سب کچھ خدا کے کلام سے حاصل ہوتا ہے

خدا اپنا کلام عطا کرتا ہے اور اپنا کام مختلف ادوار کے مطابق کرتا ہے اور مختلف ادوار میں، وہ مختلف کلام کہتا ہے۔ خدا قوانین کی پابندی نہیں کرتا، یا ایک ہی کام کو نہیں دہراتا ہے، یا ماضی کی چیزوں کے لیے پرانی یادوں کا احساس نہیں کرتا ہے؛ وہ ایک خدا ہے جو ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا، اور وہ ہر روز نیا کلام کہتا ہے۔ تجھے اس کی پابندی کرنی چاہیے جس کی آج پابندی ہونی چاہیے؛ یہ انسان کی ذمہ داری اور فرض ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ موجودہ دور میں عمل کو خدا کے نور اور کلام کے گرد مرکوز کیا جائے۔ خدا قوانین کی پابندی نہیں کرتا، اور اپنی حکمت اور قدرت کاملہ کو واضح کرنے کے لیے بہت سے مختلف زاویوں سے کلام کرنے کے قابل ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ روح کے نقطہ نظر سے کلام کرتا ہے یا انسان کے، یا تیسرے شخص کے—خدا ہمیشہ خدا ہے، اور تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ انسان کے نقطہ نظر سے کلام کرنے کی وجہ سے خدا نہیں ہے۔ خدا کے مختلف تناظر میں کلام کرنے کی وجہ سے کچھ لوگوں میں گمان ابھرے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نہ تو خدا کا علم ہے اور نہ ہی اس کے کام کا علم ہے۔ اگر خدا ہمیشہ ایک ہی تناظر میں کلام کرے، تو کیا انسان خدا کے بارے میں اصول نہیں بنا لے گا؟ کیا خدا انسان کو اس طریقے سے کام کرنے کی اجازت دے سکتا ہے؟ قطع نظر اس کے کہ خدا کس تناظر میں کلام کرتا ہے، اس کے پاس ایسا کرنے کی وجوہات ہیں۔ اگر خدا ہمیشہ روح کے تناطر میں کلام کرے، تو کیا تو اس کے ساتھ مشغول ہونے کا اہل ہوسکتا ہے؟ چنانچہ، تجھے اپنا کلام فراہم کرنے اور تیری حقیقت کی طرف راہنمائی کرنے کے لیے بعض اوقات وہ تیسرے شخص کی حیثیت سے کلام کرتا ہے۔ جو کچھ خدا کرتا ہے وہ موزوں ہے۔ مختصر یہ کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہوتا ہے، اور تجھے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ وہ خدا ہے، اور اس طرح اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کس تناظر میں کلام کرتا ہے، وہ ہمیشہ ہی خدا رہے گا۔ یہ ایک ناقابل تغیر سچائی ہے۔ بہر حال وہ کام کرتا ہے اور وہ اب بھی خدا ہے، اور اس کا جوہر نہیں بدلے گا! پطرس خُدا سے اِس قدر پیار کرتا تھا اور خُدا کی خواہش کے مطابق انسان تھا، لیکن خُدا نے اُسے خُداوند یا مسیح کے طور پر نہیں دیکھا، کیونکہ ایک وجود کا جوہر وہی ہوتا ہے جو وہ ہوتا ہے، اور یہ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اپنے کام میں، خُدا اصولوں کی پابندی نہیں کرتا، بلکہ اپنے کام کو مؤثر بنانے اور اپنے بارے میں انسان کے علم کو گہرا کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ خدا کے کام کرنے کا ہر طریقہ انسان کو خدا کو جاننے میں مدد دیتا ہے، اور انسان کو کامل بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کام کرنے کا کون سا طریقہ استعمال کرتا ہے، ہر طریقہ انسان کی تدریجی پیشرفت اور انسان کو کامل بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ سکتا ہے کہ اس کے کام کرنے کے طریقوں میں سے ایک بہت طویل عرصے تک جاری رہا ہو لیکن یہ انسان کے خدا پر ایمان کو حسب منشا بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے تیرے دل میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سب خدا کے کام کے مراحل ہیں، اور تجھے ان کی اطاعت لازمی کرنی چاہیے۔

