خدا اور انسان ایک ساتھ حالت سکون میں داخل ہوں گے

شروع میں، خدا حالت سکون میں تھا۔ اس وقت زمین پر کوئی انسان یا کوئی اور چیز نہیں تھی، اور خدا نے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنا انتظام کا کام صرف نوع انسانی کے وجود میں آنے اور نوع انسانی کے بدعنوان ہونے کے بعد ہی شروع کیا۔ اس وقت کے بعد سے، اس نے سکون نہیں کیا، بلکہ اس کی بجائے نوع انسانی کے درمیان اپنے آپ کو مصروف کرنا شروع کر دیا۔ یہ نوع انسانی کی بدعنوانی اور بڑے فرشتے کی بغاوت کی وجہ سے بھی تھا کہ خدا نے اپنا سکون کھو دیا، اگر خدا شیطان کو شکست نہیں دیتا اور بدعنوان نوع انسانی کو نہیں بچاتا ہے، تو وہ دوبارہ کبھی بھی سکون میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ جس طرح انسان میں سکون کی کمی ہے، اسی طرح خدا میں بھی ہے اور جب وہ ایک بار پھر سکون کرے گا تو انسان بھی سکون کریں گے۔ سکون میں ہونے کا مطلب خدا اور شیطان میں جنگ کے بغیر، گندگی کے بغیر اور کسی بھی مسلسل برائی کے بغیر زندگی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسی زندگی ہے جو شیطان کے خلل (یہاں "شیطان" سے مراد دشمن قوتیں ہیں) اور شیطان کی بدعنوانی سے پاک ہے اور نہ ہی یہ خدا کی مخالفت میں کسی طاقت کے حملے کی زد پر ہے؛ یہ ایک ایسی زندگی ہے جس میں ہر ایک چیز اپنی صنف کی پیروی کرتی ہے اور مخلوق کے خداوند کی عبادت کر سکتی ہے نیز جس میں آسمان اور زمین مکمل طور پر پُرسکون ہوتے ہیں - یہ ہے جو "انسانوں کی پرسکون زندگی" کے الفاظ کا مطلب ہے۔ جب خدا سکون کرے گا تو زمین پر برائی باقی نہیں رہے گی اور نہ ہی دشمن قوتوں کی طرف سے مزید کوئی حملہ ہو گا اور سب نوع انسانی ایک نئی دنیا میں داخل ہو جائے گی۔ اب شیطان کی طرف سے بدعنوان کی گئی نوع انسانی نہیں ہو گی، بلکہ ایک ایسی نوع انسانی ہو گی جو شیطان کی طرف سے بدعنوان ہونے کے بعد بچا لی گئی ہے۔ نوع انسانی کے سکون کا دن خدا کے بھی سکون کا دن ہو گا۔ خدا نے نوع انسانی کے سکون میں داخل ہونے میں ناکامی کی وجہ سے اپنا سکون کھو دیا، اس وجہ سے نہیں کہ وہ اصل میں سکون کرنے کے قابل نہیں تھا۔ سکون میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر چیز حرکت کرنا بند کر دیتی ہے یا ترقی کرنا بند کر دیتی ہے اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کام کرنا بند کر دیتا ہے یا انسان زندہ رہنا چھوڑ دیتے ہیں۔ سکون میں داخل ہونے کی نشانی یہ ہو گی جب شیطان کو ہلاک کر دیا جائے گا، جب وہ خبیث لوگ جو اس کی برائیوں میں اس کے ساتھ شامل ہو گئے تھے، انھیں سزا دے دی جائے گی اور ان کا صفایا کر دیا جائے گا اور جب خدا کی دشمن تمام قوتیں ختم ہو جائیں گی۔ خدا کے سکون میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب نوع انسانی کی نجات کے اپنے کام کو انجام نہیں دے گا۔ نوع انسانی کے سکون میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ساری نوع انسانی خدا کے نور کے اندر اور اس کی نعمتوں کے تحت زندگی بسر کرے گی، شیطان کی بدعنوانی سے پاک ہو گی اور اب مزید برائی نہیں ہو گی۔ خدا کی نگہداشت کے تحت، انسان زمین پر حسب معمول رہیں گے۔ جب خدا اور نوع انسانی ایک ساتھ سکون میں داخل ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کو بچا لیا گیا ہے اور شیطان کو تباہ کر دیا گیا ہے اور یہ کہ انسانوں میں خدا کا کام مکمل طور پر پورا ہو چکا ہے۔ خدا اب انسانوں میں کام نہیں کرے گا اور وہ اب شیطان کے تسلط میں نہیں رہیں گے۔ اس طرح، خدا اب مصروف نہیں رہے گا اور انسان اب مسلسل حرکت میں نہیں رہیں گے۔ خدا اور نوع انسانی بیک وقت سکون میں داخل ہوں گے۔ خدا اپنی اصل جگہ پر لوٹ آئے گا اور ہر شخص بالترتیب اپنی جگہ پر لوٹ آئے گا۔ یہ وہ منزلیں ہیں جن میں خدا اور انسان اس وقت رہیں گے جب خدا کا سارا انتظام ختم ہو جائے گا۔ خدا کے پاس خدا کی منزل ہو گی اور نوع انسانی کے پاس نوع انسانی کی منزل ہو گی۔ سکون کرتے ہوئے، خدا زمین پر ان کی زندگیوں میں تمام انسانوں کی راہنمائی جاری رکھے گا اور اس کی روشنی میں، وہ آسمان میں ایک سچے خدا کی عبادت کریں گے۔ خدا اب نوع انسانی کے درمیان نہیں رہے گا اور نہ ہی انسان خدا کے ساتھ اس کی منزل میں رہ سکیں گے۔ خدا اور انسان ایک ہی دنیا میں نہیں رہ سکتے؛ بلکہ دونوں کا اپنا اپنا طرز زندگی ہے۔ خدا وہ ہے جو تمام نوع انسانی کی راہنمائی کرتا ہے اور تمام نوع انسانی خدا کے انتظام کے کام کی ٹھوس شکل ہے۔ انسان وہ ہیں جن کی راہنمائی کی جاتی ہے اور وہ خدا کی طرح کے جوہر کے حامل نہیں ہیں۔ "سکون" کرنے کا مطلب ہے کسی چیز کا اپنی اصل جگہ پر واپس جانا۔ لہٰذا، جب خدا سکون میں داخل ہوتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اصل مقام پر واپس آ گیا ہے۔ وہ اب زمین پر نہیں رہے گا اور نہ ہی نوع انسانی کے درمیان ان کی خوشی اور مصائب میں شریک ہونے کے لیے ان کے ساتھ ہو گا۔ جب انسان سکون میں داخل ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقی مخلوق بن گئے ہیں؛ وہ زمین پر خدا کی عبادت کریں گے اور عمومی انسانی زندگی گزاریں گے۔ لوگ اب خدا کی نافرمانی یا اس کی مخالفت نہیں کریں گے اور آدم اور حوا کی اصل زندگی کی طرف واپس آ جائیں گے۔ یہ خدا اور انسانوں کے سکون میں داخل ہونے کے بعد ان کی متعلقہ زندگیاں اور منزلیں ہوں گی۔ شیطان کی شکست اس کے اور خدا کے درمیان جنگ میں ایک ناگزیر رجحان بن گئے ہیں۔ اس طرح، خدا کا اپنے انتظامی کام کی تکمیل کے بعد سکون میں داخل ہونا اور نوع انسانی کی مکمل نجات اور سکون میں داخلہ اسی طرح ناگزیر رجحانات بن گئے ہیں۔ نوع انسانی کے سکون کی جگہ زمین پر ہے اور خدا کے سکون کی جگہ آسمان میں ہے۔ جبکہ انسان سکون سے خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ زمین پر رہیں گے اور جبکہ خدا باقی نوع انسانی کی سکون میں راہنمائی کرتا ہے تو وہ ان کی آسمان سے راہنمائی کرے گا، زمین سے نہیں۔ خدا اب بھی روح ہو گا، جبکہ انسان اب بھی جسم ہوں گے۔ خدا اور انسان دونوں مختلف انداز میں سکون کرتے ہیں۔ جب خدا سکون کرے گا تو وہ آئے گا اور انسانوں کے درمیان ظاہر ہوگا۔ جب انسان سکون کرتے ہیں، تو ان کی خدا کی طرف سے آسمان کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے راہنمائی کی جائے گی۔ خدا اور نوع انسانی کے سکون میں داخل ہونے کے بعد، شیطان کا وجود باقی نہیں رہے گا؛ اسی طرح خبیث لوگ بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ خدا اور نوع انسانی سکون کرے، وہ خبیث لوگ جنھوں نے کبھی زمین پر خدا کو ستایا تھا اور ساتھ ہی وہ دشمن جو وہاں اس کی نافرمانی کر رہے تھے، پہلے ہی تباہ ہو چکے ہوں گے؛ وہ آخری ایام کی بڑی آفتوں سے فنا ہو چکے ہوں گے۔ ایک بار جب خبیث لوگ مکمل طور پر ختم کر دیے جا چکے ہوں گے تو زمین کا شیطان کے ستانے سے دوبارہ کبھی بھی واسطہ نہیں پڑے گا۔ صرف اسی وقت نوع انسانی مکمل نجات حاصل کرے گی اور خدا کا کام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ خدا اور نوع انسانی کے سکون میں داخل ہونے کے لیے ضروری شرائط ہیں۔

تمام چیزوں کے خاتمے کا قریب آنا خدا کے کام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کی پیشرفت کے خاتمے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان، جنھیں شیطان نے بدعنوان بنایا ہے، ترقی کے اپنے آخری مرحلے تک پہنچ چکے ہوں گے اور یہ کہ آدم اور حوا کی اولاد نے اپنی نسلی افزائش مکمل کر لی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایسی نوع انسانی، جو شیطان کے ذریعے بدعنوان ہو چکی ہے، کے لیے ترقی جاری رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ شروع میں آدم اور حوا کو بدعنوان نہیں بنایا گیا تھا لیکن آدم اور حوا جو عدن کے باغ سے نکالے گئے تھے انھیں شیطان نے بدعنوان کر دیا تھا۔ جب خدا اور انسان ایک ساتھ سکون میں داخل ہوں گے تو آدم اور حوا – جنھیں عدن کے باغ سے نکال دیا گیا تھا – اور ان کی اولاد آخر کار ختم ہو جائے گی۔ مستقبل کی نوع انسانی اب بھی آدم اور حوا کی اولاد پر ہی مشتمل ہو گی لیکن وہ شیطان کے زیرِ تسلط رہنے والے انسان نہیں ہوں گے۔ بلکہ وہ ایسے لوگ ہوں گے جو نجات پا چکے ہوں گے اور خالص ہو چکے ہوں گے۔ یہ ایک ایسی نوع انسانی ہو گی جس کا فیصلہ ہو چکا ہوگا اور تادیب کر دی گئی ہو گی اور جو کہ مقدس ہو گی۔ یہ لوگ اس نسل انسانی کی طرح نہیں ہوں گے جیسی کہ یہ اصل میں تھی؛ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ شروع کی آدم اور حوا کی نوع انسانی سے مکمل طور پر مختلف قسم کے ہوں گے۔ یہ لوگ ان سب میں سے چنے گئے ہوں گے جنھیں شیطان نے بد عنوان کر دیا تھا اور یہی وہ لوگ ہوں گے جو بالآخر خدا کی عدالت اور سزا میں ثابت قدم رہے ہوں گے؛ وہ بدعنوان بنی نوع انسان میں بچ جانے والے انسانوں کا آخری باقی رہ جانے والا گروہ ہوں گے۔ صرف یہی لوگ خدا کے ساتھ آخری سکون میں داخل ہو سکیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آخری ایام میں خدا کی عدالت اور سزا کے کام میں ثابت قدم رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں – یعنی پاکیزگی کے آخری کام کے دوران – یہ وہی لوگ ہوں گے جو خدا کے ساتھ حتمی سکون میں داخل ہوں گے؛ اس طرح، وہ تمام لوگ جو سکون میں داخل ہوتے ہیں وہ شیطان کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو جائیں گے اور جنھیں خدا کی طرف سے پاکیزہ بنائے جانے کے آخری کام سے گزرنے کے بعد حاصل کیا جائے گا۔ یہ انسان، جنھیں آخر کار خدا کی طرف سے حاصل کیا جائے گا، آخری سکون میں داخل ہو جائیں گے۔ سزا اور عدالت کے خدا کے کام کا مقصد بنیادی طور پر نوع انسانی کو پاکیزہ بنانا ہے، حتمی سکون کی خاطر؛ اس طرح کی صفائی کے بغیر، نوع انسانی میں سے کسی کی بھی اپنی قسم کے مطابق مختلف زمروں میں درجہ بندی نہیں کی جا سکتی تھی یا سکون میں داخل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ کام سکون میں داخل ہونے کے لیے نوع انسانی کا واحد راستہ ہے۔ صرف خدا کا پاکیزہ بنانے کا کام ہی انسانوں کو ان کی برائی سے پاک کرے گا اور صرف اس کا سزا اور عدالت کا کام ہی نوع انسانی کے ان نافرمان عناصر کو روشنی میں لائے گا، اس طرح بچائے جانے والے لوگوں کو نہ بچائے جا سکنے والے لوگوں سے الگ کر دے گا۔ اور باقی رہ جانے والے لوگوں کو باقی نہ رہ جانے والے لوگوں سے الگ کر دے گا۔ جب یہ کام ختم ہو جائے گا تو وہ لوگ جنھیں رہنے کی اجازت دی جائے گی وہ سب پاک صاف ہو جائیں گے اور نوع انسانی کی ایک اعلیٰ حالت میں داخل ہو جائیں گے جس میں وہ زمین پر مزید حیرت انگیز دوسری انسانی زندگی سے لطف اندوز ہوں گے؛ دوسرے لفظوں میں، وہ اپنے سکون کے انسانی دن کا آغاز کریں گے اور خدا کے ساتھ مل جل کر رہیں گے۔ جن لوگوں کو رہنے کی اجازت نہیں ہو گی ان کو سزا دینے اور ان کے بارے عدالت کرنے کے بعد ان کے حقیقی رنگ مکمل طور پر بے نقاب ہو جائیں گے، جس کے بعد وہ سب تباہ کر دیے جائیں گے اور شیطان کی طرح انھیں زمین پر زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مستقبل کی نوع انسانی میں اب اس قسم کے لوگوں میں سے کوئی بھی شامل نہیں ہوگا؛ ایسے لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ وہ حتمی سکون کی زمین میں داخل ہو سکیں اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ وہ اس سکون کے دن میں شامل ہوں جس میں خدا اور نوع انسانی شریک ہوں گے، کیونکہ وہ سزا کا نشانہ ہیں اور وہ خبیث اور برے لوگ ہیں۔ ان کی ایک بار خلاصی کروائی گئی تھی اور ان کی عدالت بھی کی گئی تھی اور انھیں سزا بھی دی گئی تھی؛ انھوں نے ایک بار خدا کی خدمت بھی کی تھی۔ تاہم جب آخری دن آئے گا تو ان کی خباثت اور نافرمانی اور خلاصی پانے سے قاصر ہونے کی وجہ سے انھیں باہر نکال دیا جائے گا اور تباہ کر دیا جائے گا؛ وہ مستقبل کی دنیا میں دوبارہ کبھی وجود میں نہیں آئیں گے، اور اب وہ مزید مستقبل کی نسل انسانی کے درمیان نہیں رہیں گے۔ چاہے وہ مردہ لوگوں کی روحیں ہوں یا وہ لوگ ہوں جو اب بھی جسم میں زندہ ہیں، تمام گناہ گار اور وہ سب لوگ جو بچائے نہیں جا سکے، وہ اس وقت تباہ ہو جائیں گے جب نوع انسانی کے مقدس لوگ سکون میں داخل ہو جائیں گے۔ جہاں تک ان گناہ گار روحوں اور انسانوں یا نیک لوگوں اور راستبازوں کی روحوں کا تعلق ہے، چاہے وہ کسی بھی دور میں ہوں، برائی کرنے والے آخر کار ہلاک ہو جائیں گے، اور وہ سب جو نیک ہیں زندہ رہیں گے۔ آیا کوئی شخص یا روح نجات حاصل کرے گی یا نہیں اس کا فیصلہ مکمل طور پر آخری دور کے کام کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ آیا انھوں نے خدا کی مخالفت یا نافرمانی کی ہے یا نہیں۔ پچھلے دور کے وہ لوگ جنھوں نے برائی کا ارتکاب کیا اور نجات نہ پا سکے، بلاشبہ وہ عذاب کا نشانہ بنیں گے اور موجودہ دور میں جو لوگ برائی کا ارتکاب کرتے ہیں اور انھیں بچایا نہیں جا سکتا، وہ بھی یقیناً عذاب کا نشانہ ہوں گے۔ انسانوں کی درجہ بندی نیکی اور بدی کی بنیاد پر کی جاتی ہے، نہ کہ اس پر کہ وہ کس خاص دور میں رہتے ہیں۔ ایک بار اس طرح درجہ بندی کرنے کے بعد، انھیں فوری طور پر سزا یا انعام نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ خدا بدی کی سزا دینے اور نیکی کا بدلہ دینے کے اپنے کام کو صرف اس وقت انجام دے گا جب وہ آخری ایام میں فتح کے اپنے کام کو ختم کر لے گا۔ دراصل، جب سے اس نے بنی نوع انسان کی نجات کا کام کرنا شروع کیا ہے، تب سے وہ انسانوں کو نیک اور بد میں تقسیم کر رہا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے کہ وہ راستبازوں کو صلہ اور خبیثوں کو سزا صرف اس وقت دے گا جب اس کا کام ختم ہو جائے گا؛ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کے بعد انھیں زمروں میں تقسیم کرے گا اور پھر فوری طور پر بروں کو سزا دینے اور نیکوں کو صلہ دینے کا کام شروع کر دے گا۔ بلکہ یہ کام تبھی انجام پائے گا جب اس کا کام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ بدی کو سزا دینے اور نیکی کا بدلہ دینے کے خدا کے حتمی کام کے پیچھے پورا مقصد تمام انسانوں کو مکمل طور پر پاکیزہ بنانا ہے تاکہ وہ ایک خالص مقدس نوع انسانی کو ابدی سکون میں لا سکے۔ اس کے کام کا یہ مرحلہ سب سے اہم ہے۔ یہ اس کے پورے انتظامی کام کا آخری مرحلہ ہے۔ اگر خدا نے خبیثوں کو ہلاک نہ کیا، بلکہ انھیں باقی رہنے کی اجازت دی تو ہر انسان پھر بھی سکون میں داخل ہونے کے قابل نہیں ہوگا اور خدا پوری نوع انسانی کو ایک بہتر دنیا میں لانے کے قابل نہیں ہو گا۔ ایسا کام مکمل نہیں ہو گا۔ جب اس کا کام ختم ہو جائے گا، تو پوری نوع انسانی مکمل طور پر مقدس ہو جائے گی؛ صرف اسی طرح خدا پرامن طور پر سکون سے رہ سکے گا۔

لوگ آج کل بھی جسمانی چیزوں کو چھوڑنے سے قاصر ہیں، وہ جسم، دنیا، دولت یا اپنے بدعنوان مزاجوں کا لطف نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ بیشتر لوگ اپنے مشاغل کے بارے میں لاپرواہی سے کام لیتے ہیں۔ دراصل، یہ لوگ اپنے دلوں میں خدا کو بالکل بھی نہیں بساتے ہیں؛ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ وہ خدا سے نہیں ڈرتے۔ ان کے دلوں میں خدا نہیں ہے اور اسی وجہ سے وہ ان سب چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے جو خدا کرتا ہے، اس کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ وہ اس کلام پر یقین کرنے کے قابل ہوں جو وہ کہتا ہے۔ ایسے لوگ بہت زیادہ جسمانی فطرت کے ہوتے ہیں؛ وہ بہت گہری بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں اور کسی بھی قسم کی سچائی سے عاری ہوتے ہیں مزید یہ کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ خدا جسم بن سکتا ہے۔ ہر وہ شخص جو مجسم خدا پر یقین نہیں رکھتا – یعنی ہر وہ شخص جو ظاہری خدا یا اس کے کام اور کلام پر ایمان نہیں لاتا اور اس کی بجائے آسمان پر پوشیدہ خدا کی عبادت کرتا ہے – وہ ایک ایسا شخص ہے جس کے دل میں خدا نہیں ہے۔ ایسے لوگ سرکش اور خدا کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان میں انسانی اقدار اور عقل کی کمی ہوتی ہے، وہ کوئی سچی بات نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ، ان لوگوں کی جانب سے ظاہری اور قابل محسوس خدا پر تو بالکل یقین نہیں کیا جا سکتا، مگر پھر بھی وہ پوشیدہ اور غیر مرئی خدا کو سب سے زیادہ قابل اعتماد اور مسرورکن سمجھتے ہیں۔ وہ جس چیز کی تلاش کرتے ہیں وہ حقیقی سچائی نہیں ہے اور نہ ہی وہ زندگی کا حقیقی جوہر ہے۔ اور اس کا خدا کی مرضی ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ بلکہ وہ جوش و خروش کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جو بھی چیزیں انھیں اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے زیادہ قابل بنا سکتی ہیں، بلا شبہ ایسی ہیں کہ وہ جن پر یقین رکھتے اور جن کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، نہ کہ سچائی کی جستجو کرنے کے لیے۔ کیا ایسے لوگ گناہ گار نہیں ہیں؟ وہ انتہائی خود اعتماد ہیں اور وہ بالکل بھی یہ یقین نہیں رکھتے ہیں کہ آسمان میں خدا ان جیسے "اچھے لوگوں" کو تباہ کر دے گا۔ اس کی بجائے، وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا انھیں باقی رہنے کی اجازت دے گا اور، اس کے علاوہ، خدا کے لیے بہت سے کام کرنے اور اس کے ساتھ کافی "وفاداری" کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے انھیں بڑے انعام دے گا۔ اگر وہ ظاہری خدا کی پیروی بھی کریں تو جیسے ہی ان کی خواہشات پوری نہیں ہوں گی تو وہ فوری طور پر خدا کے خلاف جوابی حملہ کریں گے یا غصے میں بھڑک اٹھیں گے۔ وہ اپنے آپ کو ان گھٹیا قابلِ مذمت لوگوں کے طور پر ظاہر کرتے ہیں جو ہمیشہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں؛ وہ سچائی کی جستجو کرنے والے دیانتدار لوگ نہیں ہیں۔ ایسے لوگ نام نہاد خبیث لوگ ہیں جو مسیح کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو سچائی کی تلاش نہیں کرتے وہ ممکنہ طور پر سچائی پر یقین نہیں کر سکتے ہیں اور نوع انسانی کے مستقبل کے نتائج کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، کیونکہ وہ ظاہری خدا کے کسی بھی کام یا کلام پر یقین نہیں کرتے ہیں اور اس میں نوع انسانی کی مستقبل کی منزل پر یقین نہ کرنا بھی شامل ہے۔ پس اگر وہ ظاہری خدا کی پیروی بھی کرتے ہیں تو بھی بدی کا ارتکاب کرتے ہیں اور حق کی تلاش بالکل بھی نہیں کرتے اور نہ ہی اس سچائی پر عمل کرتے ہیں جس کی مجھے ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ وہ تباہ ہو جائیں گے، اس کے برعکس، یہ وہی لوگ ہیں جو کہ تباہ ہو جائیں گے۔ وہ سب اپنے آپ کو بہت ہوشیار سمجھتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ خود ایسے لوگ ہیں جو سچائی پر عمل کرتے ہیں۔ وہ اپنے برے طرز عمل کو حق سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے اس کی قدر کرتے ہیں۔ ایسے خبیث لوگ بہت خود اعتماد ہوتے ہیں۔ وہ سچائی کو نظریہ سمجھتے ہیں اور اپنے برے کاموں کو سچائی سمجھتے ہیں لیکن آخر میں، وہ صرف وہی کاٹ سکتے ہیں جو انھوں نے بویا ہوتا ہے۔ لوگ جتنا زیادہ خود اعتماد ہوتے ہیں اور وہ جتنے زیادہ مغرور ہوتے ہیں، اتنا ہی زیادہ وہ سچائی حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؛ جتنا زیادہ لوگ آسمان کے خدا پر ایمان لاتے ہیں، اتنا ہی زیادہ وہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو سزا دی جائے گی۔ اس سے پہلے کہ نوع انسانی سکون میں داخل ہو، ہر قسم کے شخص کو سزا دی جائے گی یا انعام دیا جائے گا، اس کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ آیا انھوں نے سچائی کی تلاش کی ہے یا نہیں، آیا وہ خدا کو جانتے ہیں اور آیا وہ ظاہری خدا کے تابع ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے ظاہری خدا کی خدمت تو کی ہے، مگر پھر بھی نہ تو اسے جانتے ہیں اور نہ ہی اس کے تابع ہیں، ان میں سچائی نہیں ہے۔ ایسے لوگ گناہ گار ہیں اور گناہ گار بے شک عذاب کا نشانہ ہوں گے؛ مزید برآں، انھیں ان کے برے کاموں کے مطابق سزا دی جائے گی۔ خدا انسانوں کے ایمان لانے کے لیے ہے اور وہ ان کی اطاعت کے لائق بھی ہے۔ وہ لوگ جو صرف مبہم اور پوشیدہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں ایسے لوگ ہیں جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور خدا کے تابع ہونے سے قاصر ہیں۔ اگر یہ لوگ اب بھی اس وقت تک ظاہری خدا پر ایمان لانے پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر سکتے جب تک کہ اس کی فتح کا کام ختم نہ ہو جائے اور نافرمانی کرتے رہیں اور اس خدا کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں جو جسم میں نظر آتا ہے تو یہ "مبہمی" بے شک، تباہی کا سامان بن جائیں گے – یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے تم میں سے کوئی فرد جو زبانی طور پر مجسم خدا کو پہچانتا ہے لیکن مجسم خدا کے حضور سر تسلیم خم کرنے کی سچائی پر عمل نہیں کر سکتا تو آخر کار اسے باہر نکال دیا جائے گا اور وہ تباہ کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، جو کوئی بھی زبانی طور پر مجسم خدا کو پہچانتا ہے، اس کی طرف سے بیان کردہ سچائی کو کھاتا اور پیتا ہے جبکہ مبہم اور پوشیدہ خدا کی تلاش بھی کرتا ہے، تو وہ یقینی طور پر تباہی کا نشانہ بنے گا۔ ان لوگوں میں سے کوئی بھی اس وقت تک نہیں رہ سکے گا جب تک کہ خدا کے کام کے ختم ہونے کے بعد سکون کا وقت نہیں آئے گا اور نہ ہی ایسے لوگوں کی طرح کوئی بھی شخص سکون کے اس وقت میں رہ سکتا ہے۔ شیطانی لوگ وہ ہیں جو سچائی پر عمل نہیں کرتے ہیں؛ ان کا جوہر خدا کی مخالفت اور نافرمانی میں سے ایک ہے اور وہ اس کے سامنے جھکنے کا ذرہ برابر بھی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ آیا تیرے پاس سچائی ہے یا نہیں اور آیا تو خدا کی مخالفت کرتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار تیرے جوہر پر ہے، نہ کہ تیری ظاہری شکل پر اور نہ اس پر کہ تو کبھی کبھار کس طرح بات کرتا ہے یا کیسا طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ کسی فرد کو تباہ کیا جائے گا یا نہیں اس کا تعین اس کے جوہر سے ہوتا ہے؛ اس کا فیصلہ اس جوہر کے مطابق ہوتا ہے جو اس کے طرز عمل اور سچائی کی تلاش سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان لوگوں میں سے جو کام کرنے میں ایک دوسرے کے برابر ہیں اور جو اسی طرح کے کام کرتے ہیں، اور وہ لوگ جن کے انسانی جوہر اچھے ہیں اور جو سچائی کے حامل ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنھیں باقی رہنے کی اجازت دی جائے گی، جبکہ وہ لوگ جن کے انسانی جوہر برے ہیں اور جو ظاہری خدا کی نافرمانی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو تباہی کا نشانہ بنیں گے۔ نوع انسانی کی منزل سے متعلق خدا کے تمام کام یا کلام ہر فرد کے جوہر کے مطابق مناسب طریقے سے لوگوں کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ ذرا سا بھی سہو نہیں ہو گا اور نہ ہی کوئی غلطی کی جائے گی۔ یہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب لوگ ایسا کام کرتے ہیں جس میں انسانی جذبات یا ان کے معنی شامل ہوتے ہیں۔ خدا جو کام کرتا ہے وہ سب سے زیادہ مناسب ہے۔ وہ قطعی طور پر کسی مخلوق کے خلاف جھوٹے دعوے نہیں کرتا۔ اس وقت بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نوع انسانی کے مستقبل کی منزل کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور جو میرے کلام پر یقین نہیں کرتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو ایمان نہیں لاتے اور جو لوگ سچائی پر عمل نہیں کرتے، وہ بدروحیں ہیں!

آج کل جو لوگ تلاش کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ دو بالکل مختلف قسم کے لوگ ہیں جن کی منزلیں بھی بہت مختلف ہیں۔ وہ لوگ جو سچ کے علم کی پیروی کرتے ہیں اور سچائی پر عمل کرتے ہیں وہی لوگ ہیں جن کو خدا نجات دے گا۔ وہ لوگ جو سچا طریقہ نہیں جانتے وہ بدروحیں اور دشمن ہیں؛ وہ بڑے فرشتے کی اولاد ہیں اور تباہی کا سامان ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو ایک مبہم خدا کے متقی ایمان دار ہیں – کیا وہ بھی بدروحیں نہیں ہیں؟ وہ لوگ جو اچھے ضمیر کے مالک ہیں لیکن سچے راستے کو قبول نہیں کرتے وہ بدروحیں ہیں۔ ان کا جوہر خدا کے خلاف مزاحمت والا ہے۔ جو لوگ سچے راستے کو قبول نہیں کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں اور اگر ایسے لوگ بہت سی تکالیف برداشت کر بھی لیں تو بھی وہ تباہ ہو جائیں گے۔ وہ تمام لوگ جو دنیا کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، جو اپنے والدین کے ساتھ علیحدگی برداشت نہیں کر سکتے ہیں اور جو اپنی جسمانی لذتوں کو چھوڑنا برداشت نہیں کر سکتے ہیں وہ خدا کے نافرمان ہیں اور وہ سب تباہی کا سامان ہوں گے۔ جو کوئی مجسم خدا پر ایمان نہیں لاتا وہ شیطانی ہے اور مزید یہ کہ وہ تباہ ہو جائے گا- وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں لیکن سچائی پر عمل نہیں کرتے، وہ جو مجسم خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور جو خدا کے وجود پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتے، وہ بھی تباہی کا سامان ہوں گے۔ وہ تمام لوگ جنھیں باقی رہنے کی اجازت دی جائے گی یہ وہ لوگ ہیں جو پاکیزہ بنائے جانے کے مصائب سے گزر چکے ہیں اور ثابت قدم رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے واقعی آزمائشوں کو برداشت کیا ہے۔ جو کوئی خدا کو نہیں پہچانتا وہ دشمن ہے یعنی جو کوئی بھی مجسم خدا کو نہیں پہچانتا، چاہے وہ اس دھارے کے اندر ہو یا باہر، وہ مسیح مخالف ہے! شیطان کون ہے، بدروحیں کون ہیں اور خدا کے دشمن کون ہیں، اگر وہ خدا کی مخالفت کرنے والے، خدا پر ایمان نہ رکھنے والے نہیں ہیں تو پھر اور کون ہیں؟ کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو خدا کی نافرمانی کرتے ہیں؟ کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں پھر بھی ان میں سچائی کی کمی ہے؟ کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو محض نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کی گواہی دینے سے قاصر رہتے ہیں؟ تو اب بھی ان بدروحوں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے اور محبت رکھتا ہے لیکن اس معاملے میں کیا تو شیطان کے ساتھ نیک نیتی نہیں رکھتا ہے؟ کیا تو بدروحوں کے ساتھ اتحاد میں نہیں ہے؟ اگر لوگ آج کل بھی نیکی اور بدی میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں اور خدا کی مرضی کو تلاش کرنے کے ارادے کے بغیر آنکھیں بند کر کے محبت اور رحم کرنے میں لگے رہیں گے یا کسی بھی طرح سے خدا کے ارادوں کو اپنے ارادے سمجھ کر اپناتے رہیں گے تو ان کا انجام اور بھی بدتر ہو جائے گا۔ جو کوئی جسمانی خدا پر ایمان نہیں لاتا وہ خدا کا دشمن ہے۔ اگر تو کسی دشمن کے ساتھ اخلاق سے پیش آ سکتا ہے اور محبت رکھ سکتا ہے تو کیا پھر تجھ میں راستبازی کے احساس کی کمی نہیں ہے؟ اگر تو ان لوگوں سے ہم آہنگی رکھتا ہے جن سے میں نفرت کرتا ہوں اور جن سے میں اختلاف کرتا ہوں اور پھر بھی تو ان سے محبت یا ذاتی جذبات رکھتا ہے تو کیا تو نافرمان نہیں ہے؟ کیا تو جان بوجھ کر خدا کی مخالفت نہیں کر رہا ہے؟ کیا ایسا شخص سچائی کا حامل ہے؟ اگر لوگ دشمنوں سے اخلاق سے پیش آتے ہیں، بدروحوں سے محبت کرتے ہیں اور شیطان کے لیے رحم کے جذبات رکھتے ہیں تو کیا وہ جان بوجھ کر خدا کے کام میں خلل نہیں ڈال رہے ہیں؟ وہ لوگ جو صرف یسوع پر ایمان رکھتے ہیں اور آخری ایام میں مجسم خدا پر ایمان نہیں لاتے ہیں اور ساتھ ہی وہ لوگ جو زبانی طور پر مجسم خدا پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن برے کام کرتے ہیں، وہ سب مسیح مخالف ہیں، ان لوگوں کا تو ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے جو خدا پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں۔ یہ سب لوگ تباہی کا سامان ہوں گے۔ وہ معیار جس کے ذریعے انسان دوسرے انسانوں کی جانچ کرتے ہیں وہ ان کے طرز عمل پر مبنی ہوتا ہے؛ وہ لوگ جن کا طرز عمل اچھا ہے وہ نیک ہیں اور جن کا طرز عمل قابل نفرت ہے وہ خبیث ہیں۔ وہ معیار جس کے ذریعے خدا انسانوں کے فیصلے کرتا ہے اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ آیا ان کا جوہر خدا کے تابع ہے یا نہیں۔ جو شخص خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے وہ نیک ہے، جبکہ جو نہیں کرتا وہ دشمن اور خبیث ہے، اس سے قطع نظر کہ اس شخص کا رویہ اچھا ہے یا برا اور اس سے قطع نظر کہ اس کی بات صحیح ہے یا غلط۔۔ کچھ لوگ مستقبل میں اچھی منزل حاصل کرنے کے لیے اچھے کاموں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ اچھی منزل حاصل کرنے کے لیے اچھے الفاظ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہر کوئی غلطی سے یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا لوگوں کے رویے کو دیکھنے کے بعد یا ان کی تقریر سننے کے بعد ان کے نتائج کا تعین کرتا ہے؛ لہٰذا بہت سے لوگ اس کا فائدہ اٹھا کر خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ انھیں ایک عارضی کرم عطا کرے۔ مستقبل میں جو لوگ سکون کی حالت میں زندہ رہیں گے وہ سب مصیبت کے دن کو برداشت کر چکے ہوں گے اور خدا کے لیے گواہی بھی دے چکے ہوں گے؛ یہ سب ایسے لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے فرائض پورے کیے ہیں اور جنھوں نے جان بوجھ کر خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے۔ وہ لوگ جو محض اس موقع کو سچ پر عمل کرنے سے گریز کرنے کی نیت سے محض خدمت کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں انھیں باقی رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ خدا کے پاس ہر فرد کے انجام کے انتظام کے لیے مناسب معیار ہیں۔ وہ ان فیصلوں کو محض کسی کے قول و فعل کے مطابق نہیں کرتا اور نہ ہی وہ ان فیصلوں کو اس بنیاد پر کرتا ہے کہ ایک ہی مدت کے دوران انسان کس طرح عمل کرتا ہے۔ وہ کسی کی ماضی میں کی گئی اپنی خدمت کی وجہ سے اس کے برے طرز عمل کے بارے میں بالکل نرم نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ خدا کے لیے کسی کے ایک مرتبہ کیے گئے خرچ کی وجہ سے اسے موت سے بچائے گا۔ کوئی بھی اپنی برائی کے عذاب سے بچ نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی ان کے برے سلوک پر پردہ ڈال کر تباہی کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ اگر لوگ صحیح معنوں میں اپنا فرض ادا کر سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وفادار ہیں اور انعامات کے خواہاں نہیں ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ برکت حاصل کرتے ہیں یا بدقسمتی کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر لوگ برکتوں کو دیکھ کر خدا سے وفادار ہوں لیکن جب وہ کوئی برکت نہ دیکھ سکیں تو اپنا ایمان کھو بیٹھیں اور آخر میں اگر، وہ خدا کے لیے گواہی دینے یا خود پر واجب فرائض کو پورا کرنے سے قاصر رہیں تو اس کے باوجود کہ انھوں نے پہلے ایک مرتبہ خدا کی پرخلوص خدمت کی تھی وہ پھر بھی تباہی کا نشانہ بنیں گے۔ مختصر یہ کہ خبیث لوگ ہمیشہ کے لیے زندہ نہیں رہ سکتے اور نہ ہی وہ سکون میں داخل ہو سکتے ہیں؛ صرف راستباز ہی سکون کے حامل ہیں۔ ایک بار جب نوع انسانی صحیح راستے پر آجائے گی تو لوگوں کی انسانی زندگی معمول پر آجائے گی۔ وہ سب اپنے اپنے فرائض انجام دیں گے اور خدا کے ساتھ مکمل طور پر وفادار ہوں گے۔ وہ اپنی نافرمانی اور اپنے بدعنوان مزاجوں کو مکمل طور پر ترک کر دیں گے اور وہ خدا کے لیے ہی زندہ رہیں گے اور خدا کی وجہ سے ہی، نافرمانی اور مزاحمت دونوں سے پاک رہیں گے۔ وہ سب مکمل طور پر خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ خدا اور نوع انسانی کی زندگی ہو گی۔ یہ بادشاہی کی زندگی ہو گی اور یہ سکون کی زندگی ہو گی۔

وہ لوگ جو اپنے مکمل طور پر بے دین بچوں اور رشتہ داروں کو کلیسیا میں گھسیٹ کر لاتے ہیں وہ سب انتہائی خود غرض ہیں اور وہ صرف رحم دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ صرف محبت کرنے والا ہونے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں اور اس سے قطع نظر کہ آیا یہ خدا کی مرضی ہے یا نہیں۔ کچھ لوگ اپنی بیویوں کو خدا کے سامنے لاتے ہیں یا اپنے والدین کو خدا کے سامنے گھسیٹ کر لاتے ہیں اور چاہے روح القدس اس سے اتفاق کرتی ہے یا نہیں یا ان میں کام کر رہی ہے یا نہیں، وہ آنکھیں بند کر کے خدا کے لیے "باصلاحیت لوگوں کو اپنانے" کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ان ایمان نہ رکھنے والوں کے ساتھ رحم دلی کرنے سے کیا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ یہاں تک کہ اگر وہ، جو روح القدس کی موجودگی کے بغیر ہیں، خدا کی پیروی کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، تب بھی، جیسا کہ کوئی یقین کرتا ہے، وہ نجات نہیں پا سکتے۔ جو لوگ نجات حاصل کر سکتے ہیں اصل میں انہیں حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ لوگ جو روح القدس کے کام اور آزمائشوں سے نہیں گزرے ہیں اور مجسم خدا کی طرف سے کامل نہیں کیے گئے ہیں، وہ مکمل ہونے کے بالکل قابل نہیں ہیں۔ لہٰذا، جس لمحے سے وہ برائے نام خدا کی پیروی کرنا شروع کرتے ہیں، ان لوگوں کے پاس روح القدس کی موجودگی کا فقدان ہوتا ہے۔ ان کے حالات اور اصل حالتوں کی روشنی میں، انھیں بالکل مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح، روح القدس ان پر زیادہ توانائی خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور وہ انھیں کوئی آگہی فراہم نہیں کرتی ہے یا کسی بھی طرح سے ان کی راہنمائی نہیں کرتی ہے؛ وہ فقط ان کو پیروی جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے اور بالآخر ان کے انجام کو ظاہر کر دے گی- یہ کافی ہے۔ نوع انسانی کا جوش و خروش اور ارادے شیطان کی طرف سے آتے ہیں اور یہ چیزیں کسی بھی طرح سے روح القدس کے کام کو مکمل نہیں کر سکتیں۔ اس سے قطع نظر کہ لوگ کس طرح کے ہیں، ان کے پاس روح القدس کا کام ہونا ضروری ہے۔ کیا انسان انسانوں کو مکمل بنا سکتے ہیں؟ ایک شوہر اپنی بیوی سے محبت کیوں کرتا ہے؟ ایک بیوی اپنے شوہر سے محبت کیوں کرتی ہے؟ بچے اپنے والدین کے ساتھ فرمانبرداری سے کیوں پیش آتے ہیں؟ والدین اپنے بچوں کے ساتھ اتنی محبت کیوں کرتے ہیں؟ اصل میں لوگ کس قسم کے ارادے رکھتے ہیں؟ کیا ان کا ارادہ اپنے منصوبوں اور خود غرضی کی خواہشات کو پورا کرنے کا نہیں ہے؟ کیا وہ واقعی خدا کی انتظامی منصوبہ بندی کی خاطر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کیا وہ واقعی خدا کے کام کی خاطر کام کر رہے ہیں؟ کیا ان کا ارادہ ایک مخلوق کے فرائض کو پورا کرنا ہے؟ ان لوگوں نے جب سے خدا پر ایمان لانا شروع کیا ہے، وہ روح القدس کی موجودگی کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، وہ کبھی بھی روح القدس کا کام حاصل نہیں کر سکتے؛ یہ لوگ یقینی طور پر تباہ ہونے والا سامان ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کسی کے دل میں ان کے لیے کتنی ہی محبت ہے، یہ روح القدس کے کام کی جگہ نہیں لے سکتی ہے۔ لوگوں کا جوش و خروش اور محبت انسانی ارادوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن خدا کے ارادوں کی نمائندگی نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ خدا کے کام کا متبادل ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ان لوگوں کی طرف محبت یا رحم کی ممکنہ حد تک بڑی مقدار کو بھی پیش کرتا ہے جو برائے نام خدا پر یقین رکھتے ہیں اور خدا پر ایمان لانے کا اصل مطلب جانے بغیر اس کی پیروی کرنے کا دکھاوا کرتے ہیں تو بھی وہ خدا کی ہمدردی حاصل نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ روح القدس کا کام حاصل کریں گے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو خلوص دل سے خدا کی پیروی کرتے ہیں مگر اچھی صلاحیت کے حامل نہیں ہیں اور بہت سی سچائیوں کو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں، تو وہ کبھی کبھار روح القدس کے کام کو حاصل کر سکتے ہیں؛ تاہم وہ لوگ جو کافی اچھی صلاحیت کے حامل ہیں لیکن اخلاص کے ساتھ یقین نہیں رکھتے، وہ روح القدس کی موجودگی بالکل بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں کے پاس نجات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ خدا کا کلام پڑھتے ہیں یا کبھی کبھار وعظ سنتے ہیں یا یہاں تک کہ خدا کی تعریف کے گیت گاتے ہیں تو وہ آخرکار سکون کے وقت تک زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ آیا لوگ خلوص دل سے جستجو کرتے ہیں یا نہیں اس کا تعین اس بات سے نہیں ہوتا کہ دوسرے ان کی جانچ کیسے کرتے ہیں یا آس پاس کے لوگ انھیں کس طرح دیکھتے ہیں، بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آیا روح القدس ان پر کام کرتی ہے یا نہیں اور آیا انھوں نے روح القدس کی موجودگی حاصل کر لی ہے یا نہیں۔ مزید برآں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا ان کے مزاج بدلتے ہیں یا نہیں اور اس بات پر ہے کہ آیا انھوں نے ایک خاص مدت کے دوران روح القدس کے کام سے گزرنے کے بعد خدا کا کوئی علم حاصل کیا ہے یا نہیں۔ اگر روح القدس کسی شخص پر کام کرتی ہے تو اس شخص کا مزاج بتدریج تبدیل ہو جائے گا اور خدا پر ایمان لانے کے بارے میں اس کا نقطہ نظر بتدریج خالص ہو جائے گا۔ اس سے قطع نظر کہ لوگ کتنے عرصے تک خدا کی پیروی کرتے ہیں، جب تک کہ وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ روح القدس ان پر کام کر رہی ہے۔ اگر وہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روح القدس ان پر کام نہیں کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ لوگ کوئی خدمت انجام دیتے ہیں تو، جو چیز انھیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ برکات حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ صرف کبھی کبھار خدمت کرنا ان کے مزاج میں تبدیلی دیکھنے کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔ آخر کار، وہ پھر بھی تباہ ہو جائیں گے، کیونکہ بادشاہی میں خدمت کرنے والوں کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی ایسے شخص کی ضرورت ہو گی جس کا مزاج ان لوگوں کی خدمت کے لیے تبدیل نہیں ہوا ہے جو کامل ہو چکے ہیں اور جو خدا کے وفادار ہیں۔ وہ کلام جو ماضی میں کہا گیا تھا، "جب کوئی خداوند پر ایمان رکھتا ہے تو قسمت اس کے پورے خاندان پر مسکراتی ہے،" یہ فضل کے دور کے لیے موزوں ہیں لیکن نوع انسانی کی منزل سے غیر متعلق ہیں۔ وہ صرف فضل کے دور کے دوران ایک مرحلے کے لیے مناسب تھے۔ ان الفاظ کا مفہوم ان امن اور مادی نعمتوں کی طرف تھا جن سے لوگ فیض یاب ہوئے تھے؛ ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خداوند پر ایمان رکھنے والے کا پورا خاندان نجات پائے گا اور نہ ہی ان کا مطلب یہ تھا کہ جب کسی کو برکات ملتی ہیں تو اس کے پورے خاندان کو بھی سکون میں لایا جا سکتا ہے۔ کسی کو برکات ملتی ہیں یا مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تعین اس کے جوہر کے مطابق ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایسے عام جوہر کے مطابق جس کا اشتراک وہ دوسروں کے ساتھ کر سکتا ہے۔ بادشاہی میں اس طرح کے قول یا اصول کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص بالآخر زندہ رہنے کے قابل ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے خدا کے تقاضوں کو پورا کیا ہے اور اگر وہ آخر کار سکون کے وقت تک باقی رہنے کے قابل نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی کر چکا ہے اور خدا کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔ ہر ایک کے پاس ایک مناسب منزل ہے۔ ان منزلوں کا تعین ہر فرد کے جوہر کے مطابق کیا جاتا ہے اور ان کا دوسرے لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ایک بچے کے برے رویے کو اس کے والدین کو منتقل نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک بچے کی راستبازی کا اس کے والدین کے ساتھ اشتراک کیا جا سکتا ہے۔ والدین کے برے رویے کو بچوں کی طرف منتقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی والدین کی راستبازی کا ان کے بچوں کے ساتھ اشتراک کیا جا سکتا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ کوئی بھی کسی دوسرے شخص کا متبادل نہیں ہوسکتا ہے؛ یہی راستبازی ہے۔ انسان کے نقطہ نظر سے اگر والدین کو نعمتیں ملتی ہیں تو ان کی اولاد کو بھی اس قابل ہونا چاہیے اور اگر بچے برائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان کے والدین کو ان گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ یہ ایک انسانی نقطہ نظر اور چیزوں کو کرنے کا ایک انسانی طریقہ ہے؛ یہ خدا کا نقطہ نظر نہیں ہے۔ ہر ایک کے نتائج کا تعین اس جوہر کے مطابق کیا جاتا ہے جو اس کے طرز عمل سے آتا ہے اور اس کا تعین ہمیشہ مناسب طریقے سے کیا جاتا ہے۔ کوئی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کسی کو دوسرے کی جگہ سزا نہیں مل سکتی۔ یہ حتمی ہے۔ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ وہ اپنے بچوں کی جگہ نیک کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی بچے کی اپنے والدین سے تابع فرمان محبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کی جگہ نیک اعمال انجام دے سکتے ہیں۔ یہی ان الفاظ کا حقیقی مفہوم ہے "پھر دو میدان میں ہوں گے؛ ایک کو لے لیا جائے گا اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے گا۔ مل میں دو عورتیں چکی پیس رہی ہوں گی؛ ایک کو لے لیا جائے گا اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے گا۔" لوگ اپنی گہری محبت کی بنا پر اپنے گناہگار بچوں کو سکون میں لا سکتے اور نہ ہی کوئی اپنی بیوی (یا شوہر) کو اپنے نیک عمل کی بنیاد پر سکون دے سکتا ہے۔ یہ ایک انتظامی قاعدہ ہے؛ اس میں کسی کے لیے کوئی استثنا نہیں ہو سکتا۔ آخر کار نیکی کرنے والے نیک ہیں اور برائی کرنے والے برے ہیں۔ بالآخر راستبازوں کو زندہ رہنے دیا جائے گا اور بد اعمالوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ مقدس، مقدس ہیں؛ وہ گندے نہیں ہیں۔ گندے، گندے ہیں اور ان کا کوئی ایک حصہ بھی پاک نہیں ہے۔ جو لوگ ہلاک کیے جائیں گے وہ سب خبیث ہیں اور جو بچ جائیں گے وہ سب راستباز ہیں– خواہ خبیثوں کی اولاد نیک کام ہی کیوں نہ کرے اور نیکوں کے والدین برے کام ہی کیوں نہ کریں۔ ایمان رکھنے والے خاوند اور ایمان نہ رکھنے والی بیوی کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے اور ایمان رکھنے والی اولاد اور ایمان نہ رکھنے والے والدین کے مابین کوئی رشتہ نہیں ہے؛ ان دونوں قسموں کے لوگ بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ سکون میں داخل ہونے سے پہلے، ہر کسی کے جسمانی رشتہ دار ہوتے ہیں لیکن ایک بار سکون میں داخل ہونے کے بعد، اس کا کوئی جسمانی رشتہ دار نہیں ہو گا کہ جس کا ذکر کیا جا سکے۔ جو لوگ اپنا فرض ادا کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے دشمن ہیں جو ایسا نہیں کرتے؛ جو لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں اور جو اس سے نفرت کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ وہ لوگ جو سکون میں داخل ہوں گے اور جو تباہ ہو چکے ہوں گے وہ دو متضاد قسم کی مخلوقات ہیں۔ جو مخلوقات اپنے فرائض کو پورا کرتی ہیں وہ زندہ رہنے کے قابل ہوں گی، جبکہ جو اپنے فرائض کو پورا نہیں کریں گی وہ تباہی کا سامان ہوں گی؛ اس سے بھی بڑھ کر، ایسا ابدیت تک رہے گا۔ كيا تو اپنے خاوند سے محبت كرتى ہے تاكہ تو مخلوق كى حیثیت سے اپن فرض ادا كر سكے؟ کیا تو اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے تاکہ ایک مخلوق کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر سکے؟ کیا تو اپنے ایمان نہ رکھنے والے والدین کا تابع فرمان ہے تاکہ ایک مخلوق کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر پائے؟ آیا خدا پر ایمان لانے کے بارے میں انسانی نقطہ نظر صحیح ہے یا غلط؟ تو خدا پر کیوں ایمان رکھتا ہے؟ تُو کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ تُو خدا سے کیسی محبت رکھتا ہے؟ وہ لوگ جو مخلوقات کی حیثیت سے اپنے فرائض کو پورا نہیں کر سکتے اور جو پوری تندہی سے کوشش نہیں کر سکتے، وہ تباہی کا سامان بن جائیں گے۔ آج کے لوگوں کے درمیان جسمانی تعلقات موجود ہیں اور ساتھ ہی خون کی نسبت سے رفاقتیں بھی ہیں لیکن مستقبل میں، یہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ ایمان رکھنے والے اور ایمان نہ رکھنے والے ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے؛ بلکہ وہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ جو لوگ سکون میں ہوں گے وہ ایمان لائیں گے کہ خدا ہے اور وہ خدا کے تابع ہو جائیں گے اور جو لوگ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں وہ سب ہلاک ہو چکے ہوں گے۔ خاندان اب زمین پر موجود نہیں رہیں گے؛ تو پھر یہاں والدین یا بچے یا ازدواجی تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایمان اور کفر کی عین عدم مطابقت نے اس طرح کے جسمانی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا ہو گا!

پہلے نوع انسانی میں کوئی خاندان نہیں تھا؛ صرف ایک مرد اور ایک عورت موجود تھے – دو مختلف قسم کے انسان۔ کوئی ملک نہیں تھے، خاندانوں کا تو ذکر ہی کیا لیکن نوع انسانی کی بدعنوانی کے نتیجے میں، ہر طرح کے لوگوں نے خود کو انفرادی قبیلوں میں منظم کیا، جو بعد میں ممالک اور نسلوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ یہ ممالک اور نسلیں چھوٹے انفرادی خاندانوں پر مشتمل تھیں اور اس طرح، ہر طرح کے لوگوں کو زبان اور حدود میں تفریق کی بنیاد پر مختلف نسلوں میں تقسیم کیا گیا۔ دراصل، خواہ دنیا میں کتنی ہی نسلیں کیوں نہ ہوں، نوع انسانی کے اجداد ایک ہی ہیں۔ ابتدا میں انسانوں کی صرف دو قسمیں تھیں اور یہ دونوں قسمیں مردوں اور عورتوں کی تھیں۔ تاہم، خدا کے کام کی پیشرفت، تاریخ کی حرکت اور جغرافیائی تبدیلیوں کی بدولت، جو مختلف درجوں میں ہوئیں، ان دو قسم کے انسانوں سے دیگر قسم کے انسان تشکیل پائے۔ بنیاد میں، اس بات سے قطع نظر کہ کتنی نسلیں نوع انسانی کو تشکیل دے سکتی ہیں، تمام نوع انسانی اب بھی خدا کی تخلیق ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، وہ سب پھر بھی اس کی مخلوق ہیں۔ یہ سب آدم اور حوا کی اولاد ہیں؛ اگرچہ وہ خدا کے ہاتھوں سے نہیں بنائے گئے تھے، لیکن وہ سب آدم اور حوا کی اولاد ہیں، جنھیں خدا نے ذاتی طور پر پیدا کیا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کس قسم کے وجود سے تعلق رکھتے ہیں، وہ سب اس کی مخلوق ہیں؛ چونکہ وہ نوع انسانی سے تعلق رکھتے ہیں، جسے خدا کی طرف سے پیدا کیا گیا تھا، اس لیے ان کی منزل وہی ہے جو نوع انسانی کی ہونی چاہیے تھی، اور انھیں ان قوانین کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے جو انسانوں کو منظم کرتے ہیں۔ یعنی سب بدکار اور سب نیک لوگ آخر، مخلوق ہیں۔ برائی کا ارتکاب کرنے والی مخلوقات بالآخر تباہ ہو جائیں گی اور نیک اعمال انجام دینے والی مخلوقات زندہ رہیں گی۔ یہ ان دو قسم کی مخلوقات کے لیے سب سے مناسب انتظام ہے۔ بدکار اپنی نافرمانی کی وجہ سے اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ اگرچہ وہ خدا کی مخلوق ہیں، لیکن شیطان نے انھیں پکڑ لیا ہے، اور اس وجہ سے انھیں بچایا نہیں جا سکتا۔ وہ مخلوقات جو اپنے آپ کو راستبازی سے چلاتی ہیں، اس حقیقت کی بنیاد پر کہ وہ زندہ رہیں گی، اس بات سے انکار نہیں کر سکتیں کہ انھیں خدا نے پیدا کیا ہے اور پھر انھیں شیطان کے ذریعے بدعنوان ہونے کے بعد نجات ملی ہے۔ بدکار وہ مخلوق ہیں جو خدا کی نافرمان ہیں۔ وہ ایسی مخلوق ہیں جنھیں بچایا نہیں جا سکتا اور وہ پہلے ہی مکمل طور پر شیطان کے قبضے میں آ چکے ہیں۔ برائی کرنے والے بھی لوگ ہی ہیں؛ وہ ایسے انسان ہیں جو انتہائی حد تک بدعنوان ہو چکے ہیں اور جنھیں بچایا نہیں جا سکتا۔ جس طرح کہ وہ بھی مخلوق ہی ہیں، نیک عمل کرنے والے لوگ بھی بدعنوان ہو چکے ہیں لیکن یہ وہ انسان ہیں جو اپنے بدعنوان مزاجوں سے آزاد ہونے کے لیے تیار ہیں اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ راستباز لوگ راستبازی سے بھرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ انھوں نے نجات حاصل کی ہے اور اپنے بدعنوان مزاجوں سے آزاد ہو گئے ہیں؛ وہ خدا کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتے ہیں۔ وہ آخر میں ثابت قدمی سے کھڑے رہیں گے، اگرچہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شیطان کی طرف سے کبھی بھی بد عنوان نہیں ہوئے ہیں۔ خدا کا کام ختم ہونے کے بعد، اس کی تمام مخلوقات میں، وہ لوگ ہوں گے جو تباہ ہو جائیں گے اور وہ لوگ ہوں گے جو زندہ رہیں گے۔ یہ اس کے انتظامی کام کا ایک ناگزیر پہلو ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ بدکاروں کو زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؛ وہ لوگ جو آخر تک خدا کی تابعداری اور پیروی کرتے ہیں ان کا زندہ رہنا یقینی ہے۔ جیسے کہ یہ کام نوع انسانی کے انتظام کا ہے، تو وہاں وہ لوگ ہوں گے جو باقی رہیں گے اور وہ جو نکال باہر کیے جائیں گے۔ یہ مختلف قسم کے لوگوں کے لیے مختلف انجام ہیں اور وہ خدا کی مخلوقات کے لیے سب سے زیادہ مناسب انتظامات ہیں۔ بنی نوع انسان کے لیے خدا کا حتمی انتظام یہ ہے کہ خاندانوں کو توڑ کر، نسلی امتیاز کو کچل کر اور قومی سرحدوں کو توڑ کر خاندانوں یا قومی سرحدوں کے بغیر ایک انتظام میں تقسیم کیا جائے، کیونکہ انسان، آخرکار، ایک آباؤ اجداد کی نسل سے ہیں اور خدا کی تخلیق ہیں۔ مختصر یہ کہ بدکار مخلوقات سب تباہ ہو جائیں گی اور وہ مخلوقات جو خدا کی فرمانبرداری کرتی ہیں زندہ رہیں گی۔ اس طرح، آنے والے سکون کے وقت میں کوئی خاندان، کوئی ملک اور خاص طور پر کوئی نسلیں نہیں ہوں گی۔ اس قسم کی نوع انسانی، نوع انسانی کی مقدس ترین قسم ہو گی۔ ابتدا میں آدم اور حوا کو اصل میں اس لیے پیدا کیا گیا تھا تاکہ نوع انسانی زمین کی ہر چیز کی دیکھ بھال کر سکے؛ انسان پہلے ہر چیز کے مالک تھے۔ انسانوں کو پیدا کرنے میں یہوواہ کا ارادہ یہ تھا کہ انھیں زمین پر موجود رہنے دیا جائے اور وہ اس پر موجود تمام چیزوں کا خیال رکھیں، کیونکہ نوع انسانی ابتدا میں بدعنوان نہیں ہوئی تھی اور برائی کے ارتکاب کے قابل نہیں تھی۔ تاہم، انسانوں کے بدعنوان ہونے کے بعد، وہ اب ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے والے نہیں تھے۔ خدا کی نجات کا مقصد نوع انسانی کے اس فعل کو بحال کرنا، بنی نوع انسان کی اصل عقل اور اصل فرمانبرداری کو بحال کرنا ہے؛ سکون میں نوع انسانی اس نتیجے کی نمائندگی کرے گی جو خدا اپنی نجات کے کام کے ساتھ حاصل کرنے کی امید کرتا ہے۔ اگرچہ یہ اب عدن کے باغ کی طرح کی زندگی نہیں ہو گی لیکن ان کا جوہر ایک ہی ہو گا؛ نوع انسانی اب محض ان کی پہلے جیسی بدعنوان فطرت والی نہیں رہے گی بلکہ ایک ایسی نوع انسانی ہو گی جو بدعنوان ہو گئی تھی اور جس نے بعد میں نجات حاصل کر لی۔ یہ لوگ جنھوں نے نجات حاصل کر لی ہے بالآخر (یعنی خدا کا کام مکمل ہونے کے بعد) سکون میں داخل ہوں گے۔ اسی طرح جن لوگوں کو سزا دی جائے گی ان کے انجام بھی آخر میں پوری طرح ظاہر ہو جائیں گے اور وہ صرف خدا کے کام کے ختم ہونے کے بعد ہی تباہ کیے جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں، اس کا کام ختم ہونے کے بعد، بدکار اور نجات پانے والے سب بے نقاب ہو جائیں گے، کیونکہ ہر قسم کے لوگوں کو بے نقاب کرنے کا کام (چاہے وہ بدکار ہوں یا نجات پانے والوں میں سے) بیک وقت ہر ایک پر کیا جائے گا۔ بدکاروں کو جنھیں کہ باہر نکال دیا جائے گا اور جن کو باقی رہنے کی اجازت دی جائے گی وہ بیک وقت ظاہر کیے جائیں گے۔ لہٰذا ہر قسم کے لوگوں کے نتائج ایک ہی وقت میں سامنے آئیں گے۔ خدا بدکاروں کو ایک طرف رکھنے اور انھیں ایک وقت میں انصاف کرنے یا تھوڑی سی سزا دینے سے پہلے، ان لوگوں کے ایک گروہ کو جو نجات دیے گئے ہیں سکون میں جانے کی اجازت نہیں دے گا؛ ایسا حقائق سے مطابقت نہیں رکھے گا۔ جب بدکار تباہ ہو جائیں گے اور جو زندہ بچ سکتے ہیں وہ سکون میں داخل ہو جائیں گے تو پوری کائنات میں خدا کا کام مکمل ہو جائے گا۔ برکت پانے والوں اور مصیبت میں مبتلا ہونے والوں کے مابین ترجیح کی کوئی ترتیب نہیں ہو گی؛ جو لوگ نعمتیں حاصل کرتے ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے، جبکہ جو لوگ مصیبت میں مبتلا ہیں وہ ہمیشہ کے لیے ہلاک ہو جائیں گے۔ کام کے یہ دونوں مراحل بیک وقت مکمل کیے جائیں گے۔ بالکل نافرمان لوگوں کے وجود کی وجہ سے ہی فرمانبرداروں کی راستبازی ظاہر ہو جائے گی اور عین اس وجہ سے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے نعمتیں حاصل کی ہیں کہ بدکاروں کو ان کے برے برتاؤ کی وجہ سے جو مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ ظاہر ہو جائے گا۔ اگر خدا بدکاروں کو ظاہر نہ کرتا تو وہ لوگ جو سچے دل سے خدا کے فرمانبردار ہیں سورج کو کبھی نہ دیکھ پاتے۔ اگر خدا نے اپنے فرمانبرداروں کو مناسب منزل تک نہ پہنچایا تو جو لوگ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں وہ اپنے مستحق عذاب کو حاصل نہ کر سکیں گے۔ یہ خدا کے کام کا طریقہ کار ہے۔ اگر اس نے برائی کو سزا دینے اور نیکی کا بدلہ دینے کا یہ کام انجام نہ دیا تو اس کی مخلوق کبھی بھی اپنی اپنی منزلوں میں داخل نہ ہو سکے گی۔ ایک بار جب نوع انسانی سکون میں داخل ہو جائے گی، تو بدکار تباہ ہو جائیں گے اور ساری نوع انسانی سیدھی راہ پر چل پڑے گی؛ تمام اقسام کے لوگ اپنے کیے جانے والے افعال کی مطابقت سے اپنی اپنی قسم کے ساتھ ہو جائیں گے۔ تو تب ہی یہ نوع انسانی کے سکون کا دن ہوگا، یہ نوع انسانی کی نشوونما کے لیے ناگزیر رجحان ہو گا اور جب نوع انسانی سکون میں داخل ہو جائے گی تو خدا کی عظیم اور حتمی کامیابی تکمیل تک پہنچے گی؛ یہ اس کے کام کا آخری حصہ ہو گا۔ یہ کام نوع انسانی کے جسم کی تمام زوال پذیر زندگی کے ساتھ ساتھ بدعنوان نوع انسانی کی زندگی کو بھی ختم کر دے گا۔ اس کے بعد انسان ایک نئی دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔ اگرچہ تمام انسان جسم میں رہیں گے، لیکن اس زندگی کے جوہر اور بدعنوان نوع انسانی کی زندگی کے درمیان واضح فرق ہوں گے۔ اس وجود کی اہمیت اور بدعنوان نوع انسانی کے وجود کی اہمیت بھی مختلف ہے۔ اگرچہ یہ کسی نئی قسم کے انسان کی زندگی نہیں ہو گی لیکن اسے ایک ایسی نوع انسانی کی زندگی کہا جا سکتا ہے جس نے نجات حاصل کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زندگی بھی ہے جس میں انسانیت اور عقل کو دوبارہ حاصل کیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی خدا کی نافرمانی کرتے تھے، جنھیں خدا نے فتح کیا اور انھوں نے پھر اس کے وسیلے سے نجات پائی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا کی توہین کی اور بعد میں اس کی گواہی دی۔ جب وہ اس کی آزمائش سے گزر جائیں گے اور بچ جائیں گے تو ان کا وجود سب سے بامعنی وجود ہو گا؛ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے شیطان کے سامنے خدا کی گواہی دی اور وہ انسان ہیں جو زندہ رہنے کے لائق ہیں۔ وہ لوگ جو تباہ ہو جائیں گے یہ وہ ہیں جو خدا کی گواہی نہیں دے سکتے اور زندگی جاری رکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی تباہی ان کے برے طرز عمل کا نتیجہ ہو گی اور اس طرح کی تباہی ان کے لیے بہترین منزل ہے۔ مستقبل میں جب نوع انسانی خوبصورت دنیا میں داخل ہو گی تو شوہر اور بیوی کے درمیان، باپ اور بیٹی کے درمیان یا ماں اور بیٹے کے درمیان کوئی بھی ایسا رشتہ نہیں ہو گا جو لوگ تصور کرتے ہیں کہ انھیں مل پائے گا۔ اس وقت، ہر انسان اپنی اپنی قسم کے ساتھ ہو گا اور خاندان پہلے ہی بکھر چکے ہوں گے۔ مکمل طور پر ناکام ہونے کے بعد، شیطان پھر کبھی نوع انسانی کو پریشان نہیں کرے گا اور انسانوں میں اب بدعنوان شیطانی مزاج نہیں ہوں گے۔ وہ نافرمان لوگ پہلے ہی تباہ ہو چکے ہوں گے اور صرف فرمانبردار لوگ ہی باقی رہ جائیں گے۔ اس طرح، بہت کم خاندان صحیح و سالم بچیں گے؛ لہذا جسمانی تعلقات کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟ جب نوع انسانی کے جسم کی پچھلی زندگی پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے گی؛ تو پھر لوگوں کے درمیان جسمانی تعلقات کیسے قائم رہ سکتے ہیں؟ بدعنوان شیطانی مزاجوں کے بغیر، انسانی زندگی اب ماضی کی پرانی زندگی نہیں ہو گی، بلکہ ایک نئی زندگی ہو گی۔ والدین بچوں کو کھو دیں گے اور بچے والدین کو کھو دیں گے۔ شوہر بیویوں کو کھو دیں گے اور بیویاں شوہروں کو کھو دیں گی۔ یہ جسمانی تعلقات جو فی الحال لوگوں کے مابین موجود ہیں، جب ہر کوئی سکون میں داخل ہو جائے گا تو پھر یہ موجود نہیں رہیں گے۔ صرف اس قسم کی نوع انسانی ہی راستبازی اور تقدس کی حامل ہو گی؛ صرف اس طرح کی نوع انسانی ہی خدا کی عبادت کر سکتی ہے۔

خدا نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور انھیں زمین پر رکھا اور اس کے بعد سے اس نے ان کی راہنمائی کی ہے۔ اس کے بعد اس نے انھیں بچایا اور نوع انسانی کے لیے گناہ کے کفارے کے طور پر ان کی خدمت کی۔ آخر میں، اسے پھر نوع انسانی کو فتح کرنا ہو گا، انسانوں کو مکمل طور پر بچانا ہو گا اور انھیں ان کی اصل شبیہ میں بحال کرنا ہو گا۔ یہ وہ کام ہے جس میں وہ شروع سے ہی مصروف رہا ہے – نوع انسانی کو ان کی اصل شبیہہ اور شباہت میں بحال کرنا۔ خدا اپنی بادشاہی قائم کرے گا اور انسانوں کی اصل شباہت کو بحال کرے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا زمین پر اور تمام مخلوقات میں اپنا اختیار بحال کرے گا۔ نوع انسانی نے اپنے خدا سے ڈرنے والے دل کے ساتھ ساتھ خدا کی مخلوقات پر شیطان کی طرف سے بدعنوان بنائے جانے کے بعد اپنی ذمہ داری کو کھو دیا، اس طرح وہ خدا کے نافرمان دشمن بن گئے۔ اس کے بعد نوع انسانی نے شیطان کے زیر تسلط زندگی بسر کی اور شیطان کے احکامات پر عمل کرتی رہی؛ اس طرح، خدا کے پاس اپنی مخلوق کے درمیان کام کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور وہ ان کے خوفزدہ احترام کو جیتنے کے قابل نہیں تھا۔ انسانوں کو خدا کی طرف سے پیدا کیا گیا تھا اور انھیں خدا کی عبادت کرنی چاہیے تھی لیکن انھوں نے اصل میں اس سے پیٹھ پھیر لی اور اس کی بجائے شیطان کی عبادت کی۔ شیطان ان کے دلوں میں بت بن گیا۔ اس طرح، خدا نے ان کے دلوں میں اپنی حیثیت کھو دی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے نوع انسانی کی اپنی تخلیق کا مقصد گنوا دیا۔ لہذا، نوع انسانی کی اپنی تخلیق کے مقصد کو بحال کرنے کے لیے، اسے ان کی اصل شباہت کو بحال کرنا ہو گا اور بنی نوع انسان کو ان کے بدعنوان مزاجوں سے چھٹکارا دلانا ہو گا۔ انسانوں کو شیطان سے واپس لینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ انھیں گناہ سے بچائے۔ صرف اسی طرح خدا بتدریج ان کی اصل شباہت اور افعال کو بحال کر سکتا ہے نیز آخر میں، اپنی بادشاہی کو بحال کر سکتا ہے۔ نافرمانی کے ان بیٹوں کی حتمی تباہی بھی کی جائے گی تاکہ انسان خدا کی بہتر عبادت کر سکیں اور زمین پر بہتر زندگی گزار سکیں۔ کیونکہ خدا نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، وہ انھیں اپنی عبادت کرنے پر مامور کرے گا کیونکہ وہ نوع انسانی کے اصل کام کو بحال کرنا چاہتا ہے، وہ اسے مکمل طور پر اور بغیر کسی ملاوٹ کے بحال کرے گا۔ اس کے اختیار کو بحال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس کی عبادت کرے اور اس کے تابع ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسانوں کو اس کی وجہ سے زندہ کرے گا اور اپنے اختیار کے نتیجے میں اس کے دشمنوں کو ہلاک کر دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے بارے میں ہر چیز کو کسی کی مزاحمت کے بغیر انسانوں کے درمیان برقرار رکھے گا۔ خدا جس بادشاہی کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ اس کی اپنی بادشاہی ہے۔ وہ جس نوع انسانی کی خواہش کرتا ہے وہ ہے جو اس کی عبادت کرے گی، وہ جو مکمل طور پر اس کے تابع ہو گی اور اس کے جاہ و جلال کو ظاہر کرے گی۔ اگر خدا بدعنوان نوع انسانی کو نہیں بچاتا ہے تو پھر نوع انسانی کی اس کی تخلیق کے پیچھے اس کے معنی کھو جائیں گے؛ انسانوں کے درمیان اس کا کوئی اختیار باقی نہیں رہے گا اور اس کی بادشاہی زمین پر باقی نہیں رہ سکے گی۔ اگر خدا ان دشمنوں کو ہلاک نہ کرے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں تو وہ اپنا پورا جاہ و جلال حاصل نہیں کر سکے گا اور نہ ہی زمین پر اپنی بادشاہی قائم کر سکے گا۔ یہ اس کے کام کی تکمیل اور اس کی عظیم کامیابی کی نشانیاں ہوں گی: نوع انسانی میں سے ان لوگوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور ان لوگوں کو سکون میں لانے کے لیے جو مکمل کیے گئے ہیں۔ جب انسانوں کو ان کی اصل شباہت میں بحال کر دیا جائے گا اور جب وہ اپنے اپنے فرائض کو پورا کر سکیں گے، اپنے اپنے مناسب مقامات پر موجود ہوں گے اور خدا کے تمام انتظامات کے تابع ہوں گے تو خدا نے زمین پر لوگوں کا ایک ایسا گروہ حاصل کر لیا ہو گا جو اس کی عبادت کرتا ہو گا اور اس نے زمین پر ایک بادشاہی بھی قائم کر لی ہو گی جو اس کی عبادت کرتی ہو گی۔ وہ زمین پر ابدی فتح حاصل کرے گا اور جو لوگ اس کے مخالف ہیں وہ ہمیشہ کے لیے ہلاک ہو جائیں گے۔ یہ نوع انسانی کو پیدا کرنے میں اس کے اصل ارادے کو بحال کرے گا۔ یہ ہر چیز کو پیدا کرنے میں اس کے ارادے کو بحال کرے گا اور یہ زمین پر، تمام چیزوں کے درمیان اور اس کے دشمنوں کے درمیان اس کے اختیار کو بھی بحال کرے گا۔ یہ اس کی مکمل فتح کی علامتیں ہوں گی۔ اس کے بعد، نوع انسانی سکون میں داخل ہو جائے گی اور ایک ایسی زندگی کا آغاز کرے گی جو صحیح راستے پر ہو گی۔ خدا بھی نوع انسانی کے ساتھ ابدی سکون میں داخل ہو جائے گا اور ایک ابدی زندگی کا آغاز کرے گا جو خود اس کے اور انسانوں دونوں کے مابین مشترکہ ہو گی۔ زمین کی گندگی اور نافرمانی ختم ہو چکی ہو گی اور تمام رونا دھونا ختم ہو چکا ہو گا اور اس دنیا میں ہر چیز جو خدا کی مخالفت کرتی ہے ختم ہو جائے گی۔ صرف خدا اور وہ لوگ جن کے لیے وہ نجات لایا ہے باقی رہیں گے؛ صرف اس کی تخلیق باقی رہے گی۔

سابقہ: انسان کی معمول کی زندگی بحال کرنا اور اسے ایک شاندار منزل تک لے جانا

اگلا: جب تک تُو یسوع کا روحانی جسم دیکھے گا، خدا دوبارہ زمین و آسمان بنا چکا ہو گا

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp