مجسم خدا کی ذمہ داری اور انسان کے فرض کے درمیان فرق
تمہیں خدا کے کام کی بصیرت کو لازمی جاننا چاہیے اور اس کے کام کی عمومی سمت کو سمجھنا چاہیے۔ یہی مثبت داخلہ ہے۔ ایک بار جب تو بصائر کی سچائی میں عبور حاصل کر لیتا ہے تو تیرا داخلہ محفوظ ہو جائے گا؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کا کام کیسے بدلتا ہے، تو اپنے دل میں ثابت قدم رہے گا، بصائر کے بارے میں واضح رہے گا، اور تیرے داخلے اور تیری کوشش کا ایک مقصد ہوگا۔ اس طرح، تیرے اندر تمام تجربہ اور علم گہرا ہوتا جائے گا اور مزید تفصیلی ہو جائے گا۔ ایک بار جب تو پوری صورت حال کو مکمل طور پر سمجھ لے گا تو تو زندگی میں کوئی نقصان نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی تو گمراہ ہو گا۔ اگر تجھے کام کے ان مراحل کا علم نہ ہو تو تجھے ہر ایک قدم پر نقصان اٹھانا پڑے گا، اور تجھے حالات کا رخ درست سمت میں موڑنے میں چند دن سے زیادہ وقت لگے گا، اور تو ایک دو ہفتوں میں بھی صحیح راہ پر آنے کے قابل نہیں ہو سکے گا۔ کیا یہ تاخیر کا سبب نہیں بنے گا؟ مثبت داخلے اور مشق کے راستے میں بہت کچھ ہے جس پر تمہیں لازمی عبور حاصل کرنا چاہیے۔ جہاں تک خدا کے کام کی بصائر کا تعلق ہے، تجھے مندرجہ ذیل نکات کو لازمی سمجھنا ہوگا: اس کی فتح کے کام کی اہمیت، کامل بنائے جانے کا مستقبل کا راستہ، آزمائشوں اور مصائب کا سامنا کرکے لازمی طور پر کیا حاصل کیا جانا چاہیے، فیصلے اور سزا کی اہمیت، روح القدس کے کام کے پیچھے اصول، اور کامل ہونے اور فتح کے پیچھے اصول۔ یہ سب بصائر کی سچائی سے تعلق رکھتے ہیں۔ باقی کام کے تین مراحل ہیں، قانون کا دور، فضل کا دور، اور بادشاہی کا دور، نیز مستقبل کی گواہی۔ یہ بھی، بصائر کی سچائی ہیں، اور یہی وہ ہیں جو سب سے بنیادی اور سب سے زیادہ اہم ہیں۔ فی الحال، بہت کچھ ہے جس میں تمہیں داخل ہونا چاہیے اور اس پرعمل کرنا چاہیے، اور اب یہ زیادہ پرتوں والا اور زیادہ مفصل ہے۔ اگر تجھے ان سچائیوں کا علم نہیں ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تجھے ابھی داخلہ حاصل کرنا ہے۔ زیادہ موقعوں پر، سچائی کے بارے میں لوگوں کا علم بہت کم ہوتا ہے؛ وہ کچھ بنیادی سچائیوں کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں اور یہ تک نہیں جانتے کہ معمولی معاملات کو کیسے سنبھالنا ہے۔ لوگوں کے سچائی پر عمل کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مزاج باغیانہ ہے اور آج کے کام کے بارے میں ان کا علم انتہائی سطحی اور یک طرفہ ہے۔ اس طرح، لوگوں کو کامل بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تو بہت زیادہ باغی ہے، اور تو اپنے پرانے نفس کو بہت زیادہ برقرار رکھتا ہے؛ تو سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہے، اور تو واضح ترین سچائیوں پر بھی عمل کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے لوگوں کو بچایا نہیں جا سکتا اور یہ وہ ہیں جو فتح نہیں ہوئے ہیں۔ اگر تیرے داخل ہونے میں نہ کوئی تفصیل ہے اور نہ ہی مقاصد، تو ترقی تجھ تک تاخیر سے پہنچے گی۔ اگر تیرے داخلے میں ذرہ برابر بھی حقیقت نہیں ہے تو تیری کوشش رائیگاں جائے گی۔ اگر تو حقیقت کے جوہر سے ناواقف ہے تو تو غیر تبدیل شدہ ہی رہے گا۔ انسان کی زندگی میں ترقی اور اس کے مزاج میں تبدیلیاں حقیقت میں داخل ہونے سے حاصل ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ تفصیلی تجربات میں داخل ہونے سے۔ اگر تیرے داخلے کے دوران تیرے بہت سے تفصیلی تجربات ہیں، اور تیرے پاس بہت زیادہ حقیقی علم اور داخلہ ہے، تو تیرا مزاج جلد بدل جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر، فی الحال، تو عمل کرنے کے بارے میں مکمل طور پر واضح نہیں ہے، تو تجھے کم از کم خدا کے کام کی بصائر کے بارے میں واضح ہونا چاہیے۔ اگر نہیں، تو تو داخلے کے قابل نہیں ہو گا؛ داخلہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب تیرے پاس سچائی کا علم ہو۔ صرف اس صورت میں کہ جب روح القدس تجھے تیرے تجربے میں آگہی عطا کرے تو تب تجھے سچائی کی گہری سمجھ، اور گہرا داخلہ حاصل ہوگا۔ تمہیں خدا کے کام کو لازمی جاننا چاہیے۔
ابتدا میں، بنی نوع انسان کی تخلیق کے بعد، یہ بنی اسرائیل ہی تھے جنہوں نے خدا کے کام کی بنیاد کے طور پر کام کیا۔ پورا اسرائیل زمین پر یہوواہ کے کام کی بنیاد تھا۔ یہوواہ کا کام قوانین کو ترتیب دے کر براہ راست انسان کی قیادت اور راہنمائی کرنا تھا، تاکہ انسان ایک معمول کی زندگی گزار سکے اور زمین پر ایک عام انداز میں یہوواہ کی عبادت کر سکے۔ قانون کے دور میں انسان خدا کو نہ تو دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی چھو سکتا تھا۔ کیونکہ اس نے جو کچھ کیا وہ شیطان کے ذریعے بدعنوان بننے والے سب سے پہلے لوگوں کی راہنمائی کے لیے تھا، ان کو تعلیم دینے اور ان کی راہنمائی کرنے کے لیے، اس کے الفاظ میں قوانین، ضابطے اور انسانی رویے کے روایتی طرزِعمل کے سوا کچھ نہیں تھا، اور انھیں زندگی کی سچائیاں فراہم نہیں کی تھیں۔ اُس کی قیادت میں بنی اسرائیل شیطان کی وجہ سے بہت زیادہ بدعنوان نہیں ہوئے تھے۔ اس کا قانون کا کام نجات کے کام کا صرف سب سے پہلا مرحلہ تھا، نجات کے کام کا آغاز تھا، اور اس کا عملی طور پر انسان کی زندگی کے مزاج میں ہونے والی تبدیلیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لہٰذا، نجات کے کام کے آغاز میں اس کے لیے اسرائیل میں اپنے کام کے لیے جسم اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے ایک واسطے – ایک اوزار – کی ضرورت تھی جس کے ذریعے انسان کے ساتھ مشغول ہو۔ اس طرح، مخلوقات کے درمیان وہ لوگ اٹھے جنہوں نے یہوواہ کی طرف سے بات کی اور کام کیا، اسی طرح بنی آدم اور انبیا انسان کے درمیان کام کرنے آئے۔ بنی آدم نے یہوواہ کی طرف سے انسانوں کے درمیان کام کیا۔ یہوواہ کی طرف سے ”بنی آدم“ کہلانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ یہوواہ کی طرف سے قوانین وضع کرتے تھے۔ اسرائیل کے لوگوں میں پادری بھی تھے، ایسے پادری جن کی نگرانی اور حفاظت یہوواہ نے کی تھی، اور جن میں یہوواہ کی روح نے کام کیا تھا؛ وہ لوگوں میں راہنما تھے اور انہوں نے براہ راست یہوواہ کی خدمت کی۔ دوسری طرف، انبیا، یہوواہ کی طرف سے تمام ممالک اور قبیلوں کے لوگوں سے بات کرنے کے لیے وقف تھے۔ انہوں نے یہوواہ کے کام کی بھی پیشین گوئی کی۔ خواہ وہ بنی آدم ہوں یا انبیا، سب خود یہوواہ کی روح سے اٹھائے گئے تھے اور ان میں یہوواہ کا کام تھا۔ لوگوں میں، وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے براہِ راست یہوواہ کی نمائندگی کی؛ انہوں نے اپنا کام صرف اس لیے کیا کہ وہ یہوواہ کی طرف سے اٹھائے گئے تھے اور اس لیے نہیں کہ وہ ایسے جسم تھے جس میں خود روح القدس مجسم تھی۔ اس لیے، اگرچہ وہ خدا کی طرف سے بولنے اور کام کرنے میں یکساں تھے، لیکن قانون کے دور میں وہ بنی آدم اور انبیا، مجسم خدا کا جسم نہیں تھے۔ فضل کے دور میں اور آخری مرحلے میں خدا کا کام بالکل برعکس تھا، کیونکہ انسان کی نجات اور فیصلہ دونوں کا کام مجسم خدا نے خود کیا تھا، اس لیے اس کی طرف سے کام کرنے کے لیے، انبیا اور ابن آدم کو ایک بار پھر اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انسان کی نظر میں ان کے کام کے جوہر اور طریقہ کار میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگ مسلسل مجسم خدا کے کام کو انبیا اور ابن آدم کے کام کے ساتھ لگاتارالجھاتے رہتے ہیں۔ مجسم خدا کا ظہور بنیادی طور پر اسی طرح تھا جیسے کہ انبیا اور ابن آدم کا تھا۔ اور مجسم خدا انبیا سے بھی زیادہ عام اور زیادہ حقیقی تھا۔ اس لیے انسان ان میں امتیاز کرنے سے قاصر ہے۔ انسان صرف ظاہری شکل و صورت پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اس بات سے بالکل بے خبر کہ اگرچہ دونوں کام کرنے اور بولنے میں یکساں ہیں مگر ان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ چونکہ انسان کی چیزوں میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے، اس لیے وہ سادہ مسائل میں فرق کرنے سے قاصر ہے، اور اتنی پیچیدہ چیزوں میں فرق کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ جب انبیا اور روح القدس کے ذریعے استعمال ہونے والے لوگ بولتے تھے اور کام کرتے تھے، تو یہ انسان کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تھا، یہ ایک تخلیق شدہ ہستی کے طور پر خدمت انجام دینے کے لیے تھا، اور یہ وہ کام تھا جو انسان کو کرنا چاہیے تھا۔ تاہم، مجسم خدا کا کلام اور کام اس کی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے تھے۔ اگرچہ اس کی ظاہری شکل ایک مخلوق کی طرح تھی، لیکن اس کا کام اپنے کام کو انجام دینا نہیں تھا بلکہ یہ اس کی ذمہ داری تھی۔ "فرض" کی اصطلاح تخلیق شدہ مخلوقات کے حوالے سے استعمال ہوتی ہے، جب کہ "ذمہ داری" کا استعمال مجسم خدا کے جسم کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ دونوں کے درمیان کافی فرق ہے؛ وہ آپس میں قابل تبادلہ نہیں ہیں۔ انسان کا کام صرف اپنا فرض ادا کرنا ہے جب کہ خدا کا کام انتظام کرنا اور اپنی ذمہ داری انجام دینا ہے۔ لہٰذا، اگرچہ روح القدس کے ذریعے بہت سے رسول استعمال کیے گئے تھے اور بہت سے انبیا اس سے معمور تھے، لیکن ان کا کام اور الفاظ محض مخلوق کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی پیشین گوئیاں مجسم خدا کے بتائے ہوئے زندگی کے طریقوں سے کہیں زیادہ ہو گئی ہوں، اور ہو سکتا ہے کہ ان کی انسانیت مجسم خدا سے بھی بالاتر ہو گئی ہو، لیکن وہ پھر بھی ایک ذمہ داری کو پورا نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنا فرض ادا کر رہے تھے، اور انسان کے فرض سے مراد انسان کا کام ہے؛ یہ وہی ہے جو انسان کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، مجسم خدا کی طرف سے انجام دی جانے والی ذمہ داری کا تعلق اس کے انتظام سے ہے، اور یہ انسان کے لیے ناقابل حصول ہے۔ چاہے مجسم خدا بولتا ہے، کام کرتا ہے، یا عجائبات دکھاتا ہے، وہ اپنے انتظام کے درمیان عظیم کام کر رہا ہے، اور اس کی جگہ انسان ایسا کام نہیں کر سکتا۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ خدا کے انتظام کے کام کے ایک مقررہ مرحلے میں ایک مخلوق کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرے۔ خدا کے نظم و نسق کے بغیر، یعنی اگر مجسم خدا کی ذمہ داری کھو جائے تو ایک تخلیق شدہ وجود کا فرض کھو جائے گا۔ خدا کا کام اپنی ذمہ داری کو انجام دینے میں انسان کا بندوبست کرنا ہے، جب کہ انسان کی اپنے فرض کی انجام دہی خالق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس کے اپنے فریضے کی تکمیل ہے، اور اسے کسی بھی طرح سے کسی کی ذمہ داری کا انجام دینا نہیں سمجھا جا سکتا۔ خُدا کے فطری مادّے کے لیے – اُس کی روح کے لیے – خُدا کا کام اُس کا انتظام ہے، لیکن مجسم خُدا کے لیے، جو ایک تخلیق شدہ وجود کی ظاہری شکل کو اوڑھتا ہے، اُس کا کام اپنی ذمہ داری کو انجام دینا ہے۔ وہ جو بھی کام کرتا ہے وہ اس کی ذمہ داری کو انجام دینا ہے؛ انسان جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خدا کے انتظام کے دائرہ کار میں اور اس کی راہنمائی میں اپنی بہترین کوشش کرے۔
انسان کی اپنے فرض کی انجام دہی درحقیقت اس سب کا حصول ہے جو انسان کے اندر جبلی طور پر موجود ہے، جو کہ انسان کے لیے ممکن ہے۔ تب ہی اس کا فرض پورا ہوتا ہے۔ اس کی خدمت کے دوران انسان کے نقائص مرحلہ وار تجربے اور اس کے فیصلے کو برداشت کرنے کے عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیں؛ وہ انسان کے فرض میں رکاوٹ نہیں بنتے یا اس کے فرض پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں۔ جو لوگ خدمت کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا دستبردار ہو کر اس خوف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ان کی خدمت میں خامیاں ہو سکتی ہیں وہ سب سے زیادہ بزدل ہیں۔ اگر لوگ اس بات کا اظہار نہیں کر سکتے جس کا اظہار انہیں خدمت کے دوران کرنا چاہیے یا وہ حاصل نہیں کرتے جو ان کے لیے فطری طور پر ممکن ہے، اور اس کی بجائے احمقانہ حرکتیں کرتے ہیں اور سرسری انداز میں کام کرتے ہیں، تو وہ اس کردار کو کھو چکے ہوتے ہیں جو ایک مخلوق کا ہونا چاہیے۔ ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جنھیں "اوسط درجے کا" کہا جاتا ہے۔ وہ بیکار کباڑ ہیں. ایسے لوگوں کو کیسے صحیح طور پر تخلیق شدہ وجود کہا جا سکتا ہے؟ کیا وہ بدعنوان لوگ نہیں ہیں جو باہر سے تو چمکتے ہیں لیکن اندر سے گلے سڑے ہیں؟ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو خدا کہتا ہے لیکن اس کے باوجود الوہیت کا اظہار کرنے سے قاصر ہے، خدا کا کام خود کرنے سے قاصر ہے، یا خدا کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہے، تو وہ بلاشبہ خدا نہیں ہے، کیونکہ اس کے پاس خدا کا مادّہ نہیں ہے، اور وہ جو خدا جبلی طور پر حاصل کرسکتا ہے، وہ اس کے اندر موجود نہیں ہے۔ اگر انسان وہ چیز کھو دیتا ہے جو اس کے لیے جبلی طور پر حاصل کرنا ممکن ہے، تو اسے اب انسان نہیں سمجھا جا سکتا، اور وہ اس قابل نہیں ہے کہ ایک مخلوق کے طور پر کھڑا ہو یا خدا کے سامنے حاضر ہو کر اس کی خدمت کرے۔ مزید یہ کہ وہ خدا کا فضل حاصل کرنے یا خدا کی طرف سے اس کی نگرانی، حفاظت اور کامل بنائے جانے کے لائق نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جنہوں نے خدا کا اعتبار کھو دیا ہو وہ خدا کے فضل کو کھو دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی بداعمالیوں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ڈھٹائی سے اس خیال کو پھیلاتے ہیں کہ خدا کا طریقہ غلط ہے اور باغی تو خدا کے وجود سے بھی انکاری ہیں۔ ایسے لوگ جو اس طرح کی سرکشی میں مبتلا ہیں وہ خدا کے فضل سے کیسے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟ جو لوگ اپنا فرض ادا نہیں کرتے وہ خدا کے خلاف بہت سرکش ہیں، اور اس کے بہت زیادہ مقروض ہیں، پھر بھی وہ منہ پھیرتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں کہ خدا غلط ہے۔ اس قسم کا آدمی کامل بنائے جانے کے لائق کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ نکالے جانے اور سزا پانے کا پیش خیمہ نہیں ہے؟ جو لوگ خدا کے سامنے اپنا فرض ادا نہیں کرتے وہ پہلے سے ہی سنگین ترین جرم کے مرتکب ہوتے ہیں جس کے لیے موت کی سزا بھی ناکافی ہے، پھر بھی ان میں خدا سے بحث کرنے اور اس کے خلاف خود کو مدِّ مقابل لانے کی جرات ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو کامل بنانے کا کیا فائدہ ہے؟ جب لوگ اپنے فرض کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو انہیں جرم اور مقروض ہونے کا احساس ہونا چاہیے؛ انہیں اپنی کمزوری اور بے فائدہ ہونے، اپنی سرکشی اور بدعنوانی سے نفرت کرنی چاہیے، اور اس کے علاوہ، اپنی جان خدا کے سپرد کرنی چاہیے۔ صرف تب ہی وہ ایسی مخلوقات ہوں گے جو حقیقی معنوں میں خدا سے محبت کرتے ہیں، اور صرف ایسے ہی لوگ خدا کی نعمتوں اور وعدے سے لطف اندوز ہونے اور اس کی طرف سے کامل بنائے جانے کے لائق ہیں۔ اور تمہاری اکثریت کا کیا ہے؟ تم اس خدا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو جو کہ تمہارے درمیان رہتا ہے؟ تم نے اس کے حضور اپنا فرض کیسے ادا کیا؟ کیا تم نے وہ سب کچھ کیا ہے جو کرنے کے لیے کہا گیا تھا، حتیٰ کہ تمہاری اپنی جان کی قیمت پر؟ تم نے کیا قربانی دی ہے؟ کیا تمہیں میری طرف سے بہت کچھ نہیں ملا ہے؟ کیا تم سمجھ سکتے ہو؟ تم میرے کتنے وفادار ہو؟ تم نے میری خدمت کیسے کی ہے؟ اور جو کچھ میں نے تمہیں عطا کیا ہے اور تمہارے لیے کیا ہے؟ کیا تم نے اس سب کا حساب لگایا ہے؟ تمہارے اندر جو تھوڑا سا ضمیر ہے، اس سے کیا تم سب نے اندازہ لگایا ہے اور اس کا موازنہ کیا ہے؟ تمہارے قول و فعل کے لائق کون ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تمہاری اتنی معمولی قربانی ان تمام چیزوں کے لائق ہو جو میں نے تمہیں عطا کی ہیں؟ میرے پاس اور کوئی انتخاب نہیں ہے اور میں پورے دل سے تمہارے لئے وقف ہوں، اس کے باوجود تم خبیث ارادوں کو دل میں پالتے ہو اور میری طرف نیم دلی سے متوجہ ہوتے ہو۔ یہ تمہارے فرض کی حد ہے، تمہارا واحد کام۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تم ایک مخلوق کا فرض ادا کرنے میں بالکل ناکام رہے ہو؟ تمہیں ایک تخلیق شدہ وجود کیسے تصور کیا جا سکتا ہے؟ کیا تم پر یہ واضح نہیں ہے کہ تم کیا اظہار کر رہے ہو اور کس طرح عمل کر رہے ہو؟ تم اپنے فرض کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہو، لیکن تم خدا کی برداشت اور فراخ دلانہ فضل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ ایسا فضل ان لوگوں کے لیے تیار نہیں کیا گیا ہے جو تمہاری طرح بے وقعت اور کمینے ہیں، بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جو کچھ نہیں مانگتے اور خوشی خوشی قربانی دیتے ہیں۔ تمہارے جیسے لوگ، ایسے اوسط درجے کے لوگ، آسمانی فضل سے لطف اندوز ہونے کے بالکل قابل نہیں ہیں۔ تمہارے دنوں کے ساتھ صرف سختی اور لامتناہی سزا آئے گی! اگر تم میرے ساتھ وفادار نہیں رہ سکتے تو تمہاری قسمت میں مصیبت ہو گی۔ اگر تم میرے کلام اور میرے کام کے لیے جوابدہ نہیں ہو سکتے تو تمہارا انجام سزا ہو گا۔ تمام فضل، برکات، اور بادشاہی کی شاندار زندگی کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہ وہ انجام ہے جس کے تم مستحق ہو اور یہ تمہارے اپنے کیے دھرے کا نتیجہ ہے! جہالت اور تکبر کرنے والے نہ صرف اپنی پوری کوشش نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنا فرض بھی ادا نہیں کرتے، وہ فضل کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں، گویا وہ جو مانگتے ہیں وہ ان کا حق ہے۔ اور اگر وہ اس کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو وہ مانگتے ہیں، تو وہ اور بھی کم وفادار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کیسے معقول سمجھا جا سکتا ہے؟ تم ناقص صلاحیت کے حامل ہو اور عقل سے محروم ہو، اس فرض کو پورا کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہو جو تمہیں انتظامی کام کے دوران پورا کرنا چاہیے۔ تمہاری قدر پہلے ہی گر چکی ہے۔ جو میں نے تمہیں اتنا فضل دکھایا ہے اس کا بدلہ چکانے میں تمہاری ناکامی پہلے ہی انتہا کی سرکشی ہے، تمہیں ملامت کرنے کے لیے کافی ہے اور تمہاری بزدلی، نااہلیت، کمینگی اور بے وقعتی کو ظاہر کرتی ہے۔ تمہیں اپنے ہاتھ پھیلانے کا کیا حق ہے؟ اور یہ کہ تم میرے کام میں معمولی سی مدد کرنے سے بھی قاصر ہو، وفادار بننے سے قاصر ہو، اور میرے حق میں گواہی دینے سے قاصر ہو، یہ تمہاری بداعمالیاں اور ناکامیاں ہیں، اس کے باوجود تم پھر بھی مجھ پر حملہ کرتے ہو، میرے متعلق جھوٹ بولتے ہو، اور شکایت کرتے ہو کہ میں ناراستباز ہوں۔ کیا تمہاری وفاداری کی تشکیل اسی سے ہے؟ کیا تمہاری محبت کی تشکیل اسی سے ہے؟ اس سے بڑھ کر تم اور کیا کام کر سکتے ہو؟ جو سب کام کیا گیا ہے، تم نے اس میں کس طرح تعاون کیا ہے؟ تم نے کتنا خرچ کیا ہے؟ میں نے تم پر الزام نہ لگا کر پہلے ہی بڑی برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، پھر بھی تم بے شرمی سے مجھ سے بہانے بناتے ہو اور چپکے چپکے میرے متعلق شکایت کرتے ہو۔ کیا تم میں ذرہ برابر انسانیت بھی ہے؟ اگرچہ انسان کا فرض انسان کے ذہن اور اس کے تصورات سے داغدار ہے، لیکن تجھے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے اور لازمی اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انسان کے کام کی نجاست اس کی صلاحیت کا مسئلہ ہے، جب کہ اگر انسان اپنا فرض ادا نہ کرے تو یہ اس کی سرکشی کو ظاہر کرتا ہے۔ انسان کے فرض اور اس کے مبارک ہونے یا ملعون ہونے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ فرض وہ ہے جو انسان کو پورا کرنا چاہیے؛ یہ اس کا آسمان کی طرف سے عطا کردہ اہم کام ہے، اور اس کا انحصار معاوضے، شرائط یا دلائل پر نہیں ہونا چاہیے۔ صرف تب ہی وہ اپنا فرض ادا کر رہا ہو گا۔ فضل یافتہ ہونا تب ہوتا ہے جب کوئی کامل ہو جائے اور فیصلے کے عمل سے گزرنے کے بعد خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو۔ ملعون ہونا اس وقت ہوتا ہے جب سزا اور فیصلے کے عمل سے گزرنے کے بعد بھی کسی کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ آئے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کامل بنائے جانے کے عمل سے نہیں گزرتا بلکہ سزا پاتا ہے۔ لیکن اس بات سے قطع نظر کہ وہ مبارک ہوں یا ملعون، مخلوقات کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیے، وہ کریں جو انھیں کرنا چاہیے، اور وہ کریں جو وہ کر سکتے ہیں؛ یہ وہ کم سے کم ہے جو ایک شخص، ایک ایسا شخص جو خدا کے حصول کی کوشش کرتا ہے، کو کرنا چاہئے۔ تجھے صرف برکت حاصل کرنے کے لیے اپنا فرض ادا نہیں کرنا چاہیے، اور تجھے ملعون ہونے کے خوف سے عمل کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ میں تمہیں یہ ایک بات بتاتا ہوں: کہ انسان کا اپنا فرض ادا کرنا ہی وہ ہے جو اسے کرنا چاہیے، اور اگر وہ اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہے تو پھر یہ اس کی سرکشی ہے۔ اپنا فرض ادا کرنے کے عمل سے ہی انسان میں بتدریج تبدیلی آتی ہے اور اسی عمل سے وہ اپنی وفاداری کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ اس طرح، جتنا زیادہ تو اپنا فرض ادا کرنے کے قابل ہو گا، تجھے اتنی ہی زیادہ سچائی ملے گی، اور تیرا اظہار اتنا ہی حقیقی ہوتا جائے گا۔ جو لوگ اپنے فرض کی ادائیگی محض سرسری انداز میں کرتے ہیں اور سچ کی جستجو نہیں کرتے وہ آخر کار نکالے جائیں گے کیونکہ ایسے لوگ سچ پر عمل کرنے میں اپنا فرض ادا نہیں کرتے اور اپنے فرض کی ادائیگی میں سچ پر عمل نہیں کرتے۔ یہ وہی ہیں جو ناقابلِ تغیر رہیں گے اور ملعون ہوں گے۔ نہ صرف ان کے تاثرات ناپاک ہیں بلکہ ہر وہ چیز جو وہ ظاہر کرتے ہیں خبیث ہے۔
فضل کے دور میں، یسوع نے بھی بہت سے الفاظ کہے اور بہت سا کام کیا۔ وہ یسعیاہ سے کیسے مختلف تھا؟ وہ دانی ایل سے کیسے مختلف تھا؟ کیا وہ نبی تھا؟ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ وہ مسیح ہے؟ ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ وہ تمام انسان تھے جو الفاظ بولتے تھے، اور ان کے الفاظ کم و بیش انسان کو ایک جیسے لگتے تھے۔ ان سب نے الفاظ کہے اور کام کیا۔ پرانے عہد نامے کے نبیوں نے پیشین گوئیاں کیں، اور اسی طرح، یسوع نے بھی۔ ایسا کیوں ہے؟ یہاں امتیاز کام کی نوعیت پر مبنی ہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے، تجھے جسم کی نوعیت پر غور نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی تجھے ان کے الفاظ کی گہرائی یا سطحی پن پر غور کرنا چاہیے۔ تجھے ہمیشہ سب سے پہلے ان کے کام اور ان کے کام سے انسان پر حاصل ہونے والے اثرات پر غور کرنا چاہیے۔ اس وقت کے انبیا کی طرف سے کہی گئی پیشین گوئیوں نے انسان کی زندگی کی ضرورت کو پورا نہیں کیا، اور یسعیاہ اور دانی ایل جیسے لوگوں کی طرف سے حاصل کردہ الہام محض پیشین گوئیاں تھیں، نہ کہ طرز زندگی۔ اگر یہوواہ کی طرف سے براہِ راست الہام نہ ہوتا تو کوئی بھی وہ کام نہیں کر سکتا تھا، جو فانی انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یسوع نے بھی بہت سے الفاظ کہے لیکن ایسے الفاظ زندگی کا راستہ تھے جن سے انسان عمل کرنے کا راستہ تلاش کر سکتا تھا۔ کہنے کا مطلب ہے، اول، وہ انسان کی زندگی کی ضرورت پوری کر سکتا ہے، کیونکہ یسوع زندگی ہے؛ دوم، وہ انسان کے انحرافات کو پلٹ سکتا ہے؛ سوم، دور کو جاری رکھنے کے لیے اس کا کام یہوواہ کے کام کی جگہ لے سکتا ہے؛ چہارم، وہ انسان کے اندر کی ضروریات کو سمجھ سکتا ہے اور جان سکتا ہے کہ انسان میں کیا کمی ہے؛ پنجم، وہ ایک نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے اور پرانے کو ختم کر سکتا ہے۔ اسی لیے اسے خدا اور مسیح کہا جاتا ہے؛ وہ نہ صرف یسعیاہ سے بلکہ دوسرے تمام نبیوں سے بھی مختلف ہے۔ یسعیاہ کو نبیوں کے کام سے موازنے کے طور پر لو۔ اول، وہ انسان کی زندگی کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا؛ دوم، وہ نئے دور کا آغاز نہیں کر سکتا تھا۔ وہ یہوواہ کی قیادت میں کام کر رہا تھا نہ کہ نئے زمانے کا آغاز کرنے کے لیے۔ سوم، اس نے جو الفاظ کہے وہ اس کی فہم سے باہر تھے۔ وہ براہِ راست خُدا کی روح سے الہامات حاصل کر رہا تھا، اور دوسرے لوگ اُن کو سُن کر بھی نہیں سمجھ پائے۔ صرف یہ چند باتیں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اُس کے الفاظ پیشین گوئیوں سے زیادہ نہیں ہیں، یہوواہ کی جگہ پر کیے گئے کام کے ایک پہلو سے زیادہ نہیں ہیں۔ تاہم، وہ مکمل طور پر یہوواہ کی نمائندگی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ یہوواہ کا خادم تھا، یہوواہ کے کام میں ایک آلہ کار تھا۔ وہ صرف قانون کے دور میں اور یہوواہ کے کام کے دائرہ کار میں کام کر رہا تھا؛ اس نے قانون کے دور سے باہر کام نہیں کیا۔ اس کے برعکس، یسوع کا کام مختلف تھا۔ وہ یہوواہ کے کام کے دائرہ کار سے آگے نکل گیا؛ اس نے مجسم خدا کے طور پر کام کیا اور تمام بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے مصلوب ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ، اس نے یہوواہ کی طرف سے کیے گئے کام سے ہٹ کر نیا کام انجام دیا۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ اس کے علاوہ، وہ ان چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے قابل تھا جو انسان حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا کام خدا کے انتظام کے اندر کام تھا اور اس میں پوری انسانیت شامل تھی۔ اس نے صرف چند انسانوں میں کام نہیں کیا اور نہ ہی اس کے کام کا مقصد محدود تعداد میں انسانوں کی راہنمائی کرنا تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کس طرح خدا کی تجسیم ایک انسان کے طور پر ہوئی، اس وقت روح نے کیسے الہامات کیے، اور کام کرنے کے لیے روح انسان پر کیسے نازل ہوئی – یہ وہ معاملات ہیں جنھیں انسان نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی چھو سکتا ہے۔ ان سچائیوں کے لیے یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ مجسم خدا ہے۔ اس طرح، فرق صرف خدا کے کلام اور کام کے درمیان کیا جا سکتا ہے، جو انسان کے لئے قابلِ فہم ہیں۔ صرف یہی حقیقی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجھے روح کے معاملات نظر نہیں آتے اور صرف خود خدا کو ہی ان کا واضح طور پر علم ہے، اور حتیٰ کہ مجسم خدا کا جسم بھی سب کچھ نہیں جانتا ہے؛ تو صرف اس کے کیے گئے کام سے اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ وہ خدا ہے یا نہیں۔ اس کے کام سے، یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ، اول، وہ ایک نئے دور کو کھولنے کے قابل ہے۔ دوم، وہ انسان کی زندگی کی ضرورت کو پورا کرنے اور انسان کو پیروی کرنے کا راستہ دکھانے پر قادر ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ خود خدا ہے۔ کم از کم، اس کا کام مکمل طور پر خدا کی روح کی نمائندگی کر سکتا ہے، اور ایسے کام سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کی روح اس کے اندر موجود ہے۔ جیسا کہ مجسم خدا کا کیا گیا کام بنیادی طور پر ایک نئے دور کا آغاز کرنا، نئے کام کی قیادت کرنا، اور ایک نئے جہان کو کھولنا تھا، صرف یہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ وہ خود خدا ہے۔ لہذا یہ اسے یسعیاہ، دانی ایل اور دوسرے عظیم نبیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ یسعیاہ، دانی ایل، اور دیگر سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب انسانوں کے طبقے سے تھے؛ وہ یہوواہ کی قیادت میں غیر معمولی انسان تھے۔ مجسم خدا کا جسم بھی علم والا تھا اور اس میں سمجھ کی کمی نہیں تھی، لیکن اس کی انسانیت خاص طور پر معمول کی تھی۔ وہ ایک عام آدمی تھا، اور عام آنکھ اس کے بارے میں کوئی خاص انسانیت نہیں پہچان سکتی تھی اور نہ ہی اس کی انسانیت میں کسی ایسی چیز کا پتہ لگا سکتی تھی جو دوسروں سے مختلف ہو۔ وہ بالکل بھی مافوق الفطرت یا منفرد نہیں تھا، اور اس کے پاس کوئی اعلیٰ تعلیم، علم یا نظریہ نہیں تھا۔ اس نے جس زندگی کی بات کی اور جس راستے کی اس نے راہنمائی کی وہ نظریہ، علم، زندگی کے تجربے، یا خاندانی پرورش کے ذریعے حاصل نہیں کی گئی تھی۔ بلکہ، وہ روح کا براہِ راست کام تھے، جو کہ مجسم جسم کا کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کے بارے میں بہت زیادہ تصورات رکھتا ہے، اور خاص طور پر اس لیے کہ یہ تصورات بہت زیادہ مبہم اور مافوق الفطرت عناصر سے بنے ہیں کہ انسان کی نظر میں، انسانی کمزوری کے ساتھ ایک عام خدا، جو نشانیوں اور عجائبات کا کام نہیں کرسکتا، یقینی طور پر خدا نہیں ہے۔ کیا یہ انسان کے غلط تصورات نہیں ہیں؟ اگر مجسم خدا کا جسم ایک عام آدمی نہیں تھا، تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ جسم بن گیا؟ جسم کا ہونا ایک عام، معمول کے انسان کا ہونا ہے؛ اگر وہ ماورائی ہستی ہوتا تو وہ جسم کا نہ ہوتا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ جسم کا ہے، مجسم خُدا کو عام جسم رکھنے کی ضرورت تھی۔ یہ محض تجسیم کی اہمیت کو مکمل کرنے کے لیے تھا۔ تاہم، انبیا اور بنی آدم کے لیے ایسا معاملہ نہیں تھا۔ وہ روح القدس کی طرف سے استعمال کیے جانےوالے انتہائی ذہین انسان تھے؛ انسان کی نظر میں ان کی انسانیت خاصی عظیم تھی اور انہوں نے بہت سے ایسے کام انجام دیے جو عام انسانیت سے آگے بڑھ گئے۔ اسی وجہ سے انسان انہیں خدا مانتا تھا۔ اب تم سب کو اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے، کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں ماضی کے تمام انسان بہت آسانی سے الجھن میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔ مزید برآں، مجسم ہونا تمام چیزوں میں سب سے زیادہ پراسرار ہے، اور انسان کے لیے مجسم خدا کو قبول کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ میں جو کہتا ہوں وہ تمہارے کام کو پورا کرنے اور مجسم ہونے کے اسرار کو سمجھنے کے لیے تمہارے لیے موزوں ہے۔ یہ سب خدا کے انتظام سے، بصائر سے متعلق ہے۔ اس کے بارے میں تمہاری سمجھ بصائر کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو گی، یعنی کہ خدا کے انتظام کے کام کو۔ اس طرح، تم اس فرض کے بارے میں بھی بہت زیادہ فہم حاصل کرو گے جو مختلف قسم کے لوگوں کو ادا کرنا چاہیے۔ اگرچہ یہ الفاظ تمہیں براہ راست راستہ نہیں دکھاتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ تمہارے داخلے میں بہت مددگار ہیں، کیونکہ تمہاری زندگیوں میں اس وقت بصیرت کی بہت کمی ہے، اور یہ ایک بڑی رکاوٹ بن کر تمہارے داخلے کو روکے گی۔ اگر تم ان مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہو، تو تمہارے داخلے کے لیے کوئی ترغیب نہیں ہوگی۔ اور ایسی کوشش تمہیں اپنے فرض کو بہترین طریقے سے نبھانے کے قابل کیسے بنا سکتی ہے؟