آج جس چیز کے بارے میں بات کی جاتی ہے وہ حقیقت میں داخل ہونا ہے—نہ کہ آسمان پر چڑھنا، یا بادشاہوں کے طور پر حکومت کرنا؛ جو کچھ کہا جاتا ہے وہ حقیقت میں داخل ہونے کی کوشش ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی عملی کوشش نہیں ہے، اور بادشاہوں کے طور پر حکومت کرنے کی بات کرنا عملی نہیں ہے۔ انسان میں بڑا تجسس ہوتا ہے، اور وہ آج بھی خدا کے کام کو اپنے مذہبی تصورات سے ماپتا ہے۔ خدا کے کام کرنے کے بہت سے طریقوں کا تجربہ کرنے کے بعد، انسان اب بھی خدا کے کام کو نہیں جانتا، اب بھی نشانیاں اور کرامات تلاش کرتا ہے، اور اب بھی یہ دیکھتا ہے کہ آیا خدا کا کلام پورا ہوا ہے یا نہیں۔ کیا یہ بہت زیادہ جہالت نہیں ہے؟ خدا کے کلام کی تکمیل کے بغیر، کیا تو پھر بھی یقین کرے گا کہ وہ خدا ہے؟ آج، کلیسیا میں ایسے بہت سے لوگ نشانیاں اور معجزات دیکھنے کے منتظر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا کا کلام پورا ہوتا ہے تو وہ خدا ہے؛ اگر خدا کا کلام پورا نہیں ہوتا تو وہ خدا نہیں ہے۔ تو کیا تو خدا پر اس کے کلام کی تکمیل کی وجہ سے یقین رکھتا ہے یا اس لیے کہ وہ خود خدا ہے؟ خدا پر یقین کے بارے میں انسان کا نظریہ درست کرنا چاہیے! جب تو دیکھتا ہے کہ خدا کا کام پورا نہیں ہوا تو تُو دور بھاگ جاتا ہے—کیا یہ خدا پر یقین ہے؟ جب تو خدا پر یقین رکھتا ہے تو تجھے سب کچھ خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے اور خدا کے تمام کام کی اطاعت کرنی چاہیے۔ خدا نے پرانے عہد نامے میں بہت سا کلام کہا—ان میں سے کس کو تو نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ کیا تو کہہ سکتا ہے کہ چونکہ تو نے وہ نہیں دیکھا اس لیے یہوواہ سچا خدا نہیں ہے؟ اگرچہ بہت سا کلام پورا ہو چکا ہے لیکن انسان اسے صاف طور پر دیکھنے سے قاصر ہے کیونکہ انسان کے پاس سچائی نہیں ہے اور وہ کچھ نہیں سمجھتا۔ کچھ لوگ جب محسوس کرتے ہیں کہ خدا کا کلام پورا نہیں ہوا ہے تو وہ دور بھاگنا چاہتے ہیں۔ کوشش کر۔ دیکھ کہ کیا تو دور بھاگ سکتا ہے۔ بھاگ جانے کے بعد بھی تو واپس آئے گا۔ خدا اپنے کلام سے تجھے قابو کرتا ہے، اور اگر تو کلیسیا اور خدا کے کلام کو چھوڑ دیتا ہے، تو تیرے پاس زندہ رہنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔ اگر تجھے اس پر یقین نہیں ہے، تو اسے خود آزما لے—کیا تجھے لگتا ہے کہ تو بس ایسے ہی چھوڑ سکتا ہے؟ خدا کی روح تجھے قابو میں رکھتی ہے۔ تو چھوڑ نہیں سکتا ہے۔ یہ خدا کا ایک انتظامی حکم ہے! اگر کچھ لوگ کوشش کرنا چاہتے ہیں، تو وہ کر سکتے ہیں! تو کہتا ہے کہ یہ شخص خدا نہیں ہے، تو پھر اس کے خلاف گناہ کر اور دیکھ کہ وہ کیا کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تیرا جسم نہ مرے اور تو پھر بھی اپنے آپ کو کھانا کھلا سکے گا اور لباس پہنا سکے گا، لیکن ذہنی طور پر یہ ناقابل برداشت ہو گا؛ تو تناؤ اور اذیت محسوس کرے گا؛ کوئی چیز اس سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہو گی۔ انسان ذہنی اذیت اور تباہی کو برداشت نہیں کر سکتا—شاید تو جسمانی تکلیف کو برداشت کرنے کے قابل ہو، لیکن تو ذہنی دباؤ اور دیرپا عذاب کو برداشت کرنے سے بالکل عاجز ہے۔ آج، کچھ لوگ جب نشانیاں اور کرامات نہیں دیکھ پاتے تو وہ منفی ہو جاتے ہیں، مگر کوئی کتنا ہی منفی کیوں نہ ہو، بھاگنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ خدا انسان کو اپنے کلام سے قابو میں رکھتا ہے۔ حقائق سامنے نہ آنے کے باوجود اب بھی کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ کیا یہ خدا کے اعمال نہیں ہیں؟ آج، خدا انسان کو زندگی فراہم کرنے کے لیے زمین پر آیا ہے۔ خدا اور انسان کے درمیان پُرامن تعلقات کو یقینی بنانے کے لیے، جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں، وہ، نشانیاں اور کرامات دکھا کر تجھے نہیں پرچاتا۔ وہ تمام لوگ جن کی توجہ زندگی پر نہیں ہے، اور اس کی بجائے جو خدا کے نشانیاں اور کرامات دکھانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، فریسی ہیں! اور یہ فریسی ہی تھے جنھوں نے یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑا تھا۔ اگر تو خدا کو خدا پر یقین کے اپنے نظریات کے مطابق ماپتا ہے، اگر خدا کا کلام پورا ہوتا ہے تو تُو اس پر یقین رکھتا ہے، اور اگر وہ پورا نہیں ہوتا تو تُو خدا کے خلاف شک کرتا ہے اور گستاخی تک بھی کرتا ہے، تو پھر کیا تو اسے میخوں سے صلیب پر نہیں جڑتا؟ اس طرح کے لوگ اپنے فرائض سے غافل ہیں، اور آرام دہ ماحول میں لطف اندوز ہونے کے حریص ہوتے ہیں!

ایک طرف، انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خدا کے کام کو نہیں جانتا۔ اگرچہ انسان کا رویہ انکار کا نہیں ہے، لیکن یہ شک کا ہے۔ انسان انکار نہیں کرتا، لیکن وہ پوری طرح تسلیم بھی نہیں کرتا۔ اگر لوگوں کو خدا کے کام کا مکمل علم ہو تو وہ نہیں بھاگیں گے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انسان حقیقت کو نہیں جانتا ہے۔ آج، ہر شخص خدا کے کلام کے ساتھ مشغول ہے؛ درحقیقت، مستقبل میں، تجھے نشانیاں اور کرامات دیکھنے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ میں تجھے صاف بتاتا ہوں: موجودہ دور میں تو جو دیکھنے کے قابل ہے وہ خدا کا کلام ہے، اور اگرچہ کوئی حقائق نہیں ہیں، پھر بھی خدا کی زندگی کو انسان کی شکل دی جا سکتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ہزار سالہ بادشاہی کا اہم کام ہے، اور اگر تو اس کام کو نہیں سمجھ سکتا تو پھر تو کمزور ہو جائے گا اور گر جائے گا؛ تو آزمائشوں میں مبتلا ہو جائے گا اور، اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات، تُو شیطان کا اسیر ہو جائے گا۔ خُدا بنیادی طور پر اپنا کلام کہنے کے لیے زمین پر آیا ہے۔ تو جس چیز کے ساتھ مشغول ہے وہ خدا کا کلام ہے، جو تو دیکھتا ہے وہ خدا کا کلام ہے، جو تو سنتا ہے وہ خدا کا کلام ہے، جس پر تو عمل کرتا ہے وہ خدا کا کلام ہے، تو جو تجربہ حاصل کرتا ہے وہ خدا کا کلام ہے، اور یہ مجسم خدا بنیادی طور پر کلام کو انسان کو کامل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ نشانیاں اور کرامات نہیں دکھاتا، اور خاص طور پر وہ کام نہیں کرتا جو یسوع نے ماضی میں کیا تھا۔ اگرچہ وہ دونوں خدا ہیں، اور دونوں جسم ہیں مگر ان کی مذہبی ذمہ داریاں ایک جیسی نہیں ہیں۔ جب یسوع آیا، تو اس نے خدا کا کچھ کام بھی کیا اور کچھ کلام کہا—لیکن کون سا اہم کام تھا جو اس نے پورا کیا؟ اس نے بنیادی طور پر جو کام کیا وہ تصلیب کا کام تھا۔ وہ تصلیب کے کام کو مکمل کرنے اور تمام بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے گناہ گار جسم کی طرح بن گیا، اور یہ تمام بنی نوع انسان کے گناہوں کی خاطر تھا جو اس نے گناہ کے کفارے کے طور پر پیش کیا۔ یہ وہ اہم کام ہے جو اس نے پورا کیا۔ بالآخر، اس نے بعد میں آنے والوں کی راہنمائی کے لیے صلیب کا راستہ فراہم کیا۔ جب یسوع آیا، تو بنیادی طور پر اس کا مقصد گناہوں سے بچانے کے کام کو مکمل کرنا تھا۔ اس نے تمام بنی نوع انسان کو بچایا، اور آسمان کی بادشاہی کی تعلیمات انسانوں تک پہنچائیں اور اس کے علاوہ، اس نے آسمان کی بادشاہی کا راستہ بھی پیش کیا۔ نتیجے کے طور پر، ان تمام لوگوں نے جو بعد میں آئے کہا، "ہمیں صلیب کے راستے پر چلنا چاہیے، اور صلیب کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنا چاہیے۔" بلاشبہ، ابتدا میں، یسوع نے کچھ اور کام بھی کیا اور کچھ الفاظ کہے تاکہ انسان توبہ کرے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔ لیکن ابھی بھی اس کی مذہبی ذمہ داری مصلوب ہونا تھی، اور جو ساڑھے تین سال اس نے سچے راستے کی تبلیغ میں گزارے وہ اس کے بعد آنے والی تصلیب کی تیاری کے لیے تھے۔ یسوع نے کئی بار جو دعا مانگی وہ بھی مصلوب ہونے کی خاطر تھی۔ ایک عام آدمی کی زندگی جو اس نے بسر کی اور ساڑھے تینتیس سال جو اس نے زمین پر گزارے وہ بنیادی طور پر تصلیب کے کام کو مکمل کرنے کے لیے تھے؛ یہ اس کو وہ کام انجام دینے کی طاقت دینے کے لیے تھے، جس کے نتیجے میں خدا نے اسے تصلیب کا کام سونپا۔ مجسم خدا آج کون سا کام پورا کرے گا؟ آج، خُدا جسم بن گیا ہے تاکہ بنیادی طور پر "جسمانی شکل میں ظاہر ہونے والے کلام،" کے کام کو مکمل کرے، انسان کو کامل بنانے کے لیے کلام کا استعمال کرے، اور انسان سے کلام کے ساتھ تعلق اور کلام کے تزکیے کو قبول کروائے۔ اپنے کلام میں وہ تجھے رزق اور زندگی حاصل کرنے دیتا ہے؛ اس کے کلام میں تو اس کے کام اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ خدا تجھے سزا دینے اور تزکیہ کرنے کے لیے اس کلام کا استعمال کرتا ہے، اور اس طرح، اگر تجھے تکلیف پہنچتی ہے تو یہ بھی خدا کے کلام کی وجہ سے ہے۔ آج خدا حقائق سے نہیں بلکہ کلام سے کام کرتا ہے۔ اس کا کلام تجھ پر آنے کے بعد ہی روح القدس تیرے اندر کام کر سکتی ہے اور تجھے تکلیف پہنچا سکتی ہے یا مٹھاس محسوس کروا سکتی ہے۔ صرف خدا کا کلام ہی تجھے حقیقت میں لا سکتا ہے اور صرف خدا کا کلام ہی تجھے کامل بنا سکتا ہے۔ اور اس لیے، کم از کم تجھے یہ لازمی سمجھنا چاہیے: آخری ایام میں خدا کا کام بنیادی طور پر اپنے کلام کو استعمال کر کے ہر شخص کو کامل بنانے اور انسان کی راہنمائی کرنے کے لیے ہے۔ تمام کام جو وہ کرتا ہے کلام کے ذریعے ہوتا ہے؛ وہ تجھے سزا دینے کے لیے حقائق کا استعمال نہیں کرتا ہے۔ ایسے اوقات ہوتے ہیں جب کچھ لوگ خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ خدا تجھے زیادہ بڑی تکلیف نہیں دیتا، تیرے جسم کو سزا نہیں ملتی، اور نہ ہی تجھے تکلیف ہوتی ہے—لیکن جیسے ہی اس کا کلام تجھ پر آتا ہے اور تیرا تزکیہ کرتا ہے تو یہ تیرے لیے ناقابل برداشت ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ خدمت گزاروں کے زمانے میں خدا نے کہا کہ انسان کو اتھاہ گڑھے میں پھینک دو۔ کیا واقعی انسان اتھاہ گڑھے میں پہنچا؟ انسان کے تزکیے کے لیے محض الفاظ کے استعمال سے، انسان اتھاہ گڑھے میں داخل ہو گیا۔ اور اس طرح، آخری ایام کے دوران، جب خُدا جسم بنتا ہے تو وہ سب کچھ انجام دینے اور سب کچھ واضح کرنے کے لیے بنیادی طور پر کلام کو استعمال کرتا ہے۔ صرف اس کے کلام میں تو دیکھ سکتا ہے کہ وہ کیا ہے؛ صرف اس کے کلام میں تو دیکھ سکتا ہے کہ وہ بذاتِ خود خدا ہے۔ جب مجسم خدا زمین پر آتا ہے تو وہ کلام کہنے کے سوا کوئی اور کام نہیں کرتا—اس لیے حقائق کی ضرورت نہیں ہے؛ کلام کافی ہے۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر اسی کام کو کرنے آیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی طاقت اور برتری کو اپنے کلام میں دیکھنے کی اجازت دے، انسان کو اپنے کلام میں دیکھنے کی اجازت دینے کے لیے کہ وہ کس طرح عاجزی کے ساتھ اپنے آپ کو چھپاتا ہے، اور انسان کو اپنے کلام میں اپنی کاملیت معلوم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے اور جو کچھ وہ خود ہے سب اس کے کلام میں ہے۔ اس کی حکمت اور حیرت انگیزی اس کے کلام میں ہے۔ اس میں تجھے وہ بہت سے طریقے دکھائے گئے ہیں جن کے ساتھ خدا اپنا کلام کہتا ہے۔ اس تمام عرصے کے دوران خدا کا زیادہ تر کام رزق، وحی، اور انسان سے نمٹنا رہا ہے۔ وہ کسی شخص پر ہلکے انداز میں لعنت نہیں بھیجتا، اور اگر وہ بھیجتا بھی ہے تو وہ کلام کے ذریعے ہی ان پر لعنت بھیجتا ہے۔ اور اس طرح، خدا کے جسم بننے کے اس دور میں، یہ دیکھنے کی کوشش مت کر کہ خدا دوبارہ بیماروں کو شفا دے اور بدروحوں کو نکالے، اور تُو مسلسل نشانیوں کی تلاش بند کردے—کوئی فائدہ نہیں ہے! وہ نشانیاں انسان کو کامل نہیں بنا سکتیں! واضح طور پر بات کرنے کے لیے: آج، جسمانی شکل میں حقیقی خدا عمل نہیں کرتا ہے؛ وہ صرف بولتا ہے۔ یہ سچ ہے! وہ تجھے کامل بنانے کے لیے کلام استعمال کرتا ہے، اور تجھے کھلانے اور پلانے کے لیے کلام کا استعمال کرتا ہے۔ وہ کام کرنے کے لیے بھی کلام کا استعمال کرتا ہے، اور وہ حقائق کی جگہ کلام استعمال کرتا ہے تاکہ تجھے اپنی حقیقت سے آگاہ کر سکے۔ اگر تو خدا کے کام کے اس انداز کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر منفی رویہ رکھنا مشکل ہے۔ منفی چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے، تجھے صرف اس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو مثبت ہے–جس کا مطلب ہے، اس بات سے قطع نظر کہ خدا کا کلام پورا ہوتا ہے یا نہیں، یا حقائق کا ظہور ہوتا ہے یا نہیں۔ خدا انسان کو اپنے کلام سے زندگی حاصل کرواتا ہے، اور یہ تمام نشانیوں میں سب سے بڑی نشانی ہے؛ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ایک غیر متنازع حقیقت ہے۔ صرف یہی کلام انسان کو کامل بنا سکتا ہے۔

جیسے ہی بادشاہی کا دور شروع ہوا، خدا نے اپنا کلام جاری کرنا شروع کر دیا۔ مستقبل میں یہ کلام بتدریج پورا ہو گا اور اس وقت انسان زندگی میں پروان چڑھے گا۔ خدا کا کلام کا استعمال کرنا انسان کے بدعنوان مزاج کو ظاہر کرنے کے لیے زیادہ حقیقی، اور زیادہ ضروری ہے، اور وہ انسان کے ایمان کو کامل کرنے کے لیے اپنا کام کرنے کے لیے کلام کے سوا کچھ استعمال نہیں کرتا، کیونکہ آج کل کلام کا دور ہے، اور اس کے لیے انسان کے ایمان، پختہ عزم اور تعاون کی ضرورت ہے۔ آخری ایام کے مجسم خدا کا کام انسان کی خدمت اور ضروریات مہیا کرنے کے لیے اس کے کلام کا استعمال ہے۔ انسانی شکل میں خدا کا اپنا کلام کہنے کے بعد ہی وہ پورا ہونے لگے گا۔ جس وقت وہ بولتا ہے اس کا کلام پورا نہیں ہوتا کیونکہ جب وہ جسم کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کا کلام پورا نہیں ہوسکتا۔ یہ اِس لیے ہے کہ آدمی دیکھ سکے کہ خُدا جِسم ہے نہ کہ رُوح؛ تاکہ انسان خدا کی حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے۔ جس دن اُس کا کام مکمل ہو جائے گا، جب وہ تمام باتیں جو اُس کی طرف سے زمین پر کہی جانی چاہییں کہی جا چکی ہوں گی تب اُس کی باتیں پوری ہونے لگیں گی۔ اب خُدا کے کلام کی تکمیل کا زمانہ نہیں ہے، کیونکہ اُس نے ابھی تک اپنے کلام کو ختم نہیں کیا ہے۔ لہٰذا، جب تو دیکھے کہ خدا ابھی تک زمین پر اپنا کلام کہہ رہا ہے تو اس کے کلام کے پورا ہونے کا انتظار نہ کر؛ جب خُدا اپنا کلام بولنا بند کر دے گا، اور جب زمین پر اُس کا کام مکمل ہو جائے گا، تب اُس کا کلام پورا ہونے لگے گا۔ زمین پر وہ جو کلام کہتا ہے، اس میں ایک لحاظ سے زندگی کا سامان ہے اور دوسرے میں پیشین گوئی ہے–آنے والی چیزوں کی پیشین گوئی، ان چیزوں کی جو کی جائیں گی، اور ان چیزوں کی جنھوں نے ابھی پورا ہونا ہے۔ یسوع کے کلام میں بھی پیشین گوئی تھی۔ ایک لحاظ سے، اس نے زندگی فراہم کی، اور دوسرے لحاظ سے، اس نے پیشین گوئی کی۔ آج کل کلام اور حقائق کو ایک ہی وقت میں پیش کرنے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ جو چیز انسان کی اپنی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے اور جو خدا کرتا ہے اس میں بہت فرق ہے۔ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک بار جب خدا کا کام مکمل ہو جائے گا، اس کا کلام پورا ہو گا، اور حقائق کلام کے بعد ظاہر ہوں گے۔ آخری ایام کے دوران، مجسم خدا زمین پر کلام کی ذمہ داری سر انجام دیتا ہے، اور کلام کی ذمہ داری سرانجام دینے میں، وہ صرف کلام بولتا ہے، اور دوسرے معاملات کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ ایک بار جب خدا کا کام بدل جائے گا تو اس کا کلام پورا ہونے لگے گا۔ آج، کلام پہلے تجھے کامل بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ جب وہ پوری کائنات میں جاہ وجلال حاصل کرے گا، اس کا کام مکمل ہو جائے گا–وہ تمام الفاظ جو بولے جانے چاہئیں، بولے جا چکے ہوں گے، اور تمام کلام حقیقت بن چکا ہو گا۔ خُدا آخری ایام میں زمین پر آیا ہے تاکہ کلام کی ذمہ داری انجام دے، تاکہ بنی نوع انسان اُسے جان سکے، اور تاکہ بنی نوع انسان دیکھ سکے کہ وہ کیا ہے، اور اس کی حکمت اور اس کے تمام حیرت انگیز کام اس کے کلام سے دیکھے۔ بادشاہی کے دور کے دوران، خدا بنیادی طور پر کلام کو تمام بنی نوع انسان پر غالب آنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مستقبل میں اس کا کلام ہر مذہب، طبقہ، قوم اور فرقہ پر بھی غالب آئے گا۔ خُدا غالب آنے کے لیے کلام کو استعمال کرتا ہے، تمام لوگوں کو یہ دکھانے کے لیے کہ اُس کا کلام اختیار اور طاقت رکھتا ہے–اور اسی لیے آج، تمہیں صرف خُدا کے کلام کا سامنا ہے۔

اس دور میں خدا کی طرف سے کہے گئے الفاظ قانون کے دور میں کہے گئے الفاظ سے مختلف ہیں، اور اسی طرح، وہ فضل کے دور میں کہے گئے الفاظ سے بھی مختلف ہیں۔ فضل کے دور میں، خدا نے کلام کا کام نہیں کیا، بلکہ تمام بنی نوع انسان کی نجات کے لیے صرف تصلیب کو بیان کیا۔ انجیل صرف یہ بیان کرتی ہے کہ یسوع کو کیوں مصلوب کیا جانا تھا، اور صلیب پر اُسے کس تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، اور انسان کو خدا کے لیے کس طرح مصلوب کیا جانا چاہیے۔ اس دور کے دوران، خدا کی طرف سے کیا گیا تمام کام تصلیب کے گرد مرکوز تھا۔ بادشاہی کے دور کے دوران، خدا اپنے اوپر ایمان رکھنے والے تمام لوگوں پر غالب آنے کے لیے کلام کہتا ہے۔ یہ "جسم میں ظاہر ہونے والا کلام" ہے؛ خُدا آخری ایام میں اس کام کو کرنے کے لیے آیا ہے، جس کا مطلب ہے، وہ جسم میں ظاہر ہونے والے کلام کی اصل اہمیت کو پورا کرنے آیا ہے۔ وہ صرف کلام کہتا ہے، اور حقائق کی آمد شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ یہ جسم میں ظاہر ہونے والے کلام کا نچوڑ ہے، اور جب مجسم خدا اپنے الفاظ کہتا ہے، تو یہ کلام کا جسم میں ظہور ہے، اور یہ کلام کا جسم میں آنا ہے۔ "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا، اور کلام جسم بن گیا۔" یہ (کلام کا جسم میں ظاہر ہونے کا کام) وہ کام ہے جسے خُدا آخری ایام میں پورا کرے گا، اور یہ اُس کے پورے انتظامی منصوبے کا آخری باب ہے، اور اس طرح خدا کو زمین پر آنا ہے اور اپنے کلام کو جسم میں ظاہر کرنا ہے۔ جو آج کیا گیا ہے، جو مستقبل میں کیا جائے گا، جو خدا کی طرف سے پورا ہو گا، انسان کی آخری منزل، وہ جو بچا لیے جائیں گے، وہ جو تباہ کر دیے جائیں گے، اور اسی طرح–یہ تمام کام جو آخر میں حاصل کیا جانا چاہیے، اس کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، اور یہ سب کچھ جسم میں ظاہر ہونے والے کلام کی اصل اہمیت کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ انتظامی احکام اور آئین جو پہلے جاری کیے گئے تھے، وہ جو تباہ ہو جائیں گے، وہ جو آرام میں داخل ہوں گے–یہ تمام الفاظ پورے ہونے چاہییں۔ یہ وہ کام ہے جو بنیادی طور پر آخری ایام کے دوران مجسم خُدا نے پورا کیا۔ وہ لوگوں کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا کی طرف سے مقررکردہ لوگوں کا تعلق کہاں سے ہے اور ان لوگوں کا تعلق کہاں سے ہے جو خدا نے پہلے سے مقرر نہیں کیے ہیں، اس کے لوگوں اور بیٹوں کی درجہ بندی کیسے کی جائے گی، اسرائیل کا کیا ہوگا، مصر کا کیا ہوگا–مستقبل میں، ان الفاظ میں سے ہر ایک کو پورا کیا جائے گا۔ خدا کے کام کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔ خدا انسان پر ظاہر کرنے کے لیے کہ ہر دور میں کیا کیا جانا ہے، کلام کو بطور ذریعہ استعمال کرتا ہے، آخری ایام کے دوران مجسم خدا نے کیا کرنا ہے، اور اس کی مذہبی ذمہ داری جو انجام دی جانی ہے، اور یہ کلام جسم میں ظاہر ہونے والے کلام کی اصل اہمیت کو پورا کرنے کے لیے ہیں۔

