انسان کی معمول کی زندگی بحال کرنا اور اسے ایک شاندار منزل تک لے جانا

انسان آج کے کام اور مستقبل کے کام کو تھوڑا بہت سمجھتا ہے لیکن وہ اس منزل کو نہیں سمجھتا جس میں انسان داخل ہوگا۔ ایک مخلوق کے طور پر، انسان کو ایک مخلوق کا فرض ادا کرنا چاہیے: انسان کو خدا کی پیروی کرنا چاہیے جو کچھ بھی وہ کرتا ہے۔ تمہیں جس طرح سے میں تمہیںکہتا ہوں اسی طرح آگے بڑھنا چاہیے۔ تمہارے پاس اپنے لیے چیزوں کی مدیریت کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور تمہیں اپنے آپ پر کوئی دسترس حاصل نہیں ہے۔ سب کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جانا چاہیے اور سب کچھ اس کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر خدا کے کام نے انسان کو وقت سے پہلے ایک انجام، ایک حیرت انگیز منزل فراہم کی اور اگر خدا نے اسے انسان کو راغب کرنے اور انسان کو اس کی پیروی کرنے کے لیے استعمال کیا – اگر اس نے انسان کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا تو یہ فتح نہیں ہوگی اور نہ ہی اسے انسان کے لیے زندگی کہا جاسکتا ہے۔ اگر خدا انسان کے انجام کو اس پر قابو پانے اور اس کے دل کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا تو، پھر وہ انسان کو کامل نہیں کررہا ہوگا گا اور نہ ہی وہ انسان کو حاصل کرنے کے قابل ہو گا، بلکہ اس کے بجائے اس پر قابو پانے کے لیے منزل کا استعمال کررہا ہو گا۔ انسان مستقبل کے اختتام، حتمی منزل اور امید کرنے کے لیے کچھ اچھا ہے یا نہیں اس سے زیادہ کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ اگر انسان کو فتح کے کام کے دوران ایک خوبصورت امید دی جائے اور اگر انسان کی فتح سے پہلے اسے تعاقب کے لیے ایک باقاعدہ منزل دے دی جائے تو نہ صرف انسان کی فتح اپنا اثر حاصل نہیں کر پائے گی بلکہ فتح کے کام کا اثر بھی متاثر ہو گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فتح کا کام انسان کی تقدیر اور امکانات کو چھین کر اور انسان کے سرکش مزاج کا انصاف کرنے اور سزا دینے کے ذریعے اپنا اثر حاصل کرتا ہے۔ یہ انسان کے ساتھ کوئی سمجھوتا کرنے سے حاصل نہیں ہوتا، یعنی انسان کو نعمتیں اور فضل دینے سے نہیں، بلکہ انسان کی "آزادی" چھین کر اس کی وفاداری آشکار کرنے سے اور اس کے امکانات کو ختم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ فتح کے کام کا جوہر ہے۔ اگر انسان کو ابتدا ہی میں ایک خوبصورت امید دے دی جاتی اور اس کے بعد سزا اور انصاف کا کام کیا جاتا تو انسان اس سزا اور انصاف کو اس بنیاد پر قبول کر لیتا کہ اس کے پاس امکانات ہیں اور آخر میں اس کی تمام مخلوقات کی طرف سے خالق کی غیر مشروط اطاعت اور عبادت حاصل نہیں ہو گی۔ وہاں صرف اندھی، جاہل فرمانبرداری ہو گی یا اس کے بجائے انسان بنا سوچے سمجھے خدا سے مطالبات کرے گا اور انسان کے دل کو مکمل طور پر فتح کرنا ناممکن ہوگا۔ نتیجتاً، فتح کے اس طرح کے کام کے لیے انسان کو حاصل کرنا یا اس کے علاوہ، خدا کی گواہی دینا ناممکن ہو جائے گا۔ ایسی مخلوقات اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہوں گی اور صرف خدا کے ساتھ سودے بازی کریں گی۔ یہ فتح نہیں بلکہ رحم اور برکت ہو گی۔ انسان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی قسمت اور امکانات کے سوا کچھ نہیں سوچتا اور ان چیزوں کو پرستش کی حد تک چاہتا ہے۔ انسان اپنی قسمت اور امکانات کی خاطر خدا کا پیچھا کرتا ہے؛ وہ خدا سے محبت کی وجہ سے خدا کی عبادت نہیں کرتا۔ لہٰذا انسان کی فتح میں انسان کی خود غرضی، لالچ اور وہ چیزیں جو خدا کی عبادت میں سب سے زیادہ رکاوٹ بنتی ہیں، ان سب سے لازماً نمٹنا چاہیے اور ان کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے انسان کی فتح کے اثرات حاصل ہوں گے۔ نتیجتاً انسان کی فتح کے ابتدائی مراحل میں ضروری ہے کہ انسان کے وحشیانہ عزائم اور مہلک ترین کمزوریوں کو دور کیا جائے اور اس کے ذریعے انسان کی خدا سے محبت کو ظاہر کیا جائے اور انسانی زندگی کے بارے میں اس کے علم، خدا کے بارے میں اس کے نقطہ نظر اور اس کے وجود کے معنی کو تبدیل کیا جائے۔ اس طرح انسان کی خدا سے محبت پاک ہو جاتی ہے یعنی انسان کا دل فتح ہو جاتا ہے لیکن تمام مخلوقات کے بارے میں خدا کے رویے میں، خدا صرف فتح کرنے کی خاطر فتح نہیں کرتا ہے۔ بلکہ وہ انسان کو حاصل کرنے کے لیے اور اپنے جلال کی خاطر اور انسان کی قدیم ترین اور اصل مشابہت کو بحال کرنے کے لیے فتح کرتا ہے۔ اگر وہ صرف فتح کی خاطر فتح کرے گا تو فتح کے کام کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان کو فتح کرنے کے بعد خدا نے انسان سے اپنے ہاتھ دھو لیے اور انسان کی زندگی یا موت پر کوئی توجہ نہ دی تو یہ بنی نوع انسان کی مدیریت نہیں ہوگی اور نہ ہی انسان کی فتح اس کی نجات کی خاطر ہو گی۔ صرف اس کی فتح کے بعد انسان کا حصول اور ایک حیرت انگیز منزل پر اس کی حتمی آمد، نجات کے تمام کاموں کے دل میں ہے اور صرف یہی انسان کی نجات کے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، صرف خوبصورت منزل پر انسان کی آمد اور راحت میں اس کا داخلہ وہ امکانات ہیں جو تمام مخلوقات کے پاس ہونے چاہییں اور وہ کام جو خالق کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔ اگر انسان یہ کام کرے تو یہ بہت محدود ہو جائے گا: یہ انسان کو ایک خاص مقام تک لے جا سکتا ہے لیکن یہ انسان کو ابدی منزل تک نہیں پہنچا سکے گا۔ انسان، انسان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے اور نہ ہی، اس کے علاوہ، وہ انسان کے امکانات اور مستقبل کی منزل کو یقینی بنانے کے قابل ہے۔ تاہم، خدا کی طرف سے کیا گیا کام مختلف ہے۔ جب سے اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، وہ اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ چونکہ وہ انسان کو بچاتا ہے، وہ اسے مکمل طور پر بچا لے گا اور اسے مکمل طور پر حاصل کرے گا؛ چونکہ وہ انسان کی راہنمائی کرتا ہے، وہ اسے صحیح منزل تک لے جائے گا اور چونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا انتظام کرتا ہے، اس لیے اسے لازماً انسان کی قسمت اور امکانات کی ذمہ داری لینی چاہیے۔ یہ وہی کام ہے جو خالق کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فتح کا کام انسان کو اس کے امکانات سے دور کر کے حاصل کیا جاتا ہے، لیکن انسان کو بالآخر خدا کی اس کے لیے تیار کردہ صحیح منزل پر لایا جانا چاہیے۔ یہ خاص طور پر اس لیے ہے کیونکہ خدا انسان پر کام کرتا ہے کہ انسان کی ایک منزل ہے اور اس کی قسمت یقینی ہے. یہاں، جس مناسب منزل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ انسان کی امیدیں اور امکانات نہیں ہیں جو ماضی کے زمانے میں نکال باہر کر دیے گیے تھے؛ یہ دونوں مختلف ہیں۔ وہ چیزیں جن کی انسان امید کرتا ہے اور ان کا تعاقب کرتا ہے۔ وہ انسان کی مطلوبہ منزل کے بجائے جسم کی فضول خواہشات کے حصول سے پیدا ہونے والی تمنائیں ہیں۔ دریں اثنا، خدا نے انسان کے لیے جو کچھ تیار کیا ہے، وہ وہ نعمتیں اور وعدے ہیں جو انسان کے پاک ہونے کے بعد اسے ملیں گے، جنہیں خدا نے دنیا کو پیدا کرنے کے بعد انسان کے لیے تیار کیا ہے اور جو انسان کے انتخاب، تصورات، خیالات، یا جسم سے داغدار نہیں ہوتے ہیں۔ یہ منزل کسی خاص شخص کے لیے تیار نہیں کی گئی ہے، بلکہ پوری بقیہ نوع انسانی کی جگہ ہے۔ لہٰذا یہ منزل بنی نوع انسان کے لیے موزوں ترین منزل ہے۔

خالق، تخلیق کی گئی تمام مخلوقات کو منظم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جو کچھ وہ کرتا ہے تو اسے ترک نہ کر اور نہ ہی اس کی نافرمانی کر اور نہ ہی اس سے سرکشی کر۔ جب وہ جو کام کرتا ہے وہ بالآخر اپنے مقاصد حاصل کر لے گا تو اس میں وہ جلال حاصل کرے گا۔ آج یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ تو مواب کی نسل سے ہے یا مہیب سرخ ڈریگن کی اولاد ہے؟ چنے ہوئے لوگوں کی بات کیوں نہیں کی جاتی اور صرف مخلوقات کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ مخلوق- یہ انسان کا اصل لقب تھا اور یہ اس کی پیدائشی شناخت ہے۔ نام صرف اس وجہ سے مختلف ہوتے ہیں کہ کام کا دورانیہ اور مدت مختلف ہوتی ہے؛ حقیقت میں، انسان ایک عام مخلوق ہے۔ تمام مخلوقات، چاہے وہ سب سے زیادہ بدعنوان ہوں یا سب سے زیادہ مقدس، ان کا ایک مخلوق کے طور پر فرض ادا کرنا ضروری ہے۔ جب خدا فتح کا کام انجام دیتا ہے تو وہ تجھے، تیرے امکانات، قسمت یا منزل کا استعمال کرتے ہوئے قابو نہیں کرتا ہے۔ اصل میں اس طرح سے کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فتوحات کے کام کا مقصد یہ ہے کہ انسان ایک مخلوق کا فرض ادا کرے، اپنے خالق کی عبادت کرے؛ اس کے بعد ہی وہ حیرت انگیز منزل میں داخل ہوسکتا ہے۔ انسان کی قسمت خدا کے ہاتھوں سے قابو کی جاتی ہے۔ تو اپنے آپ پر قابو پانے کے قابل نہیں ہے: اس کے باوجود کہ انسان ہمیشہ اپنی طرف سے اپنے تئیں جلد بازی کرتا اور مصروف رکھتا ہے، وہ اپنے تئیں قابو کرنے کے قابل نہیں رہتا ہے۔ اگر تو اپنے امکانات کو جان سکتا ہے، اگر تو اپنی قسمت کو قابو کرسکتا ہے تو کیا تو پھر بھی ایک تخلیق کردہ مخلوق ہو گا؟ مختصر یہ کہ اس سے قطع نظر کہ خدا کس طرح کام کرتا ہے، اس کا سارا کام انسان کی خاطر ہے۔ مثال کے طور پر آسمانوں اور زمین اور ان تمام چیزوں کو لے لو جنہیں خدا نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے: چاند، سورج اور ستارے جو اس نے انسان کے لیے بنائے ہیں، حیوانات اور نباتات، بہار، موسم گرما، خزاں اور سردیاں وغیرہ، یہ سب انسان کے وجود کی خاطر بنائے گئے ہیں اور اس سے قطع نظر کہ خدا انسان کو کس طرح سزا دیتا ہے اور اس کا انصاف کرتا ہے، یہ سب انسان کی نجات کی خاطر ہے۔ اگرچہ وہ انسان کو اس کی جسمانی امیدوں سے محروم کر دیتا ہے لیکن یہ انسان کو پاک کرنے کی خاطر ہے اور انسان کی طہارت اس لیے کی جاتی ہے تاکہ وہ زندہ رہے۔ انسان کی منزل خالق کے ہاتھ میں ہے تو انسان اپنے تئیں کیسے قابو میں رکھ سکتا ہے؟

فتح کا کام مکمل ہونے کے بعد انسان کو ایک خوبصورت دنیا میں لایا جائے گا۔ یقینا یہ زندگی اب بھی زمین پر رہے گی لیکن یہ آج کی انسانی زندگی کے بالکل برعکس ہوگی۔ یہ وہ زندگی ہے جو پوری نوع انسانی کو فتح کرنے کے بعد بنی نوع انسان کو ملے گی، یہ زمین پر انسان کے لیے ایک نئی شروعات ہوگی اور بنی نوع انسان کے لیے ایسی زندگی کا ہونا اس بات کا ثبوت ہوگا کہ بنی نوع انسان ایک نئے اور خوبصورت عہد میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ زمین پر انسان اور خدا کی زندگی کا آغاز ہوگا۔ ایسی خوبصورت زندگی کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ انسان کے پاک ہونے اور فتح حاصل کرنے کے بعد وہ خالق کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور اس طرح، فتح کا کام خدا کے کام کا آخری مرحلہ ہے اس سے قبل کہ بنی نوع انسان حیرت انگیز منزل میں داخل ہو۔ ایسی زندگی زمین پر انسان کی مستقبل کی زندگی ہے، زمین پر سب سے خوبصورت زندگی، جس طرح کی زندگی کے لیے انسان ترستا ہے، وہ قسم جو انسان نے دنیا کی تاریخ میں پہلے کبھی حاصل نہیں کی ہے. یہ مدیریت کے 6000 سالوں کے کام کا حتمی نتیجہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے انسان سب سے زیادہ ترستا ہے اور یہی انسان سے خدا کا وعدہ بھی ہےلیکن یہ وعدہ فوری طور پر پورا نہیں ہو سکتا: انسان مستقبل کی منزل میں صرف اس وقت داخل ہو گا جب آخری ایام کا کام مکمل ہو جائے گا اور وہ مکمل طور پر فتح ہو جائے گا، یعنی ایک بار جب شیطان مکمل طور پر شکست کھا چکا ہو گا۔ انسان اپنی اصلاح کے بعد، گنہگار فطرت کے بغیر ہو جائے گا، کیونکہ خدا نے شیطان کو شکست دے دی ہو گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن قوتوں کی طرف سے کوئی قبضہ نہیں کیا جائے گا اور دشمن قوتیں بالکل بھی نہیں ہوں گی جو انسان کے جسم پر حملہ کر سکیںنیز اس طرح انسان آزاد اور پاک ہو جائے گا – وہ ابدیت میں داخل ہو جائے گا۔ اندھیرے کی دشمن قوتوں کو غلامی میں جکڑے جانے سے ہی انسان جہاں کہیں بھی جائے آزاد ہو گا اور یوں وہ سرکشی یا مخالفت سے پاک ہو جائے گا۔ شیطان کو بس صرف غلامی میں رہنا ہے اور انسان کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؛ موجودہ صورت حال اس لیے وجود میں ہے کہ شیطان اب بھی زمین پر ہر جگہ مصیبت پیدا کرتا ہے اور اس لیے کہ خدا کے انتظام کا سارا کام ابھی اپنے انجام کو نہیں پہنچا ہے۔ ایک بار جب شیطان کو شکست دے دی جائے گی تو انسان مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا؛ جب انسان خدا کو حاصل کرے گا اور شیطان کے دائرہ اختیار سے باہر آئے گا تو وہ راستبازی کے سورج کو دیکھے گا۔ عام آدمی کی مطلوبہ زندگی دوبارہ حاصل کی جائے گی؛ وہ سب کچھ جو عام آدمی کے پاس ہونا چاہیے – جیسے اچھائی کی برائی سے امتیاز کرنے کی صلاحیت اور اپنے تئیں کھانے اور کپڑے پہننے کا طریقہ سمجھنانیز معمول کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت – یہ سب کچھ دوبارہ حاصل کیا جائے گا۔ اگر حوا کو سانپ کی طرف سے آزمایا نہ گیا ہوتا تو انسان کو شروع میں پیدا ہونے کے بعد اس طرح کی عام زندگی گزارنی چاہیے تھی۔ اسے کھانا کھانا چاہیے تھا، کپڑے پہننے چاہیے تھے اور زمین پر عام انسانی زندگی گزارنی چاہیے تھی۔ اس کے باوجود جب انسان مسخ ہو گیا تو یہ زندگی ایک ناقابل حصول وہم بن گئی اور آج بھی انسان ایسی چیزوں کا تصور کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ درحقیقت یہ خوبصورت زندگی جس کے لیے انسان ترستا ہے ایک ضرورت ہے۔ اگر انسان ایسی منزل سے محروم ہوتا تو زمین پر اس کی خستہ حال زندگی کبھی ختم نہ ہوتی اور اگر اتنی خوبصورت زندگی نہ ہوتی تو شیطان کی قسمت یا اس دور کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا جس میں شیطان زمین پر غلبہ رکھتا ہے۔ انسان کو لازماً اندھیرے کی قوتوں کے ناقابل رسائی عہد میں پہنچنا چاہیے اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ شیطان کو شکست ہوئی ہے۔ اس طرح، ایک بار جب شیطان کی طرف سے کوئی خلل نہیں پڑے گا تو خدا خود انسان کو قابو کرے گا اور وہ انسان کی پوری زندگی کو حکم دے گا اور قابو کرے گا۔ تبھی شیطان کو حقیقی طور پر شکست ہو گی۔ آج انسان کی زندگی زیادہ تر غلاظت کی زندگی ہے؛ اس کی ابھی مصائب اور آفات کی زندگی ہے۔ اسے شیطان کی شکست نہیں کہا جا سکتا۔ انسان نے ابھی تو مصیبت کے سمندر سے رہائی حاصل کرنی ہے، ابھی تو اس نے انسان کی مشکلات بھری زندگی سے یا شیطان کے اثر و رسوخ سے چھٹکارہ پانا ہے اور وہ اب بھی خدا کے بارے میں لامحدود علم رکھتا ہے. انسان کی ساری مشکلات شیطان نے پیدا کی تھیں؛ یہ شیطان ہی تھا جو انسان کی زندگی میں مصائب لے کر آیا اور شیطان کو قید میں ڈالنے کے بعد ہی انسان مصیبت کے سمندر سے مکمل طور پر بچ سکے گا۔ اس کے باوجود شیطان کی قید انسان کی فتح اور دل کے حصول کے ذریعے، انسان کو شیطان کے ساتھ جنگ کا مال غنیمت بنا کر حاصل کی جاتی ہے۔

آج، انسان کی فتح یاب ہونے اور کامل بنائے جانے کی جستجو وہ چیزیں ہیں جن کا وہ زمین پر عام انسانی زندگی سے پہلے تعاقب کرتا ہے اور یہ وہ مقاصد ہیں جو وہ شیطان کو قید میں رکھنے سے پہلے تلاش کرتا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے غالب ہونے اور کامل بنائے جانے یا اس کےنفع بخش ہونے کی جستجو کا مقصد شیطان کے اثر و رسوخ سے بچنا ہے: انسان کی جستجو غالب ہونا ہے لیکن حتمی نتیجہ شیطان کے اثر و رسوخ سے اس کا فرار ہو گا۔ صرف شیطان کے اثر و رسوخ سے بچ کر ہی انسان زمین پر عام انسانی زندگی، خدا کی عبادت کی زندگی گزار سکتا ہے۔ آج، انسان کی غالب بننے اور کامل بنائے جانے کی جستجو وہ چیزیں ہیں جو زمین پر عام انسانی زندگی سے پہلے پیروی کی جاتی ہیں وہ بنیادی طور پر پاک ہونے اور سچائی کو عملی جامہ پہنانے اور خالق کی عبادت کرنے کے لیے پیروی کی جاتی ہیں۔ اگر انسان کے پاس زمین پر عام انسانی زندگی ہے، ایک ایسی زندگی جو مشکلات یا تکلیف کے بغیر ہے تو پھر انسان ایک فاتح بننے کے حصول میں مشغول نہیں ہوگا. "غالب ہونا" اور "کامل بنایا جانا" وہ مقاصد ہیں جو خدا انسان کو حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور ان مقاصد کے حصول کے ذریعے وہ انسان کو سچائی کو عملی جامہ پہنانے اور ایک بامعنی زندگی گزارنے کا سبب بنتا ہے۔ مقصد انسان کو کامل بنانا اور اسے حاصل کرنا ہے اور غالب ہونے اور کامل بنائے جانے کی جستجو محض ایک وسیلہ ہے۔ اگر مستقبل میں انسان حیرت انگیز منزل میں داخل ہو جائے تو غالب آنے اور کامل بنائے جانے کا کوئی حوالہ نہیں ملے گا؛ وہاں ہر مخلوق صرف اپنا فرض انجام دے گی۔ آج، انسان کو ان چیزوں کا پیچھا کرنے کے لیے صرف اس لیے لگایا جاتا ہے تاکہ انسان کے لیے ایک گنجائش کی وضاحت کی جا سکے تاکہ انسان کا تعاقب زیادہ باہدف اور عملی ہو سکے۔ بصورت دیگر، انسان مبہم تجریدیت کے درمیان زندگی بسر کرے گا اور ابدی زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا انسان اس سے بھی زیادہ قابل رحم نہ ہوتا؟ اہداف یا اصولوں کے بغیر اس طرح سےتعاقب کرنا – کیا یہ خود فریبی نہیں ہے؟ آخر کار، یہ تعاقب فطری طور پر بے نتیجہ ہوگا؛ آخر میں، انسان اب بھی شیطان کے دائرہ اختیار میں رہے گا اور اپنے تئیں اس سے نکلنے کے قابل نہیں ہوگا. خود کو اس طرح کے بے مقصد تعاقب میں کیوں ڈالا جائے؟ جب انسان ابدی منزل میں داخل ہو گا تو انسان خالق کی عبادت کرے گا اور چونکہ انسان نے نجات حاصل کر لی ہے اور ابدیت میں داخل ہو چکا ہے، اس لیے انسان کسی مقاصد کی پیروی نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے علاوہ، اسے شیطان کے محاصرے میں آنے کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت انسان کو اپنے مقام کا پتہ چل جائے گا اور وہ اپنا فرض ادا کرے گا اور اگر ان کی تادیب نہ بھی کی جائے اور ان کا انصاف نہ بھی کیا جائے تو بھی ہر شخص اپنا فرض ادا کرے گا۔ اس وقت انسان شناخت اور حیثیت دونوں لحاظ سے ایک مخلوق ہو گا۔ اب اونچ نیچ کی تمیز باقی نہیں رہے گی؛ ہر شخص بس ایک مختلف کام انجام دے گا۔ پھر بھی انسان ایک ایسی منزل پر رہے گا جو بنی نوع انسان کے لیے منظم اور موزوں ہے۔ انسان خالق کی عبادت کی خاطر اپنا فرض ادا کرے گا اور یہ وہ بنی نوع انسان ہے جو ابدیت والی نوع انسانی بن جائے گی۔ اس وقت، انسان نے خدا کی طرف سے روشن کی گئی زندگی، خدا کی دیکھ بھال اور حفاظت کے تحت ایک زندگی، خدا کے ساتھ مل کر ایک زندگی حاصل کر لی ہو گی۔ بنی نوع انسان زمین پر ایک عام زندگی بسر کرے گی اور تمام لوگ صحیح راستے پر داخل ہوں گے۔ 6000 سالہ انتظامی منصوبے نے شیطان کو مکمل طور پر شکست دے دی ہو گی، مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کی اصل تصویر کو اس کی تخلیق کے مطابق بحال کر دیا ہو گا اور اس طرح، خدا کا اصل ارادہ پورا ہو جائے گا۔ ابتدا میں، شیطان کے ذریعہ بنی نوع انسان کے بدعنوان ہونے سے پہلے، بنی نوع انسان زمین پر ایک عام زندگی بسر کرتی تھی۔ بعد میں، جب انسان شیطان کے ہاتھوں بدعنوان ہو گیا تو انسان نے یہ عام زندگی کھو دی اور اس طرح خدا کا مدیریت کا کام شروع ہوا اور انسان کی معمول کی زندگی کو بحال کرنے کے لیے شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہوئی۔ صرف اس وقت جب خدا کے مدیریت کے 6000 سالہ کام کا اختتام ہو گا، زمین پر تمام بنی نوع انسان کی زندگی باضابطہ طور پر شروع ہوگی۔ صرف اس کے بعد ہی انسان کو ایک حیرت انگیز زندگی ملے گی اور خدا شروع میں انسان کو پیدا کرنے میں اپنے مقصد کے ساتھ ساتھ انسان کی اصل مشابہت کو بھی بحال کرے گا اور اس طرح، ایک بار جب انسان زمین پر بنی نوع انسان کی معمول کی زندگی حاصل کر لے گا تو انسان غالب آنے یا کامل بنائے جانے کی کوشش نہیں کرے گا، کیونکہ انسان مقدس ہو گا۔ "غالبین" اور "کامل ہونا" جن کے بارے میں لوگ بات کرتے ہیں وہ مقاصد ہیں جو انسان کو خدا اور شیطان کے مابین جنگ کے دوران تعاقب کرنے کے لیے دیئے گئے تھے اور یہ صرف اس وجہ سے موجود ہیں کہ انسان بدعنوان ہوچکا ہے۔ یہ تجھے ایک مقصد دینے اور تجھے اس مقصد کے حصول پر لگانے سے ہی شیطان کو شکست دی جائے گی۔ تجھے غالب آنے یا کامل بنائے جانے یا استعمال کیے جانے کے لیے کہنے کا تقاضا ہے کہ شیطان کو شرمندہ کرنے کے لیے تو گواہی دے۔ آخر میں، انسان زمین پر عام انسانی زندگی بسر کرے گا اور انسان مقدس ہو گا؛ جب ایسا ہو گا تو کیا لوگ پھر بھی فاتح بننے کی کوشش کریں گے؟ کیا یہ سب مخلوقات نہیں ہیں؟ غالب ہونے اور کامل ہونے کی بات کرتے ہوئے، یہ الفاظ شیطان کی طرف اور انسان کی غلاظت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کیا یہ لفظ "غالب" شیطان اور دشمن قوتوں پر فتح کے حوالے سے نہیں ہے؟ جب تو کہتا ہے کہ تجھے کامل بنایا گیا ہے تو تیرے اندر کیا چیز کامل کر دی گئی ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ تم نے خود کو اپنے بدعنوان شیطانی مزاجوں سے الگ کر لیا ہے تاکہ تم خدا کے لیے انتہائی محبت حاصل کر سکو؟ اس طرح کی باتیں انسان کے اندر کی گندی چیزوں کے بارے میں اور شیطان کے بارے میں کہی جاتی ہیں؛ وہ خدا کے بارے میں بات کرنے کے لیے نہیں کہی جاتیں۔

اگر تو اب غالب آنے اور کامل بنائے جانے کی کوشش نہیں کرتا ہے تو مستقبل میں جب بنی نوع انسان زمین پر معمول کی زندگی بسر کرے گی تو اس طرح کے تعاقب کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔ اس وقت ہر قسم کے انسان کا انجام ظاہر ہو چکا ہو گا۔ اس وقت یہ بات واضح ہو جائے گی کہ تو کس قسم کی چیز ہے اور اگر تو غالب ہونا چاہتا ہے یا کامل بننا چاہتا ہے تو یہ ناممکن ہو جائے گا۔ یہ صرف اتنا ہو گا کہ، اس کی سرکشی کی وجہ سے، انسان کو ظاہر ہونے پر سزا دی جائے گی۔ اُس وقت انسان کا تعاقب دوسروں کے مقابلے میں بلند مقام والا نہیں ہو گا، کیونکہ کچھ غالب آئیں گے اور کچھ کامل ہو جائیں گے یا کچھ خدا کے پہلوٹھے بیٹے ہوں گے اور کچھ خدا کے بیٹے ہوں گے؛ وہ ان چیزوں کا پیچھا نہیں کریں گے۔ سب خدا کی مخلوق ہوں گے، سب زمین پر رہیں گے اور سب زمین پر خدا کے ساتھ مل کر رہیں گے۔ اب خدا اور شیطان کے درمیان جنگ کا وقت ہے، یہ ایک ایسا وقت ہے جس میں اس جنگ کا ابھی انجام ہونا باقی ہے، ایک ایسا وقت ہے جس میں انسان کو ابھی مکمل طور پر حاصل کیا جانا ہے؛ یہ منتقلی کا دور ہے۔ لہٰذا، انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو غالب آنے والا یا خدا کے لوگوں میں سے ایک بننے کا تعاقب کرے۔ آج مراتب میں امتیازات ہیں لیکن جب وقت آئے گا تو اس طرح کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا: فتح پانے والوں کا مرتبہ ایک جیسا ہو گا، وہ سب بنی نوع انسان کے اہل افراد ہوں گے اور زمین پر یکساں طور پر زندگی بسر کریں گے یعنی وہ سب اہل مخلوق ہوں گے اور سب کو ایک ہی حیثیت دی جائے گی۔ کیونکہ خدا کے کام کے دورانیے مختلف ہیں اور اس کے کام کے مقاصد مختلف ہیں، اگر یہ کام تمہارے اندر کیا جاتا ہے تو تم کامل بنائے جانے اور غالب ہونے کے اہل ہو گے؛ اگر یہ بیرون ملک کیا جاتا ہے تو وہاں کے لوگ فتح ہونے والے لوگوں کا پہلا گروہ بننے کے اہل ہوں گے اور لوگوں کا پہلا گروہ جو کامل بنایا جائے گا۔ آج یہ کام بیرون ملک نہیں کیا جاتا اس لیے دوسرے ممالک کے لوگ کامل بننے اور فاتح بننے کے اہل نہیں ہیں اور ان کے لیے پہلا گروہ بننا ناممکن ہے۔ کیونکہ خدا کے کام کا مقصد مختلف ہے، خدا کے کام کا دور مختلف ہے اور اس کا دائرہ کار مختلف ہے، یہ پہلا گروہ ہے، یعنی، غالب آنے والے ہیں اور اسی طرح ایک دوسرا گروہ بھی ہو گا جو کامل بنایا جائے گا۔ ایک بار جب پہلا گروہ کامل بنا دیا گیا تو یہ ایک تمثیل اور نمونہ ہوگا اور اسی طرح مستقبل میں ان لوگوں کا دوسرا اور تیسرا گروہ ہو گا جو کامل بنائے جائیں گے لیکن ابدیت میں وہ سب ایک جیسے ہوں گے اور حیثیت کی کوئی درجہ بندی نہیں ہوگی۔ وہ صرف مختلف اوقات میں کامل بنائے گیے ہوں گے اور ان کی حیثیتوں میں کوئی فرق نہیں ہوگا. جب وہ وقت آئے گا کہ ہر ایک کو مکمل کر دیا جائے گا اور پوری کائنات کا کام مکمل ہو جائے گا تو حیثیت میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور سب برابر حیثیت کے حامل ہوں گے۔ آج یہ کام تمہارے درمیان اس لیے کیا جاتا ہے کہ تم غالب ہو جاؤ۔ اگر یہ برطانیہ میں کیا جاتا تو برطانیہ کا پہلا گروہ ہوتا، بالکل اسی طرح جیسے تم پہلا گروہ ہو گے۔ بات صرف یہ ہے کہ تمہیں خاص طور پر فضل و کرم سے نوازا گیا ہے اس طرح سے کہ آج تمہارے اندر کام ہو رہا ہے اور اگر یہ کام تمہارے درمیان نہ کیا گیا ہوتا تو تم دوسرا یا تیسرا یا چوتھا یا پانچواں گروہ ہوتے۔ یہ محض کام کی ترتیب میں فرق کی وجہ سے ہے؛ پہلا گروہ اور دوسرا گروہ اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا ہے کہ ایک دوسرے سے بلند یا کم تر ہے، یہ صرف اس ترتیب کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ان لوگوں کو کامل بنایا گیا ہے۔ آج یہ الفاظ تم تک پہنچائے جاتے ہیں لیکن تمہیں پہلے کیوں نہیں بتایا گیا؟ کیونکہ، عمل کے بغیر، لوگ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یسوع نے اپنے وقت میں کہا تھا: "جیسے میں چلا گیا، اسی طرح میں آؤں گا۔" آج، بہت سے لوگ ان الفاظ سے احمقانہ طور پر متاثر ہیں اور وہ صرف سفید لباس پہننا اور آسمان میں اپنی وجدانی کیفیت کے ساتھ جانے کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح، بہت سے الفاظ ہیں جو بہت جلدی نہیں بولے جا سکتے ہیں؛ اگر وہ بہت جلد بولے جاتے تو انسان انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتا۔ انسان کی نمو بہت کم ہے اور وہ ان الفاظ کی سچائی کو دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔

جب انسان زمین پر اپنی حقیقی انسانی زندگی حاصل کر لے گا اور شیطان کی تمام قوتوں کو قید میں ڈال دیا جائے گا تو انسان زمین پر آسانی سے زندہ رہے گا۔ چیزیں اتنی پیچیدہ نہیں ہوں گی جتنی آج ہیں: انسانی تعلقات، معاشرتی تعلقات، پیچیدہ خاندانی تعلقات -وہ اتنی پریشانی، اتنا درد لاتے ہیں! یہاں انسان کی زندگی بہت تکلیف دہ ہے! ایک بار جب انسان فتح ہو جائے گا تو اس کا دل اور دماغ بدل جائے گا: اس کے پاس ایک ایسا دل ہوگا جو خدا کی تعظیم اور اس سے محبت کرتا ہو گا۔ ایک بار جب کائنات کے اندر وہ تمام لوگ جو خدا سے محبت کرنے کی جستجو کرتے ہیں فتح کر لیے جاتے ہیں، یعنی جب ایک بار شیطان کو شکست دے دی جاتی ہے اور ایک بار شیطان – تاریکی کی تمام قوتوں کو قید میں ڈال دیا جاتا ہے تو زمین پر انسان کی زندگی بے خوف ہو جائے گی اور وہ زمین پر آزادانہ طور پر رہنے کے قابل ہو جائے گا۔ اگر انسان کی زندگی جسمانی رشتوں اور جسم کی پیچیدگیوں کے بغیر ہوتی تو یہ بہت آسان ہوتا۔ انسان کے جسمانی تعلقات بہت پیچیدہ ہیں اور انسان کے لیے ایسی چیزیں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے ابھی تک خود کو شیطان کے اثر و رسوخ سے آزاد نہیں کیا ہے. اگر تیرا اپنے ہر بھائی اور بہن کے ساتھ ایک جیسا رشتہ تھا، اگر تمھارا اپنے خاندان کے ہر فرد کے ساتھ ایک جیسا رشتہ تھا تو تمہیں کوئی تشویش نہیں ہو گی اور تمہیں کسی کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی. اس سے بہتر کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا اور اس طرح انسان اپنی آدھی تکلیف سے چھٹکارا پا لے گا۔ زمین پر ایک عام انسانی زندگی گزارتے ہوئے، انسان فرشتوں کی طرح ہو گا۔ اگرچہ اب بھی جسم رکھنے کے باوجود، وہ بہت حد تک ایک فرشتے کی طرح ہو گا. یہ آخری وعدہ ہے، آخری وعدہ جو انسان کو عطا کیا گیا ہے۔ آج انسان تادیب اور انصاف سے گزر رہا ہے۔ کیا تجھے لگتا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں انسان کا تجربہ بے معنی ہے؟ کیا تادیب اور انصاف کا کام بلاوجہ کیا جا سکتا ہے؟ اس سے پہلے یہ کہا گیا ہے کہ انسان کو تادیب کرنے اور اس کا انصاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا جائے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی قسمت اور امکانات کو چھین لینا۔ یہ ایک چیز کی خاطر ہے: انسان کی صفائی۔ انسان کو جان بوجھ کر اتھاہ گڑھے میں نہیں رکھا جاتا، جس کے بعد خدا اس سے ہاتھ دھو لیتا ہے۔ اس کے بجائے، یہ انسان کے اندر کی سرکشی سے نمٹنے کے لیے ہے تاکہ آخر میں انسان کے اندر کی چیزوں کو صاف کیا جا سکے تاکہ وہ خدا کا حقیقی علم حاصل کرے اور ایک مقدس شخص کی طرح ہو جائے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر سب کچھ پورا ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے اندر کی ان چیزوں سے نمٹا جائے گا جن سے نمٹنا مقصود ہے اور انسان زبردست گواہی دے گا تو شیطان بھی شکست کھا جائے گا اور اگرچہ ان میں سے کچھ چیزیں ایسی بھی ہوں گی جو اصل میں انسان کے اندر موجود ہیں جو مکمل طور پر پاک نہیں ہوں گی لیکن ایک بار جب شیطان شکست کھا جائے گا تو یہ کسی مشکل کا سبب نہیں بنے گا اور اس وقت انسان مکمل طور پر پاک ہو چکا ہو گا۔ انسان نے ایسی زندگی کا تجربہ کبھی نہیں کیا لیکن جب شیطان کو شکست ہو گی تو سب کچھ حل ہو جائے گا اور انسان کے اندر کی چھوٹی چھوٹی چیزیں حل ہو جائیں گی اور ایک بار جب وہ بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا تو باقی تمام پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ زمین پر خدا کے جسم ہونےکے دوران، جب وہ ذاتی طور پر انسان کے درمیان اپنا کام کرتا ہے تو وہ تمام کام شیطان کو شکست دینے کے لیے کرتا ہے، اور وہ انسان کی فتح اور تمہیں مکمل کرنے کے ذریعے شیطان کو شکست دے گا۔ جب تم زبردست گواہی دو گے تو یہ بھی شیطان کی شکست کی علامت ہو گی۔ انسان کو پہلے فتح کیا جاتا ہے اور بالآخر شیطان کو شکست دینے کے لیے مکمل طور پر کامل بنا دیا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کی شکست کے ساتھ ساتھ یہ مصیبت کے اس خالی سمندر سے تمام بنی نوع انسان کی نجات بھی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پوری کائنات میں کام کیا جاتا ہے یا چین میں، یہ سب شیطان کو شکست دینے اور پوری نوع انسانی کے لیے نجات لانے کے لیے ہے تاکہ انسان راحت کے مقام میں داخل ہو سکے۔ مجسم خدا، یہ عام جسم بالکل شیطان کو شکست دینے کی خاطر ہے۔ جسم میں خدا کا کام آسمان کے نیچے ان تمام لوگوں کے لیے نجات لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو خدا سے محبت کرتے ہیں، یہ تمام بنی نوع انسان کو فتح کرنے کی خاطر ہے اور اس کے علاوہ، شیطان کو شکست دینے کی خاطر۔ خدا کے تمام مدیریت کے کاموں کا مرکزی جزو شیطان کی شکست سے لازم و ملزوم ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کو نجات مل سکے۔ کیوں، اس کام کے زیادہ تر حصے میں، ہمیشہ تمہارے گواہی دینے کی بات کی جاتی ہے؟ اور یہ گواہی کس کی طرف منسوب ہے؟ کیا یہ شیطان کی طرف اشارہ نہیں کرتی؟ یہ گواہی خدا کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے دی جاتی ہے کہ خدا کے کام نے اپنا اثر حاصل کر لیا ہے۔ گواہی دینا شیطان کو شکست دینے کے کام سے متعلق ہے؛ اگر شیطان کے ساتھ جنگ نہ ہوتی تو انسان کو گواہی دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کو شکست دینی چاہیے کہ انسان کو بچانے کے ساتھ ساتھ خدا کا تقاضا ہے کہ انسان شیطان کے سامنے اس کی گواہی دے، جسے وہ انسان کو بچانے اور شیطان سے جنگ کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ نتیجتاً، انسان نجات کا مقصد اور شیطان کی شکست کا ایک آلہ کار ہے اور اسی طرح انسان خدا کے پورے مدیریت کے کام کی مرکزی حیثیت کا حامل ہے، جبکہ شیطان محض تباہی کا سبب، ایک دشمن ہے۔ تو محسوس کر سکتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا ہے لیکن تیرے مزاج میں تبدیلیوں کی وجہ سے، گواہی دی گئی ہے اور یہ گواہی شیطان کی طرف اشارہ کرتی ہے اور انسان کی طرف نہیں کی گئی ہے۔ انسان اس طرح کی گواہی سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ وہ خدا کے کیے ہوئے کام کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ خدا کی لڑائی کا مقصد شیطان ہے؛ دریں اثنا، انسان صرف نجات کا ہدف ہے۔ انسان شیطانی مزاج کا حامل ہے اور اس کام کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ شیطان کی بدعنوانی کی وجہ سے ہے اور انسان کے لیے موروثی نہیں ہے لیکن شیطان کی طرف سے اس کی ہدایت کی جاتی ہے۔ آج، خدا کا بنیادی کام شیطان کو شکست دینا ہے یعنی انسان کو مکمل طور پر فتح کرنا تاکہ انسان شیطان کے سامنے خدا کی حتمی گواہی دے سکے۔ اس طرح، تمام چیزیں مکمل ہو جائیں گی۔ بہت سے معاملات میں، تمہاری سادہ آنکھوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں، کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے. انسان کا تقاضا ہے کہ تکمیل کا سارا کام ظاہر ہو، پھر بھی میں نے تجھے دکھائے بغیر اپنا کام مکمل کر لیا ہے، کیونکہ شیطان تسلیم ہو گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر شکست کھا چکا ہے کہ خدا کی تمام حکمت، قدرت اور اختیار نے شیطان کو شکست دے دی ہے۔ یہ بالکل وہی گواہی ہے جسے لازماً دیا جانا چاہیے اور اگرچہ انسان میں اس کا کوئی واضح اظہار نہیں ہے، اگرچہ یہ سادہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا ہے، مگر شیطان پہلے ہی شکست کھا چکا ہے. اس کام کی کلیت شیطان کے خلاف ہے اور اسے شیطان کے ساتھ جنگ کی وجہ سے ہی انجام دیا جاتا ہے اور اس طرح، بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان کامیاب ہونے کے طور پر نہیں دیکھتا ہے لیکن جو خدا کی نظر میں، بہت پہلے کامیابی سے مکمل ہو گئی تھیں۔ یہ خدا کے تمام کاموں کی اندرونی سچائیوں میں سے ایک ہے۔

ایک بار جب شیطان کو شکست دے دی جاتی ہے یعنی ایک بار جب انسان مکمل طور پر فتح ہو جاتا ہے تو پھر انسان سمجھ جائے گا کہ یہ سب کام نجات کی خاطر ہے اور یہ کہ اس نجات کا ذریعہ لوگوں کو شیطان کے ہاتھوں سے چھیننا ہے۔ خدا کے مدیریت کے 6000 سالہ کام کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے: قانون کا دور، فضل کا دور اور بادشاہی کا دور۔ کام کے یہ تین مراحل بنی نوع انسان کی نجات کے لیے ہیں، یعنی یہ بنی نوع انسان کی نجات کے لیے ہیں، جسے شیطان نے بری طرح فاسد کر دیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ اس لیے بھی ہیں کہ خدا شیطان سے جنگ کرسکے۔ اس طرح جیسے نجات کا کام تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے اسی طرح شیطان سے جنگ بھی تین مراحل میں تقسیم کی گئی ہے اور خدا کے کام کے یہ دونوں پہلو بیک وقت انجام دیے جاتے ہیں۔ شیطان سے جنگ دراصل بنی نوع انسان کی نجات کے لیے ہے اور چونکہ بنی نوع انسان کی نجات کا کام کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ایک ہی مرحلے میں کامیابی سے مکمل کیا جا سکے، اس لیے شیطان کے ساتھ جنگ بھی مراحل اور ادوار میں تقسیم ہے اور انسان کی ضروریات اور شیطان کی طرف سے اسے فاسد کیے جانے کی حد کے مطابق جنگ چھیڑی جاتی ہے۔ شاید انسان اپنے تخیل میں یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جنگ میں خدا شیطان کے خلاف اسی طرح ہتھیار اٹھا لے گا جس طرح دو فوجیں ایک دوسرے سے لڑیں گی۔ انسان کی عقل اسی تخیل کی اہل ہے؛ یہ ایک انتہائی مبہم اور غیر حقیقی خیال ہے، پھر بھی یہ وہی ہے جو انسان مانتا ہے اور چونکہ میں یہاں کہتا ہوں کہ شیطان کے ساتھ جنگ انسان کی نجات کا ذریعہ ہے، انسان تصور کرتا ہے کہ جنگ اسی طرح کی جاتی ہے۔ انسان کی نجات کے کام کے تین مراحل ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے ساتھ جنگ کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ شیطان کو بار بار شکست دی جا سکے۔ پھر بھی شیطان کے ساتھ جنگ کے پورے کام کی اندرونی سچائی یہ ہے کہ اس کے اثرات کام کے کئی مراحل کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں: انسان کو فضل دینا، انسان کے گناہ کا چڑھاوا پیش کرنا، انسان کے گناہ معاف کرنا، انسان کی تسخیر اور انسان کو کامل بنانا۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان کے ساتھ جنگ شیطان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ انسان کی نجات، انسان کی زندگی کا کام اور انسان کی فطرت کو تبدیل کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ خدا کے سامنے گواہی دے سکے. اس طرح شیطان کو شکست ہوتی ہے۔ شیطان کو انسان کے بدعنوان مزاج کو تبدیل کرنے کے ذریعے شکست دی جاتی ہے۔ جب شیطان کو شکست ہو چکی ہو گی یعنی جب انسان مکمل طور پر نجات پا چکا ہو گا تو ذلیل و خوار شیطان مکمل طور پر بندھ جائے گا اور اس طرح انسان مکمل طور پر نجات پا چکا ہو گا۔ پس انسان کی نجات کا جوہر شیطان کے خلاف جنگ ہے اور یہ جنگ بنیادی طور پر انسان کی نجات میں جھلکتی ہے۔ آخری ایام کا وہ مرحلہ جس میں انسان کو فتح کیا جانا ہے، شیطان کے ساتھ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہ شیطان کے دائرہ اختیار سے انسان کی مکمل نجات کا کام بھی ہے۔ انسان کی فتح کا اندرونی مطلب شیطان کے مجسم کی واپسی ہے-انسان جسے شیطان نے بدعنوان کردیا ہے-اس کی فتح کے بعد خالق کی طرف، جس کے ذریعہ وہ شیطان کو چھوڑ دے گا اور مکمل طور پر خدا کی طرف لوٹ آئے گا۔ اس طرح انسان مکمل طور پر نجات پا چکا ہو گا۔یوں فتح کا کام شیطان کے خلاف جنگ میں آخری کام ہے اور شیطان کی شکست کی خاطر خدا کے انتظام میں آخری مرحلہ ہے۔ اس کام کے بغیر انسان کی مکمل نجات بالآخر ناممکن ہو جائے گی، شیطان کی مکمل شکست بھی ناممکن ہو جائے گی اور بنی نوع انسان کبھی بھی حیرت انگیز منزل میں داخل نہیں ہو سکے گی یا شیطان کے اثر و رسوخ سے آزاد نہیں ہو سکے گی. نتیجتاً، شیطان کے ساتھ جنگ ختم ہونے سے پہلے انسان کی نجات کا کام ختم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ خدا کے انتظام کا بنیادی کام بنی نوع انسان کی نجات کی خاطر ہے۔ ابتدائی نوع انسانی خدا کے ہاتھوں میں تھی لیکن شیطان کے لالچ اور بدعنوانی کی وجہ سے، انسان شیطان کی طرف سے باندھ دیا گیا تھا اورشیطان کے ہاتھوں میں گر گیا تھا۔ اس طرح، شیطان خدا کے انتظام کے کام میں شکست دینے کا ہدف بن گیا۔ کیونکہ شیطان نے انسان پر قبضہ کر لیا ہے اور چونکہ انسان وہ سرمایہ ہے جسے خدا تمام انتظام و انصرام کے لیے استعمال کرتا ہے، اگر وہ انسان کو بچاتا ہے تو اسے شیطان کے ہاتھوں سے واپس چھین لیا جانا چاہیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو شیطان کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے کے بعد واپس لے لیا جانا چاہیے۔ لہٰذا شیطان کو انسان کے پرانے مزاج میں تبدیلیوں کے ذریعے شکست دی جانی چاہیے، ایسی تبدیلیاں جو انسان کے عقل کے اصل احساس کو بحال کرتی ہیں۔ اس طرح انسان، جسے قیدی بنا لیا گیا ہے، شیطان کے ہاتھوں سے واپس چھینا جا سکتا ہے۔ اگر انسان شیطان کے اثر و رسوخ اور غلامی سے آزاد ہو جائے تو شیطان شرمندہ ہو جائے گا، انسان بالآخر واپس لے لیا جائے گا اور شیطان کو شکست ہو گی۔ چونکہ انسان شیطان کے تاریک اثر و رسوخ سے آزاد ہو چکا ہے اس لیے انسان اس ساری جنگ کا مال غنیمت بن جائے گا اور جنگ ختم ہونے کے بعد شیطان سزا پانے والا بن جائے گا جس کے بعد بنی نوع انسان کی نجات کا سارا کام مکمل ہو جائے گا۔

خدا مخلوقات سے کوئی بغض نہیں رکھتا۔ وہ صرف شیطان کو شکست دینا چاہتا ہے۔ اس کا سارا کام خواہ وہ تادیب ہو یا انصاف، شیطان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ نوع انسانی کی نجات کی خاطر کیا جاتا ہے، یہ سب شیطان کو شکست دینے کے لیے ہے اور اس کا ایک ہی مقصد ہے: شیطان کے خلاف آخر تک جنگ کرنا! خدا اس وقت تک کبھی آرام نہیں کرے گا جب تک کہ وہ شیطان پر فتح یاب نہ ہو جائے! وہ تب ہی آرام کرے گا جب وہ شیطان کو شکست دے دے گا۔ کیونکہ خدا کی طرف سے کیے گئے تمام کام کا ہدف شیطان ہے اور کیونکہ جو لوگ شیطان کی طرف سے بدعنوان ہو چکے ہیں وہ سب شیطان کے قابومیں ہیں اور سب شیطان کے دائرہ اختیار میں رہتے ہیں، شیطان کے خلاف لڑنے اور اس کا ساتھ چھوڑنے کے بغیر، شیطان ان لوگوں پر اپنی گرفت کو ڈھیلا نہیں کرے گا اور وہ حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اگر وہ حاصل نہیں کیے جاسکے تو یہ ثابت کرے گا کہ شیطان کو شکست نہیں دی گئی ہے، یہ کہ اسے ہرایا نہیں گیا ہے۔ اور اس طرح، خدا کے 6000 سالہ انتظامی منصوبے میں، پہلے مرحلے کے دوران اس نے قانون کا کام کیا، دوسرے مرحلے کے دوران اس نے فضل کے دور کا کام کیا، یعنی مصلوب ہونے کا کام اور تیسرے مرحلے کے دوران وہ بنی نوع انسان کو فتح کرنے کا کام کرتا ہے. یہ سارا کام اس حد تک ہے کہ جس حد تک شیطان نے بنی نوع انسان کو خراب کیا ہے، یہ سب شیطان کو شکست دینے کے لیے ہے اور ان میں سے ہر ایک مرحلہ شیطان کو شکست دینے کے لیے ہے۔ خدا کے مدیریت کے 6000 سالہ کام کا جوہر مہیب سرخ ڈریگن کے خلاف جنگ ہے اور نوع انسانی کو منظم کرنے کا کام بھی شیطان کو شکست دینے کا کام ہے، شیطان کے ساتھ جنگ کرنے کا کام۔ خدا نے 6000 سال تک جنگ کی ہے اور اس طرح اس نے 6000 سال تک کام کیا ہے تاکہ بالآخر انسان کو نئے عہد میں لایا جا سکے۔ جب شیطان شکست کھا جائے گا تو انسان مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا۔ کیا یہ خدا کے آج کے کام کی سمت نہیں ہے؟ یہ بجا طور پر آج کے کام کی سمت ہے: انسان کی مکمل آزادی اور بنا پابندی زندگی تاکہ وہ کسی بھی اصول کے تابع نہ ہو اور نہ ہی کسی پابندی یا پابندیوں کی طرف سے محدود ہو. یہ سب کام تمہاری کی نمو اور ضروریات کے مطابق کیا جاتا ہے یعنی تمہیں وہ سب کچھ فراہم کیا جاتا ہے جو تم حاصل کرسکتے ہو۔ یہ تم پر کچھ بھی مسلط کرنے کا معاملہ نہیں ہے یعنی "وہ کام کرانا جو کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے"۔ بلکہ، یہ سب کام تمہاری اصل ضروریات کے مطابق کیا جاتا ہے. کام کا ہر مرحلہ انسان کی اصل ضروریات اور تقاضوں کے مطابق انجام دیا جاتا ہے؛ کام کا ہر مرحلہ شیطان کو شکست دینے کی خاطر ہوتا ہے۔ درحقیقت ابتدا میں خالق اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یہ تمام رکاوٹیں شیطان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ کیونکہ شیطان نے اسے جس طرح پریشان اور بدعنوان کیا ہے انسان کسی بھی چیز کو دیکھنے یا چھونے سے قاصر ہو گیا ہے۔ انسان شکار ہے، وہ ہے جسے دھوکہ دیا گیا ہے۔ ایک بار جب شیطان کو شکست دے دی جائے گی تو مخلوقات خالق کو دیکھیں گی اور خالق تخلیق شدہ مخلوقات کو دیکھے گا اور ذاتی طور پر ان کی راہنمائی کرنے کے قابل ہو جائے گا. صرف یہی وہ زندگی ہے جو انسان کی زمین پر ہونی چاہیے اور اس طرح، خدا کا کام بنیادی طور پر شیطان کو شکست دینے کے لیے ہے اور ایک بار جب شیطان کو شکست دے دی جائے گی تو سب کچھ حل ہو جائے گا. آج تو نے دیکھا ہے کہ خدا کا انسان کے درمیان آنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ وہ ہر روز تجھ میں عیب تلاش کرنے، یہ اور وہ کہنے، یا صرف تمہیں یہ دیکھنے کی اجازت دینے کے لیے نہیں آیا ہے کہ وہ کیسا نظر آتا ہے اور وہ کس طرح بولتا ہے اور کس طرح رہتا ہے. خدا محض اس لیے جسم نہیں بنا کہ تم اس کی طرف دیکھو یا تم اپنی آنکھیں کھولو، یا تمہیں ان رازوں کو سننے کی اجازت دے جن کے بارے میں اس نے بات کی ہے اور ان سات مہروں کے متعلق جو اس نے کھولی ہیں۔ بلکہ وہ شیطان کو شکست دینے کے لیے جسم بن گیا ہے۔ وہ انسان کو بچانے اور شیطان کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے جسم میں انسان کے درمیان ذاتی طور پر آیا ہے؛ یہ اس جسم ہونے کی اہمیت ہے۔اگر شیطان کو شکست دینا مطلوب نہ ہوتا تو وہ ذاتی طور پر یہ کام نہ کرتا۔ خدا زمین پر انسان کے درمیان اپنا کام کرنے کے لیے آیا ہے، ذاتی طور پر خود کو انسان پر ظاہر کرنے اور انسان کو اسے دیکھنے کی اجازت دینے کے لیے؛ کیا یہ کوئی چھوٹا سا معاملہ ہے؟ یہ واقعی سادہ نہیں ہے! ایسا نہیں ہے جیسا کہ انسان تصور کرتا ہے کہ خدا اس لیے آیا ہے کہ انسان اس کی طرف دیکھے تاکہ انسان سمجھ سکے کہ خدا حقیقی ہے اور مبہم یا کھوکھلا نہیں ہے اور یہ کہ خدا بلند و بالا ہے بلکہ منکسرالمزاج بھی ہے۔ کیا یہ اتنا سادہ ہو سکتا ہے؟بالکل اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے انسان کے جسم کو فاسد کر دیا ہے اور انسان وہ ہے جسے خدا بچانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس لیے خدا کو شیطان کے ساتھ جنگ کرنے اور انسان کی ذاتی طور پر گلہ بانی کرنے کے لیے لازماً جسمانی شکل اختیار کرنی چاہیے۔ صرف یہ اس کے کام کے لیے فائدہ مند ہے۔ خدا کی دو جسمانی حالتیں شیطان کو شکست دینے کے لیے اور انسان کو بہتر طور پر بچانے کے لیے بھی موجود تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کے ساتھ جنگ کرنے والا صرف خدا ہی ہو سکتا ہے، چاہے وہ خدا کی روح ہو یا خدا کی مجسم صورت ہو۔ مختصر یہ کہ یہ فرشتے نہیں ہو سکتے جو شیطان کے ساتھ جنگ کریں اور یہ انسان تو ہو ہی نہیں سکتا، جسے شیطان نے بدعنوان کر دیا ہے۔فرشتے اس جنگ کو لڑنے کے لیے بے اختیار ہیں اور انسان ان سے بھی زیادہ ناتواں ہے۔ اس طرح اگر خدا انسان کی زندگی کا کام کرنا چاہتا ہے، اگر وہ انسان کو بچانے کے لیے ذاتی طور پر زمین پر آنا چاہتا ہے تو اسے ذاتی طور پر جسم بننا ہوگا – یعنی، اسے ذاتی طور پر جسم کو سنبھالنا ہوگا اور اپنی موروثی شناخت اور اس کام کے ساتھ جو اسے کرنا چاہیے، انسان کے درمیان آنا اور ذاتی طور پر انسان کو بچانا ہوگا۔ اگر نہیں تو یہ خدا کی روح تھی یا انسان تھا جس نے یہ کام کیا تھا تو اس جنگ کا پھر کبھی کچھ بھی نہیں بنے گا اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ صرف اس وقت جب خدا انسان کے درمیان شیطان کے خلاف ذاتی طور پر جنگ کرنے کے لیے جسم بن جاتا ہے تو انسان کو نجات کا موقع ملتا ہے۔ مزید برآں، اس کے بعد ہی شیطان شرمندہ ہو جاتا ہے اور اس کے پاس استحصال کرنے یا اپنے کسی منصوبے پر عمل درآمد کے مواقع نہیں بچتے۔ مجسم خدا کے ذریعے کیا گیا کام خدا کی روح کے لیے ناقابل حصول ہے اور کسی بھی جسمانی انسان کے لیے خدا کی طرف سے ایسا کرنا اور بھی ناممکن ہوگا، کیونکہ وہ جو کام کرتا ہے وہ انسان کی زندگی کی خاطر اور انسان کی بدعنوان فطرت کو تبدیل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر انسان اس جنگ میں حصہ لیتا تو وہ صرف بدحال تذبذب کی حالت میں بھاگ جاتا اور اپنے بدعنوان مزاج کو تبدیل کرنے کے قابل نہ ہوتا۔وہ انسان کو صلیب سے بچانے یا تمام سرکش بنی نوع انسان کو فتح کرنے کے قابل نہیں ہوتا لیکن وہ صرف ایک چھوٹا سا پرانا کام کرنے کے قابل ہوتا جو اصولوں سے بالاتر نہیں ہے یا پھر ایسا کام جس کا شیطان کی شکست سے کوئی تعلق نہیں ہے پس پھر پریشان کیوں ہوا جائے؟ اس کام کی کیا اہمیت ہے جو بنی نوع انسان کو حاصل نہیں کر سکتا، شیطان کو شکست دینا تو دور کی بات ہے؟ اور اس طرح، شیطان کے ساتھ جنگ صرف خود خدا کی طرف سے ہی کی جا سکتی ہے اور انسان کے لیے ایسا کرنا فقط ناممکن ہو جائے گا۔ انسان کا فرض اطاعت کرنا اور اس کی پیروی کرنا ہے، کیونکہ انسان آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے جیسا کام کرنے سے قاصر ہے اور نہ ہی وہ شیطان سے لڑنے کا کام انجام دے سکتا ہے۔ انسان صرف خدا کی قیادت میں خالق کو مطمئن کر سکتا ہے، جس کے ذریعے شیطان کو شکست دی جائے گی؛ یہ واحد چیز ہے جو انسان کر سکتا ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی نئی جنگ شروع ہوتی ہے یعنی ہر بار جب نئے دور کا کام شروع ہوتا ہے تو یہ کام ذاتی طور پر خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے وہ پورے دورکی راہنمائی کرتا ہے اور پوری نوع انسانی کے لیے ایک نئی راہ کھولتا ہے۔ ہر نئے دور کا آغاز شیطان کے ساتھ جنگ کا ایک نیا آغاز ہے، جس کے ذریعے انسان ایک نئے، زیادہ خوبصورت عہد اور ایک نئے دور میں داخل ہوتا ہے جس کی قیادت ذاتی طور پر خدا خود کرتا ہے۔ انسان ہر چیز کا مالک ہے لیکن جو لوگ حاصل کیے گیے ہیں وہ شیطان کے ساتھ تمام جنگوں کا پھل بنیں گے۔ شیطان ہر چیز کو فاسد کرنے والا ہے، یہ تمام جنگوں کے اختتام پر شکست خوردہ ہے اور یہ وہی ہے جس کو ان جنگوں کے بعد سزا دی جائے گی۔ خدا، انسان اور شیطان میں سے صرف شیطان ہی وہ ہے جس سے نفرت کی جائے گی اور اسے رد کر دیا جائے گا۔ وہ لوگ جو شیطان کی طرف سے حاصل کیے گیے تھے لیکن خدا کی طرف سے واپس نہیں لیے جاتے، دریں اثنا وہ شیطان کی طرف سے سزا پانے والے بن جاتے ہیں۔ ان تینوں میں سے، ہر چیز کی طرف سے صرف خدا کی عبادت کی جانی چاہیے۔ وہ لوگ جنہیں شیطان کی طرف سے خراب کر دیا گیا تھا لیکن خدا کی طرف سے واپس لے لیا جاتا ہے اور جو خدا کے طریقے پر چلتے ہیں۔ دریں اثنا، وہ لوگ بن جاتے ہیں جو خدا کا وعدہ قبول کریں گے اور خدا کے لیے برے لوگوں کا انصاف کریں گے۔ بے شک خدا فتح یاب ہو گا اور شیطان ضرور شکست کھا جائے گا لیکن انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جیتیں گے اور وہ بھی جو ہاریں گے۔ جیتنے والے غالب آنے والوں کے ساتھ ہوں گے اور جو ہاریں گے وہ نقصان اٹھانے والوں کے ساتھ ہوں گے؛ یہ ہر ایک کی اپنی قسم کے لحاظ سے درجہ بندی ہے، یہ خدا کے تمام کاموں کا حتمی اختتام ہے۔ خدا کے تمام کام کا مقصد بھی یہی ہے اور یہ کبھی نہیں بدلے گا۔ خدا کے انتظام کی منصوبہ بندی کا بنیادی کام انسان کی نجات پر مرکوز ہے اور خدا بنیادی طور پر اس بنیاد کی خاطر، اس کام کی خاطر اور شیطان کو شکست دینے کے لیے جسم بن جاتا ہے۔ پہلی بار جب خدا جسم بنا تو وہ بھی شیطان کو شکست دینے کے لیے تھا: وہ ذاتی طور پر جسم بن گیا اور ذاتی طور پر صلیب پر کیلوں سے جڑ دیا گیا تھا تاکہ پہلی جنگ کے کام کو مکمل کیا جا سکے، جو بنی نوع انسان کی خلاصی کا کام تھا۔ اسی طرح کام کا یہ مرحلہ بھی ذاتی طور پر خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے، جو انسان کے درمیان اپنے کام کو کرنے کے لیے جسم بن گیا ہے، ذاتی طور پر اپنے کلام کو بولنے اور انسان کو اس کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔بے شک، یہ ناگزیر ہے کہ وہ راستے میں کچھ اور کام بھی کرتا ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو ذاتی طور پر انجام دیتا ہے تاکہ شیطان کو شکست دے سکے، پوری نوع انسانی کو فتح کرے اور ان لوگوں کو حاصل کرے۔ لہذا، مجسم خدا کا کام واقعی آسان نہیں ہے۔ اگر اس کا مقصد صرف انسان کو یہ دکھانا ہوتا کہ خدا مسکین طبع اور پوشیدہ ہے اور خدا حقیقی ہے، اگر یہ صرف اس کام کو کرنے کی خاطر ہوتا تو پھر جسم بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اگر خدا جسم نہ بھی بنتا تو بھی وہ اپنی عاجزی اور پوشیدگی، اپنی عظمت اور پاکیزگی کو براہ راست انسان پر ظاہر کر سکتا تھا لیکن اس طرح کی چیزوں کا بنی نوع انسان کی مدیریت کے کام سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔ وہ انسان کو بچانے یا اسے مکمل بنانے کے قابل نہیں ہوتا، شیطان کو شکست دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ اگر شیطان کی شکست میں صرف ایک روح کو ایک دوسری روح کے خلاف جنگ کرنے میں شامل کیا گیا ہوتا تو پھر اس طرح کے کام کی عملی قدر اور بھی کم ہوتی۔ یہ انسان کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو گا اور انسان کی قسمت اور امکانات کو برباد کردے گا۔ اس طرح، آج خدا کا کام گہری اہمیت کا حامل ہے۔ یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ انسان اسے دیکھ سکے یا اس لیے کہ انسان کی آنکھیں کھل جائیں یا اس لیے کہ اسے تھوڑا سا احساس ہو اور اس کی حوصلہ افزائی ہو؛ اس طرح کے کام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر تو صرف اس قسم کے علم کے بارے میں بات کر سکتا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تو خدا کے جسم ہونے کی حقیقی اہمیت کو نہیں جانتا ہے۔

خدا کی پوری انتظامی منصوبہ بندی کا کام ذاتی طور پر خدا کی طرف سے خود کیا جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ – یعنی دنیا کی تخلیق – ذاتی طور پر خود خدا نے کی تھی اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی بنی نوع انسان کو پیدا کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ دوسرا مرحلہ تمام بنی نوع انسان کی خلاصی تھا اور یہ بھی ذاتی طور پر خود خدا کی طرف سے کیا گیا تھا۔ تیسرے مرحلے کے لیے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں: خدا کے تمام کاموں کے خاتمے کے لیے اس سے بھی کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ انہیں خود خدا کے ذریعہ کیا جائے۔ پوری نوع انسانی کو خلاصی دلانے، فتح کرنے، حاصل کرنے اور کامل کرنے کا کام ذاتی طور پر خدا کی طرف سے انجام دیا جاتا ہے۔ اگر اس نے یہ کام ذاتی طور پر نہ کیا ہوتا تو اس کی شناخت انسان کے ذریعہ پیش نہیں کی جاسکتی تھی اور نہ ہی اس کا کام انسان کے ذریعہ کیا جا سکتا تھا۔ شیطان کو شکست دینے کے لیے، بنی نوع انسان کو حاصل کرنے کے لیے اور زمین پر انسان کو ایک عام زندگی دینے کے لیے، وہ ذاتی طور پر انسان کی راہنمائی کرتا اور ذاتی طور پر انسان کے درمیان کام کرتا ہے؛ اس کے پورے انتظام کی منصوبہ بندی کی خاطر اور اس کے تمام کام کے لیے، اس کا ذاتی طور پر اس کام کو کرنا ضروری ہے۔ اگر انسان صرف یہ سمجھتا ہے کہ خدا اس لیے آیا ہے تاکہ انسان اسے دیکھ سکے، انسان کو خوش کرنے کی خاطر تو اس طرح کے اعتقادات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسان کی سمجھ بہت سطحی ہے! صرف اس کام کو خود انجام دے کر ہی خدا اس کام کو اچھی طرح اور مکمل طور پر انجام دے سکتا ہے۔ انسان خدا کی طرف سے ایسا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ چونکہ اس کے پاس خدا کی شناخت یا اس کا جوہر نہیں ہے لہذا وہ خدا کے کام کو کرنے کے قابل نہیں ہے اور اگر انسان نے یہ کام کیا بھی ہوتا تو اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ پہلی بار جب خدا جسم بنا تو خلاصی کی خاطر تمام بنی نوع انسان کو گناہ سے خلاصی دلانے، انسان کو اس قابل بنانے کے لیے کہ وہ پاک صاف ہو جائے اور اس کو گناہوں کی معافی دی جائے۔ فتح کا کام بھی انسان کے درمیان خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کیا جاتا ہے۔ اگر، اس مرحلے کے دوران، خدا کا کام صرف پیشن گوئی کرنا تھا تو کسی نبی یا کسی سند یافتہ کو اس کی جگہ لینے کے لیے پایا جا سکتا تھا؛ اگر یہ صرف پیشن گوئی کی جا رہی تھی تو انسان خدا کی جگہ کھڑا ہو سکتا تھا۔ پھر بھی اگر انسان نے ذاتی طور پر خدا کا کام خود کرنے کی کوشش کی ہوتی اور انسان کی زندگی پر کام کرنے کی کوشش کی ہوتی تو اس کے لیے یہ کام کرنا ناممکن ہو جاتا۔ اسے ذاتی طور پر خود خدا کی طرف سے کیا جانا چاہیے: خدا کا ذاتی طور پر اس کام کو کرنے کے لیے جسم بننا ضروری ہے۔ کلام کے دور میں، اگر صرف پیشن گوئی کی جانی تھی، تو یسعیاہ یا ایلیاہ نبی کو یہ کام کرنے دیا جا سکتا تھا اور خود خدا کو ذاتی طور پر ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی. کیونکہ اس مرحلے میں کیا گیا کام محض پیشن گوئی کی بات نہیں ہے اور کیونکہ یہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کلام کا کام انسان کو فتح کرنے اور شیطان کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے یہ کام انسان کی طرف سے نہیں کیا جا سکتا اور اسے ذاتی طور پر خود خدا کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔ قانون کے دور میں یہوواہ نے اپنے کام کا کچھ حصہ کیا، جس کے بعد اس نے کچھ کلام کیا اور نبیوں کے وسیلہ سے کچھ کام کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اُس کے کام میں یہوواہ کی جگہ لے سکتا ہے اور اہل بصیرت چیزوں کی پیشنگوئی کر سکتے تھے اور اس کی جگہ کچھ خوابوں کی تعبیر کر سکتے تھے۔ شروع میں کیا گیا کام براہ راست انسان کے مزاج کو تبدیل کرنے کا کام نہیں تھا اور انسان کے گناہ سے متعلق نہیں تھا اور انسان کو صرف قانون کی پابندی کرنے کی ضرورت تھی۔ اس لیے یہوواہ جسم نہیں بنا اور اس نے خود کو انسان پر ظاہر نہیں کیا؛ بلکہ اس نے موسیٰ اور دوسروں سے براہ راست بات کی، انہیں اپنی طرف سے بات کرنے اور کام کرنے پر لگایا اور انہیں براہ راست لوگوں کے درمیان کام کرنے پر مامور کیا۔ خدا کے کام کا پہلا مرحلہ انسان کی قیادت تھا۔ یہ شیطان کے خلاف جنگ کا آغاز تھا لیکن اس جنگ کا ابھی باضابطہ طور پر آغاز ہونا تھا۔ شیطان کے خلاف باضابطہ جنگ خدا کے پہلا جسم اختیار کرنے کے ساتھ شروع ہوئی اور یہ آج تک جاری ہے۔ اس جنگ کی پہلی لڑائی اس وقت ہوئی جب مجسم خدا کو صلیب پر کیلوں سے ٹھونک دیا گیا۔ خدا کے مصلوب ہونے نے شیطان کو شکست دی اور یہ جنگ کا پہلا کامیاب مرحلہ تھا۔ جب مجسم خدا نے انسان کی زندگی پر براہ راست کام کرنا شروع کیا تو یہ انسان کو دوبارہ حاصل کرنے کے کام کا باضابطہ آغاز تھا اور چونکہ یہ انسان کے پرانے مزاج کو تبدیل کرنے کا کام تھا، یہ شیطان کے ساتھ جنگ کرنے کا کام تھا۔ ابتدا میں یہوواہ کے ذریعہ کیے گئے کام کا مرحلہ محض زمین پر انسان کی زندگی کی قیادت تھا۔ یہ خدا کے کام کا آغاز تھا اور اگرچہ اس میں ابھی تک کوئی جنگ، یا کوئی بڑا کام شامل نہیں تھا لیکن اس نے آنے والی جنگ کے کام کی بنیاد رکھی۔ بعد میں، فضل کے دور کے دوران کام کے دوسرے مرحلے میں انسان کے پرانے مزاج کو تبدیل کرنا شامل تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے خود انسان کی زندگی کو اچھی طرح بنایا۔ اسے ذاتی طور پر خدا کی طرف سے ہی کیا جانا تھا: اس کے لیے ضروری تھا کہ خدا ذاتی طور پر جسم بن جائے. اگر وہ جسم نہ بن جاتا تو کام کے اس مرحلے میں کوئی اور اس کی جگہ نہیں لے سکتا تھا، کیونکہ یہ شیطان کے خلاف براہ راست لڑنے کے کام کی نمائندگی کرنا تھا۔ اگر انسان نے یہ کام خدا کی جگہ پر کیا ہوتا تو جب انسان شیطان کے سامنے کھڑا ہوتا تو شیطان سر تسلیم خم نہ کرتا اور اسے شکست دینا ناممکن ہوتا۔ یہ خدا کا مجسم ہونا تھا جو اسے شکست دینے کے لیے آیا تھا، کیونکہ مجسم خدا کا جوہر اب بھی خدا ہے، وہ اب بھی انسان کی زندگی ہے اور وہ اب بھی خالق ہے۔ کچھ بھی ہو جائے، اس کی شناخت اور جوہر تبدیل نہیں ہوگا اور اس طرح، اس نے جسم کو قبول کیا اور شیطان کی مکمل تابعداری کا سبب بننے کا کام کیا۔. آخری ایام کے کام کے مرحلے میں اگر انسان یہ کام کرے اور اسے براہ راست کلام بولنے پر لگا دیا جائے تو وہ اسے بولنے سے قاصر رہے گا اور اگر پیشین گوئی کی جائے تو یہ پیشین گوئی انسان کو فتح کرنے کے قابل نہیں ہو گی۔ جسم کو اختیار کرنے سے، خدا شیطان کو شکست دینے اور اس کی مکمل اطاعت حاصل کرنے کے لیے آتا ہے۔ جب وہ شیطان کو مکمل طور پر شکست دے گا، انسان کو مکمل طور پر فتح کر لے گا اور انسان کو مکمل طور پر حاصل کر لے گا تو کام کا یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا اور کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ خدا کی مدیریت میں، انسان خدا کی جگہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ خاص طور پر، دور کی قیادت کرنے اور نئے کام کو شروع کرنے کا کام خود خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کیے جانے کی اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ انسان کو وحی پہنچانا اور اسے نبوت فراہم کرنا انسان کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ کوئی ایسا کام ہے جو خدا کے ذریعے ذاتی طور پر کیا جانا چاہیے، جیسے خود خدا اور شیطان کے مابین جنگ کا کام ہے تو یہ کام انسان کے ذریعہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کام کے پہلے مرحلے کے دوران، جب شیطان کے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہوئی تھی، یہوواہ نے ذاتی طور پر نبیوں کے ذریعہ بیان کردہ پیشین گوئی کا استعمال کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی راہنمائی کی۔ اس کے بعد، کام کا دوسرا مرحلہ شیطان کے ساتھ جنگ تھا اور خدا خود ذاتی طور پر جسم بن گیا اور اس کام کو کرنے کے لیے جسمانی شکل میں آیا۔ ہر وہ چیز جس میں شیطان کے خلاف جنگ شامل ہوتی ہے اس میں خدا کا جسم ہونابھی شامل ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ جنگ انسان کے ذریعہ نہیں لڑی جا سکتی ہے۔ اگر انسان جنگ کرے تو وہ شیطان کو شکست دینے کے قابل نہیں ہو گا۔ وہ اس کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اس کے خلاف لڑنے کی طاقت کیسے حاصل کرسکتا ہے؟ انسان درمیان میں ہے: اگر تو شیطان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہےتو تو شیطان سے تعلق رکھتا ہے اور اگر تو خدا کو مطمئن کرتا ہے تو تو خدا کا ہے۔ اگر انسان اس جنگ کے کام میں خدا کے لیے کھڑے ہونے کی کوشش کرتا تو کیا وہ ایسا کر پاتا؟ اگر وہ ایسا کرتا تو کیا وہ بہت پہلے ہلاک نہ ہو چکا ہوتا؟ کیا وہ بہت پہلے ہی نا موجود دنیا میں داخل نہیں ہو جاتا؟ لہذا، انسان اس کے کام میں خدا کی جگہ لینے سے قاصر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں خدا کا جوہر نہیں ہے اور اگر تو شیطان کے ساتھ جنگ کرتا تو تو اسے شکست دینے کے قابل نہیں ہوتا۔ انسان صرف کچھ کام کر سکتا ہے۔ وہ کچھ لوگوں کو جیت سکتا ہے لیکن وہ خود خدا کے کام میں خدا کی جگہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ انسان شیطان کے ساتھ جنگ کیسے کر سکتا ہے؟ شیطان تو تجھے یہ شروع کرنے سے پہلے ہی یرغمال بنا لے گا۔ صرف اس وقت جب خدا خود شیطان کے ساتھ جنگ کرتا ہے اور انسان اس بنیاد پر خدا کی پیروی کرتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے، تب ہی انسان خدا کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا اور شیطان کے بندھنوں سے بچ سکتا ہے۔ وہ چیزیں جو انسان اپنی حکمت اور صلاحیتوں سے حاصل کر سکتا ہے وہ بہت محدود ہیں؛ وہ انسان کو کامل بنانے، اس کی راہنمائی کرنے اور اس کے علاوہ شیطان کو شکست دینے کے قابل نہیں ہے۔ انسان کی عقل و دانش شیطان کے منصوبوں کو ناکام بنانے سے قاصر ہے تو انسان اس سے جنگ کیسے کر سکتا ہے؟

وہ تمام لوگ جو کامل بننے کے لیے تیار ہیں ان کے لیے کامل بنائے جانے کا موقع ہے، لہذا ہر ایک کو مطمئن رہنا چاہیے: مستقبل میں تم سب منزل میں داخل ہوں گے۔ لیکن اگر تو کامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہے اور حیرت انگیز عہد میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہے تو یہ تیرا اپنا مسئلہ ہے۔ وہ تمام لوگ جو کامل ہونے کے لیے تیار ہیں اور خدا کے وفادار ہیں، وہ سب جو اطاعت کرتے ہیں اور وہ سب جو ایمانداری سے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں – ایسے تمام لوگوں کو کامل بنایا جا سکتا ہے۔ آج، وہ تمام لوگ جو وفاداری سے اپنا فرض ادا نہیں کرتے، وہ سب جو خدا کے وفادار نہیں ہیں، وہ سب جو خدا کے تابع نہیں ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جنھوں نے روح القدس کی روشن ضمیری اور روشنی حاصل کی ہے لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنایا ہے- ایسے تمام لوگ کامل نہیں بنائے جا سکتے۔ وہ تمام لوگ جو وفادار ہونے اور خدا کی اطاعت کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ کامل بنائے جا سکتے ہیں، چاہے وہ تھوڑے سے لاعلم ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ تمام لوگ جو جستجو کرنے کے لیے تیار ہیں انہیں کامل بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک تو اس سمت میں جستجو کرنے کے لیے تیار ہے، تجھے کامل بنایا جا سکتا ہے۔ میں تم میں سے کسی کو بھی چھوڑنے یا نکالنے کو تیار نہیں ہوں لیکن اگر انسان نیکی کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو پھر تو صرف اپنے تئیں برباد کر رہا ہے؛ یہ میں نہیں جو تجھے نکالتا ہے بلکہ تم خود ہو۔ اگر تو خود اچھا کام کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے، اگر توکاہل ہے یا اپنا فرض ادا نہیں کرتا یا وفادار نہیں ہے یا حق کی پیروی نہیں کرتا ہےاور ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے، اگر تو لاپرواہی سے برتاؤ کرتا ہے تو تو اپنی شہرت اور خوش قسمتی کے لیے لڑتا ہے اور مخالف جنس کے ساتھ اپنے معاملات میں بے ایمان ہے تو پھر تو اپنے گناہوں کا بوجھ خود اٹھائے گا؛ تو کسی کے رحم کے لائق نہیں ہے۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ تم سب کامل بن جاؤ اور کم از کم فتح ہو جاؤ تاکہ کام کا یہ مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو سکے۔ خدا کی خواہش یہ ہے کہ ہر فرد کامل بنایا جائے، بالآخر اس کے وسیلہ سے حاصل کیا جائے، اس کے وسیلہ سے مکمل طور پر پاک کیا جائے اور ایسے لوگ بنیں جن سے وہ محبت کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کہتا ہوں کہ تم پسماندہ یا ناقص صلاحیت کے ہو – یہ سب حقیقت ہے۔ میرے اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں تمہیں ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، یہ کہ میں نے تم سے امید کھو دی ہے، یہ تو بہت دور کی بات ہے کہ میں تمہیں بچانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آج میں تمہاری نجات کا کام کرنے آیا ہوں، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں جو کام کرتا ہوں وہ نجات کے کام کا تسلسل ہے۔ ہرفرد کے پاس کامل ہونے کا موقع ہے: بشرطیکہ تو اس کے لیے تیار ہو جائے، بشرطیکہ تو پیروی کرے، آخر میں تم اس نتیجہ کو حاصل کرنے کے قابل ہو جاؤ گے اور تم میں سے کسی کو بھی ترک نہیں کیا جائے گا۔ اگر تو ناقص صلاحیت کا حامل ہے تو تجھ سے میرے تقاضے تیری ناقص صلاحیت کے مطابق ہوں گے۔ اگر تو اعلیٰ صلاحیت کا حامل ہے تو تجھ سے میرے تقاضے تیری اعلیٰ صلاحیت کے مطابق ہوں گے؛ اگر تو لاعلم اور ناخواندہ ہے تو تجھ سے میری مرادیں تیری ناخواندگی کے موافق ہوں گی۔ اگر تو پڑھا لکھا ہے تو تجھ سے میری مرادیں اس حقیقت کے مطابق ہوں گی کہ تو پڑھا لکھا ہے؛ اگر تو بزرگ ہے تو تجھ سے میرے تقاضے تیری عمر کے مطابق ہوں گے۔ اگر تو مہمان نوازی کی استطاعت رکھتا ہے تو تجھ سے میرے تقاضے اس استطاعت کے مطابق ہوں گے؛ اگر تو کہے کہ تو مہمان نوازی نہیں کر سکتا اور صرف کوئی خاص کام انجام دے سکتا ہے، چاہے وہ بشارت کی منادی ہو، کلیسیا کی دیکھ بھال کرنا ہو یا دیگر عمومی امور ادا کرنا ہوں تو تیرے بارے میں میرا کامل کرنا اس کے مطابق ہو گا جو تو کرتا ہے۔ وفادار ہونا، آخر تک اطاعت کرنا اور خدا کے لیے انتہائی محبت کی تلاش کرنا- یہ ہی وہ چیزیں ہیں جو تجھے پوری کرنی چاہییں اور ان تین چیزوں سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے. بالآخر انسان کو ان تینوں چیزوں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ ان کو حاصل کر سکتا ہے تو وہ کامل بنا دیا جائے گا لیکن، سب سے بڑھ کر، تجھے واقعی پیچھا کرنا چاہیے، تمہیں فعال طور پر آگے اور اوپر کی طرف دباؤ ڈالنا چاہیے اور اس سلسلے میں غیر فعال نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے کہا ہے کہ ہر شخص کو کامل بنانے کا موقع ملتا ہے اور وہ کامل بنائے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ سچ ہے لیکن تو اپنے تعاقب میں بہتر بننے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ اگر تم ان تین معیاروں کو حاصل نہیں کرتے ہو تو آخر میں تمہیں لازماً نکال دیا جانا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی بڑھ کر پا لے، میں چاہتا ہوں کہ ہر کسی کو روح القدس کا کام اور روشن ضمیری حاصل ہو اور بالکل آخر تک اطاعت کرنے کے قابل ہو، کیونکہ یہ وہ فرض ہے جو تم میں سے ہر ایک کو انجام دینا چاہیے۔ جب تم سب اپنا فرض ادا کر چکو گے تو تم سب کامل ہو جاؤ گے اور تمہارے پاس بھی زبردست گواہی ہو گی۔ وہ سب جن کے پاس گواہی ہے، وہ لوگ ہیں جنھوں نے شیطان پر فتح حاصل کی ہے اور خدا کا وعدہ حاصل کیا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو حیرت انگیز منزل میں رہنے کے لیے زندہ رہیں گے۔

سابقہ: مسیح کا جوہر آسمانی باپ کی مرضی کی اطاعت ہے

اگلا: خدا اور انسان ایک ساتھ حالت سکون میں داخل ہوں گے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp