مسیح کا جوہر آسمانی باپ کی مرضی کی اطاعت ہے
مجسم خُدا کو مسیح کہا جاتا ہے، اور مسیح وہ جسم ہے جسے خدا کی روح نے اوڑھا ہے۔ یہ جسم کسی بھی دوسرے انسانی جسم سے مختلف ہے۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ مسیح گوشت اور خون سے نہیں بنا ہے؛ وہ روح کی تجسیم ہے؛ وہ عمومی انسانییت اور مکمل الوہیت، دونوں کا حامل ہے۔ اس طرح کی الوہیت کسی بھی انسان میں نہیں پائی جاتی۔ اس کی عمومی انسانیت جسم میں اس کی تمام عام سرگرمیوں کو برقرار رکھتی ہے، جبکہ اس کی الوہیت خود خدا کا کام سرانجام دیتی ہے۔ چاہے یہ اس کی انسانیت ہو یا الوہیت، دونوں آسمانی خدا کی مرضی کے تابع ہیں۔ مسیح کا جوہر روح ہے، یعنی الوہیت۔ لہذا، اس کا جوہر خود خدا کی ذات ہے؛ یہ جوہر اس کے اپنے کام میں خلل نہیں ڈالے گا، اور وہ ممکنہ طور پر ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتا جو اس کے اپنے کام کو تباہ کر دے، اور نہ ہی وہ کبھی کوئی ایسا کلام کہے گا جو اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ لہٰذا، مجسم خدا قطعاً کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جو اس کے اپنے انتظام میں خلل ڈالے۔ یہ سب لوگوں کو سمجھنا چاہیے۔ روح القدس کے کام کا جوہر انسان کو بچانا ہے، اور خدا کے اپنے انتظام کی خاطر ہے۔ اسی طرح، مسیح کا کام بھی انسان کو بچانا ہے، اور خدا کی مرضی کی خاطر ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ خدا جسم بن جاتا ہے، وہ اپنے جسم کے اندر اپنے جوہر کو محسوس کرتا ہے، اس طرح کہ اس کا جسم اس کے کام کو انجام دینے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا، خدا کی روح کے تمام کام تجسیم کے وقت مسیح کے کام سے بدل جاتے ہیں، اور مسیح کا کام تجسیم کے تمام عرصے کے دوران سب کاموں کا مرکز ہے۔ اسے کسی اور دور کے کام کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ اور چونکہ خُدا جسم بن جاتا ہے، اس لیے وہ اپنے جسم کی شناخت میں کام کرتا ہے؛ چونکہ وہ جسم میں آتا ہے، اس لیے اس کے بعد وہ جسم میں وہ کام مکمل کرتا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔ خدا کی روح ہو یا مسیح ہو، دونوں خود خدا ہیں، اور وہ وہی کام کرتا ہے جو اسے کرنا چاہیے اور وہی ذمہ داری انجام دیتا ہے جو اسے انجام دینی چاہیے۔
خُدا کی ذات کا جوہر خود اختیار رکھتا ہے، لیکن وہ مکمل طور پر اس اختیار کی اطاعت کرنے کے قابل ہے جو اُس کی طرف سے آتا ہے۔ چاہے وہ روح کا کام ہو یا جسم کا کام، کوئی کام بھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوتا ہے۔ خدا کی روح تمام مخلوقات پر حاکم ہے۔ خدا کے جوہر کے ساتھ جسم بھی اختیار کا مالک ہے، لیکن جسم میں خدا وہ تمام کام کر سکتا ہے جو آسمانی باپ کی مرضی کے تابع ہو۔ یہ کسی ایک شخص کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا یا اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ خدا خود حاکم ہے، لیکن اس کا جسم اس کے اختیار کے تابع ہوسکتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ "مسیح خُدا باپ کی مرضی کی تعمیل کرتا ہے،" تو اس سے یہی مراد ہے۔ خدا ایک روح ہے اور نجات کا کام کر سکتا ہے، کیونکہ خدا انسان بن سکتا ہے۔ بہرحال، خدا خود اپنا کام کرتا ہے؛ وہ نہ تو خلل ڈالتا ہے اور نہ ہی مداخلت کرتا ہے، اس کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ وہ ایسا کام کرے جو خود سے متصادم ہو، کیونکہ روح اور جسم کے کیے گئے کام کا جوہر ایک جیسا ہے۔ روح ہو یا جسم، دونوں ایک ہی ارادے کو پورا کرنے اور ایک ہی کام کو سنبھالنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اگرچہ روح اور جسم میں دو مختلف خصوصیات ہیں لیکن ان کے جوہر ایک جیسے ہیں؛ دونوں میں خود خدا کا جوہر ہے، اور خود خدا کی شناخت ہے۔ خدا خود نافرمانی کے عناصر کا حامل نہیں ہے؛ اس کا جوہر اچھا ہے۔ وہ مکمل خوبصورتی اور اچھائی کے ساتھ ساتھ مکمل محبت کا اظہار ہے۔ جسمانی حالت میں بھی، خُدا ایسا کچھ نہیں کرتا جو خُدا باپ کی نافرمانی ہو۔ اپنی جان قربان کرنے کی قیمت پر بھی، وہ دل و جان سے ایسا کرنے کے لیے تیار ہو گا، اور وہ کوئی دوسرا انتخاب نہیں کرے گا۔ خدا اپنی راست بازی یا اپنی اہمیت کے عناصر یا تکبر اور غرور کے عناصر کا حامل نہیں ہے؛ وہ عیاری کے عناصر سے پاک ہے۔ ہر وہ چیز جو خدا کی نافرمانی کرتی ہے شیطان کی طرف سے آتی ہے؛ شیطان تمام بدصورتیوں اور برائیوں کا منبع ہے۔ انسان میں شیطان جیسی صفات ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ مسیح کو شیطان نے بدعنوان نہیں کیا ہے، اس لیے وہ صرف خدا کی خصوصیات کا مالک ہے، اور اس میں شیطان کی کوئی بھی خصوصیت نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کام کتنا مشکل ہے یا جسم کتنا کمزور ہے، خُدا، جسم میں رہتے ہوئے، کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کرے گا جو خود خُدا کے کام میں خلل ڈالے، اس کا امکان تو اور بھی بالکل نہیں ہے کہ وہ نافرمانی کرتے ہوئے خُدا باپ کی مرضی کو ترک کر دے۔ وہ خدا باپ کی مرضی کے خلاف جانے کی بجائے جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پسند کرے گا؛ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ یسوع نے دعا میں کہا، "میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پِیالہ مُجھ سے ٹل جائے۔ تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہُوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔" لوگ اپنے انتخاب خود کرتے ہیں، لیکن مسیح ایسا نہیں کرتا۔ اگرچہ وہ خود خدا کی شناخت رکھتا ہے، پھر بھی وہ خدا باپ کی مرضی کی جستجو کرتا ہے، اور جو کچھ خدا باپ نے اس کے سپرد کیا ہے اسے جسمانی نقطہ نظر سے پورا کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے انسان حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ جو شیطان کی طرف سے آتا ہے اس میں خدا کا جوہر نہیں ہو سکتا۔ اس میں صرف وہی ہو سکتا ہے جس میں خدا کی نافرمانی اور مزاحمت ہو۔ یہ مکمل طور پر خدا کی اطاعت نہیں کر سکتا اور اس کا امکان تو بہت کم ہے کہ خوشی سے خدا کی مرضی کی اطاعت کرے۔ مسیح کے علاوہ تمام انسان خدا کی مزاحمت کا کام کر سکتے ہیں، اور کوئی ایک انسان بھی براہ راست خدا کی طرف سے سپرد کیا گیا کام نہیں کر سکتا؛ کوئی ایک بھی خدا کے انتظام کو اپنا فرض سمجھ کر انجام دینے کے قابل نہیں ہے۔ مسیح کا جوہر خدا باپ کی مرضی کے تابع ہونا ہے؛ خدا کے خلاف نافرمانی شیطان کی خصوصیت ہے۔ یہ دونوں خصلتیں مطابقت نہیں رکھتی ہیں، اور جو کوئی بھی شیطان کی صفات رکھتا ہے اسے مسیح نہیں کہا جا سکتا۔ انسان کے خدا کا کام اس کی جگہ پر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے پاس خدا کا کوئی بھی جوہر نہیں ہے۔ انسان، انسان کے ذاتی مفادات اور مستقبل کے امکانات کی خاطر خدا کے لئے کام کرتا ہے، لیکن مسیح خدا باپ کی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے۔
مسیح کی انسانیت اس کی الوہیت کے تابع ہے۔ اگرچہ وہ جسم میں ہے، لیکن اس کی انسانیت مکمل طور پر جسم کے انسان کی طرح نہیں ہے۔ اس کا اپنا منفرد کردار ہے، اور یہ بھی اس کی الوہیت کے تابع ہے۔ اس کی الوہیت میں کوئی کمزوری نہیں ہے؛ مسیح کی کمزوری اس کی انسانیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک حد تک، یہ کمزوری اس کی الوہیت کو روکتی ہے، لیکن اس طرح کی حدود ایک خاص دائرہ کار اور وقت کے اندر ہوتی ہیں، اور غیر محدود نہیں ہوتی ہیں۔ جب اس کی الوہیت کے کام کو انجام دینے کا وقت آتا ہے، تو یہ اس کی انسانیت کی پرواہ کیے بغیر کیا جاتا ہے۔ مسیح کی انسانیت مکمل طور پر اُس کی الوہیت سے ہدایت لیتی ہے۔ اس کی انسانیت کی عام زندگی کو چھوڑ کر، اس کی انسانیت کے دیگر تمام اعمال اس کی الوہیت سے متاثر اور ہدایت یافتہ ہیں۔ اگرچہ مسیح میں ایک انسانیت ہے، لیکن یہ اس کی الوہیت کے کام میں خلل نہیں ڈالتی، اور یہ بالکل اس لیے ہے کہ مسیح کی انسانیت اس کی الوہیت سے ہدایت لیتی ہے؛ اگرچہ اس کی انسانیت اس بات میں پختہ نہیں ہے کہ اسے دوسروں کے ساتھ کیسے برتاؤ کرنا ہے، لیکن یہ اس کی الوہیت کے معمول کے کام کو متاثر نہیں کرتی ہے۔ جب میں کہتا ہوں کہ اس کی انسانیت بدعنوان نہیں ہوئی ہے تو میرا مطلب یہ ہے کہ مسیح کی انسانیت کو براہ راست اس کی الوہیت کی طرف سے حکم دیا جا سکتا ہے، اور یہ کہ وہ عام انسان کی نسبت اعلیٰ شعور کا مالک ہے۔ اس کی انسانیت اس کے کام میں الوہیت کی طرف سے ہدایت لینے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے؛ اس کی انسانیت الوہیت کے کام کا اظہار کرنے کی سب سے زیادہ اہل ہے، اور اس طرح کے کام کی اطاعت کرنے کے سب سے زیادہ قابل ہے۔ جب خُدا جسمانی طور پر کام کرتا ہے تو وہ اُس فرض کو کبھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیتا جو جسم میں ایک انسان کو پورا کرنا چاہیے؛ وہ سچے دل سے آسمان پر خدا کی عبادت کرنے کے قابل ہے۔ اس کے پاس خدا کا جوہر ہے، اور اس کی شناخت خود خدا کی ہے۔ صرف اتنا ہے کہ وہ زمین پر آیا ہے اور ایک مخلوق بن گیا ہے، ایک تخلیق شدہ وجود کے بیرونی خول کے ساتھ اور، اب ایک ایسی انسانیت کا حامل ہے جو اس سے پہلے اس کے پاس نہیں تھی۔ وہ آسمانی خدا کی عبادت کرنے کے قابل ہے؛ یہ خود خدا کی ذات ہے اور انسان کے لیے ناقابلِ تقلید ہے۔ اس کی پہچان خود خدا ہے۔ یہ جسم کے نقطہ نظر سے ہے کہ وہ خدا کی عبادت کرتا ہے؛ لہٰذا، "مسیح آسمانی خدا کی عبادت کرتا ہے" کے الفاظ غلط نہیں ہیں۔ وہ انسان سے جس کا تقاضا کرتا ہے وہ بالکل اس کی اپنی ذات ہے؛ انسان سے مطالبہ کرنے سے پہلے اس نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے جس کا وہ انسان سے تقاضا کرتا ہے۔ وہ کبھی بھی دوسروں سے مطالبات نہیں کرے گا جب کہ وہ خود ان سے آزاد ہو، کیونکہ یہ سب اس کی ذات پر مشتمل ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ اپنے کام کو کیسے انجام دیتا ہے، وہ اس طریقے سے کام نہیں کرے گا جس سے خدا کی نافرمانی ہو۔ چاہے وہ انسان سے کچھ بھی مانگے، کوئی مطالبہ اس سے زیادہ نہیں ہوتا جو انسان حاصل کرنے کے قابل ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے وہ وہی ہے جو خدا کی مرضی کو پورا کرتا ہے اور اس کے نظم و نسق کے لیے ہوتا ہے۔ مسیح کی الوہیت تمام انسانوں سے بڑھ کر ہے؛ اس لیے وہ تمام مخلوقات کا اعلیٰ ترین حاکم ہے۔ یہ اختیار اس کی الوہیت ہے، یعنی خود خدا کا مزاج اور اس کا وجود، جو اس کی شناخت کا تعین کرتا ہے۔ لہٰذا، اس کی انسانیت کتنی ہی عمومی کیوں نہ ہو، یہ ناقابل تردید ہے کہ وہ خود خدا کی شناخت رکھتا ہے؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کس نقطہ نظر سے بولتا ہے اور جس طرح بھی وہ خدا کی مرضی کی تابعداری کرتا ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خود خدا نہیں ہے۔ بے وقوف اور جاہل لوگ اکثر مسیح کی عمومی انسانیت کو ایک خامی سمجھتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ اپنی الوہیت کی ہستی کو کیسے ظاہر اور بے نقاب کرتا ہے، انسان یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ وہ مسیح ہے۔ اور جتنا زیادہ مسیح اپنی فرمانبرداری اور عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہے، احمق لوگ اتنی ہی زیادہ غیر سنجیدگی سے مسیح کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ہیں جو اس کی طرف اخراج اور توہین کا رویہ اپناتے ہیں، پھر بھی ان اعلیٰ شبیہوں والے "عظیم آدمیوں" کو عبادت کرنے کے لیے میز پر رکھ دیتے ہیں۔ خدا کے خلاف انسان کی مزاحمت اور نافرمانی اس حقیقت کی وجہ سے ہوتی ہے کہ مجسم خدا کا جوہر خدا کی مرضی کی فرمانبرداری کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مسیح کی عمومی انسانیت کی طرف سے بھی؛ یہ انسان کی خدا کی مزاحمت کرنے اور خدا کی نافرمانی کا ذریعہ ہے۔ اگر مسیح نہ تو اپنی انسانیت کا روپ دھارتا اور نہ ہی کسی مخلوق کے نقطہ نظر سے خدا باپ کی مرضی کی جستجو کرتا بلکہ وہ ایک اعلیٰ انسانیت کا مالک ہوتا تو پھر یہ امکان تھا کہ انسانوں میں نافرمانی نہ ہوتی۔ انسان کے آسمان میں ایک غیر مرئی خدا پر ہمیشہ یقین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آسمانی خدا کی کوئی انسانیت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی تخلیق شدہ ذات کی ایک بھی صفت موجود ہے۔ لہٰذا، انسان ہمیشہ اسے سب سے زیادہ احترام کے ساتھ دیکھتا ہے، لیکن مسیح کی جانب توہین کا رویہ رکھتا ہے۔
اگرچہ زمین پر مسیح خود خُدا کی طرف سے کام کرنے کے قابل ہے، لیکن وہ تمام انسانوں کو جسمانی طور پر اپنی شبیہ دکھانے کے ارادے سے نہیں آیا ہے۔ وہ اس لیے نہیں آیا کہ سب انسان اسے دیکھیں؛ وہ اس لیے آیا ہے کہ انسان کی اپنے ہاتھ سے راہنمائی کر سکے، اور اس طرح انسان نئے دور میں داخل ہو جائے۔ مسیح کے جسم کا کام خود خُدا کے کام کے لیے ہے، یعنی جسم میں خُدا کے کام کے لیے، اور انسان کو اُس کے جسم کے جوہر کو پوری طرح سے سمجھنے کے قابل بنانے کے لیے نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کیسے کام کرتا ہے، وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرتا ہے جو جسم کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کس طرح کام کرتا ہے، وہ جسمانی طور پر ایک عمومی انسانیت کے ساتھ ایسا کرتا ہے، اور انسان پر خدا کے حقیقی چہرے کو پوری طرح سے ظاہر نہیں کرتا ہے۔ مزید برآں، جسم میں اس کا کام کبھی بھی اتنا مافوق الفطرت یا بے حساب نہیں ہوتا جتنا کہ انسان تصور کرتا ہے۔ اگرچہ مسیح جسمانی طور پر خود خدا کی نمائندگی کرتا ہے اور ذاتی طور پر وہ کام انجام دیتا ہے جو خدا کو خود کرنا چاہیے لیکن وہ آسمان پر خدا کے وجود سے انکار نہیں کرتا، اور نہ ہی وہ اپنے کاموں کا ہیجانی انداز میں اعلان کرتا ہے۔ بلکہ، وہ اپنے جسم کے اندر عاجزی سے پوشیدہ رہتا ہے۔ مسیح کے علاوہ جو لوگ مسیح ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں وہ اُس کی صفات کے مالک نہیں ہیں۔ جب اُن جھوٹے مسیحوں کے متکبرانہ اور خود کو بلند و برتر سمجھنے والے مزاج کا موازنہ کیا جائے، تو یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ حقیقی مسیح کے جسم کا طرزِ عمل کیسا ہے۔ ایسے جھوٹے مسیح جتنے زیادہ جھوٹے ہوتے ہیں، وہ اپنی خودنمائی اتنی ہی زیادہ کرتے ہیں، اور انسان کو دھوکا دینے کے لیے نشانیوں اور عجائبات کے کام کرنے کے اتنے ہی زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ جھوٹے مسیحوں میں خدا کی صفات نہیں ہوتی ہیں؛ مسیح جھوٹے مسیحوں سے تعلق رکھنے والے کسی بھی عنصر سے داغدار نہیں ہے۔ خدا صرف جسم کے کام کو مکمل کرنے کے لیے جسم بنتا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ انسان اسے دیکھ سکیں۔ بلکہ، وہ اپنے کام کو اپنی شناخت کی تصدیق کرنے دیتا ہے، اور جو کچھ وہ ظاہر کرتا ہے اسے اپنے جوہر کی تصدیق کرنے دیتا ہے۔ اس کا جوہر بے بنیاد نہیں ہے؛ اس کی شناخت اس کے ہاتھ کی وجہ سے ضبط نہیں ہوئی؛ اس کا تعین اس کے کام اور اس کے جوہر سے ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے پاس خُدا کا جوہر ہے اور وہ خود خُدا کا کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، لیکن وہ پھر بھی، بالآخر، روح کے برعکس، جسم ہے۔ وہ روح کی خصوصیات کے ساتھ خدا نہیں ہے؛ وہ گوشت پوست کے خول کے ساتھ خدا ہے۔ لہٰذا، خواہ وہ کتنا ہی عمومی اور کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اور وہ چاہے جس طرح بھی خدا باپ کی مرضی کی جستجو کرتا ہو، اس کی الوہیت ناقابل تردید ہے۔ مجسم خدا کے اندر نہ صرف ایک عمومی انسانیت اور اس کی کمزوریاں موجود ہوتی ہیں بلکہ اس کے جسم میں اس کے تمام کاموں کے ساتھ اس کی الوہیت کی حیرت انگیزی اور ناقابل فہم ہونا بھی موجود ہوتا ہے۔ لہذا، انسانیت اور الوہیت دونوں مسیح کے اندر موجود ہیں، دونوں حقیقی اور عملی طور پر ہیں۔ یہ کم از کم کھوکھلی یا مافوق الفطرت چیز نہیں ہے۔ وہ زمین پر کام کرنے کے بنیادی مقصد کے ساتھ آیا ہے؛ زمین پر کام کرنے کے لیے ایک عمومی انسانیت کا ہونا ضروری ہے؛ بصورت دیگر، اس کی الوہیت کی طاقت کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، اس کے اصل کام کو صحیح استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ اگرچہ اس کی انسانیت بہت اہمیت کی حامل ہے، لیکن یہ اس کا جوہر نہیں ہے۔ اس کا جوہر الوہیت ہے؛ لہٰذا، جس لمحے وہ زمین پر اپنی ذمہ داری انجام دینا شروع کرتا ہے تو یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ اپنی الوہیت کا اظہار کرنا شروع کرتا ہے۔ اس کی انسانیت صرف اس کے جسم کی معمول کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے موجود ہے تاکہ اس کی الوہیت جسم میں معمول کے مطابق کام کر سکے؛ یہ الوہیت ہے جو اس کے کام کی مکمل طور پر راہنمائی کرتی ہے۔ جب وہ اپنا کام مکمل کر لے گا تو وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کر چکا ہو گا۔ انسان کو جو کچھ جاننا چاہیے وہ اس کے کام کا مکمل حصہ ہے، اور یہ اس کے کام کے ذریعے ہی ہے کہ وہ انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اسے پہچان سکے۔ اپنے کام کے دوران، وہ اپنی الوہیت کے وجود کو پوری طرح سے ظاہر کرتا ہے، جو ایسا مزاج نہیں ہے جو انسانیت سے داغدار ہو، یا سوچ اور انسانی رویے سے داغدار ہو۔ جب وہ وقت آئے گا کہ اس کی تمام ذمہ داری ختم ہو جائے گی، تو وہ پہلے سے ہی مکمل اور پورے طور پر اس مزاج کا اظہار کر چکا ہو گا جس کا اظہار اسے کرنا چاہیے۔ اس کا کام کسی انسان کی ہدایت سے راہنمائی نہیں حاصل کرتا؛ اس کے مزاج کا اظہار بھی بالکل آزاد ہے، اور دماغ کے تابع یا سوچ کے زیرِ اثر نہیں ہے، بلکہ قدرتی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے کوئی انسان حاصل نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ اگر ماحول سخت ہو یا حالات ناسازگار، وہ مناسب وقت پر اپنے مزاج کا اظہار کرنے پر قادر ہے۔ جو مسیح ہے وہ مسیح ہونے کا اظہار کرتا ہے، جبکہ جو نہیں ہے وہ مسیح کے مزاج کا حامل نہیں ہے۔ لہٰذا، خواہ سب لوگ اس کی مخالفت کریں یا اس کے بارے میں تصورات رکھتے ہوں، کوئی بھی انسان کے تصورات کی بنیاد پر اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسیح کی طرف سے ظاہر کیا گیا مزاج خدا کا ہے۔ وہ تمام لوگ جو سچے دل سے مسیح کی پیروی کرتے ہیں یا اپنی مرضی سے خُدا کی جستجو کرتے ہیں وہ اقرار کریں گے کہ وہ اپنی الوہیت کے اظہار کی بنیاد پر مسیح ہے۔ وہ کبھی بھی مسیح کا انکار اس کے کسی ایسے پہلو کی بنیاد پر نہیں کریں گے جو انسان کے تصورات کے مطابق نہ ہو۔ اگرچہ انسان بہت بے وقوف ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ انسان کی مرضی کیا ہے اور کس چیز کا آغاز خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ محض ایسا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے ارادوں کے نتیجے میں جان بوجھ کر مسیح کی مزاحمت کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو، تو پھر کسی ایک انسان کے پاس بھی مسیح کے وجود سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی، کیونکہ مسیح کی طرف سے ظاہر کردہ الوہیت واقعی موجود ہے، اور اس کے کام کو عام آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
مسیح کا کام اور اظہار اس کے جوہر کا تعین کرتا ہے۔ جو اس کے سپرد کیا گیا ہے اسے وہ سچے دل سے پورا کرنے پر قادر ہے۔ وہ آسمانی خدا کی سچے دل سے عبادت کرنے کے قابل ہے، اور سچے دل سے خدا باپ کی مرضی تلاش کر سکتا ہے۔ یہ سب اس کے جوہر سے طے شدہ ہے۔ اور اسی طرح اس کا فطری الہام بھی اس کے جوہر سے طے شدہ ہے؛ میں اسے "فطری الہام" اس وجہ سے کہتا ہوں کہ اس کا اظہار ایک تقلید، یا انسان کی تعلیم کا نتیجہ، یا انسان کی کئی سالوں کی کاشت کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس نے اسے سیکھا یا خود کو اس سے آراستہ نہیں کیا ہے؛ بلکہ یہ اس کے اندر جبلی طور پر موجود ہے۔ انسان اس کے کام، اس کے اظہار، اس کی انسانیت، اور اس کی عمومی انسانیت کی پوری زندگی سے انکار کر سکتا ہے، لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ سچے دل سے آسمانی خدا کی عبادت کرتا ہے؛ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ آسمانی باپ کی مرضی کو پورا کرنے آیا ہے، اور جس خلوص کے ساتھ وہ خدا باپ کی جستجو کرتا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اگرچہ اس کی شبیہ حواس کو خوش کرنے والی نہیں ہے، اس کی گفتگو کا انداز غیر معمولی نہیں ہے، اور اس کا کام، جیسا کہ انسان تصور کرتا ہے، زمین کے ٹکڑے کرنے والا یا آسمان کو ہلانے والا نہیں ہے لیکن وہ واقعی مسیح ہے، جو سچے دل کے ساتھ آسمانی باپ کی مرضی پوری کرتا ہے، مکمل طور پر آسمانی باپ کے تابع ہے، اور موت تک فرمانبردار ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اس کا جوہر مسیح کا جوہر ہے۔ اس سچائی پر یقین کرنا انسان کے لیے مشکل ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ جب مسیح کی ذمہ داری مکمل طور پر پوری ہو جائے گی، تو انسان اس کے کام سے یہ دیکھ سکے گا کہ اس کا مزاج اور اس کی ہستی آسمان پر خدا کے مزاج اور وجود کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس وقت، اس کے تمام کاموں کا خلاصہ اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ وہ واقعی وہ جسم ہے جو کلام بنتا ہے، اور ایک گوشت اور خون کے انسان کی طرح نہیں ہے۔ زمین پر مسیح کے کام کے ہر قدم کی اپنی نمائندہ اہمیت ہے، لیکن انسان جو ہر مرحلے کے حقیقی کام کا تجربہ کرتا ہے وہ اس کے کام کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ خاص طور پر کام کے کئی مراحل کے لیے ہے جو خدا نے اپنی دوسری تجسیم میں انجام دیے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنھوں نے مسیح کا صرف کلام سنا یا دیکھا ہے لیکن جنھوں نے اسے کبھی نہیں دیکھا ہے، انھیں اس کے کام کے بارے میں کوئی تصور نہیں ہے؛ وہ لوگ جنھوں نے مسیح کو دیکھا ہے اور اُس کا کلام سنا ہے، اور ساتھ ہی اُس کے کام کا عملی تجربہ بھی کیا ہے، اُن کے لیے اُس کے کام کو قبول کرنا مشکل ہے۔ کیا یہ اس لیے نہیں ہے کہ مسیح کی ظاہری شکل اور عمومی انسانیت انسان کے ذوق کے مطابق نہیں ہے؟ جو لوگ مسیح کے چلے جانے کے بعد اُس کے کام کو قبول کرتے ہیں اُن کو ایسی مشکلات نہیں ہوں گی، کیونکہ وہ محض اُس کے کام کو قبول کرتے ہیں اور مسیح کی عمومی انسانیت کے ساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوتا۔ انسان خدا کے بارے میں اپنے تصورات کو ترک کرنے سے قاصر ہے اور اس کی بجائے اس کی شدت سے جانچ پڑتال کرتا ہے؛ یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ انسان صرف اس کی ظاہری شکل پر توجہ دیتا ہے اور اس کے کام اور اس کے کلام کی بنیاد پر اس کے جوہر کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ اگر انسان مسیح کی شکل و صورت کی طرف سے آنکھیں بند کر لے یا مسیح کی انسانیت پر بحث کرنے سے گریز کرے اور صرف اس کی الوہیت کی بات کرے جس کا کام اور کلام کوئی بھی انسان حاصل نہیں کر سکتا تو انسان کے تصورات آدھے کم ہو جائیں گے، یہاں تک کہ انسان کی تمام مشکلات دور ہو جائیں گی۔ مجسم خدا کے کام کے دوران، انسان اسے برداشت نہیں کر سکتا اور اس کے بارے میں بے شمار تصورات سے بھرا ہوا ہے، اور مزاحمت اور نافرمانی کی مثالیں عام ہیں۔ انسان خدا کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتا، مسیح کی عاجزی اور پوشیدگی کے لیے نرمی نہیں دکھا سکتا، یا مسیح کے جوہر کو معاف نہیں کر سکتا جو آسمانی باپ کی اطاعت کرتا ہے۔ لہٰذا، وہ اپنا کام ختم کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتا ہے، کیونکہ انسان اسے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے۔ اگر انسان اس کے کام کے دوران اس کے ساتھ نرمی نہیں دکھا سکتا، تو وہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد، وہ انہیں آہستہ آہستہ اپنے کلام کا عملی تجربہ کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے ان کے ساتھ رہے؟ کیا بہت سے لوگ اُس کی وجہ سے گر نہیں جائیں گے؟ انسان صرف اسے زمین پر کام کرنے دیتا ہے؛ یہ انسان کی نرمی کی سب سے بڑی حد ہے۔ اگر اس کا کام نہ ہوتا تو انسان بہت پہلے اسے زمین سے نکال چکا ہوتا، تو اس کا کام مکمل ہونے کے بعد وہ کس قدر رعایت کا مظاہرہ کریں گے؟ تو کیا انسان اسے موت کے گھاٹ نہیں اتار دے گا اور تشدد کر کے مار نہیں ڈالے گا؟ اگر وہ مسیح نہ کہلاتا، تو وہ ممکنہ طور پر بنی نوع انسان کے درمیان کام نہیں کر سکتا تھا؛ اگر وہ خود خدا کی شناخت کے ساتھ کام نہ کرتا، اور اس کی بجائے صرف ایک عام انسان کے طور پر کام کرتا، تو انسان اس کا ایک جملہ کہنا بھی برداشت نہ کرتا، اس کے معمولی سے کام کو برداشت کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ لہٰذا وہ اپنے کام میں صرف اس شناخت کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے۔ اس طرح، اگر اس نے ایسا نہ کیا ہوتا تو اس کا کام اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا، کیونکہ سب انسان مرتبے اور عظیم شناخت کی اطاعت کے لیے تیار ہیں۔ اگر وہ خود خدا کی شناخت نہیں رکھتا ہے جیسا کہ اس نے کام کیا یا خود خدا کے طور پر ظاہر ہوا ہے تو اسے کام کرنے کا بالکل موقع نہیں ملے گا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کے پاس خدا کا جوہر اور مسیح کا وجود ہے، انسان نرمی نہیں کرے گا اور اسے بنی نوع انسان کے درمیان آسانی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ وہ اپنے کام میں خود خدا کی شناخت رکھتا ہے؛ اگرچہ ایسا کام اس شناخت کے بغیر کیے جانے والے کام سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے، لیکن انسان پھر بھی اس کا مکمل فرمانبردار نہیں ہے، کیونکہ انسان صرف اس کے مرتبے کے تابع ہوتا ہے نہ کہ اس کے جوہر کے۔ اگر ایسا ہے تو، جب شاید ایک دن مسیح اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائے، تو کیا انسان اسے ایک دن بھی زندہ رہنے دے سکتا ہے؟ خدا انسان کے ساتھ زمین پر رہنے کو تیار ہے تاکہ وہ آنے والے سالوں میں اپنے ہاتھ سے کیے جانے والے کام کے اثرات کو دیکھ سکے۔ تاہم، انسان ایک دن کے لیے بھی اس کی موجودگی کو برداشت نہیں کر سکتا، اس لیے وہ صرف ہار مان سکتا ہے۔ یہ پہلے سے ہی انسان کی نرمی اور فضل کی سب سے بڑی حد ہے کہ وہ خدا کو انسانوں کے درمیان وہ کام کرنے کی جو اسے کرنا چاہیے اور اس کی ذمہ داری کو پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اگرچہ جنھیں اس نے ذاتی طور پر فتح کیا ہے، وہ اس پر ایسا فضل ظاہر کرتے ہیں، اور پھر بھی اسے صرف اس وقت تک رہنے کی اجازت دیتے ہیں جب تک کہ اس کا کام ختم نہ ہوجائے، اور ایک لمحہ بھی زیادہ نہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے جنھیں اس نے فتح نہیں کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان مجسم خدا کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ اس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ ایک عام انسان کے خول کے ساتھ مسیح ہے؟ اگر اس کے پاس صرف الوہیت ہوتی اور عام انسانیت نہ ہوتی تو کیا انسان کی مشکلات انتہائی آسانی کے ساتھ حل نہ ہو جاتیں؟ انسان بغض کے ساتھ اس کی الوہیت کا اعتراف کرتا ہے اور اس کے ایک عام انسان کے خول میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کرتا، اس حقیقت کے باوجود کہ اس کا جوہر بالکل وہی ہے جو مسیح کا ہے جو آسمانی باپ کی مرضی کی اطاعت کرتا ہے۔ اس طرح، وہ انسان کے درمیان خوشی اور غم دونوں میں شریک ہونے کے لیے موجود رہنے کے اپنے کام کو منسوخ کر سکتا ہے، کیونکہ انسان اس کے وجود کو مزید برداشت نہیں کر سکتا ہے۔