاعت ناقص ہے یا تُو اطاعت کے قابل نہیں ہے تو خدا تجھے ترک کر دے گا۔ اگر تُو خدا کے ساتھ قدم ملاکر چلتا ہے تو جب وہ اگلی چڑھائی چڑھے تو تجھ کو لازماً رفتار برقرار رکھنی چاہیے، صرف تب ہی تُو روح القدس کا تابع داربن سکتا ہے۔ چونکہ تُو خدا پرایمان رکھتا ہے، اس لیے تجھے اپنی اطاعت پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔ یہ ممکن نہیں کہ جب چاہے فرماں برداری کر ے اور جب چاہے نافرمانی۔ خدا اس قسم کی اطاعت کی پزیرائی نہیں کرتا۔ اگرتُو میری رفاقت کے نئے کام کے ساتھ رفتار برقرار نہیں رکھ سکتا اور بدستورسابقہ اقوال پر قائم رہتا ہے تو تیری زندگی میں ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟ خدا کا کام اپنے کلام کے ذریعے تجھ پر عنایت کرنا ہے۔ جب تو اس کا کلام مانتا اور قبول کرتا ہے تو روح القدس تجھ پر ضرور کام کرے گا۔ روح القدس بالکل اسی طرح کام کرتا ہے جیسے میں بولتا ہوں۔ وہی کرو جو میں نے کہا اور روح القدس فوراً تجھ میں کام کرے گا۔ میں تمھاری بصارت کے لیے نئی روشنی جاری کرتا ہوں، تمھیں موجودہ دور کی روشنی میں لاتا ہوں اور جب تم اس روشنی میں داخل ہو گے تو روح القدس فوراً تم پر کام کرے گا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہوئے سرکشی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، "میں تیری باتوں پر عمل نہیں کروں گا۔" ایسی صورت میں، میں تجھے بتاتا ہوں کہ تُو اب راہ کے اختتام پر پہنچ چکا ہے؛ تُو بنجر ہوگیا ہے اور تُو زندگی سے محروم ہوچکا ہے۔ اس طرح، اپنے مزاج میں تبدیلی کا تجربہ کرنے میں، موجودہ روشنی کے ساتھ قدم ملاکر چلنے سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ روح القدس نہ صرف خدا کی طرف سے تصرف میں لائے جانے والے کچھ خاص لوگوں میں، بلکہ، کلیسیا میں بھی کام کرتا ہے۔ وہ کسی میں بھی کام کر سکتا ہے۔ وہ موجودہ دور میں تجھ میں کام کر سکتا ہے اور تو اس کام کا تجربہ کرے گا۔ اگلی مدت کے دوران میں، وہ کسی اور کے ساتھ کام کر سکتا ہے، ایسی صورت میں تجھے پیروی میں عجلت کرنی چاہیے۔ تُو موجودہ روشنی کی جتنے قریب سے پیروی کرے گا، تیری زندگی اتنی ہی زیادہ نمو پا سکتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی شخص کس اطوار کا ہے، اگر روح القدس ان میں کام کرتا ہے، تو تجھے لازماً پیروی کرنی چاہیے۔ ان کے تجربات اپنالے اور تُو مزید اعلیٰ چیزیں حاصل کرے گا۔ ایسا کرنے سے تُو زیادہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ یہ انسان کے لیے کاملیت کا راستہ ہے اور وہ ذریعہ ہے جس سے زندگی نمو پاتی ہے۔ روح القدس کے کام پر تیری اطاعت گزاری کے ذریعے کامل بننے کے راستے تک پہنچاجاتا ہے۔ تُو نہیں جانتا کہ خدا تجھے کامل کرنے کے لیے کس قسم کے شخص کے ذریعے کام کرے گا اور نہ ہی یہ کہ کس شخص، واقعہ یا چیز کے ذریعے وہ تجھے چیزیں حاصل کرنے یا دیکھنے کی اجازت دے گا۔ اگر تُو اس صحیح راستے پر قدم رکھ سکتا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے تجھے کامل کیے جانے کی بڑی امید ہے۔ اگر تُو ایسا نہیں کر سکتا تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تیرا مستقبل تاریک ہے، روشنی سے محروم ہے۔ تُو جب ایک بار صحیح راستے پر چل پڑے گا تو تُو ہر چیز میں مکاشفہ پائے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ روح القدس دوسروں کو کیامکاشفہ کرتا ہے، اگر تُو ان کے علم کی بنیاد پر چیزوں کا اپنے طور پر تجربہ کرنے کے لیے آگے بڑھے گا تو یہ تجربہ تیری زندگی کا حصہ بن جائے گا اور تُو اس تجربے سے دوسروں کو فراہم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ جو لوگ رٹے رٹائے الفاظ سے دوسروں کو فراہمی کرتے ہیں، وہ لوگ ہیں جن کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ تُو اپنے حقیقی تجربے اور علم کے بارے میں بات کرنا شروع کر سکے، تجھے دوسروں کی آگہی اور روشنی کے ذریعے، مشق کا ایک طریقہ تلاش کرنا سیکھنا چاہیے۔ یہ تیری اپنی زندگی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ تجھے خدا کی طرف سے آنے والی تمام چیزوں کو مانتے ہوئے اس طرح کا تجربہ کرنا چاہیے۔ تجھے ہر چیز میں خدا کی منشا تلاش کرنی چاہیے اور ہر چیز میں سبق سیکھنا چاہیے، تاکہ تیری زندگی نمو پاسکے۔ اس طرح کی مشق سب سے تیز رفتار پیش رفت کے لائق ہوتی ہے۔

روح القدس تیرے عملی تجربات کے ذریعے تجھے آگہی دیتا ہے، اورتیرے ایمان کے ذریعے تجھے کامل کرتا ہے۔ کیا تُو واقعی کامل ہونے کے لیے تیار ہے؟ اگر تُو واقعی خدا کی طرف سے کامل ہونے کے لیے تیارہے تو تجھ میں اپنا جسم تیاگنے کی ہمت ہونی چاہیے، تُو خدا کےکلام پر عمل کرنے کے قابل ہوگا اور تُو غیر فعال یا کمزور نہیں ہو گا۔ تُو خدا کی طرف سے آنے والی تمام باتوں پر عمل کرنے کے قابل ہو جائے گا اورتیرے تمام اعمال خواہ عوامی ہوں یا نجی، خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ اگر تُو دیانت دار انسان ہے اور ہر چیز میں سچائی پر عمل کرتا ہے تو تُو کامل ہو جائے گا۔ وہ فریبی لوگ جو دوسروں کے سامنے ایک طرح سے کام کرتے ہیں اور ان کی پیٹھ پیچھے دوسری طرح، وہ کامل ہونا نہیں چاہتے۔ وہ سب ہلاکت اورنابودی کے فرزند ہیں۔ ان کا تعلق خدا سے نہیں بلکہ شیطان سے ہے۔ وہ اس قسم کے لوگ نہیں جنھیں خدا کی طرف سے منتخب کیا گیا ہو! اگرتیرے اعمال اور طرز عمل خدا کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکتا یا خدا کی روح ان پر نظر نہیں ڈالتی، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تیرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے۔ جب تُو خدا کی عدالت اور تادیب قبول کرے اور اپنے مزاج کی تبدیلی کا خیال رکھے، صرف اس صورت میں تُو کامل ہونے کے راستے پر قدم رکھ سکے۔ اگر تُو واقعی خدا کی طرف سے کامل ہونے اور خدا کی منشا پوری کرنے کے لیے تیار ہے تو تجھے خدا کے تمام کاموں کی اطاعت کرنی چاہیے، ایک بھی حرف شکایت کے بغیر، خدا کے کام کی جانچ یا گمان کی بنیاد پراس پرفیصلہ صادر کیے بغیر۔ یہ خدا کی طرف سے کامل ہونے کے لیے کم سے کم تقاضے ہیں۔ جو لوگ خدا کی طرف سے کامل ہونا چاہتے ہیں، ان کے لیے ضروری تقاضا یہ ہے کہ: اُس دل سے کام کرنا جو ہر چیز میں خُدا سے پیار کرتاہے۔ خدا سے محبت کرنے والے دل سے کام کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرےتمام اعمال اور طرز عمل خدا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے اور چونکہ تیرے ارادے درست ہیں، چاہے تیرے اعمال درست ہوں یا غلط، تُو انھیں خدا یا اپنے بھائیوں اور بہنوں کے سامنے ظاہر کرنے سے نہیں گھبراتا اور تُوخدا کے سامنے قسم کھانے کی ہمت رکھتا ہے۔ تجھے اپنا ہر ارادہ، خیال اور تصور خدا کے سامنے اس کی جانچ کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ اگر تُو عمل کرے اور اس طرح داخل ہو تو زندگی میں تیری ترقی کی رفتار تیز ہوگی۔

چونکہ تُوخدا پر ایمان رکھتا ہے، تجھے خدا کے سارے کلام اور اس کے تمام کاموں پر یقین رکھنا چاہیے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ تُو خدا پر ایمان رکھتا ہے، اس لیے تجھے اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اگر تُو ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تُوخدا پر ایمان رکھتا یا نہیں۔ اگر تُو کئی سالوں سے خدا پر ایمان رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود کبھی اس کی اطاعت نہیں کرتا اور اس کے کلام کی کُلیت قبول نہیں کرتا اور اس کے بجائے خدا سے درخواست کرتا ہے کہ وہ تیرے تابع ہواورتیرے خیالات کے مطابق عمل کرے، پھر تُو سب سے زیادہ سرکش ہے، ایمان سے محروم ہے۔ ایسے لوگ کیسے خدا کے کام اور کلام کی اطاعت کے اہل ہو سکتے ہیں جو انسان کے تصورات کے مطابق نہیں ہے؟ سب سے سرکش وہ ہیں جو دانستہ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ خدا کے دشمن، انتشار پسند ہیں۔ خدا کے نئے کام کے لیے ان کا رویہ ہمیشہ جارحانہ ہوتاہے؛ وہ اطاعت کی طرف ہلکا سا میلان بھی نہیں رکھتے، نہ ہی انھوں نے کبھی خوشی سے اپنا سرتسلیم خم کیا یا عاجزی اختیار کی۔ وہ خود کو دوسروں کے سامنے بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں اور کبھی کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے۔ خدا کے حضور، وہ اپنے تئیں کلام کی تبلیغ میں سب سے بہتر اور دوسروں پر عمل میں خود کو سب سے زیادہ ماہر گردانتے ہیں۔ وہ اپنے قبضے میں موجود "خزانے" کبھی ترک نہیں کرتے، بلکہ انھیں دعا، دوسروں کے بارے میں پرچار کے لیے خاندانی وراثت سمجھتے ہیں، اور وہ انھیں ان احمقوں کو خطبہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو انھیں دیوتا مانتے ہیں۔ بے شک کلیسیا میں اس طرح کے لوگوں کی ایک خاص تعداد ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ "ناقابل تسخیر ہیرو" ہیں، نسل در نسل خدا کے گھر میں مقیم ہیں۔ وہ کلام (عقیدہ) کی تبلیغ اپنا اعلیٰ ترین فریضہ سمجھتے ہیں۔ سال بہ سال، نسل در نسل، وہ اپنے "مقدس اور ناقابلِ توہین" فرض کو زوروں سے نافذ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی انھیں چھُونے کی جرات نہیں کرتا۔ کسی ایک میں بھی کھل کر ملامت کرنے کی جسارت نہیں ہوتی۔ وہ خدا کے گھر میں "بادشاہ" بن جاتے ہیں، جو دوسرے لوگوں پر نسل درنسل ظلم کے پہاڑ توڑتے آئےہیں۔ شیطانوں کا یہ ٹولہ گٹھ جوڑ کرکے میرا کام برباد کرنا چاہتا ہے۔ میں ان جیتے جاگتے شیطانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیسے رہنےدوں؟ وہ لوگ بھی جو صرف آدھے فرمانبردار ہیں آخر تک نہیں چل سکتے، چہ جائیکہ یہ ظالم، جن کے دلوں میں اطاعت کی ذرا سی بھی رمق نہیں! انسان کوخدا کا کام آسانی سے حاصل نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ اپنی تمام طاقت کا استعمال کرکے، لوگ اس کا صرف ایک حصہ حاصل کرسکتے ہیں، بالآخر انھیں کامل بنانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ پھر، رئیس الملائک کے بچوں کے بارے میں کیا، جو خدا کا کام برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا انھیں خدا سے فیض ملنے کی ذرا سی بھی امید نہیں ہے؟ میرے فتح کرنے کے کام کرنے سے میرا مقصد صرف فتح برائے فتح نہیں ہے بلکہ اس لیے فتح حاصل کرنا ہے کہ نیکوکاری اور بدکاری کو ظاہر کیا جاسکے، انسان کی تادیب کے لیے ثبوت حاصل کرنا، بدکاروں کی سرزنش کرنا اور خوشی سے اطاعت کرنے والوں کو کامل کرنے کی خاطر فتح کرنا ہے۔ آخر میں، سب کو نوع کے مطابق الگ کر دیا جائے گا اور وہی کامل ہوں گے جن کے خیالات اور نظریات اطاعت سے بھرپورہوں گے۔ یہ وہ کام ہے جو بالٓاخر انجام پائے گا۔ ان لوگوں کو، جن کا ہر عمل باغیانہ ہے، اس دوران، سزا دی جائے گی اور آگ میں جلنے کے لیے بھیجے جائیں گے، دائمی لعنت کا نشانہ بنیں گے۔ جب وہ وقت آئے گا، ماضی کے وہ "عظیم اور ناقابلِ تسخیر ہیرو" پست ترین اور سب سے زیادہ دھتکارے ہوئے "ناتواں اور نامرد بزدل" بن جائیں گے۔ صرف یہی خدا کے عدل کے ہر پہلو کو واضح کر سکتا ہے اور اس کے مزاج کو جو انسان کے لیے ناقابل اہانت ہے اور صرف اسی سے میرے دل میں نفرت کم ہوسکتی ہے۔ کیا تم اتفاق نہیں کرتے کہ یہ پوری طرح معقول ہے؟

نہ وہ تمام لوگ، روح القدس کے کام کا تجربہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ جو اس دھارے میں ہیں، زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ زندگی تمام انسانیت کی مشترکہ ملکیت نہیں ہے اور تمام لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔ خُدا کے کام کے آگے سر تسلیم خم کرنا حقیقی اور واقعی ہونا چاہیے اور اس پر تمام زندگی گزارنی چاہیے۔ صرف سطحی اطاعت خدا سے ستائش حاصل نہیں کر سکتی اور محض خدا کے کلام کےسطحی پہلوؤں کو ماننا، اپنے مزاج میں تبدیلی کی جستجو کے بغیر، خدا کی رضا کے مطابق نہیں ہے۔ خدا کی اطاعت اور خدا کے کام کے آگے سر تسلیم خم کرنا ایک ہی چیز ہے۔ جو لوگ صرف خدا کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں لیکن اس کا کام نہیں مانتے انھیں اطاعت گزار نہیں سمجھا جا سکتا، چہ جائیکہ وہ لوگ جو حقیقتاً سر تسلیم خم نہیں کرتے لیکن ظاہری طور پر چاپلوس ہیں۔ جو لوگ حقیقی معنوں میں خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں وہ سب خدا کے کام سے فائدہ اٹھانے اور اس کا مزاج اور کام سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی معنوں میں خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نئے کام سے نیا علم حاصل کرنے اور نئی تبدیلیوں سے گزرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ خدا کی طرف سے صرف انہی لوگوں کی ستائش کی جاتی ہے، صرف یہی لوگ کامل ہوتے ہیں اور صرف یہی وہ ہیں جن کے مزاج بدل گئے ہیں۔ وہ لوگ جن کی خدا کی طرف سے ستائش کی جاتی ہے وہ ہیں جو خوشی سے خدا اور اس کا کلام اور کام تسلیم کرتے ہیں۔ صرف ایسے ہی لوگ حق پر ہیں، صرف ایسے ہی لوگ سچے دل سے خدا کو چاہتے ہیں اور سچے دل سے خدا کی جستجو کرتے ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو محض زبانی کلامی خدا پر اپنے ایمان کی بات کرتے ہیں لیکن درحقیقت اس کی اہانت کرتے ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو چھپاتے ہیں، جو سانپ کے زہر سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ بد طینت ہیں۔ جلد یا بدیر، ان خبیثوں کے چہروں سے ان کے گندے نقاب نوچ لیے جائیں گے۔ کیا یہ وہی کام نہیں جو آج کیا جا رہا ہے؟ بد طینت لوگ ہمیشہ بد طینت رہیں گے اور سزا کے دن سے کبھی نہیں بچ سکیں گے۔ اچھے آدمی ہمیشہ اچھے رہیں گے اور جب خدا کا کام ختم ہو جائے گا تو ان کا انکشاف کیا جائے گا۔ بدطینتوںمیں سے کسی کو بھی راستباز نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی راستبازوں میں سے کسی کو بدطینت سمجھا جائے گا۔ کیا میں کسی بھی انسان کوجھوٹے الزام میں ملوث رہنے دوں گا؟

جیسے جیسے تمھاری زندگی ترقی کرتی ہے، تمھارے پاس ہمیشہ نیا اندراج اور نئی، بلند تر بصیرت ہونی چاہیے، جو ہر قدم کے ساتھ زیادہ گہری ہوتی جائے۔ اس میں پوری انسانیت کو داخل ہونا چاہیے۔ گفت و شنید کرنے، وعظ سننے، خدا کا کلام پڑھنے یا کسی معاملے کو سنبھالنے کے ذریعے، تجھ کو نئی بصیرت اور نئی آگہی حاصل ہوگی اور تو پرانے ضوابط اور پرانے زمانوں تک محدود نہیں رہے گا۔ تو ہمیشہ نئی روشنی میں زندہ رہے گا اور خدا کے کلام سے بھٹکے گا نہیں۔ صحیح راستے پر گامزن ہونے سے یہی مراد ہے۔ کچھ سطحی درجے پر ایک قیمت ادا کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ روز بروز، خدا کا کلام ایک بلند تر درجے میں داخل ہوتا ہے اور ہر روز نئی چیزیں نمودار ہوتی ہیں اور انسان کو بھی ہر روز ایک نیا اندراج کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ خدا کلام کرتا ہے، اسی طرح وہ ان تمام باتوں کو ثمر آور کرتا ہے جو اس نے کہی ہیں اور اگر تو ان سے قدم ملاکر نہ چل سکے تو تُو پیچھے رہ جائے گا۔ تجھے اپنی دعاؤں میں گہرائی لانی چاہیے۔ خدا کا کلام کھانا اور پینا وقتاً فوقتاً نہیں ہو سکتا۔ خود کو حاصل ہونے والی آگہی اور روشنی میں گہرائی پیدا کر اور تیرے تصورات اور تخیلات لازماً بتدریج ختم ہونے چاہییں۔ تجھے اپنی قوتِ فیصلہ بھی مضبوط کرنی چاہیے اور تجھے جس کا بھی سامنا ہو، اس کے بارے میں لازماًتیرے اپنے خیالات اور اپنے نظریات ہونے چاہییں۔ روح میں کچھ چیزوں کو سمجھ کر، تجھے ظاہری چیزوں کی بصیرت حاصل کرنی چاہیے اور کسی بھی مسئلے کا جوہرسمجھنا چاہیے۔ اگر تُو ان چیزوں سے لیس نہیں ہو، تو تُو کلیسیا کی قیادت کیسے کرپائے گے؟ اگر تُو بغیر کسی حقیقت کے اور بغیر کسی عمل کے صرف لفظی معنوں اور عقائد کی بات کرتا ہے تو، تُو صرف مختصر مدت کے لیے ہی یہ چلا پائے گا۔ نئے نئے ایمان لانے والوں کی بات کریں تو یہ کسی حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن ایک وقت کے بعد، جب نئے ایمان لانے والے کچھ حقیقی تجربہ حاصل کرچکے ہوں، تو تُو انھیں فراہم کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ تب تُو خدا کےتصرف میں آنے کے لیے کیسے موزوں ہے؟ نئی آگہی کے بغیر، تُو کام نہیں کر سکتا۔ نئی آگہی سے محروم وہ لوگ ہیں جونہیں جانتے کہ تجربہ کیسےکیا جاتاہے اور ایسے لوگ کبھی بھی نیا علم یا نیا تجربہ حاصل نہیں کرتے اور زندگی کی فراہمی کے معاملے میں وہ کبھی اپنا کام نہیں کر سکتے اور نہ ہی خدا کے تصرف کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔ اس قسم کا شخص کسی مقصد کے لیے کار آمد نہیں ہے، محض فضول ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنا کام انجام دینے سے بالکل عاجز ہیں، وہ سب کے سب کچرا ہیں۔ نہ صرف وہ اپنا کام انجام دینے میں ناکام رہتے ہیں بلکہ وہ حقیقت میں کلیسیا پر بھی بہت زیادہ غیر ضروری دباؤ ڈالتے ہیں۔ میں ان "محترم بڈھوں" کو نصیحت کرتا ہوں کہ جلدازجلد کلیسیا چھوڑ دیں تاکہ دوسروں کو سراٹھاکر تمھاری طرف دیکھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ ایسے لوگ نئے کام کی کوئی سمجھ نہیں رکھتے اور وہ لامتناہی تصورات سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ کلیسیا میں کوئی کام نہیں کرتے بلکہ، وہ ہر جگہ شرارت کرتے ہیں اور مایوسی پھیلاتے ہیں، حتیٰ کہ کلیسیا میں ہر طرح کی بدتمیزی اور خلفشار پھیلانے میں ملوث ہوتے ہیں، اس طرح ان لوگوں کو، جو تعصب سے عاری ہوتے ہیں، انھیں الجھن اور انتشار میں ڈال دیتے ہیں۔ ان جیتے جاگتے شیطانوں، ان بد طینت روحوں کو جلد از جلد کلیسیاسے نکل جانا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ تمھاری وجہ سے کلیسیا پر آفت آ جائے۔ ہو سکتا ہے تمھیں آج کے کام کا خوف نہ ہو لیکن کیا تمھیں کل کی راستبازانہ سزا کا خوف بھی نہیں؟ کلیسیا میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو مفت خورے ہیں اور بھیڑیوں کی بڑی تعداد ہے جو خدا کےمعمول کے کام میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ سب بادشاہ شیطان کی طرف سے بھیجے گئے شیاطین ہیں، شیطانی بھیڑیے ہیں جو بے خبربھیڑوں کو ہڑپ کرنے کی جستجو میں ہیں۔ اگر ان نام نہاد لوگوں کو نکال باہر نہ کیا گیا تو یہ کلیسیا کے لیےجونک بن جائیں گے، نذرانوں کو ہڑپ کرنے والے کیڑے۔ جلد یا بدیر، ایک دن آئے گا جب ان قابل حقارت، جاہل، پست، اور مکروہ کیڑوں کو سزا دی جائے گی!

سابقہ: خدا ان لوگوں کو کامل کرتا ہے جو اس کی رضا کے متلاشی ہوتے ہیں

اگلا: بادشاہی کا دور کلام کا دور ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp