خدا تمام مخلوق کا خداوند ہے
گزشتہ دو ادوار کے کاموں کا پہلا مرحلہ اسرائیل میں انجام دیا گیا ا ور ایک یہودیہ میں انجام دیا گیا۔ اگر عمومی بات کی جائے تو اس کا م کا کوئی بھی مرحلہ اسرائیل سے باہر نہیں گیا اور ان میں سے ہر ایک کام اوّلین چُنے ہوئے لوگوں پر ہی انجام دیا گیا۔ نتیجتاً، اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ یہوواہ خدا صرف بنی اسرائیل کا ہی خدا ہے۔ چونکہ یسوع نے یہودیہ میں کام کیا، جہاں اس نے مصلوبیت کا کام کیا، لہٰذا یہودی اسے یہودیوں کے نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ وہ صرف یہودیوں کا ہی بادشاہ ہے کسی اور قوم کا نہیں؛ نیز یہ کہ وہ انگریزوں کوخلاصی دلانے والا خداوند نہیں ہے اور نہ ہی وہ خداوند ہے جو امریکیوں کو خلاصی دلاتا ہے، بلکہ وہ خداوند ہے جو بنی اسرائیل کو خلاصی دیتا ہے اور یہ کہ یہودی ہی تھے جنہیں اسں نے اسرائیل میں خلاصی دلائی۔ درحقیقت خدا ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ وہ تمام مخلوق کا خدا ہے۔ وہ صرف بنی اسرائیل اور یہودیوں کا خدا نہیں ہے۔ وہ تمام مخلوق کا خدا ہے۔ اس کے کام کے گزشتہ دو مرحلے اسرائیل میں انجام پائے، جس نے لوگوں میں بعض مخصوص تصورات کو جنم دیا ہے۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہوواہ نے اپنا کام اسرائیل میں کیا، کہ خود یسوع نے اپنا کام یہودیہ میں انجام دیا اور مزید یہ کہ وہ کام کرنے کے لیے جسم بن گیا – جو بھی معاملہ ہو، یہ کام اسرائیل سے آگے نہیں بڑھا۔ خدا نے نہ مصریوں میں کام کیا، نہ ہندوستانیوں میں۔ اس نے صرف بنی اسرائیل میں کام کیا۔ اس طرح لوگ مختلف تصورات تشکیل دیتے ہیں اور خدا کے کام کو ایک مخصوص دائرہ کار میں محدود کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا جب کام کرتا ہے، تو اُسے لازماً چُنے ہوئے لوگوں اور اسرائیل میں کرنا چاہیے۔ بجز بنی اسرائیل، خدا دوسروں کے ساتھ کام نہیں کرتا اورنہ ہی اس کا کوئی زیادہ بڑا دائرہ کار ہے۔ جب معاملہ مجسم خدا کو حد میں رکھنے اور اسے اسرائیل کی سرحدوں سے باہر جانے کی اجازت نہ دینے کا ہو، وہ خصوصا سخت گیرہیں۔ کیا یہ سب محض انسانی تصورات نہیں ہیں؟ خدا نے تمام آسمان اور زمین اور تمام چیزیں بنائیں اور تمام مخلوق پیدا کی، تو وہ اپنا کام صرف اسرائیل تک کیسے محدود کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اس کی طرف سے تمام مخلوق تخلیق کرنے کا کیا جواز ہوتا؟ اس نے پوری دنیا تخلیق کی اور اپنے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کا نہ صرف اسرائیل میں بلکہ کائنات کے ہر فرد پر اطلاق کیا۔ چاہے وہ چین، امریکا، برطانیہ یا روس میں رہتے ہوں، ہر فرد آدم کی اولاد ہے؛ وہ سب خدا نے بنائے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مخلوق کی حدود سے بچ نہیں سکتا اور ان میں سے کوئی ایک بھی خود کو "آدم کی اولاد" کے ٹھپے سے الگ نہیں کر سکتا۔ یہ سب خدا کی مخلوق ہیں، یہ سب آدم کی اولاد ہیں اور یہ سب آدم و حوا کی بگڑی ہوئی اولاد ہیں۔ صرف بنی اسرائیل ہی نہیں، بلکہ تمام انسان خدا کی مخلوق ہیں؛ صرف کچھ لعنت زدہ ہیں اور کچھ فضل یافتہ۔ بنی اسرائیل کے بارے میں بہت سی چیزیں قابل قبول ہیں؛ خدا نے شروع میں ان پر کام کیا کیونکہ وہ سب سے کم بدعنوان تھے۔ چینیوں کا ان سے موازنہ نہیں بنتا؛ وہ بہت کمتر ہیں۔ لہٰذا، خدا نے سب سے پہلے بنی اسرائیل کے درمیان کام کیا اور اس کے کام کا دوسرا مرحلہ صرف یہودیہ میں انجام پایا - جس کے نتیجے میں انسانوں میں بہت سے تصورات اور ضوابط پیدا ہوئے۔ درحقیقت، اگر خدا انسانی تصورات کے مطابق کام کرتا، تو وہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہوتا اور اس وجہ سے وہ اپنا کام غیر قوموں تک بڑھا نے کے قابل نہ ہوتا، کیونکہ وہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہوتا، نہ کہ تمام مخلوق کا خدا۔ تمام پیشین گوئیوں میں کہا گیا کہ یہوواہ کا نام غیر قوموں میں عظمت پائے گا، کہ یہ غیر قوموں میں پھیل جائے گا۔ یہ پیشن گوئی کیوں کی گئی؟ اگر خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا ہوتا، تو وہ صرف اسرائیل میں کام کرتا۔ مزید یہ کہ وہ یہ کام نہ پھیلاتا اور وہ ایسی پیشین گوئیاں نہ کرتا۔ چونکہ اُس نے یہ پیشین گوئی کی، وہ اپنا کام یقینی طور پر غیر قوموں، ہر قوم اور تمام سرزمینوں میں پھیلا دے گا۔ کیونکہ اس نے یہ کہا ہے، اسے یہ لازماً کرنا چاہیے؛ یہ اس کا منصوبہ ہے، کیونکہ وہی خداوند ہے جس نے آسمان اور زمین اور ہر چیز پیدا کی اور تمام مخلوقات کا خدا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ بنی اسرائیل کے درمیان کام کرتا ہے، یا تمام یہودیہ میں، وہ جو کام کرتا ہے وہ تمام کائنات کا کام ہے، پوری بنی نوع انسان کا کام ہے۔ جو کام وہ آج عظیم سرخ ڈریگن کی قوم میں - ایک غیر قوم میں کرتا ہے – وہ بھی بہر حال پوری بنی نوع انسان کا کام ہے۔ اسرائیل کرہ ارض پر اس کے کام کی بنیاد ہو سکتا ہے۔ اسی طرح، چین بھی غیر قوموں کے درمیان اس کے کام کی بنیاد بن سکتا ہے۔ کیا اس نے اب یہ پیشین گوئی پوری نہیں کی کہ "یہوواہ کا نام غیر قوموں میں عظمت پائے گا"؟ غیر قوموں میں اس کے کام کا پہلا مرحلہ یہ کام ہے، وہ کام جو وہ عظیم سرخ ڈریگن کی قوم میں کرتا ہے۔ مجسم خدا کو اس سرزمین پر کام کرنا چاہیے اور ان لعنت زدہ لوگوں کے درمیان کام، خاص طور پر انسانی تصورات کے خلاف ہے؛ یہ سب میں حقیر ترین لوگ ہیں، ان کی کوئی وقعت نہیں اور یہوواہ نے انھیں شروع میں ترک کر دیا تھا۔ لوگوں کو دوسرے لوگ چھوڑ سکتے ہیں، لیکن اگر خدا ان کو چھوڑ دے تو ان سے زیادہ بے حیثیت اور بے وقعت کوئی بھی نہیں ہو گا۔ خدا کی کسی مخلوق کو، شیطان کے چنگل میں ہونا یا لوگوں کی طرف سے چھوڑ دینا بہت تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے - لیکن کسی مخلوق کے لیے خالق کی طرف سے چھوڑ دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اس سے کمتر درجہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ موآب کے بچے لعنت زدہ تھے اور وہ اس پسماندہ ملک میں پیدا ہوئے۔ بلاشبہ، ظلمت کے زیر اثر تمام لوگوں میں سے، موآب کی اولاد کمتر تھی۔ چونکہ یہ لوگ درجہ کے اعتبار سے اب تک سب سے پست رہے ہیں، اس لیے ان پر کیا گیا کام انسانی تصورات چکناچور کرنے میں سب سے بہتر تھا اور یہ خدا کے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے لیے بھی سب سے زیادہ فائدہ مند تھا۔ ان لوگوں میں سے ایسا کام کرنا انسانی تصورات کو توڑنے کا بہترین طریقہ ہے اور اس کے ساتھ خدا ایک دور شروع کرتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام انسانی تصورات چکنا چورکر دیتا ہے، اس کے ساتھ وہ فضل کے پورے دور کا کام ختم کر دیتا ہے۔ اس کا پہلا کام اسرائیل کی سرحدوں کے اندر یہودیہ میں کیا گیا۔ غیر قوموں میں، اس نے نئے دور کے آغاز کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ کام کا آخری مرحلہ نہ صرف غیر قوموں میں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کرلعنت زدہ لوگوں میں بھی انجام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک نقطہ شیطان کوسب سے زیادہ ذلیل کرنے کے قابل ثبوت ہے اور اس طرح، خدا کائنات میں تمام مخلوق کا خدا، تمام چیزوں کا آقا اور تمام جاندار چیزوں کے لیے عبادت کا مقصد "بن جاتا ہے"۔
آج، ایسےلوگ موجود ہیں جو ابھی تک اس نئے کام کی سمجھ نہیں رکھتے جو خدا نے شروع کیا ہے۔ خدا نے غیر قوموں کے درمیان ایک نئی شروعات کا اعلان کیا۔ اس نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور ایک نیا کام شروع کیا ہے ــ اور وہ یہ کام موآب کی اولاد پر انجام دیتا ہے۔ کیا یہ اس کا تازہ ترین کام نہیں ہے؟ پوری تاریخ میں اس سے پہلے کسی نے اس کام کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ اس کی ستائش تو درکنار، کسی نے کبھی اس کے بارے میں سنا بھی نہیں تھا۔ خُدا کی حکمت، خُدا کے عجائبات، خُدا کا ادراک سے ماورا ہونا، خُدا کی عظمت اور خُدا کا تقدس سب کام کے اِس مرحلے، آخری ایام کے کام سے ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا یہ کوئی نیا کام نہیں، جو انسان کے تصورات چکناچور کردیتا ہے؟ اور ایسے لوگ بھی ہیں جو اس طرح سوچتے ہیں: "چونکہ خدا نے موآب پر لعنت کی اور کہا کہ وہ موآب کی اولاد کو چھوڑ دے گا، اب وہ انہیں کیسے بچائے گا؟" یہ وہ غیر قومیں ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور اسرائیل سے نکال دیا گیا۔ بنی اسرائیل کی طرف سے انہیں "غیر قوموں کے کتے" کہا جاتا تھا۔ ہر ایک کے نقطہ نظر سے، وہ نہ صرف غیر قوموں کے کتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بدتر، فرزندان ِ ہلاکت ہیں۔ یعنی وہ خدا کے چنُے ہوئے لوگ نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیل کی سرحدوں کے اندر پیدا ہوئے ہوں، لیکن ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں ہے اور انہیں غیر قوموں میں خارج کر دیا گیا تھا۔ وہ تمام لوگوں میں ادنیٰ ترین ہیں۔ اور بعینہ اس لیے کہ وہ ان انسانوں میں سب سے ادنیٰ ہیں، جن کے درمیان خدا ایک نئے دور کے آغاز کے لیے اپنا کام کرتا ہے، کیونکہ وہ بدعنوان نوع انسانی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خدا کا کام منتخب اور ہدف گیر ہے؛آج جو کام وہ ان لوگوں میں کرتا ہے وہ بھی وہی کام ہے جو تخلیق کے وقت انجام دیاجاتا ہے۔ نوح خدا کی ایک تخلیق تھا، جس طرح اس کی اولاد ہے۔ دنیا میں جوکوئی بھی گوشت پوست کا ہے، وہ خدا کی مخلوق ہے۔ خدا کے کام کا رخ تمام مخلوق کی طرف ہے؛ اس کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ آیا کسی شخص پراس کی تخلیق کے بعد لعنت کی گئی ہے۔ اُس کے انتظامی کام کا رخ تمام مخلوق کی طرف ہے، نہ کہ اُن چنُیدہ افراد کی طرف جن پر لعنت نہیں کی گئی ہے۔ چونکہ خدا اپنی مخلوق کے درمیان اپنا کام انجام دینا چاہتا ہے، اس لیے وہ یقیناً اسے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائے گا اور وہ ان لوگوں کے درمیان کام کرے گا جو اس کے کام کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ لہٰذا، جب وہ لوگوں کے درمیان کام کرتا ہے تو وہ تمام روایات چکنا چور کر دیتا ہے۔ اس کے نزدیک "لعنت زدہ"، "سزا یافتہ" اور "فضل یافتہ" الفاظ بے معنی ہیں! یہودی لوگ اچھے ہیں، جیسے کہ اسرائیل کے چنُے ہوئے لوگ۔ وہ اچھی استعداد اور انسانیت والے لوگ ہیں۔ شروع میں، یہ اُن کے درمیان تھا کہ یہوواہ نے اپنا کام شروع کیا اور اپنا ابتدائی کام انجام دیا – لیکن آج ان پر فتح کا کام انجام دینا بے معنی ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی تخلیق کا حصہ ہوں اور ممکن ہے ان کے حوالے سے بھی بہت کچھ مثبت ہو، لیکن ان کے درمیان کام کا یہ مرحلہ انجام دینا بے مقصد ہو گا؛ خدا لوگوں کو زیر کرنے کے قابل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ تمام مخلوق کو قائل کرنے کے قابل ہو گا اور اس کا کام عظیم ریڈ ڈریگن قوم کے ان لوگوں کو منتقل کرنے کا عین یہی مقصد تھا۔ اس کا ایک دور کا آغاز کرنا، اس کی تمام روایات اور تمام انسانی تصورات توڑنا اور فضل کے دور کے پورے کام کا خاتمہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر اس کا موجودہ کام بنی اسرائیل کے درمیان انجام دیا جائے، تو جب تک اس کا چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ اختتام کے قریب پہنچے گا، تو سب یقین کرلیں گے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے، صرف بنی اسرائیل ہی خدا کے چنُے ہوئے لوگ ہیں اور یہ کہ صرف بنی اسرائیل ہی خدا کی نعمتوں اور وعدے کی وراثت کےحق دار ہیں۔ عظیم سرخ ڈریگن کے ملک کی غیر قوموں میں آخری ایام کے دوران مجسم خدا، تمام مخلوق کے خدا کے طور پر خدا کا کام پورا کرتا ہے۔ وہ اپنے انتظام کے تمام کام مکمل کرتا ہے اور وہ عظیم سرخ ڈریگن کی قوم میں اپنے کام کا مرکزی حصہ ختم کرتا ہے۔ کام کے ان تین مراحل کا مرکزی نقطہ انسان کی نجات ہے – یعنی، تمام مخلوق سے خالق کی عبادت کرانا۔ پس کام کا ہر مرحلہ بہت زیادہ معنی رکھتا ہے؛ خدا بغیر معنی اور قدر کے کچھ نہیں کرتا۔ ایک طرف، کام کا یہ مرحلہ ایک نئے دور کا آغاز اور دو سابقہ ادوار کا خاتمہ کرتا ہے، دوسری طرف، یہ تمام انسانی تصورات اور انسانی عقیدے اور علم کے تمام پرانے طریقے چکنا چور کر دیتا ہے۔ پچھلے دو ادوار کا کام مختلف انسانی تصورات کے مطابق کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ مرحلہ انسانی تصورات ختم کر دیتا ہے، اس طرح انسانیت کو مکمل طور پر فتح کرلیتا ہے۔ اگرچہ موآب کی اولاد کو فتح کرنے کے ذریعے، موآب کی اولاد کے درمیان انجام دیے گئے کام کے ذریعے، خدا پوری کائنات کے تمام لوگوں کو فتح کرے گا۔ یہ اس کے کام کے اس مرحلے کی سب سے گہری اہمیت ہے اور یہ اس کے کام کے اس مرحلے کا سب سے قابل ِقدر پہلو ہے۔ یہاں تک کہ اگر تُو اب جانتا ہے کہ تیری اپنی حیثیت معمولی اور کم وقعت رکھتی ہے، تب بھی تُو محسوس کرے گا کہ تجھے سب سے زیادہ خوشی کی چیز مل گئی ہے: تمھیں ایک عظیم نعمت وراثت میں ملی ہے، تمھیں ایک عظیم وعدہ ملا ہے اور تم خدا کا یہ عظیم کام پورا کرنے میں مدد کر سکتے ہو۔ تم نے خدا کا حقیقی چہرہ دیکھا ہے، تم خدا کا اساسی مزاج جانتے ہو اور تم خدا کی مرضی پر عمل کرتے ہو۔ خدا کے کام کے پچھلے دو مراحل اسرائیل میں انجام دیے گئے تھے۔ اگر آخری ایام میں اس کے کام کا یہ مرحلہ بھی بنی اسرائیل کے درمیان انجام دیا جائے، تو نہ صرف تمام مخلوق اس بات پر یقین کرلے گی کہ صرف بنی اسرائیل ہی خدا کے چُنے ہوئے لوگ ہیں بلکہ خدا کا انتظامی منصوبہ مطلوبہ اثر حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے گا۔ اُس عرصے کے دوران، جس میں اس کے کام کے دو مراحل اسرائیل میں انجام پائے تھے، غیر قوموں کے درمیان کوئی نیا کام – اور نہ ہی نئے دور کا آغاز کرنے کا کوئی کام – کیا گیا تھا۔ آج کے کام کا مرحلہ - ایک نئے دور کے آغاز کا کام – سب سے پہلے غیر قوموں کے درمیان انجام دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ، یہ سب سے پہلے موآب کی اولاد کے درمیان انجام دیا جاتا ہے، اس طرح پورے دور کا آغاز کیا جاتا ہے۔ خدا نے انسانی تصورات میں موجود کسی بھی علم کا خاتمہ کر دیا ہے اور اس میں سے کچھ بھی باقی رہنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اپنے فتح کے کام میں اس نے انسانی تصورات، انسانی علم کے وہ قدیم طریقے چکناچور کر دیے ہیں۔ یہ لوگوں کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے کہ خدا کے ساتھ کوئی ضوابط نہیں ہیں کہ خدا کی بابت کچھ پرانا نہیں ہے، کہ وہ جو کام کرتا ہے وہ مکمل طور پر خود مختارانہ ہے، مکمل طور پر آزاد ہے اور یہ کہ وہ اپنے ہر کام میں حق بجانب ہے۔ وہ مخلوق کے درمیان جو بھی کام کرے، تُو لازماً پوری طرح سرتسلیم خم کرے گا۔ تمام کام جو وہ کرتا ہے، وہ معنی رکھتا ہے اور اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق انجام دیا جاتا ہے، نہ کہ انسانی پسند اور تصورات کے مطابق۔ اگر اس کے کام کے لیے کوئی چیز فائدہ مند ہو، تو وہ اسے کرتا ہے۔ اور اگر کوئی چیزفائدہ مند نہ ہو تو وہ نہیں کرتا، چاہے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو! وہ کام کرتا ہے اور اپنے کام کے معنی اور مقصد کے مطابق اپنے کام کے وصول کنندگان اور جگہ کا انتخاب کرتا ہے۔ جب وہ یہ کام کرتا ہے تو یہ پچھلےضابطوں کی پابندی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی پرانے کُلیوں پر عمل کرتا ہے۔ اس کے بجائے وہ کام کی اہمیت کے مطابق اپنے کام کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ آخر کار وہ ایک حقیقی اثر اور مطلوبہ مقصد حاصل کرلے گا۔ اگر تُو آج ان باتوں کو نہیں سمجھتا تو اس کام کا تجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