خدا کا کام اور انسان کا عمل
انسان کے درمیان خدا کا کام انسان سے جدا نہیں ہوتا، کیونکہ اس کام کا ہدف ہی انسان ہے، اور انسان ہی خدا کی بنائی ہوئی واحد مخلوق ہے جو خدا کی گواہی دے سکتی ہے۔ انسان کی زندگی اور انسان کی تمام سرگرمیاں خدا سے جدا نہیں ہو سکتی ہیں، اور یہ سب خدا کے ہاتھ سے قابو ہوتا ہے، اور یہ تک بھی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی شخص خدا سے آزاد ہو کر نہیں رہ سکتا۔ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ انسانوں کے فائدے کے لیے ہوتا ہے اور شیطان کی سازشوں کے خلاف ہوتا ہے۔ وہ سب جس کی انسان کو ضرورت ہے وہ خدا کی طرف سے آتا ہے، اور خدا ہی انسان کی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے، انسان خدا سے الگ ہونے سے بالکل قاصر ہے۔ مزید یہ کہ، خدا کا بھی انسان سے الگ ہونے کا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ خدا جو کام بھی کرتا ہے وہ تمام نوع انسانی کی خاطر کرتا ہے اور اس کے خیالات ہمیشہ مہربان ہوتے ہیں۔ انسان کے لیے، پھر، خُدا کا کام اور خُدا کے خیالات (یعنی خُدا کا ارادہ) دونوں "بصیرت" ہیں جن کا علم انسان کو ہونا چاہیے۔ ایسے بصائر بھی خدا کا انتظام ہیں اور یہ ایسے کام ہیں جنھیں انسان کرنے سے قاصر ہے۔ دریں اثنا، اپنے کام کے دوران خدا انسان سے جو تقاضے کرتا ہے، انھیں انسان کا "عمل" کہا جاتا ہے۔ بصائر خود خدا کا اپنا کام ہیں، یا وہ بنی نوع انسان کے لیے اس کا ارادہ ہیں یا اس کے کام کے مقاصد اور اہمیت ہیں۔ بصائر کو نظم و نسق کا ایک حصہ بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ نظم و نسق خدا کا کام ہے، اور یہ انسان کے لیے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ کام ہے جو خدا انسانوں کے درمیان کرتا ہے۔ یہ کام ثبوت اور وہ راستہ ہے جس کے ذریعے انسان خدا کو پہچانتا ہے، اور یہ انسان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر خدا کے کام کے علم پر توجہ دینے کی بجائے لوگ صرف خدا پر ایمان کے عقائد پر توجہ دیں یا بہت معمولی سی غیر اہم تفصیلات پر توجہ دیں تو وہ خدا کو ہرگز نہیں پہچانیں گے، اور اس کے علاوہ، وہ خدا کے پسندیدہ نہیں ہوں گے۔ خدا کا وہ کام جو انسان کے خدا کے بارے میں علم کے لیے بے حد مددگار ہوتا ہے اسے بصائر کہتے ہیں۔ یہ بصائر خدا کا کام، خدا کا ارادہ، اور خدا کے کام کے مقاصد اور اہمیت ہیں؛ وہ سب انسان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ عمل سے مراد وہ ہے جو انسان کو کرنا چاہیے، جو خدا کی پیروی کرنے والی مخلوق کو کرنا چاہیے، اور یہ انسان کا فرض بھی ہے۔ انسان کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ ایسا نہیں ہے جیسے انسان نے اسے آغاز میں سمجھا تھا، بلکہ یہ وہ تقاضے ہیں جو خدا اپنے کام کے دوران انسان سے کرتا ہے۔ جیسے جیسے خدا کام انجام دیتا ہے یہ تقاضے آہستہ آہستہ زیادہ گہرے اور مزید بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، قانون کے دور میں، انسان کو قانون کی پیروی کرنا پڑی تھی، اور فضل کے دور میں، انسان کو صلیب برداشت کرنا پڑی تھی۔ بادشاہی کا دور مختلف ہے: انسان سے تقاضے ان تقاضوں سے بلند ہیں جو قانون کے دور اور فضل کے دور میں تھے۔ جیسے جیسے بصائر زیادہ ہوتے جاتے ہیں، انسان سے تقاضے بھی پہلے سے زیادہ بلند ہو جاتے ہیں، اور پہلے سے زیادہ واضح اور حقیقی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح، بصائر بھی زیادہ حقیقی ہو جاتے ہیں. یہ بہت سے حقیقی بصائر نہ صرف انسان کی خدا کی فرمانبرداری کے لیے موزوں ہیں، بلکہ اس کے علاوہ، اس کے خدا کے بارے میں علم کے لیے بھی موزوں ہیں۔
پچھلے ادوار کے مقابلے میں، بادشاہی کے دور میں خُدا کا کام زیادہ عملی ہے، اور اس کا زیادہ رخ انسان کے جوہر اور اُس کے مزاج میں تبدیلیوں کی طرف ہے، اور خدا کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں کے لیے خود خُدا کی گواہی دینے کے زیادہ قابل ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جب خدا بادشاہی کے دور میں کام کرتا ہے، تو وہ ماضی کے کسی بھی وقت سے زیادہ انسان کو اپنی ذات دکھاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بصائر انسان کو معلوم ہونے چاہییں وہ کسی بھی گزشتہ دور سے بلند ہیں۔ چونکہ انسانوں کے درمیان خدا کا کام بے مثال دائرہ عمل میں داخل ہو چکا ہے، اس لیے بادشاہی کے دور میں انسان کو معلوم ہونے والے بصائر تمام انتظامی کام میں سب سے زیادہ بلند ہیں۔ خدا کا کام بے مثال دائرہ عمل میں داخل ہو چکا ہے، اور اس لیے انسان کو معلوم ہونے والے بصائر تمام بصائر سے بلند ترین ہو گئے ہیں، اور اس کے نتیجے میں انسان کا عمل بھی کسی بھی گزشتہ دور سے زیادہ بلند ہے، کیونکہ انسان کا عمل بصائر کے مطابق تبدیل ہو جاتا ہے، اور بصائر کی کاملیت انسان کی کاملیت کے تقاضوں کی بھی نشان دہی کرتی ہے۔ جیسے ہی خدا کا سارا انتظام رکتا ہے تو انسان کا عمل بھی رک جاتا ہے، اور خدا کے کام کے بغیر، انسان کے پاس ماضی کے عقیدے پر قائم رہنے کے سوا کوئی انتخاب نہیں ہو گا، ورنہ اس کے پاس رخ بدلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ نئے بصائر کے بغیر، انسان کی طرف سے کوئی نیا عمل نہیں ہوگا؛ مکمل بصائر کے بغیر، انسان کی طرف سے کوئی کامل عمل نہیں ہو گا۔ بلند بصائر کے بغیر، انسان کی طرف سے کوئی بلند عمل نہیں ہوگا۔ خدا کے قدموں کے ساتھ انسان کا عمل بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور اسی طرح خدا کے کام کے ساتھ انسان کا علم اور عملی تجربہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ انسان کتنا قابل ہے وہ پھر بھی خدا سے الگ نہیں ہو سکتا ہے اور اگر خدا ایک لمحے کے لیے بھی کام کرنا بند کر دے تو انسان اس کے غضب سے فوراً ہی مر جائے۔ انسان کے پاس کچھ بھی قابلِ فخر نہیں ہے، کیونکہ آج انسان کا علم کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو، اس کے عملی تجربات کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، وہ خدا کے کام سے الگ نہیں ہو سکتا- کیونکہ انسان کا عمل، اور وہ چیزیں جن کی اسے خدا پر اپنے ایمان میں تلاش کرنی چاہیے، وہ بصائر سے الگ نہیں ہو سکتی ہیں۔ خدا کے کام کی ہر مثال میں، ایسے بصائر ہوتے ہیں جن کا علم انسان کو ہونا چاہیے، اور، ان پر عمل کرنے کے لیے، انسان سے موزوں تقاضے کیے جاتے ہیں۔ بنیاد کے طور پر ان بصائر کے بغیر، انسان عمل کرنے کے قابل ہرگز نہیں ہوگا، اور نہ ہی انسان خدا کی غیر متزلزل طور پر پیروی کرنے کے قابل ہوگا۔ اگر انسان خدا کو نہیں جانتا یا خدا کے ارادے کو نہیں سمجھتا تو پھر انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ سب بے کار ہے اور خدا کی طرف سے منظور کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انسان کی صلاحیتیں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، وہ پھر بھی خدا کے کام اور خدا کی راہنمائی سے الگ نہیں ہو سکتا ہے۔ انسان کے اعمال خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں یا انسان کتنے ہی اعمال کیوں نہ انجام دے، وہ پھر بھی خدا کے کام کی جگہ نہیں لے سکتے ہیں۔ اور اس طرح، انسان کا عمل کسی بھی حالت میں بصائر سے الگ نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جو نئے بصائر کو قبول نہیں کرتے ہیں ان کے پاس کوئی نیا عمل نہیں ہوتا ہے۔ چونکہ وہ عقیدے کی پابندی کرتے ہیں اور مردہ قانون پر قائم رہتے ہیں اس لیے ان کے عمل کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے؛ ان کے پاس بالکل بھی کوئی نئے بصائر نہیں ہوتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں، وہ نئے دور کی کسی بھی چیز پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ وہ بصائرسے محروم ہو چکے ہیں، اور ایسا کرتے ہوئے وہ روح القدس کے کام سے بھی محروم ہو چکے ہیں، اور وہ سچائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ جو لوگ سچائی کے بغیر ہیں وہ خرافات کی اولاد ہیں، وہ مجسم شیطان ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی شخص کس قسم کا ہے، وہ خدا کے کام کے بصائر کے بغیر نہیں ہو سکتا، اور روح القدس کی موجودگی سے محروم نہیں رہ سکتا؛ جیسے ہی کوئی بصائر سے محروم ہوتا ہے، وہ فوراً پاتال میں اتر جاتا ہے اور تاریکی میں رہتا ہے۔ بصائر کے بغیر لوگ وہ ہیں جو خدا کی پیروی احمقانہ طور پر کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو روح القدس کے کام سے محروم ہیں، اور جو جہنم میں رہ رہے ہیں۔ ایسے لوگ سچائی کی جستجو نہیں کرتے ہیں بلکہ خدا کے نام کو ایک اشتہاری کتبے کی طرح لٹکا لیتے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں روح القدس کے کام کا علم نہیں ہے، جو مجسم خدا کو نہیں جانتے ہیں، جو خدا کے انتظام کے مکمل کام میں تین مراحل کو نہیں جانتے ہیں – انھیں بصائر کا علم نہیں ہے، اور اس وجہ سے وہ سچائی کے بغیر ہیں۔ اور جو لوگ سچائی کے حامل نہیں ہیں کیا وہ سب بدکار نہیں ہیں؟ وہ لوگ جو سچائی پر عمل کرنے پر آمادہ ہیں، جو خدا کے بارے میں علم حاصل کو تیار ہیں، اور جو خدا کے ساتھ حقیقی تعاون کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بصائر ایک بنیاد کا کام کرتے ہیں۔ خدا نے انھیں منظور کر لیا ہے کیونکہ وہ خدا کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اور یہ وہ تعاون ہے جس پر انسان کو عمل کرنا چاہیے۔
بصائر میں عمل کرنے کے بہت سے راستے موجود ہوتے ہیں۔ انسان سے کیے جانے والے عملی مطالبات بھی بصائر کے اندر موجود ہیں، جیسا کہ خدا کا کام ہے جس کا علم انسان کو ہونا چاہیے۔ ماضی میں مختلف جگہوں پر منعقد ہونے والے خصوصی اجتماعات یا عظیم الشان اجتماعات میں عمل کے راستے کے صرف ایک پہلو پر بات کی جاتی تھی۔ اس طرح کا عمل وہ تھا جس پر فضل کے دور میں عمل کیا جانا تھا، اور اس کا خدا کے بارے میں علم سے تعلق برائے نام ہی تھا، کیونکہ فضل کے دور کی بصیرت صرف یسوع کے مصلوب ہونے کی بصیرت تھی، اور کوئی زیادہ بڑے بصائر نہیں تھے۔ انسان کو بنی نوع انسان کی خاطر تصلیب کے ذریعے خدا کی نجات کے کام سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہونا چاہیے تھا، اور اسی طرح فضل کے دور میں کوئی اور بصائر نہیں تھے جن کا انسان کو علم ہوتا۔ اس طریقے سے انسان کے پاس خدا کے بارے میں علم بہت کم تھا اور یسوع کی محبت اور ہمدردی کے علم کے علاوہ اس کے پاس عمل کرنے کے لیے چند سادہ اور قابل رحم چیزیں تھیں، وہ چیزیں جو آج سے بہت مختلف تھیں۔ ماضی میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اس کی مجلس جو شکل بھی اختیار کرتی تھی، انسان خدا کے کام کے عملی علم کے بارے میں بات کرنے سے قاصر تھا، اوراس بات کا امکان تو بہت کم تھا کہ کوئی واضح طور پر یہ بتانے کے قابل ہو کہ انسان کے عمل کرنے کے لیے داخل ہونے کا سب سے موزوں راستہ کون سا تھا۔ انسان نے تحمل اور صبر کی بنیاد میں محض چند سادہ تفصیلات کو شامل کیا۔ اس کے عمل کے جوہر میں بالکل کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، کیونکہ خدا نے اس دَور کے اندر کوئی زیادہ نیا کام نہیں کیا تھا، اور اس نے انسان سے جو تقاضے کیے تھے وہ صرف تحمل اور صبر کرنا تھا، یا صلیب کو اٹھانا تھا۔ اس طرح کے طریقوں کے علاوہ، یسوع کی تصلیب سے بڑھ کر بلند بصائر نہیں تھے۔ ماضی میں، چونکہ خدا نے بہت زیادہ کام نہیں کیا تھا، اور چونکہ اس نے انسان سے صرف محدود مطالبات کیے تھے اس لیے دوسرے بصائر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس طریقے سے، اس سے قطع نظر کہ انسان نے جو کیا، وہ ان حدود سے تجاوز کرنے سے قاصر تھا، وہ حدود جو محض چند سادہ اور معمولی چیزیں تھیں جن پر عمل کرنا انسان کے لیے ممکن تھا۔ آج میں دوسرے بصائر کی بات کرتا ہوں کیونکہ آج، زیادہ کام کیا گیا ہے، وہ کام جو قانون کے دور اور فضل کے دور سے کئی گنا زیادہ ہے۔ انسان کے تقاضے بھی ماضی کے ادوار کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ اگر انسان اس طرح کے کام کو مکمل طور پر جاننے سے قاصر ہے تو پھر یہ کوئی زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہو گا؛ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر انسان اس کے لیے زندگی بھر کی محنت وقف نہ کرے تو اسے مکمل طور پر اس کام کو جاننے میں مشکل ہو گی۔ فتح کے کام میں صرف عمل کے راستے کی ہی بات کرنے سے انسان کو فتح کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ انسان سے کوئی تقاضے کیے بغیر صرف بصائر کی بات کرنا بھی انسان کو فتح کرنا ناممکن بنا دے گا۔ اگر عمل کے راستے کے سوا کوئی اور بات نہ کی جاتی تو پھر انسان کی دکھتی رگ کو چھیڑنا یا انسان کے تصورات کو زائل کرنا ناممکن ہو جاتا اور اسی طرح انسان کو مکمل طور پر فتح کرنا بھی ناممکن ہو جاتا۔ بصائر انسان کو فتح کرنے کا اصل آلہ ہیں، پھر بھی اگر بصائر کے علاوہ عمل کا کوئی راستہ نہ ہوتا تو انسان کے پاس پیروی کرنے کا کوئی راستہ نہ ہوتا، اور اس کے پاس داخلے کے کوئی ذرائع ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہوتا۔ آغاز سے لے کر اختتام تک خدا کے کام کا یہی اصول رہا ہے: بصائر میں وہ ہے جس پر عمل کیا جا سکتا ہے، اور اسی طرح عمل کرنے کے علاوہ بھی بصائر ہیں۔ انسان کی زندگی اور اس کے مزاج دونوں میں تبدیلیوں کا درجہ بصائر میں تبدیلی کے ساتھ آتا ہے۔ اگر انسان صرف اپنی کوششوں پر ہی بھروسہ کرتا تو اس کے لیے تبدیلی کا کوئی بڑا درجہ حاصل کرنا ناممکن ہوتا۔ بصائر خود خدا کے کام اور خدا کے انتظام کا مظہر ہیں۔ عمل سے مراد انسان کے عمل کرنے کا راستہ ہے، اور انسان کے وجود کا راستہ ہے؛ خدا کے تمام انتظام میں، بصائر اور عمل کے درمیان تعلق خدا اور انسان کے درمیان تعلق ہے۔ اگر بصائر کو ہٹا دیا جاتا، یا عمل کرنے کی بات کیے بغیر ان کی بات کی جاتی، یا صرف بصائر ہی ہوتے اور انسان کا عمل مٹ جاتا، تو پھر ایسی باتوں کو خدا کا نظم و نسق نہیں سمجھا جا سکتا تھا، اور یہ کہنے کا امکان تو اور بھی کم تھا کہ خدا کا کام بنی نوع انسان کی خاطر کیا جاتا ہے؛ اس طرح، نہ صرف انسان کا فرض ختم ہو جائے گا، بلکہ یہ خدا کے کام کے مقصد سے بھی انکار ہو گا۔ اگر آغاز سے اختتام تک، خدا کے کام کی شمولیت کے بغیر، انسان کو عمل کرنا پڑتا، اور اس کے علاوہ، اگر انسان کو خدا کے کام کو جاننے کی ضرورت نہ ہوتی، تو پھر ایسے کام کو خدا کا انتظام کم ہی کہا جاسکتا تھا۔ اگر انسان خدا کو نہ جانتا، اور خدا کے ارادے سے لاعلم ہوتا، اور آنکھیں بند کرکے مبہم اور تجریدی طریقے سے اپنے عمل کو انجام دیتا، تو وہ کبھی بھی ایک مکمل اہل مخلوق نہیں بن سکتا تھا۔ اور اس طرح، یہ دونوں چیزیں ہی ناگزیر ہیں۔ اگر صرف خدا کا کام ہوتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صرف بصائر ہی ہوتے اور اگر انسان کا تعاون یا عمل نہ ہوتا تو ایسی چیزوں کو خدا کا نظم و نسق نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اگر صرف انسان کا عمل اور داخلہ ہوتا تو پھر انسان کے داخل ہونے والا راستہ چاہے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہوتا، یہ بھی ناقابل قبول ہوتا۔ انسان کے داخلے کو بتدریج عمل اور بصائر کے مطابق تبدیل ہونا چاہیے؛ یہ ایک اچانک خواہش کی وجہ سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ انسان کے عمل کرنے کے اصول آزاد اور بے لگام نہیں ہیں بلکہ کچھ حدود کے اندر ترتیب دیے گئے ہیں۔ ایسے اصول کام کے بصائر کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ لہذا، خدا کا نظم و نسق بالآخر خدا کے کام اور انسان کے عمل پر منتج ہوتا ہے۔
نظم و نسق کا کام صرف بنی نوع انسان کی وجہ سے رونما ہوا، جس کا مطلب ہے کہ یہ صرف بنی نوع انسان کے وجود کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہے۔ بنی نوع انسان سے پہلے، یا آغاز میں، جب آسمان و زمین اور تمام چیزیں تخلیق ہوئی تھیں تو کوئی نظم و نسق نہیں تھا۔ اگرخدا کے سب کام میں، کوئی بھی عمل انسان کے لیے فائدہ مند نہ ہوتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ، اگر خدا بدعنوان بنی نوع انسان سے موزوں تقاضے نہ کرتا (اگر، خدا کی طرف سے کیے گئے کام میں، انسان کے عمل کے لیے کوئی مناسب راستہ نہ ہوتا) تو پھر اس کام کو خدا کا نظم و نسق نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اگر خدا کے تمام کام میں صرف یہ بتانا شامل ہوتا کہ بدعنوان انسانوں کو اپنا عمل کیسے انجام دینا ہے، اور خدا نے اپنے کسی بھی مشکل کام کو انجام نہ دیا ہوتا، اور ذرا سی بھی اپنی قدرتِ کاملہ یا حکمت نہ دکھائی ہوتی، تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کے انسان سے تقاضے کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا انسان کے درمیان کتنی ہی دیر تک کیوں نہ رہے، انسان کو خدا کے مزاج کے بارے میں کچھ علم نہیں ہو گا؛ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس قسم کا کام خدا کا نظم و نسق کہلانے کے لائق نہیں ہوتا۔ سادہ الفاظ میں، خدا کا نظم و نسق کا کام خدا کی طرف سے کیا گیا کام ہے، اور سب کام خدا کی راہنمائی میں وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں خدا نے اپنا لیا ہے۔ اس طرح کے کام کا نظم و نسق کے طور پر خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، انسانوں کے درمیان خدا کا کام، نیز اس کی پیروی کرنے والے سب لوگوں کے اس کے ساتھ تعاون کرنے کو اجتماعی طور پر نظم و نسق کہا جاتا ہے۔ یہاں، خدا کے کام کو بصیرت کہا جاتا ہے، اور انسان کے تعاون کو عمل کرنا کہا جاتا ہے۔ خدا کا کام جتنا بلند ہوتا ہے (یعنی جس قدر بلند بصائر ہوتے ہیں)، خدا کا مزاج اتنا ہی زیادہ انسان پر واضح ہوتا ہے، اور یہ انسان کے تصورات سے اتنا ہی زیادہ متصادم ہوتا ہے، اور انسان کا عمل اور تعاون اتنا ہی زیادہ بلند ہو جاتا ہے۔ انسان کے تقاضے جتنے زیادہ ہوتے ہیں، خدا کا کام انسان کے تصورات سے اتنا ہی زیادہ متصادم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان کی آزمائشیں، اور وہ معیارات بھی بلند ہو جاتے ہیں جن پر اسے پورا اترنا ہوتا ہے۔ اس کام کے اختتام پر تمام بصائر مکمل کیے جا چکے ہوں گے اور وہ چیز جس پر انسان کو عمل کرنے کی ضرورت ہے، وہ اوجِ کمال تک پہنچ چکی ہو گی۔ یہ وہ وقت بھی ہو گا جب ہر ایک کی اس کی قسم کے مطابق درجہ بندی کی جائے گی، کیونکہ جو چیز انسان کے لیے جاننا ضروری ہے وہ انسان کو دکھائی جا چکی ہو گی۔ لہٰذا جب بصائر اپنے بلند ترین مقام پر پہنچیں گے تو اس کے نتیجے میں کام اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور انسان کا عمل بھی اپنے انتہائی عروج پر پہنچ چکا ہو گا۔ انسان کے عمل کی بنیاد خدا کے کام پر ہے، اور خدا کا نظم و نسق صرف انسان کے عمل اور تعاون کی بدولت ہی مکمل طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ انسان خدا کے کام کا اعلیٰ نمونہ ہے، اور خدا کے تمام نظم و نسق کے کام کا ہدف ہے، اور خدا کے تمام نظم و نسق کی پیداوار بھی ہے۔ اگر خدا انسان کے تعاون کے بغیر اکیلے کام کرتا، تو کوئی چیز ایسی نہ ہوتی جو اس کے تمام کام کو ٹھوس حتمی شکل دے سکتی، اور پھر خدا کے نظم و نسق کی معمولی سی اہمیت بھی نہ ہوتی۔ خدا کے کام کے علاوہ، خدا صرف اپنے کام کو ظاہر کرنے اور اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمت کو ثابت کرنے کے لیے موزوں اشیاء کا انتخاب کرکے ہی خدا اپنے نظم و نسق کے مقصد کو حاصل کرسکتا ہے، اور شیطان کو مکمل طور پر شکست دینے کے لیے اس سب کام کو استعمال کرنے کا مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ لہٰذا، انسان خدا کے نظم و نسق کے کام کا ایک ناگزیر حصہ ہے، اور صرف انسان ہی ہے جو خدا کے نظم و نسق کو کامیاب بنا سکتا ہے اور اس کے حتمی مقصد کو حاصل کر سکتا ہے؛ انسان کے علاوہ زندگی کی کوئی بھی دوسری شکل اس طرح کا کردار ادا نہیں کر سکتی ہے۔ اگر انسان نے خدا کے نظم و نسق کے کام کی حقیقی ٹھوس حتمی شکل بننا ہے تو پھر بدعنوان بنی نوع انسان کی نافرمانی کو مکمل طور پر لازماً دور کرنا ہوگا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو مختلف زمانوں کے لیے ایک مناسب طرزِ عمل دیا جائے، اور یہ کہ خدا انسان کے درمیان اس سے متعلق کام کو انجام دے۔ صرف اسی طریقے سے آخرکار لوگوں کا ایک گروہ حاصل ہو جائے گا جو کہ خدا کے نظم و نسق کے کام کی ٹھوس حتمی شکل ہیں۔ خدا کا انسانوں کے درمیان کام صرف خدا کے کام کے ذریعے خود خدا کی گواہی نہیں دے سکتا ہے؛ حاصل کر لیے جانے کے لیے، ایسی گواہی کو زندہ انسانوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو خدا کے کام کے لیے موزوں ہوں۔ خدا پہلے ان لوگوں پر کام کرے گا جن کے ذریعے پھر اس کا کام ظاہر ہوگا اور اس طرح مخلوقات میں اس کے ارادے کی گواہی پیدا ہوگی اور اس میں خدا اپنے کام کا مقصد حاصل کر چکا ہوگا۔ خدا شیطان کو شکست دینے کے لیے اکیلے کام نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ تمام مخلوقات میں خود اپنی براہِ راست گواہی نہیں دے سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو انسان کو مکمل طور پر قائل کرنا ناممکن ہو جاتا، اس لیے فتح کرنے کے لیے خدا کو انسان پر لازمی کام کرنا چاہیے، اور صرف تب ہی وہ تمام مخلوقات میں گواہی حاصل کر سکے گا۔ اگر یہ صرف خدا ہی ہوتا جو انسان کے تعاون کے بغیر کام کرتا، یا اگر انسان کے تعاون کرنے کی ضرورت نہ ہوتی، تو پھر انسان خدا کی فطرت کو کبھی بھی نہ جان پاتا، اور ہمیشہ کے لیے خدا کی مرضی سے لاعلم رہتا؛ تو اس صورت میں خدا کے کام کو خدا کے نظم ونسق کا کام نہیں کہا جا سکتا۔ اگر خدا کے کام کو سمجھے بغیر انسان خود ہی کوشش کرتا، جستجو کرتا اور محنت کرتا، تو انسان مذاق کر رہا ہوتا۔ روح القدس کے کام کے بغیر، انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ شیطان کا کام ہوتا ہے، اور وہ باغی اور ایک بدکردار ہے؛ بدعنوان بنی نوع انسان کے ہر کام میں شیطان کی نمائش ہوتی ہے، اور کوئی بھی چیز خدا کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے، اور انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ شیطان کا مظہر ہوتا ہے۔ جو کچھ کہا گیا ہے ہے اس سب میں کوئی بھی چیز بصائر اور عمل سے خالی نہیں ہے۔ بصائر کی بنیاد پر، انسان کو طرزِعمل اور اطاعت کا راستہ ملتا ہے، جس سے وہ اپنے تصورات کو ایک طرف رکھ کر ان چیزوں کو حاصل کر سکتا ہے جو ماضی میں اس کے پاس نہیں تھیں۔ خدا کا تقاضا ہے کہ انسان اس کے ساتھ تعاون کرے، اور انسان اس کے تقاضوں کی مکمل اطاعت کرے، اور انسان خدا کی قادر مطلق قوت کا تجربہ کرنے، اور خدا کی فطرت کو جاننے کے لیے خود خدا کے کام کو دیکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ، مختصراً، خدا کا نظم و نسق ہے۔ نظم ونسق انسان کے ساتھ خدا کا اتحاد ہے، اور یہی سب سے بڑا نظم ونسق ہے۔
وہ جس میں بصائر شامل ہیں وہ بنیادی طور پر خود خدا کے کام کا حوالہ دیتا ہے، اور وہ جس میں عمل شامل ہے وہ انسان کو کرنا چاہیے اور اس کا خدا سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا کا کام خدا خود مکمل کرتا ہے، اور انسان کاعمل انسان خود حاصل کرتا ہے۔ وہ جو خود خدا کو کرنا چاہیے اسے انسان کو کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ جس پر انسان کو عمل کرنا چاہیے اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا کا کام اس کی اپنی ذمہ داری ہے اور اس کا انسان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسان کو یہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اس کے علاوہ، انسان وہ کام کرنے سے قاصر ہو گا جو خدا کو کرنا ہے۔ انسان کو جس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اسے لازمی طور پر انسان کو ہی پورا کرنا چاہیے، چاہے وہ اس کی جان کی قربانی ہو، یا اسے گواہی دینے کے لیے شیطان کے حوالے کرنا ہو، یہ سب لازمی طور پر انسان کو ہی پورا کرنا چاہیے۔ خدا خود وہ سب کام مکمل کرتا ہے جو اسے کرنا ہوتا ہے اور جو کام انسان کو کرنا چاہیے وہ انسان کو دکھا دیا جاتا ہے اور باقی کام انسان کے کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خدا اضافی کام نہیں کرتا ہے۔ وہ صرف وہی کام کرتا ہے جو اس کی ذمہ داری میں شامل ہے، اور صرف انسان کو راستہ دکھاتا ہے، اور صرف راستہ کھولنے کا کام کرتا ہے، اور راستہ ہموار کرنے کا کام نہیں کرتا؛ یہ سب کو سمجھ لینا چاہیے. سچائی پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی باتوں پر عمل کیا جائے، اور یہ سب انسان کا فرض ہے، اور یہ وہ ہے جو انسان کو کرنا چاہیے، اور اس کا خدا سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر انسان یہ مطالبہ کرتا ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح سچائی کی خاطر عذاب میں مبتلا ہو اور تزکیے کے عمل سے گزرے تو یہ انسان کی نافرمانی ہے۔ خدا کا کام اپنی ذمہ داری کو انجام دینا ہے، اور انسان کا فرض ہے کہ وہ بغیر کسی مزاحمت کے خدا کی تمام راہنمائی پر عمل کرے۔ اس بات سے قطع نظر کہ خدا کس طریقے سے کام کرتا ہے یا کس طرح رہتا ہے، انسان پر جس چیز کا پورا کرنا فرض ہے وہ اسے ضرور پوری کرنی چاہیے۔ صرف خدا ہی انسان سے تقاضے کر سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف خدا ہی انسان سے تقاضے کرنے کا اہل ہے۔ انسان کے پاس کوئی انتخاب نہیں ہونا چاہیے اور اسے مکمل اطاعت اور عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وہ احساس ہے جو انسان کے پاس ہونا چاہیے۔ ایک بار وہ کام جو خود خدا کو کرنا چاہیے مکمل ہو جاتا ہے، تو انسان کو مرحلہ وار اس کا عملی تجربہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر آخر میں، جب خدا کا تمام نظم و نسق مکمل ہو جائے، اور انسان نے اس وقت تک بھی وہ کام نہ کیا ہو جو خدا کو مطلوب ہے، تو پھر انسان کو سزا ملنی چاہیے۔ اگر انسان خدا کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو یہ انسان کی نافرمانی کی وجہ سے ہے؛ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا نے اپنا کام مکمل طور پر نہیں کیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو خدا کی باتوں پر عمل نہیں کر سکتے، جو خدا کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتے، اور جو وفادار نہیں ہو سکتے اور اپنا فرض نہیں ادا کر سکتے، ان سب کو سزا دی جائے گی۔ آج تمہیں جو کچھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے وہ اضافی تقاضے نہیں بلکہ انسان کا فرض ہے جو کہ تمام لوگوں کو ادا کرنا چاہیے۔ اگر تم اپنا فرض ادا کرنے سے یا اس کو احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہو تو کیا تم خود اپنے اوپر مصیبت نہیں لا رہے ہو؟ کیا تم موت کو دعوت نہیں دے رہے ہو؟ تم اب بھی مستقبل اور امکانات کی توقع کیسے کر سکتے ہو؟ خدا کا کام بنی نوع انسان کی خاطر کیا جاتا ہے، اور انسان کا تعاون خدا کے نظم و نسق کی خاطر پیش کیا جاتا ہے۔ خدا نے جو کچھ کرنا ہے وہ کرنے کے بعد، انسان کو خدا کے ساتھ اپنے طرزِعمل میں فیاضانہ ہونے اور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کو خدا کے کام میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے، اپنی وفاداری کو پیش کرنا چاہیے، اور بے شمار خیالات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، یا بےعمل بیٹھ کر موت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ خدا انسان کے لیے اپنے آپ کو قربان کر سکتا ہے تو انسان خدا کے لیے اپنی وفاداری کیوں نہیں پیش کر سکتا؟ خدا انسان کے ساتھ مکمل تعاون کرتا ہے تو پھر انسان تھوڑا سا تعاون کیوں پیش نہیں کر سکتا؟ خدا بنی نوع انسان کے لیے کام کرتا ہے، تو پھر انسان خدا کے نظم ونسق کی خاطر اپنا کچھ فرض کیوں ادا نہیں کرسکتا؟ خدا کا کام یہاں تک پہنچ چکا ہے، پھر بھی تم دیکھتے ہو لیکن عمل نہیں کرتے، تم سنتے ہو لیکن حرکت نہیں کرتے۔ کیا ایسے لوگ دائمی عذاب کا سامان نہیں ہیں؟ خدا اپنا سب کچھ پہلے ہی انسان کے لیے وقف کر چکا ہے، تو پھر آج انسان اپنا فرض اخلاص کے ساتھ ادا کرنے سے کیوں قاصر ہے؟ خدا کے لیے، اس کا کام اس کی پہلی ترجیح ہے، اور اس کے نظم و نسق کا کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انسان کے لیے اس کی اولین ترجیح خدا کی باتوں پر عمل کرنا اور خدا کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ یہ تم سب کو سمجھ لینا چاہیے۔ تم سے کہے گئے الفاظ تمہارے اصل جوہر کے بالکل مرکز تک پہنچ چکے ہیں، اور خدا کا کام بے مثال علاقے میں داخل ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ ابھی تک اس راستے کی سچائی یا جھوٹ کو نہیں سمجھتے؛ وہ ابھی تک انتظار کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، اور اپنا فرض ادا نہیں کر رہے ہیں۔ اس کی بجائے، وہ خدا کے ہر قول اور فعل کا جائزہ لیتے ہیں، وہ اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ وہ کیا کھاتا ہے اور کیا پہنتا ہے، اور ان کے تصورات مزید تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ بغیر کسی وجہ کے ہنگامہ نہیں کر رہے ہیں؟ ایسے لوگ کیسے وہ ہو سکتے ہیں جو خدا کے طالب ہوں؟ اور وہ ایسے لوگ کیسے ہو سکتے ہیں جو خدا کی اطاعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ وہ اپنی وفاداری اور فرض کو یاد نہیں رکھتے ہیں، اور اس کی بجائے خدا کے ٹھکانے پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ دوسروں کا استحصال کرنے کی بدترین مثال ہیں! اگر انسان وہ سب کچھ سمجھ چکا ہے جو اسے سمجھنا چاہیے تھا، اور اس سب پر عمل کر چکا ہے جس پر اسے عمل کرنا چاہیے تھا، تو خدا انسان پر اپنی برکتیں ضرور نازل کرے گا، کیونکہ خدا جو انسان سے چاہتا ہے وہ انسان کا فرض ہے جو اسے ادا کرنا چاہیے۔ اگر انسان اس بات کو ذہن نشین کرنے سے قاصر ہے جو اسے سمجھنی چاہیے، اور اس پر عمل کرنے سے قاصر ہے جس پر اسے عمل کرنا چاہیے، تو پھر انسان کو سزا ملے گی۔ جو لوگ خدا کے ساتھ تعاون نہیں کرتے وہ خدا سے دشمنی میں ہیں، جو لوگ نئے کام کو قبول نہیں کرتے وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں، خواہ ایسے لوگ کوئی ایسا کام نہ بھی کریں جو بظاہر اس کی مخالفت کرتا ہو۔ وہ سب لوگ جو خدا کی طرف سے مطلوب سچائی پر عمل نہیں کرتے وہ ایسے لوگ ہیں جو جان بوجھ کر مخالفت کرتے ہیں اور خدا کے کلام کی نافرمانی کرتے ہیں، چاہے ایسے لوگ روح القدس کے کام پر خصوصی توجہ ہی کیوں نہ دیں۔ جو لوگ خدا کی باتوں کی فرمانبرداری نہیں کرتے اور خدا کے تابع ہوتے ہیں وہ باغی ہیں، اور وہ خدا کے مخالف ہیں۔ جو لوگ اپنا فرض ادا نہیں کرتے وہ ایسے لوگ ہیں جو خدا کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، اور جو لوگ خدا کے ساتھ تعاون نہیں کرتے وہ ایسے لوگ ہیں جو روح القدس کے کام کو قبول نہیں کرتے ہیں۔
جب خدا کا کام ایک خاص مقام پر پہنچ جاتا ہے، اور اس کا نظم و نسق ایک خاص مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو جو لوگ اس کی خواہش کے مطابق ہوتے ہیں وہ سب اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ خدا انسان کے تقاضے اپنے معیار کے مطابق کرتا ہے اور اس کے مطابق کرتا ہے جس کو انسان پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنے نظم و نسق کی بات کرتے ہوئے، وہ انسان کے لیے راستے کی نشاندہی بھی کرتا ہے، اور انسان کو بقا کا راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔ خدا کا نظم و نسق اور انسان کا عمل دونوں کا تعلق کام کے ایک ہی مرحلے سے ہے اور دونوں بیک وقت انجام پاتے ہیں۔ خدا کے نظم و نسق کے ذکر کا تعلق انسان کے مزاج میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہوتا ہے، اور اس کا ذکر کہ جو انسان کو کرنا چاہیے اور انسان کے مزاج میں تبدیلیوں کا تعلق خدا کے کام سے ہے؛ کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا ہے جس میں یہ دونوں الگ ہو سکیں۔ انسان کا عمل مرحلہ وار تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان سے خدا کے تقاضے بھی تبدیل ہو رہے ہیں، اور اس لیے بھی کہ خدا کا کام ہمیشہ بدلتا اور آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اگر انسان کا عمل عقیدے میں ہی پھنسا رہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ خدا کے کام اور راہنمائی سے محروم ہے؛ اگر انسان کا عمل کبھی تبدیل نہیں ہوتا یا زیادہ گہرائی میں نہیں جاتا ہے، تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا عمل انسان کے ارادے کے مطابق ہوتا ہے، اور یہ سچائی کا عمل نہیں ہے؛ اگر انسان کے پاس چلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پہلے ہی شیطان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، اور شیطان کے قابو میں ہے، یعنی وہ بدروحوں کے قابو میں ہے۔ اگر انسان کا عمل زیادہ گہرائی میں نہیں جاتا ہے تو خدا کا کام ترقی نہیں کرے گا اور اگر خدا کے کام میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے تو انسان کا داخلہ رک جائے گا؛ یہ اٹل ہے۔ خدا کے تمام کام کے دوران، اگر انسان ہمیشہ یہوواہ کے قانون کی ہی پابندی کرتا رہتا، تو خدا کا کام آگے نہیں بڑھ سکتا تھا، اس کا امکان تو اور بھی کم ہوتا کہ یہ پورے دور کو ختم کر سکتا۔ اگر انسان ہمیشہ صلیب پر رہے اور صبر اور عاجزی کا مظاہرہ کرے، تو خدا کے کام کا آگے بڑھتے رہنا ناممکن ہوگا۔ چھ ہزار سال کے نظم و نسق کو کبھی ان لوگوں کے درمیان ختم نہیں کیا جا سکتا جو صرف قانون کی پابندی کرتے ہوں، یا صرف صلیب پر رہ کر صبر اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ اس کی بجائے، خدا کے نظم و نسق کا سب کام آخری ایام کے ان لوگوں کے درمیان انجام پاتا ہے جو خدا کو جانتے ہیں، جنھیں شیطان کی گرفت سے نکالا جا چکا ہے، اور جنھوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر شیطان کے اثر سے دور کر لیا ہے۔ یہ خدا کے کام کی ناگزیر سمت ہے۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ مذہبی کلیسیا والوں کا طرزِعمل پرانا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس چیز پر عمل کرتے ہیں وہ آج کے کام سے الگ ہے۔ فضل کے دور میں، انھوں نے جس پر عمل کیا تھا وہ درست تھا، لیکن چونکہ دور گزر چکا ہے اور خدا کا کام تبدیل ہو چکا ہے، اس لیے ان کا طرزِعمل آہستہ آہستہ پرانا ہو گیا ہے۔ یہ نئے کام اور نئی روشنی سے پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی اصل بنیاد کی بنیاد پر، روح القدس کا کام گہرائی میں کئی مرحلے آگے بڑھ چکا ہے۔ لیکن وہ لوگ اب تک خدا کے کام کے اصل مرحلے پر پھنسے ہوئے ہیں، اور اب بھی پرانے طریقوں اور پرانی روشنی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ خدا کا کام تین یا پانچ سالوں میں بہت زیادہ بدل سکتا ہے، تو کیا 2،000 سال کے عرصے میں اس سے بھی زیادہ بڑی تبدیلیاں نہیں ہوں گی؟ اگر انسان کے پاس کوئی نئی روشنی یا عمل نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ روح القدس کے کام کے ساتھ ہم قدم نہیں رہا ہے۔ یہ انسان کی ناکامی ہے؛ خدا کے نئے کام کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ، آج، وہ لوگ جن کے پاس پہلے روح القدس کا کام تھا وہ اب بھی فرسودہ طریقوں کی پابندی کرتے ہیں۔ روح القدس کا کام ہمیشہ آگے بڑھ رہا ہے، اور وہ تمام لوگ جو روح القدس کے دھارے میں ہیں، انھیں بھی مرحلہ وار گہرائی میں آگے بڑھنا اور تبدیل ہونا چاہیے۔ انھیں کسی ایک مرحلے پر نہیں رکنا چاہیے۔ صرف وہی لوگ جو روح القدس کے کام سے لاعلم ہیں اس کے اصل کام میں ہی رہیں گے، اور روح القدس کے نئے کام کو قبول نہیں کریں گے۔ صرف وہی لوگ جو نافرمان ہیں روح القدس کے کام کو حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اگر انسان کا عمل روح القدس کے نئے کام کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلتا ہے تو یقیناً انسان کا عمل آج کے کام سے کٹا ہوا ہے اور یقیناً آج کے کام سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس طرح کے فرسودہ لوگ خدا کے ارادے کو پورا کرنے کے قابل بالکل نہیں ہیں، اور اس کا امکان تو بہت کم ہے کہ وہ ایسے لوگ بن سکتے ہیں جو بالآخر خدا کی گواہی دیں گے۔ مزید یہ کہ نظم و نسق کے سب کام کو لوگوں کے ایسے گروہ کے درمیان ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ ان لوگوں کے لیے جو کبھی یہوواہ کے قانون پر قائم تھے، اور جنھوں نے ایک بار صلیب کے لیے مصائب کا سامنا کیا تھا، اگر وہ آخری ایام کے کام کے مرحلے کو قبول نہیں کر سکتے، تو پھر وہ سب جو انھوں نے کیا وہ بے کار، اور بے فائدہ ہو گا۔ روح القدس کے کام کا واضح ترین اظہار آج اور ابھی کو قبول کرنا ہے، ماضی سے چمٹا رہنا نہیں۔ وہ لوگ جو آج کے کام سے ہم قدم نہیں رہے، اور جو آج کے عمل سے الگ ہو گئے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو روح القدس کے کام کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے قبول نہیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کے موجودہ کام سے انکار کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ماضی کی روشنی کو تھامے ہوئے ہیں، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ روح القدس کے کام سے لاعلم ہیں۔ انسان کے طرزِعمل کی تبدیلیوں کے بارے میں، ماضی اور آج کے طرزِعمل میں فرق کے بارے میں، پچھلے دور میں یہ عمل کس طرح کیا جاتا تھا، اور آج کس طرح کیا جاتا ہے، یہ تمام باتیں کیوں کی گئی ہیں؟ انسان کے عمل میں اس طرح کی تقسیم کا ذکر ہمیشہ اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ روح القدس کا کام مسلسل آگے بڑھ رہا ہے، اسی وجہ سے انسان کے طرزِعمل کو بھی مسلسل بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان ایک ہی مرحلے میں پھنسا رہتا ہے، تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ خدا کے نئے کام اور نئی روشنی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے قاصر ہے؛ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا کا نظم و نسق کا منصوبہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ جو لوگ روح القدس کے دھارے سے باہر ہیں وہ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں، لیکن درحقیقت، ان میں خدا کا کام بہت پہلے بند ہو گیا تھا، اور روح القدس کا کام ان میں سے غائب ہے۔ خدا کا کام بہت پہلے لوگوں کے ایک دوسرے گروہ کو منتقل ہو چکا تھا، ایک ایسا گروہ جس پر خدا اپنا نیا کام مکمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ جو مذہب میں ہیں وہ خدا کے نئے کام کو قبول کرنے سے قاصر ہیں، اور صرف ماضی کے پرانے کام سے چمٹے ہوئے ہیں، اس لیے خدا نے ان لوگوں کو چھوڑ دیا ہے، اور ان لوگوں پر اپنا نیا کام کرتا ہے جو اس نئے کام کو قبول کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اس کے نئے کام میں تعاون کرتے ہیں، اور صرف اسی طریقے اس کا نظم و نسق مکمل ہو سکتا ہے۔ خدا کا نظم و نسق ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور انسان کا عمل ہمیشہ بلند ہوتا جاتا ہے۔ خدا ہمیشہ کام کر رہا ہے، اور انسان کو ہمیشہ ہی ضرورت رہتی ہے، اس طرح کہ دونوں اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور خدا اور انسان مکمل اتحاد کی کیفیت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ خدا کے کام کے پورا ہونے کا اظہار ہے، اور یہ خدا کے پورے نظم و نسق کا حتمی نتیجہ ہے۔
خدا کے کام کے ہر مرحلے میں انسان کے لیے متعلقہ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو روح القدس کے دھارے کے اندر ہیں وہ روح القدس کی موجودگی اور نظم و ضبط کے حامل ہیں، اور وہ لوگ جو روح القدس کے دھارے میں نہیں ہیں وہ شیطان کے حکم کے تابع ہیں، اور وہ روح القدس کے کسی بھی کام کے بغیر ہیں۔ جو روح القدس کے دھارے کے اندر ہیں وہ لوگ ہیں جو خدا کے نئے کام کو قبول کرتے ہیں، اور جو خدا کے نئے کام میں تعاون کرتے ہیں۔ اگر وہ لوگ جو اس دھارے کے اندر ہیں وہ تعاون کرنے سے قاصر ہیں، اور اس وقت کے دوران خدا کی مطلوبہ سچائی پر عمل کرنے سے قاصر ہیں، تو پھر انھیں نظم و ضبط کا پابند کیا جائے گا، اور بدترین کیفیت ہونے کی صورت میں روح القدس انھیں چھوڑ دے گی۔ جو لوگ روح القدس کے نئے کام کو قبول کرتے ہیں، وہ روح القدس کے دھارے کے اندر زندگی بسر کریں گے، اور انھیں روح القدس کی دیکھ بھال اور تحفظ حاصل ہو گا۔ جو لوگ سچائی پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہیں وہ روح القدس سے آگہی حاصل کرتے ہیں، اور جو لوگ سچائی پر عمل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تو روح القدس انھیں نظم و ضبط کا پابند بناتی ہے، اور انھیں سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر وہ روح القدس کے دھارے کے اندر ہے تو پھر اس سے قطع نظر کہ وہ کس قسم کا شخص ہے، خدا ان تمام لوگوں کی ذمہ داری لے گا جو اس کے نام کی خاطر اس کے نئے کام کو قبول کرتے ہیں۔ جو لوگ اُس کے نام کی عظمت بیان کرتے ہیں اور اُس کے کلام پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہیں وہ اُس کی برکتیں حاصل کریں گے؛ جو لوگ اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس کی باتوں پر عمل نہیں کرتے وہ اس کی سزا حاصل کریں گے۔ جو لوگ روح القدس کے دھارے کے اندر ہیں وہ لوگ ہیں جو نئے کام کو قبول کرتے ہیں، اور چونکہ وہ نئے کام کو قبول کر چکے ہیں، اس لیے انھیں خدا کے ساتھ مناسب تعاون کرنا چاہیے، اور ایسے باغیوں کی طرح کام نہیں کرنا چاہیے جو اپنا فرض ادا نہیں کرتے۔ خدا کا انسان سے یہی واحد تقاضا ہے۔ ان لوگوں کے لیے ایسا نہیں ہے جو نئے کام کو قبول نہیں کرتے ہیں: وہ روح القدس کے دھارے سے باہر ہیں، اور روح القدس کا نظم و ضبط اور ملامت ان پر لاگو نہیں ہوتی ہے۔ سارا دن، یہ لوگ جسم کے اندر رہتے ہیں، یہ اپنے دماغ کے اندر رہتے ہیں، اور یہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ان کے اپنے دماغوں کے تجزیے اور تحقیق سے تیار کیے ہوئے عقیدے کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ وہ چیز نہیں ہے جس کی روح القدس کے نئے کام کو ضرورت ہے، اوراس کا امکان تو اور بھی بہت کم ہے کہ اسے خدا کے ساتھ تعاون سمجھا جائے۔ جو لوگ خدا کے نئے کام کو قبول نہیں کرتے ہیں وہ خدا کی موجودگی سے محروم ہیں اور اس کے علاوہ خدا کی برکتوں اور حفاظت سے بھی محروم ہیں۔ ان کے زیادہ تر الفاظ اور اعمال روح القدس کے ماضی کے کام سے ہی چمٹے ہوئے ہیں؛ وہ عقیدہ ہیں، سچائی نہیں۔ اس طرح کا عقیدہ اور ضابطہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان لوگوں کا اکٹھے جمع ہونا مذہب کے سوا کچھ نہیں ہے؛ وہ منتخب شدہ لوگ نہیں ہیں، یا خدا کے کام کے اہداف نہیں ہیں۔ ان میں سے تمام لوگوں کے اجتماع کو صرف مذہب کا عظیم الشان جلسہ کہا جا سکتا ہے، اور اسے کلیسیا نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک ناقابل تغیر حقیقت ہے۔ ان کے پاس روح القدس کا نیا کام موجود نہیں ہے؛ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ مذہب سے مشابہ لگتا ہے، وہ جس انداز میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ مذہب سے بھرپور لگتا ہے؛ وہ روح القدس کی موجودگی اور کام کے حامل نہیں ہیں، ان کے روح القدس کی جانب سے تربیت یا آگہی حاصل کرنے کا امکان تو اور بھی بہت کم ہے۔ یہ لوگ سب بے جان لاشیں ہیں اور ایسے کیڑے ہیں جو روحانیت سے محروم ہیں۔ انھیں انسان کی سرکشی اور مخالفت کا کوئی علم نہیں ہے، انھیں انسان کی تمام برائیوں کا ہی علم نہیں ہے، خدا کے سب کام اور خدا کے موجودہ ارادے کا علم ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ یہ سب جاہل ہیں، کمینے لوگ ہیں، اور ایسے نکمے ہیں جو اہلِ ایمان کہلانے کے لائق نہیں ہیں! وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کا خدا کے نظم و نسق پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، اس کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ یہ خدا کے منصوبوں کو بگاڑ سکے۔ ان کے قول و فعل انتہائی نفرت انگیز، انتہائی قابل رحم ہیں، اور بالکل بھی اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا ذکر بھی کیا جائے۔ جو لوگ روح القدس کے دھارے کے اندر نہیں ہیں ان کے کیے ہوئے کسی بھی کام کا روح القدس کے نئے کام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وجہ سے، اس سے قطع نظر کہ وہ کیا کرتے ہیں، وہ روح القدس کے نظم و ضبط کے بغیر ہیں، اور اس کے علاوہ، وہ روح القدس کی آگہی کے بھی بغیر ہیں۔ کیونکہ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کو سچائی سے کوئی محبت نہیں ہے، اور روح القدس نے جن سے نفرت کی ہے اور جنھیں مسترد کر دیا ہے۔ وہ بدکردار کہلاتے ہیں کیونکہ وہ جسم کی حالت میں ہوتے ہیں اور خدا کے نام کے کتبے کے نیچے جو کچھ انھیں پسند ہوتا ہے وہی کرتے ہیں۔ جس وقت خدا کام کرتا ہے، وہ جان بوجھ کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس کی مخالف سمت میں بھاگتے ہیں۔ خدا کے ساتھ تعاون کرنے میں انسان کی ناکامی خود اپنی جگہ انتہائی سرکشی ہے، تو وہ لوگ جو جان بوجھ کر خدا کے خلاف چلتے ہیں، کیا انھیں خاص طور پر ان کی جائز سزا نہیں ملے گی؟ ان لوگوں کی برائیوں کا ذکر کرنے پر کچھ لوگ ان پر لعنت بھیجنے کے شدید خواہشمند ہوتے ہیں جبکہ خدا انھیں نظر انداز کر دیتا ہے۔ انسان کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اعمال کا تعلق خدا کے نام کے ساتھ ہے، لیکن درحقیقت ان کا خدا کے نام سے یا اس کی گواہی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں، اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے: اس کا خدا کے نام اور خدا کے موجودہ کام دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہیں، اور شیطنت کا اظہار کرتے ہیں؛ یہ وہ بدکار ہیں جو غضب کے دن کے لیے ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔ آج، ان کے اعمال سے قطع نظر، اور بشرطیکہ وہ خدا کے نظم و نسق میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور خدا کے نئے کام سے کوئی تعلق نہ رکھیں، تو ایسے لوگوں کو متعلقہ عذاب نہیں دیا جائے گا، کیونکہ غضب کا دن ابھی آنا ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کو پہلے ہی اس سے نمٹ لینا چاہیے تھا، اور ان کا خیال ہے کہ ان بدکاروں کو جتنی جلد ہو سکے سزا دی جانی چاہیے۔ لیکن چونکہ خدا کے نظم و نسق کا کام ابھی اختتام تک نہیں پہنچا ہے، اور غضب کا دن ابھی آنا باقی ہے، بدکار اب بھی اپنے برے کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں، "جو لوگ مذہب میں روح القدس کی موجودگی یا کام کے بغیر ہیں، اور وہ خدا کے نام کو شرم سار کرتے ہیں؛ تو پھر خدا ان کے بے لگام رویے کو برداشت کرنے کی بجائے انھیں تباہ کیوں نہیں کر دیتا؟" یہ لوگ، جو شیطان کا مظہر ہیں اور جو جسم کا اظہار کرتے ہیں، یہ جاہل، کمینے لوگ ہیں؛ یہ نامعقول لوگ ہیں۔ وہ خدا کے غضب کو آتے ہوئے نہیں دیکھیں گے جب تک کہ وہ یہ نہیں سمجھ لیتے کہ خدا انسانوں کے درمیان اپنا کام کیسے کرتا ہے، اور ایک بار جب وہ مکمل طور پر فتح کر لیے جائیں گے، تو ان سب بدکاروں کو ان کی سزا ملے گی، اور ان میں سے کوئی بھی اس غضب کے دن سے بچ نہیں سکے گا۔ ابھی یہ وقت انسان کی سزا کا نہیں ہے، بلکہ یہ فتح کے کام کو انجام دینے کا وقت ہے، جب تک ایسے لوگ ہیں جو خدا کے نظم و نسق کو بگاڑنے والے ہیں، تو اس صورت میں ان کے اعمال کی شدت کی بنیاد پر انھیں سزا ملے گی۔ خدا کے بنی نوع انسان کے نظم و نسق کے دوران، وہ سب لوگ جو روح القدس کے دھارے کے اندر ہیں خدا سے ایک تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے روح القدس نفرت کرتی ہے اور جنھیں مسترد کرتی ہے وہ شیطان کے زیر اثر رہتے ہیں، اور جس پر وہ عمل کرتے ہیں اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ صرف انہی لوگوں کا خدا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے جوخدا کے نئے کام کو قبول کرتے ہیں اور خدا کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، کیونکہ خدا کے کام کا ہدف صرف وہ لوگ ہیں جو اسے قبول کرتے ہیں، اور اس کا ہدف سب لوگ نہیں ہیں، چاہے وہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ خدا کی طرف سے کئے جانے والے کام میں ہمیشہ ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ اچانک خواہش کی وجہ سے نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ شیطان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ خدا کی گواہی دینے کے قابل نہیں ہیں، خدا کے ساتھ تعاون کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔
روح القدس کے کام کا ہر مرحلہ بھی انسان سے گواہی کا تقاضا کرتا ہے۔ کام کا ہر مرحلہ خدا اور شیطان کے درمیان ایک جنگ ہے اور اس جنگ کا ہدف شیطان ہے جبکہ اس کام سے جو کامل بنایا جائے گا وہ انسان ہے۔ خدا کا کام کامیاب ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار انسان کے خدا کی گواہی دینے کے انداز پر ہے۔ یہ گواہی وہی ہے جس کا تقاضا خدا اپنے پیروکاروں سے کرتا ہے؛ یہ شیطان کے سامنے دی گئی گواہی ہے، اور یہ خدا کے کام کے اثرات کا ثبوت بھی ہے۔ خدا کا تمام نظم و نسق تین مراحل میں تقسیم ہے اور ہر مرحلے میں، انسان سے موزوں تقاضے کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں، جیسے جیسے ادوار گزرتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں، سب بنی نوع انسان سے خُدا کے تقاضے بڑھتے جاتے ہیں۔ اس طرح، مرحلہ وار، خدا کے نظم و نسق کا یہ کام اپنے عروج تک پہنچتا ہے، یہاں تک کہ انسان "جسم میں کلام کے ظاہر ہونے" کی حقیقت کو دیکھ لیتا ہے، اور اس صورت میں انسان سے تقاضے اور بھی بلند ہو جاتے ہیں، اسی طرح جیسا کہ انسان سے گواہی دینے کے تقاضے بلند ہو جاتے ہیں۔ انسان خدا کے ساتھ سچے دل سے تعاون کرنے کی جتنی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے، خدا کو اتنی ہی زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا تعاون وہ گواہی ہے جو اسے دینی ہے اور جو گواہی وہ دیتا ہے وہ انسان کا عمل ہے۔ لہٰذا، خدا کے کام کا مطلوبہ اثر ہو سکتا ہے یا نہیں، اور سچی گواہی ہو سکتی ہے یا نہیں، یہ سب انسان کے تعاون اور گواہی سے پیچیدہ انداز میں جڑے ہوئے ہیں۔ جب کام ختم ہو جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب خدا کا تمام نظم و نسق اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا، تو انسان کو اعلیٰ گواہی دینے کی ضرورت ہوگی، اور جب خدا کا کام اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا، تو انسان کا عمل اور داخلہ اپنے عروج تک پہنچ جائے گا۔ ماضی میں، انسان کو قانون اور احکام کی تعمیل کرنے کی ضرورت تھی، اور اس سے صابر اور عاجز رہنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ آج، انسان سے خُدا کے تمام انتظامات کی تعمیل کرنے اور خُدا کی اعلیٰ ترین محبت رکھنے کا تقاضا کیا جاتا ہے، اور بالآخر اُسے سخت مصیبت کے درمیان بھی خُدا سے محبت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تین مراحل وہ تقاضے ہیں جو خدا انسان سے اپنے تمام نظم ونسق میں مرحلہ وار کرتا ہے۔ خدا کے کام کا ہر مرحلہ گزشتہ سے زیادہ گہرا ہوتا ہے اور ہر مرحلے میں انسان سے تقاضے گزشتہ مرحلے سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں اور اس طرح خدا کا تمام نظم و نسق رفتہ رفتہ ایک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ عین اس لیے ہے کہ انسان سے تقاضے ہمیشہ بلند ہوتے جاتے ہیں کیونکہ انسان کا مزاج ہمیشہ خدا کے مطلوبہ معیارات کے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر تب ہی پوری نوع انسانی آہستہ آہستہ شیطان کے اثر سے نکلنا شروع کر دیتی ہے یہاں تک کہ جب خدا کا کام مکمل طور پر اختتام پذیر ہو جائے گا تو پوری نوع انسانی کو شیطان کے اثر سے بچایا جا چکا ہو گا۔ جب وہ وقت آئے گا تو خدا کا کام اپنے انجام تک پہنچ چکا ہو گا، اور انسان کا اپنے مزاج میں تبدیلیاں لانے کے لیے خدا کے ساتھ تعاون باقی نہیں رہے گا، اور پوری نوع انسانی خدا کی روشنی میں زندگی بسر کرے گی، اور اس کے بعد سے، خدا سے کوئی سرکشی یا مخالفت نہیں ہوگی۔ خدا بھی انسان سے کوئی مطالبات نہیں کرے گا، اور انسان اور خدا کے درمیان ایک زیادہ ہم آہنگ تعاون ہوگا، جس پر انسان اور خدا کی زندگی اکٹھی ہوگی، وہ زندگی جو خدا کے نظم و نسق کے مکمل طور پر ختم ہونے کے بعد آتی ہے، جب خدا انسان کو شیطان کے چنگل سے مکمل طور پر بچا چکا ہوگا۔ جو لوگ صحیح طریقے سے خدا کے نقش قدم پر نہیں چل سکتے وہ ایسی زندگی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنے آپ کو تاریکی میں گرا دیں گے، جہاں وہ روئیں گے اور دانت پیسیں گے؛ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن جو اس کی پیروی نہیں کرتے ہیں، جو خدا پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن جو اس کے تمام کام کی اطاعت نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ انسان خدا پر ایمان رکھتا ہے، اس لیے اسے مرحلہ وار خدا کے نقش قدم پر چلنا چاہیے؛ اُسے چاہیے کہ "برّہ جہاں بھی جائے وہ اس کی پیروی کرے۔" صرف یہی وہ لوگ ہیں جو سچے راستے کی تلاش کرتے ہیں، صرف یہی وہ ہیں جو روح القدس کے کام کا علم رکھتے ہیں۔ جو لوگ خطوط اور عقائد کی غلامانہ پیروی کرتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جنھیں روح القدس کے کام سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ خدا ہر زمانے میں نئے کام کا آغاز کرے گا اور ہر دور میں انسان کے درمیان ایک نئی شروعات ہوگی۔ اگر انسان صرف ان سچائیوں کی پابندی کرتا ہے کہ "یہوواہ خدا ہے" اور "یسوع مسیح ہے"، جو کہ ایسی سچائیاں ہیں جو صرف ان کے متعلقہ ادوار پر ہی لاگو ہوتی ہیں، تو انسان کبھی بھی روح القدس کے کام کے ہم قدم نہیں رہے گا، اور روح القدس کے کام کو حاصل کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے گا۔ اس سے قطع نظر کہ خدا کس طرح کام کرتا ہے، اگر انسان بغیر کسی شک و شبہ کے پیروی کرتا ہے، اور وہ قریب سے پیروی کرتا ہے۔ تو اس طرح روح القدس انسان کو بھلا کیسے باہر نکال سکتی ہے؟ اس سے قطع نظر کہ خدا کچھ بھی کرے، جب تک انسان کو یقین ہے کہ یہ روح القدس کا کام ہے، اور بغیر کسی بدگمانی کے روح القدس کے کام میں تعاون کرتا ہے، اور خدا کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو پھر اسے سزا بھلا کیسے دی جا سکتی ہے؟ خدا کا کام کبھی ختم نہیں ہوا ہے، اس کے قدم کبھی رکے نہیں ہیں، اور اپنے نظم و نسق کے کام کے مکمل ہونے سے پہلے، وہ ہمیشہ مصروف رہا ہے، اور کبھی بھی رکتا نہیں ہے۔ لیکن انسان مختلف ہے: روح القدس کے تھوڑے سے کام کو حاصل کرنے کے بعد، وہ اسے ایسے سمجھتا ہے کہ جیسے یہ کبھی تبدیل نہیں ہو گا؛ تھوڑا سا علم حاصل کرنے کے بعد، وہ خدا کے زیادہ نئے کام کے نقش قدم پر چلنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا ہے؛ خدا کا تھوڑا سا کام دیکھ کر، وہ فوراً خدا کو ایک مخصوص لکڑی کی شبیہ قرار دے دیتا ہے، اور یہ یقین کرتا ہے کہ خدا ہمیشہ اسی شکل میں رہے گا جسے وہ اپنے سامنے دیکھتا ہے، کہ یہ ماضی میں بھی ایسی ہی تھی اور مستقبل میں بھی ہمیشہ اسی طرح رہے گی؛ ایک سطحی علم حاصل کر لینے کے بعد انسان اتنا مغرور ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اور اوٹ پٹانگ انداز میں خدا کے اس مزاج اور وجود کا اعلان کرنے لگتا ہے جس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے؛ اور روح القدس کے کام کے ایک مرحلے کے بارے میں یقین ہو جانے کے بعد، چاہے وہ کسی بھی قسم کا شخص ہو جو خدا کے نئے کام کا اعلان کرے، انسان اسے قبول ہی نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روح القدس کے نئے کام کو قبول نہیں کر سکتے؛ وہ بہت زیادہ قدامت پسند ہیں، اور نئی چیزوں کو قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جو خدا پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن خدا کو مسترد بھی کرتے ہیں۔ انسان یقین رکھتا ہے کہ بنی اسرائیل کا "صرف یہوواہ پر ایمان لانا اور یسوع پر ایمان نہیں لانا" غلط تھا، پھر بھی لوگوں کی اکثریت ایک ایسا کردار ادا کرتی ہے جس میں وہ "صرف یہوواہ پر ایمان لاتے ہیں اور یسوع کو رد کردیتے ہیں" اور "مسیح کی واپسی کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن اس مسیح کی مخالفت کرتے ہیں جو یسوع کہلاتا ہے۔" تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ لوگ روح القدس کے کام کے ایک مرحلے کو قبول کر لینے کے بعد بھی شیطان کی حاکمیت کے تحت رہتے ہیں، اور اس وجہ سے خدا کی برکات حاصل نہیں کرتے۔ کیا یہ انسان کی سرکشی کا نتیجہ نہیں ہے؟ دنیا بھر کے مسیحی جو آج کے نئے کام سے ہم قدم نہیں رہے ہیں وہ سب یہ فرض کرتے ہوئے کہ خدا ان کی ہر خواہش کو پورا کر دے گا، اس امید سے چمٹے ہوئے ہیں کہ وہ خوش قسمت ہوں گے۔ پھر بھی وہ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ خدا انھیں تیسرے آسمان پر کیوں لے کر جائے گا، اور نہ ہی انھیں اس بارے میں یقین ہے کہ یسوع کیسے سفید بادل پر ان کا استقبال کرنے کے لیے آئے گا، اور ان کا مکمل یقین کے ساتھ یہ کہنے کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ کیا واقعی یسوع ان کے تصور کردہ دن ایک سفید بادل پر آئے گا۔ وہ سب پریشان اور بے خبر ہیں؛ انھیں خود بھی یہ علم نہیں ہے کہ یہ مختلف قلیل مٹھی بھر لوگ جو ہر فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، آیا خدا ان میں سے ہر ایک کو اوپر لے جائے گا۔ وہ کام جو خدا اب کرتا ہے، موجودہ دور، خدا کا ارادہ – انھیں ان میں سے کسی چیز کی بھی سمجھ نہیں ہے، اور وہ اپنی انگلیوں پر دن گننے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ صرف وہی لوگ آخری برکت حاصل کر سکتے ہیں جو آخر تک برّہ کے نقشِ قدم پر چلیں گے، جبکہ وہ "ہوشیار لوگ" جو آخر تک پیروی کرنے سے قاصر ہیں پھر بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ انھوں نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے، وہ خُدا کے ظہور کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو یہ یقین ہے کہ وہ زمین پر سب سے زیادہ ذہین انسان ہے، اور وہ بغیر کسی وجہ کے خدا کے کام کی مسلسل ترقی میں دخل اندازی کرتے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ پورے یقین کے ساتھ یہ مانتے ہیں کہ خدا انھیں آسمان پر لے جائے گا، وہ جو "خدا کے انتہائی وفادار ہیں، خدا کی پیروی کرتے ہیں، اور خدا کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔" اگرچہ وہ خُدا کی کہی ہوئی باتوں کے "انتہائی وفادار" ہیں، لیکن اُن کے الفاظ اور اعمال اب بھی بہت نفرت انگیز ہیں کیونکہ وہ روح القدس کے کام کی مخالفت کرتے ہیں، اور دھوکا دیتے ہیں اور برے کام کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو آخر تک پیروی نہیں کرتے، جو روح القدس کے کام سے ہم قدم نہیں رہتے، اور جو صرف پرانے کام سے ہی چمٹے رہتے ہیں، وہ نہ صرف خدا کے ساتھ وفاداری حاصل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، بلکہ اس کے برعکس، وہ ایسے لوگ بن گئے ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ایسے لوگ بن گئے ہیں جنہیں نئے دور نے مسترد کر دیا ہے، اور جن کو سزا دی جائے گی۔ کیا ان سے زیادہ قابل رحم بھی کوئی ہے؟ بہت سے لوگ یہ تک یقین رکھتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو پرانے قانون کو مسترد کرتے ہیں اور نئے کام کو قبول کرتے ہیں وہ بے ضمیر ہیں۔ یہ لوگ، جو صرف "ضمیر" کی بات کرتے ہیں اور روح القدس کے کام سے لاعلم ہیں، بالآخر ان کے اپنے ضمیر ہی ان کے امکانات کو ختم کر دیں گے۔ خُدا کا کام عقیدے کی پابندی نہیں کرتا ہے، اور اگرچہ یہ اُس کا اپنا کام بھی ہو، پھر بھی خُدا اُس سے چمٹا نہیں رہتا۔ جس کا انکار کیا جانا چاہیے اس کا انکار کیا جاتا ہے، جس کو باہر نکال دینا چاہیے اسے باہر نکالا جاتا ہے۔ پھر بھی انسان خدا کے نظم و نسق کے کام کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو پکڑے ہوئے اپنے آپ کو خدا کی دشمنی میں ڈالتا ہے۔ کیا یہ انسان کی نامعقولیت نہیں ہے؟ کیا یہ انسان کی جہالت نہیں ہے؟ خدا کی برکتوں کو حاصل نہ کرنے کے خوف کی وجہ سے لوگ جتنے زیادہ بزدل اور حد سے زیادہ محتاط ہوتے ہیں، وہ اتنی ہی زیادہ بہتر برکتیں حاصل کرنے اور آخری برکت حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو غلامانہ انداز میں قانون کی پابندی کرتے ہیں وہ سب قانون سے انتہائی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور جتنی زیادہ وہ قانون سے اس طرح کی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، اتنے ہی زیادہ وہ ایسے باغی ہوتے ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس وقت بادشاہی کا دور ہے نہ کہ قانون کا دور، اور آج کے کام اور ماضی کے کام کا تذکرہ ایک ہی سانس میں نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ماضی کے کام کا آج کے کام سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ خدا کا کام بدل گیا اور انسان کا عمل بھی بدل چکا ہے۔ یہ عمل قانون پر قائم رہنے یا صلیب کو برداشت کرنے کے لیے نہیں ہے، لہذا قانون اور صلیب کے لیے لوگوں کی وفاداری خدا کی تائید حاصل نہیں کرے گی۔
بادشاہی کے دور میں انسان کو مکمل طور پر کامل بنایا جائے گا۔ فتح کے کام کے بعد انسان کا تزکیہ کیا جائے گا اور وہ مصیبت میں مبتلا ہو گا۔ وہ لوگ جو اس مصیبت پر قابو پا سکتے ہیں اور گواہی دے سکتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنھیں بالآخر کامل بنایا جائے گا؛ وہی غالب ہیں۔ اس مصیبت کے دوران، انسان کو اس تزکیے کو قبول کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ تزکیہ خدا کے کام کی آخری مثال ہے۔ یہ آخری موقع ہے کہ خدا کے نظم و نسق کے تمام کام کے اختتام سے پہلے انسان کا تزکیہ کیا جائے گیا، اور وہ سب لوگ جو خدا کی پیروی کرتے ہیں انھیں اس آخری امتحان کو لازمی قبول کرنا ہو گا، اور انھیں اس آخری تزکیے کو لازمی قبول کرنا ہوگا۔ وہ لوگ جو مصیبت میں گھرے ہوئے ہیں وہ روح القدس کے کام اور خدا کی راہنمائی کے بغیر ہیں، لیکن وہ لوگ جو حقیقی طور پر فتح ہو چکے ہیں اور جو واقعی خدا کی تلاش میں ہیں وہ بالآخر ثابت قدم رہیں گے؛ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانیت کے حامل ہیں، اور جو واقعی خدا سے محبت کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کیا کرتا ہے، یہ فاتحین بصائر سے محروم نہیں رہیں گے اور پھر بھی اپنی گواہی میں ناکام ہوئے بغیر سچ پر عمل کرتے رہیں گے۔ یہی لوگ وہ ہیں جو آخرکار عظیم مصیبت سے باہر نکلیں گے۔ اگرچہ پریشان کن صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے آج بھی مفت خوری کر سکتے ہیں، لیکن کوئی بھی آخری مصیبت سے بچ نہیں سکتا، اور کوئی بھی آخری امتحان سے بچ نہیں سکتا۔ ان لوگوں کے لیے جو غالب آتے ہیں، ایسی مصیبت ایک زبردست تزکیہ ہوتی ہے؛ لیکن جو لوگ پریشان کن صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کے لیے یہ مکمل طور پر باہر نکال دیے جانے کا کام ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ انھیں کیسے آزمایا جاتا ہے، جن کے دل میں خدا ہے ان کی اطاعت برقرار رہتی ہے؛ لیکن وہ لوگ جن کے دل میں خدا نہیں ہے، جب خدا کا کام ان کے جسم کے لیے فائدہ مند نہیں رہتا ہے، تو وہ خدا کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیتے ہیں، اور یہاں تک کہ خدا سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو آخر میں ثابت قدم نہیں رہیں گے، اورجو صرف خدا کی برکتوں کے طالب ہیں اور اپنے آپ کو خدا کے لیے خرچ کرنے اور اس کے لیے خود کو وقف کرنے کی خواہش نہیں رکھتے ہیں۔ جب خدا کا کام ختم ہو جائے گا تو ایسے سب کمینے لوگوں کو باہر نکال دیا جائے گا، اور وہ کسی ہمدردی کے لائق نہیں ہیں۔ جو لوگ انسانیت سے محروم ہیں وہ حقیقی معنوں میں خدا سے محبت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ جب ماحول محفوظ اور عافیت والا ہوتا ہے، یا فوائد حاصل کرنے ہوتے ہیں، تو وہ خدا کے مکمل فرمانبردار ہوتے ہیں، لیکن جب ان کی خواہش ادھوری رہ جاتی ہے یا آخرکار انکار کر دیا جاتا ہے، تو وہ فوراً بغاوت کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف ایک رات کے عرصے میں، وہ ایک مسکراتے ہوئے، "نرم دل" شخص سے بدصورت نظر آنے والے اور وحشی قاتل تک میں تبدیل ہو سکتے ہیں، اچانک اپنے کل کے محسن کو بغیر کسی معقول اور منطقی وجہ کے، اپنا جانی دشمن سمجھتے ہیں۔ اگر ان بدروحوں کو باہر نہ نکالا جائے تو یہ بدروحیں جو پلک جھپکائے بغیر مار ڈالتی ہیں، تو کیا یہ ایک پوشیدہ خطرہ نہیں بن جائیں گی؟ انسان کو بچانے کا کام فتح کے کام کے مکمل ہونے کے بعد حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اگرچہ فتح کا کام ختم ہو چکا ہے، لیکن انسان کو پاکیزہ بنانے کا کام مکمل نہیں ہوا ہے؛ یہ کام تب ہی ختم ہو گا جب انسان کو مکمل طور پر پاکیزہ کردیا جائے گا، جب خدا کی سچی اطاعت کرنے والوں کو کامل بنا دیا جائے گا، اور جب ان بہروپیوں کو جو اپنے دل میں خدا کے بغیر ہیں، باہر نکال دیا جائے گا۔ وہ لوگ جو خُدا کو اُس کے کام کے آخری مرحلے میں مطمئن نہیں کرتے انھیں مکمل طور پر باہر نکال دیا جائے گا، اور جنھیں باہر نکال دیا جائے گا وہ شیطان میں سے ہیں۔ چونکہ وہ خدا کو مطمئن کرنے سے قاصر ہیں اس لیے وہ خدا کے خلاف باغی ہیں، اور اگرچہ یہ لوگ آج خدا کی پیروی کرتے ہیں مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ یہ وہی ہیں جو آخر تک پیروی کرتے رہیں گے۔ ان الفاظ میں کہ "جو لوگ آخر تک خُدا کی پیروی کرتے ہیں وہ نجات پائیں گے،" "پیروی کرنے" کا مطلب مصیبت کے درمیان ثابت قدم رہنا ہے۔ آج، بہت سے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی پیروی کرنا آسان ہے، لیکن جب خدا کا کام ختم ہونے والا ہو گا، تو تجھے "پیروی کرنے" کا صحیح مطلب معلوم ہو جائے گا۔ صرف اس وجہ سے کہ تو فتح ہونے کے بعد بھی آج خدا کی پیروی کرنے کے قابل ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تو ان لوگوں میں سے ہے جنھیں کامل بنایا جائے گا۔ وہ لوگ جو آزمائشوں کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں، جو مصیبت کے درمیان فتح حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں، بالآخر، ثابت قدم رہنے کے اہل نہیں ہوں گے، اور اس طرح وہ بالکل آخر تک خدا کی پیروی کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ جو لوگ خلوص کے ساتھ خدا کی پیروی کرتے ہیں وہ اپنے کام کے امتحان کے سامنے ڈٹے رہنے کے قابل ہوتے ہیں، جب کہ وہ لوگ جو خلوص سے خدا کی پیروی نہیں کرتے وہ خدا کی کسی بھی آزمائش کے سامنے ڈٹے رہنے کے قابل نہیں ہوتے۔ انھیں جلد یا بدیر باہر نکال دیا جائے گا، جبکہ غالب آنے والے بادشاہی میں رہیں گے۔ کیا انسان واقعی خدا کی تلاش کرتا ہے یا نہیں اس کا تعین اس کے کام کے امتحان سے ہوتا ہے، یعنی خدا کی آزمائشوں سے، اور اس کا خود انسان کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ خدا کسی بھی شخص کو اچانک خواہش پر رد نہیں کرتا؛ اس کا کیا ہوا ہر کام انسان کو مکمل طور پر قائل کر سکتا ہے۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو انسان کے لیے غیر مرئی ہو یا کوئی ایسا کام جو انسان کو قائل نہ کر سکے۔ یہ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ آیا انسان کا عقیدہ درست ہے یا نہیں، اور اس کا فیصلہ انسان نہیں کر سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ "گندم کو جنگلی گھاس نہیں بنایا جا سکتا، اور جنگلی گھاس کو گندم نہیں بنایا جا سکتا"۔ وہ تمام لوگ جو خلوص کے ساتھ خُدا سے محبت کرتے ہیں بالآخر بادشاہی میں رہیں گے، اور خُدا کسی ایسے کے ساتھ برا سلوک نہیں کرے گا جو اُس سے سچی محبت کرتا ہو۔ غالب آنے والے اپنے مختلف کاموں اور گواہیوں کی بنیاد پر، بادشاہی کے اندر پادریوں یا پیروکاروں کے طور پر کام کریں گے، اور وہ سب لوگ جو مصیبت کے درمیان فتح یاب ہوں گے وہ بادشاہی کے اندر پادریوں کی جماعت بن جائیں گے۔ پادریوں کی جماعت تب قائم کی جائے گی جب پوری کائنات میں خوشخبری کا کام ختم ہو جائے گا۔ جب وہ وقت آئے گا تو جو کام انسان کو کرنا چاہیے وہ خدا کی بادشاہی کے اندر اس کے فرض کی انجام دہی ہو گی اور خدا کے ساتھ اس کا بادشاہی کے اندر اکٹھے رہنا ہوگا۔ پادریوں کی جماعت میں سردار پادری اور پادری ہوں گے، اور باقی خدا کے بیٹے اور لوگ ہوں گے۔ اس سب کا تعین مصیبت کے دوران ان کی خدا کے لیے گواہیوں سے ہوتا ہے۔ وہ ایسے القابات نہیں ہیں جو ایک اچانک خواہش پر دیے گئے ہوں۔ ایک بار جب انسان کی حیثیت قائم ہو جاتی ہے تو خدا کا کام ختم ہو جائے گا، کیونکہ ہر ایک کی قسم کے مطابق درجہ بندی ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اصل مقام پر واپس آ جاتا ہے، اور یہ خدا کے کام کے پورا ہونے کا نشان ہے، یہ خدا کے کام اور انسان کے عمل کا حتمی نتیجہ ہے۔، اور یہ خدا کے کام اور انسان کے تعاون کے بصائر کی ٹھوس حتمی شکل ہے۔ آخر کار، انسان کو خدا کی بادشاہی میں جدوجہد کا پُرسکون اختتام ملے گا، اور خدا بھی، آرام کے لیے اپنی رہائش گاہ میں واپس آ جائے گا۔ یہ خدا اور انسان کے درمیان 6،000 سال کے تعاون کا حتمی نتیجہ ہوگا۔