میں نے پہلے کہا ہے کہ "وہ تمام لوگ جو نشانیوں اور عجائبات کو دیکھنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں چھوڑ دیے جائیں گے۔ یہ وہ نہیں ہیں جو کامل بنائے جائیں گے۔" میں نے بہت سا کلام کہا ہے پھر بھی انسان کو اس کام کا ذرہ برابر علم نہیں ہے اور اس مقام پر پہنچ کر، لوگ اب بھی نشانیاں اور عجائبات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کیا تیرا خدا پر یقین نشانیوں اور عجائبات کے حصول کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے یا یہ زندگی حاصل کرنے کے لیے ہے؟ یسوع نے بھی بہت سا کلام کہا، اور ان میں سے کچھ کو ابھی پورا ہونا باقی ہے۔ کیا تو کہہ سکتا ہے کہ یسوع خدا نہیں ہے؟ خدا نے گواہی دی کہ وہ مسیح اور خدا کا پیارا بیٹا تھا۔ کیا تو اس سے انکار کر سکتا ہے؟ آج، خدا صرف کلام بولتا ہے، اور اگر تو اس کو اچھی طرح سے نہیں جانتا، تو تُو ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ کیا تو اُس پر یقین رکھتا ہے کیونکہ وہ خدا ہے، یا کیا تو اس بنیاد پر اُس پر یقین رکھتا ہے کہ آیا اس کے الفاظ پورے ہوتے ہیں یا نہیں؟ کیا تو نشانیوں اور کرامات پر یقین رکھتا ہے، یا تو خدا پر یقین رکھتا ہے؟ آج، وہ نشانیاں اور کرامات نہیں دکھاتا–کیا وہ واقعی خدا ہے؟ اگر اُس کا کہا گیا کلام پورا نہیں ہوتا تو کیا وہ واقعی خدا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ اس پر ایمان لانے سے پہلے ہمیشہ خدا کے کلام کے پورا ہونے کا انتظار کرتے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اسے نہیں جانتے؟ اس قسم کے تصورات کے حامل تمام لوگ خدا کے منکر ہیں۔ وہ خدا کو جانچنے کے لیے تصورات کا استعمال کرتے ہیں؛ اگر خدا کا کلام پورا ہوتا ہے تو وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور اگر وہ نہیں ہوتا تو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے؛ اور وہ ہمیشہ نشانیوں اور کرامات کا پیچھا کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ دور جدید کے فریسی نہیں ہیں؟ تو ثابت قدم رہنے کے قابل ہے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ تو حقیقی خدا کو جانتا ہے یا نہیں–یہ بہت اہم ہے! تجھ میں خدا کے کلام کی حقیقت جتنی زیادہ ہوگی، خدا کی حقیقت کے بارے میں تیرا علم اتنا ہی زیادہ ہوگا، اور تو آزمائشوں کے دوران اتنی ہی ثابت قدمی سے کھڑے ہونے کے قابل ہو گا۔ تو نشانیاں اور کرامات کو دیکھنے پر جتنی زیادہ توجہ دے گا، تو اتنا ہی کم ثابت قدم رہ سکے گا، اور تو آزمائشوں میں گرے گا۔ نشانیاں اور کرامات بنیاد نہیں ہیں؛ صرف خدا کی حقیقت ہی زندگی ہے۔ کچھ لوگ نہیں جانتے کہ خدا کے کام کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دن شدید حیرت میں گزارتے ہیں، خدا کے کام کے علم کی جستجو میں نہیں۔ ان کی کوشش کا مقصد ہمیشہ صرف یہ ہوتا ہے کہ خدا ان کی خواہشات کو پورا کرے، صرف تب ہی وہ اپنے ایمان میں سنجیدہ ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا کا کلام پورا ہو گا تو وہ زندگی کی جستجو کی کوشش کریں گے لیکن اگر خدا کا کلام پورا نہیں ہو گا تو پھر ان کے زندگی کی جستجو کی کوشش کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ خدا پر ایمان، نشانیوں اور کرامات کو دیکھنے کا حصول اور آسمان اور تیسرے آسمان پر چڑھنے کی کوشش کا حصول ہے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ خدا پر ان کا ایمان حقیقت میں داخل ہونے کی کوشش، زندگی میں سرگرمِ عمل ہونے کی کوشش، اور خدا کی طرف سے حاصل ہونے کی کوشش کا حصول ہے۔ اس طرح کے عمل کی کیا اہمیت ہے؟ جو لوگ خدا کی معرفت اور خدا کا اطمینان حاصل نہیں کرتے وہی خدا پر ایمان نہیں رکھتے؛ وہ خدا کی توہین کرنے والے ہیں!

اب کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ خدا پر ایمان کیا ہے؟ کیا خدا پر ایمان کا مطلب نشانیاں اور کرامات کو دیکھنا ہے؟ کیا اس کا مطلب آسمان پر چڑھنا ہے؟ خدا کو ماننا بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ ان مذہبی رسومات کی تطہیر کی جانی چاہیے؛ بیماروں کی شفایابی اور بدروحوں کو نکالنے پر بحث کرتے ہوئے، نشانیوں اور کرامات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، خُدا کے فضل، امن اور خوشی کی زیادہ خواہش کرتے ہوئے، توقعات اور جسمانی آسائشوں کی پیروی کرنا–یہ مذہبی رسومات ہیں، اور ایسے مذہبی عمل ایک مبہم قسم کا عقیدہ ہیں۔ آج خدا پر حقیقی ایمان کیا ہے؟ یہ خدا کے کلام کو تیری زندگی کی حقیقت کے طور پر قبول کرنا اور اس سے سچی محبت حاصل کرنے کے لیے خدا کو اس کے کلام سے جاننا ہے۔ واضح رہے: خدا پر ایمان اس لیے ہے کہ تو خدا کی اطاعت کر سکے، خدا سے محبت کر سکے اور وہ فریضہ انجام دے سکے جو خدا کی مخلوق کو انجام دینا چاہیے۔ یہ خدا پر ایمان لانے کا مقصد ہے۔ تجھے خدا کی محبت کا علم لازمی حاصل کرنا چاہیے، کہ خدا کتنا قابل تعظیم ہے، کہ خدا کس طرح اپنی مخلوقات میں نجات کا کام کرتا ہے اور انہیں کامل بناتا ہے–یہ خدا پر تیرے یقین کے بنیادی لوازمات ہیں۔ خُدا پر ایمان بنیادی طور پر جسمانی زندگی کو خُدا سے محبت کرنے والی زندگی میں بدلنا ہے؛ بدعنوانی کے اندر رہنے سے لے کر خدا کے الفاظ کی زندگی کے اندر رہنے تک؛ یہ شیطان کے زیر اثر سے نکل کر اور خدا کی دیکھ بھال اور حفاظت میں رہنا ہے؛ یہ خدا کی اطاعت حاصل کرنے کے قابل ہونا ہے نہ کہ جسم کی اطاعت؛ یہ خدا کو اپنے پورے دل کو حاصل کرنے کی اجازت دینا ہے، خدا کو تجھے کامل بنانے کی اجازت دینا ہے، اور اپنے آپ کو بدعنوان شیطانی مزاج سے آزاد کروانا ہے۔ خدا پر ایمان بنیادی طور پر اس لیے ہے کہ خدا کی طاقت اور جاہ وجلال تجھ میں ظاہر ہو، تاکہ تو خدا کے ارادے کو پورا کر سکے، اور خدا کے منصوبے کو مکمل کر سکے، اور شیطان کے سامنے خدا کی گواہی دینے کے قابل ہو جائے۔ خدا پر ایمان کو نشانیاں اور کرامات کو دیکھنے کی خواہش کے گرد نہیں گھومنا چاہیے، اور نہ ہی یہ تیرے ذاتی جسم کی خاطر ہونا چاہیے۔ یہ خدا کو جاننے کی کوشش، اور خدا کی فرمانبرداری کرنے کے قابل ہونے، اور پطرس کی طرح، کسی کی موت تک اس کی فرمانبرداری کے بارے میں ہونا چاہیے۔ یہ خدا پر ایمان لانے کے بنیادی مقاصد ہیں۔ خدا کو پہچاننے اور اسے راضی کرنے کے لیے کوئی خدا کے کلام کو کھاتا اور پیتا ہے۔ خدا کے کلام کو کھانا اور پینا خدا کے بارے میں تجھے زیادہ علم فراہم کرتا ہے، جس کے بعد ہی تو اس کی اطاعت کر سکتا ہے۔ صرف خدا کے علم کے ساتھ ہی تو اس سے محبت کر سکتا ہے، اور یہی وہ مقصد ہے جو انسان کو خدا پر اپنے ایمان میں رکھنا چاہیے۔ اگر خدا پر اپنے ایمان میں، تو ہمیشہ نشانیوں اور کرامات کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، تو پھر یہ نقطہ نظر خدا پر ایمان کے لیے غلط ہے۔ خدا پر ایمان، بنیادی طور پر خدا کے کلام کو زندگی کی حقیقت کے طور پر قبول کرنا ہے۔ خدا کا مقصد صرف خدا کے منہ سے نکلے ہوئے اس کے کلام کو عملی جامہ پہنانے اور اپنے اندر ان پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ خدا پر ایمان رکھتے ہوئے، انسان کو خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے، خدا کے تابع ہونے اور خدا کی مکمل اطاعت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اگر تو بغیر شکایت کے خدا کی اطاعت کر سکتا ہے، خدا کی خواہشات کے بارے میں مستعد ہے، پطرس کے مرتبے کو حاصل کر سکتا ہے، اور خدا کی طرف سے کہا گیا پطرس کا انداز اپنا سکتا ہے، تو یہ تب ہو گا جب تو خدا پر ایمان میں کامیابی حاصل کر لے گا، اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرے گا کہ تجھے خدا نے حاصل کر لیا ہے۔

خدا پوری کائنات میں اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام لوگوں کو جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں، اُس کے کلام کو لازمی قبول کرنا چاہیے، اور اُس کے کلام کو کھانا اور پینا چاہیے؛ خدا کی طرف سے دکھائی گئی نشانیوں اور کرامات کو دیکھ کر کوئی بھی خدا کی طرف سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ تمام ادوار میں، خدا نے ہمیشہ کلام کو انسان کو کامل بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ لہٰذا تمہیں اپنی تمام تر توجہ نشانیوں اور کرامات پر وقف نہیں کرنی چاہیے، بلکہ خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عہد نامہ قدیم کے قانون کے دور میں، خدا نے کچھ کلام کہا، اور فضل کے دور میں، یسوع نے بھی، بہت سا کلام کہا۔ یسوع کے بہت سا کلام کہنے کے بعد، بعد کے رسولوں اور شاگردوں نے لوگوں کو یسوع کے جاری کردہ احکام کے مطابق عمل کرنے اور یسوع کے کہے گئے کلام اور اصولوں کے مطابق عملی تجربہ کرنے کی راہنمائی کی۔ آخری ایام میں، خُدا بنیادی طور پر انسان کو کامل بنانے کے لیے کلام کا استعمال کرتا ہے۔ وہ نشانیوں اور کرامات کا استعمال انسان پر ظلم کرنے یا انسان کو قائل کرنے کے لیے نہیں کرتا؛ یہ خدا کی طاقت کو واضح نہیں کر سکتا۔ اگر خدا نے صرف نشانیاں اور کرامات دکھائیں تو خدا کی حقیقت کو واضح کرنا ناممکن ہے اور اس طرح انسان کو کامل بنانا ناممکن ہے۔ خدا انسان کو نشانیوں اور کرامات سے کامل نہیں بناتا بلکہ کلام کا استعمال انسان کو سیراب کرنے اور راہنمائی کرنے کے لیے کرتا ہے، جس کے بعد انسان کو مکمل اطاعت اور انسان کو خدا کا علم حاصل ہوتا ہے۔ جو کام وہ کرتا ہے اور جو کلام وہ کہتا ہے اس کا یہ مقصد ہے ۔ خُدا انسان کو کامل بنانے کے لیے نشانیوں اور کرامات دکھانے کا طریقہ استعمال نہیں کرتا–وہ کلام کا استعمال کرتا ہے، اور انسان کو کامل بنانے کے لیے کام کے بہت سے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ چاہے یہ الفاظ کا تزکیہ، برتاﺆ، یا ضروریات کی فراہمی ہو، خدا انسان کو کامل بنانے، اور اسے کام کا زیادہ علم دینے، حکمت اور خدا کی حیرت انگیزی دینے کے لیے بہت سے مختلف زاویوں سے بولتا ہے۔ جب انسان اس وقت کامل بنا دیا جائے گا جب خدا آخری ایام میں دور کا خاتمہ کرے گا، تب وہ نشانیوں اور کرامات کو دیکھنے کا اہل ہو گا۔ جب تو خدا کو جان لے گا اور خدا کی اطاعت کرنے کے قابل ہو جائے گا، چاہے وہ کچھ بھی کرے، جب تو نشانیاں اور کرامات دیکھ لے گا تو تیرے اس کے بارے میں کوئی گمان نہیں رہیں گے۔ اس وقت، تو بدعنوان ہے اور خدا کی مکمل اطاعت کے قابل نہیں ہے–کیا تیرا خیال ہے کہ تو اس حالت میں نشانیاں اور کرامات دیکھنے کا اہل ہے؟ جب خُدا نشانیاں اور کرامات دکھاتا ہے، یعنی جب خُدا انسان کو سزا دیتا ہے، اور یہ بھی کہ جب دور بدل جاتا ہے، اور مزید یہ کہ جب دور ختم ہو جاتا ہے۔ جب خُدا کا کام عام طور پر ہو رہا ہوتا ہے، تو وہ نشانیاں اور کرامات نہیں دکھاتا۔ نشانیاں اور کرامات دکھانا اس کے لیے انتہائی آسان ہے، لیکن یہ خدا کے کام کا اصول نہیں ہے، اور نہ ہی یہ خدا کا انسان کے انتظام کا مقصد ہے۔ اگر انسان نشانیاں اور کرامات دیکھے اور اگر خدا کا روحانی جسم انسان پر ظاہر ہو جائے تو کیا تمام لوگ خدا پر ایمان نہیں لے آئیں گے؟ میں نے پہلے کہا ہے کہ غالب آنے والوں کا ایک گروہ مشرق سے حاصل کیا جاتا ہے، غالب آنے والے جو عظیم مصیبت کے درمیان سے آتے ہیں۔ ان الفاظ سے کیا مراد ہے؟ ان کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جن کو حاصل کیا گیا ہے، انہوں نے فیصلے اور سزا، اور نمٹنا اور تراش خراش، اور ہر قسم کے تزکیے سے گزرنے کے بعد ہی صدقِ دل سے تابعداری کی ہے۔ ان لوگوں کا ایمان مبہم اور تجریدی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ اُنہوں نے کوئی نشانیاں اور کرامات یا کوئی معجزات نہیں دیکھے ہیں؛ وہ دشوار حروف اور عقائد، یا گہری بصیرت کی بات نہیں کرتے ہیں؛ اس کی بجائے ان کے پاس حقیقت، اور خدا کے کلام، اور خدا کی اصلیت کا صحیح علم ہے۔ کیا ایسا گروہ خدا کی طاقت کو واضح کرنے کی زیادہ صلاحیت نہیں رکھتا؟ آخری ایام میں خدا کا کام حقیقی کام ہے۔ یسوع کے دور میں، وہ انسان کو کامل بنانے کے لیے نہیں آیا تھا، بلکہ انسان کو نجات دلانے کے لیے آیا تھا، اور اس لیے اس نے کچھ معجزات دکھائے تاکہ لوگ اس کی پیروی کریں۔ کیونکہ وہ بنیادی طور پر تصلیب کا کام مکمل کرنے آیا تھا، اور نشانیاں دکھانا اس کی ذمہ داری کے کام کا حصہ نہیں تھا۔ ایسی نشانیاں اور کرامات وہ کام تھے جو اس کے کام کو موثر بنانے کے لیے کیے گئے تھے؛ وہ اضافی کام تھے، اور پورے دور کے کام کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ عہد نامہ قدیم کے قانون کے دور میں، خُدا نے کچھ نشانیاں اور کرامات بھی دکھائیں–لیکن آج خُدا جو کام کرتا ہے وہ حقیقی کام ہے، اور وہ یقینی طور پر اب نشانیاں اور کرامات نہیں دکھائے گا۔ اگر وہ نشانیاں اور کرامات دکھاتا ہے، تو اس کا اصل کام انتشار کا شکار ہو جائے گا، اور وہ مزید کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اگر خدا نے کلام کو انسان کو کامل بنانے کے لیے استعمال کرنے کے لیے کہا، لیکن نشانیاں اور کرامات بھی دکھائیں، تو کیا یہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ آیا انسان واقعی اس پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں؟ پس خدا ایسی باتیں نہیں کرتا۔ انسان کے اندر بہت زیادہ مذہب ہے۔ خدا آخری ایام میں آیا ہے تاکہ انسان کے اندر موجود تمام مذہبی تصورات اور مافوق الفطرت چیزوں کو نکال دے اور انسان کو خدا کی حقیقت سے آشنا کرے۔ وہ ایک ایسے خدا کی شبیہ کو ہٹانے آیا ہے جو تجریدی اورخیالی ہے–ایک ایسے خدا کی شبیہ، جس کا دوسرے لفظوں میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اور اس طرح، اب صرف ایک چیز جو قیمتی ہے وہ یہ ہے کہ تو حقیقت کا علم حاصل کرے! سچ ہر چیز پرغالب آتا ہے۔ آج تیرے پاس کتنی سچائی ہے؟ کیا کوئی بھی جو نشانیاں اور کرامات دکھاتا ہے خدا ہے؟ بد روحیں بھی نشانیاں اور کرامات دکھا سکتی ہیں؛ کیا وہ سب خدا ہیں؟ خدا پر اپنے یقین میں، انسان جس چیز کی تلاش کرتا ہے وہ سچائی ہے، اور جس چیز کے حصول کی کوشش کرتا ہے، وہ نشانیوں اور کرامات کی بجائے زندگی ہے۔ خدا پر یقین رکھنے والے تمام لوگوں کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔

سابقہ: بادشاہی کا دور کلام کا دور ہے

اگلا: جنھیں کامل بنایا جانا ہے، انھیں لازماً تطہیر سے گزرنا ہوگا

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp