صرف وہی لوگ جو خدا اور اس کے کام کو جانتے ہیں خدا کو مطمئن کر سکتے ہیں
مجسم خدا کا کام دو حصوں پر مشتمل ہے۔ جب وہ پہلی بار جسم بنا تو لوگوں نے اس پر یقین نہیں کیا اور اسے جانا نہیں، اور انہوں نے یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑ دیا۔ پھر، جب وہ دوسری بار جسم بنا، تو لوگوں نے اس وقت بھی اُس پر یقین نہیں کیا، اُسے جاننا تو بہت دور کی بات تھی، اور ایک بار پھر اُنہوں نے مسیح کو صلیب پر میخوں سے جڑ دیا۔ کیا انسان خدا کا دشمن نہیں؟ اگر انسان اسے نہیں جانتا تو وہ خدا کا مقرب کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ کیسے خدا کی گواہی دینے کا اہل ہو سکتا ہے؟ کیا انسان کے خدا سے محبت کرنے، خدا کی خدمت کرنے اور خدا کی تسبیح بیان کرنے کے دعوے سب پُر فریب جھوٹ نہیں ہیں؟ اگر تو اپنی زندگی ان غیر حقیقی، ناقابل عمل اشیا کے لیے وقف کر دے گا تو کیا تیری محنت رائیگاں نہیں جائے گی؟ جب تو یہ بھی نہیں جانتا کہ خدا کون ہے تو تُو خدا کا مقرب کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا اس طرح کی تلاش و جستجو مبہم اور تصوراتی نہیں ہے؟ کیا یہ پُرفریب نہیں ہے؟ کوئی خدا کا مقرب کیسے ہو سکتا ہے؟ خدا کا مقرب ہونے کی عملی اہمیت کیا ہے؟ کیا تو خدا کی روح کا مقرب ہو سکتا ہے؟ کیا تو دیکھ سکتا ہے کہ روح کتنی عظیم اور عالی مقام ہے؟ ایک غیر مرئی، غیر محسوس خدا کا مقرب ہونا – کیا یہ مبہم اور تصوراتی نہیں ہے؟ ایسی جستجو کی عملی اہمیت کیا ہے؟ کیا یہ سب پُر فریب جھوٹ نہیں ہے؟ تو جس چیز کی تلاش میں سرگرداں ہے وہ خدا کا مقرب ہونا ہے، لیکن درحقیقت تو شیطان کا غلام ہے کیونکہ تو خدا کو نہیں جانتا، اور تو غیرموجود "ہر شے کا خدا" کی جستجو کرتا ہے۔ جو غیرمرئی، غیرمحسوس، اور تیرے اپنے تخیلات کی پیداوار ہے۔ مبہم طور پر، ایسا "خدا" شیطان ہے، اور عملی طور پر، یہ تو خود ہے۔ تو خود اپنا مقرب ہونے کی کوشش کرتا ہے، پھر بھی تو یہ کہتا ہو کہ تو خدا کا مقرب بندہ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا یہ کُفر نہیں ہے؟ ایسی جستجو کی قدر کیا ہے؟ اگر خدا کی روح جسم نہیں بنتی تو خدا کا جوہر محض ایک غیرمرئی، غیر محسوس روح حیات ہوتا، بے شکل اور بے ڈھب، غیر مادی قسم کی، انسان کے لیے ناقابل رسائی اور ناقابل فہم، انسان اس جیسی غیر مجسم، حیرت انگیز، ناقابل فہم روح کا مقرب کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ایک مذاق نہیں ہے؟ اس طرح کا بیہودہ استدلال باطل اور ناقابل عمل ہے۔ تخلیق شدہ انسان جبلی طور پر خدا کی روح سے مختلف نوعیت کا ہے، تو وہ دونوں مقرب کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر خدا کی روح جسم میں حلول نہ کر گئی ہوتی، اگر خدا مجسم نہیں ہوتا اور ایک مخلوق بن کر خود کو عاجز نہیں کرتا، تو تخلیق شدہ انسان غیر اہل اور اس کے مقرب ہونے کے بھی ناقابل ہوتا، اور ان خدا پرست ایمان داروں کے علاوہ جنہیں اپنی روحوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد خدا کا مقرب ہونے کا موقع مل سکتا ہے، زیادہ تر لوگ خدا کی روح کے مقرب بننے سے قاصر ہوں گے۔ اور اگر لوگ مجسم خدا کی راہنمائی میں جنت میں خدا کا مقرب ہونا چاہیں تو کیا وہ حیرت انگیز طور پر بے وقوف غیر انسان نہیں ہیں؟ لوگ محض ایک غیر مرئی خدا کے ساتھ "وفاداری" کی جستجو کرتے ہیں، اور نظر آنے والے خدا کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں دیتے، کیونکہ ایک غیر مرئی خدا کٰی پیروی کرنا بہت آسان ہے۔ لوگ یہ کام جس طرح چاہیں کر سکتے ہیں، لیکن مرئی خدا کا حصول اتنا آسان نہیں ہے۔ جو شخص مبہم خدا کو تلاش کرتا ہے وہ قطعی طور پر خدا کو حاصل کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ جو چیزیں مبہم اور تصوراتی ہیں وہ سب انسان کا اپنا تخیل ہیں، اور انسان انھیں حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اگر وہ خدا جو تمہارے درمیان آیا ہے وہ عظیم اور عالی مقام خدا ہوتا جو تمہارے لیے ناقابل رسائی ہے تو تم اس کی مرضی کو کیسے سمجھ سکتے تھے؟ اور تم اسے کیسے جان اور سمجھ سکتے تھے؟ اگر اس نے صرف اپنا کام کیا ہوتا، اور اس کا انسان سے کوئی عام رابطہ نہیں ہوتا، یا اس میں عام انسانوں والی کوئی بات نہیں ہوتی اور وہ فانی انسانوں کے لیے ناقابل رسائی ہوتا، تو پھر خواہ اس نے تمہارے لیے بہت سے کام کیے ہوتے، لیکن تمہارا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا، اور اسے دیکھنے سے قاصر ہوتے، تو تم اسے کیسے جان سکتے تھے؟ اگر یہ عام انسانوں کا حامل جسم نہیں ہوتا تو انسان کے پاس خدا کو جاننے کا کوئی طریقہ نہ ہوتا؛ یہ صرف مجسم خدا کی وجہ سے ہے کہ انسان جسمانی طور پر خدا کا مقرب ہونے کا اہل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا انسان کی تلاش رائیگاں نہ جاتی؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب خدا کے کام کی وجہ سے نہیں ہے کہ انسان خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے، بلکہ یہ مجسم خدا کی حقیقت اور عام حالت میں ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ خدا جسم بن جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اپنا فرض ادا کرنے اور حقیقی خدا کی عبادت کرنے کا موقع ملے۔ کیا یہ سب سے بڑی حقیقی اور عملی صداقت نہیں ہے؟ اب، کیا تو اب بھی جنت میں خدا کا مقرب بننے کا خواہاں ہے؟ صرف اس صورت میں جب خُدا ایک خاص مقام تک اپنی عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب خُدا جسم بن جاتا ہے، اسی وقت انسان اُس کا مقرب اور معتمد ہو سکتا ہے۔ خُدا رُوح کا ہے: لوگ اِس رُوح کا مقرب ہونے کے اہل کیسے ہیں، جو اِس قدر عظیم اور ناقابلِ فہم ہے؟ صرف اس وقت جب خُدا کی روح جسم میں اُترتی ہے، اور انسان جیسی ظاہری مخلوق بن جاتی ہے، لوگ اُس کی مرضی کو سمجھ سکتے ہیں اور حقیقتاً اُس کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ جسم میں بولتا اور کام کرتا ہے، بنی نوع انسان کی خوشیوں، غموں اور آلام میں شریک ہوتا ہے، انسانوں کی طرح اسی دنیا میں رہتا ہے، بنی نوع انسان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی راہنمائی کرتا ہے، اور اس کے ذریعے وہ لوگوں کو پاک کرتا ہے اور انھیں اپنی نجات اور اپنا فیض حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ان چیزوں کو حاصل کرنے کے بعد ہی، لوگ صحیح معنوں میں خدا کی مرضی کو سمجھ پاتے ہیں، اور تب ہی وہ خدا کے مقرب بن سکتے ہیں۔ صرف یہی عملی طریقہ ہے۔ اگر خدا لوگوں کے لیے غیرمرئی اور غیرمحسوس ہوتا تو وہ اس کے مقرب کیسے ہو سکتے تھے؟ کیا یہ بے معنی نظریہ نہیں ہے؟
اب تک خدا پر یقین رکھنے کے بعد، بہت سے لوگ اب بھی مبہم اور تصوراتی چیزوں کی جستجو کرتے ہیں۔ انھیں آج خدا کے کام کی حقیقت کی کوئی سمجھ نہیں ہے، اور وہ اب بھی حروف و نظریات میں پڑے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، بیشتر لوگوں کو ابھی نئے فقروں کی حقیقت میں داخل ہونا ہے جیسے کہ "خدا سے محبت کرنے والوں کی نئی نسل"، "خدا کا مقرب"، "خدا سے محبت کرنے کا نمونہ اور مثالی" اور "پطرس کا انداز"; اس کی بجائے، ان کی جستجو اب بھی مبہم اور تصوراتی ہے، وہ اب بھی عقیدے کے جنگل میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، اور ان کو ان الفاظ کی حقیقت کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ جب خُدا کی روح جسم بن جاتی ہے، تو تُو جسم میں اُس کے کام کو دیکھ اور چھو سکتا ہے۔ پھر بھی اگر تو اب بھی اس کے مقرب بننے کے قابل نہیں ہے، اگر تو اب بھی اس کا معتمد خاص نہیں بن سکتا تو پھر تو خدا کی روح کا معتمد کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر تو آج کے خدا کو نہیں جانتا تو تُو خدا سے محبت کرنے والوں کی نئی نسل میں سے کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ فقرے کھوکھلے حروف اور عقائد نہیں ہیں؟ کیا تو روح کو دیکھنے اور اس کی مرضی کو سمجھنے کے قابل ہے؟ کیا یہ جملے کھوکھلے نہیں ہیں؟ تیرے لیے صرف ان جملوں اور اصطلاحات کو ادا کرنا کافی نہیں ہے اور نہ ہی تو صرف عزم کے ذریعے خدا کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ تو صرف ان الفاظ کو ادا کرنے سے مطمئن ہے، اور تو ایسا اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے، اپنے غیر حقیقی نظریات کی تسکین کے لیے، اور اپنے خیالات اور سوچ کی تسکین کے لیے کرتا ہے۔ اگر تو آج کے خدا کو نہیں جانتا تو تُو جو کچھ بھی کرتا ہے اس سے قطع نظر، تو خدا کی دلی خواہش پوری کرنے سے قاصر ہے۔ خدا کا معتمد ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا تمہیں اب بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ چونکہ خدا کا مقرب انسان ہے اس لیے خدا بھی انسان ہے۔ یعنی خدا جسم بن گیا ہے، اور انسان بن گیا ہے۔ صرف وہی لوگ جو ایک ہی طرح کے ہوں ایک دوسرے کو ہمراز کہہ سکتے ہیں، تب ہی انھیں مقرب سمجھا جائے گا۔ اگر خُدا رُوح سے ہوتا تو تخلیق شدہ اِنسان اس کا مقرب کیسے بن سکتا تھا؟
خدا پر تیرا یقین، سچائی کی تیری تلاش، اور یہاں تک کہ تیرا طرز عمل بھی حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے: تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ عملی ہونا چاہیے، اور تمہیں ایسی چیزوں کی جستجو نہیں کرنی چاہیے جو وہمی اور خیالی ہوں۔ اس طرح کے رویے کی کوئی قیمت نہیں ہے، اور مزید برآں، ایسی زندگی کا کوئی مطلب بھی نہیں ہے۔ کیونکہ تیری جستجو اور زندگی محض جھوٹ اور فریب کے علاوہ کسی اور چیز میں نہیں صَرف ہو رہی ہے اور چونکہ تو ان چیزوں کی جستجو نہیں کرتا جن کی قدر و اہمیت ہے، اس لیے تجھے صرف مضحکہ خیز استدلال اور عقائد حاصل ہوتے ہیں جو سچ پر مبنی نہیں ہیں۔ اس طرح کی چیزیں تیرے وجود کی اہمیت اور قدر سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ہیں، اور صرف تجھے ایک کھوکھلی مملکت میں لا سکتی ہیں۔ اس طرح تیری پوری زندگی کسی قدر یا معنی کے بغیر رہے گی – اور اگر تو بامعنی زندگی کی جستجو نہیں کرتا تو تُو خواہ سو سال زندہ رہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسے انسانی زندگی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ درحقیقت کسی جانور کی زندگی نہیں ہے؟ اسی طرح اگر تم خدا پر یقین کے طریقے پر چلنے کی کوشش کرتے ہو، پھر بھی نظر آنے والے خدا کی جستجو کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس کی بجائے ایک غیر مرئی اور غیر محسوس خدا کی عبادت کرتے ہو، تو کیا اس طرح کی جستجو اور زیادہ فضول نہیں ہے؟ بالآخر، تمہاری جستجو کھنڈرات کا ڈھیر بن جائے گی۔ تیرے لیے اس طرح کی جستجو کا کیا فائدہ؟ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف ان چیزوں سے محبت کرتا ہے جنہیں وہ نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی چھو سکتا ہے، ایسی چیزیں جو انتہائی پراسرار اور حیرت انگیز ہیں اور جو انسان کے لیے ناقابل تصور ہیں اور فانی انسانوں کے لیے ناقابلِ حصول ہیں۔ یہ چیزیں جتنی زیادہ غیر حقیقی ہوتی ہیں، لوگ اتنا ہی زیادہ ان کا تجزیہ کرتے ہیں، اور لوگ دیگر چیزوں سے بے پروا ہو کر ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں، اور انھیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جتنی زیادہ غیر حقیقت پسند ہیں، لوگ اتنی ہی باریک بینی سے ان کی جانچ اور تجزیہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے بارے میں اپنے جامع خیالات تشکیل کر لیتے ہیں۔ اس کے برعکس، چیزیں جتنی زیادہ حقیقت پسندانہ ہوتی ہیں، لوگ انھیں اتنی ہی زیادہ ناقابل توجہ سمجھتے ہیں۔ وہ خود کو ان سے برتر سمجھتے ہیں، اور یہاں تک کہ بعض اوقات ان کو حقارت سے بھی دیکھتے ہیں۔ آج میں جو حقیقت پسندانہ کام کرتا ہوں اس کے بارے میں تمہارا رویہ کیا بالکل ٹھیک یہی نہیں ہے؟ ایسی چیزیں جتنی زیادہ حقیقت پسندانہ ہوتی ہیں، ان کی بابت تمہارا رویہ اتنا ہی متعصبانہ ہوتا ہے۔ ان کا معائنہ کرنے کے لیے تمہارے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا، بلکہ تم انھیں نظر انداز کر دیتے ہو؛ تم ان حقیقت پسندانہ، پست معیار کے تقاضوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور یہاں تک کہ اس خدا کے بارے میں بہت سے تصورات پالنے لگتے ہو جو سب سے زیادہ حقیقی ہے، اور تم اس کی حقیقت اور طبیعی حالت کو قبول کرنے سے قاصر ہو۔ اس طرح، کیا تمہارا عقیدہ مبہم نہیں ہے؟ تم ماضی کے مبہم خدا پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہو، اور آج کے حقیقی خدا میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیا یہ اس لیے نہیں ہے کہ کل کا خدا اور آج کا خدا دونوں دو مختلف ادوار سے ہیں؟ کیا یہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ کل کا خدا آسمان کا عالی مقام خدا ہے جبکہ آج کا خدا زمین پر ایک چھوٹا سا انسان ہے؟ کیا یہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ انسان جس خدا کی پرستش کرتا ہے وہ اس کے اپنے تصورات کی تخلیق ہے، جبکہ آج کا خدا زمین پر پیدا ہونے والا حقیقی جسم کا ہے؟ تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا یہ اس لیے نہیں ہے کہ آج کا خدا اتنا حقیقی ہے کہ انسان اس کی جستجو ہی نہیں کرتا؟ کیونکہ آج کا خدا لوگوں سے جو کچھ تقاضا کرتا ہے وہ بالکل وہی ہے جسے کرنے کے لیے لوگ تیار نہیں ہیں، اور جس کی وجہ سے وہ شرمندہ ہیں۔ کیا یہ لوگوں کے لیے اور مشکلیں نہیں کھڑی کر رہا ہے؟ کیا اس سے لوگوں کے داغ نمایاں نہیں ہوتے؟ اس طرح، بہت سے لوگ حقیقی خدا، عملی خدا کی جستجو نہیں کرتے، اور اس طرح وہ مجسم خدا کے دشمن بن جاتے ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دجال بن جاتے ہیں۔ کیا یہ ایک واضح حقیقت نہیں ہے؟ ماضی میں، جب خدا کو ابھی مجسم ہونا تھا، ممکن ہے تو ایک مذہبی شخصیت، یا ایک متقی مومن رہا ہو۔ خُدا کے جسم بننے کے بعد، ایسے بہت سے متقی ہیں جو انجانے میں دجال بن گئے۔ کیا تو جانتا ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ خدا پر اپنے ایقان میں، تو حقیقت پر توجہ نہیں دیتا اور نہ ہی سچائی کی جستجو کرتا ہے، بلکہ اس کی بجائے تیرے دل پر باطل مسلط ہو جاتا ہے – کیا یہ مجسم خدا سے تیری دشمنی کا واضح ترین منبع نہیں ہے؟ مجسم خدا کو مسیح کہا جاتا ہے، تو کیا وہ تمام لوگ جو مجسم خدا کو نہیں مانتے وہ مسیح مخالف نہیں ہیں؟ اسی طرح یہ وہ مجسم خدا ہے جس پر تو واقعی ایمان رکھتا ہے اور اس سے پیار کرتا ہے؟ کیا واقعی یہ زندہ، سانس لینے والا خدا ہے جو انتہائی حقیقی اور غیر معمولی طور پر معمول کے مطابق ہے؟ تیری جستجو کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا یہ آسمان پر ہے یا زمین پر؟ کیا یہ تصور ہے یا حقیقت؟ کیا یہ خدا ہے یا کوئی مافوق الفطرت مخلوق ہے؟ درحقیقت، زندگی کے زریں مقولوں میں سے سچائی سب سے زیادہ حقیقی ہے، اور تمام بنی نوع انسان کے درمیان پر مغز قولوں میں اعلیٰ ترین ہے۔ کیونکہ یہ وہ مطالبہ ہے جو خدا انسان سے کرتا ہے، اور خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کیا جانے والا کام ہے۔اس لیے اسے "زندگی کا مقولہ" کہا جاتا ہے۔ یہ کسی چیز سے اخذ کیا گیا مقولہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی عظیم شخصیت کا مشہور قول ہے۔ اس کی بجائے، یہ آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کے مالک کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے کلام ہے؛ یہ چند الفاظ نہیں ہیں جن کا خلاصہ انسان نے کیا ہے، بلکہ خدا کی جبلی زندگی ہے۔ اور اسی لیے اسے "زندگی کے تمام مقولوں میں اعلیٰ ترین" کہا جاتا ہے۔ سچائی کو عملی جامہ پہنانے کی لوگوں کی جستجو ان کے فرض کی انجام دہی ہے – یعنی یہ خدا کے مطالبے کو پورا کرنے کی جستجو ہے۔ اس مطالبے کا جوہر تمام سچائیوں میں سب سے زیادہ حقیقی ہے، ایک کھوکھلے عقیدے کے بر عکس جو کسی انسان کے لیے قابل حصول نہیں۔ اگر تیری جستجو صرف ایک نظریے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے تو کیا تو حق کے خلاف بغاوت نہیں کر رہا؟ کیا تم سچ پر حملہ کرنے والوں میں سے نہیں ہو؟ ایسا شخص وہ کیسے ہو سکتا ہے جو خدا سے محبت کرنے کی کوشش کرے؟ وہ لوگ جو حقیقت سے عاری ہیں وہی سچائی سے خیانت کرتے ہیں، اور وہ سب جبلی طور پر باغی ہیں!
اس بات سے قطع نظر کہ تو جستجو کیسے کرتا ہے، تمام دیگر اشیا کے علاوہ، تجھے بہر صورت یہ سمجھنا چاہیے جو خدا آج کر رہا ہے، اور تجھے لازماً اس کام کی اہمیت کو جاننا چاہیے۔ تجھے لازماً یہ سمجھنا اور جاننا چاہیے کہ جب خدا آخری ایام میں آئے گا تو وہ کیا کام لائے گا، وہ کیا مزاج لائے گا، اور انسان میں کیا مکمل کرے گا۔ اگر تو اس کام کو نہیں جانتا یا نہیں سمجھتا جو وہ جسم میں کرنے آیا ہے، تو تُو اس کی منشا کو کیسے سمجھ سکتا ہے، اور تو خدا کا مقرب کیسے بن سکتا ہے؟ درحقیقت، خدا کا مقرب ہونا کوئی پیچیدہ عمل نہیں ہے، لیکن یہ آسان بھی نہیں ہے۔ اگر لوگ اسے اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر عمل کریں تو یہ غیر پیچیدہ ہو جاتا ہے؛ اگر لوگ اسے اچھی طرح سے نہ سمجھ سکیں تو یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے، اور اس کے علاوہ، ان کے اوپر یہ خطرہ منڈلانے لگتا ہے کہ ان کی جستجو انھیں ابہام کی طرف نہ لے کر چلی جائے۔ اگر خدا کی جستجو میں لوگوں کے پاس قائم رہنے کے لیے اپنا کوئی موقف نہیں ہے اور وہ یہ نہیں جانتے کہ کس سچائی کو پکڑے رہنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے، اس وجہ سے ان کے لیے ثابت قدم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آج بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سچائی کو نہیں سمجھتے، جو اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتے یا بتا نہیں سکتے کہ کس سے محبت کرنی ہے اور کس سے نفرت۔ ایسے لوگ مشکل سے ثابت قدم رہ سکتے ہیں۔ خُدا پر یقین کی کلید سچائی کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہونا، خُدا کی مرضی کا خیال رکھنا، انسان پر خُدا کے کام کو جاننا جب وہ جسم میں آتا ہے، اور اُن اصولوں کو جاننا ہے جن کے تحت وہ بولتا ہے۔ عوام کی پیروی نہ کرو۔ تمہیں جس چیز میں داخل ہونا ہے اس میں تمہارے اصول ہونے چاہییں، اور تمہیں لازماً ان پر قائم رہنا چاہیے۔ تجھے اپنے اندر ان چیزوں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہو گا جو خدا کی روشن خیالی سے لائی گئی ہیں، وہ تیرے لیے مددگار ثابت ہوں گی۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے ہو، تو آج تم ایک طرف پلٹو گے، اور کل دوسری طرف، اور تمہیں کبھی بھی کوئی حقیقی شے حاصل نہیں ہو گی۔ اس طرح بننے سے تیری اپنی زندگی کو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔ جو لوگ سچائی کو نہیں سمجھتے وہ ہمیشہ دوسروں کی پیروی کرتے ہیں: اگر لوگ کہتے ہیں کہ یہ روح القدس کا کام ہے، تو تُو بھی کہتا ہے کہ ہاں یہ روح القدس کا کام ہے؛ اگر لوگ کہتے ہیں کہ یہ کسی بد روح کا کام ہے تو تُو بھی شک میں مبتلا ہو جاتا ہے اور تو بھی کہتا ہے کہ کہیں یہ بد روح کا ہی کام نہ ہو۔ تم ہمیشہ دوسروں کے الفاظ کو طوطے کی دہراتے ہو اور خود کسی چیز کی تمیز کرنے سے قاصر رہتے ہو، اور نہ ہی خود کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوتے ہو۔ ایسا شخص وہ ہوتا ہے جس کا اپنا کوئی موقف نہیں ہوتا، جو فرق کرنے سے قاصر ہوتا ہے – ایسا شخص ایک ناکارہ بدبخت ہوتا ہے! تُو ہمیشہ دوسروں کے الفاظ دہراتا ہے: آج یہ کہا جاتا ہے کہ یہ روح القدس کا کام ہے، لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ایک دن کوئی کہے گا کہ یہ روح القدس کا کام نہیں ہے، اور درحقیقت یہ انسان کے افعال کے سوا کچھ نہیں ہے – پھر بھی تو اس کا امتیاز نہیں کر سکتا، اور جب تو یہ دیکھتا ہے کہ یہ دوسروں نے کہا ہے، تو تو بھی یہی چیز کہتا ہے۔ یہ دراصل روح القدس کا کام ہے، لیکن تو کہتا ہے کہ یہ انسان کا کام ہے؛ کیا تو ان لوگوں میں سے ایک نہیں ہو چکا جو روح القدس کے کام کے خلاف کفر بکتے ہیں؟ کیا تو نے، اس میں، خدا کی مخالفت نہیں کی کیونکہ تو فرق نہیں کر سکتا؟ شاید ایک دن کوئی احمق اٹھے اور یہ کہنا شروع کر دے کہ "یہ کسی بد روح کا کام ہے" اور جب تُو یہ الفاظ سنے گا تو تو خسارے میں پڑ جائے گا اور ایک بار پھر تو دوسروں کے الفاظ کا اسیر ہو جائے گا۔ جب بھی کوئی خلل ڈالتا ہے، تو تُو اپنے موقف پر قائم رہنے کے قابل نہیں ہوتا، اور اس کا سبب یہ ہے کہ تیرے پاس سچائی نہیں ہے۔ خدا پر یقین کرنا اور خدا کو جاننے کی جستجو کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں محض ایک جگہ جمع ہونے اور منادی سننے سے حاصل نہیں کی جا سکتیں، اور تو صرف جذبے سے کامل نہیں بن سکتا۔ تجھے تجربہ ہونا چاہیے، جاننا چاہیے، اور اپنے اعمال میں اصولی ہونا چاہیے، اور روح القدس کا کام حاصل کرنا چاہیے۔ جب تو تجربات سے گزرے گا، تو تو بہت سی چیزوں کو پہچان سکے گا – تو نیکی اور بدی کے درمیان، راست بازی اور خباثت کے درمیان، جو چیزیں گوشت اور خون کی ہیں ان کے درمیان اور جو سچائی پر مبنی ہے، کے درمیان فرق کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ تجھے ان تمام چیزوں کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل ہونا چاہیے، اور ایسا کرنے میں، حالات خواہ کچھ بھی ہوں، تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گا۔ صرف یہی تیرا اصل مقام ہے۔
خدا کے کام کو جاننا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تمھاری جستجو کا کوئی معیار اور مقصد ہونا چاہیے، تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ سچے طریقے کی تلاش کیسے کی جاتی ہے، یہ کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ سچا طریقہ ہے یا نہیں، نیز آیا یہ خدا کا کام ہے یا نہیں۔ سچے طریقے کی تلاش کا سب سے بنیادی اصول کیا ہے؟ تمھیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا اس میں روح القدس کا کوئی عمل دخل ہے یا نہیں، آیا یہ الفاظ صداقت کا اظہار ہیں یا نہیں، کس کی گواہی دی گئی ہے، اور اس کا ماحصل کیا ہو سکتا ہے۔ صحیح طریقے اور غلط طریقے کے درمیان فرق کرنے کے لیے بنیادی علم کے کئی پہلوؤں کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں سب سے بنیادی بات یہ بتانا ہے کہ آیا اس میں روح القدس کا کام موجود ہے یا نہیں کیونکہ خدا پر لوگوں کے ایمان کا جوہر ہی خدا کی روح پر ایمان ہے اور یہاں تک کہ ان کا مجسم خدا پر ایمان بھی اس لیے ہے کہ یہ جسم خدا کی روح کی تجسیم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کا ایمان اب بھی روح پر ایمان ہے۔ روح اور جسم کے درمیان فرق ہے، لیکن چونکہ یہ جسم روح سے آتا ہے اور کلام جسم بن جاتا ہے، پس انسان جس چیز پر یقین رکھتا ہے وہ اب بھی خدا کا جبلی جوہر ہے۔ لہذا، یہ تمیز کرنے میں کہ آیا یہ سچا طریقہ ہے یا نہیں، سب سے بڑھ کر تمہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس میں روح القدس کا کام ہے یا نہیں، اس کے بعد تمہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا اس طریقے میں سچائی ہے یا نہیں۔ سچائی عام بنی نوع انسان کی زندگی کا مزاج ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب خدا نے ابتدا میں انسان کو یعنی اپنی عمومیت میں عام بنی نوع انسان (بشمول انسانی حس، بصیرت، حکمت، اور انسانی ہونے کی بنیادی معرفت) کو پیدا کیا تو اس وقت یہ اسکو مطلوب تھا۔ یعنی تمہیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ طریقہ لوگوں کو عام بنی نوع انسان کی زندگی کی طرف لے جا سکتا ہے یا نہیں، جو سچ بولا جاتا ہے وہ عام بنی نوع انسان کی حقیقت کے مطابق مطلوب ہے یا نہیں، آیا یہ سچائی عملی اور حقیقی ہے یا نہیں، اور یہ بہت ہی زیادہ بروقت ہے یا نہیں. اگر سچائی ہے، تو یہ لوگوں کو عام اور حقیقی تجربات کی طرف لے جانے کی اہل ہے؛ مزید برآں، لوگ اور زیادہ عمومی ہو جاتے ہیں، ان کی انسانی حس پہلے سے زیادہ مکمل ہو جاتی ہے، ان کی جسمانی زندگی اور روحانی زندگی پہلے سے زیادہ منظم ہو جاتی ہے اور ان کے جذبات پہلے سے زیادہ عمومی ہو جاتے ہیں۔ یہ دوسرا اصول ہے۔ ایک اور اصول بھی ہے، وہ یہ کہ آیا لوگوں کا خدا کے بارے میں علم بڑھتا ہے یا نہیں اور آیا اس طرح کے کام اور سچائی کا تجربہ ان کے اندر خدا کی محبت پیدا کر سکتا ہے اور انھیں خدا کے قریب لا سکتا ہے یا نہیں۔ اس طرح ہی یہ جانچا جا سکتا ہے کہ آیا یہ طریقہ صحیح ہے یا نہیں۔ نہایت بنیادی بات یہ ہے کہ آیا یہ طریقہ مافوق الفطرت کے بجائے حقیقت پسندانہ ہے، اور آیا یہ انسان کی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ اگر یہ ان اصولوں کے مطابق ہو تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہی سچا طریقہ ہے۔ میں یہ الفاظ اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم مستقبل کے تجربات میں دوسرے طریقوں کو قبول نہ کرو، اور نہ ہی پیشین گوئی کے طور پر کہہ رہا ہوں کہ مستقبل میں ایک اور نئے دور کا کام ہو گا۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ تمہیں یقین ہو جائے کہ آج کا طریقہ ہی سچا طریقہ ہے، تاکہ تمہیں آج کے کام کے بارے جزوی طور پر یقین نہ ہو اور اس طرح تم اس کی اندرونی بصیرت حاصل نہ کر پاؤ۔ یہاں تک کہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو یقینی ہونے کے باوجود پھر بھی الجھن میں پڑ جاتے ہیں؛ اس طرح کے یقین کا کوئی اصول نہیں ہے، اور ایسے لوگوں کو جلد یا بدیر نکال باہر کر دینا چاہیے۔ یہاں تک کہ جو اپنی پیروی میں خاص طور پر پرجوش ہیں ان کے تین حصے یقینی اور پانچ حصے غیر یقینی ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ چونکہ تمہاری استعداد بہت ناقص اور تمہاری بنیاد بہت کھوکھلی ہے اس لیے تمہیں امتیاز کرنے کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ خدا اپنا کام نہیں دہراتا، وہ ایسا کام نہیں کرتا جو حقیقت پسندانہ نہ ہو، وہ انسان سے بہت زیادہ تقاضے نہیں کرتا، اور وہ ایسا کام نہیں کرتا جو انسان کی فہم و فراست سے ماورا ہو۔ وہ جو بھی کام کرتا ہے وہ انسان کے معمول کے دائرہ فہم میں ہوتا ہے، اور عام نوع انسانی کی قوت فہم سے زیادہ نہیں ہوتا، اور اس کا کام انسان کے معمول کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر یہ روح القدس کا کام ہے، تو لوگ پہلے سے زیادہ روایتی ہو جاتے ہیں، اور ان کی انسانیت پہلے سے زیادہ روایتی ہو جاتی ہے۔ لوگ اپنے شیطانی بدعنوان مزاج اور انسان کے مادے کے بارے میں ترقی پذیر علم حاصل کرتے ہیں، اور وہ سچائی کے لیے ایک بہت بڑی خواہش بھی حاصل کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی پروان چڑھتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے اور انسان کا بدعنوان مزاج زیادہ سے زیادہ تبدیلی کے قابل ہوتا جاتا ہے – ان سب کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کی زندگی بن جائے۔ اگر کوئی طریقہ ان چیزوں کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے جو انسان کا مادّہ ہیں، تو وہ انسان کے مزاج کو بدلنے سے بھی قاصر ہے، اور اس کے علاوہ، لوگوں کو خدا کے سامنے لانے یا انھیں خدا کی صحیح معرفت دینے سے بھی قاصر ہے، اور یہاں تک کہ ان کے بنی نوع انسان ہونے کو پہلے سے زیادہ پست اور ان کے شعور کو مزید غیر طبعی بنا دیتا ہے، تو پھر یہ طریقہ لازماً سچا طریقہ نہیں ہونا چاہیے، اور یہ کسی بد روح کا کام یا کوئی پرانا طریقہ ہو سکتا ہے۔ مختصراً یہ کہ یہ روح القدس کا موجودہ کام نہیں ہو سکتا۔ تم اتنے برسوں سے خدا پر ایمان لائے ہو، پھر بھی تم کو سچے طریقے اور جھوٹے طریقے میں فرق کرنے یا سچا طریقہ تلاش کرنے کے اصولوں کا کوئی علم نہیں ہے۔ اکثر لوگ ان معاملات میں دلچسپی بھی نہیں رکھتے؛ وہ محض اسی طرف جاتے ہیں جہاں اکثریت جاتی ہے، اور وہی دہراتے ہیں جو اکثریت کہتی ہے۔ یہ کیسا شخص ہے جو سچے طریقے کا طالب ہے؟ اور ایسے لوگ سچا طریقہ کیسے پا سکتے ہیں؟ اگر تم ان کئی ایک کلیدی اصولوں کو سمجھ لو، تو پھر جو کچھ بھی ہو جائے، تم دھوکہ نہیں کھاؤ گے۔ آج، یہ بہت ضروری ہے کہ لوگ امتیاز کرنے کے قابل ہوں؛ عام بنی نوع انسان میں یہ صفت ہونی چاہیے، اور لوگوں کو اپنے تجربے میں ان خوبیوں سے لیس ہونا چاہیے۔ اگر آج بھی لوگ اتباع کے عمل میں کچھ بھی تمیز نہیں کرتے اور اگر ان کی انسانی عقل اب بھی بالغ نہیں ہوئی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بہت ہی بے وقوف ہیں اور ان کی جستجو غلط اور منحرف شدہ ہے۔ آج تمہاری جستجو میں امتیاز کا شائبہ تک نہیں ہے، اور جب کہ یہ سچ ہے، جیسا کہ تو کہتا ہے، کہ تجھے سچا طریقہ مل گیا ہے، تو کیا تو نے اسے حاصل کر لیا ہے؟ کیا تو کچھ امتیاز کرنے کے قابل ہو گیا ہے؟ سچے طریقے کا جوہر کیا ہے؟ سچے طریقے میں، تو نے سچا طریقہ حاصل نہیں کیا؛ تو نے سچائی سے کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے، کہ تو نے وہ حاصل نہیں کیا جو خدا تجھ سے چاہتا ہے، اور اس طرح تیری بدعنوانی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اگر تم اسی طرح جستجو جاری رکھو گے تو بالآخر تم کو باہر نکال دیا جائے گا۔ آج تک اس پر عمل کرنے کے بعد، تجھے یقین ہونا چاہیے کہ تو نے جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہی سچا طریقہ ہے، اور تجھے مزید کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سے لوگ ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہتے ہیں اور کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے سچائی کی جستجو کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا کے کام کا علم نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تذبذب میں خدا کی پیروی کرتے ہیں۔ جو لوگ خدا کے کام کو نہیں جانتے وہ اس کے مقرب ہونے، یا اس کی گواہی دینے کے قابل نہیں ہیں۔ میں ان لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں جو صرف فیوض و برکات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور صرف مبہم اور تصوراتی چیز کی جستجو کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد سچائی کی پیروی کر پائیں، تاکہ ان کی زندگی بامعنی ہو سکے۔ خود کو مزید بیوقوف نہ بناؤ!