خدا ان لوگوں کو کامل کرتا ہے جو اس کی رضا کے متلاشی ہوتے ہیں
اس وقت خدا لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کو چنُنا چاہتا ہے؛ ایسےافرادکا گروہ جو اُس کے ساتھ تعاون کرنے کی سعی کریں، جو اس کے کام کی اطاعت کر سکیں، جو اس بات پر ایمان رکھیں کہ جو کلام خداوند کرتا ہے وہ سچ ہے، اور جو خدا کے تقاضوں پر عمل کر سکیں؛ یہی وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں سچی سمجھ ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو کامل کیے جا سکتے ہیں، اور یہی ہیں جو لازماً تکامل کی راہ پر چل سکتے ہیں۔ جو لوگ خدا کے کام کی واضح سمجھ نہیں رکھتے، جو خدا کے کلام سے رو گردانی نہیں کرتے، جو اس کے کلام کی طرف دھیان نہیں دیتے اور جن کے دل خدا کے لیے کسی بھی طرح کی محبت سے خالی ہیں، وہ کامل نہیں کیے جا سکتے۔ جو لوگ مجسم خدا پر شک کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اُس کے بارے میں غیر یقینی کا شکار رہتے ہیں؛ وہ کبھی بھی اُس کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اور ہمیشہ اسے دھوکہ دیتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی مزاحمت کرتے ہیں اور شیطان سے تعلق رکھتے ہیں؛ اس طرح کے لوگوں تکامل کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اگر توکامل بننا چا ہتا ہے تو تجھ کو پہلے خدا کا پسندیدہ بندہ بننا ہو گا کیونکہ خدا صرف اُن لوگوں کو کامل کرتا ہے جنھیں وہ پسند کرتا ہے اور جو اُسکی رضا کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اگر تم خُدا کی مرضی چاہتے ہو، تو تمھارے پاس وہ دل ہونا چاہیے جو خُدا کے کاموں کی اطاعت کرتا ہو۔ تم کو حق کی جستجو کرنی ہو گی اور ہر بات میں خُدا کی آزمائش کو قبول کرنا ہو گا۔ کیا توجو کچھ بھی کر تا ہے وہ خدا کی آزمائش کے میزان پر پورا اُترتا ہے؟ کیا تیری نیت ٹھیک ہے؟ اگر تیری نیت ٹھیک ہے تو خدا تجھ کو سراہے گا۔ اگر تیری نیت خراب ہے تو یہ بات اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ جس چیز کے لیےتیرے دل میں محبت ہے وہ خدا نہیں ہے بلکہ جسم اور شیطان ہے۔ لہذا تجھ کو دعا کو ہر معاملے میں خدا کی آزمائش کو قبول کرنے کے لیے ایک راستے کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ جب تو دعا کرررہا ہوتا ہے اس وقت اگرچہ میں تیرے سامنے کھڑا نہیں ہوتا مگر روح القدس تیرےساتھ ہوتی ہے۔ یہ میں خود اور روح القدس ہی ہیں جن سے تومناجات کر ر ہا ہوتا ہے۔ تو اس جسم پر کیوں ایمان رکھتا ہے؟ تو اس پر ایمان رکھتا ہے کیوں کہ اس میں خُدا کی روح ہے۔ کیا تو ایسے شخص پر ایمان رکھتا جس میں خُدا کی روح نہ ہوتی؟ جب تو اس شخص پر ایمان رکھتا ہے تو تو خدا کی روح پر ایمان رکھتا ہے۔ جب تو اس شخص کا خوف رکھتا ہے، تو خدا کی روح سے ڈر تا ہے۔ خدا کی روح پر ایمان رکھنا اس شخص پر ایمان رکھنا ہے اور اس شخص پر ایمان رکھنا، خدا کی روح پر ایمان رکھنا ہے۔ جب تو دعا کر تا ہے، تو تجھ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ خُدا کی روح تیرے ساتھ ہے اور یہ کہ خُدا تیرےسامنے ہے۔ لہذا تو خدا کی روح سے دعا مانگ ر ہا ہوتا ہے۔ آج اکثر لوگ اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال خدا کے سامنے لائیں۔ تو خدا کے جسم کو تو دھوکہ دے سکتا ہے لیکن تو اس کی روح کو دھوکہ نہیں دےسکتا۔ کوئی بھی معاملہ جو خدا کی آزمائش کا متحمل نہیں ہے وہ حق کے خلاف ہے اور اسے ترک کر دینا چاہیے۔ اس کے خلاف اقدام کرنا خدا کے خلاف گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔ .لہٰذاتجھ کو ہر وقت اپنا دل کھول کر خدا کے سامنے رکھنا چاہیے: جب تو دعا کرے، جب تو بات کر رہا ہو، اپنے بھائی بہنوں کی رفاقت میں ہو یا اپنا کوئی فرض ادا کر رہا ہو یا کاروبار میں مشغول ہو۔ جب تو اپنا کام کر ر ہا ہوتا ہے، خداتیرےساتھ ہوتا ہے۔ جب تک تیری نیت درست ہے اور یہ خدا کے گھر کے کاموں کے طرف ہے تو پھر وہ تیرے ہر کام کو قبول کرے گا۔ تجھ کو پورے اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہنا چاہیے۔ دعا کرتے وقت اگرتو خدا سے محبت کرنے والے دل کے ساتھ مانگ، خدا کی طرف سے نگہداشت، اسکی حفاظت اور سلامتی کے متلاشی اور متمنی ہو تو تیری دعائیں مؤثر ہوں گی۔ مثال کے طور پرتو ایک مراقبہ میں دعا کر تا ہے، اپنا دل خدا کے سامنے کھول د یتا ہے اور بغیر جھوٹ بولے جو تیرےدل میں ہے اُسے بتاتا ہے تو تیری دعا یقیناً قبول ہو گی۔ اگر تو خدا سے دل کی گہرائیوں سے محبت کر تا ہے، تو پھر خدا سے حلفاً کہ: "اے آسمان، زمین اور تمام چیزوں میں موجود خدا، میںتیرے سامنے قسم کھاتا ہوں: جو کچھ بھی میں کرتا ہوں تیری روح اُس کی جانچ کرے اور ہر وقت میری حفاظت کرے، اور جو کچھ جو میںتیرےسامنے کھڑا رہ سکنے کے لیے کرتا ہوں اُسے ممکن بنا! اگر میرا دل تجھ سے محبت کرنا بند کر دے یا کبھی یہ تجھ سے بے وفائی کرے، تو مجھے تادیب کر دے، مجھے ملعون قرار دے اورمجھے اس زندگی اور آخرت کی زندگی میں معاف نہ کر!" کیا تواس طرح کا حلف اٹھانے کے لیے تیار ہے؟ اگر تجھ میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تو کمزور ہے اور ابھی تکتو اپنی ذات سے محبت کر تا ہے۔ کیا تیرے اندر اس طرح کے حلف کا عزم ہے؟ اگر تو سچ میں یہ عزم رکھتا ہے تو پھر یہ حلف اٹھا۔ اگر تیرے اندر اس طرح کا حلف اٹھانے کا عزم ہے تو پھر خدا تیرے عزم کو پورا کرے گا۔ جب تو خدا کے سامنے قسم کھا تا ہے تو وہ تیری سنُتا ہے۔ تیرے عمل اور دعا کی بنیاد پر خدا اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ توگنہگارہے یا نیک۔ اب یہ تیرےتکامل کا عمل ہے۔ اگر تجھ کو واقعی کامل کیے جانے کا یقین ہوتا ہے تو تو جو کچھ بھی کرتا ہے وہ خدا کے سامنے لاتا ہو اور خدا کی آزمائش کو قبول کرتا ہو۔ اگر تو کوئی ایسا کام کرے جو شرمناک حد تک باغیانہ ہے یا تو خدا سے بے وفائی کرتا ہوتو وہ تیری قسم کو اس کے نتائج تک لے جائے گا۔ تیرے ساتھ جو بھی ہو، توہلاک ہویا سزا پائے، یہ تیرا اپنا کیا ہوا ہو گا۔ چونکہ تو نے قسم کھائی ہے تجھ کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر تو نے ایک قسم کھائی لیکن اس پر عمل نہ کیا تو ہلاکتتیرا مقدر ہوگاکیونکہ قسم تونے کھائی تھی، خدا تیری قسم کو پورا کرے گا۔ کچھ لوگ دعا کے بعد خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور یہ نوحہ کرتے ہیں: "سب کچھ ختم ہو گیا۔ اب مجھے فسق و فجور کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔ مجھے اب برے کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ میرے لیے دنیا کی پسندیدہ چیزوں کا اب کوئی موقع نہیں رہا۔" اس قسم کے انسان پھر بھی دنیا سے محبت کرتے ہیں اور گناہ بھی، اور یہ لازماً تباہی میں پڑیں گے۔
خدا پر ایمان رکھنے والا بننے کا مطلب یہ ہے کہ تو جو کچھ بھی کرے وہ خدا کے سامنے لایا جاسکتا ہو اور جانچ کے قابل ہو۔ اگر تیرےاعمال خدا کی روح کے سامنے لائے جا سکتے ہیں لیکن خدا کے جسم کے سامنے نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تو ابھی تک خدا کی روح کی جانچ میں نہیں آیا۔ خدا کی روح کون ہے؟ وہ کون شخصیت ہے جس کے سامنے خدا گواہی دیتا ہے؟ کیا وہ ایک ہی چیز نہیں ہیں؟ زیادہ تر لوگ انھیں دو مختلف ذاتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ مانتے ہوئے کہ خدا کی روح خدا ہی کی روح ہے اور جس ذات کے سامنے خدا گواہی دیتا ہے وہ محض ایک انسان ہے، کیا تو غلطی پر نہیں ہے؟ یہ شخص کس کی طرف سے کام کر رہا ہے؟ وہ لوگ جو مجسم خدا کو نہیں جانتے وہ روحانی س فہم نہیں رکھتے۔ خدا کی روح اور مجسم خدا ایک ہی ہیں کیونکہ خدا کی روح جسم میں مجسم ہوئی ہے۔ اگر یہ شخص تیرے ساتھ مہربان نہیں ہے تو کیا خُدا کی روح مہربان ہو گی؟ کیا تو ابہام کا شکار نہیں ہے؟ اس وقت وہ سب، جو خدا کی جانچ کو قبول نہیں کر سکتے وہ خدا کی رضا حاصل نہیں کر سکتے اور جو لوگ مجسم خدا کو نہیں جانتے وہ کامل نہیں ہو سکتے۔ اپنے سب اعمال کو پرکھو اور دیکھو کہ آیا یہ خدا کے سامنے پیش کیے جاسکتے ہیں؟ اگر تو اپنے سارے اعمال کو خدا کے سامنے نہیں رکھ سکتا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تو خطا کار ہے۔ کیا بدکار لوگ بھی کامل کیے جا سکتے ہیں؟ تو جو کچھ بھی کر تا ہے، ہر کام ہر ارادہ اور ہر ردعمل کو خدا کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ یہاں تک کہ تیری معمول کی روحانی زندگی – جیسے دعا کرنا، تیری خدا سے قربت، تیرا خدا کے کلام سے روگردانی، تیری اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ رفاقت اور کلیسیا میں تیری زندگی، وغیرہ – اور تیری اجتماعی اور اشتراکی خدمت سب خدا کے حضور میں پیش کیے جا سکتے ہیں تاکہ وہ ان کی جانچ کرے۔ صرف اسی طرح کا عمل ہی تجھ کو زندگی میں ترقی حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ خدا کی آزمائش کو قبول کرنے کا عمل پاکیزہ ہونے کا عمل ہے۔ جتنا زیادہ تو خدا کی آزمائش کو قبول کرے گے، تو اتنے ہی زیادہ پاکیزہ ہو گا اور تو اتنا ہی زیادہ خدا کی مرضی کے مطابق ہوجائےگا تاکہ توشیطان کے بہکاوے میں نہ آئے اور تیرا دل خدا کے حضور میں رہے۔ جتنا زیادہ توخدا کی آزمائش کو قبول کرے گا شیطان کی ذلت اتنی ہی زیادہ ہو گی اور تیری جسم سے لاتعلقی کی قابلیت اتنی ہی بڑھے گی۔ لہذا خدا کی آزمائش کو قبول کرنا ہی عملی وہ راستہ ہے جس کی پیروی لوگوں کو کرنی چاہیے۔ تو خواہ کچھ بھی کر تا ہو، یہاں تک کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہو، تو خدا کی آزمائش کے لیے اپنے اعمال کو اس کے سامنےلاسکتا ہےاورتو خدا کی اطاعت کا قصد کر سکتا ہے؛ یہ تجھے بہت بہترکر دے گا۔ اگر تو اپنے تمام اعمال کو خُدا کے سامنے لاتا ہے اور خدا کی آزمائش کو قبول کر تا ہے، تب ہی تو وہ شخص ہے جو خُدا کے حضور رہتا ہے۔
جو لوگ خدا کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ہیں وہ کبھی بھی خدا کی مکمل اطاعت نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگ نافرمانی کے فرزند ہیں۔ وہ بہت زیادہ بلند حوصلہ ہیں اور ان میں سرکشی بہت زیادہ ہے، لہذا وہ اپنے آپ کو خدا سے دور رکھتے ہیں اور اس کی جانچ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آسانی سے کامل نہیں بنایا جا سکتا۔ کچھ لوگ خُدا کے کلام کو کھانے اور پینے کے طریقے اور اُن کو قبول کرنے میں انتخاب کرتے ہیں۔ وہ خدا کے کلام کے کچھ حصوں کو قبول کرتے ہیں جو ان کے تصورات کے مطابق ہوتے ہیں جبکہ ان کو رد کر دیتے ہیں جو ان کے تصورات کے مطابق نہیں ہوتے ہیں۔ کیا یہ خدا کے خلاف سب سے کھلی بغاوت اور مزاحمت نہیں ہے؟ اگر کوئی شخص خدا کی تھوڑی سی سمجھ بوجھ بھی حاصل کیے بغیر اس پر برسوں تک ایمان رکھتا ہے تو وہ کافر ہے۔ جو لوگ خُدا کی جانچ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جو اُس کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں، جو اُس کے کلام کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی وراثت اور برکتیں حاصل کریں گے، اور یہی سب سے زیادہ بابرکت ہیں۔ خدا ان لوگوں پر لعنت بھیجتا ہے جن کے دلوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اور وہ ایسے لوگوں کو سزا دیتا ہے اور انھیں چھوڑ دیتا ہے۔ اگر تو خدا سے محبت نہیں کرتا ہے تو وہ تجھے چھوڑ دے گا اور اگر تو میری باتوں پر دھیان نہیں دیتا ہے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ خدا کی روح تجھے چھوڑ دے گی۔ اگر تجھے یقین نہیں ہے تو کوشش کر کے دیکھ لے! آج میں تیرے عمل کرنے کے لیے ایک راستہ واضح کرتا ہوں، لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ تو اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔ اگر تو اس پر یقین نہیں رکھتا ہے، اگر تو اس پر عمل میں نہیں کرتا ہے تو تو خود دیکھ لے گا کہ روح القدس تجھ میں کام کرتی ہے یا نہیں! اگر تو خدا کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی جستجو نہیں کرتا ہے تو روح القدس تجھ میں کام نہیں کرے گی۔ خُدا اُن لوگوں میں کام کرتا ہے جو اُس کے کلام کی جستجو کرتے اور اُس کی بہت قدر کرتے ہیں۔ خدا کے کلام کی تو جتنی زیادہ قدر کرے گا، اس کی روح تجھ میں اتنا ہی زیادہ کام کرے گی۔ ایک شخص جتنا زیادہ خُدا کے کلام کی قدر کرتا ہے، اُس کے خُدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ خُدا اُن لوگوں کو کامل بناتا ہے جو اُس سے سچی محبت کرتے ہیں، اور وہ اُن کو کامل بناتا ہے جن کے دل اُس کے سامنے پُرسکون رہتے ہیں۔ خدا کے تمام کام کی قدر کرنا، خدا کی دی گئی بصیرت کی قدر کرنا، خدا کی موجودگی کی قدر کرنا، خدا کی طرف سے کی جانے والی دیکھ بھال اور حفاظت کی قدر کرنا، اس بات کی قدر کرنا کہ کیسے خدا کا کلام تیری حقیقت بنتا ہے اور کیسے تیری زندگی کا سامان فراہم کرتا ہے – یہ سب خدا کے دل سے بہترین ہم آہنگی رکھتا ہے۔ اگر تو خدا کے کام کی قدر کرتا ہے، یعنی اگر اس تمام کام کی قدر کرتا ہے جو اس نے تجھ پر کیے ہیں، تو وہ تجھے برکت عطا کرے گا اور جو کچھ بھی تیرا ہے اس میں اضافہ کر دے گا۔ اگر تو خدا کے کلام کی قدر نہیں کرتا ہے تو وہ تجھ میں کام نہیں کرے گا، بلکہ وہ تیرے ایمان کے لیے تجھے محض ادنیٰ سا فضل عطا کرے گا، یا تجھے بمشکل کافی دولت سے نوازے گا اور تیرے خاندان کی بہت کم حفاظت کرے گا۔ تجھے خدا کے کلام کو اپنی حقیقت بنانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، اور اس کو مطمئن کرنے اور اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہونے کے قابل ہونا چاہیے؛ تجھے صرف اس کے فضل سے لطف اندوز ہونے کے لیے کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اہلِ ایمان کے لیے خدا کے کام کو حاصل کرنے، کاملیت حاصل کرنے، اور خدا کی مرضی پر عمل کرنے والا بننے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ وہ مقصد ہے جس کی تجھے جستجو کرنی چاہیے۔
وہ سب جس کی انسان نے فضل کے دور میں جستجو کی تھی اب متروک ہو چکا ہے، کیونکہ اب جستجو کرنے کے لیے ایک زیادہ اعلیٰ معیار ہے؛ جس کی جستجو کی جاتی ہے وہ بلندوبالا اور زیادہ عملی، دونوں ہوتا ہے، جس کی جستجو کی جاتی ہے وہ اس چیز کو بہتر طریقے سے پورا کر سکتا ہے جو انسان کو باطنی طور پر درکار ہوتی ہے۔ گزشتہ ادوار میں، خدا نے لوگوں پر اس طریقے سےکام نہیں کیا تھا جیسے کہ وہ آج کرتا ہے؛ اس نے ان سے اتنی زیادہ بات نہیں کی تھی جتنی کہ وہ آج کرتا ہے، اور نہ ہی اس کے تقاضے ان سے اتنے زیادہ تھے جتنے کہ اس کے تقاضے آج ہیں۔ جب خدا تم سے اب ان چیزوں کے بارے میں بات کرتا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کا حتمی ارادہ تم پر، لوگوں کے اس گروہ پر مرکوز ہے۔ اگر تو واقعی خدا کی طرف سے کامل بنایا جانا چاہتا ہے، تو اپنے مرکزی مقصد کے طور پر اس کی جستجو کر۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تو اِدھر اُدھر بھاگ رہا ہے، اپنے آپ کو خرچ کر رہا ہے، کسی تقریب کی خدمت کر رہا ہے، یا تجھے خدا کی طرف سے ذمہ داری ملی ہے، مقصد ہمیشہ سے ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کامل بنایا جانا اور خدا کی مرضی کو پورا کرنا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے یا زندگی میں داخلے کی جستجو نہیں کرتا ہے، بلکہ صرف جسمانی سکون اور خوشی کی جستجو میں ہے، تو پھر وہ انسانوں میں سب سے زیادہ اندھا ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی حقیقت کی جستجو نہیں کرتے ہیں، بلکہ صرف آنے والی دنیا میں ابدی زندگی اور اس دنیا میں سلامتی کے لیے جستجو کرتے ہیں، تو پھر وہ سب سے زیادہ اندھے ہیں۔ لہٰذا، تو جو کچھ بھی کرتا ہے وہ خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے اور اپنا لیے جانے کے مقصد کے لیے کیا جانا چاہیے۔
خدا لوگوں میں جو کام کرتا ہے وہ ان کی مختلف ضروریات کی بنیاد پر انہیں مدد فراہم کرنا ہے۔ ایک شخص کی زندگی جتنی بڑی ہوگی، اس کی ضرورت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی اور وہ اتنی ہی زیادہ اس کی جستجو کرے گا۔ اگر اس مرحلے پر تو کوئی جستجو نہیں کرتا ہے، تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روح القدس تجھے چھوڑ چکی ہے۔ وہ سب لوگ جو زندگی کی جستجو کرتے ہیں روح القدس انھیں کبھی نہیں چھوڑے گی؛ ایسے لوگ ہمیشہ جستجو کرتے ہیں، اور ان کے دلوں میں ہمیشہ تڑپ رہتی ہے۔ ایسے لوگ کبھی بھی چیزوں سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں جیسا کہ وہ اس وقت ہیں۔ روح القدس کے کام کے ہر مرحلے کا مقصد تجھ میں ایک اثر حاصل کرنا ہے، لیکن اگر تو مطمئن ہو جائے گا، اگر تیری مزید ضرورتیں نہ ہوں گی، اگر تو روح القدس کے کام کو مزید قبول نہیں کرے گا، تو وہ تجھے چھوڑ دے گا۔ لوگوں کو ہر روز خُدا کی جانچ کی ضرورت ہوتی ہے؛ انھیں ہر روز خدا سے بہت زیادہ سامان کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا لوگ ہر روز خدا کے کلام کو کھائے اور پیے بغیر مسائل سے کامیابی سے نمٹ سکتے ہیں؟ اگر کوئی ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خدا کے کلام کو جتنا بھی کھائے یا پیے وہ کافی نہیں ہے، اگر وہ ہمیشہ اس کی تلاش کرے اور اس کے لیے بھوکا اور پیاسا رہے، تو روح القدس ہمیشہ اس میں کام کرے گی۔ کوئی جتنا زیادہ تڑپتا ہے، اتنی ہی زیادہ عملی چیزیں اس کی رفاقت سے نمودار ہو سکتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی شدت کے ساتھ سچائی کی تلاش کرتا ہے، اتنی ہی تیزی سے وہ اپنی زندگی میں ترقی حاصل کرتا ہے، جس سے وہ عملی تجربہ سے مالا مال ہو جاتا ہے اور خدا کے گھر کا امیر شہری بن جاتا ہے۔